بینک کی آمدنی میں غلبہ سود اور ناجائز منافع کا ہے، اس لیے بینک کی ملازمت اور حاصل ہونے والی آمدنی جائز نہیں، اگر بینک ملازم کا ذریعۂ آمدن صرف یہی ہے یا وہ اسی رقم سے تحائف خرید کردیتاہے تو ان تحائف کالینابھی درست نہیں ہے،اگر وصول کرلیں توکسی غریب کو ثواب کی نیت کے بغیر دے دیں۔ اس لیے مذکورہ شخص کے لیے حج جیسی عظیم عبادت کے لیے اپنی حلال رقم کے ساتھ اس حرام رقم کو ملانا درست نہیں ہے، بلکہ خالص حلال کی رقم سے حج کا فریضہ ادا کرنا چاہیے۔تاہم اگر حرام آمدنی سے حج کیاتو حج ادا ہوجائے گا مگر مقبول حج کا ثواب حاصل نہ ہوگا۔
نیز یہ بھی واضح رہے کہ اگر مذکورہ سونے کے سیٹ کے علاوہ اس شخص کے پاس مالِ حلال سے اتنی رقم یا مال تجارت وغیرہ نہیں ہے جس کی بنا پر اس پرحج فرض ہوتاہو تو اس سیٹ کی موجودگی کی وجہ سے حج لازم نہ ہوگا۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"أهدى إلى رجل شيئاً أو أضافه إن كان غالب ماله من الحلال فلا بأس إلا أن يعلم بأنه حرام، فإن كان الغالب هو الحرام ينبغي أن لايقبل الهدية، ولايأكل الطعام إلا أن يخبره بأنه حلال ورثته أو استقرضته من رجل، كذا في الينابيع". (5 / 342، الباب الثاني عشر في الهدایا والضیافات، ط: رشیدیه)
وفیه أیضاً:
"آكل الربا وكاسب الحرام أهدى إليه أو أضافه وغالب ماله حرام لايقبل، ولايأكل ما لم يخبره أن ذلك المال أصله حلال ورثه أو استقرضه، وإن كان غالب ماله حلالاً لا بأس بقبول هديته والأكل منها، كذا في الملتقط". (5 / 343، الباب الثاني عشر في الهدایا والضیافات، ط: رشیدیه) (مجمع الأنهر، (2/529) کتاب الکراهية، ط: دار إحیاء التراث العربي)
No comments:
Post a Comment