https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 16 April 2024

کشف،حدس کے معنیٰ

 کشف کے معنی کھولنے اور پردہ اٹھانے کے ہیں۔ کشف علم کے پانچ غیر مادی ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے جو حواس خمسہ کے بغیر حاصل ہو تا ہے پہلا درجہ ” فراست “ دوسرا ” حدس “ تیسرا ” کشف “ چوتھا ” الہام “ اور پانچواں درجہ ” وحی “ کا ہے۔

  • حدس کے بعد کشف کا درجہ ہے انسان کے نیک اعمال اور حسن اخلاق کے باعث مادیت کے ظلمانی پردہ چاک ہوجاتے ہیں اور مادی اشیاء روحانی عالم میں مشاہدہ کے طور پر نظر آنے لگتی ہیں زیادہ تر ان کا حصول رؤیا اور خواب میں ہوتا ہے لیکن ایک حالت سونے اور جاگنے کے درمیان بھی ہوتی ہے جس میں صاحب کشف کے حواس سونے والے کی طرح بیکار ہوجاتے ہیں اور رؤیا کی حالت بیدار ہوجاتی ہے اور حواس کا تعطل بلاریب اختیار نہیں ہوتا اگرچہ اس کو حاصل کرنا کسبی اور اختیاری امر ہے۔[1]
  • روحانیت میں کشف ایک ایسی صلاحیت ہے، جس کی بدولت اس صلاحیت کا حامل کائنات میں کسی بھی جگہ طیر و سیر کر سکتا ہے۔ کشف کے ذریعے، کشف کرنے والے فرشتوں، پیغمبروں اور ولیوں سے ملاقات کرسکتے ہیں۔ کشف کرنے والے کو کھلی یا بند آنکھوں سے کشف کرنے پر قادر ہوتا ہے، تاہم یہ کشف کرنے والے کے مراتب و مقامات پر منحصر ہے۔ کشف کی سو سے زائد اقسام ہیں۔ کشف کرنے والے کا مادی جسم دنیا میں اپنی جگہ پر متمکن ہوتا ہے جبکہ تخیل کی پرواز، اُس کو کسی بھی جگہ لے جا سکتی، اس عمل کے دوران کشف کرنے والے کو اپنا مادی جسم بھی نظر آتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے مادی جسم کو چھوڑ کر روحانی جسم کے ذریعے سفر کر رہا ہے۔ کشف کی مشہور اقسام میں کشف القبور، کشف الصدور اور کشف الحضور زیادہ مشہور ہیں۔
  • تاہم کشف کے صحیح ہونے کی کوئی ضمانت نہیں ہے، کشف شیطانی اور رحمانی دونوں طرح کا ہو سکتا ہے کیونکہ کشف میں شیطانی یا رحمانی واردات میں تمیز وہی لوگ کر سکتے ہیں جو صاحب مرتبہ ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں کو غیر ارادی طور پر کشف ہونے لگتا ہے لیکن روحانیت کشف کی مرتبہ کی ضمانت یا باعثِ عروج صلاحیت نہیں سمجھا جاتا۔
  1.  تفسیر عروۃ الوثقی علامہ عبد الکریم اثری

ایمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید لازمی ہے

 ائمہ اربعہ میں سے ہر ایک نصوصِ اربعہ (قرآن، حدیث ،اجماع اور قیاس ) سے استنباط کرتے ہیں اور چاروں ائمہ میں سے ہر ایک کا مذہب حق ہے ،جس کی بھی اتباع کرے درست ہے،لیکن جو شخص مسائل کے  استنباط کی صلاحیت نہ رکھتا ہو تو  اس کے لیے کسی ایک امام کے مذہب پر عمل (یعنی اس کا تقلید) کرنا واجب اور  تمام مسائل میں اسی امام کے مذہب کے مفتی بہ مسائل کا اتباع کرنالازم ہے،بیک وقت چاروں ائمہ  کی اتباع و تقلید کرناجائز نہیں ہے، وجہ اس کی  یہ ہے کہ بیک وقت چاروں کی تقلید تو ہو نہیں سکتی، کیوں کہ اکثر  (فروعی) مسائل میں چاروں ائمہ کرام کا آپس میں اختلاف ہے اور اختلاف کی صورت میں  بیک وقت چاروں کے قول   پر عمل کرنا ناممکن ہے، اس لیے ایک کی تقلید اور اقتدا  لازم ہے،  نیز اگر عام آدمی  (جس کے پاس مسائل کے استبناط کی صلاحیت نہ ہو)  کو یہ حق دیا جائے کہ جس مسئلہ میں جس امام کا قول اچھا لگے اس پر عمل کرے، تو یہ دین پر عمل کے  بجائے  اپنی خواہشِ نفس پرعمل کرنے والا بن جائےگا اور جس مسئلہ میں جو قول اس کے خواہش کے موافق ہو اس پر عمل کرنے لگ جائے گا جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ   دین دین نہیں  رہے گا،  بلکہ ایک کھلونا بن جائے گا۔

اس کو آسان مثال سے یوں سمجھےکہ ایک شخص نے وضو کیا پھر وضو کے بعد اس کے جسم سے خون نکلا،کسی نے اسے کہا کہ آپ کا وضو ٹوٹ گیا، تو اس نے کہا کہ میں اس مسئلہ میں  امام شافعی رحمہ اللہ کے مذہب پر عمل کرتا ہوں کیوں کہ  ان کے نزدیک خون نکلنے سے  وضو نہیں ٹوٹتا، پھر کچھ  وقت بعد اس نے اپنی بیوی کو ہاتھ لگایا، کسی نے اسے کہا کہ بیوی کو ہاتھ لگانے سے امام شافعی کے ہاں وضو ٹوٹ جاتا ہے، تو اس نے جو اب دیا کہ میں اس مسئلہ میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مذہب پر عمل کرتا ہوں، کیوں کہ ان کے ہاں اس سے وضو نہیں ٹوٹتا، اب اگر یہ شخص اسی وضو سے نماز پڑھے گا تو دونوں اماموں کے نزدیک اس کی نماز نہیں ہوئی گی، حالانکہ یہ اپنے خواہشات پر عمل کرتے ہوئے یہی سمجھےگاکہ اس  کی نماز ہوگئی ہے،  اسی طرح دین ایک کھلونا بن جائے گا(اعاذنا اللہ منہ) جہاں جو مذہب خواہش کے مطابق ہوگا اسی پر عمل کرتا رہے گا، تو یہ اللہ کی بندگی نہیں بلکہ اتباع ہوی ہے۔

اسی طرح صحابہ کرام (جنہوں نے حضور ﷺ سے  براہِ راست بالمشافہ احادیث لی ہیں)میں بھی بعض صحابہ کرام کے قول پر عمل کیاجاتا تھا جیسا کہ بخاری شریف کے حدیث کا مفہوم ہے کہ  اہل مدینہ نےعبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے  اس عورت کے گھر جانے کے متعلق  پوچھا جس کو طوافِ زیارت کے بعد حیض آجائے، کیا  وہ طوافِ وداع کیے بغیر گھر جاسکتی ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ جاسکتی ہے، تو اہل مدینہ نے کہا کہ ہم آپ کے فتوی پر عمل کرکے زید ابن ثابت رضی اللہ عنہما کے فتوی کو نہیں چھوڑسکتے، معلوم ہوا کہ  مدینے والے صحابہ بھی حضرت زید رضی اللہ عنہ کے قول و فتویٰ پر عمل کرتے تھے۔

اسی طرح صحابہ کرام (جنہوں نے حضور ﷺ سے  براہِ راست بالمشافہ احادیث لی ہیں)میں بھی بعض صحابہ کرام کے قول پر عمل کیاجاتا تھا جیسا کہ بخاری شریف کے حدیث کا مفہوم ہے کہ  اہل مدینہ نےعبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے  اس عورت کے گھر جانے کے متعلق  پوچھا جس کو طوافِ زیارت کے بعد حیض آجائے، کیا  وہ طوافِ وداع کیے بغیر گھر جاسکتی ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ جاسکتی ہے، تو اہل مدینہ نے کہا کہ ہم آپ کے فتوی پر عمل کرکے زید ابن ثابت رضی اللہ عنہما کے فتوی کو نہیں چھوڑسکتے، معلوم ہوا کہ  مدینے والے صحابہ بھی حضرت زید رضی اللہ عنہ کے قول و فتویٰ پر عمل کرتے تھے۔

 اسی طرح بڑے بڑے نامور محدثین اور فقہاء بھی ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک امام کے مذہب پر عمل کرتے تھے، اور سی میں عافیت سمجھتے تھے،  جیسا کہ: امام ابویوسف، امام محمد، امام طحاوی، امام شمس الائمہ حلوانی، امام فخر الاسلام بزدوی، امام ابوالحسن کرخی، وغیرہ  رحمہم اللہ  بڑے بڑے محدث اور فقیہ  حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مقلد اور ان کے مذہب پر عمل کرنے والے  تھے۔

حضرت امام ترمذی، حافط ابن حجر عسقلانی وغیرہ رحمہم اللہ  حضرت امام شافعیؒ کے مقلد اور ماننے والے تھے، اسی طرح امام ابوداؤد اور امام نسائی  حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ  کے مذہب پر عمل کرنے اور ماننے والےتھے،  حافظ ابن عبدالبر مالکی رحمہ اللہ   بڑے فقیہ اور محدث ہونے کے باوجودحضرت امام مالک رحمہ اللہ کے مقلد تھے۔

الغرض جب اتنے بڑے بڑے فقہاء اور محدثین کسی ایک امام کی تقلید کرتے ہوئے اپنے آپ کو ان کے تابع سمجھتے ہیں، تو  ہم کون ہے کہ اپنے آپ کو ان کی تقلید سےبالاتر اور آزاد سمجھ کر خواہش نفس پر عمل کرکے اپنے آخرت کو برباد کرے، یہی وجہ ہے کہ کسی ایک امام کی تقلید اور اس کے مذہب کو ماننا اور اس پر عمل پیر ہونا لازم اور ضروری ہے۔

صحيح بخارى ميں ہے:

"عن ‌عكرمة : «أن أهل المدينة سألوا ابن عباس رضي الله عنهما عن امرأة طافت ثم حاضت، قال لهم: تنفر، قالوا: ‌لا ‌نأخذ ‌بقولك وندع قول زيد، قال: إذا قدمتم المدينة فسلوا، فقدموا المدينة فسألوا، فكان فيمن سألوا أم سليم، فذكرت حديث صفية» رواه خالد وقتادة عن عكرمة."

(كتاب الحج، باب اذا حاضت المرءة بعد ماافاضت، ج:2، ص:180، رقم:1758، ط:دار طوق النجاة

فیض القدیر میں ہے:

"ويجب علينا أن نعتقد أن الأئمة الأربعة والسفيانين والأوزاعي وداود الظاهري وإسحاق بن راهويه وسائر الأئمة على هدى ولا التفات لمن تكلم فيهم بما هم بريئون منه والصحيح وفاقا للجمهور أن المصيب في الفروع واحد ولله تعالى فيما حكم عليه أمارة وأن المجتهد كلف بإصابته وأن مخطئه لا يأثم بل يؤجر فمن أصاب فله أجران ومن أخطأ فأجر نعم إن قصر المجتهد أثم اتفاقا وعلى غير المجتهد أن ‌يقلد ‌مذهبا معينا."

(حرف الهمزۃ، ج:1، ص:209، رقم:288، المکتبة التجاریة)

حجۃ اللہ البالغہ میں ہے:

"إن هذه المذاهب الأربعة المدونة المحررۃ قد اجتمعت الأمة، أو من یعتد به منها علی جواز تقلیدها إلی یومنا هذا، وفي ذلک من المصالح مالا یخفی، لا سیما في هذہ الأیام التي قصرت فيها الهمم جدا واشربت النفوس الهوی، وأعجب کل ذی رأي برأيه."

(حجة اللہ البالغة، ج:1، ص:154، ط: مکتبه حجاز)


توسل کی حقیقت

 توسل کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں:

1) توسل بالاعمال: یعنی اپنے کسی نیک عمل کے وسیلے سے یوں دعا کرنا کہ اے اللہ! فلاں عمل کی برکت سے میری فلاں حاجت پوری فرما. یہ صورت بالاتفاق وبلااختلاف جائز ہے اور اس کی دلیل وہ مشہور اور صحیح حدیث ہے جس میں تین افراد ایک غار  میں پھنس گئے تھے اور تینوں نے اپنے نیک عمل کے وسیلے سے دعا کی تو اللہ تعالی نے اس مصیبت سے انہیں نجات عطا فرمائی. (بخاری 1 /  493 قدیمی)

2) توسل بالذوات: یعنی اللہ سے کسی نبی علیہ السلام، صحابی رضی اللہ عنہ یا کسی ولی سے اپنے تعلق کا واسطہ دے کر دعا کرنا. یہ صورت بھی جمہور اہلِ سنت والجماعت کے نزدیک جائز ہے، چناچہ قرآن کریم کی آیت سے ثابت ہے کہ بنوقریظہ اور بنونضیر کے یہود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے آپ کے وسیلے سے فتح ونصرت کی دعا کیا کرتے تھے. (البقرۃ:89)خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فقرا ومہاجرین کے توسل سے دعا فرماتے تھے. (مشکاۃ : 2 / 447 قدیمی)

اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ قحط سالی کے سال حضرت عباس رضی اللہ عنہ (جو اس وقت حیات تھے) کے وسیلے سے دعا فرماتے تھے. ( نیل الاوطار : 4 / 8 طبع مصر)

صحیح بخاری کی روایت کے الفاظ یہ ہیں: 

"عن أنس بن مالک أن عمر بن الخطاب رضي الله عنه کان إذا قحطوا استسقی بالعباس بن عبدالمطلب رضي الله عنه فقال: اللهم إنا کنا نتوسل إلیک بنبینا ﷺ فتسقینا، وإنا نتوسل إلیک بعم نبینا فاسقنا! قال: فیسقون". (صحیح البخاري، کتاب العیدین، أبواب الاستسقاء، باب سؤال الناس الإمام الاستسقاء إذا قحطوا، (1/137) و کتاب المناقب، ذکر عباس بن عبدالمطلب، (1/526) ط: قدیمي)

ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ قحط کے زمانے میں حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلے سے دعا فرماتے تھے، چناں چہ یوں کہتے تھے: اے اللہ ہم آپ سے اپنے نبی ﷺ کے وسیلے سے دعاکرکے بارش طلب کرتے تھے، اب آپ ﷺ کے چچا کے وسیلے سے آپ سے بارش کی دعا کرتے ہیں، چناں چہ بارش ہوجاتی۔

نیز رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک نابینا شخص آیا اور اس نے اپنی تکلیف کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے اسے اہتمام سے وضو کرکے دو رکعت پڑھنے کے ساتھ  اپنے وسیلے سے دعا کرنے کے الفاظ تلقین فرمائے، چناں چہ اسی مجلس میں اس کی بینائی لوٹ آئی۔ (جامع ترمذی، معجم کبیر للطبرانی)


