https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 13 February 2024

فسخ نکاح

 

سوال

فسخ  کن  وجوہات  کی بنا  پر ہوسکتا ہے، اور  قاضی کا کیا کردار  ہے؟

جواب

سوال میں اگر فسخ سے مراد نکاح فسخ کرنا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ :

  طلاق یا خلع واقع ہونے کے لیے شرعاً  شوہر کی رضامندی  ضروری ہے، اس لیے کہ   طلاق  دینے کا اختیار شرعاً شوہر کو حاصل ہے، اسی طرح  خلع   دیگر مالی معاملات کی طرح  ایک مالی معاملہ ہے، جس طرح دیگر  مالی معاملات  معتبر ہونے کے لیے جانبین ( عاقدین) کی رضامندی ضروری ہوتی ہے اسی طرح خلع  معتبر ہونے کے لیے  بھی زوجین ( میاں بیوی) کی رضامندی ضروری ہوتی  ہے، شوہر کی رضامندی کے بغیر اگر عدالت بھی بیوی کے حق میں یک طرفہ خلع کی ڈگری جاری کردے تو شرعا ً ایسا خلع معتبر نہیں ہوتا ۔

البتہ خلع کے علاوہ  بعض مخصوص حالات میں قاضی  شرعی کو یہ  اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ  شوہر کی اجازت کے بغیر بھی  میاں بیوی میں تفریق کرسکتا ہے، اس لیے کہ   نکاح کے بعض حقوق ایسے ہوتے ہیں  جو  نکاح کے مصالح  اور مقاصد میں سے ہیں اور قضاءً اس کی ادائیگی شوہر پر لازم ہوتی ہے ،  اگر شوہر ان کی ادائیگی نہ کرے تو بزورِ  عدالت انہیں وصول کیا جاسکتا ہے، مثلًا بیوی کا نان ونفقہ  اور حقوقِ زوجیت ادا کرنا وغیرہ،  اگر شوہر ان کی ادائیگی سے عاجز  ہو تو عورت کو طلاق دے دے ایسی صورت میں اگر  وہ  طلاق دینے سے انکار کرتا ہے یا شوہر طلاق دینے کے قابل نہیں ہے تو قاضی اس کا قائم مقام بن کر میاں بیوی میں تفریق کرسکتا ہے، کیوں کہ اس کو ولایت حاصل ہوتی ہے،  بیوی خود تفریق نہیں کرسکتی۔

جن اسباب کی بنا پر قاضی شرعی، میاں بیوی کا نکاح فسخ کرسکتا ہے وہ درج ذیل ہیں:

1۔شوہر پاگل یا مجنون ہو۔

2۔ شوہر نان و نفقہ ادا  نہ کرتا ہو۔

3۔ شوہر نامرد ہو۔

4۔  شوہر مفقود الخبر یعنی بالکل  لاپتہ ہو۔

5۔ شوہر  غائب غیر مفقود ہو اور عورت کے لیے خرچ وغیرہ کی کفالت کا انتظام نہ ہو یا عورت کے معصیت میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو۔

6۔ضربِ مبرّح یعنی شوہر بیوی کو سخت مار پیٹ کرتا ہو۔

 ان اسباب  میں سےکسی  کی موجودگی میں  اگر عورت مسلمان جج کی عدالت میں دعویٰ دائر کرکے گواہوں سے اپنے مدعی کو ثابت کردیتی ہے  اورقاضی حسبِ شرائط  نکاح فسخ کردیتا ہے تو اس کا یہ فیصلہ معتبر ہوگا اور اس میں شوہر کی اجازت ضروری نہیں  ہوگی ، اسی طرح اگر شوہر  عدالت میں حاضر نہ ہو تو عدالت شوہر کی غیر موجودگی میں بھی نکاح ختم کرانے کا اختیار رکھتی ہے، نکاح فسخ ہوجانے کے بعد عورت عدت گزار کر  دوسری جگہ شادی کرنے میں آزاد ہوگی۔ (تفصیل کے لیے الحیلۃ الناجزہ للحلیلۃ العاجزہ،(مؤلف:حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی) ؒ کا  مطالعہ کریں )


"(قال) : والخلع جائز عند السلطان وغيره؛ لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود، وهو بمنزلة الطلاق بعوض، وللزوج ولاية إيقاع الطلاق، ولها ولاية التزام العوض، فلا معنى لاشتراط حضرة السلطان في هذا العقد."

(المبسوط للسرخسي (6 / 173) باب الخلع، ط: دارالمعرفة، بیروت)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"و أما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع  الفرقة، و لايستحق العوض بدون القبول."

