https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Thursday 12 October 2023

بچوں کی حضانت کے شرعی احکام

اگر بچے کے پاس مال نہ ہو تو جب تک وہ کمانے کے قابل نہیں ہوجائے اس کانفقہ باپ کے ذمہ ہے ، شرعاً بلوغت کی قید نہیں۔ ۔ میاں بیوی چاہے ساتھ ہوں یا ان کے درمیان جدائی ہوگئی ہو، بہر صورت نابالغ بچوں کے نفقہ کی ذمہ داری والد پر ہی ہے، اور بلوغت کے بعد جب تک اولاد کمانے کے قابل نہ ہو ان کے نفقہ کی ذمہ داری شرعاً والد پر ہی ہوتی ہے، البتہ میاں بیوی کے درمیان جدائی کی صورت میں قاضی وقت کی شرعی ذمہ داری ہے کہ والد کی حیثیت کے مطابق بچوں کا نفقہ مقرر کرے، نیز لڑکا جب سات سال کا اور لڑکی جب نو سال کی ہوجائے تو اس صورت میں ان کی پروش کا شرعی حق والد کو ہے، مقررہ عمر مکمل ہوجانے کے بعد ماں کا بچے اپنے پاس رکھنا شرعاً درست نہیں۔ فتاوی ہندیہ میں ہے: "نفقة الأولاد الصغار على الأب لايشاركه فيها أحد، كذا في الجوهرة النيرة". (الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ١/ ٥٦٠، ط: رشيدية) وفيه أيضاً: "و بعد الفطام يفرض القاضي نفقة الصغار على قدر طاقة الأب و تدفع إلى الأم حتي تنفق علي الأولاد، فإن لم تكن الأم ثقةً تدفع إلى غيرها لينفق على الولد". (١/ ٥٦١) و فيه أيضاً: "الذكور من الأولاد إذا بلغوا حد الكسب و لم يبلغوا في أنفسهم يدفعهم الأب إلى عمل ليكسبوا أو يؤاجرهم و ينفق عليهم من أجرتهم وكسبهم، و أما الإناث فليس للأب أن يؤاجرهن في عمل أو خدمة، كذا في الخلاصة". (١/ ٥٦٢) فق غیر مستحق ِ حضانت کے لیے روا نہیں کہ محض اپنی خواہش کی بنا پر حق ِ حضانت کا دعویٰ اور اسے حاصل کرنے پر اصرار کرے۔ اس لیے یہ کہنے کے کوئی معنی نہیں ہیں کہ بچے کے باپ کے گھر والے بچے کو اپنانے کے لیے پوری طرح تیار ہوں اور باپ بھی یہی چاہتا ہو تو بچے کو ان کے حوالے کردینا چاہیے۔ (۶) اس سلسلے میں مدت ِ حضانت کو بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ حضانت کا آغاز بچے کی پیدائش سے ہوجاتا ہے اور اس کی آخری مدت یہ ہے کہ وہ سن ِ شعور کو پہنچ جائے اور اپنے بنیادی ضروری کام خود سے انجام دینے لگے۔ احناف نے لڑکے کے لیے اس کی مدت سات سال اور لڑکی کے لیے نو سال متعین کی ہے۔ لڑکی کی مدت ِ حضانت زیادہ رکھنے کی حکمت یہ ہے کہ اس کی اچھی طرح نسوانی تربیت ہوجائے۔ مدت ِ حضانت پوری ہونے کے بعد بچہ کس کے پاس رہے گا؟ اس سلسلے میں فقہاء کے مختلف اقوال ہیں ۔ عہد نبوی کے بعض واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بچے کو اختیار دیا تھا کہ وہ ماں باپ، جس کے ساتھ چاہے، رہے۔ حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ اور قاضی شریحؒ نے بھی بعض مقدمات میں یہی فیصلہ کیا تھا۔ اس بنا پر شوافع اور حنابلہ کا یہی مسلک ہے۔ امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں کہ مدت ِ حضانت ختم ہونے کے بعد باپ بچے کو اپنے پاس رکھنے کا زیادہ حق رکھتا ہے۔ اس لیے کہ اسی کو اس کی کفالت اور تعلیم و تربیت کا ذمہ دار بنایا گیا ہے۔ باپ کی یہ ولایت بچے کے بالغ ہونے تک ہے۔ اس کے بعد اسے اختیار ہوگا کہ وہ جس کے ساتھ رہناچاہے رہے۔ ملحوظ رہے کہ اس رائے کی بنیاد اس چیز پر ہے کہ بچے کی صحیح ڈھنگ سے تعلیم اور دینی و اخلاقی تربیت کس کے پاس ہوسکتی ہے۔ اگر باپ لا ابالی ہو، یا کسی بنا پر بچے کی تعلیم و تربیت سے قاصر ہو اور ماں اس کام کو بہتر طریقے سے انجام دے سکتی ہو تو بچے کو اسی کے پاس رہنے دیا جائے گا۔ حق ِ حضانت کے مسئلے پر فریقین یعنی بچے کے ماں باپ کو جذبات سے بالا تر ہوکر غور کرنا چاہیے، اور کسی ایسے فیصلے پر باہم رضا مند ہوجانا چاہیے جس میں بچے کا زیادہ فائدہ ہو، خواہ اس کے لیے انھیں اپنی خواہشات کی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔

No comments:

Post a Comment