https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Thursday 9 December 2021

اسلام میں سن رسیدہ افراد کے حقوق

 اسلام میں بوڑھوں کے حقوق

اللہ تعالیٰ نے انسان کے زندگی کو عام طور پر ان چار مراحل میں تقسیم کیا ہے: بچپن ، لڑکپن ، جوانی اور بڑھاپا ۔ پیدائش سے لے کر جوان ہونے تک یعنی ابتدائی تین مراحل میں انسان کی رہائش و خوراک،خوشی وراحت ، تعلیم وتربیت، معاشی کفالت، شادی بیاہ ودیگر مالی و جسمانی ا وراخلاقی وتمدنی تمام تر ضروریات کو پورا کرنے کےلیے والدین اپنی تمام توانائیاں قربان کرتے کرتے بوڑھے ہو جاتے ہیں ۔لیکن جب یہ ”اختتامِ زندگی“ کا پروانہ ہاتھ میں تھامے بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے تو ہمارا ظالم سماج اس سے نظریں پھیر لیتا ہے حالانکہ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب اسے سکون ،راحت ، خدمت ، محبت اور دیکھ بھال کی ضرورت پڑتی ہے ۔
اولڈ ہومز کی حالت زار:
وہ تہذیب جس کی نقالی کرنے میں آج کا مسلمان اتراتا پھرتا ہے اس تہذیب میں سن رسیدہ افراد کو محض بوجھ تصور کیا جاتا ہے ، گھریلو نظام زندگی میں ان کو یکسر بے دخل کرتے ہوئے ”اولڈ ہومز “کے احاطے میں ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے جہاں یہ طبقہ پل پل جیتا اور پل پل میں مرتا ہے بالآخر وہ اپنی محبتوں اور آرزوؤں کو حسرتوں کےبوسیدہ کفن میں دفنا دیتا ہےجبکہ دوسری طرف اسلامی تعلیمات میں بوڑھے اور سن رسیدہ افرادلائق عزت وتکریم ، باعث برکت و رحمت ، حصول رزق اور نصرت خداوندی کا سبب ہیں۔ اسلام اس طبقے کو قابل صد احترام بتلاتا ہے، ان کے ساتھ نرم گفتاری ،حسن سلوک اورجذبہ خیرخواہی کا حکم دیتا ہے جبکہ ان کی خلاف مزاج باتوں پر صبر وتحمل سے پیش آنے کی تلقین کرتا ہے ۔
منبر ومحراب کی ذمہ داری:
منبر و محراب سے جس طرح عقائد و عبادات کی تبلیغ علماء کرام کی ذمہ داری ہے اسی طرح اسلام کے طرزِ معاشرت اور اس کی اخلاقی تعلیمات سے آگاہ کرنا بھی انہی کے فرائض منصبی میں داخل ہے۔اللہ تعالیٰ کے ہاں سن رسیدہ افراد بالخصوص جبکہ وہ والدین ہوں ان کی کیا قدر ومنزلت ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔
بوڑھے والدین سے حسن سلوک:
وَقَضَى رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلاَهُمَا فَلاَ تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّ وَلاَ تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلاً كَرِيمًا وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا۔
سورۃ بنی اسرائیل ، رقم الآیۃ: 23
ترجمہ: اور آپ کے رب نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آؤ، اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہو جائیں تو انہیں ’’اُف‘‘بھی نہ کہو اور جھڑکو بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کرو۔ اور ان دونوں کے لیے نرم دلی سے عاجزی و انکساری کے بازو جھکائے رکھو اور (اﷲ کے حضور) یہ فریاد کرتے رہو کہ اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (پیار و محبت سے) پالا تھا۔
بڑھاپے میں چڑچڑا پن :
اللہ رب العزت نے اپنی عبادت کے بعد والدین سے حسن سلوک کا حکم دیا بطور خاص جب وہ بوڑھے ہو جائیں۔ یہ عمر کا وہ حصہ ہوتا ہےجب انسان کی قوت برداشت اور تحمل کم جبکہ چڑچڑا پن زیادہ ہو جاتا ہے اس لیے حکم دیا کہ والدین جب بوڑھے ہوجائیں تو ان کی باتوں سے دلبرداشتہ ہو کرانہیں عزت سے محروم نہ کرو ۔
اسلام میں بوڑھا ہونے والا:
عَنْ کَعْبِ بْنِ مُرَّۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ شَابَ شَيْبَةً فِي الْإِسْلَامِ كَانَتْ لَهُ نُورًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ۔
جامع الترمذی، باب ماجاء فی فضل من شاب شیبۃ فی سبیل اللہ، الرقم: 1558
ترجمہ: حضرت کعب بن مرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جونوجوان اسلام میں بوڑھا ہو ا قیامت کے دن اس کے لیے ایک نور ہوگا۔
فائدہ: یہ وہ وقت ہو گا کہ جب لوگ اندھیروں میں سرگرداں پھر رہے ہوں گے اور ایمان والوں سے درخواست کریں گے کہ ہمیں اپنے نور سے فائدہ اٹھانے دو ۔ ایسے وقت میں بوڑھوں کو اللہ کی طرف سے نور کا عطا ہونا کتنا بڑا انعام ہوگا!