بہرحال انبیاء، اولیاء یا نیک اعمال کے توسل سے دعا کرنا جائز بلکہ اجابتِ دعا میں موٴثر ہے، دعا میں توسل کا ثبوت متعدد احادیث سے ہے۔

"عن عثمان بن حنیف، أن رجلاً ضریر البصر أتی النبي صلی الله علیه وسلم فقال: ادع الله أن یعافیني قال: إن شئت دعوت، وإن شئت صبرت فهو خیر لک ، قال: فادعه، قال: فأمره أن یتوضأ فیحسن وضوئه ویدعو بهذا الدعاء: اللهم إني أسألک وأتوجه إلیک بنبیک محمد نبي الرحمة، إني توجهت بک إلی ربي في حاجتي هذه لتقضي لي، اللهم فشفعه في. قال الترمذي: هذا حدیث حسن صحیح غریب. وزاد الحاکم في هذه الواقعة: ”فدعا بهذا الدعاء فقام وقد أبصر“. (۱/۳۱۳، ۵۱۹، ۵۲۶)

"أخرج الإمام أحمد وغيره بسند صحيح عن عثمان بن حنيف أن رجلاً ضرير البصر أتى النبي صلى الله عليه وسلم ، فقال : ادع الله أن يعافيني . فقال صلى الله عليه وسلم : (إن شئت دعوت لك ، وإن شئت أخّرتُ ذاك ، فهو خير لك. [وفي رواية : (وإن شئتَ صبرتَ فهو خير لك)] ، فقال : ادعهُ. فأمره أن يتوضأ ، فيحسن وضوءه ، فيصلي ركعتين، ويدعو بهذا الدعاء : اللهم إني أسألك ، وأتوجه إليك بنبيك محمد نبي الرحمة ، يا محمد إني توجهتُ بك إلى ربي في حاجتي هذه ، فتقضى لي ، اللهم فشفّعه فيَّ وشفّعني فيه) . قال : ففعل الرجل فبرأ".

شفاء السقام للسبكي (ص: ٣٥٨)میں ہے:

"إن التوسل بالنبي صلي الله عليه وسلم جائز في كل حال قبل خلقه و بعد خلقه في مدة حياته في الدنيا و بعد موته في مدة البرزخ".

ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا توسل ہر حال میں جائز ہے، چاہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تخلیق سے پہلے ہو یا تخلیق کے بعد ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیاوی زندگی میں ہو یا وصال کے بعد حیات برزخی میں ہو۔

حجة الله البالغة میں ہے:

"و من أدب الدعاء تقديم الثناء إلى الله و التوسل بنبي الله ليستجاب". (٢/ ٦)

ترجمہ: دعا کے آداب میں سے یہ ہے کہ پہلے اللہ کی حمد  و ستائش کی جائے ، اور اللہ کے نبی کے وسیلہ سے دعا کی جائے؛ تاکہ قبولیت کا شرف حاصل ہو۔

البتہ کسی نبی یا ولی سے حاجت مانگنا شرک ہے. (تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ کی کتاب "اختلافِ امت اور صراطِ مستقیم" اور فتاوی بینات کی جلد دوم)

مذکورہ تفصیل کی روشنی میں آپ کے سوال کے جواب کا حاصل یہ ہوا کہ توسل بالاعمال اور توسل بالذوات دونوں علمائے دیوبند سمیت جمہور اہلِ سنت والجماعت کے نزدیک جائز ہیں، قرآنِ کریم واحادیثِ مبارکہ اور کتبِ فقہ میں اس کی تصریحات موجود ہیں، علمائے دیوبند کی کتاب المہند علی المفند میں بھی واضح طور پر یہی عقیدہ مذکور ہے، لہذا توسل کا کلی طور پر انکار یا نبی اور ولی میں فرق کرنا درست نہیں، تاہم دعا کی قبولیت کے لیے وسیلہ واجب یا ضروری نہیں، توسل کا انکار کیے بغیر بلاوسیلہ دعا مانگنا بھی جائز ہے، اور توسل والی دعا کی قبولیت کا اللہ کے ذمے لازم سمجھنا بھی درست نہیں ہے

حضور صلی االلہ علیہ وسلم کے والدین کا ایمان

 بعض روایات میں آتاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کو ان کی وفات کے بعدزندہ کیاگیاتھا اورآ پ صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لائے تھے، بعض علماء فرماتے ہیں کہ چوں کہ وہ زمانہ فترت میں انتقال کرگئے تھے اور ان کے نزدیک  جو لوگ زمانہ فترت میں صریح شرک اور بت پرستی سے دور رہے ان  کے لیے آخرت میں نجات  کے لیے کافی ہوگا۔باقی صحیح بات یہی ہے کہ اس سلسلے میں توقف کیاجائے یعنی خاموشی اختیارکی جائے ،اورآپﷺ کے والدین کے بارے میں کسی قسم کی گستاخی اوربے ادبی سے زبان کومحفوظ رکھاجائے، اس لیے کہ یہ مسئلہ نہ عقائد میں داخل ہے اور ہی ایمان کا جز ہے اور نہ آخرت میں ہم سے اس بارے میں پوچھا جائے گا۔

فتاوی شامی (3/ 184) میں ہے:
'' ولا يقال: إن فيه إساءة أدب، لاقتضائه كفر الأبوين الشريفين مع أن الله تعالى أحياهما له وآمنا به، كما ورد في حديث ضعيف؛ لأنا نقول: إن الحديث أعم بدليل رواية الطبراني وأبي نعيم وابن عساكر: «خرجت من نكاح ولم أخرج من سفاح من لدن آدم إلى أن ولدني أبي وأمي لم يصبني من سفاح الجاهلية شيء»، وإحياء الأبوين بعد موتهما لا ينافي كون النكاح كان في زمن الكفر. ۔۔۔۔۔۔۔ 

وأما الاستدلال على نجاتهما بأنهما ماتا في زمن الفترة مبني على أصول الأشاعرة أن من مات ولم تبلغه الدعوى يموت ناجياً، أما الماتريدية، فإن مات قبل مضي مدة يمكنه فيها التأمل ولم يعتقد إيماناً ولا كفراً فلا عقاب عليه، بخلاف ما إذا اعتقد كفراً أو مات بعد المدة غير معتقد شيئاً.
نعم البخاريون من الماتريدية وافقوا الأشاعرة، وحملوا قول الإمام:لا عذر لأحد في الجهل بخالقه على ما بعد البعثة، واختاره المحقق ابن الهمام في التحرير، لكن هذا في غير من مات معتقداً للكفر، فقد صرح النووي والفخر الرازي بأن من مات قبل البعثة مشركاً فهو في النار، وعليه حمل بعض المالكية ما صح من الأحاديث في تعذيب أهل الفترة بخلاف من لم يشرك منهم ولم يوجد بل بقي عمره في غفلة من هذا كله ففيهم الخلاف، وبخلاف من اهتدى منهم بعقله كقس بن ساعدة وزيد بن عمرو بن نفيل فلا خلاف في نجاتهم، وعلى هذا فالظن في كرم الله تعالى أن يكون أبواه صلى الله عليه وسلم من أحد هذين القسمين، بل قيل: إن آباءه صلى الله عليه وسلم كلهم موحدون؛ لقوله تعالى: ﴿ وَتَقَلُّبَكَ فِي السَّاجِدِيْنَ ﴾ [الشعراء: 219]۔ لكن رده أبو حيان في تفسيره بأن قول الرافضة ومعنى الآية وترددك في تصفح أحوال المتهجدين، فافهم.
وبالجملة كما قال بعض المحققين: إنه لا ينبغي ذكر هذه المسألة إلا مع مزيد الأدب. وليست من المسائل التي يضر جهلها أو يسأل عنها في القبر أو في الموقف، فحفظ اللسان عن التكلم فيها إلا بخير أولى وأسلم''۔

