https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 28 October 2022

طلاق غضبان

علامہ شامیؒ نے رد المحتار میں ’’طلاق المدہوش ‘‘اور’’طلاق الغضبان‘‘پرتفصیلی بحث کی ہے،انہوں نے ابن القیم ؒ کے رسالہ ’’طلاق الغضبان ‘‘ سے نقل کیاہے کہ غصے کی تین حالتیں ہیں۔ایک ابتدائی حالت ہے، جس میں آدمی کوپتا ہوتاہے کہ میں کیا کہہ رہاہوں اورجوکچھ کہہ رہاہوتاہے قصداور ارادے سے کہہ رہاہوتاہے اس حالت میں دی گئی طلاق کے واقع ہونے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ ایک انتہائی حالت ہے کہ غصے کے غلبے کی وجہ سے اسے پتاہی نہ ہو کہ میں کیاکررہاہوں، اوربغیر قصدو ارادے کے اس کے منہ سے الفاظ نکل رہے ہوں، اس حالت میں دی گئی طلاق کے بلاشک وشبہ واقع نہ ہونے کاحکم لگایاجائے گا ۔تیسری حالت وہ ہے جومذکورہ ان دوکیفیتوں کے بین بین ہے ، اس صورت میں دی گئی طلاق کاحکم قابلِ غور ہوسکتاہے، دلائل کامقتضا یہاں بھی یہ معلوم ہوتاہے کہ طلاق واقع نہ ہو۔ ابن القیم کے حوالے سے مذکورہ بالاتفصیل نقل کرنے کے بعد علامہ شامیؒ نے اس پر وارد ہونے والے بعض اشکالات کاجواب دینے کے بعد ابن القیم کی رائے کی تائید کرتے ہوئے اس طرف رجحان ظاہر کیاہے کہ ’’مدہوش‘‘ اور ’’غضبان‘‘ کے بارے میں مذکورہ مثالوں میں فقہاء کی تصریحات اور تعلیلات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ طلاق کے واقع ہونے کے لیے طلاق دینے والے میں عقل کاجودرجہ ضروری ہے کہ اس میں صرف یہ شرط نہیں ہے کہ علم اورارادہ موجود ہو، بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ یہ تصرف سمجھ بوجھ کی حالت میں کیاہو۔ سمجھ بوجھ سے مرادیہ نہیں ہے کہ طلاق دینے والا بہت زیرک شخص ہو،نہ ہی یہ مراد ہے کہ وہ عملاًتمام عواقب ونتائج پراچھی طرح غورکرکے اس طرح کا قدم اٹھائے بلکہ مراد صرف یہ ہے کہ اس کی ذہنی حالت ایسی ہوکہ اپنی سمجھ بوجھ کو استعمال کرنا چاہے توکرسکتاہو ۔ اگر اس حوالے سے اس کی ذہنی حالت نارمل ہے توبغیر سوچے سمجھے طلاق دے دیتاہے تواس کی حماقت کے باوجود طلاق واقع ہو جائے گی۔ تاہم اگرکوئی ایسا عارضہ لاحق ہے جس کی وجہ سے اس کی ذہنی حالت غیر عادی اورایبنا رمل ہوگئی ہے اوروہ سمجھ بوجھ کر بات نہیں کرسکتا جیسے سکران (بسبب جائز ) مدہوش،معتوہ، مجنون اورنائم وغیرہ میں ہوتاہے یااس کی سمجھ بوجھ شریعت کی نظر میں ابھی نشوونما کے مراحل میں ہے جیسے نابالغ میں ہوتاہے توطلاق واقع نہیں ہوگی۔ حاصل یہ کہ طلاق کے وقو ع کے لیے یہ ضروری ہے کہ طلاق دینے والا شرعی طورپر اکتمالِ عقل (بلوغ)کے بعد اسے استعمال کرنے کی پوزیشن میں ہو، خواہ عملاًاسے استعمال کرے یانہ کرے ۔