https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Monday 22 July 2024

وکیل صدقہ کی رقم خود استعمال کرسکتا ہے کہ نہیں

 وکیل بالصدقہ اور وکیل بالزکاۃ کے لیے  صدقہ یا زکاۃ کا مال  اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے اگرچہ وہ زکاۃ  کا مستحق ہو،  لہذا مذکورہ مال قبضہ میں لینے کے بعد بھی وکیل اس کا مالک نہیں بنے گا، بلکہ اس کے ہاتھ میں یہ مال امانت رہے گا   جسے موکل کی ہدایت کے مطابق صرف کرنا لازم ہوگا، تاہم اگر موکل نے وکیل کو  مکمل اختیار دے دیا ہو اور کہہ دیا ہو کہ "جو چاہے کرو، جسے چاہے دو" اس صورت میں اگر وکیل زکاۃ کا مستحق ہو تو اپنے استعمال میں لا سکتا ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میںاگر آپ کو  موکل نے مکمل اختیار نہ دیا ہو، بلکہ فلاں مدرسے میں دینے کا کہا ہو تو آپ کے لیے یہ صدقہ کا مال خود استعمال کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ اسی مدرسہ کے دیگر طلبہ کو دینا لازم ہوگا۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (2 / 227):

"وَلِلْوَكِيلِ بِدَفْعِ الزَّكَاةِ أَنْ يَدْفَعَهَا إلَى وَلَدِ نَفْسِهِ كَبِيرًا كان أو صَغِيرًا وَإِلَى امْرَأَتِهِ إذَا كَانُوا مَحَاوِيجَ وَلَا يَجُوزُ أَنْ يُمْسِكَ لِنَفْسِهِ شيأ اه  إلَّا إذَا قال ضَعْهَا حَيْثُ شِئْتَ فَلَهُ أَنْ يُمْسِكَهَا لِنَفْسِهِ كَذَا في الْوَلْوَالِجيَّةِِ".

فتاوی شامی میں ہے:

"ولو خلط زكاة موكليه ضمن وكان متبرعًا إلا إذا وكله الفقراء وللوكيل أن يدفع لولده الفقير وزوجته لا لنفسه إلا إذا قال: ربها ضعها حيث شئت.

(قوله: إذا وكله الفقراء)؛ لأنه كلما قبض شيئًا ملكوه وصار خالطًا مالهم بعضه ببعض ووقع زكاة عن الدافع".

(2/ 269، کتاب الزکوٰۃ، ط: سعید)

No comments:

Post a Comment