https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Monday 10 June 2024

بدفالی کااسلام سے کوئی تعلق نہیں

 کائنات کی تمام چیزوں میں تصرف کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے، اور اس کی مرضی کے بغیر کسی کو نہ کوئی خیر پہنچ سکتی ہے اور نہ ہی شر، لہذا اس قسم کے توہمات رکھنا شرعاً درست نہیں،  رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے توہمات و بد فالی  لینے  کی سختی سے تردید فرمائی ہے،  لہذا ان توہمات سے اپنے ذہنوں کو صاف کرنا اور اللہ پر کامل بھروسہ رکھتے ہوئے ان توہمات کی تردید کرنا ضروری ہے۔

شیطان اس طرح کے توہمات وبدعقیدگی ذہن میں ڈال کر اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان کم زور کرتاہے،  ایسا عقیدہ و توہم پرستی ناجائز ہے، سائلہ کا خیال اور عقیدہ درست ہے، اگر وہ اس گھر میں مجبوری کی وجہ سے دال نہیں پیس سکتی یا اچار نہیں ڈال سکتی تو اسے چاہیے کہ اپنے درست عقیدے پر ثابت قدم رہے، اس صورت میں امید ہے کہ اسے گناہ نہیں ہوگا۔ نیز اسے چاہیے کہ حکمت و تدبیر کے ساتھ گھر والوں کے اس باطل و بے حقیقت توہم کی اصلاح کی کوشش کرتی رہے۔جو اس طرح کا عقیدہ رکھے اور بدشگونی کا شکار ہو وہ ایمانی کم زوری کی وجہ سے قابلِ مؤاخذہ ہوگا

اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ اس ارشاد گرامی کے ذریعہ دراصل امت کے لوگوں کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اگر کسی کے پاس ایسا مکان ہو جس میں رہناوہ ناپسند کرتا ہو، یاکسی کی ایسی بیوی ہو جس کے ساتھ صحبت و مباشرت اسے ناگوار ہو، یا کسی کے پاس ایسا گھوڑا ہو جو اسے اچھا معلوم نہ ہوتا ہو تو ان صورتوں میں یہ چیزیں چھوڑ دینی چاہئیں، یعنی مکان والا اس مکان سے منتقل ہو جائے بیوی والا اس کو طلاق دیدے اور گھوڑے والا اس گھوڑے کو بیچ ڈالے۔

حدیث کی ان توضیحات کی روشنی میں یہ بات صاف ہوگئی کہ یہ ارشاد گرامی" الطیرة منهى عنها" (بدشگونی لینے کی ممانعت) کے منافی نہیں ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ عام طور پر لوگ جو یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ مکان منحوس ہے یا فلاں عورت یا فلاں گھوڑا سبزقدم(باعث نحوست،منحوس) ہے، تویہ بات یہاں مراد نہیں ہے۔

(مظاہرحق ،کتاب النکاح،الفصل الاول،ج:3،ص:246-247،ط:دارالاشاعت کراچی)

ارشادباری تعالیٰ ہے:

"وَیَسْتَجِیْبُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ یَزِیْدُهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖؕ وَ الْكٰفِرُوْنَ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ(26) وَ لَوْ بَسَطَ اللّٰهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهٖ لَبَغَوْا فِی الْاَرْضِ وَ لٰكِنْ یُّنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا یَشَآءُؕ-اِنَّهٗ بِعِبَادِهٖ خَبِیْرٌۢ بَصِیْرٌ(27)"

ترجمہ:اور ان لوگوں کی عبادت قبول کرتا ہے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے اور ان کو اپنے فضل سے اور زیادہ (ثواب) دیتا ہے اور جو لوگ کفر کر رہے ہیں انکے لیے سخت عذاب ہے،اور اگر اللہ تعالیٰ نے اپنے سب بندوں کے لیے روزی فراخ کردیتاتو وہ دنیا میں شرارت کرنے لگتے  لیکن جتنا رزق چاہتا ہے انداز (مناسب) سے (ہر ایک کے لیے) اتارتا ہے۔ وہ اپنے بندوں (کے مصالح) کو جاننے والا (اور ان کا حال) دیکھنے والا ہے۔

(تفسیربیان القرآن ،ج؛3،ص:351،ط:رحمانیہ

No comments:

Post a Comment