صراط مستقیم کیاہے

 ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ صراط مستقیم کتاب اللہ ہے۔ ابن ابی حاتم اور ابن جریر نے بھی روایت کی ہے فضائل قرآن کے بارے میں پہلے حدیث گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مضبوط رسی، حکمتوں والا ذکر اور سیدھی راہ یعنی صراط مستقیم یہی اللہ کی کتاب قرآن کریم ہے۔ مسند احمد ترمذی حضرت علی کا قول بھی یہی ہے اور مرفوع حدیث کا بھی موقوف ہونا ہی زیادہ مشابہ ہے۔

حضرت عبداللہ سے بھی یہی روایت ہے ابن عباس کا قول ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آیت (اھدنا الصراط مستقیم) کہئے یعنی ہمیں ہدایت والے راستہ کا الہام کر اور اس دین قیم کی سمجھ دے جس میں کوئی کجی نہیں۔ آپ سے یہ قول بھی مروی ہے کہ اس سے مراد اسلام ہے۔ ابن عباس، ابن مسعود اور بہت سے صحابہ سے بھی یہی تفسیر منقول ہے۔

حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں صراط مستقیم سے مراد اسلام ہے جو ہر اس چیز سے جو آسمان اور زمین کے درمیان ہے زیادہ وسعت والا ہے۔

ابن حنفیہ فرماتے ہیں اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا وہ دین ہے جس کے سوا اور دین مقبول نہیں۔

عبدالرحمن بن زید بن اسلم کا قول ہے کہ صراط مستقیم اسلام ہے۔

مسند احمد کی ایک حدیث میں بھی مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

امت میں غیر مسلم شامل ہیں کہ نہیں

 تمام انسان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں داخل ہیں، البتہ جنہوں نے حضور ﷺ کو نبی مان کر آپ کی تمام باتوں کی تصدیق کی او رکلمہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا اقرار کیا تو ایسےلوگ مسلمان اور امتِ اجابت کہلاتے ہیں، اور جنہوں  نے آپ ﷺ کو نبی نہ مانا یا آپ کی لائی ہوئی کسی بات کا انکار کیا تو ایسے لوگ غیرمسلم ہیں اور "امتِ دعوت" کہلاتے ہیں۔ لہٰذا لفظ امت میں دونوں قسم کے لوگ شامل ہیں

اہل کتاب لڑکی سے نکاح

 واضح رہے کہ مسلمان مرد کا نکاح کسی کافر عورت سے جائز نہیں،البتہ اگرکتابیہ یعنی یہودیہ یا نصرانیہ وغیرہ ہو تو اس سے  مسلمان مرد کا نکاح دو شرطوں کے ساتھ ہو سکتا ہے:

(1)  وہ  صرف نام کی عیسائی/یہودی اور درحقیقت لامذہب دہریہ نہ ہو،بلکہ اپنے مذہبی اصول کوکم ازکم مانتی ہو، اگرچہ عمل میں خلاف بھی کرتی ہو، یعنی اپنے نبی پر ایمان رکھتی ہو اور اس پر نازل ہونے والی کتاب پر بھی ایمان رکھتی ہو، اگرچہ وہ توحید کی قائل نہ ہو۔

(2)  وہ اصل ہی یہودیہ نصرانیہ ہو، اسلام سے مرتدہوکر یہودیت یا نصرانیت اختیار نہ کی ہو۔

جب یہ دو شرطیں کسی کتابیہ عورت میں پائی جائیں  تو اس سے نکاح صحیح و منعقد ہوجاتا ہے، لیکن بلاضرورتِ شدیدہ اس سے نکاح کرنا مکروہ اور بہت مفاسد پر مشتمل ہے۔  آج کل کے پرفتن ماحول میں جب کہ برائی کا اثر قبول کرنے میں اضافہ روز افزوں ہے، اور عام طور پر حال یہ ہے کہ مرد کا اثر بیوی پر قائم ہونے کے بجائے شاطر لڑکیاں مردوں کو اپنا تابع دار بنالیتی ہیں، نیز اہلِ کتاب ماؤں کے فاسد اَثرات اولاد پر بھی بہت زیادہ پڑتے ہیں، اس لیے جواز کے باوجود اہلِ کتاب لڑکیوں سے نکاح نہ کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے، اس لیے حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے عہدِ خلافت میں  مسلمانوں کو کتابیہ عورتوں کے نکاح سےمنع فرمادیاتھا۔

باقی یہ بات کہ  کیا اہلِ  کتاب ہونے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ لوگ اپنی کتاب پر صحیح طور پر ایمان و عمل رکھتے ہوں؟ تو اس کے جواب میں حضرت مولانا مفتی شفیع عثمانی صاحب معارف القرآن میں تحریر فرماتے ہیں :
” اب رہا یہ معاملہ کہ یہود و نصاریٰ کو اہلِ کتاب کہنے اور سمجھنے کے لیے کیا یہ شرط ہے کہ وہ صحیح طور پر اصلی تورات و انجیل پر عمل رکھتے ہوں؟  یا محرف تورات اور انجیل کا اتباع کرنے والے اور عیسیٰ و مریم (علیہما السلام) کو خدا کا شریک قرار دینے والے بھی اہلِ کتاب میں داخل ہیں،  سو قرآنِ کریم کی بے شمار تصریحات سے واضح ہے کہ اہلِ کتاب ہونے کے لیے صرف اتنی بات کافی ہے کہ وہ کسی آسمانی کتاب کے قائل ہوں اور اس کی اتباع کرنے کے دعوے دار ہوں۔ خواہ وہ اس کے اتباع میں کتنی گم راہیوں میں جا پڑے ہوں،  قرآنِ کریم نے جن کو اہلِ کتاب کا لقب دیا، انہیں کے بارے میں یہ بھی جابجا ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ اپنی آسمانی کتابوں میں تحریف کرتے ہیں۔ {یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِه}  اور یہ بھی فرمایا کہ یہود نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا قرار دے دیا اور نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو، {وَقَالَتِ الْیَهُوْدُ عُزَیْرُ نِ ابْنُ اللّٰهِ وَقَالَتِ النَّصٰری الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰهِ}، ان حالات وصفات کے باوجود جب قرآن نے ان کو اہلِ کتاب قرار دیا تو معلوم ہوا کہ یہود و نصاریٰ جب تک یہودیت و نصرانیت کو بالکل نہ چھوڑ دیں وہ اہلِ کتاب میں داخل ہیں۔ خواہ وہ کتنے ہی عقائدِ فاسدہ اور اعمالِ سیئہ میں مبتلا ہوں۔ 


 امام جصاص نے ’’احکام القرآن‘‘  میں نقل کیا ہے کہ حضرت فاروق اعظم (رض) کے عہدِ خلافت میں آپ کے کسی عامل یا گورنر نے ایک خط لکھ کر یہ دریافت کیا کہ یہاں کچھ لوگ ایسے ہیں جو تورات پڑھتے ہیں اور یوم السبت یعنی ہفتہ کے دن کی تعظیم بھی یہود کی طرح کرتے ہیں، مگر قیامت پر ان کا ایمان نہیں، ایسے لوگوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے؟ حضرت فاروق اعظم (رض) نے تحریر فرمایا کہ وہ اہلِ کتاب ہی کا ایک فرقہ سمجھے جائیں گے۔
 صرف نام کے یہودی و نصرانی جو در حقیقت دہریے ہیں وہ اس میں داخل نہیں۔  آج کل یورپ کے عیسائی اور یہودیوں میں ایک بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو اپنی مردم شماری کے اعتبار سے یہودی یا نصرانی کہلاتے ہیں مگر در حقیقت وہ خدا کے وجود اور کسی مذہب ہی کے قائل نہیں۔ نہ تورات و انجیل کو خدا کی کتاب مانتے ہیں اور نہ موسیٰ و عیسیٰ (علیہما السلام) کو اللہ کا نبی و پیغمبر تسلیم کرتے ہیں۔ یہ ظاہر ہے کہ وہ شخص مردم شماری کے نام کی وجہ سے اہلِ کتاب کے حکم میں داخل نہیں ہوسکتے۔ 
 نصاریٰ کے بارے میں جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ ان کا ذبیحہ حلال نہیں، اس کی وجہ یہ بتلائی کہ یہ لوگ دینِ نصرانیت میں سے بجز شراب نوشی کے اور کسی چیز کے قائل نہیں۔ ۔۔ ابنِ جوزی نے سندِ صحیح کے ساتھ حضرت علی (رض) کا یہ قول نقل کیا ہے کہ نصاری بنی تغلب کے ذبائح کو نہ کھاؤ۔ کیوں کہ انہوں نے مذہبِ نصرانیت میں سے شراب نوشی کے سوا کچھ نہیں لیا۔ امام شافعی نے بھی سند صحیح کے ساتھ یہ روایت نقل کی ہے۔(تفسیر مظہری 34، جلد ٣ مائدہ) ۔
 حضرت علی کرم اللہ وجہ کو بنی تغلب کے متعلق یہی معلومات تھیں کہ وہ بےدین ہیں نصرانی نہیں،  اگرچہ نصرانی کہلاتے ہیں،  اس لیے ان کے ذبیحہ سے منع فرمایا۔ جمہور صحابہ وتابعین کی تحقیق یہ تھی کہ یہ بھی عام نصرانیوں کی طرح ہیں،  بالکل دین کے منکر نہیں،  اس لیے انہوں نے ان کا ذبیحہ بھی حلال قرار دیا۔
’’وقال جمهور الأمة: إن ذبیحة کل نصراني حلال سواء کان من بني تغلب أو غیرهم وکذلک الیهود‘‘. (تفسیر قرطبی ص 78، جلد 6)
 اور جمہور امت کہتے ہیں کہ نصرانی کا ذیحہ حلال ہے، خواہ بنی تغلب میں سے ہو، یا ان کے سوا کسی دوسرے قبیلہ اور جماعت سے ہو، اسی طرح ہر یہودی کا ذبیحہ بھی حلال ہے۔ 
 خلاصہ یہ ہے کہ جن نصرانیوں کے متعلق یہ بات یقینی طور پر معلوم ہوجائے کہ وہ خدا کے وجود ہی کو نہیں مانتے یا حضرت موسیٰ و عیسیٰ (علیہما السلام) کو اللہ کا نبی نہیں مانتے،  وہ اہلِ کتاب کے حکم میں نہیں ہیں۔ “ ( سورۂ مائدہ آیت نمبر 5)

سابق مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن صاحب رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:

’’اہلِ کتاب کی لڑکی اگر موجودہ انجیل پر ایمان رکھتی ہے خواہ وہ محرف ہو یا حضرت  عیسیٰ کو نبی مانتی ہو خواہ وہ شرک کرے، یہی حال یہودی لڑکی کا ہے تو ان سے مسلمان کا نکاح جائز ہے، تاہم بہتر نہیں ہے، بصورتِ دیگر اگر یہودی یا نصرانی لڑکی دہریہ ہے،  اپنے نبی یا آسمانی کتاب کو نہیں مانتی تو اس سے مسلمان کا نکاح ناجائز و حرام ہ

کتبہ: ولی حسن (6 رجب المرجب 1399ھ)‘‘ 

"عن نافع عن ابن عمر أنه کان یکره نکاح نساء أهل الکتاب ولایری بطعامهن بأسًا". (المصنف لابن أبي شیبة ۳؍۴۶۳ رقم: ۱۶۱۵۹ دار الکتب العلمیة بیروت)

"عن ابن عمر أنه کره نکاح نساء أهل الکتاب وقرأ: {وَلَاتَنْکِحُوْا الْمُشْرِکٰتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ} [البقرة: ۲۲۱]". (المصنف لابن أبي شیبة ۳؍۴۶۳ رقم: ۱۶۱۶۰ بیروت)

الدرالمختار میں ہے:

"(وصح نكاح كتابية)، وإن كره تنزيهاً (مؤمنة بنبي) مرسل (مقرة بكتاب) منزل، وإن اعتقدوا المسيح إلهاً". (ج:۳،ص:۴۵،ط :سعید) 

وفی الشامیۃ:

"(قوله: مقرة بكتاب) في النهر عن الزيلعي: واعلم أن من اعتقد ديناً سماوياً وله كتاب منزل كصحف إبراهيم وشيث وزبور داود فهو من أهل الكتاب؛ فتجوز مناكحتهم وأكل ذبائحهم. (قوله: على المذهب) أي خلافاً لما في المستصفى من تقييد الحل بأن لايعتقدوا ذلك، ويوافقه ما في مبسوط شيخ الإسلام: يجب أن لايأكلوا ذبائح أهل الكتاب إذا اعتقدوا أن المسيح إله، وأن عزيراً إله، ولايتزوجوا نساءهم، قيل: وعليه الفتوى، ولكن بالنظر إلى الدليل ينبغي أنه يجوز الأكل والتزوج. اهـ.
قال في البحر: وحاصله أن المذهب الإطلاق لما ذكره شمس الأئمة في المبسوط من أن ذبيحة النصراني حلال مطلقاً سواء قال بثالث ثلاثة أو لا؛ لإطلاق الكتاب هنا، والدليل ورجحه في فتح القدير بأن القائل بذلك طائفتان من اليهود والنصارى انقرضوا لا كلهم مع أن مطلق لفظ الشرك إذا ذكر في لسان الشرع لاينصرف إلى أهل الكتاب، وإن صح لغةً في طائفة أو طوائف؛ لما عهد من إرادته به من عبد مع الله تعالى غيره ممن لايدعي اتباع نبي وكتاب إلى آخر ما ذكره. اهـ".
   (ج:۳،ص:۴۵،ط:سعید

گونگے کا قبول اسلام

 خرس" یعنی: گونگا پن، ایسی کیفیت کو کہتے ہیں جس میں انسان  بیماری کی وجہ سے  یا پیدائشی طور پر بول نہ سکے، عربی میں گونگے مرد کو "اخرس" اور مؤنث کو: "خرساء" کہتے ہیں"۔

"لسان العرب" (6/ 62)

چنانچہ کلمہ شہادت پڑھنے سے عاجز کسی گونگے شخص پر کلمہ شہادت کی ادائیگی  کرنا اسلام میں داخل ہونے کیلئے ضروری نہیں ہے۔

اسی کے حکم میں عجمی جو عربی کی ادائگی سے قاصر ہو، اور کلمہ شہادت پڑھنے سے عاجز افراد بھی شامل ہونگے، ایسے ہی دیگر زبانی عبادات کا بھی یہی حکم ہوگا، کیونکہ اس قسم کے لوگوں کے پاس زبانی عبادت کی استطاعت نہیں ہے۔