(3 / 145، فصل في حکم الخلع، ط: سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"و يجب لو فات الإمساك بالمعروف ...

(قوله: لو فات الإمساك بالمعروف) ما لو كان خصيًّا أو مجبوبًا أو عنينًا أو شكازًا أو مسحرًا، و الشكاز: بفتح الشين المعجمة و تشديد الكاف و بالزاي: هو الذي تنتشر آلته للمرأة قبل أن يخالطها، ثم لاتنتشر آلته بعده لجماعها، و المسحر بفتح الحاء المشددة: و هو المسحور، و يسمى المربوط في زماننا ح عن شرح الوهبانية."

(3/229، کتاب الطلاق، ط: سعید)


ہندوستان میں قاضی نکاح کن حالات میں فسخ کرسکتا ہے، اگر فریاد لڑکی کی طرف سے ہوئی ہو اور معاملہ دارالقضا میں چل رہا ہو؟

سوال:

ہندوستان میں قاضی نکاح کن حالات میں فسخ کرسکتا ہے، اگر فریاد لڑکی کی طرف سے ہوئی ہو اور معاملہ دارالقضا میں چل رہا ہو؟

جواب نمبر: 17774

بسم الله الرحمن الرحيم

فتوی(ب):1983=351tb-12/1430

 

بہت سے اسباب ووجوہ ہیں جن کی بنا پر قاضی نکاح کو فسخ کرتا ہے۔ اس کی تفصیل دیکھنا چاہیں تو اس کے لیے [کتاب الفسخ والتفریق] کا مطالعہ کریں اور [الحیلة الناجزہ] کا مطالعہ کریں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہردو فریق کے بیانات لینے کے بعد گواہوں اور ان پر جرح کے بعد اگر شوہر کا تعنت اور سرکشی وزیادتی ثابت ہوتی ہے تو ایسی حالت میں قاضی میاں بیوی کے درمیان نکاح فسخ کرکے تفریق کردیتا ہے۔


واللہ تعالیٰ اعلم

 دارا دارالافتاء،

عدم ادائیگی نفقہ کی بنا پر فسخ نکاح:


واضح رہے کہ  شوہر کے ذمہ بیوی کا نان ونفقہ  اور ہائش  یہ بیوی کا ایسا حق ہے    جو  نکاح کے مصالح  اور مقاصد میں سے ہے  اور قضاءً اس کی ادائیگی شوہر پر لازم  ہے ،  اگر شوہر ان کی ادائیگی نہ کرے تو بزورِ  عدالت انہیں وصول کیا جاسکتا ہے، اور   اگر شوہر اس کی ادائیگی سے عاجز  ہے تو وہ  بیوی کو طلاق دے دے،  ایسی صورت میں اگر  وہ  طلاق دینے سے انکار کرتا ہے  تو قاضی اس کا قائم مقام بن کر میاں بیوی میں تفریق کرسکتا ہے، کیوں کہ اس کو ولایت حاصل ہوتی ہے، البتہ   بیوی خود تفریق نہیں کرسکتی۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً  شوہر، بیوی کا نان ونفقہ نہیں دیتا اور  نباہ کی کوئی صورت نہیں بن رہی  تو  بیوی  ، شوہر سے   طلاق یا باہمی رضامندی سے  خلع  کا معاملہ  کر کے علیحدگی اختیار کرسکتی ہے،تاہم اگر شوہر طلاق یا خلع دینے پر رضامند نہ ہو، اور بیوی کے شوہر کے  ساتھ رہنے   یا اس کی اجازت سے میکہ میں رہنے کے باوجود  ، اس کو نفقہ (خرچہ)   نہ دیتا ہوں    تو  اس صورت میں  عورت   کسی مسلمان جج کی عدالت میں  شوہر کے نان ونفقہ (خرچہ) نہ دینے  کی بنیاد پر  کیس دائر   کر کے نکاح فسخ کراسکتی ہے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ بیوی  مسلمان جج کی  عدالت میں رجوع کرکے اپنا نکاح اور شوہر کا نفقہ نہ دینا شرعی گواہوں کے ذریعہ  ثابت کرے ،  اور متعلقہ جج  شرعی شہادت وغیرہ کے ذریعہ  معاملہ کی  پوری تحقیق کرے، اگر عورت کا دعویٰ  صحیح ثابت ہوجائے کہ اس کا شوہر  باوجود  وسعت کے  نہ تو اپنی منکوحہ کو   اپنے گھر لے جاتا ہے اور نہ    خرچہ  دیتا  ہے، تو اس کے  شوہر سے کہا جائے  کہ  عورت کے حقوق ادا کرو  یا  طلاق دو ،  ورنہ ہم تفریق کردیں گے،  اس کے بعد بھی اگر  وہ کسی صورت پر عمل نہ کرے تو  قاضی یا شرعاً جو اس کے قائم مقام ہو عورت پر طلاق واقع کردے۔، اور  اس صورت میں اگر شوہر  عدالت میں حاضر نہ ہو تو عدالت شوہر کی غیر موجودگی میں بھی نکاح ختم کرانے کا اختیار رکھتی  ہے۔(ماخوذ از حیلہ ناجزہ، ص: 73،74،   ط: دارالاشاعت)  

