https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 28 October 2022

طلاق سکران

نشے کی حالت میں دی گئی طلاق کاحکم کیاہے، تواس سلسلے میں پہلے فقہاء کے مذاہب پر نظر ڈال لینا مناسب معلوم ہوتاہے۔ حنفیہ کے ہاں معروف اورمفتی بہ قول کے مطابق نشہ اگر ایسے سبب سے ہوجومعصیت نہ ہو توسکران کی طلاق واقع نہیں ہوگی، اور اگر نشہ کسی ایسے سبب سے ہے جومعصیت ہے تو نشے کی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہوجائے گی۔ اس دوسری قسم کے نشے میں خمر توبالاتفاق داخل ہے۔ دیگر ناجائز نشوں کے بارے میں متعدد مواقع پر اقوال کااختلاف بھی ہے ،بالخصوص غیرمائع نشہ آور چیزیں مثلاًبھنگ،افیون وغیرہ ، یاوہ مائع نشہ آورچیزیں جوانگور، کشمش ،کھجور اورچھوارے سے نہ بنی ہو۔، تاہم متأخرین کاعمومی رجحان ان چیزوں کے نشے میں بھی طلاق کے وقوع کی طرف ہے، الایہ کہ استعمال کرنے والے نے ان میں سے بطوردوااستعمال ہونے والی چیز بطور دواہی استعمال کی ہو۔ حنفیہ میں سے طحاوی اورکرخی نے ترجیح اس بات کو دی ہے کہ کسی بھی قسم کے نشے میں کی حالت میں طلاق واقع نہیں ہوگی، امام زفر اور محمد بن سلمہ کا مذہب بھی یہی نقل کیاگیاہے ،علامہ علاؤ الدین شامی کی ایک عبارت (تکملہ ج ۸ص ۱۹۷)سے معلوم ہوتاہے کہ حسن بن زیاد کا مذہب بھی یہی ہے ،امام غزالی نے الوسیط(۵/۳۹۰) میں امام ابویوسف کامذہب بھی یہی نقل کیاہے ،تاتارخانیہ میں بعض کتب سے اس کا مفتی بہ قول ہونا بھی نقل کیاہے ،لیکن شامی نے اسے عام متون کے خلاف قراردیاہے ۔ مالکیہ میں سے بعض حضرات کے نزدیک نشے کی حالت میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی، لیکن مالکیہ کے ہاں معروف یہ ہے اورخودامام مالک کی تصریح بھی یہ ہے کہ یہ طلاق واقع ہوجائے گی، البتہ مالکیہ کے ہاں اس بارے میں اختلاف پایاجاتاہے کہ وقوعِ طلاق کی وجہ کیا ہے،ایک رائے یہ ہے کہ چونکہ نشے میں کی حالت میں عقل بالکل زائل نہیں ہوتی بلکہ کچھ نہ کچھ باقی رہتی ہے اس لیے اس کاتصرف نافذ ہوگا ۔اس قول کے مطابق اگرنشہ اپنی انتہاء کوپہنچ جائے اورعقل بالکلیہ زائل ہوجائے توطلاق واقع نہیں ہوگی۔ اس وجہ کے مطابق مالکی اورحنفی مذہبوں میں اصولی اختلاف ہوجائے گا،کہ حنفیہ کے نزدیک طلاق کے عدمِ نفاذ کے لیے زوالِ عقل شرط نہیں بلکہ اس کامغلوب ہوناہی کافی ہے ، جبکہ مالکیہ کی اس توجیہ کے مطابق عدمِ وقوعِ طلاق کے لیے زوالِ عقل ضروی ہوگا۔ مالکیہ کے ہاں طلاق واقع ہونے کی دوسری توجیہ یہ ہے کہ چونکہ اس نے اپنی ذہنی کیفیت خوداپنے اختیار سے حرام سبب سے پیداکی ہے اس لیے اس کااعتبار نہیں کیاجائے گا ، اوراس پر ہوش وحواس والے شخص کے احکام جاری ہوں گے ۔اس توجیہ کے مطابق اگرنشا اپنی انتہاء کو بھی پہنچا ہواہو، اس کی طلاق واقع ہوجائے گی۔ (الشرح الکبیر ج ۲ص ۳۶۵ ٗ التاج والاکلیل ج ۴ ص ۴۳) شافعیہ کے ہاں اگرتونشہ کسی ایسے سبب سے ہوجس میں اس شخص کی تعدّی اورغلطی نہ ہوتوبالاتفاق طلاق نہ ہوگی ، اوراگرنشہ کسی ناجائز سبب سے ہو تو امام شافعی کے اس مسئلے میں دوقول ہیں،ایک یہ کہ طلاق واقع نہیں ہوئی ،دوسرایہ کہ طلاق واقع ہوجائے گی۔ پہلے قول کوقولِ قدیم قرادیاگیا ہے، اورابوثور،مزنی ، ابوسہل ، ابوطاہر الزیادی نے اسے ہی اختیار کیاہے اورامام غزالی نے اسے اقیس قرار دیاہے (الوسیط ج ۵ص ۳۹۰ ، روضۃ الطالبین ج۸ص۶۲) جبکہ دوسرے قول کو قولِ جدید قرار دیاگیا ہے اوربیشتر شافعیہ نے اسی کوترجیح دی ہے۔ سکران کے حکم بارے میں مرداوی نے الانصاف میں امام احمد سے پانچ روایتیں ذکر کی ہیں، ان میں تین کے مطابق طلاق واقع نہیں گی اور دوکے مطابق واقع ہوجائے گی، ترجیح میں بھی حنابلہ کے اقوال مختلف ہیں۔ صحابہ وتابعین میں سے سعید بن المسیب ،حسن بصری،ابراہیم نخعی ،زہری اورشعبی وغیرہ وقوعِ طلاق کے قائل ہیں، حضرت عمررضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح کافیصلہ نقل کیاجاتاہے ۔جبکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے سندِ صحیح کے ساتھ ثابت ہے کہ طلاق واقع نہیں ہوگی اوریہی مذہب منقول ہے القاسم بن محمد، طاؤس ،عکرمہ ،عطا اورابوالشعثاء وغیرہ سے ۔عمربن عبدالعزیز پہلے طلاق واقع ہونے کے قائل تھے،بعد میں رجوع کرلیاتھا اورواقع نہ ہونے کے قائل ہوگئے تھے۔ جوحضرات طلاق سمیت سکران کے اقوال کومعتبر اورنافذ مانتے ہیں انہوں نے اس مسئلے پرکوئی واضح نص پیش نہیں کی ،جن نصوص سے کسی درجے میں استدلال کیابھی ہے تووہ ان حضرات کے لیے مفید ثابت ہوسکتاہے جومطلقاًنشے کی حالت کومزیلِ اہلیت نہ مانتے ہوں اس لیے کہ اس میں عقل بالکلیہ زائل نہیں ہوتی خواہ نشہ جائز سبب سے ہومثلاً قرآنی آیت: یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَقْرَبُواْ الصَّلاَۃَ وَأَنتُمْ سُکَارَی [النساء ۴:۴۳] سے بعض فقہائے حنفیہ نے بھی استدلال کیاہے، قطع نظر اس امر کے کہ یہ استدلال کس حد تک واضح ہے اس پر یہ اشکال باقی رہتاہے کہ یہ آیت اس دور میں نازل ہوئی تھی جب شراب حرام نہیں ہوئی تھی اس لیے اس سے ثابت ہونے والے اصول کااطلاق جائز نشے کی حالت پربھی ہونا چاہیے جبکہ حنفیہ کے نزدیک ایسانہیں ہے ۔ دوسری طرف جن حضرات کے نزدیک نشے کی حالت میں اقوال نافذ اورمعتبر نہیں ہیں ان کاایک اہم استدلال ماعزسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے واقعات سے ہے کہ ان کے اقرار کرنے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سوال یہ بھی کیاکہ اس نے کہیں شراب تونہیں پی ہوئی ۔ اس سے معلوم ہواکہ نشے کی حالت میں کیاگیا اقرار معتبر نہیں ہے، اگرچہ اس پریہ کہاجاسکتاہے کہ حدود چونکہ شبہات کی وجہ سے ساقط ہوجاتی ہیں اورنشے کی حالت میں اقرار بھی شبہ سے خالی نہیں اس لیے اس اقرارکااعتبارنہیں کیاگیا۔ البتہ حدیث کے الفاظ’’المعتوہ المغلوب علی عقلہ‘‘ کا عموم ان حضرات کی اہم دلیل ہے کہ اس میں اس بات کی وجہ سے فرق نہیں کیاگیاکہ یہ غلبہ عقل جائز سبب سے ہویاناجائز سے۔ بہرحال مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہوجاتی کہ جوحضرات حرام نشے کی حالت میں وقوعِ طلاق کے قائل ہیں بالخصوص حنیفہ اور شافعیہ ان کا مذہب کسی نص صریح پر مبنی نہیں ہے، اسی طرح ان حضرات کی یہ رائے قیاس اوراصول پربھی مبنی نہیں ہے،اس لیے کہ شروع میں ثابت کیا جاچکاہے کہ ان کے نزدیک اہلیتِ طلاق کے زائل ہونے کے لیے جنون کی کیفیت کاہونا ضروری نہیں بلکہ عقل کامغلوب ہوناہی کافی ہے اور یہ بات نشے میں ہوتی ہے جس کی ایک واضح دلیل یہ ہے کہ اسی طرح کانشہ اگرجائز سبب سے ہو توان حضرات کے نزدیک طلاق واقع نہیں ہوتی ۔ اس لیے اگرچہ بعض حنفیہ نے حرام نشے کی حالت میں طلاق کے و قوع پر اصول سے استدلال کی کوشش کی ہے لیکن ان سب استدلالات پر ایک عمومی اعتراض یہی کیا جاسکتاہے کہ ان دلائل کے مطابق حلال نشے کی حالت میں بھی طلاق واقع نہیں ہونی چاہیے ۔ ناجائز نشے میں دی گئی طلاق کے وقع ہونے کی اصل وجہ وہی ہے جوتقریباًتمام فقہائے حنفیہ اورشافعیہ نے ذکر کی ہے ،جس کاحاصل یہ ہے کہ اگرچہ نشے کی حالت بذاتِ خود طلاق کے واقع ہونے سے مانع ہے لیکن یہاں یہ مانعیت اپنا اثر اس لیے نہیں دکھائے گی کہ اس نے یہ حالت خود معصیت کے راستے سے پیدا کی ہے۔ گویا نہ صرف یہ کہ وقوعِ طلاق کافتویٰ اصول کامقتضا نہیں ہے بلکہ یہ فتویٰ ایک اصول کی تاثیر کونظرانداز کرکے گویا خلافِ قیاس دیاگیاہے۔ نشے کی حالت زوالِ اہلیت طلاق کاایک سبب ہے،لیکن یہاں طریق کار کے معصیت ہونے کی وجہ سے اس سبب کااثر مرتب نہیں ہوگا، تو کیا یہ بھی کوئی اصول ہے کہ معصیت کسی سبب کی تاثیر میں مانع بن جاتی ہے۔ توکم ازکم حنفیہ کے ہاں عموماایسانہیں ہوتا، اس کی ایک واضح مثال سفرِمعصیت میں قصرٗحالتِ حیض کی طلاق، اکٹھی تین طلاقیں ، ارض مغصوبہ میں نماز وغیرہ ہیں ۔ اسی طرح غصب وغیرہ کے کئی احکام سے اس کی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں ۔یہی اعتراض حافظ ابن حجر نے امام طحاوی کاوقوع طلاق کے قائلین پرنقل کیاہے۔(فتح الباری ۹/۱۹۳) اگربغوردیکھا جائے تووقوع طلاق کے قائلین کوامام طحاوی کی بات کی معقولیت سے بظاہر انکار نہیں ہوگا ۔ اس لیے کہ وقوعِ طلاق کے قائلین پر یہ اعتراض تب ہوتا جب وہ یہ کہہ رہے ہوتے کہ وقوعِِ طلاق کافیصلہ اصول اورقواعد یاقیاس کی بنیاد پر ہے، جبکہ ان حضرات کامنشایہ ہرگز معلوم نہیں ہوتا۔ ان حضرات نے جولفظ استعمال کیے ہیں وہ عموماًدوہیں ایک تغلیظ کا دوسرے زجر۔