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"شریعت کے قواعد و کلّیات میں یہ بھی شامل ہے کہ: "عاجز ہونے کی صورت میں کچھ  واجب نہیں ، اور ضرورت  کے وقت کچھ حرام نہیں"" انتہی
"اعلام الموقعین" (2/ 17)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"زبان سے تلفظ ادا کرنا کسی گونگے شخص  کے ایمان لانے کی شرط نہیں ہے" انتہی
"المسائل والأجوبة" (صفحہ: 131)

قاضی عیاض رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اہل السنہ کا یہ موقف ہے کہ: معرفت الہی  کلمہ شہادت کے ساتھ منسلک ہے، دونوں ایک دوسرے کیلئے لازمی ہیں، کوئی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتا، الّا کہ جس شخص کی زبان کٹی ہوئی ہو، یا اسے کلمہ شہادت پڑھنے کی  مہلت ہی نہیں ملی کہ فوت ہو گیا[اس کیلئے کلمہ شہادت کا زبان سے تلفظ لازمی نہیں ہے]" انتہی
"اكمال المعلم بفوائد مسلم"(1/ 253-254)

گونگا شخص  اگر لکھنے کی استطاعت رکھتا ہو تو لکھ کر اسلام قبول کریگا، یا اشاروں کی مدد سے اسلام میں داخل ہونے  پر رضا مندی اور اسلام قبول کرنے کا اظہار کریگا۔

مسند احمد: (7906) اور ابو داود: (3284) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: "ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک سیاہ لونڈی لیکر آیا جو کہ بول نہیں سکتی تھی، اس شخص نے آ کر کہا: "یا رسول اللہ! میرے ذمہ ایک مؤمن غلام کو آزاد کرنا ہے[اور میں اس لونڈی کو آزاد کرنا چاہتا ہوں]"تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لونڈی سے پوچھا: (اللہ تعالی کہاں ہے؟)تو اس لونڈی نے اپنی شہادت والی انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: (میں کون ہوں؟)تو اس لونڈی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اور آسمان کی طرف اشارہ کیا، یعنی: آپ اللہ کے رسول ہیں، تو اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اسے آزاد کر دو)" اس حدیث کو امام ذہبی نے "العلو" (صفحہ:16) میں حسن کہا ہے، اور البانی نے اسے "ضعیف ابو داود "میں  ضعیف قرار دیا ہے۔

صاحب کتاب : "جواهر الإكليل" میں اُبی رحمہ اللہ  (2/ 52) میں لکھتے ہیں:
"۔۔۔کلمہ شہادت کیلئے  زبان سے تلفظ ادا کرنا  لازمی شرط ہے، تاہم گونگے وغیرہ پر شرط نہیں ہے، لیکن  کوئی ایسی بات  یا قرینہ ضرور ہونا چاہیے جس سے قبول اسلام کا اظہار ہو، اس کے بعد اسے مسلمان سمجھا جائے گا، اور اس پر اسلامی احکامات جاری ہونگے" انتہی

مزید تفصیلات کیلئے دیکھیں: "الموسوعة الفقهية" (4/ 278)

Monday 15 April 2024

نیند کی گولیاں کھا کر طلاق

 واضح رہے کہ نیند کی گولیاں اگر نشے کے لیے کھائی جائیں اور اس حالت میں طلاق دی جائے تو طلاق واقع ہوجاتی ہے لہذاسائل کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوگئی ہیں،    نکاح ختم ہوگیا ہے۔سائل کی بیوی اس پر  حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے،  اب رجوع کرنا یا دوبارہ  نکاح کرنا جائز نہیں ہے


فتاوی شامی میں ہے:

"(أو سكران) و لو بنبيذ أو حشيش  أو أفيون أو بنج زجرًا، و به يفتى، تصحيح القدوري، و اختلف التصحيح فيمن سكر مكرهًا أو مضطرًّا، نعم لو زال عقله بالصداع أو بمباح لم يقع. و في القهستاني معزيًا للزاهدي: أنه لو لم يميز ما يقوم به الخطاب كان تصرفه باطلًا. اهـ. 

(قوله:  أو أفيون أو بنج) الأفيون: ما يخرج من الخشخاش. البنج: بالفتح نبت منبت. وصرح في البدائع وغيرها بعدم وقوع الطلاق بأكله معللا بأن زوال عقله لم يكن بسبب هو معصية. والحق التفصيل، و هو إن كان للتداوي لم يقع لعدم المعصية، وإن للهو وإدخال الآفة قصدا فينبغي أن لا يتردد في الوقوع.

وفي تصحيح القدوري عن الجواهر: وفي هذا الزمان إذا سكر من البنج والأفيون يقع زجرا، وعليه الفتوى، وتمامه في النهر (قوله:  زجرا) أشار به إلى التفصيل المذكور، فإنه إذا كان للتداوي لا يزجر عنه لعدم قصد المعصية ط."

(3 / 239، كتاب الطلاق، ط:سعيد)

نشہ آور ادویہ کے استعمال کے بعد طلاق

 بحالت ضرورت نشہ آور ادویہ استعمال کرنے کی وجہ سے اگر نشے کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دیدے تو طلاق واقع نہیں ہوتی، اس لئے صورت مسئولہ میں شخص مذکور کی بیوی پر طلاق واقع نہیں ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الھندیۃ: (353/1، ط: دار الفکر)
وطلاق السكران واقع إذا سكر من الخمر أو النبيذ. وهو مذهب أصحابنا رحمهم الله تعالى كذا في المحيط۔۔۔۔أجمعوا أنه لو سكر من البنج أو لبن الرماك ونحوه لا يقع طلاقه وعتاقه كذا في التهذيب. ومن سكر من البنج يقع طلاقه ويحد لفشو هذا الفعل بين الناس وعليه الفتوى في زماننا كذا في جواهر الأخلاطي.

Sunday 14 April 2024

ایمان میں کیفیت کے اعتبار سے کمی واضافہ

  ایمان میں کیفیت کے اعتبار سے  کمی اور  زیادتی ہوتی  ہے، فرمانِ الہی ہے:

﴿وَمَا جَعَلْنَآ اَصْحٰبَ النَّارِ اِلَّا مَلٰئِكَةً ۠ وَّمَا جَعَلْنَا عِدَّتَهُمْ اِلَّا فِتْنَةً لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوْا ۙ لِيَسْتَيْقِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ وَيَزْدَادَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِيْمَانًا﴾ (المدثر: 31)

ترجمہ: اور ہم نے جہنم کا محافظ فرشتوں کے سوا کسی کو نہیں بنایا، اور ان کی تعداد اُن لوگوں کی آزمائش ہی کے لیے بنائی ہے جنہوں نے کفر کیا؛ تاکہ وہ لوگ جنہیں کتاب دی گئی ہے، اچھی طرح یقین کرلیں اور وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں ایمان میں زیادہ ہو جائیں۔

ایمان کی بڑھوتری کے کچھ اسباب جو قرآن و حدیث میں بیان ہوئے  ہیں:

1-  اللہ تعالی ، اس کے اسماء وصفات کی معرفت؛  جس قدر اللہ تعالی ،اس کے اسماء وصفات کی معرفت میں اضافہ ہوگا بلاشبہ اسی قدر اس کے ایمان بڑھے گا۔

2-  اللہ تعالی کی کائناتی اور شرعی آیات ونشانیوں پر نظر کرنا(غوروفکر کرنا)؛ جب بھی انسان اللہ تعالی کی کائناتی نشانیوں کو دیکھتا ہے جو کہ اس کی مخلوق ہیں تو اس کا ایمان تازہ ہوجاتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

