Authentic Islamic authority, seek here knowledge in the light of the Holy Quran and Sunnah, moreover, free PDFs of Fiqh, Hadith, Indo_Islamic topics, facts about NRC, CAA, NPR, other current topics By الدکتور المفتی القاضی محمد عامر الصمدانی القاسمی الحنفی السنجاری بن مولانا رحیم خان المعروف بر حیم بخش بن الحاج چندر خان بن شیر خان بن گل خان بن بیرم خان المعروف بیر خان بن فتح خان بن عبدالصمد المعروف بصمدخان
https://follow.it/amir-samdani?action=followPub
Wednesday, 23 March 2022
جس امام سے مقتدی ناراض ہوں اس کی امامت
بغیرکسی ثبوت کے امام مسجد پر طعن وتشنیع کرنا درست نہیں ہے۔ اور بلاثبوت کسی کے بارے میں شرعی حکم اور فتویٰ بھی جاری نہیں کیا جاسکتا۔
باقی اگر کسی وجہ سے مقتدی امام سے ناراض ہو ں تو ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنے کے حکم کی تفصیل یہ ہے کہ :
امام سے اگر بغض اور ناراضی کسی دینی وجہ سے ہو، یعنی امام فاسق، فاجر یا لاپرواہ ہو، یا اس کا عقیدہ درست نہ ہو، یا وہ سنتوں کی رعایت نہ کرتا ہو اور مقتدی اس وجہ سے اس سے ناراض ہیں تو ایسی ناراضی کا اعتبار ہے اور ایسے امام کی امامت مکروہ ہوگی، اور اگر ناراضی دنیاوی دشمنی یا مخالفت کی وجہ سے ہو یا اس میں نفس کو دخل ہو تو ایسی ناراضی کا اعتبار نہیں ہے اور اس امام کی امامت بالکل درست ہے، بلکہ اس صورت میں مقتدی امام سے بغیر کسی شرعی وجہ کے ناراض ہونے کی وجہ سے ملامت کے مستحق ہیں، تاہم بہرصورت ناراض ہونے کے باجود اس امام کے پیچھے نمازیں ادا کرنادرست ہے اور ان نمازوں کا اعادہ بھی لازم نہیں ہوگا۔
نیز یہ ملحوظ رہے کہ اگر مقتدی امام کی ناراضی کی وجہ دینی یا شرعی بتاتے ہیں، اور اس امام کے مقتدی زیادہ ہوں تو صرف ایک، دو یا دو ،تین مقتدیوں کا اعتراض اور ناراضی کا اعتبار نہیں ہوگا، نیز اگر اعتراض کرنےوالے زیادہ ہوں، لیکن وہ جاہل اور دین سے ناواقف لوگ ہوں تو ان کا بھی اعتبار نہیں ہوگا، ہاں علم وفضل والے لوگ بھی ان کا ساتھ دیں تو پھر اس امام کی امامت مکروہ ہوگی، ورنہ عموماً مقتدی کسی نہ کسی بات پر امام سے ناراض ہوتے رہتے ہیں، حال آں کہ امامت ایک عظیم الشان منصب ہے، اس منصب کے اہل شخص کا احترام مسلمانوں پر لازم ہے، امام پر بلاوجہ طعن و تشنیع کرنا یا اس کو تنگ کرنا کسی طرح درست نہیں ہے۔
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (3/ 865):
"(وإمام قوم) أي: الإمامة الكبرى، أو إمامة الصلاة (وهم له) : وفي نسخة: لها، أي الإمامة (كارهون) أي: لمعنى مذموم في الشرع، وإن كرهوا لخلاف ذلك، فالعيب عليهم ولا كراهة، قال ابن الملك: أي كارهون لبدعته أو فسقه أو جهله، أما إذا كان بينه وبينهم كراهة وعداوة بسبب أمر دنيوي، فلا يكون له هذا الحكم. في شرح السنة قيل: المراد إمام ظالم، وأما من أقام السنة فاللوم على من كرهه، وقيل: هو إمام الصلاة وليس من أهلها، فيتغلب فإن كان مستحقاً لها فاللوم على من كرهه، قال أحمد: إذا كرهه واحد أو اثنان أو ثلاثة، فله أن يصلي بهم حتى يكرهه أكثر الجماعة".
وفيه أيضاً (3/ 866):
"(من تقدم) أي للإمامة الصغرى أو الكبرى (قوماً) : وهو في الأصل مصدر قام فوصف به، ثم غلب على الرجال (وهم له كارهون) أي لمذموم شرعي، أما إذا كرهه البعض فالعبرة بالعالم ولو انفرد، وقيل: العبرة بالأكثر، ورجحه ابن حجر، ولعله محمول على أكثر العلماء إذا وجدوا، وإلا فلا عبرة بكثرة الجاهلين، قال تعالى: ﴿وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ﴾ [الأنعام: 37]" .
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 559):
"(ولو أم قوماً وهم له كارهون، إن) الكراهة (لفساد فيه أو لأنهم أحق بالإمامة منه كره) له ذلك تحريماً؛ لحديث أبي داود: «لا يقبل الله صلاة من تقدم قوماً وهم له كارهون». (وإن هو أحق لا)، والكراهة عليهم".
الفتاوى الهندية (1/ 87):
"رجل أم قوماً وهم له كارهون إن كانت الكراهة لفساد فيه أو لأنهم أحق بالإمامة يكره له ذلك، وإن كان هو أحق بالإمامة لا يكره. هكذا في المحيط
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment