https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Wednesday 12 January 2022

سوانح حضرت زینب بنت محمد صلی اللہ علیہ والہ و سلم

حضرت  زینب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سب بیٹیوں میں بڑی تھیں۔ جو اظہار نبوت سے دس سال قبل پیدا ہوئیں۔ کم سنی میں ہی یعنی نبوت سے قبل ان کی شادی خالہ زاد بھائی ابو العاص کے ساتھ ہوئی جو خدیجہ کی حقیقی بہن کے بیٹے تھے۔محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نبوت کے منصب پر فائز ہونے کے بعد زینب بھی اسلام لے آئیں۔ ہجرت کا سفر زینب نے اپنے شوہر کے بغیر کیا کیونکہ وہ اس وقت اسلام نہیں لائے تھے۔ اس لیے مکہ میں ہی رہے۔ ابو العاص مشرکین کے ساتھ غزوۂ بدر میں شریک تھے اور دوسرے قیدیوں کے ساتھ یہ بھی گرفتار کیے گئے جنہیں بعد میں رہا کر دیا گیا۔ جس کے بعد زینب بنت رسول اللہ کے شوہر مکہ روانہ ہو گئے وہاں جس کا کچھ حساب لینا دینا تھا اسے بے باق کیا جب کوئی مطالبہ باقی نہ رہا تو اہل قریش کے سامنے علانیہمسلمان ہو گئے اور مدینہ منورہ ہجرت کی۔ اور باقی زندگی زینب نے اپنے شوہر کے اسلام لانے کے بعد ان کے ساتھ مدینہ میں ہی گزاری جو ایک یا سوا سال ہی تھی۔ 8 ہجری میں زینب کا انتقال ہوا۔ یہ ابتدا ئے اسلام ہی میں مسلمان ہو گئی تھیں اور جنگ بدر کے بعد حضورﷺنے ان کو مکہ سے مدینہ بلالیا تھا مکہ میں کافروں نے ان پر جو ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ان کا تو پوچھنا ہی کیا حد ہو گئی کہ جب یہ ہجرت کے ارادے سے اونٹ پر سوار ہو کر مکہ سے باہر نکلیں تو کافروں نے ان کا راستہ روک لیا اور ایک کافر جو بڑا ہی ظالم تھا ہباربن الاسود اس نے نیزہ مار کر ان کو اونٹ سے زمین پر گرا دیا جس کے صدمہ سے ان کا حمل ساقط ہو گیا یہ دیکھ کر ان کے دیور کنانہ کو جو اگرچہ کافر تھا ایک دم طیش آ گیا اور اس نے جنگ کے لیے تیر کمان اٹھا لیا یہ ماجرا دیکھ کر ابوسفیان نے درمیان میں پڑ کر راستہ صاف کرا دیا اور یہ مدینہ منورہ پہنچ گئیں۔ حضور اکرم ﷺ کے قلب کو اس واقعہ سے بڑی چوٹ لگی چنانچہ آپ نے ان کے فضائل میں یہ ارشاد فرمایا کہ۔

ھِیَ اَفْضَلُ بَنَاتِیْ اُصِیْبَتْ فِیَّ

یہ میری بیٹیوں میں اس اعتبار سے بہت فضیلت والی ہے کہ میری طرف ہجرت کرنے میں اتنی بڑی مصیبت اٹھائی۔ پھر ان کے بعد ان کے شوہر ابو العاص بھی مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آ گئے اور دونوں ایک ساتھ رہنے لگے ان کی اولاد میں ایک لڑکا جن کا نام علی تھا اور ایک لڑکی جن کا نام امامہ تھا زندہ رہے ابن عسا کر کا قول ہے کہ علی جنگ یرموک میں شہید ہو گئے امامہ سے حضورﷺ کو بے حد محبت تھی بادشاہ حبشہ نے تحفہ میں ایک جوڑا اور ایک قیمتی انگوٹھی دربار نبوت میں بھیجی تو آپ ﷺ نے یہ انگوٹھی اپنی نواسی امامہ کو عطا فرمائی اس طرح کسی نے ایک مرتبہ بہت ہی بیش قیمت اور انتہائی خوبصورت ایک ہار نذر کیا تو سب بیبیاں یہ سمجھتی تھیں کہ حضورﷺ یہ ہار عائشہ کے گلے میں ڈالیں گے مگر آپ نے یہ فرمایا کہ میں یہ ہار اس کو پہناؤں گا جو میرے گھر والوں میں مجھ کو سب سے زیادہ پیاری ہے یہ فرما کر آپﷺ نے یہ قیمتی ہار اپنی نواسی امامہ کے گلے میں ڈادی ا 8ھ میں زینب کا انتقال ہو گیا اور حضورﷺنے تبرک کے طور پر اپنا تہبند شریف ان کے کفن میں دے دیا اور نماز جنازہ پڑھا کر خود اپنے مبارک ہاتھوں سے ان کو قبر میں اتارا ان کی قبر شریف بھی جنت البقیع مدینہ منورہ میں ہے۔[2]

سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں میں سب سے بڑی بیٹی تھیں. آپ کی والدہ ماجدہ سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالی عنہا تھیں. آپ کی ولادت باسعادت کے وقت حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک تیس سال تھی. آپ رضی اللہ تعالی عنہا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالی عنہا کے زیر تربیت پروان چڑھیں.

سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالی عنہا کی رائے تھی کہ سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا کے لیے ابوالعاص بن ربیع کو جیون ساتھی کے طور پر منتخب کیا جائے.

ابوالعاص بن ربیع سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالی عنہا کی بہن ھالہ بنت خویلد کے بیٹے تھے جو کاروباری اور مالدار شخص تھے اور ان کا شمار شرفاء مکہ میں ہوتا تھا۔

سیدہ خدیجۃ رضی اللہ تعالی عنہا کی اس رائے کو احترام دیتے ھوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بخوشی قبول فرمالیا اور سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا کا نکاح ابوالعاص بن ربیع سے کر دیا گیا۔

ابوالعاص بن ربیع کا رویہ کافر ھونے کے باوجود بہت اچھا تھا. شعب ابی طالبمیں گزرے کٹھن وقت میں کسی جانور پر کھانے پینے کا سامان لاد کر اسے گھاٹی کی طرف ھانک دیا کرتے تھے۔ کفار مکہ نے یہ کوشش بھی بہت کی کہ دیگر قریشی عورتوں کے بدلے ابوالعاص سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا کو طلاق دے دیں مگر انہوں نے قسم اٹھا کر کہا کہ میں زینب کو اپنی زوجیت سے کسی بھی قیمت پر علاحدہ نہیں کرسکتا.

غزوہ بدر میں کفار کی طرف سے ابوالعاص بھی شریک ھوئے مگر گرفتار کرلئے گئے۔ ان کی رھائی کے لیے سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا نے فدیہ کے طور پر وہ ھار بھیجا جو انہیں ان کی والدہ محترمہ سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالی عنہا نے عطاء فرمایا تھا۔ جب وہ ھار حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا تو سیدہ خدیجۃ رضی اللہ تعالی عنہا کی یاد تازہ ھوگئی جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم غمگین ھوگئے. صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مشاورت کے بعد ابو العاص کو وہ ھار واپس کرتے ھوئے بلامعاوضہ رھا کر دیا گیا البتہ ان سے یہ وعدہ لیا گیا کہ وہ مکہ پہنچ کر سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا کو مدینہ روانہ کر دیں گے چنانچہ انہوں نے وعدہ وفا کرتے ھوئے مکہ پہنچ کر سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا کو اپنے بھائی کنانہ کے ساتھ مدینہ روانہ کر دیا۔ دریں اثنا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے ساتھ ایک شخص کو بھی سیدہ زینب کو لانے کے لیے مکہ کی طرف روانہ فرمادیا.

کفار کو جب معلوم ھوا کہ سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا مدینہ کی طرف ھجرت کررھی ہیں تو انہوں نے ان کا تعاقب کیا ھبار بن اسود (بعد میں مسلمان ھوگئے تھے) نے آگے بڑھ کر سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا پر نیزے سے حملہ کیا شہزادی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی سواری سے چٹان پر گرادیا گیا جس سے وہ کافی زخمی ھوگئیں اس پر ان کا دیور کنانہ آگے بڑھا اور تیر و ترکش کا بھرپور استعمال کرنے لگا تو کفار پسپائی اختیار کرنے لگے اس سخت مقابلے کی وجہ سے سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا کو واپس جانا پڑا پھر کچھ عرصے کے بعد جب یہ معاملہ ٹھنڈا ھوا تو سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا رات کے وقت اپنے دیور کے ساتھ مکہ سے باھر تشریف لے آئیں جہاں حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ وغیرہ ان کے منتظر تھے پھر ان حضرات نے تمام آداب کو بجا لاتے ھوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت آپ کی خدمت میں پیش کردی. آپ کی خدمت میں پہنچ کر سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا نے کفار کی طرف سے پہنچنے والے مظالم کا ذکر فرمایا تو سن کر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا دل بھر آیا پھر ارشاد فرمایا

"زینب میری سب سے بہترین بیٹی ہے جسے میری وجہ سے تکالیف سے دوچار کیا گیا"

ایک موقع پر سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا کے شوھر ابوالعاص شام کی طرف تجارتی قافلہ لے کر نکلے واپسی پر مسلمانوں نے ان کے تمام تجارتی اموال پر قبضہ کر لیا. ابوالعاص کسی طرح سیدہ زینب کے پاس پہنچ گئے انہوں نے فجر کی نماز کے بعد عورتوں کی صفوں سے لوگوں کو متوجہ کرتے ھوئے فرمایا کہ میں ابوالعاص کو پناہ دے چکی ھوں. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ معلوم ھوا تو آپ نے ان کی پناہ کو صحیح قرار دیا اور صحابہ کرام کو ان کے تمام کے تمام اموال واپس کرنے کا حکم فرمایا چنانچہ انہوں نے اپنے اموال وصول کیے اور مکہ پہنچ کر تمام لوگوں کی امانتیں ان تک پہنچادیں جب سب لوگ اپنی امانتیں وصول کرنے کے بعد مطمئن ھوگئے تو ابوالعاص نے سب کو مخاطب کرتے ھوئے کہا

میں چاھتا تو مدینے میں ہی اسلام قبول کرلیتا مگر صرف یہ امر رکاوٹ رھا کہ کہیں تم یہ گمان نہ کر بیٹھو کہ میں تمہاری امانتوں میں خیانت کا مرتکب ھوا ھوں اب چونکہ کوئی امر مانع نہ رھا تو سن لو

اشہد ان لاالہ الا اللہ واشہد ان محمدا عبدہ ورسولہ

چنانچہ قبول اسلام کے بعد حضرت ابو العاص بن ربیع آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ھوگئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا کو حضرت ابوالعاص رضی اللہ تعالی عنہ کے نکاح میں لوٹادیا (اس میں اختلاف ہے کہ نیا نکاح ھوا تھا یا نہیں)

سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا کی اولاد میں علی نام کے ایک بیٹے اور امامہ نامی ایک بیٹی تھیں ایک بیٹے اور تھے جو کم عمری میں ہی وفات پاگئے تھے۔

سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا کو ھجرت کے سفر میں ملنے والے زخم پریشانی سے دوچار کرتے رھتے تھے آخرکار وھی زخم آپ کی وفات کا سبب بن گئے اور سن 8 ھجری میں سیدہ اس دنیا سے پردہ فرماگئیں.

غسل کا انتظام کرنے والیوں میں امہات المؤمنین سیدہ سودہ بنت زمعہ اور سیدہام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہما کے ساتھ ام ایمن رضی اللہ تعالی عنہا بھی شامل رھیں غسل کے بعد حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا تہ بند مبارک کفن میں رکھنے کے لیے مرحمت فرمایا نماز جنازہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھائی اور اپنے جگر گوشے کو قبر میں اپنے دست مبارک سے اتار کر خالق حقیقی کے سپرد فرمادیا. ان پاکیزہ نفوس پر اللہ تعالی کروڑوں رحمتیں نازل فرمائیں اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائیں آمین آمین آمین

No comments:

Post a Comment