https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 17 February 2024

کھانا کھانے کے بعد کی دعا میں من المسلمین صحیح یا بغیر من

 

کھانے کے بعد کی دعا


جب کھانا کھا چکے تو یہ پڑھے

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ أَطْعَمَنَا وَسَقَانَا، وَجَعَلَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ

ترجمہ:

سب تعریفیں خدا کے لئے ہیں جس نے ہمیں کھلایا اور پلایا اور مسلمان بنایا۔

(كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال، 7/104، بیروت)، (سنن أبي داود، 3/407، بيروت)(سنن أبي داود، 5/659، دارالرسالۃ)، (عمل اليوم والليلة لابن السني، 415، بیروت)، (الحصن الحصین، 188، غراس)

لفظِ ’’مِنْ‘‘ کے اضافے پر مشتمل حوالہ جات :

بعض اہلِ علم کا یہ ارشاد محلِ نظر ہے کہ اس دعا میں لفظ ’’مِنْ‘‘ کا اضافہ کہیں بھی نہیں ہے، قطعی غلطی ہے یا محض تصحیف ہے یا پھر ناسخین کے تصرُّف کا نتیجہ ہے، اس لیے کہ لفظ ’’مِنْ‘‘ کا اضافہ کئی معتبر، معتمد اور محقق ناقلین اور شارحین کی نقول اور شروح میں موجود ہے۔ 

حوالہ جات ملاحظہ ہوں:

٭ کنز العمـال في سنن الأقوال والأفعال، ج: ۷، ص: ۱۰۴، رقم الحدیث : ۱۸۱۷۷، طبعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ :
’’ کان صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا فرغ من طعامہٖ قال: الحمد للّٰہ الذي أطعمنا وسقانا وجعلنا من المسلمین۔ حم ۴ والضیاء عن أبي سعید۔‘‘
٭ جمع الفوائد من جامعِ الأصول ومجمع الزوائد، ج:۸۹ ،۴ ، رقم الحدیث: ۹۴۲۲، طبعۃ: دار ابن حزم، بیروت:
’’ أبو سعید: کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا أکل أو شرب، قال: الحمد للّٰہ الذي أطعمنا وسقانا وجعلنا من المسلمین۔ للترمذي وأبي داود۔‘‘
٭ حجَّۃ اللّٰہ البالغۃ، للشاہ ولي اللّٰہ الدہلوي، ج: ۲، ص:۲۱۴ ، طبعۃ: دار الجیل، بیروت:
’’ وإذا أکل أو شرب’’ الحمد للّٰہ الذي أطعمنا، وسقانا، وجعلنا من المسلمین۔‘‘
٭ الشمـائل النبویَّۃ، للترمذي، ص:۱۱۸، رقم الحدیث : ۱۹۲، نسخۃٌ مخطوطۃ في المکتبۃ الأزہریۃ:
’’ عن أبي سعید الخدري ؓ، قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا فرغ من طعامہ قال: ’’الحمد للّٰہ الذي أطعمنا وسقانا وجعلنا من مسلمین ۔‘‘
٭ أشرف الوسائل إلی شرح الشمـائل لابن حجر الہیتميؒ، ص:۲۷۱، طبعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت:
’’ (قال: الحمد للّٰہ ۔۔۔ إلخ) ، وختمہٗ بقولہٖ: (وجعلنا من المسلمین)؛ للجمع بین الحمد علی النعم الدنیویۃ والأخرویۃ، وإشارۃ إلٰی أن الحامد لا ینبغي أن یجود بحمدہٖ إلٰی أصاغر النعم، بل یتذکر جلائلہا فیحمد علیہا أیضا؛ لأنہا بذٰلک أحرٰی وأحق وأولٰی۔‘‘
٭ حاشیۃُ السِّندي علی ابن ماجۃ، ج: ۲، ص: ۳۰۷، رقم الحدیث : ۳۲۸۳، طبعۃ: دار الجیل، بیروت:
’’ قولہ: (وجعلنا من المسلمین) للجمع بین الحمد علی النعمۃ الدنیویۃ والأخرویۃ۔


