https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Thursday 11 July 2024

والدہ کے مطالبہ پر بیوی کو طلاق دینا

 والدہ کا بہو کو طلاق دینے کا مطالبہ کسی شرعی عذر کے  بغیر ہے، تو  سائل کا اپنی بیوی کوطلاق دینا اور اسے چھوڑنا اس کی حق تلفی ہے، لہٰذا سائل کو چاہیے کہ اپنی بیوی کو طلاق نہ دے اور والدین کے حقوق کی بھی رعایت رکھتے ہوئے زندگی گزارے، بہتر یہ ہے کہ اپنی والدہ، بھائی بہنوں اور بیوی کے درمیان پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کو دور کرے اور ایک ساتھ زندگی گزارے، لیکن اگر ایسا ممکن نہیں تو سائل کے لیے گنجائش ہے کہ وہ  اپنی والدہ اور بہن بھائیوں کے حقوق کی رعایت کرتے ہوئے علیحدہ ہوجائے، بہتر ہے کہ والدہ کو اعتماد میں لے کر ایسا کرے۔ لہذا 

اگر والدین حق پر ہوں تو والدین کی اطاعت واجب ہے، اور اگر بیوی حق پر ہو تو والدین کی اطاعت ظلم ہے۔ اور اسلام جس طرح والدین کی نافرمانی کو برداشت نہیں کرسکتا، اسی طرح ان کے حکم سے کسی پر ظلم کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتا

سنن ابن ماجہ میں ہے:

" حدثنا كثير بن عبيد الحمصي قال: حدثنا محمد بن خالد، عن عبيد الله بن الوليد الوصافي، عن محارب بن دثار، عن عبد الله بن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌أبغض ‌الحلال إلى الله الطلاق»."

(كتاب الطلاق، ج:1، ص:650، ط:دار إحياء الكتب العربية)

حديث شریف میں ہے:

"عن معاذ قال: «أوصاني رسول الله - صلى الله عليه وسلم - بعشر كلمات، قال: " لا تشرك بالله شيئا، وإن قتلت وحرقت، ولا تعقن والديك وإن أمراك أن تخرج من أهلك ومالك، ولا تتركن صلاة مكتوبة متعمدا؛ فإن من ترك صلاة مكتوبة متعمدا فقد برئت منه ذمة الله، ولا تشربن خمرا فإنه رأس كل فاحشة، وإياك والمعصية؛ فإن بالمعصية حل سخط الله، وإياك والفرار من الزحف، وإن هلك الناس، وإذا أصاب الناس موت وأنت فيهم فاثبت، (أنفق على عيالك من طولك، ولا ترفع عنهم عصاك أدبا وأخفهم في الله» ". رواه أحمد."

No comments:

Post a Comment