تغلیظ کے معنی یہ ہیں کہ اگرچہ وہ اصولی طورپر اس ’’رعایت‘‘کامستحق تھاکہ اس کی طلاق واقع نہ ہو لیکن اس کے غلط طریقِ کار کی وجہ سے بطور سزایہ رعایت اسے نہیں دی جائے گی۔ اورزجر کے معنی یہ ہیں کہ جب نشے کی حالت میں دی گئی طلاق ہم نافذکردیں گے تویہ خودبھی اوردوسرے لوگ بھی آئندہ نشہ کرنے سے گریز کریں گے۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کم از کم حنفیہ کے ہاں وقوعِ طلاق کا حکم محض انتظامی ہے اصولی یا منصوص نہیں ہے۔ مذکورہ بالابحث کامقصد بھی دلائل کے اعتبارسے کسی قول کوراجح یامرجوح قراردینا نہیں ہے۔بلکہ یہی دیکھنا ہے کہ وقوعِ طلاق کے قائلین کااصل منشاکیاہے، حقیقت یہ ہے کہ اگراس کوحکم انتظامی قرار نہ دیاجائے تواشکالات کاایک طویل سلسلہ شروع ہوجاتاہے۔ اورظاہر ہے کہ انتظامی نوعیت کے حکم کاانحصار حالات پربھی ہوتاہے جیسے سدّذریعہ وغیرہ پر مبنی احکام میں ہوتاہے، اس لیے حالات کی تبدیلی کی صورت میں ایسے احکام میں بھی تبدیلی ہوسکتی ہے۔ آج کے حالات کے پیشِ نظر نشے کی حالت میں دی گئی طلاق کا فتوی کئی وجوہ سے نظر ثانی کامحتاج معلوم ہوتاہے، مثلاً: ۱)جیساکہ اوپر بیان ہوابیشتر فقہا ء بالخصوص فقہائے حنفیہ نے سکران کی طلاق کو ’’تغلیظاً‘‘، ’’عقوبۃً‘‘ اور ’’تشدیداً‘‘ نافذ قرار دیا ہے۔ اس مسئلے میں فقہاء کی عبارات اتنی کثرت سے ہیں کہ ان کا احاطہ دشوار ہے ،ظاہر ہے کہ ’’تغلیظ‘‘، ’’تشدید‘‘ اور ’’عقوبت‘‘ اسی شخص پرہونی چاہیے جس سے معصیت کاصدور ہواہے، اس سے معلوم ہوتاہے کہ ان فقہاء کے پیش نظر عموماًوہ صورتیں تھی جن میں وقوعِ طلاق کانقصان خاوند کوہوتا ہے ،جبکہ ہمارے زمانے میں بالخصوص برّصغیر کے سماجی حالات میں عموماً طلاق کے اثراتِ بد مرد سے کہیں زیادہ بیوی اوراس کے بچوں پر مرتب ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایک کے کیے کی سزا دوسروں کودینا جبکہ جس حکم کے ذریعے سزادی جارہی وہ غیر منصوص ہو بلکہ نص (المغلوب علی عقلہ)کے عموم اورعام اصول کے بھی خلاف ہو،قرین مصلحت اورقرینِ انصاف نہیں ہے۔ ۲)فقہاء نے وقوع طلاق کی ایک وجہ ’’زجر‘‘بیان کی ہے ،لیکن اول توہمارے زمانے میں یہ سوال اہم ہے کہ وقوع طلاق کے فتوے سے یہ مقصد حاصل ہوبھی رہاہے یانہیں، دوسرے اس کامطلب یہ ہواکہ یہ حکم ایک مصلحت کے حصول یاایک مفسدے کے ازالے کے لیے ہے، یعنی لوگ نشے سے بچ جائیں۔ نشہ بھی ایک مفسدہ ہے اورطلاق بھی ایک مفسدہ ہے ٗجسے ابغض الحلال قراردیاگیاہے اورحدیث شریف میں بتایا گیاہے کہ ابلیس اپنے اس چیلے کوزیادہ شاباش دیتاہے جو زوجین میں تفریق کراکے آیاہو، بالخصوص ہمارے ماحول میں اس کے مفاسد پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئے ہیں،معاشی تنگی، مفادپرستی اور خود غرضی کے ماحول کی وجہ سے بیوی بچوں کی کفالت کے بے شمار پیدا ہوجاتے ہیں اور بچوں کی صحیح تعلیم وتربیت کے حوالے سے پیداہونے والے مسائل اس سے بھی سنگین ہوتے ہیں۔ ان حالات میں وقوعِ طلاق اورعدم وقوع دونوں پرمرتب ہونے والے مفاسد کے توازن کومدنظر رکھ کر اس مسئلے پرازسرنو غورکی ضرورت ہے ۔بظاہر یہی معلوم ہوتاہے کہ عموماً وقوعِ طلاق کے مفاسد اس متوقع فائدے(زجرعن السکر)سے زیادہ ہوتے ہیں۔نیززجرکافائدہ محتمل ہے اوروقوعِ طلاق کے مفاسد یقینی ، اس لیے ہمارے زمانے میں عدمِ وقوع طلاق کافتوی ہی انسب معلوم ہوتاہے ۔ ۳)یوں لگتاہے کہ سکران کی طلاق واقع کرنے میں فقہاء کے پیش نظراحتیاط کاپہلو بھی تھا،چنانچہ شہد یااناج سے بنے ہوئے نبیذ مسکر پربحث کرتے ہوئے ابن نجیم بزازیہ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں : ’’المختار فی زماننا لزوم الحد، لأن الفساق یجتمعون علیہ، وکذا المختار وقوع الطلاق، لأن الحد یُحتال لدرۂ والطلاق یحتاط فیہ، فلما وجب مایحتال لأن یقع مایحتاط أولی‘‘۔ اس سے یہ قاعدہ معلوم ہوتاہے کہ طلاق ان احکام میں سے ہے جنہیں فقہاء بطور احتیاط بھی ثابت کردیتے ہیں،ظاہر ہے کہ احتیاط کو اسی صورت میں اختیار کیاجاتاہے جبکہ اس پر دیگر مفاسد ومضار مرتب نہ ہورہے ہوں۔ ۴) جیسا کہ اوپر ذکر ہواسکران کی طلاق واقع ہونے کاحکم منصوص یااصولی نہیں انتظامی ہے۔ اول تو لزومِ مفاسد وغیرہ کی وجہ سے ویسے ہی دوسرے مذہب کواختیار کرنے کی بیسیوں مثالیں فقہاء کے ہاں ملتی ہیں ۔حکم کے انتظامی ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ اورآسان ہوجاتاہے ، اورپھر اس وجہ سے بھی کہ خودحنفیہ میں سے بھی امام زفر، حسن بن زیاد، طحاوی اورکرخی جیسی شخصیات کی آراء عدمِ وقوع کی موجود ہیں۔ مزید برآں یہ کہ ہمارے زمانے میں نشہ یاتوغیرمائع چیزوں سے ہوتاہے یاایسے مائعات سے جوانگور یاکھجور سے بنے ہوئے نہ ہونے کی وجہ سے اشربہ اربعہ سے خارج ہوتے ہیں۔ ان نشوں کی حالت میں طلاق کے بارے میں مشائخِ حنفیہ کے اندرمزید اختلاف موجود ہیں اورتصحیح میں بھی اختلاف ہے۔ مثلاصاحب بحر نے قاضی خان سے عدمِ وقوع کی تصحیح نقل کی ہے، اس لیے عدمِ وقوع طلاق کافتویٰ دینے میں کوئی زیادہ خروج عن المذہب بھی نہیں پایا جا رہا ہے ، اس لیے وقوعِ طلاق والے حکم کی اصل حیثیت وتعلیل کو اورہمارے زمانے اور علاقوں کے حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے رجحان اس طرف ہورہاہے کہ طلاق واقع نہ ہونے کافتویٰ دیاجائے۔ البتہ اس میں نشے کی نوعیت کی تفصیل میں جانے سے اورقاضی خان وغیرہ کے قول اختیار کرنے کی صورت میں چونکہ بعض نشوں کی شناعت کم ہونے کااندیشہ ہے، اس لیے درست یہ معلوم ہوتاہے کہ امام زفر ،حسن بن زیاد ،طحاوی اورکرخی جیسے حضرات کی رائے اختیار کرتے ہوئے کہاجائے کہ نشے کی حالت میں طلاق واقع نہیں ہوتی

No comments:

Post a Comment