﴿ وَفِي الْاَرْضِ اٰيٰتٌ لِّلْمُوْقِنِيْنَ وَفِيْٓ اَنْفُسِكُمْ ۭ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ﴾ (الذاریات: 20-21)

ترجمہ: اور زمین میں یقین کرنے والوں کے لیے کئی نشانیاں ہیں، اور تمہارے نفسوں میں بھی، تو کیا تم دیکھتے نہیں۔

3-  کثرتِ طاعات (عبادات)؛ کیوں کہ انسان جس قدر کثرت سے طاعات کرے گا اس کے ذریعے ایمان ترو تازہ ہو جائے گا خواہ وہ طاعات (عبادات) قولی ہوں یا فعلی ہوں۔

4-  قرآن کی آیات کی تلاوت کرنا اور ان میں غور وفکر کرنا۔

﴿ وَاِذَا مَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ فَمِنْهُمْ مَّنْ يَّقُوْلُ اَيُّكُمْ زَادَتْهُ هٰذِهٖٓ اِيْمَانًا ۚ فَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَزَادَتْهُمْ اِيْمَانًا وَّهُمْ يَسْتَبْشِرُوْنَ  وَاَمَّا الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ فَزَادَتْهُمْ رِجْسًا اِلٰى رِجْسِهِمْ وَمَاتُوْا وَهُمْ كٰفِرُوْنَ ﴾(التوبۃ: 124-125)

ترجمہ: اور جب بھی کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں اس نے تم میں سے کس کو ایمان میں زیادہ کیا ؟ پس جو لوگ ایمان لائے، سو ان کو تو اس نے ایمان میں زیادہ کردیا اور وہ بہت خوش ہوتے ہیں، اور رہے وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے تو اس نے ان کو ان کی گندگی کے ساتھ اور گندگی میں زیادہ کردیا اور وہ اس حال میں مرے کہ وہ کافر تھے

-ایمانیات  کے تذکرے کرنا، اور اللہ تعالی کی بڑائی کو  بیان کرنا۔''کتاب السنة'' از أبو بكر  الخَلَّال البغدادي الحنبلي (المتوفى: 311هـ) کی روایت ہے کہ صحابہ کرام اس قسم کی مجالس منعقد کرتے تھے۔

"وَأَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ، قَالَ: ثنا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: ثنا وَكِيعٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، وَمِسْعَرٍ، عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ هِلَالٍ، قَالَ: قَالَ مُعَاذٌ:  اجْلِسُوا بِنَا نُؤْمِنْ سَاعَةً".

ترجمہ: حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ نےاسود بن ہلال سے کہا: ہمارے پاس بیٹھو ؛تاکہ ہم کچھ ساعت ایمان تازہ کریں۔

 "شعبِ الإیمان للبیهقي" میں اس طرح کا قول حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے منسوب کیا گیا ہے:

"أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَيُّوبَ، حدثنا عَبْدُ اللهِ بْنُ الْجَرَّاحِ، حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ شِبَاكٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ أَنَّهُ قَالَ: "اجْلِسُوا بِنَا نَزْدَدْ إِيمَانًا".

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے علقمہ سے کہا: ہمارے ساتھ بیٹھو ؛ کہ ایمان میں اضافہ کریں۔

" مصنف ابن ابی شیبہ" میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے:

"حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ زُبَيْدٍ، عَنْ زِرٍّ، قَالَ: كَانَ عُمَرُ مِمَّا يَأْخُذُ بِيَدِ الرَّجُلِ وَالرَّجُلَيْنِ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَيَقُولُ: «قُمْ بِنَا نَزْدَدْ إِيمَانًا».

حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ  اپنے اصحاب میں سے ایک یا دو کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا کرتے تھے: آ جاؤ ہم ایمان بڑھائیں، پس اللہ عز و جل کا ذکر کریں۔

ایمان کامضبوط ہونا ہی نفاق کو دور کرتا ہے، لہذا جتنا ایمان مضبوط ہوگا اتنا ہی نفاق سے دوری ہوگی۔ نیز احادیث میں چند اعمال کا بھی ذکر ہے جن سے آدمی نفاق سے بچتا ہے


ایمان میں کمی واضافہ

 ایمان میں مومن بہ (جن چیزوں پر ایمان لانا ہے) اس میں اب کمی زیادتی نہیں ہوتی، اجزائے ایمان کی زیادتی زمانہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ہوتی تھی بایں معنی کہ ایک آیت یا حکم نازل ہوا اور مسلمانوں نے اس کو قبول کیا پھر دوسرا حکم آیا اس کو مان کر ایمان زیادہ ہوا اور پھر اور حکم آیا اس کو قبول کرکے اور زیادہ ہوگیا وعلی ہذا القیاس احکام بڑھتے جاتے تھے، ایمان بھی زیادہ ہوتا جاتا تھا جب خاتم الانبیاء علیہ السلام اس دار فانی سے کوچ فرماگئے تو احکام ختم ہوچکے ایمان بھی ایک معین حد پر ٹھہر گیا اب کمی زیادتی ایمان میں بایں معنی نہیں ہوسکتی اگر کوئی ان احکام پر کوئی زائد حکم کردے وہ بھی کافر اورجو ایک حکم ضروری کو نہ مانے وہ بھی کافر اس معنی کے اعتبار سے مومنین انبیاء اور ملائکہ سب کا ایمان برابر ہے، قال تعالیٰ: آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَیْہِ مِنْ رَبِّہِ وَالْمُؤْمِنُونَ، البتہ ایمان کی کیفیت میں کمی زیادتی ہوتی ہے، یقین اور اعمالِ صالحہ پر مداومت کرنے والوں کا ایمان کیفاً بڑھتا رہتا ہے بنسبت دوسرے لوگوں کے، یہی وجہ ہے کہ خواصِ بشر خواص ملائکہ سے اور اوساطِ بشر خواص ملائکہ کے علاوہ سے بڑھے ہوئے ہیں، وحاصلہ أنہ قسم البشر إلی ثلاثة أقسام: خواص کالأنبیاء وأوساط کالصالحین من الصحابة وغیرہم۔ وعوام کباقی الناس. وقسم الملائکة إلی قسمین: خواص کالملائکة المذکورین وغیرہم کباقی الملائکة۔ وجعل خواص البشر أفضل من الملائکة خاصہم وعامہم، وبعدہم فی الفضل خواص الملائکة فہم أفضل من باقی البشر أوساطہم وعوامہم وبعدہم أوساط البشر فہم أفضل ممن عدا خواص الملائکة؛ وکذلک عوام البشر عند الإمام کأوساطہم فالأفضل عندہ خواص البشر، ثم خواص الملک، ثم باقی البشر۔ وعندہما خواص البشر ثم خواص الملک، ثم أوساط البشر، ثم باقی الملک․(شامي: ۲/۲۴۳)

دعاء سے تقدیر بدل جاتی ہے

 دعا کے بارے میں حدیث شریف میں ہے۔

وعن سلمان الفارسي قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لا يرد القضاء إلا الدعاء ولا يزيد في العمر إلا البر " (سنن ترمذی،حدیث نمبر:2139)
ترجمہ:
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دعا کے سوا کوئی چیز تقدیر کو نہیں ٹالتی ہے اور نیکی کے سوا کوئی چیز عمر میں اضافہ نہیں کرتی ہے۔

تشریح:
محدثین کرام کے اس حدیث شریف کی تشریح میں دو قول ہیں۔
پہلا قول یہ ہے کہ تقدیر سے مراد ہے، ایسی ناپسندیدہ چیز کا پیش آنا، جس سے انسان ڈرتا ہے، لہٰذا حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ جب بندہ کو دعا کرنے کی توفیق ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے ایسی چیز کو دور کرتا ہے۔

بعض محدثین کے نزدیک اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ قضا وتقدیر بدلتی نہیں ہے ، اگر بالفرض بدلتی تو دعا سے بدل جاتی، یعنی تقدیر کی پختگی کو بتانا مقصود ہے، نیز دعاکی اہمیت کو ذہن نشین کرانا ہے۔

دوسرا قول محدثین کرام نے یہ بیان ہے کہ تقدیر کی دو قسمیں ہیں:
مبرم اور معلق
تقدیر مبرم: یہ اللہ تعالیٰ کا اٹل اور آخری فیصلہ ہوتا ہے ، جس کو اللہ تعالی کے حکم سے لوح محفوظ میں لکھ دیا جاتا ہے اور جو چیز پیش آنے والی ہوتی ہے، اس میں کچھ بھی تغیر و تبدیلی ممکن نہیں ہوتی ہے۔
تقدیر معلق: جس میں بعض اسباب کی بنا پر تغیر و تبدیلی بھی ہوتی ہے اور یہ ﷲتعالیٰ کی طرف سے وعدہ ہے کہ اگر کوئی بندہ چاہے تو ہم اس کےنیک عمل  اور دعا کے ساتھ ہی اس کی تقدیر بھی بدل دیں گے۔ سورۃ الرعد میں ارشاد فرمایا :
يَمْحُو اللّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِO [الرعد : 13، 39]
ترجمہ: ’’اللہ جس (لکھے ہوئے) کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جسے چاہتا ہے) ثبت فرما دیتا ہے اور اسی کے پاس اصل کتاب (لوح محفوظ) ہے۔‘‘
لہٰذا یہاں حدیث میں جس تقدیر کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ دعا سے بدل جاتی ہے، وہ تقدیر معلق ہے اور جو کہا جاتا ہے کہ تقدیر لکھی جاچکی ہے، اس میں تبدیلی نہیں ہوتی ہے، اس سے مراد تقدیر مبرم ہے، جو اس حدیث میں مراد نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

لمافی مرقاة المفاتيح:
الْقَضَاءُ: هُوَ الْأَمْرُ الْمُقَدَّرُ، وَتَأْوِيلُ الْحَدِيثِ أَنَّهُ أَرَادَ بِالْقَضَاءِ مَا يَخَافُهُ الْعَبْدُ مِنْ نُزُولِ الْمَكْرُوهِ بِهِ وَيَتَوَقَّاهُ، فَإِذَا وُفِّقَ لِلدُّعَاءِ دَفَعَهُ اللَّهُ عَنْهُ، فَتَسْمِيَتُهُ قَضَاءً مَجَازٌ عَلَى حَسَبِ مَا يَعْتَقِدُهُ الْمُتَوَقِّي عَنْهُ، يُوَضِّحُهُ قَوْلُهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فِي الرَّقْيِ: هُوَ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ، وَقَدْ أَمَرَ بِالتَّدَاوِي وَالدُّعَاءِ مَعَ أَنَّ الْمَقْدُورَ كَائِنٌ لِخَفَائِهِ عَلَى النَّاسِ وُجُودًا وَعَدَمًا، وَلَمَّا بَلَغَ عُمَرُ الشَّامَ وَقِيلَ لَهُ: إِنَّ بِهَا طَاعُونًا رَجَعَ، فَقَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ أَتَفِرُّ مِنَ الْقَضَاءِ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ! فَقَالَ: لَوْ غَيْرُكَ قَالَهَا يَا أَبَا عُبَيْدَةَ، نَعَمْ نَفِرُّ مِنْ قَضَاءِ اللَّهِ إِلَى قَضَاءِ اللَّهِ، أَوْ أَرَادَ بِرَدِّ الْقَضَاءِ إِنْ كَانَ الْمُرَادُ حَقِيقَتَهُ تَهْوِينَهُ وَتَيْسِيرَ الْأَمْرِ، حَتَّى كَأَنَّهُ لَمْ يَنْزِلْ. يُؤَيِّدُهُ قَوْلُهُ فِي الْحَدِيثِ الْآتِي: «الدُّعَاءُ يَنْفَعُ مِمَّا نَزَلَ وَمِمَّا لَمْ يَنْزِلْ» ، وَقِيلَ: الدُّعَاءُ كَالتُّرْسِ، وَالْبَلَاءُ كَالسَّهْمِ، وَالْقَضَاءُ أَمْرٌ مُبْهَمٌ مُقَدَّرٌ فِي الْأَزَلِ۔۔۔۔۔۔وَالْحَاصِلُ أَنَّ الْقَضَاءَ الْمُعَلَّقَ يَتَغَيَّرُ، وَأَمَّا الْقَضَاءُ الْمُبْرَمُ فَلَا يُبَدَّلُ وَلَا يُغَيَّرُ.
(ج:5، ص: 120، ط: دارالکتب العلمیة بیروت )

وفی مرقاة المفاتيح:
قَالَ الْمُظْهِرُ: اعْلَمْ أَنَّ لِلَّهِ تَعَالَى فِي خَلْقِهِ قَضَاءَيْنِ مُبْرَمًا وَمُعَلَّقًا بِفِعْلٍ، كَمَا قَالَ: إِنْ فَعَلَ الشَّيْءَ الْفُلَانِيَّ كَانَ كَذَا وَكَذَا، وَإِنْ لَمْ يَفْعَلْهُ فَلَا يَكُونُ كَذَا وَكَذَا مِنْ قَبِيلِ مَا يَتُوقُ إِلَيْهِ الْمَحْوُ وَالْإِثْبَاتُ، كَمَا قَالَ تَعَالَى فِي مُحْكَمِ كِتَابِهِ: {يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ} [الرعد: 39] وَأَمَّا الْقَضَاءُ الْمُبْرَمُ؟ فَهُوَ عِبَارَةٌ عَمَّا قَدَّرَهُ سُبْحَانَهُ فِي الْأَزَلِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يُعَلِّقَهُ بِفِعْلٍ؟ فَهُوَ فِي الْوُقُوعِ نَافِذٌ غَايَةَ النَّفَاذِ بِحَيْثُ لَا يَتَغَيَّرُ بِحَالٍ، وَلَا يَتَوَقَّفُ عَلَى الْمَقْضِي عَلَيْهِ وَلَا الْمُقْتَضِي لَهُ، لِأَنَّهُ مِنْ عِلْمِهِ بِمَا كَانَ وَمَا يَكُونُ وَخِلَافُ مَعْلُومِهِ مُسْتَحِيلٌ قَطْعًا، وَهَذَا مِنْ قِبَلِ مَا لَا يَتَطَرَّقُ إِلَيْهِ الْمَحْوُ وَالْإِثْبَاتُ. قَالَ تَعَالَى: {لَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهِ} [الرعد: 41] وَقَالَ النَّبِيُّ عَلَيْهِ السَّلَامُ: «لَا مَرَدَّ لِقَضَائِهِ وَلَا مَرَدَّ لِحُكْمِهِ» . فَقَوْلُهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - " «إِذَا قَضَيْتُ قَضَاءً فَلَا يُرَدُّ» " مِنَ الْقَبِيلِ الثَّانِي وَلِذَلِكَ لَمْ يُجِبْ إِلَيْهِ۔(ج:10، ص: 430، ط: دارالکتب العلمیة بیروت )