بڑھاپے کے سفید بال:
عَنْ عَمْرَو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَنْتِفُواالشَّيْبَ فَإِنَّهُ مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَشِيبُ فِي الْإِسْلَامِ إِلَّا كَتَبَ اللهُ لَهُ بِهَا حَسَنَةً وَحَطَّ عَنْهُ بِهَا خَطِيئَةً ۔
السنن الکبری للبیہقی ، الرقم: 14828
ترجمہ: حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سفید بالوں کو ختم نہ کرو کیونکہ جو مسلمان اسلام کی حالت میں بوڑھا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے ہر سفید بال کے بدلے ایک نیکی لکھتے ہیں اور ایک گناہ معاف فرماتے ہیں۔
فائدہ: بڑھاپے کے سفید بالوں کا اللہ کریم اتنا حیا فرماتے ہیں ۔
بوڑھے شخص کی دعا:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّوَجَلَّ لَيَسْتَحْيِي مِنْ ذِي الشَّيْبَةِ الْمُسْلِمِ إِذَا كَانَ مُسَدَّدًا لَزُومًا لِلسُّنَّةِ أَنْ يَسْأَلَ اللَّهَ فَلَا يُعْطِيَهُ۔
المعجم الاوسط ، الرقم: 5286
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقیناً اللہ تعالیٰ اس بات سے حیا فرماتے ہیں کہ کوئی بوڑھا مسلمان جو استقامت کے ساتھ سنت پر عمل کرنے والا ہو وہ اللہ سے دعا مانگے اور اللہ اس کی دعا کو قبول نہ فرمائے ۔
فائدہ: معلوم ہوا کہ بوڑھوں سے دعائیں لینی اور کرانی چاہییں۔ یہاں اس فرق کو بھی اچھی طرح ذہن نشین فرما لیں کہ دعائیں کرانا اور دعائیں لینا دونوں میں فرق ہے۔ ”دعا لینا“ اسے کہتے ہیں کہ آپ کسی کی خدمت کریں اور وہ خوش ہو کر آپ کو دعائیں دے جبکہ ”دعا کرانا“ اسے کہتے ہیں کہ کسی دوسرے سے دعا کی درخواست کی جائے اگرچہ دعا کرانا بھی ثابت ہے لیکن اصل بات دعائیں لینا ہے۔
بوڑھے مسلمان کی عزت:
عَنْ أَبِى مُوسَى الأَشْعَرِىِّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ مِنْ إِجْلاَلِ اللَّهِ إِكْرَامَ ذِى الشَّيْبَةِ الْمُسْلِمِ وَحَامِلِ الْقُرْآنِ غَيْرِ الْغَالِى فِيهِ وَالْجَافِى عَنْهُ وَإِكْرَامَ ذِى السُّلْطَانِ الْمُقْسِطِ۔
سنن ابی داؤد ، باب فی تنزیل الناس منازلھم ، الرقم: 4845
ترجمہ: حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بوڑھے مسلمان کی عزت کرنااللہ رب العزت کی عظمت بجا لانے میں سے ہے اور قرآن کریم کا اعتدال پسند عالم اور انصاف پسند بادشاہ کی عزت کرنا بھی اللہ کی عظمت بجا لانے میں سے ہے۔
فائدہ: معلوم ہوا کہ بوڑھوں کی عزت کرنا اللہ کی عظمت بجا لانے میں سے ہے ۔
بڑوں کی عزت:
عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا وَيُعَظِّمْ كَبِيرَنَا۔
شعب الایمان للبیہقی ، باب فی رحم الصغیر وتوقیر الکبیر ، الرقم: 10476
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی تعظیم نہ کرے تو اس کا ہمارے ساتھ دینی رشتہ بہت ہی کمزور ہے۔
فائدہ: اس سے بڑی محرومی اور کیا ہو گی کہ اللہ کے رسول ایسے شخص کو ”اپنا“ کہنے کو تیار نہیں جو بوڑھوں کی عزت نہیں کرتا اور چھوٹوں پر شفقت نہیں کرتا۔
بوڑھے شخص کو مجلس میں جگہ دیں:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يُوَسَّعُ الْمَجْلِسُ إِلَّا لِثَلَاثَةٍ: لِذِي سِنٍّ لِسِنِّهِ وَذِي عِلْمٍ لِعِلْمِهِ وَذِي سُلْطَانٍ لِسُلْطَانِهِ۔
شعب الایمان للبیہقی ، باب فی رحم الصغیر وتوقیر الکبیر ، الرقم: 10484