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرقة ولايستحق العوض بدون القبول."

 (3/ 441، كتاب الطلاق، باب الخلع،  ط: سعيد) 

"المحیط البرہانی" میں ہے:

"و المعنى في ذلك أن النفقة إنما تجب عوضاً عن الاحتباس في بيت الزوج، فإذا كان الفوات لمعنى من جهة الزوج أمكن أن يجعل ذلك الاحتباس باقيًا تقديرًا، أما إذا كان الفوات بمعنى من جهة الزوجة لا يمكن أن يجعل ذلك الاحتباس باقياً تقديرًا، وبدونه لايمكن إيجاب النفقة."

(4 /170، كتاب النفقات، ط: دار الكتب العلمية)

فقط والله اعلم دارالافتاء دارالعلوم دیوبند 


دوسری اور آخری قسط

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

 

خواتین کے حقوق اورہندستانی علما

 

احناف کے یہاں ایک مشہور مسئلہ یہ ہے کہ بیوی کا حق جماع زندگی میں ایک ہی دفعہ ہے۔ اگر ایک دفعہ شوہر نے بیوی سے ہم بستری کرلی اور اس کے بعد عنین ہوگیا تو اس کی بیوی فسخ نکاح کا دعویٰ دائر نہیں کرسکتی ۔ یہی حکم اس صورت میں بھی ہے ، جب شوہر جماع پر قادر ہو اور ایک دفعہ قربت کرچکا ہو۔ لیکن اس کے بعد اس نے قطع تعلق کر رکھا ہو : ’ ولو وطی مرۃ ثم عجز عن الوطی فی ہذا النکاح لایکون لہا حق الخصومۃ‘ ﴿۱طحطاوی : ۲/۳۱۲﴾ مگر علامہ ابن نجیم مصریؒ کے بیان کے مطابق یہ نقطۂ نظر فقہاء  کے ایک گروہ کا ہے کہ قضأً صرف ایک بار جماع واجب ہے ، اس کے بعد دیانتاً واجب ہے نہ کہ قضأً لیکن حنفیہ کے دوسرے گروہ کے نزدیک قضائ ًبھی واجب ہے ۔ علامہ شامی نقل کرتے ہیں :

قال فی البحر وحیث علم أن الوطیٔ لا یدخل تحت القسم ، فہل ہو واجب للزوجۃ ؟ وفی البدائع لہا أن تطالبہ بالوطیٔ لأن حلہ لہا حقہا کما أن حلہا لہ حقہ واذا طالبتہ یجب علیہ ، ویجبر علیہ فی الحکم مرۃ والزیادۃ تجب علیہ فی الحکم۔   ﴿ردالمحتار ، باب القسم : ۲/۸۹۳ ﴾

                               

اس سے معلوم ہوا کہ ایک جماعت کے نزدیک عورت کی ضرورت کے مطابق جماع قضاء  بھی اس کا حق ہے۔

شقاق کی وجہ سے فسخ نکاح

مالکیہ کے نزدیک اگر مرد کی طرف سے زیادتی ثابت نہ ہو ؛ لیکن بیوی کو کسی بھی وجہ سے شوہر سے ایسی نفرت پیدا ہوگئی ہو کہ وہ اس کے ساتھ رہنے پر آمادہ نہ ہو ، جس کو قرآن مجید نے ’شقاق ‘ سے تعبیر کیا ہے ، تو قاضی حکمین کا تقرر کرے گا۔ یہ حکم پوری صورتِ حال کا جائزہ لیں گے اور پہلے دونوں میں موافقت پیدا کرنے کی کوشش کریں گے موافقت نہ ہونے کی صورت میں اگر زیادتی شوہر کی طرف سے محسوس ہوتو بیوی پر بلا کسی عوض کے طلاق واقع کردیں گے اور اگر زیادتی عورت کی طرف سے ہوتو عورت کی طرف سے مہر معاف کردیں گے اور شوہر کی طرف سے طلاق واقع کی جائے گی،یہی خلع ہے۔ مولانا عبد الصمد رحمانی نے مالکیہ کے اس قول کو قبول کرتے ہوئے اس کو ’ تفریق بہ سبب شقاق ‘ سے تعبیر کیا ہے ۔ اکیڈمی قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒنے اس مسئلے پر اپنے ایک مقالے میں تفصیل سے بحث کی ہے اور دارالقضائ میں متعدد مقدمات اس اُصول پر فیصل کیے ہیں۔

دھوکا دہی کی وجہ سے فسخ نکاح

ہندستان میں مسلمانوں کے تمام مکاتب ِفکر کا نمایندہ پلیٹ فارم ’آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ‘ ہے۔ بورڈ نے عائلی قوانین کا ایک مجموعہ مرتب کیا ہے۔ تاکہ وہ حوالے کی کتاب کا کام دے سکے۔ اس کتاب میں ’ تغریر ‘ کو بھی ایک سبب فسخ مانا گیا ہے ۔ تغریر سے مراد یہ ہے کہ شوہر نے نکاح سے پہلے اپنی حیثیت کے بارے میں غلط باور کرایا ہو ، مثلاً اس نے اپنے آپ کو ڈاکٹر ، معلم یا کسی باعزت پیشے سے متعلق شخص بتایا ہو، مگر یہ بات غلط ثابت ہوئی ، تو عورت فسخ نکاح کا مطالبہ کرسکتی ہے۔ اس کی بنیاد فقہاء  کی بعض صراحتیں ہیں ، جیسے علامہ شامی کا بیان ہے :

لکن ظہر لی الآن أن ثبوت حق الفسخ لہا للتغریر لا لعدم الکفائۃ ؛ بد لیل أنہ لو ظہر کفوا یثبت لہا حق الفسخ ، لأنہ غرہا ولا یثبت للاولیائ ؛ لأن التغریر لم یحصل لہم ، وحقہم فی الکفائ ۃ وہی موجودۃ ۔       ﴿ردالمحتار: ۵/۶۷۱،کتاب الطلاق﴾

مفقود الخبرکی بیوی

اول یہ کہ اگر مفقود الخبرکا نکاح فسخ کردیا جائے ، اس نے دوسرا نکاح کرلیا پھر اس کا شوہر اوّل واپس آجائے تو اب وہ عورت کس کی زوجیت میں رہے گی ؟ امام ابوحنیفہؒ اور امام شافعیؒ کے نزدیک وہ شوہر اول کی بیوی سمجھی جائے گی اور اسی کی طرف واپس کردی جائے گی۔ امام مالکؒ اور امام احمدؒ کے نزدیک اگر شوہر ثانی کے دخول سے پہلے شوہر اوّل آجائے تب تو بیوی شوہر اوّل کی طرف لوٹائی جائے گی اور اگر اس کے بعد آیا تو شوہر اول کا اس پر کوئی حق نہیں ہوگا۔ ﴿دیکھیے : المیزان الکبریٰ: ۲/۱۹ ، رحمۃ الامۃ : ۳۱۳﴾جب کہ ربیعۃ الرایٔ کے نزدیک جب قاضی نے شوہر اول کا نکاح فسخ کردیا تو اب شوہر ثانی کا کوئی حق باقی نہیں رہا۔ ﴿المحلی : ۱/۸۳۱ ﴾ اس سلسلے میں حقیر کی راے یہ ہے کہ اس ذیل میں امام مالکؒ اور امام احمدؒ کی رائے زیادہ قابل قبول ہے اور یہ اس صورت میں جب کہ مفقود الخبر شخص کوئی ایسی جائیداد چھوڑ کر گیا ہو ، جس سے عورت کا نفقہ ادا ہوجاتا ہو۔ اگر شوہر نے نفقہ نہیں چھوڑا اور عدم نفقہ کی بنیاد پر نکاح فسخ ہوا ہو تو چوں کہ عدم نفقہ کی بنیاد پر تفریق فقہاء  کے نزدیک طلاق بائن کے حکم میں ہے، اس لیے عورت کا دوسرا نکاح ہوا ہو یا نہ ہوا ہو ، شوہر اول کا اب اس عورت پر کوئی حق نہیں ۔

باپ دادا کے کیے ہوئے نکاح میں خیارِ بلوغ

دوسرا مسئلہ خیارِ بلوغ کا ہے ۔ مالکیہ ، شوافع اور حنابلہ کے نزدیک صرف باپ یا باپ اور دادا ہی کو نابالغ بچوں کے نکاح کا حق حاصل ہے اور اس طرح باپ یا دادا جو نکاح کردیں ، وہ ان پر لازم ہے۔ حنفیہ کے یہاں باپ اور دادا کے علاوہ دوسرے اولیائ بھی نابالغ کا نکاح کرسکتے ہیں۔ لیکن انھیں ولایت لزام حاصل نہیں ہے۔ یعنی ان کا کیا ہوا نکاح لازم نہیں ہوگا۔ بل کہ لڑکوں اور لڑکیوں کو بالغ ہونے کے بعد اس نکاح کو رد کردینے کا اختیار حاصل ہوگا۔ البتہ باپ یا دادا کا کیا ہوا نکاح لازم ہوگا ، سوائے اس کے کہ وہ معروف بسوء الاختیار یا فاسق متہتک ہو یا نشے کی حالت میں نکاح کردے :

أحدہمااذا زوجہم الأب والجد ، فلا خیار لہا بعد بلوغہا بشرطین: أن لا یکون معروفاً بسوئ الاختیار قبل العقد ، ثانیہما: أن لا یکون سکرانا فیقضی علیہ سکرہ بتزویجہا بغیر مہر المثل أو فاسق أو غیر کفوئ۔    ﴿کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعۃ : ۴/۳

نعم ، اذا کان متہتکا لا ینفد تزویجہ ایاہا بنقص عن مہر المثل ومن غیر کفوئ . وحاصلہ أن العنین وان کان لا یسلب الأہلیۃ عندنا لکن اذا کان الاب لا ینفذ تزویجہ الا بشرط المصلحۃ۔ ﴿ردالمحتار : ۳/۳۲۰ ، باب الولی﴾

لیکن قاضی ابو شریح کے نزدیک اگر باپ دادا نے نکاح کیا ہو تب بھی لڑکے اور لڑکی کو بالغ ہونے کے بعد دعویٰ تفریق کا حق حاصل ہے :

اذا الرجل زوج ابنہ أو ابنتہ، فالخیار لہما اذا شبا﴿مصنف ابن ابی شیبہ : ۴/۱۴۱ ﴾

حقیر کی رائے میں موجودہ دور کو دیکھتے ہوئے قاضی شریح کی رائے قابل ترجیح معلوم ہوتی ہے ۔

خیارِ بلوغ اور باکرہ

خیار بلوغ میں لڑکے کو اس وقت تک تفریق کے دعوے کا حق دیا گیا ہے ، جب تک اس کی جانب سے نابالغی کے اس رشتے پر رضامندی کا اظہار نہ ہوجائے۔ لیکن باکرہ لڑکی پر یہ بات ضروری قرار دی گئی ہے کہ وہ بالغ ہونے کے ساتھ ہی اپنی ناپسندیدگی کو ظاہر کردے ۔ ورنہ اس کا حق خیار ختم ہوجائے گا۔ یہاں تک کہ بعض فقہاء  نے تو لڑکی کو اس بات کی اجازت دی ہے کہ اگر وہ بروقت کسی کو گواہ بنانے پر قادر نہیں ہے توبعد میں جب گواہ میسر آئے جھوٹ بولتے ہوئے کہہ دے کہ وہ ابھی بالغ ہوئی ہے اور حق خیار کا استعمال کرنا چاہتی ہے:

لا تصدیق فی الاشہاد جاز لہا أن تکذب کی لا یبطل حقہا ۔ ﴿عمدۃ الرعایۃ : ۲/۴۳ ﴾

مشرقی معاشرے میں کسی باکرہ لڑکی سے اس بات کی توقع نہیں کہ وہ حیض آتے ہی اس بات کا اعلان کردے کہ میں ابھی بالغ ہوئی ہوں اور فلاں نکاح کو ناپسند کرتی ہوں ۔اس لیے لڑکوں اور ثیبہ عورتوں کی طرح باکرہ لڑکیوں کو بھی یہ حق ہونا چاہیے کہ جب تک قول یا فعل کے ذریعے سابقہ نکاح پر اس کی رضامندی ظاہر نہ ہوجائے ، اس کو خیارِ بلوغ حاصل ہو۔

