https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Thursday 24 March 2022

یوکرین کے مسلمان

روس اور یوکرین کے درمیان جنگ نے طول پکڑ لیا ہے۔ روس کا یوکرین پر مکمل قبضہ کا ارادہ واضح ہوگیا ہے ۔ایک جانب جہاں یوکرین کی سلامتی کا سوال ہے تو دوسری جانب اس سرزمین پر پر سکون زندگی گزار رہے تقریباً 400,000 مسلمانوں کے لیے غیر یقینی صورتحال پیدا کر دی ہے، جن میں اکثریت کریمیائی تاتاریوں کی ہے۔ ایک لاکھ سے زیادہ تاتار مسلمان صرف دارالحکومت کیف میں ہیں۔جہاں مسجد کریمہ اس وقت ان کا مرکز بنی ہے جو کیف میں جنگ کی تصاویر کے پس منظر میں نظر آرہی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ روس کے یوکرین کے قبضہ کے بعد کیا ہوگا؟ اب سوال یہ ہے کہ اگر روس نے یوکرین پر مکمل قبضہ کرلیا تو کیا تاتاری مسلمانوں کا مستقبل بھی تارتار ہوجائے گا؟ کیا روس کی بالا دستی ایک بار پھر تاتاری مسلمانوں کی پستی کا سبب بنے گی؟ تاتاری مسلمانوں نے روس کے ہاتھوں ایک طویل مدت تک مظالم جھیلے تھےلیکن یوکرین کے وجود میں آنے کے بعد تاتاری مسلمانوں کی زندگی پرسکون ہوگئی تھی۔ بات صرف کیف کی نہیں تاتار مسلمان خیرسن جیسے شہروں میں بھی آباد ہیں۔ کریمیائی تاتار کے علاوہ یوکرین کے دیگر نسلی مسلم گروہ وولگا تاتار، آذری، شمالی کاکیشین، اور ازبک ہیں۔ روسی حملے کے بعد یوکرین کے مسلمانوں کا مستقبل توازن میں ہے اور اس کا زیادہ تر انحصار بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے عالمی رہنماؤں کی جانب سے جاری سفارتی کوششوں پر ہے۔اہم بات یہ ہے کہ مسلم ممالک کی اکثریت نے اس جنگ پر خاموشی اختیار کررکھی ہے۔ تاتار مسلمان اس جنگ کے سبب زبردست غیر یقینی کا شکار ہیں ،اہم بات یہ ہے کہ ان کے لیے ابتک کسی نے کسی تشویش کا اظہار نہیں کیا ہے۔ حالانکہ روس کے ساتھ ماضی کے تجربات اس بات کا خدشہ پیدا کررہے ہیں آنے والے دنوں میں تاتار مسلمانوں کے لیے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔حالانکہ کچھ ماہرین کا ماننا ہے کہ روس اب تاتار مسلمانوں کو کسی مشکل یا سختی کا شکار کرنے سے گریز کرے گا کیونکہ عالم اسلام ایک بڑا حصہ روس کے ساتھ ہے۔ کیا ہے روس اور تاتار مسلمانوں کا رشتہ ،تناو اور سیاست ۔آئیح اس پر ڈالتے ہیں ایک نظر۔ کریمیا کی یادیں یاد رہے کہ مارچ 2014 میں روس نے ایک متنازعہ اور بین الاقوامی طور پر مسترد شدہ ریفرنڈم کے بعد کریمیا پر قبضہ کر لیا تھا۔ قابض افواج نے فوری طور پر کریمیا کے مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا۔ جنگ نے جزیرہ نما کریمیا سے تقریباً 750,000 مسلمانوں کو بے گھر کر دیا اور وہ دارالحکومت کیف اور جنوبی یوکرین کے شہر خیرسن میں منتقل ہو گئے تھے۔ دراصل تین لاکھ تاتاری مسلمانوں نے اس ریفرنڈم کا بائیکاٹ کیا تھا اور روس کے خلاف احتجاج میں سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ روسی فوجیوں نے تاتاریوں اور دیگر مظاہرین پر طاقت کا استعمال کیا اور بہت سے مظاہرین غائب ہونے لگےتھے۔ اب یوکرین پر روسی حملے کے بعد مسلمانوں کے ذہنوں پر ایک بار پھر ظلم و ستم کا ڈراؤنا خواب چھایا ہوا ہے اور وہ اپنے مستقبل کے بارے میں پریشان ہیں۔ روسیوں کی طرف سے ان کی نقل مکانی کے نئے خطرے نے ان کے مستقبل کو غیر یقینی بنا دیا ہے اور وہ ڈرتے ہیں کہ ان کے ساتھ ویسا ہی سلوک کیا جائے جیسا کہ ان کے ساتھ 2014، کریمیا کی جنگ میں ہوا تھا۔ کیا ہے تاریخ یوکرین کے مسلمانوں کی تاریخ کریمیائی تاتاروں سے جڑی ہوئی ہے، جو کہ ترک زبان بولنے والے ترک اور غیر ترک باشندوں کی اولاد ہیں جو ساتویں صدی کے اوائل میں مشرقی یورپ میں آباد ہو گئے تھے۔کریمیائی تاتار بحیرہ اسود کے شمالی ساحل پر واقع جزیرہ نما کریمیا کا ایک مسلم نسلی مقامی گروہ ہے۔ مسلم آبادیاں جنوبی نصف کے ممالک میں مرکوز ہیں۔ مسلمانوں نے 15ویں صدی میں جنوبی یوکرین میں کریمین خانیت قائم کیا۔ خانیت نے جلد ہی اپنی خودمختاری کھو دی اور سلطنت عثمانیہ کے ہاتھ لگ گئی، حالانکہ اس کے مقامی حکمرانوں نے کافی حد تک خود مختاری برقرار رکھی تھی۔ 18ویں صدی کے آخر میں روس-ترک جنگوں کے بعد بڑھتے ہوئے روسی اثر و رسوخ کے بعد خانیت کا خاتمہ ہو گیا۔ جس وقت خانیت کو روس نے ضم کیا تھا، اس کے دار الحکومت بخچیسرائے میں کئی مدارس کے ساتھ کم از کم 18 مساجد تھیں۔ بعد میں 1917 میں روس کے انقلاب کے وقت، کریمیا کی آبادی کا ایک تہائی حصہ مسلمان تھے۔ کریمیا کے تقریباً تمام بڑے شہروں میں مسلمانوں کی خاصی آبادی تھی۔ روسی مظالم کا آغاز تاہم روسی سلطنت نے مسلمانوں پر ظلم و ستم شروع کر دیا۔ کریمیا کے مسلمانوں کو 1944 میں جوزف اسٹالن نے بڑے پیمانے پر جلاوطنی کا نشانہ بنایا جس نے ان پر نازی جرمنی کے ساتھ تعاون کا الزام لگایا۔ دسیوں ہزار کریمیائی تاتار ریڈ آرمی میں خدمات انجام دینے کے باوجود مسلمانوں کے بارے میں یہ بدنامی پھیلائی گئی۔ دراصل 1944 میں 200,000 سے زیادہ کریمین مسلمانوں کو وسطی ایشیا، بنیادی طور پر ازبکستان بھیج دیا گیا۔ انہیں مویشیوں کی ٹرینوں پر زبردستی چڑھایا گیا اور جلاوطن کر دیا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق ان میں سے نصف کی موت سخت سفر، فاقہ کشی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے ہوئی۔ سوویت یونین کا بکھراو اور تاتار مسلمان اس کے بعد 1991 میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد جزیرہ نما کریمیا یوکرین کا حصہ بن گیا اور جلاوطن مسلمانوں سے کہا گیا کہ وہ اپنے وطن واپس چلے جائیں۔ وطن واپسی اگرچہ 1989 میں شروع ہوئی، 1991 کے بعد اس میں تیزی آئی۔ واپس آنے والوں کو چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا جیسے کہ گھر خریدنے یا کرائے پر لینے سے روکا جانا، بشمول وہ لوگ جو ملک بدری سے پہلے ان کے پاس تھے۔ یوکرینی مسلمانوں کی آبادی کے اندازے مختلف ہیں۔ 2011 کے پیو فورم کے مطالعے کے تخمینے کے مطابق، یوکرائنی مسلمانوں کی آبادی تقریباً 393,000 ہے، لیکن یوکرین کے مسلمانوں کے کلریکل بورڈ کا دعویٰ ہے کہ یوکرین میں 20 لاکھ مسلمان آباد ہیں۔ 2012 کی ایک اور رپورٹ کے مطابق یوکرین میں ایک اندازے کے مطابق 500,000 مسلمان رہتے ہیں، ان میں 300,000 کریمین تاتار ہیں۔ یوکرین میں نئی زندگی اور شروعات یوکرین میں مسلمانوں کی حالت 1991 کے بعد سے بہتر ہو رہی ہے جو یوکرین کی آزادی ہے۔ سوویت دور میں یوکرین کے مسلمانوں کو کھلے عام اپنے مذہب پر عمل کرنے کی اجازت نہیں تھی لیکن 1991 کے بعد مسلمانوں کو اپنی مساجد میں نماز ادا کرنے کی اجازت دی گئی۔ یوکرین میں تاتاری مسلمانوں کے اچھے دن قابل ذکر ہے کہ 1991 سے یوکرینی مسلمانوں کے حوالے سے دیگر قابل ذکر پیش رفت ہو رہی ہیں۔ 1991 میں ایک کریمیائی تاتار کی نمائندہ تنظیم مجلس کہلانے کے لیے تشکیل دی گئی۔ اس کے علاوہ، کریمین تاتار زبان کے اسکولوں کی تعلیم پر سوویت پابندی کے اثرات کو ریورس کرنے کے لیے متعارف کرایا گیا۔ مسلم ادارے،مساجد اور مدرسے اب یوکرین میں مسلمانوں کی 445 کمیونٹیز، 433 وزراء، اور 160 مساجد ہیں، مزید مساجد وہاں آہستہ آہستہ تعمیر ہو رہی ہیں۔ تقریباً 360 یوکرائنی مسلم کمیونٹیز اور تنظیمیں رجسٹرڈ ہیں اور وہاں مسلمانوں کی کئی خیراتی تنظیمیں ہیں۔ ۔ یوکرین کے مسلمان اسلامی طرز زندگی گزار رہے ہیں۔ شادیاں اسلامی رسومات کے مطابق کی جاتی ہیں، حلال کھانا پیش کیا جاتا ہے، بچوں اور بڑوں کے لیے اسلامی تعلیم اور دیگر سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ رمضان المبارک کے پروگرام بڑے اہتمام سے ہوتے ہیں۔ رمضان کے مہینے میں، روزانہ تقریباً 800-1,000 لوگ افطار اور نماز تراویح کے لیے کیف کی مرکزی مسجد میں آتے ہیں۔ کیف کی خوبصورت مسجد مفروضہ یہ ہے کہ روس یوکرین کے مسلمانوں پر اس طرح ظلم نہیں کرے گا جیسا کہ اس نے پہلے کیا ہے کیونکہ ایسا کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ولادیمیر پوتن نے مسلم دنیا میں اپنے لیے ایک برانڈ امیج بنایا ہے کہ وہ واحد رہنما ہیں جو مغربی مسلم مخالف تعصبات کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ یوکرین کے خلاف جنگ میں اسے اس روسی دارالحکومت کو انتہائی موثر انداز میں تعینات کرنا ہوگا۔

1 comment: