https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Wednesday 3 November 2021

حدیث کی اقسام اور تعریفات

 حدیث کی تعریف:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق راویوں کے ذریعے سے جو کچھ ہم تک پہنچا ہے، وہ حدیث کہلاتا ہے۔ حدیث کو بعض دفعہ سنت، خبر اور اثر بھی کہا جاتا ہے۔

حدیث کی بنیادی اقسام:​
قولی:
وہ حدیث جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مذکور ہو ۔

فعلی:
وہ حدیث جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل مذکور ہو ۔

تقریری:
وہ حدیث جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی بات پر خاموش رہنا مذکور ہو۔

شمائل نبوی:
وہ احادیث جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عادات و اخلاق یا بدنی اوصاف مذکور ہوں۔ 
(نوٹ: کسی حدیث کی اصل عبارت متن کہلاتی ہے۔ متن سے پہلے، راویوں کے سلسلے کو سندکہتے ہیں۔ سند کا کوئی راوی حذف نہ ہو تو وہمتصل ورنہ منقطع ہوتی ہے)۔

نسبت کے اعتبار سے حدیث کی اقسام:​
قدسی:
اللہ تعالیٰ کا وہ فرمان جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلمنے اللہ تعالیٰ سے روایت کیا ہو، راویوں کے ذریعے سے ہم تک پہنچا ہو اور قرآن مجید میں موجود نہ ہو۔ 

حدیث قدسی کی ایک اور تعریف: حدیث قدسی وہ حدیث ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرمائیں: اللہ تعالى نے فرمایا ہے۔ 


مرفوع:
وہ حدیث جس میں کسی قول، فعل یا تقریر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا گیا ہو۔ 


موقوف:
وہ حدیث جس میں کسی قول، فعل یا تقریر کو صحابی کی طرف منسوب کیا گیا ہو۔ 


مقطوع:
وہ حدیث جس میں کسی قول یا فعل کو تابعی یا تبع تابعی کی طرف منسوب کیا گیا ہو۔ 


راویوں کی تعداد کے اعتبار سے حدیث کی اقسام:​
متواتر:
وہ حدیث جس میں تواتر کی چار شرطیں پائی جائیں: 
(‏‏‏‏ا) اسے راویوں کی بڑی تعداد روایت کرے۔ 
(‏‏‏‏ب) انسانی عقل و عادت ان کے جھوٹا ہونے کو محال سمجھے۔ 
(‏‏‏‏ج) یہ کثرت عہد نبوت سے لے کر صاحب کتاب محدث کے زمانے تک سند کے ہر طبقے میں پائی جائے۔ 
(‏‏‏‏د) حدیث کا تعلق انسانی مشاہدے یا سماعت سے ہو۔ 
نوٹ: راویوں کی جماعت جس نے ایک استاد یا زیادہ اساتذہ سے حدیث کا سماع کیا ہو، طبقہ کہلاتی ہے۔ 


خبر واحد:
وہ حدیث جس میں متواتر حدیث کی شرطیں جمع نہ ہوں۔ 
خبر واحد کی چار قسمیں ہیں: 
➊ مشھور 
➋ مستفیض 
➌ عزیز 
➍ غریب 

مشھور:
وہ حدیث جس کے راویوں کی تعداد ہر طبقے میں دو سے زیادہ ہو مگر یکساں نہ ہو، مثلاً کسی طبقے میں تین، کسی میں چار اور کسی میں پانچ راوی اسے بیان کرتے ہوں۔ 

مشہور حدیث کی ایک اور تعریف: مشہور حدیث: اس حدیث کو کہتے ہیں جسے روایت کرنے والے راوی ہر طبقہ میں کم از کم تین ہوں۔ تین سے زیادہ رواۃ والی حدیث کو بھی مشہور ہی کہتے ہیں جب تک وہ تواتر کی حد کو نہ پہنچے۔ 

تنبیہ: خبر کا مشہور ہونا اس کی صحت کی دلیل نہیں ہے۔ بسا اوقات جھوٹی خبریں بھی مشہور ہوتی ہیں۔ 

تنبیہ ثانی: عام طور پر مشہور روایت ایسی روایت کو سمجھا جاتا ہے جسے اکثر لوگ جانتے ہوں مثلا: علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین جانا پڑے۔ 


مستفیض:
وہ حدیث جس کے راوی ہر طبقے میں دو سے زیادہ اور یکساں تعداد میں ہوں یا سند کے اول و آخر میں ان کی تعداد یکساں ہو۔

عزیز:
وہ حدیث جس کے راوی کسی طبقے میں صرف دو ہوں۔ 


غریب:
وہ حدیث جسے بیان کرنے والا کسی زمانے میں صرف ایک راوی ہو۔ اگر وہ صحابی یا تابعی ہے تو اسے غریب مطلق کہیں گے اور اگر کوئی اور راوی ہے تو اسےغریب نسبی کہیں گے۔ 

نوٹ: مذکورہ بالا اقسام میں سے متواتر حدیث علم الیقین کی حد تک سچی ہوتی ہے۔ باقی اقسام مقبول یا مردود ہو سکتی ہیں۔ 

غريب حديث کی ایک اور تعریف: غريب حديث وہ ہوتی ہے جس کی سند کے کسی طبقہ ميں صرف ايک راوی رہ جائے۔ 

تنبیہ: عموما لوگ غریب روایت کو ضعیف سمجھتے ہيں، جبکہ ايسا نہيں ہے بلکہ غریب روایات صحيح بھی ہوتی ہيں اور ضعیف بھی۔ 


قبول ورَدّ کے اعتبار سے حدیث کی اقسام:​
مقبول:
وہ حدیث جو واجب العمل ہو۔

مردود:
وہ حدیث جو مقبول نہ ہو۔

مقبول حدیث کی اقسام و درجات (‏‏‏‏شرائط قبولیت کے اعتبار سے):​
صحیح لذاتہ:
وہ حدیث جس میں صحت کی پانچ شرطیں پائی جائیں: 
(‏‏‏‏ا) اس کی سند متصل ہو، یعنی ہر راوی نے اسے اپنے استاد سے اخذ کیا ہو۔ 
(‏‏‏‏ب) اس کا ہر راوی عادل ہو، یعنی کبیرہ گناہوں سے بچتا ہو، صغیرہ گناہوں پر اصرار نہ کرتا ہو، شائستہ طبیعت کا مالک اور بااخلاق ہو۔ وہ کامل الضبط ہو، یعنی حدیث کو تحریر یا حافظے کے ذریعے سے کماحقہ محفوظ کرے اور آگے پہنچائے۔ 
(‏‏‏‏و) وہ حدیث شاذ نہ ہو۔ 
(‏‏‏‏ھ) معلول نہ ہو۔ 
‏‏‏‏شاذ اور معلول کی وضاحت آگے آ رہی ہے۔

صحیح لغیرہ:
جب حسن حدیث کی ایک سے زائد سندیں ہوں تو وہ حسن کے درجے سے ترقی کر کے صحیح کے درجے تک پہنچ جاتی ہے۔ اسے صحیح لغیرہ کہتے ہیں کیونکہ وہ اپنے غیر (‏‏‏‏دوسری سندوں) کی وجہ سے درجہ صحت کو پہنچی۔

حسن لذاتہ:
وہ حدیث جس کے بعض راوی صحیح حدیث کے راویوں کی نسبت: «خفيف الضبط» ‏‏‏‏ہلکے ضبط والےہوں، باقی شرطیں وہی ہوں۔

حسن لغیرہ:
وہ حدیث جس کی متعدد سندیں ہوں ہر سند میں معمولی ضعف ہو مگر متعدد سندوں سے اس ضعف کی تلافی ہو جائے تو وہ حسن لغیرہ کے درجہ کو پہنچ جاتی ہے۔

صحیح حدیث کی اقسام و درجات (‏‏‏‏کتب حدیث میں پائے جانے کے اعتبار سے):​
متفق علیہ:
وہ حدیث جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم دونوں میں پائی جائے متفق علیہ کہلاتی ہے اور صحت کے سب سے اعلیٰ درجہ پر ہوتی ہے۔

افراد بخاری:
ہر وہ حدیث جو صحیح بخاری میں پائی جائے، صحیح مسلم میں نہ پائی جائے۔

افراد مسلم:
ہر وہ حدیث جو صحیح مسلم میں پائی جائے، صحیح بخاری میں نہ پائی جائے۔

صحیح علی شرطھما:
وہ حدیث جو صحیح بخاری و صحیح مسلم دونوں میں نہ پائی جائے لیکن دونوں ائمہ کی شرائط کے مطابق صحیح ہو۔

صحیح علی شرط البخاری:
وہ حدیث جو امام بخاری کی شرائط کے مطابق صحیح ہو مگر صحیح بخاری میں موجود نہ ہو۔

صحیح علی شرط مسلم:
وہ حدیث جو امام مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہو مگر صحیح مسلم میں موجود نہ ہو۔

صحیح علی شرط غیرھما:
وہ حدیث جو امام بخاری و امام مسلم کے علاوہ دیگر محدثین کی شرائط کے مطابق صحیح ہو۔

مردود حدیث کی اقسام انقطاع سند کی وجہ سے:​
معلق:
وہ حدیث جس کی سند کا ابتدائی حصہ یا ساری سند ہی (‏‏‏‏عمداً) حذف کر دی گئی ہو۔ 

معلق کی ایک اور تعریف: معلق روايت اسے کہتے ہيں جس ميں مصنف سند کے آغاز سے کچھ راوي ذکر نہ کرے بلکہ سند درميان سے يا آخر سے بيان کرنا شروع کرے يا دوسرے لفظوں ميں جس روايت کي سند کے شروع سے کچھ راويوں کو حذف کر ديا جائے۔ 


مرسل:
وہ حدیث جسے تابعی بلاواسطہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرے۔ 

مرسل کی ایک اور تعریف: مرسل حدیث اسے کہتے ہيں جس ميں تابعي ڈائريکٹ نبي کريم صلى اللہ عليہ وسلم سے روايت کرے يعني صحابي کا واسطہ ذکر نہ کرے۔ 


معضل:
وہ حدیث جس کی سند کے درمیان سے دو یا دو سے زیادہ راوی اکٹھے حذف ہوں۔ 


منقطع:
وہ حدیث جس کی سند کے درمیان سے ایک یا ایک سے زائد راوی مختلف مقامات سے حذف ہوں۔ 


مدلس:
وہ حدیث جس کا راوی کسی وجہ سے اپنے استاد یا استاد کے استاد کا نام (‏‏‏‏یا تعارف) چھپائے لیکن سننے والوں کو یہ تاثر دے کہ میں نے ایسا نہیں کیا، سند متصل ہی ہے، حالانکہ اس سند میں راویوں کی ملاقات اور سماع تو ثابت ہوتا ہے مگر متعلقہ روایت کا سماع نہیں ہوتا۔