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجلس میں تین طرح کے لوگوں کے لیے وسعت پیدا کرو ۔ بڑے کےلیے اس کے عمر میں بڑا ہونے کی وجہ سے ، عالم کے لیے اس کے علم کی وجہ سے اور سردار کے لیے اس کی سرداری کی وجہ سے ۔
فائدہ: جہاں چند لوگ بیٹھے ہوں وہاں اگر کوئی بڑی عمر )سن رسیدہ / بوڑھا ( یا عالم یا کسی قوم یا برادری کا سردار آجائے تو اس کے لیے مجلس میں بیٹھنے کی گنجائش پیدا کی جائے، یہ اس کی عزت کا باعث ہے ۔
بڑوں کو بات کرنے دیں:
عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ وَسَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا أَنَّهُمَا حَدَّثَاهُ أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ سَهْلٍ وَمُحَيِّصَةَ بْنَ مَسْعُودٍ أَتَيَا خَيْبَرَ فَتَفَرَّقَا فِي النَّخْلِ فَقُتِلَ عَبْدُ اللهِ بْنُ سَهْلٍ فَجَاءَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ وَحُوَيِّصَةُ وَمُحَيِّصَةُ ابْنَا مَسْعُودٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَكَلَّمُوا فِي أَمْرِ صَاحِبِهِمْ فَبَدَأَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ وَكَانَ أَصْغَرَ الْقَوْمِ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَبِّرِ الْكُبْرَ۔
صحیح البخاری باب اکرام الکبیر ویبداء اکبربالکلام والسوال ، الرقم: 6142
ترجمہ: حضرت رافع بن خدیج اور سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود رضی اللہ عنھما خیبر پہنچے وہاں جا کر کجھوروں کے باغات میں جدا جدا ہو گئے اسی دوران عبداللہ بن سہل قتل کردیئے گئے تو عبدالرحمٰن بن سہل اور مسعود کے بیٹے حویصہ اور محیصہ رضی اللہ عنھم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئےاور اپنے ساتھی کے بارے بات چیت کی تو گفتگو کی ابتداء عبدالرحمن نے کی جب کہ وہ سب سے چھوٹے تھے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا :بڑے کے مرتبے اور عزت کا خیال رکھو)یعنی بڑوں کو بات کرنے دو (
تمہارا بڑا کون ہے؟
عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَدِمَ وَفْدُ جُهَيْنَةَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَامَ غُلَامٌ يَتَكَلَّمُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَهْ! فَأَيْنَ الْكِبَرُ
شعب الایمان للبیہقی ، باب فی رحم الصغیر وتوقیر الکبیر ، الرقم: 10486
ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جہینہ قبیلے کا ایک وفد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ان میں سے ایک کم عمر لڑکا بات کرنے لگا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:رکو!تمہارا بڑا کون ہے ؟ ) بات کرنے کا زیادہ حقدار وہی ہے (
فائدہ: وفد میں ترجمان کے طور پر بات کرنے کا حقدار وہ ہے جو بڑی عمر کا ہو۔ ہاں اگر مشورے سے یہ طے کر لیا جائے کہ بات فلاں کرے گا خواہ وہ عمر میں چھوٹا ہی کیوں نہ ہو، تو درست ہے۔ بڑوں کی موجودگی میں چھوٹے از خود بات شروع نہ کریں ۔
چھوٹا شخص بڑے کو سلام کرے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسَلِّمُ الصَّغِيرُ عَلَى الْكَبِيرِ۔
صحیح البخاری، باب تسلیم الصغیر علی الکبیر، الرقم: 6234
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چھوٹی عمر والے بڑی عمر والے کو سلام کریں۔
فائدہ : بڑوں کی عمر اور ان کی بزرگی کا لحاظ کرتے ہوئے چھوٹوں کو چاہیے کہ وہ سلام کرنے میں ابتداء کریں تاکہ بڑوں کا فطری تقاضا پورا ہو اور انہیں یہ احساس ہو کہ ہماری معاشرے میں قدر ہے ۔
نماز کی امامت:
عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَدِمْنَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ شَبَبَةٌ فَلَبِثْنَا عِنْدَهُ نَحْوًا مِنْ عِشْرِينَ لَيْلَةً وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَحِيمًا فَقَالَ لَوْ رَجَعْتُمْ إِلَى بِلَادِكُمْ فَعَلَّمْتُمُوهُمْ مُرُوهُمْ فَلْيُصَلُّوا صَلَاةَ كَذَا فِي حِينِ كَذَا وَصَلَاةَ كَذَا فِي حِينِ كَذَا وَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاةُ فَلْيُؤَذِّنْ لَكُمْ أَحَدُكُمْ وَلْيَؤُمَّكُمْ أَكْبَرُكُمْ۔
صحیح البخاری، باب اذا استووا فی القراءۃ فلیومھم اکبرھم، الرقم: 685
ترجمہ: حضرت مالک بن الحویرث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں اپنے قبیلہ کے چند افراد کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں ہم بیس راتیں ٹھہرے ،آپ انتہائی مہربان تھے۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جب تم اپنے علاقے میں جاؤ، اپنے قبیلے والوں کو دین کی تعلیم دو ، انہیں نماز پڑھنے کا کہو کہ فلاں فلاں وقت میں فلاں فلاں نماز ادا کرو ۔اور جب نماز کا وقت ہو تو تم میں سے ایک شخص اذان دے اور جو عمر میں سب سے بڑا ہو وہ تمہاری امامت کرائے۔
فائدہ: عبادات میں سب سے زیادہ اہم رکن نماز ہے اور اس کی امامت کےلیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر میں بڑے شخص کو ترجیح دی ہے ۔
نماز میں بوڑھوں کی رعایت:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا أَمَّ أَحَدُكُمْ النَّاسَ فَلْيُخَفِّفْ فَإِنَّ فِيهِمْ الصَّغِيرَ وَالْكَبِيرَ وَالضَّعِيْفَ وَالْمَرِيْضَ فَإِذَا صَلَّى وَحْدَهُ فَلْيُصَلِّ كَيْفَ شَاءَ۔
جامع الترمذی ، باب ماجاء اذا ام احدکم الناس فلیخفف، الرقم: 219
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب تم میں سے کوئی لوگوں کا امام بن کر انہیں نماز پڑھائے تو اسے چاہیے کہ ہلکی پھلکی نماز پڑھائے(یعنی زیادہ لمبی نہ کرے) کیونکہ مقتدیوں میں کمزور،بیمار اور بوڑھے بھی ہوتے ہیں۔
عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللهِ لَا أَكَادُ أُدْرِكُ الصَّلَاةَ مِمَّا يُطَوِّلُ بِنَا فُلَانٌ فَمَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَوْعِظَةٍ أَشَدَّ غَضَبًا مِنْ يَوْمِئِذٍ فَقَالَ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّكُمْ مُنَفِّرُونَ فَمَنْ صَلَّى بِالنَّاسِ فَلْيُخَفِّفْ فَإِنَّ فِيهِمُ الْمَرِيضَ وَالضَّعِيفَ وَذَا الْحَاجَةِ
صحیح البخاری، باب الغضب فی الموعظۃ والتعلیم اذا رائ ما یکرہ، الرقم: 90
ترجمہ : حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں فلاں شخص کی وجہ سے نماز میں شریک نہیں ہوتا، کیونکہ وہ بہت لمبی نماز پڑھاتے ہیں۔ ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ علیہ وسلم کو کبھی وعظ اور خطبہ کہ حالت میں اس دن سے زیادہ غصے کی حالت میں نہیں دیکھا،پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے بعض وہ لوگ ہیں جو ( اپنے نامناسب طرزِعمل سے لوگوں کو ) دور بھگانے والے ہیں،جو کوئی تم میں سے لوگوں کا امام بنے اور ان کو نماز پڑھائے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ نماز مختصر پڑھائے،کیونکہ ان نماز پڑھنے والوں میں کمزور )بوڑھے، بڑی عمر والے (بھی ہوتے ہیں اسی طرح وہ لوگ بھی ہوتے ہیں جو ضروری کام والے بھی ہوتے ہیں۔
