https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Wednesday 5 August 2020

انصاف کاخون

بھومی پوجن یاہمیشہ کےلئے تدفین انصاف؟

بابری مسجد کے مقام پر مندر کا سنگ بنیاد ,یعنی ہندوستانی قانون و انصاف اور سیکولرازم کوہمیشہ کے لئے دفنانے کی تیاری,ہندوستانی وزیراعظم مودی کل بروزبدھ 5اگست 2020نام نہاد انصاف کو ہمیشہ کے لئے دفن کردیں گے جس کا خاتمہ جسٹس رنجن گوگوئی نے کیا تھا.مسٹر گوگوئی کو انصاف کاخون کرنے کے عوض راجیہ سبھا کی کرسی ملی اور درپردہ جو دیاگیا اس کا انکشاف تاریخ کرے گی .انصاف کاخون کرکے گوگوئی نے ہندودستانی سپریم کورٹ کوہمیشہ کے لئے ذلیل ورسوا کردیا اوربتادیاکہ یہاں فیصلہ "جس کی لاٹھی اس کی بھینس" کے اصول پر ہوتاہے.لعنت ایسے انصاف اور منصف پر.

اسی کاعدل اسی کے گواہ وہی منصف

مجھے معلوم ہے میراقصور نکلے گا


بابری مسجد مغل بادشاہ ظہیر الدین محمد بابر ( 1483ء - 1531ء) کے دورمیں 
 دربار بابری سے منسلک ایک نامور شخص میر باقی کے ذریعہ سن 1527ء میں اتر پردیش میں ایودھیا کے مقام میں تعمیر کی گئی۔ یہ مسجد اسلامی مغل فن تعمیر کے اعتبار سے ایک شاہکار تھی۔ بابری مسجد کے اوپر تین گنبد تعمیر کیے گئے جن میں درمیانی گنبد بڑا اور اس کے ساتھ دو چھوٹے گنبد تھے۔ گنبد کے علاوہ مسجد کو پتھروں سے تعمیر کیا گیا تھا جس میں صحن بھی شامل تھا۔ صحن میں ایک کنواں بھی کھودا گیا۔ گنبد چھوٹی اینٹوں سے بنا کر اس پر چونا کا پلستر کیا گیا تھا۔ مسجد کو ٹھنڈا رکھنے کی غرض سے اس کی چھت کو بلند بنایا گیا روشنی اور ہوا کے لیے جالی دار کھڑکیاں نصب تھیں۔ اندرونی تعمیر میں ایک انتہائی خاص بات یہ تھی کہ محراب میں کھڑے شخص کی سرگوشی کو مسجد کے کسی بھی اندرونی حصے میں آسانی سے سنا جا سکتا تھا۔ الغرض یہ اسلامی فن تعمیر کا شاہکار تھا۔ بابری مسجد کو 1992ء میں انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں شہید/مسمار کر دیا گیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے ایل کے اڈوانی کی قیادت میں سخت گیر تنظیموں وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل اور شیو سینا کے ساتھ رام مندر کی تعمیر کے لیے ایک تحریک چلائی تھی۔ تحریک کے دوران 6 دسمبر 1992ءکو ہزاروں ہندو کارسیوکوں نے بی جے پی اور وشو ہندو پریشد کے ا علیٰ رہنماؤں اور نیم فوجی دستوں کے سینکڑوں مسلح جوانوں کی موجودگی میں تاریخی مسجد کو منہدم کر دیا تھا۔ جس کے بعد دہلی اور ممبئی سمیت ہندستان میں تقریباً دو ہزار مسلمانوں کو ہندو مسلم فسادات میں مار دیا گیا۔ بابری مسجد کے انہدام سے پہلے ہندو مظاہرے کے منتظمین نے یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ مسجد کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ اس مظاہرے میں ہندستان بھر سے تقریباً ڈیڑھ سے دو لاکھ لوگوں نے شرکت کی تھی۔ بابری مسجد ہندووں کے نظریہ کے مطابق رام کی جنم بھومی پر یا رام مندر پر تعمیر کی گئی۔ جب کہ مسلمان اس نظریہ کو مسترد کرتے ہیں۔ بابری مسجد کا تنازع اس وقت بھی مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان شدید نزاع کا باعث ہے اور اس مقدمہ کا فیصلہ سپریم کورٹ نے اس طر ح کیا کہ متنازع جگہ ہندوؤں کے سپرد کردی بغیرکسی ثبوت ودلائل کیونکہ سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں یہ تسلیم کیا ہے کہ مسجد کسی مندر کوتوڑ کر نہیں بنائی گئی اس کے باوجود جنہوں نے قانون توڑا انہیں کووہ اراضی سونپ دی مسلمانوں کے لئے اجودھیاکے کسی نمایاں مقام پرمسجد کےلئے زمین دینے کاحکم کیا یوپی حکومت نے جوزمین مسجد کے لئے دی ہے وہ اجودھیا سے دور پچیس کلومیٹر ایک گاؤں میں ہے.کیا یہی انصاف ہے کیاوہ گاؤں ہی اجودھیاکانمایاں مقام ہے اس پر کسی انصاف پسند ہندوستانی کچھ کہنے کی جرأت نہیں کی جبکہ یہ اس نام نہاد فیصلہ کاحصہ ہے ۔




No comments:

Post a Comment