مرسل خفی:
وہ حدیث جس کا راوی اپنے ایسے ہم عصر سے روایت کرے جس سے اس کی ملاقات ثابت نہ ہو۔

معلول یا معلل:
وہ حدیث جو بظاہر مقبول معلوم ہوتی ہو لیکن اس میں ایسی پوشیدہ علت یا عیب پایا جائے جو اسے غیر مقبول بنا دے۔ ان عیوب و علل کا پتہ چلانا ماہرین فن ہی کا کام ہے۔ ہر شخص کے بس کی بات نہیں۔

مردود حدیث کی اقسام راوی کے عادل نہ ہونے کی وجہ سے:​
روایۃ المبتدع:
وہ حدیث جس کا راوی بدعت مکفرہ کا قائل و فاعل ہو لیکن اگر راوی کی بدعت، مکفرہ نہ ہو اور وہ عادل و ضابط بھی ہو تو پھر اس کی روایت معتبر ہو گی یاد رہے بدعت مکفرہ (‏‏‏‏کافر بنانے والی بدعت) سے ارتداد لازم آتا ہے۔

روایۃ الفاسق:
وہ حدیث جس کا راوی کبیرہ گناہوں کا مرتکب ہو لیکن حد کفر کو نہ پہنچے۔

متروک:
وہ حدیث جس کا راوی عام بول چال میں جھوٹ بولتا ہو اور محدثین نے اس کی روایت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہو۔

موضوع:
وہ حدیث جس کے راوی نے کسی موقع پر حدیث کے معاملہ میں جھوٹ بولا ہو، ایسے راوی کی ہر روایت کو موضوع (‏‏‏‏من گھڑت) کہتے ہیں۔

مردود حدیث کی اقسام راوی کے ضابط نہ ہونے کی وجہ سے:​
مصحف:
وہ حدیث جس کے کسی لفظ کی ظاہری شکل تو درست ہو مگر نقطوں، حرکات یا سکون وغیرہ کے بدلنے سے اس کا تلفظ بدل گیا ہو۔

مقلوب:
وہ حدیث جس کے الفاظ میں راوی کی بھول سے تقدیم و تاخیر واقع ہو گئی ہو یا سند میں ایک راوی کی جگہ دوسرا راوی رکھا گیا ہو۔

مدرج:
وہ حدیث جس میں کسی جگہ راوی کا اپنا کلام عمداً یا سہواً درج ہو جائے اور اس پر الفاظ حدیث ہونے کا شبہ ہوتا ہو۔

المزید فی متصل الاسانید:
جب دو راوی ایک ہی سند بیان کریں، ان میں ایک ثقہ اور دوسرا زیادہ ثقہ ہو۔ اگر ثقہ راوی اس سند میں ایک راوی کا اضافہ بیان کرے تو اس کی روایت کو «مزيد فى متصل الاسانيد» کہتے ہیں۔

شاذ:
وہ حدیث جس کا راوی مقبول (‏‏‏‏ثقہ یا صدوق) ہو اور بیان حدیث میں اپنے سے زیادہ ثقہ یا اپنے جیسے بہت سے ثقہ راویوں کی مخالفت کرے (‏‏‏‏شاذ کے بالمقابل حدیث کو محفوظ کہتے ہیں)۔

منکر:
وہ حدیث جس کا راوی ضیعف ہو اور بیان حدیث میں ایک یا زیادہ ثقہ راویوں کی مخالفت کرے (‏‏‏‏منکر کے بالمقابل حدیث کو معروف کہتے ہیں)۔

روایۃ سی الحفظ:
وہ حدیث جس کا راوی «سي الحفظ»، یعنی پیدائشی طور پر کمزور حافظے والا ہو۔

روایۃ کثیر الغفلۃ:
وہ حدیث جس کا راوی شدید غفلت یا کثیر غلطیوں کا مرتکب ہو۔

روایۃ فاحش الغلط:
وہ حدیث جس کے راوی سے فاش قسم کی غلطیاں سرزد ہوں۔

روایۃ المختلط:
وہ حدیث جس کا راوی بڑھاپے یا کسی حادثے کی وجہ سے یادداشت کھو بیٹھے یا اس کی تحریر کردہ احادیث ضائع ہو جائیں۔

مضطرب:
وہ حدیث جس کی سند یا متن میں راویوں کا ایسا اختلاف واقع ہو جو حل نہ ہو سکے۔

مردود حدیث کی اقسام راوی کے مجہول ہونے کی وجہ سے:​
روایۃ مجھول العین:
وہ حدیث جس کا راوی مجہول العین ہو، یعنی اس کے متعلق ائمہ فن کا کوئی ایسا تبصرہ نہ ملتا ہو جس سے اس کے ثقہ یا ضعیف ہونے کا پتہ چل سکے اور اس سے روایت کرنے والا بھی صرف ایک ہی شاگرد ہو جس کے باعث اس کی شخصیت مجہول ٹھہرتی ہو۔

روایۃ مجھول الحال:
وہ حدیث جس کا راوی مجہول الحال ہو، یعنی اس کے متعلق ائمہ فن کا کوئی تبصرہ نہ ملتا ہو اور اس روایت کرنے والے کل دو آدمی ہوں جس کے باعث اس کی شخصیت معلوم اور حالت مجہول ٹھہرتی ہو۔ ایسے راوی کومستور بھی کہتے ہیں۔

مبھم:
وہ حدیث جس کی سند میں کسی راوی کے نام کی صراحت نہ ہو۔

چند مزید اصطلاحات:​
عدل:
یعنی حدیث کو روایت کرنے والے تمام لوگ دیانت دار اورسچے ہوں، اس کا فیصلہ دیگر ناقدین کے اقوال کو سامنے رکھتے ہوئے کیاجاتا ہے۔