فائدہ: وہ لوگ جن کی اقتداء میں بوڑھے اور کمزور لوگ نماز پڑھے ہوں انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہر وقت پیش نظر رکھنا چاہیے ۔
بوڑھوں کی عزت پر انعام خداوندی:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَكْرَمَ شَابٌّ شَيْخًا لِسِنِّهِ إِلَّا قَيَّضَ اللَّهُ لَهُ مَنْ يُكْرِمُهُ عِنْدَ سِنِّهِ۔
جامع الترمذی، باب ماجا فی اجلال الکبیر، الرقم: 1945
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو جوان کسی بوڑھے کی بڑھاپے کی وجہ سے عزت کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس جوان کے لیے کسی کو مقرر فرما دیتے ہیں جو اس کے بڑھاپے میں اس کی عزت کرے۔
فائدہ: ہر شخص بشرط زندگی بچپن، لڑکپن اور جوانی کی بہاریں دیکھنے کے بعد بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے اس وقت وہ دوسروں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے، بوڑھوں کی عزت کرنے سے اللہ کریم ایسے شخص کی یہ منزل آسان فرما دیتے ہیں۔
جنت میں نبی کا پڑوس:
عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا أَنَسُ! وَقِّرِ الْكَبِيرَ وَارْحَمِ الصَّغِيرَ تُرَافِقُنِي فِي الْجَنَّةِ۔
شعب الایمان للبیہقی ، باب فی رحم الصغیر وتوقیر الکبیر ، الرقم: 10475
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: اے انس!بڑوں کی عزت کرنا اور چھوٹوں سے شفقت والا معاملہ کرنا یہ ایسا کام ہے جو تجھے جنت میں میرا پڑوسی بنادے گا ۔
وقار کی تین علامتیں:
قَالَ ذُو النُّونِ رَحِمَہُ اللہُ: ثَلَاثَةٌ مِنْ أَعْلَامِ الْوَقَارِ: تَعْظِيمُ الْكَبِيرِ وَالتَّرَحُّمُ عَلَى الصَّغِيرِ وَالتَّحَلُّمُ عَلَى الْوَضِيعِ ۔
شعب الایمان للبیہقی ، باب فی رحم الصغیر وتوقیر الکبیر ، الرقم: 10483
ترجمہ: حضرت ذوالنون مصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : تین باتیں وقار کی نشانیاں ہیں بڑوں کی عزت کرنا ، چھوٹوں پر شفقت کرنا اور گھٹیا آدمی کی باتوں کو برداشت کرنا ۔
قیس بن عاصم کی وصیت:
عَنْ حَكِيْمِ بْنِ قَيْسِ بْنِ عَاصِمٍ التَّمِيمِيِّ أَنَّ أَبَاهُ أَوْصَى عِنْدَ مَوْتِهِ فَقَالَ: بَنِيَّ اتَّقُوا اللهَ وَسَوِّدُوْا أَكْبَرَكُمْ فَإِنَّ الْقَوْمَ إِذَا سَوَّدُوا أَكْبَرَهُمْ خُلِّفُوا أَبَاهُمْ وَإِذَا سَوَّدُوا أَصْغَرَهُمْ أَزْرِي بِهِم فِي أَكِفَّائِكُمْ وَعَلَيْكُمْ بِاصْطِنَاعِ الْمَالِ فَإِنَّهُ مَنْبَهَةٌ لِلْكَرَمِ وَيُسْتَغْنَى بِهِ عَنِ اللَّئِيمِ، وَإِيَّاكُمْ وَمَسْأَلَةَ النَّاسِ۔
المعجم الکبیر للطبرانی، الرقم: 869
ترجمہ: حکیم بن قیس بن عاصم التمیمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان کے والد نے موت کے وقت اپنے بیٹوں کو یوں نصیحت کی:اللہ سے ڈرو اور اپنے بڑوں کو سردار بناوٴ۔جب قوم اپنے بڑوں کو سردار بناتی ہے تو اپنے آبا ؤاجداد سے آگے نکل جاتی ہے اور جب اپنے چھوٹے کو سردار بناتی ہے وہ اپنے ہم عصروں میں ذلیل و رسوا ہوجاتی ہے۔اور ہاں! مال کو حاصل بھی کرنا اور اس کی حفاظت بھی کرنا کیونکہ مال شریعت کےلیے زینت ہے اور وہ اس کے ذریعہ سےانسان کمینوں سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرنے سے بچو۔

1 comment:

  1. Very informative and useful article with authentic references....Jazakallah.

    ReplyDelete