گزرے ہوئے دنوں کا نفقہ

نفقے کے باب میں ایک قابل ذکر مسئلہ یہ ہے کہ اگر مر دنے ایک عرصے تک نفقہ ادا نہیں کیا، حالاں کہ بیوی نے نفقہ معاف نہیں کیا تھا، تو سوال یہ ہے کہ گزرے ہوئے دنوں کا نفقہ شوہر پر واجب ہوگا یا نہیں ؟۔اس سلسلے میں فقہاء  احناف کا عمومی رجحان یہ ہے کہ نفقہ اصل میں تبرع ہے نہ کہ عوض ۔ اس لیے گزرے ہوئے دنوں کا نفقہ دو ہی صورتوں میں واجب ہوگا ، یا تو پہلے سے قاضی نے نفقے کا فیصلہ کردیا ہو اور فیصلے کے باوجود شوہر نے نفقہ ادا نہ کیا ہو تو گزشتہ ایام کا نفقہ بھی واجب ہوگا ۔ یا زوجین کے درمیان پہلے نفقے کی ادائی کے سلسلے میں کوئی معاہدہ ہوا ہو اورشوہر نے اس معاہدے کے مطابق عمل نہ کیا ہو ، اگر قضائ قاضی یا صلح بالتراضی پہلے سے موجود نہ ہوتو گزرے ہوئے دنوں کا نفقہ واجب نہیں ہوگا۔﴿دیکھیے : ردالمحتار : ۵/۱۲۳ - ۳۱۱ ، مجمع الانہر : ۱/۱۹۴﴾ دوسرے فقہاء  نفقہ کو شوہر کو حاصل ’حق احتباس ‘ کا عوض قرار دیتے ہیں۔ اس لیے ان کے نزدیک گزرے ہوئے وقت کا نفقہ بھی واجب ہوگا۔ ﴿دیکھیے : حاشیۃ الدسوقی : ۳/ ۲۹۴ ، روضۃ الطالبین : ۹ /۵۵ ، المغنی : ۱۱/ ۶۶۳ ﴾ چنانچہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے مرتب کردہ ’مجموعۂ قوانین ‘ میں گزرے ہوئے دنوں کا نفقہ بھی واجب قرار دیا گیا ہے ۔

علاج

اسی طرح ایک مسئلہ علاج کے نفقے میں شامل ہونے اور نہ ہونے کا ہے۔ فقہاء  عام طورپر یہ لکھتے آئے ہیں کہ بیوی کے علاج کی ذمے داری شوہر پر نہیں ہوگی ؛ کیوںکہ یہ نفقے میں شامل نہیں ہے۔ چنانچہ حنفیہ میں علامہ ابن عابدین شامی کا بیان ہے:

کما لا یلزمہ مداواتہا أءاتیانہٰ بدوائ المرض ولا أجرۃ الطبیب۔

   ﴿ردالمحتار : ۵/۵۸۲ ﴾                             

یہی بات فقہاء  مالکیہ میں علامہ دردیر ﴿دیکھئے : الشرح الصغیر : ۲/۲۳۷ ﴾فقہاء  شوافع میں امام نوویؒ ﴿دیکھیے: روضۃ الطالبین : ۹/۵﴾اور فقہاء  حنابلہ میں علامہ ابن قدامہ و علامہ شرف الدین موسیٰ نے لکھی ہے ۔ ﴿دیکھیے : الاقناع : ۵/ ۸۴۹ ﴾لیکن فقہاء  کی یہ رائے غالباً اس زمانے کے حالات کے اعتبار سے تھی۔ کیوں کہ اس زمانے میں علاج معالجے میں کثیر اخراجات نہیں آتے تھے اور معمولی جڑی بوٹیوں سے علاج ہوجاتا تھا۔ فقہاء  نے نفقے کی تعریف ایسی چیزوں کی فراہمی سے کی ہے ، جن پر انسان کی بقاء کا مدار ہو۔ چنانچہ علامہ داماد آفندی نفقے کی شرعی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

ما یتوقف علیہ بقائ شییٔ من نحو مأکول وملبوس و سکنی۔   ﴿مجمع الأنہر : ۱/۴۸۴ ﴾                 

جس پر کسی چیز کی بقائ موقوف ہو ، جیسے کھانا ، لباس اور رہائش ۔

اسی طرح علامہ شامیؒ فرماتے ہیں :

الادرار علی شییٔ بما فیہ بقائ ۔﴿ردالمحتار : ۱/۷۷-۵۷۲ ﴾

کسی کے لیے وہ چیز فراہم کرنا جس میں اس کی بقاء ہو ۔

ظاہر ہے کہ انسان کی بقائ اور اس کی زندگی کے تحفظ میں دوا و علاج کی اہمیت غذا اور لباس سے بھی زیادہ ہے ، اس لیے یقینا علاج بھی نفقے میں شامل ہوگا اور جس طرح خوراک اور پوشاک کا مہیا کرنا مرد کی ذمے داری ہے ، اسی طرح علاج کا نظم کرنا بھی بدرجۂ اولیٰ اس کی ذمے داریوں میں شامل ہوگا۔ علماء  ہند میں مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ نے یہی نقطۂ نظر پیش کیا ہے اور اس حقیر نے بھی دارالقضائ میں بعض فیصلے اسی اُصول پر کیے ہیں کہ علاج نفقے میں شامل ہے اور شوہر کے بہ شمول جن لوگوں پر کسی شخص کا نفقہ واجب ہو ، ان کے ذمّے زیرپرورش شخص کا علاج بھی واجب ہے ۔

دارالقضاء کا نظام

ایک اہم مسئلہ خواتین کے لیے اپنے حقوق کے حصول کا ہے۔ عدالت کی طویل کارروائیوں اور غیر مسلم قاضی کی جانب سے فسخ نکاح کے معتبر نہ ہونے کی وجہ سے ہندستان جیسے مسلم اقلیت ممالک میں خواتین کے لیے اپنے حقوق کا حاصل کرنا نہایت دشوار ہوتا ہے۔ مسلمان غالباً پہلی بار اس صورتِ حال سے اسپین میں دوچار ہوئے، جہاں حکومت مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئی ؛ لیکن مسلم آبادی کے چھوٹے چھوٹے جزیرے خاص خاص شہروں میں باقی رہ گئے۔ ان حالات میں غالباً سب سے پہلے علامہ ابن ہمام نے فتویٰ دیا کہ مسلمانوں کے لیے اپنے طورپر امیر اور قاضی کا تقرر واجب ہے :

و اذا لم یکن سلطان ولا من یجوز التقلد منہ کما ہو فی بعض بلاد المسلمین غلب علیہم الکفار کقرطبۃ فی بلاد المغرب الآن وبلنسیۃ وبلاد الحبشۃ وأقروا المسلمین علی مال عندہم یؤخذ منہم یجب علیہم أن یتفقوا علی واحد منہم یجعلونہ والیاً فیولی قاضیا أو یکون ہو الذی یقضی بینہم ۔﴿ فتح القدیر : ۶/ ۵۶۳

یہی بات بعد کے فقہاء  میں علامہ محمد کردری نے ’ الفتاویٰ البزازیہ علی ہامش الہندیہ ‘ ﴿کتاب السیر : ۶/ ۱۱۳ ﴾ امام ابن نجیم مصریؒ نے البحر الرائق ﴿ ۲/ ۸۹۲ ﴾ علامہ طحطاویؒ نے حاشیہ طحطاوی علی الدر ﴿ ۱/۹۳۳ ﴾ علامہ ابن عابدین شامیؒ نے ردالمحتار ﴿ کتاب القضائ : ۴/۸۰۳ ، باب الجمعہ : ۱/۵۴۰ ﴾ میں لکھی ہے۔ ہندستان کے  علماء  نے برطانوی استعماری دور میں عملی طورپر ہندستان میں اس کو نافذ کیا۔ چنانچہ مولانا سید ابوالمحاسن محمد سجادؒ نے ہندستان کی ایک بڑی ریاست بہار میں امارت شرعیہ کی بنیاد رکھی اور اس کے تحت دارالقضائ کا مستحکم نظام قائم فرمایا ۔ رفتہ رفتہ ہندستان کی مختلف دوسری ریاستوں میں بھی اسی نظام کو اختیار کیا گیا۔ اب مسلم پرسنل لا بورڈ پورے ملک میں اس نظام کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ہے اور اس کے لیے ایک مستقل ذیلی کمیٹی قائم ہے۔ دارالقضائ کا یہ نظام اگرچہ مسلمانوں کے تمام ہی نزاعات کو حل کرنے کے لیے ہے ۔ لیکن اس کی وجہ سے سب سے زیادہ سہولت خواتین کو حاصل ہوتی ہے۔ ان کے مسائل کم وقت میں بہتر طورپر حل ہوجاتے ہیں ۔

خواتین کی ملازمت

گلوبلائزیشن کے موجودہ دور میں تجارت اور کاروبار نے غیر معمولی وسعت اختیار کرلی ہے۔ اس لیے صنعتی انقلاب کے بعد مغرب اس بات پر مجبور ہوا کہ عورتوں کو گھروں سے باہر نکالا جائے اور انھیں بھی مزدوری میں اپنا حصہ ادا کرنے کو کہا جائے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا میں ۱۸۱۴؁ء میں پہلی فیکٹری قائم ہوئی اور ۱۸۵۹؁ء تک فیکٹریوں میں مزدوروں کی تعداد میں ۲۴فیصد حصہ خواتین کا ہوگیا ، ۲۰۰۰؁ء کے اعداد و شمار کے مطابق یہاں ۱۶ سال سے اوپر کی۰ ۶ فیصد خواتین کسی نہ کسی معاشی سرگرمی سے جڑی ہوتی ہیں اور امریکا کی قوت کار میں ان کا حصہ۴۷ فیصد ہے۔ ۱۹۹۰ میں سویڈن میں کام کرنے والے افراد میں خواتین کا تناسب ۵۵ فیصد تھا ، کم و بیش یہی صورتِ حال دوسرے مغربی ممالک میں ہے ۔

سستے مزدور مہیا ہونے کے سبب اب تیزی سے کارخانے مشرقی اور ترقی پزیر ملکوں کی طرف منتقل ہورہے ہیں ۔ اس کی وجہ سے انٹرنیشنل کمپنیوں کو سستا مال حاصل ہوتا ہے اور غریب ملکوں کو روزگار ۔ ہندستان بھی ان ملکوں میں ہے ، جو اس وقت معاشی ترقی کے اعتبار سے انتہائی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ اس ترقی نے افرادی وسائل کی ضرورت کو بڑھایا اور شخصی زندگی کے معیار میں اضافہ کیا ہے۔ چنانچہ افرادی وسائل کی کمی کو پورا کرنے اور معیارِ زندگی میں مسابقت سے ہم آہنگ رہنے کی غرض سے ہندستان میں بھی خواتین کے ملازمت کرنے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ مسلمان خواتین اگرچہ اس طرح کا رجحان کم رکھتی ہیں ۔ لیکن اب بڑھتے ہوئے معاشی معیار کی وجہ سے مسلم خواتین بھی اس میدان میں قدم رکھ رہی ہیں ۔اس پس منظر میں ’ اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا ‘ نے اپنے اٹھارہویں فقہی سیمینار منعقدہ ۱۴۳۰؁ء میں ’ خواتین کی ملازمت ‘ کا عنوان بھی رکھا اور خواتین کی ملازمت کے سلسلے میں ایک ایسی متوازن تجویز منظور کی جس میں شرعی اُصولوں کی رعایت بھی ہے اور خواتین کے لیے معاشی جدوجہد کی گنجائش بھی۔ اس تجویز میں کہا گیا ہے کہ شرعی حدود و شرائط کا لحاظ کرتے ہوئے عورت کے لیے معاشی جدو جہد جائز ہے۔ البتہ اگر شوہر یا ولی عورت کی کفالت کررہا ہو تو کسب ِمعاش کی غرض سے گھر سے باہر نکلنے کی صورت میں اس کی اجازت ضروری ہے ۔

کلمۂ آخریں

یہ چند مسائل ذکر کیے گئے ہیں ، جن کا تعلق موجودہ حالات اور  علماء  کے فقہی اجتہادات سے ہے ۔ ورنہ ان کے علاوہ بہت سے کام وہ ہیں جو عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سماجی سطح پر کیے گئے ہیں ، جیسے ہندو سماج سے متاثر ہونے کی وجہ سے بہت سے مسلمان مطلقہ اوربیوہ عورتوں کو منحوس سمجھتے ہیں اور ان کا نکاح نہیں کرتے۔ شاہ اسماعیل شہید اور حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ بانی دارالعلوم دیوبند نے اس کے خلاف تحریک چلائی اور اس رسم کو توڑنے کی مؤثر کوشش کی۔ اسی طرح رواج کی بنا پر جہیز ، لڑکے والوں کی طرف سے رقم یا اشیاء  کا مطالبہ اور نکاح میں اسراف اور خواتین کو ان کا حق میراث نہ دینا اور معاشرے میں عورتوں کے ساتھ ناروا سلوک کا ارتکاب ۔ یہ وہ موضوعات ہیں جو اس وقت ہندستان میں  علماء  کی اصلاحی کوششوں میں خصوصی ایجنڈے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسی طرح مغرب کی طرز سے خواتین کے ناموس سے کھیلنا، انھیں بے لباس کرکے اشتہار کی زینت بنانا اور ان کا استحصال کرنا وہ مسائل ہیں ، جن پر ہمیشہ گفتگو کی جاتی ہے۔ غرض کہ یہ حقیقت ہے کہ  علماء  ہند نے خواتین کے حقوق کے تحفظ میں علمی اور اصلاحی جہت سے بڑی اہم خدمات انجام دی ہیں ۔

 







No comments:

Post a Comment