دوسرے لفظوں میں کہاجاسکتاہے کہ اس کی ذہنی حالت اس کے قابو میں ہو۔ حدیث کے الفاظ ’’المعتوہ المغلوب علی عقلہ ‘‘کا مقتضا بھی یہی ہے۔ کیونکہ حدیث میں جس کو وقوعِ طلاق سے مستثنیٰ کیا جارہا ہے وہ مفقود العقل نہیں بلکہ مغلوب العقل ہے۔ یہاں تک لکھنے کے بعد سرخسی کی ایک عبارت مل گئی جس میں وہ نشے کی حقیقت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : لأن بالسکر لایزول عقلہ وانما یعجز عن استعمالہ لغلبۃ السرورعلیہ ۔ اس میں بعینہ وہی بات کہی گئی ہے جو اوپر فقہا کے ذکر کردہ متفرق احکام سے مستنبط کی گئی تھی۔ اوریہ بات طے شدہ ہے کہ اگرنشہ حرام سبب سے نہ ہو تو طلاق واقع نہیں ہوتی ، معلوم ہواکہ عدمِ وقوع طلاق کے لیے آخری درجے کازوالِ عقل ضروری نہیں ، بلکہ اس کے استعمال سے عاجز ہونا کافی ہے۔ مدہوش اور غضبان دونوں میں طلاق واقع نہ ہونے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ بد حواسی اس حد تک پہنچ جائے کہ اسے معلوم ہی نہ ہوکہ وہ کیاکررہاہے،بلکہ غلبۂ ہذیان اورسنجیدہ وغیر سنجیدہ گفتگو کاملاجلاہونا کافی ہے، تائید میں انہوں نے ’’سکران‘‘(جبکہ نشہ حرام سبب سے نہ ہو) کی مثال پیش کی ہے کہ اس میں حنفیہ کے مفتی بہ قول کے مطابق نشے کااتنا درجہ ہی کافی ہے، آگے چل کرعلامہ شامیؒ نے مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھاہے کہ اگرمدہوش ،غضبان اورسکران وغیرہ جوکچھ کہ رہے ہیں وہ انہیں معلوم بھی ہے اورکہ بھی قصدا اورارادے سے رہے ہیں لیکن عمومی گفتگو سے عقل کااختلال واضح ہورہاہے تب بھی طلاق واقع نہیں ہوگی، اس لیے کہ سمجھ بوجھ کے صحیح نہ ہونے کی وجہ سے ان کاقصد اورارادہ غیرمعتبر ہے جیساکہ صبی ممیز میں ہوتاہے کہ وہ اگرطلاق دے تواپنے قصداورارادے سے دیتاہے لیکن سمجھ بوجھ کے مکمل نہ ہونے کی وجہ سے اس کی طلاق واقع نہ ہوگی۔ علامہ شامی کی بحث کے چند اقتباسات یہاں پیش کیے جاتے ہیں ، وہ لکھتے ہیں: ’’والذی یظہر لی أن کلام المدہوش والغضبان لایلزم فیہ أن یکون بحیث لایعلم مایقول،بل یکتفی فیہ بغلبۃ الہذیان واختلاط الجد بالہزل کما ہو المفتی بہ فی السکران علی مامر‘‘۔ وہ مزید لکھتے ہیں: والذی ینبغی التعویل علیہ فی المدہوش ونحوہ إناطۃ الحکم بغلبۃ الخلل فی أقوالہ وأفعالہ، الخارجۃ عن عادتہ، وکذا یقال فیمن اختل عقلہ لکبر أو مرض أو لمصیبۃ فاجأتہ ،فما دام فی حال غلبۃ الخلل فی الأفعال والأقوال لاتعتبر أقوالہ، وان کان یعلمہا ویرید ہا، لأن ہذہ المعرفۃ والإرداۃ غیرہ معتبرۃ لعدم حصولہا عن إدراک صحیح کما لا تعتبر من الصبی العاقل۔ (شامی ج۳ص ۲۴۴)

No comments:

Post a Comment