’’الحمد للّٰہ حمدًا طیبًا مبارکًا فیہ، غیر مکفور ولا مودع ولا مستغنی عنہ ربنا۔‘‘ کان صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقولہ إذا رفع مائدتہ۔ خ، طب عن أبی أمامۃ۔‘‘
وفي سنن ابن ماجۃ (۲۵): 
’’عن أبي أمامۃ الباہلي، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، أنہ کان یقول إذا رفع طعامہ أو ما بین یدیہ، قال: الحمد للّٰہ حمدا کثیرا، طیبا مبارکا، غیر مکفی، ولا مودع، ولا مستغنی عنہ ربنا۔‘‘

مؤخر الذکر روایت میں ’’حمدًا‘‘کے بعد کہیں پر ’’کثیرًا‘‘کے الفاظ منقول ہیں اور کہیں پر صرف ’’حمدًا طیبًا‘‘وارد ہے، کہیں پر ’’الحمد للّٰہ کثیرًا‘‘ کے الفاظ ہیں، ’’حمدًا‘‘نہیں ہے۔
٭    مؤخر الذکر دعا کو الفاظ کے حذف و اضافہ کی دونوں صورتوں کے ساتھ بلانکیر نقل و قبول کرنا، اس بات کے لیے مؤید ہے کہ اس نوعیت کی روایات میں اس درجے کی معمولی کمی بیشی سے اگر روایت میں لفظی یا معنوی خلل پیدا نہ ہوتا ہو اور مقصودِ اصلی صحیح طور پر ادا ہورہا ہو، بالخصوص ایسی روایات کہ جن پر کسی حکم کی بنیاد بھی نہ رکھی جارہی ہو، تو ایسی روایات کو نقلِ روایات کے ضوابط اور اُصولِ تحقیق کے قواعد کے موجب اس درجے کی کمی بیشی کے ساتھ نقل کرنے میں مضائقہ نہیں ہے، بطورِ خاص جن اہلِ علم کے ہاں روایت بالمعنی کا جواز موجود ہو اور ایسی روایات کے ناقلین کی ثقاہت و فقاہت بھی مسلم ہو، تو ایسے موقع پر کسی غیر مخل لفظ کی کمی بیشی میں شدت کے ساتھ اُلجھنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔

’’الحمد للّٰہ الذي أطعمنا و سقانا و جعلنا مسلمین‘‘ میں لفظِ ’’مِنْ‘‘ کے اضافے پر دو وزنی اشکال اور اُن کا جواب 

تاہم روایتِ بالا (الحمد للّٰہ الذي أطعمنا و سقانا و جعلنا مسلمین) کے بارے میں روایتی پہلو سے دو وزنی اشکال سامنے آتے ہیں، ایک یہ کہ جب مذکورہ دعا کو بطور روایت و حکایت بیان کیا جارہا ہو تو اس میں روایت و نقل کے دیانتی اُصول کے مطابق معمولی کمی بیشی کی گنجائش بھی نہیں ہونی چاہیے، یہ روایت کا وہ اصول ہے جس کی رعایت ہر جگہ رکھی جاتی ہے۔
دوسرا اشکال یہ ہے کہ جن کتب میں لفظِ ’’مِنْ‘‘ کا اضافہ درج ہے،ا ن کتابوں میں جن مصادر کا حوالہ دیا جاتا ہے، ان مصادرِ اصلیہ کے دستیاب نسخوں میں لفظِ’’مِنْ‘‘ کا اضافہ موجود نہیں ہے، یہ دونوں اشکال علمی واُصولی نوعیت کے ضرور ہیں، مگر ان کے بجا ‘ہونے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ان الفاظ کی نفی کے لیے استقراء کی بجائے استقصاء واحصاء تام کا مؤقف قائم کیا جائے، مگر ہمارا خیال یہ ہے کہ دنیا میں کوئی بھی عالمِ دین شاید ہی ایسا ہو جو یہ مؤقف رکھتا ہو کہ دنیا کے سارے نسخے ہم نے دیکھ لیے ہیں، اور اضافہ نقل کرنے والے ہمارے ناقلینِ عظام کے سامنے بھی مراجعِ اصلیہ کے وہی نسخے موجود تھے جو ہمارے سامنے موجود ہیں۔
اگر یہ جازِمانہ رائے قائم نہ ہوسکے تو پھر یہ احتمالی رائے زیادہ وقیع ہے کہ لفظِ ’’مِنْ‘‘ کے حذف واضافہ کو نسخوں کا اختلاف قرار دیا جائے، اور یہ کہا جائے کہ ہمارے متأخرین و معاصرین، ناشرین و ناسخین کے سامنے جو نسخے تھے ان میں لفظ ’’مِنْ‘‘ کا اضافہ نہیں تھا یا محذوف تھا، جبکہ ’’جمع الفوائد، کنز العمـال، الحصن الحصین، الکلم الطیب ،حجۃ اللّٰہ البالغۃ‘‘ وغیرہا کے مؤلفین ومحققین کے سامنے سنننِ اربعہ، مسند احمد، شمائل اور بیہقی وغیرہ کے بعض ایسے نسخے بھی موجود تھے جن میں لفظِ ’’مِنْ‘‘ کا اضافہ موجود تھا، یہ اضافہ محض احتمالی نہیں ہے، بلکہ اس کے شواہد بھی موجود ہیں:

الف: ۔۔۔۔۔ حضرت شیخ الحدیث مو لانا زکریا ؒ نے شمائلِ نبوی کی شرح خصائلِ نبوی میں یہ صراحت فرمائی ہے کہ مذکورہ دعا میں لفظ ’’مِنْ‘‘ ہمارے ہندی ومصری نسخوں میں نہیں ہے، مگر بعض حواشی میں نسخے کے اشارے کے ساتھ ’’من المسلمین‘‘ بھی موجود ہے۔

’’قال شیخُ الحدیث محمد زکریا الکاندہلوي في خصائل نبوي‘‘ (ص:۱۹۹) طبعۃُ: مکبتۃ البشرٰی:
’’قولہ: (مسلمین) ہٰکذا في جمیع النسخ الموجودۃ من الہندیۃ والمصریۃ، وفي بعض الحواشي بطریق النسخۃ: من المسلمین، اہـ۔‘‘

ب: ۔۔۔۔۔ نسخوں کے اسی اختلاف کی تحقیق کرتے ہوئے شیخ ابو عبد اللہ السید بن احمد حمودہ فرماتے ہیں کہ شمائل کے متعدد نسخوں میں سے ایک نسخے میں لفظ ’’مِنْ‘‘ کا اضافہ موجود و محفوظ ہے، یہ نسخہ (۱۰۴) صفحات پر مشتمل ہے، مصر کے مکتبہ ازہریہ میں موجود ہے، جو (۱۲۳۲ھ) میں کاتب احمد بن محمد کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے، چنانچہ شیخ ابو عبد اللہ السید بن احمد حمودہ شمائل نبوی کی تحقیق کرتے ہوئے مقدمہ میں اس نسخہ کا تعارف کرتے ہوئے لکھتے ہیں، جس میں لفظِ’’مِنْ‘‘ کا اضافہ ہے :



نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤوں میں ’’اللّٰہم أحیني مسکینًا وأمتني مسکینًا، واحشرني في زمرۃ المساکین یوم القیامۃ۔‘‘ (۲۶) بھی وارد ہے۔
اس مضمون کی سب سے واضح تائید قنوتِ نازلہ کے الفاظ سے ہوتی ہے:
’’اللّٰہم اہدني فیمن ہدیت، وعافني فیمن عافیت، وتولَّني فیمن تولیت، وبارک لي فیمـا أعطیت، وقني شرَّ ما قضیت، إنک تقضي ولا یقضٰی علیک، وإنہٗ لا یذل من والیت، ولا یعز من عادیت، تبارکت ربنا وتعالیت۔‘‘ (۲۷)
اس تفصیل سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ اسلام ایک عظیم نعمت ہے، اس نعمت کے بعد زمرۂ مسلمین میں شمردگی اس سے بڑی نعمت ہے، اس لیے کہ اسلام کی نعمت‘ نصیب ہونے کے بعد اہلِ اسلام میں شامل اور شمار رہنے کی دعا وتعلیم اس کا واضح ثبوت ہے۔

 

’’جعلنا من المسلمین‘‘ کی ترجیح

اس توضیح کے تناظر میں مذکورہ دعا میں ’’وجعلنا مسلمین‘‘ کی بجائے ’’وجعلنا من المسلمین‘‘ میں زیادہ جامعیت ہے، ان الفاظ کے ذریعہ دنیا وآخرت کی نعمتوں کا کمال کے ساتھ شکر اداہورہا ہے، یعنی خورد نوش کی نعمت پر شکر، مسلمان ہونے کی نعمت پر شکر، اور مسلمانوں میں شمار ہونے کی نعمت پر شکر کا فائدہ ہورہا ہے، انفرادیت کے مقابلے میں اجتماعیت میں بے شمار فوائد ہیں، کبھی انسان کا ذاتی کمال اور عمل نجات وقبولیت کا رتبہ نہیں پاسکتا، مگر اجتماعیت کی بدولت وہ ذاتی کمال وعمل اس رتبہ سے ہم آہنگ ہوجاتا ہے، جیسے اجتماعی نماز، اجتماعی جنازہ اور اجتماعی دعا وغیرہ، اس کے متعدد نظائر ہیں۔

خلاصۂ کلام

 خلاصہ کلام یہ ہے کہ ’’الحمد للّٰہ الذي أطعمني ہٰذا ورزقنیہ من غیر حولٍ ولا قوَّۃ‘‘ یہ دعا کھانے سے پہلے نہیں، بلکہ کھانے کے بعد پڑھنا مسنون ومأثور ہے۔
جبکہ دوسری دعا ’’الحمد للّٰہ الذي أطعمنا وسقانا وجعلنا من المسلمین‘‘ میں لفظ ’’مِنْ‘‘ کے حذف واضافہ سے متعلق تفصیل یہ ہے کہ لفظ ’’مِنْ‘‘ کا اضافہ ہمارے ہاں رائج مطبوعہ متداول نسخوں موجود نہیں ہے، اگر کوئی صاحبِ علم لفظ’’مِنْ‘‘ کی موجودگی کی نفی ازیں جہت کرے کہ یہ ہمارے متداول نسخوں میں مکتوب وموجود نہیں ہے، اس لیے ہم نہیں پڑھتے تو ان کی یہ با ت اپنی جگہ درست ہے، اور ان کا لفظِ’’مِنْ‘‘ کا بغیر پڑھنا بھی درست ہے، روایت کا اصل مقصد اور معنی بھی اپنی جگہ باقی وبرقرار اور صحیح ہے۔
لیکن ’’مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ‘‘ کے الفاظ کی سرے سے موجودگی کی نفی یا تصحیف ونسخ کی غلطی کا تأثر دینا درست نہیں ہے، کوئی بھی صاحبِ علم دنیا کے تمام نسخوں پر اطلاع واحاطہ کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔
دوسرا یہ ہے کہ متعدد معتبر ناقلین ان الفاظ کو عرصہ سے نقل کرتے چلے آرہے ہیں، اور بعض مکتبات میں ’’مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ‘‘ کے اضافے والے نسخوں کی موجودگی بھی ثابت ہے، جس سے ’’وَجَعَلَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ‘‘ والے الفاظ کی موجودگی اور درستگی کی رائے کو تقویت وتائید مل رہی ہے۔
لہٰذا اس سب کچھ کے باوجود تحقیق کے اصول اور روایت کے قواعد کے مطابق اگر متداول مطبوعہ نسخوں میں سے ’’مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ‘‘ کے حذف کرنے کی ذمہ داری کسی پر عائد نہیں کی جاسکتی، تو کم ازکم ’’مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ‘‘کے الفاظ کی کہیں نہ کہیں موجودگی اور صحت کا انکار بھی قطعاً نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ اہلِ علم بخوبی جانتے ہیں کہ حذف وسقط کی ذمہ داری‘ مؤلف ومرتب کی بجائے ناسخ وناشر کے ذمہ میں ڈالنا زیادہ آسان ہوتا ہے، جیسے ’’مصنف ابن أبي شیبۃ‘‘ کے بعض مخطوطات میں ’’باب ماجاء في وضع الیدین تحت السرۃ‘‘ کا باقاعدہ عنوان اور متعلقہ آثار موجود تھے، مگر مطبوعہ نسخوں میں یہ عنوان ہے نہ معنون، جبکہ اس کے مقابلے میں زیرِ بحث مسئلہ اس درجہ کا مدار حکم بھی نہیں ہے، اس لیے اس میں نزاع ونکیر کی کوئی وجہ اور ضرورت نہیں ہے۔ مذکورہ دعا کو ’’جَعَلَنَا مُسْلِمِیْنَ‘‘ اور ’’جَعَلَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ‘‘ دونوں طریقوں سے پڑھنا درست ہے۔


No comments:

Post a Comment