ضبط:
یعنی حدیث کو روایت کرنے والے تمام لوگ مضبوط حافظہ کے مالک ہوں۔ 

تنبیہ: متاخرین نے قوت حفظ میں تفاوت کا اعتبار کرتے ہوئے تام الضبط کی بنسبت کم تر ضبط والے روای کی منفرد مرویات کے لئے حسن کی اصطلاح بنائی ہے لیکن متقدمین ضبط میں یہ تفریق نہیں کرتے تھے بلکہ ہر ضابط کی روایت کو وہ صحیح ہی کہتے تھے، اور متقدمین میں بعض نے جن احادیث کو حسن کہا ہے تو وہ اصطلاحی معنی میں نہیں ہے۔ بعض حضرات بہت بڑی غلط فہمی کے شکار ہو گئے ہیں اور یہ سمجھ لیا کہ متقدمین حسن حدیث کو بھی حجت نہیں سمجھتے تھے لیکن ایسا موقف متقدمین میں کسی ایک سے بھی ثابت نہیں دراصل متقدمین حسن کی اصطلاح استعمال ہی نہیں کرتے تھے بلکہ متاخرین کی اصطلاح میں جوروایتحسن بنتی ہے متقدمین اسے بھی صحیح ہی کہتے تھے۔

اتصال السند:
اس کا مطلب یہ ہے کہ حدیث کو روایت کرنے والے تمام لوگوں نے جس سے حدیث نقل کی ہے اس سے ان لوگوں نے اس حدیث کو براہ راست اخذ کیا ہو۔

کتب احادیث کی اقسام:​
کتب صحاح:
ہر وہ کتاب جس کے موَلّف نے اپنی کتاب میں صحیح روایات لانے کا التزام کیا ہو اور صحیح کے لفظ کو کتاب کے نام کا حصہ بنایا ہو۔ ایسی کتاب کی روایات کم از کم اس کے موَلّف کے نزدیک صحیح ہوتی ہیں۔ اور اگر وہ خود ہی کسی حدیث کی علت بیان کر دے تو اس سے اس کتاب کے صحیح ہونے پر حرف نہیں آتا۔

صحاح ستہ:
حدیث کی چھ کتب صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابوداؤد، سنن نسائی، جامع ترمذی اور سنن ابن ماجہ صحاح ستہکہلاتی ہیں۔ انہیں اصول ستہ یا کتب ستہ بھی کہا جاتا ہے۔ 

پہلی دو کتابیں (صحیح بخاری، صحیح مسلم) صحیحین کہلاتی ہیں اور یہ صرف اپنے مؤلَّفین کے نزدیک ہی صحیح نہیں ہیں بلکہ پوری امت کے نزدیک صحت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہیں۔ ان پر اعتراض برائے اعتراض کرنے والا شخص، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کے بقول، اجماع امت کا مخالف اور بدعتی ہے۔ 

جبکہ آخری چار کتابوں (سنن ابوداؤد، سنن نسائی، جامع ترمذی اور سنن ابن ماجہ) کو سنن اربعہ کہتے ہیں۔ گو ان میں ضیعف احادیث موجود ہیں، تاہم صحیح حدیثوں کی کثرت کی وجہ سے اکثر علماء انہیں صحاح ستہ میں شمار کرتے ہیں۔

جامع:
جس کتاب میں اسلام سے متعلق تمام موضوعات، مثلاً: عقائد، احکام، تفسیر، جنت، دوزخ وغیرہ سے تعلق رکھنے والی احادیث روایت کی گئی ہوں، مثلاً: صحیح بخاری اور جامع ترمذی وغیرہ۔

سنن:
جس کتاب میں صرف عملی احکام سے متعلق احادیث فقہی تبویب و ترتیب پر جمع کی گئی ہوں، مثلاً: سنن ابی داود۔

مسند:
جس کتاب میں ایک صحابی یا متعدد صحابہ کی روایات کو الگ الگ جمع کیا گیا ہو، مثلاً: مسند احمد، مسند حمیدی۔

مستخرج:
جس کتاب میں مصنف کسی دوسری کتاب کی حدیثوں کو اپنی سندوں سے روایت کرے، مثلاً: مستخرج اسماعیلی علیٰ صحیح البخاری۔

مستدرک:
جس کتاب میں مصنف ایسی روایات جمع کرے جو کسی دوسرے مصنف کی شرائط کے مطابق ہوں لیکن اس کی کتاب میں نہ ہوں، مثلاً: مستدرک حاکم۔

معجم:
جس کتاب میں مصنف ایک خاص ترتیب کے ساتھ اپنے ہر استاد کی روایات کو الگ الگ جمع کرے، مثلاً: معجم طبرانی۔

اربعین:
جس کتاب میں کسی ایک یا مختلف موضوعات پر چالیس احادیث جمع کی گئی ہوں، مثلاً: اربعین نووی، اربعین ثنائی وغیرہ۔

جزء:
وہ کتاب جس میں صرف ایک راوی یا ایک موضوع کی روایات جمع کی گئی ہوں، جسے امام بخاری رحمہ اللہ کیجزء رفع یدین اور جزء القراءۃ خلف الامام یا امام بیہقی رحمہ اللہ کی کتاب القراءۃ خلف الامام وغیرہ۔

Monday 1 November 2021

خبرواحد پرعمل کرناواجب ہے

 ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ﴿مَنۡ یُّطِعِ الرَّسُوۡلَ فَقَدۡ اَطَاعَ اللّٰہَ ۚ 

          جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ (النسآء: ۸۰)
اس آیتِ کریمہ و دیگر آیات سے رسولِ کریم ﷺ کی اطاعت کا فرض ہونا ثابت ہے ۔
          سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ لوگ قُبا (مدینے) میں فجر کی نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک شخص نے آکر کہا: رسول اللہ ﷺ پر آج کی رات قرآن نازل ہوا ہے اور کعبہ کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھنے کا حکم آگیا ہے ۔ پس سارے نمازی جو شام کی طرف رخ کئے نماز پڑھ رہے تھے، نماز ہی میں کعبہ کی طرف مڑ گئے۔(مؤطا امام مالک روایۃ ابن القاسم بتحقیقی : ۲۷۷ و سندہ صحیح، روایۃ یحییٰ بن یحییٰ ۱۹۵/۱ ح ۴۶۰ ، صحیح البخاری: ۴۰۳ و صحیح مسلم: ۵۲۶)
معلوم ہوا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین عقیدے میں بھی صحیح خبرواحدکو حجت سمجھتے تھے۔
          نبی کریم ﷺ نے عیسائیوں کے بادشاہ ہرقل کی طرف دعوتِ اسلام کے لئے جو خط بھیجا تھا، اسے سیدنا دحیہ الکلبیؓ کے ہاتھ بھیجا تھا۔ (دیکھئے صحیح بخاری: ۷)
          اس سے معلوم ہوا کہ صحیح خبر واحد ظنی نہیں ہوتی بلکہ یقینی، قطعی اور حجت ہوتی ہے ۔
حافظ ابن الصلاح الشہرزوری لکھتے ہیں:          “صحیحین میں جتنی احادیث (حدثنا کے ساتھ بیان کردہ) ہیں وہ قطعی طور پرصحیح ہیں کیونکہ امت (اجماع کی صورت میں) معصوم عن الخطأ ہے لہٰذا جسے امت نے صحیح سمجھا ہے اس پر عمل (اور ایمان) واجب ہے اور یہ ضروری ہے کہ یہ روایات حقیقت میں بھی صحیح ہی ہیں۔”اس پرمحی الدین نووی کا اختلاف ذکر کرنے کے باوجود حافظ ابن کثیر الدمشقی لکھتے ہیں:          “اور یہ استنباط اچھا ہے ….. میں اس مسئلے میں ابن الصلاح کے ساتھ ہوں، انہوں نے جو کہا اور راہنمائی کی ہے (وہی صحیح ہے)واللہ اعلم ” (اختصار علوم الحدیث مع تحقیق الشیخ الالبانی ج ۱ ص ۱۲۵،۱۲۶)

حافظ ابن کثیرؒ مزید فرماتے ہیں: 

“اس کے بعد مجھے ہمارے استاد علامہ ابن تیمیہ کا کلام ملا جس کا مضمون یہ ہے :جس حدیث کو (ساری ) امت کی (بالاجماع) تلقی بالقبول حاصل ہے ، اس کا قطعی الصحت ہونا ائمہ کرام کی جماعتوں سے منقول ہے ۔ ان میں قاضی عبدالوہاب المالکی، شیخ ابوحامد الاسفرائنی، قاضی ابوالطیب الطہری اور شافعیوں میں سے شیخ ابواسحاق الشیرازی ، حنابلہ میں سے (ابوعبداللہ الحسن) ابن حامد (البغدادی الوراق)، ابویعلیٰ ابن الفراء، ابوالخطاب، ابن الزاغونی اور ان جیسے دوسرے علماء ، حنفیہ میں سے شمس الائمہ السرخسی سے یہی بات منقول ہے ۔ (کہ تلقی بالقبول والی احادیث قطعی الصحت ہیں)ابن تیمیہ (رحمہ اللہ) نے فرمایا : اشاعرہ (اشعری فرقے ) کے جمہور متکلمین مثلاً ابواسحاق الاسفرائنی اور ابن فورک کا یہی قول ہے …. اور یہی تمام اہل حدیث (محدثینِ کرام اور ان کے عوام ) اور عام سلف الصالحین کا مذہب (دین) ہے ۔ یہ بات ابن الصلاح نے بطورِ استنباط کہی تھی جس میں انہوں نے ان اماموں کی موافقت کی ہے ” (اختصار علوم الحدیث ج ۱ص ۱۲۸،۱۲۷)

جو حدیث نبی کریم ﷺ سے ثابت ہوجائے ، اس کے بارے میں امام شافعیؒ فرماتے ہیں : اسے ترک کرنا جائز نہیں  ہے۔ (مناقب الشافعی للبیہقی ج۱ ص ۴۸۳ و سندہ صحیح)
امام شافعیؒ فرماتے تھے “متی رویتُ عن رسول اللہ ﷺ حدیثًا صحیحًا فلم آخذ بہ والجماعۃ۔ فأشھد کم أن عقلي قد ذھبجب میرے سامنے رسول اللہ ﷺ کی صحیح حدیث بیان کی جائے اور میں اسے (بطورِ عقیدہ و بطورِ عمل ) نہ لوں تو گواہ رہو کہ میری عقل زائل ہوچکی ہے ۔ (مناقب الشافعی ج ۱ص ۴۷۴ و سندہ صحیح)
          معلوم ہواکہ امام شافعی کے نزدیک، صحیح حدیث پر عمل نہ کرنے والا شخص پاگل ہے ۔

امام شافعی خبر واحد (صحیح) کو قبول کرنا فرض سمجھتے تھے ۔ (دیکھئے جماع العلم للشافعی ص ۸ فقرہ: ۱)

امام شافعیؒ نے امام احمد بن حنبلؒ سے فرمایا: تم ہم سے زیادہ صحیح حدیثوں کو جانتے ہو، پس اگر خبر (حدیث) صحیح ہو تو مجھے بتا دینا تاکہ میں اس پر عمل کروں چاہے (خبر) کوفی، بصری یا شامی ہو۔ (حلیۃ الاولیاء ۱۷۰/۹ ، وسندہ صحیح ، الحدیث : ۲۵ ص ۳۲)

          معلوم ہوا کہ صحیح حدیث چاہے صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ہو یا سنن اربعہ و مسند احمد وغیرہ میں ہو یا دنیا کے کسی معتبر و مستند کتاب میں صحیح سند سے موجود ہو تو اس پر ایمان لانا اور عمل کرنا فرض ہے ۔ اسے ظنی ، خبر واحد، مشکوک ، اپنی عقل کے خلاف یا خلافِ قرآن وغیرہ کہہ کر رد کردنیا باطل ، مردود اور گمراہی ہے ۔
امام اہل سنت امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا: جس نے رسول اللہ ﷺ کی (صحیح ) حدیث رد کی تو وہ شخص ہلاکت کے کنارے پر (گمراہ) ہے۔ (مناقب احمد ص ۱۸۲، وسندہ حسن، الحدیث : ۲۶ ص۲۸)
امام مالکؒ کے سامنے ایک حدیث بیان کی گئی تو انہوں نے فرمایا : ” یہ حدیث حسن ہے ، میں نے یہ حدیث اس سے پہلے کبھی نہیں سنی” اس کے بعد امام مالکؒ اسی حدیث کے مطابق فتویٰ دیتے تھے ۔ (تقدمۃ الجرح و التعدیل لابن ابی حاتم ص ۳۱،۳۲ ج۱، وسندہ حسن)

امام ابوحنیفہؒ کے بارے میں حنفی علماء یہ کہتے ہیں کہ صحیح حدیث ان کا مذہب تھا۔
عبدالحئی لکھنوی لکھتے ہیں : “أما بالخبر الواحد فقال بجوازہ الأئمۃ الأربعۃ

          قرآن کی خبر واحد(صحیح) کے ساتھ تخصیص ائمہ اربعہ کے نزدیک جائز ہے ۔ (غیث الغمام ص ۲۷۷)


معلوم ہوا کہ زمانۂ تدوینِ حدیث کے بعد، اصولِ حدیث کی رُو سے صحیح روایت کو ایمان ، عقائد ، صفات اور احکام وغیرہ سب مسائل میں قبول کرنا فرض ہے ۔

مسجد میں نماز جنازہ ادا کرنا

  بلاکسی عذر کے مسجد میں جنازے کی نماز اداکرنا مکروہ ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا معمول یہی تھا کہ نمازِ جنازہ مسجد سے باہر کھلی جگہ میں ادا فرماتے تھے۔ البتہ اگر کوئی عذر ہو مثلاً شدید بارش ہو اور کوئی متبادل جگہ موجود نہ ہوتو اس صورت میں مسجد میں نماز جنازہ ادا کی جاسکتی ہے۔

میت محراب سے باہر رکھ کر مسجد میں نماز جنازہ ادا کرنا بھی مکروہ ہےالبتہ آس پاس اگر نماز جنازہ ادا کرنے کی جگہ نہ ہو توبحالت مجبوری مسجد میں اداکرنے کی فقہاء نے اجازت دی ہے. 

نمازِ جنازہ کی ادائیگی مردوں پر لازم ہے عورتوں پر نہیں،اس لیے عورتوں کا جنازے کی نماز کے لیے نکلنا درست نہیں ہے۔''فتاوی ہندیہ'' میں ہے:

''ولا حق للنساء في الصلاة على الميت ولا للصغار''. (4/450)

"عن عباد بن عبد الله بن الزبير يحدث عن عائشة أنها لما توفي سعد بن أبي وقاص أرسل أزواج النبي صلى الله عليه وسلم أن يمروا بجنازته في المسجد فيصلين عليه، ففعلوا فوقف به على حجرهن يصلين عليه، أخرج به من باب الجنائز الذي كان إلى المقاعد، فبلغهن أن الناس عابوا ذلك وقالوا: ما كانت الجنائز يدخل بها المسجد. فبلغ ذلك عائشة فقالت: ما أسرع الناس إلى أن يعيبوا ما لا علم لهم به. عابوا علينا أن يمر بجنازة في المسجد وما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم على سهيل ابن بيضاء إلا في جوف المسجد".

ترجمہ:'' عباد بن عبداللہ بن زبیر، سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ  جب سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتقال ہو گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواجِ مطہرات نے پیغام بھجوایا کہ ان کا جنازہ مسجد میں سے لے کر گزرو؛ تاکہ وہ بھی نمازِ جنازہ ادا کرلیں، لوگوں نے ایسا ہی کیا اور ان کے حجروں کے آگے جنازہ روک دیا، تاکہ وہ اس پر نماز جنازہ ادا کرلیں، پھر ان کو باب الجنائز سے نکالا گیا جو مقاعد کی طرف تھا، پھر ازواجِ مطہرات کو یہ خبر پہنچی کہ لوگوں (صحابہ کرام) نے اس کو معیوب جانا ہے اور لوگوں نے کہا ہے کہ جنازوں کو مسجد میں داخل نہیں کیا جاتا تھا۔ یہ بات سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو پہنچی تو انہوں نے کہا: لوگ ناواقفیت کی بنا پر اس بات کو معیوب سمجھ رہے ہیں، اور ہم پر جنازہ کے مسجد میں گزارنے کی وجہ سے عیب لگا رہے ہیں حال آں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل بن بیضاء کا جنازہ مسجد کے اندر ہی پڑھا تھا''۔

محدثین نے اس روایت کے کئی جوابات دیے ہیں:

1۔ سہیل ابن بیضاء کی نمازِ جنازہ بارش یا اعتکاف کے عذر  کی وجہ سے مسجد میں پڑھی گئی تھی ۔

2۔ مذکورہ بالا روایت میں  خود صحابہ کا انکار: ’’ ما کانت الجنائز یدخل بها المسجد‘‘ ثابت کرتا ہے کہ نمازِ جنازہ مسجد میں پڑھنے کا دستور نہ تھا۔

3۔  مذکورہ بالا روایت مرسل ہے اور مرسل سے استدلال صحیح نہیں ہے، جب کہ اس کے مقابلے میں حدیثِ مرفوع متصل موجود ہو۔

حوالہ جات مندرجہ ذیل ہیں :

عمدۃ القاری میں ہے:

" أن حديث عائشة إخبار عن فعل رسول الله في حال الإباحة التي لم يتقدمها نهي وحديث أبي هريرة إخبار عن نهي رسول الله الذي قد تقدمته الإباحة فصار حديث أبي هريرة ناسخاً، ويؤيده إنكار الصحابة على عائشة رضي الله تعالى عنها؛ لأنهم قد كانوا علموا في ذلك خلاف ما علمت، ولولا ذلك ما أنكروا ذلك عليها". (12/395)

ترجمہ: مسجد میں نمازِ جنازہ کے جواز سے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث (کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل ابن بیضاء رضی اللہ عنہ کی نمازِ جنازہ مسجد میں ادا فرمائی) اس وقت کے بارے میں ہے جب مسجد میں نمازِ جنازہ کی ممانعت نہیں تھی، اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث جس میں مسجد میں نمازِ جنازہ کی ممانعت ہے وہ بعد کی ہے، لہٰذا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ناسخ ہوگی، اور اس کی تائید صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے انکار سے بھی ہوتی ہے؛ اس لیے کہ ان کا عمل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے مذکورہ عمل کے برخلاف تھا، ورنہ وہ اسے اچھنبا نہ سمجھتے۔

وفیه أیضاً:

" (فإن قلت ) مسلم أخرج حديث عائشة ولم يخرج حديث أبي هريرة؟ قلت: لايلزم من ترك مسلم تخريجه عدم صحته؛ لأنه لم يلتزم بإخراج كل ما صح عن النبي، كذلك البخاري، ولئن سلمنا ذلك وأن حديث أبي هريرة لايخلو من كلام، فكذلك حديث عائشة لايخلو عن كلام؛ لأن جماعة من الحفاظ مثل الدارقطني وغيره عابوا على مسلم تخريجه إياه مسنداً؛ لأن الصحيح أنه مرسل كما رواه مالك والماجشون عن أبي النضر عن عائشة مرسلاً، والمرسل ليس بحجة عندهم. وقد أوّل بعض أصحابنا حديث عائشة بأنه إنما صلى في المسجد بعذر مطر، وقيل: بعذر الاعتكاف، وعلى كل تقدير الصلاة على الجنازة خارج المسجد أولى وأفضل، بل أوجبللخروج عن الخلاف، لا سيما في باب العبادات؛ ولأن المسجد بني لأداء الصلوات المكتوبات فيكون غيرها في خارج المسجد أولى وأفضل. فإن قلت: قالوا: خروج النبي من المسجد إلى المصلى كان لكثرة المصلين وللإعلام؟ قلت: نحن أيضاً نقول: صلاته في المسجد كان للمطر أو للاعتكاف، كما ذكرنا". (12/158)

ترجمہ: اگر  یہ سوال کیاجائے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث تو امام مسلم رحمہ اللہ نے ذکر کی ہے، جب کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث انہوں نے ذکر نہیں کی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ : امام مسلم رحمہ اللہ کا اس حدیث کو ذکر کرنے سے اس کا غیر صحیح ہونا لازم نہیں آتا؛ اس لیے کہ امام مسلم نیز امام بخاری رحمہما اللہ نے ہر صحیح حدیث اپنی صحیحین میں جمع کرنے کا التزام نہیں  کیا، اور اگر ہم تسلیم بھی کرلیں کہ حدیثِ ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ کلام سے خالی نہیں ہے، تو بالکل اسی طرح حدیثِ عائشہ رضی اللہ عنہا بھی کلام سے خالی نہیں ہے؛ اس لیے کہ حفاظِ حدیث کی ایک جماعت (مثلاً: امام دارقطنی وغیرہ) نے امام مسلم رحمہ اللہ پر اس حدیث کی تخریج کی وجہ سے تنقید کی ہے؛ کیوں کہ صحیح بات یہ ہے کہ حدیثِ عائشہ مرسل ہے، جیساکہ امام مالک اور ماجشون نے ابوالنضر (رحمہم اللہ) عن عائشۃ رضی اللہ عنہا یہ روایت نقل کی ہے، اور حدیثِ مرسل تو ان (حنفیہ کے علاوہ ائمہ) کے نزدیک حجت نہیں ہے۔

اور بعض حنفیہ نے حدیثِ عائشہ رضی اللہ عنہا میں تاویل کی ہے کہ آپ ﷺ نے مسجد میں نمازِ جنازہ بارش کے عذر کی وجہ سے ادا فرمائی، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اعتکاف کے عذر کی وجہ سے مسجد میں نمازِ جنازہ ادا فرمائی۔ بہر صورت نمازِ جنازہ مسجد سے باہر افضل و اولی ہے، بلکہ اختلافِ ائمہ سے نکلنے کے لیے واجب ہے، (کیوں کہ مسجد کے باہر بالاتفاق جائز اور آپ ﷺ کا معمول ہے، جب کہ مسجد میں مطلقاً جواز میں اختلاف ہے) خصوصاً عبادات کے باب میں اختلاف سے بچنا زیادہ اہم ہے۔ نیز مسجد تو پنج وقتہ فرض نمازوں کی ادائیگی کے لیے بنائی گئی ہے لہٰذا ان کے علاوہ عبادات مسجد سے باہر اولی و افضل ہوں گی۔

اگر  یہ سوال کیا جا ئے کہ دیگر ائمہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کا عید گاہ کی طرف نکل کر جنازہ ادا فرمانا نمازیوں کی کثرت اور اعلان کے لیے ہوتا تھا؟ تو اس کا جواب یہ کہ :0(نبی کریم ﷺ کا یہی معمول تھا اور) مسجد میں آپ ﷺ کا نمازِ جنازہ ادا فرمانا بارش یا اعتکاف کے عذر کی وجہ سے تھا، جیساکہ ہم نے بیان کردیا"۔

صاحب مظاہر حق شارح مشکاۃ المصابیح علامہ قطب الدین خان دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

''مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کا مسئلہ مختلف فیہ ہے ۔ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک تو اس حدیث کے پیش نظر جنازہ کی نماز مسجد میں پڑھی جا سکتی ہے جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک مسجد میں نماز جنازہ مکروہ ہے۔ حضرت امام اعظم کی دلیل بھی یہی حدیث ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے کہنے پر صحابہ نے اس بات سے انکار کر دیا کہ سعد ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جنازہ مسجد میں لایا جائے؛ کیوں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول نہیں تھا کہ مسجد میں نماز جنازہ پڑھتے ہوں، بلکہ مسجد ہی کے قریب ایک جگہ مقرر تھی جہاں آپ صلی اللہ علیہ  وسلم نماز جنازہ پڑھا کرتے تھے۔ پھر یہ کہ اس کے علاوہ ابوداؤد میں ایک حدیث بھی بایں مضمون منقول ہے کہ جو شخص مسجد میں نماز جنازہ پڑھے گا اسے ثواب نہیں ملے گا۔

جہاں تک حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اس ارشاد کا تعلق ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں سہیل اور ان کے بھائی کی نماز جنازہ پڑھی ہے تو اس کے بارہ میں علماء لکھتے ہیں کہ ایسا آپ نے عذر کی وجہ سے کیا کہ اس وقت یا تو بارش ہو رہی تھی یا یہ کہ آپ اعتکاف میں تھے؛ اس لیے  آپ صلی اللہ علیہ  وسلم نے مسجد ہی میں نماز جنازہ ادا فرمائی، چنانچہ ایک روایت میں اس کی صراحت بھی کی گئی ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم چوں کہ اعتکاف میں تھے؛ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد میں نماز جنازہ پڑھی''۔

Sunday 31 October 2021

گایتری منتر کااردوترجمہ

 

اے آفتاب!روح و روانِ جہاں ہے تو

شیرازہ بندِ دفترِ کون ومکاں ہے تو

باعث ہے تو وجود و عدم کی نمود کا

ہے سبز تیرے دم سے چمن ہست وبود کا

قائم یہ عنصروں کا تماشا تجھی سے ہے

ہر شے میں زندگی کا تقاضہ تجھی سے ہے

ہر شے کو تیری جلوہ گری سے ثبات ہے

تیرا یہ سوز و سازسراپا حیات ہے

وہ آفتاب جس سے زمانے میں نور ہے

دل ہے ،خرد ہے، روحِ رواں ہے، شعور ہے

اے آفتاب ہم کو ضیائے شعور دے

چشمِ خرد کو اپنی تجلی سے نور دے

ہے محفلِ وجود کا ساماں طراز تو

یزدانِ ساکنانِ نشیب وفراز تو

تیرا کمال ہستی ہر جاندار میں

تیری نمود سلسلہ کوہسار میں

ہر چیز کی حیات کا پروردگار تو

زائیدگانِ نور کا ہے تاجدار تو

نے ابتدا تری نہ کوئی انتہا تری

آزادِ قید اول وآخر ضیا تری 

 (ع (اقبال  

اوم جس کاسب سے پیارا نام ہے

روحِ عالم قاطعِ آلام ہے

جو چلاتا ہے نظام کائنات

مایہ رحمت ہے جس کی نیک ذات

بخشتا ہے جو ہمیں مال ومنال

روح کو دیتا ہے جو نورِ جمال

ہے سزاوارِ پرستش جس کی ذات

پاک ہے سب سے جو ہے والا صفات

دل میں ہو اس کا تصور ہر گھڑی

یاد میں اس کی بسر ہو زندگی

تاکہ بخشے عقل کو ایسی جلا

ہر عمل میں ہو صداقت کی ضیا

چھوڑ دیں اعمال بد کو چھوڑ دیں

نیکیوں سے اپنارشتہ جوڑلیں 
(عرش)