https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Sunday 6 November 2022

نکاح مسیار کی حیثیت

نکاحِ مسیار کا حکم یہ ہے کہ یہ جائز نہیں ہے ،وجوہات درج ذیل ہیں : 1۔۔۔نکاحِ مسیار کو اگرچہ نکاح یا زواج کا نام دیا جائے، لیکن اس عمل کا مقصد نکاح کے مقاصد کا حصول نہیں ہے، بلکہ اصل مقصد ایک متعین وقت تک اپنی جنسی خواہش کو پورا کرنا ہوتا ہے جو نکاح کے شرعی مقاصدکے خلاف ہے، علامہ سرخسی رحمہ اللہ نکاح کے چند مقاصد کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:اس عقد کے ساتھ بے شمار دینی اور دنیوی مصلحتیں متعلق ہوتی ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں : عورتوں کی حفاظت ونگرانی، ان کا نان ونفقہ،زنا سے بچنا،اللہ تعالی کے بندوں سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امتوں کی کثرت،(بروزِ قیامت) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فخر کا متحقق ہونا،جیساکہ فرمانِِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ "نکاح کرو اور نسل بڑھاؤ،تمہاری کثرت ہوگی ، سو میں قیامت کے دن تمہاے سبب فخر کروں گا، نکاح کا سبب اس بقا کا تعلق ہے جو اپنے وقتِ مقررہ تک کے لیے مقدر ہے، اور یہ بقا تناسل سے ہی ممکن ہوگا۔(9) اور اوپر کی سطور میں قرآن وحدیث کی رو سے واضح ہوچکا ہے کہ جس نکاح میں صرف شہوت رانی مقصود ہو وہ شرعی نکاح کے مقصد کے خلاف ہے۔ 2۔اس عمل کے ذریعہ شریعتِ مطہرہ کی جانب سے میاں بیوی کےلیے وضع کردہ کئی اَحکام کی خلاف ورزی اور بہت سے اَحکام کا استحصال ہوتا ہے، چنانچہ اس نام نہاد نکاح کے نتیجہ میں بیوی نان نفقہ سے محروم رہتی ہے، جب کہ نکاح کے عقد کی وجہ سے یہ ذمہ داری شوہر پر عائد ہوتی ہے، "علامہ ابن نجیم" رحمہ اللہ نے " بدائع الصنائع " کے حوالہ سے نکاح کے اَحکام تفصیلی ذکر کیے ہیں ، چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ: بدائع میں نکاح کے اَحکام علیحدہ فصل میں ذکر کیے ہیں، فرماتے ہیں کہ نکاح کے اَحکام میں سے مہر کا واجب ہونا، نفقہ اور پوشاک کا شوہر کے ذمہ لازم ہونا،حرمتِ مصاہرت کا ثابت ہونا، جانبین سے وراثت کا اجرا اور ان حقوق کی ادائیگی میں عدل کا واجب ہونا (جب کہ ایک سے زائد بیویاں ہوں) وغیرہ شامل ہیں۔(10 شریعت کے اصل اور ضابطہ کے مطابق نفقہ نہ دینے یا طلاق دینے کی شرائط باطل ہوکر عقد صحیح ہو جائے گا، لیکن عرف میں ان شرائط پر عمل کرنے کو لازم سمجھاجاتا ہے،ان شرائط پر عمل کرنا نکاح کی روح اور مقاصد کے خلاف ہے، لہذا شرط باطل ہوجانے کے بعد بھی اس قسم کے عقد کے جواز کا فتویٰ دینا مفاسد سے خالی نہیں ہے۔ 3۔ اس وقتی ازدواجی تعلق کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے بچے کی پرورش اور ثبوتِ نسب میں بھی مسائل پیش آسکتے ہیں، اول تو یہ ممکن ہے کہ بچے کے نسب کا انکار کرے، لیکن اگر بچے کو اپنا نام دے بھی تو پرورش کے مسائل پیش آئیں گے، یوں اس تعلق کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد کی پرورش اس طرزپر نہیں ہوسکتی جس طرح شرعی نکاح کے بعد پیدا ہونے والے بچے کی پرورش ہوتی ہے، کیوں کہ مقررہ مدت پوری ہوجانے کے بعد شوہر طلاق دےکر چلا جائے گا، چوں کہ اس تعلق کی غرض حقیقت میں اپنی طبعی تقاضا پورا کرنا تھا تو شوہر بچے سے بے فکر ہوکر چلا جاتا ہے، اولاد بغیر باپ کے عمر کے مراحل طے کرتی ہے، انہیں زندگی کے نشیب و فراز سے آگاہ کرنے والا باپ میسر نہیں آتا، پھر جب اولاد کی تربیت صحیح اور محکم طریقہ سے نہیں ہو تی اور وہ مکمل نشو و نما نہیں پاتے، تو اس سے ا س کی شخصیت پر منفی اثر ہوتا ہے۔ 4۔ اس قسم کی شادی میں عورت مرد کو اپنا نگران اور مسئول نہیں سمجھتی ، جس کے نتیجے میں شوہر کے ساتھ سلوک میں خرابیاں پیدا ہوتی ہےاور اس طرح وہ اپنے آپ کو بھی اور معاشرے کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔ 5۔ اس قسم کے عقد میں خوا تین کی تذلیل ہے، کیوں کہ اس تعلق کا مقصد صرف اور صرف وقتِ متعینہ تک اپنی خواہش کی تکمیل ہے، وقتِ مقررہ کے بعد عورت کو مستعمل اوراق کی طرح پھینک دیا جائے، عورت کو اس قسم کی تذلیل سے محفوظ رکھنے کے لیے شریعت نے پہلے شوہر کے لیے بیوی کو حلال کرنے کےلیے طلاق کی شرط کے ساتھ نکاح کرنے کو مکروہِ تحریمی (ناجائز) قرار دیا ہے۔ 6۔اس قسم کی شادی میں خاندانی نظام مکمل طور پر تباہ ہو جاتا ہے، کیوں کہ نہ میاں بیوی کی ایک ساتھ ہمیشہ کےلیے رہائش ہوتی ہے، اور نہ ہی دونوں میں مکمل مودت و محبت ہوتی ہے جوکہ نکاح کا لازمی جز اور مقصد ہے ۔ قرآنِ کریم میں ہے: {ومن آياته أن خلق لكم من أنفسكم أزواجا لتسكنوا إليها وجعل بينكم مودةً ورحمةً إن في ذلك لآيات لقوم يتفكرون}(سورۃ الروم،الایۃ:21) ترجمہ:اور اسی کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے واسطے تمہاری جنس کی بیبیاں بنائیں؛ تاکہ ان کے پاس آرام ملے اور تم میاں بیوی میں محبت اور ہم دردی پیدا کی۔ اس میں ان لوگوں کےلیے نشانیاں ہین جو فکر سے کام لیتے ہیں۔ میں رہنا بیان کی بھی جائے یا بطورِ شرط رکھی جائے، لیکن اس بات کا قوی خدشہ ہے کہ لڑکے اور لڑکیاں اس قسم کے نکاح کو ظاہر کرکے گھروں سے گھر والوں کی اجازت کے بغیر چلے جائیں، یوں اس نکاح کا جواز معاشرے کے شیرازہ بکھیرنے اور اس کی بنیادیں ہلانے کے مترادف ہے۔ ان تمام مفاسد اور خرابیوں کی وجہ سے "نکاح مسیار" (زواج مسیار) کی شرعاً اجازت نہیں۔ حوالہ جات (1)في تفسیر ابن کثیر وقوله: هن لباس لكم وأنتم لباس لهن قال ابن عباس ومجاهد وسعيد بن جبير والحسن وقتادة والسدي ومقاتل بن حيان: يعني هن سكن لكم وأنتم سكن لهن، وقال الربيع بن أنس: هن لحاف لكم وأنتم لحاف لهن، وحاصله: أن الرجل والمرأة كل منهما يخالط الآخر ويماسه ويضاجعه، فناسب أن يرخص لهم في المجامعة في ليل رمضان لئلا يشق ذلك عليهم ويحرجوا(ج:1،ص:375،ط:دار الکتب العلمیة) و في روح البیان : وجعل كل من الرجل والمرأة لباسا للآخر لتجردهما عند النوم واعتناقهما واشتمال كل منهما على الآخر أو لأن كلا منهما يستر حال صاحبه ويمنعه من الفجور وعما لا يحل كما جاء في الحديث (من تزوج فقد احرز ثلثى دينه) او المعنى هن سكن لكم وأنتم سكن لهن كما قال تعالى وَجَعَلَ مِنْها زَوْجَها لِيَسْكُنَ إِلَيْها ولا يسكن شىء الى شىء كسكون أحد الزوجين الى الآخر(ج:1،ص:299،ط:دار الفکر،بیروت ) (2) في التفسیر المظهري: ولما كان الرجل والمرأة يعتنقان ويشتمل كل منهما على صاحبه شبه باللباس- او لان اللباس كما يستر صاحبه كذلك يكون كل واحد منهما لصاحبه ستراعما لا يحل ، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من تزوج فقد احرز ثلثى دينه. (ج:1،ص:203،ط: مكتبه رشيديه– پاكستان) (3)في روح المعاني: والقيد، وهو صيرورتها ممنوعة عن الخروج والبروز، ومنها وجوب المهر عليه، ومنها وجوب النفقة والكسوة، ومنها حرمة المصاهرة، ومنها الإرث من الجانبين، ومنها وجوب العدل بين النساء في حقوقهن، ومنها وجوب طاعته عليها إذا دعاها إلى الفراش، ومنها ولاية تأديبها إذا لم تطعه بأن نشزت، ومنها استحباب معاشرتها بالمعروف، وعليه حمل الأمر في قوله تعالى، {وعاشروهن بالمعروف} [النساء: 19] ، وهو مستحب لها أيضا والمعاشرة بالمعروف الإحسان قولا، وفعلا وخلقا إلى آخر ما في البدائع". (کتاب النکاح،ج:3،ص:139،ط:دار الکتب العلمیة) (11) في تفسیر ابن کثیر: من أحل لغيره طعاما لايملكه فلم يصح مجازاً عن معنى النكاح كما مر. اهـ ملخصاً. (قوله: وإن جهلت المدة) كأن يتزوجها إلى أن ينصرف عنها كما تقدم ح (قوله: أو طالت في الأصح) كأن يتزوجها إلى مائتي سنة وهو ظاهر المذهب وهو الصحيح كما في المعراج؛ لأن التأقيت هو المعين لجهة المتعة، بحر". (کتاب النکاح،ج:3،ص:51،ط:سعید) وفي شرح فتح القدیر: "ومعناه المشهور أن يوجد عقدا على امرأة لا يراد به مقاصد عقد النكاح من القرار للولد وتربيته بل إلى مدة معينة ينتهي العقد بانتهائها أو غير معينة بمعنى بقاء العقد ما دمت معك إلى أن أنصرف عنك فلا عقد والحاصل أن معنى المتعة عقد موقت ينتهي بانتهاء الوقت فيدخل فيه ما بمادة المتعة والنكاح الموقت أيضا فيكون النكاح الموقت من أفراد المتعة وإن عقد بلفظ التزويج وأحضر الشهود وما يفيد ذلك من الألفاظ التي تفيد التواضع مع المرأة على هذا المعنى ولم يعرف في شيء من الآثار لفظ واحد ممن باشرها من الصحابة رضي الله عنهم بلفظ تمتعت بك ونحوه. والله أعلم. (ج:3،ص:237،ط:دار الکتب العلمية)

No comments:

Post a Comment