https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 29 February 2020

انسانیت کا ماتم:فساد کے بعداجڑی ہوئی دہلی,بی بی سی کی زبانی

#DelhiRiot2020: جلتے مدرسے، چیخیں اور ’آپ کی پہچان‘، تشدد سے متاثرہ گلیوں میں گزرے پانچ گھنٹوں کا احوال

دلی مدرسہ
بدھ کی دوپہر کے بارہ بجے شہر کے شمال مشرقی علاقے میں بھڑکنے والی آگ کے تیسرے دن برجپوری علاقے میں عجیب سا سناٹا تھا۔ دور دور تک پولیس کی گشت کرتی گاڑیوں کی آواز کے علاوہ کچھ بھی سنائی نہیں دے رہا تھا۔
گلیوں کے راستے ملبے کے ڈھیر سے بھرے ہوئے تھے۔ کچھ گلیوں میں نوجوان اور ادھیڑ عمر کے لوگ آنکھوں میں سوالیہ نشان لیے بیٹھے تھے۔
پولیس کی موجودگی دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ اس طرح کی تیاری اگر دو روز پہلے کی گئی ہوتی تو اس طرح کے حالات نہ ہوتے۔
سناٹے کو چیرتی ہوئی ایک چیخ کان میں پڑی تو میں اس آواز کی سمت میں بڑھ گئی۔ جن تنگ گلیوں کی طرف سے یہ آواز آئی وہاں پولیس بھی کھڑی تھی۔ گلیوں میں سناٹا بیتی رات کی چیخوں کو خود میں سمیٹے ہوئے تھا۔
یہ بھی پڑھیے
میں برجپوری کی گلی نمبر 5 میں پہنچی جہاں سے گزشتہ رات اس گلی کی ایک رہائشی کے جوان بیٹے کو ان کی آنکھوں کے سامنے اٹھا لیا گیا تھا۔ 22 سالہ مہتاب ذہنی مریض تھے۔ منگل کی دوپہر تین سے چار بجے کے درمیان وہ دودھ لینے نکلے تھے لیکن واپس نہیں آ سکے۔
مہتاب کی بھابھی کو آج تک گرو تیغ بہادر ہسپتال سے ان کی لاش نہیں ملی۔ مہتاب کی ماں نے روتے ہوئے بتایا ’بچہ تھا وہ، میں نے بولا تھا مت جا باہر لیکن چائے پینے کی ضد میں پیسے لے گیا۔ اچانک اتنا شور مچا کہ سبھی ڈر گئے۔ گلی کے گیٹ پر تالا لگا دیا گیا۔ میرا بچہ باہر رہ گیا۔ کسی نے گیٹ نہیں کھولا۔ میں اس سے بات کر رہی تھی کہ اگلی گلی سے اندر آ جا لیکن اتنے میں ہیلمٹ پہنے اور ہاتھوں میں ڈنڈے لیے لوگوں کی بھیڑ نے میرے بیٹے کو اٹھا لیا۔‘
دلی مدرسہ
اس کے تھوڑی دیر بعد مہتاب کی بہن شازیہ کو فون پر کال آئی کہ ’تمہارے بھائی کو آگ کے حوالے کر دیا ہے۔‘ اس کے کچھ دیر بعد ایک دوسرے نمبر سے فون آیا کہ وہ مدینہ کلینک میں ہے۔‘
یاسمین بتاتی ہیں کہ مہتاب کو پہلے ڈنڈوں اور نوکیلے ہتھیاروں سے پیٹا گیا اور پھر اسے زندہ جلا دیا گیا۔ ’اب تک ہسپتال سے مہتاب کی لاش نہیں ملی ہے۔‘
پولیس کے حرکت میں آنے کے بعد حالات سوموار اور منگل کے مقابلے میں بہتر تو ہیں لیکن جو منظر آنکھوں کے سامنے ہے، جو زخم لوگوں کے دلوں میں لگے ہیں انھیں نہ تو اجیت ڈوبھال کے دورے بھر پائیں گے اور نہ ہی سرکار کی طرف سے دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم۔‘
گلی سے کچھ قدم کے فاصلے پر الہدیٰ فاروقیہ مدرسہ ہوا کرتا تھا جو اب خاک ہو چکا ہے۔ اس مدرسے کو جلا دیا گیا۔ میں مدرسے کے اندر داخل ہوئی۔ مدرسہ اب بھی سلگ رہا تھا۔ بچوں کی کچھ چپلیں پڑی تھیں، کچھ بستے پڑے تھے جن میں ننھے ہاتھوں نے کتابیں سجائی ہوں گی۔ کتابیں جو ہمیں بہتر انسان بناتی ہیں لیکن قرآن کے صفحات پورے ہال میں پھیلے ہوئے تھے۔ اردو زبان میں لکھی گئی کچھ کتابیں آدھی جلی ہوئی تھیں۔
دلی
ایک بسکٹ کا پیکٹ بھی پڑا ہوا تھا، جو شاید کسی بچے کو اس کی ماں نے دیا ہو گا بالکل ویسے ہی جیسے میری ماں مجھے گھر جانے پر گھر کی بنی ہوئی کھانے کی چیزیں باندھ کر دیتی ہے۔ اس مدرسے کے مولوی اور تعلیم حاصل کرنے والے بچے کہاں ہیں اس کے بارے میں کسی کو صحیح معلومات نہیں۔
فسادات میں سب سے زیادہ شرمسار انسانیت ہوتی ہے۔ وہ انسانیت جو آپ کے ہی اندر سہم کر، دبک کر رہ جاتی ہے اور آپ کی حیوانیت دیکھتی ہے۔ ایک جھٹکے میں آپ کا کام، آپ کا کردار بے معنی ہو جاتا ہے۔ آپ کی موت اور زندگی کا دارومدار آپ کے نام پر ہوتا ہے۔
دلی
کتاب کے پھٹے ہوئے اور تقریباً جلے ہوئے صفحے کو دیکھ ہی رہی تھی کہ پیچھے سے آواز آئی ’یہاں کسی چیز کو ہاتھ مت لگاؤ۔‘ پلٹ کر دیکھا تو نیو یارک ٹائمز کے فوٹو جرنلسٹ اتل تھے۔ میں انھیں دیکھ کر مسکرا دی۔ اب تک یہاں کئی اور صحافی بھی آ چکے ہیں۔
میں نے قدم تیز کیے اور بھاگیرتھی وہار کی طرف چل پڑی۔ یہاں بھی ہندو اور مسلمانوں کی ملی جلی آبادی رہتی ہے۔ یہاں گلی نمبر چار کے مکان نمبر 94 میں رام آدھار کا خاندان رہتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ پچھلے 30 سال سے یہاں رہ رہے ہیں اور کبھی اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس نہیں کیا۔
ایسے وقت میں جب دو گروپ ایک دوسرے کے خلاف زہر اگل رہے ہوں ایسے میں جب کوئی بھروسے کی بات کرتا ہے تو یہ سن کر کانوں کو بھی اچھا لگتا ہے کہ کہیں تو امید کی ایک لو ہے جو نفرت کو ٹھینگا دکھا رہی ہے۔
شام کے ساڑھے پانچ بج چکے تھے۔ پچھلے 5 گھنٹوں میں میں اس علاقے کی کئی گلیوں میں گھوم چکی تھی۔ بھاگی رتھی وہار کی ایک گلی میں کچھ ہل چل تھی۔ میں وہاں پہنچی تو کچھ لوگ بتا رہے تھے کہ کیسے کچھ باہر سے آنے والے مسلمان ان کے گھروں پر حملے کر رہے ہیں۔
کچھ عورتیں بھی باہر آئیں اور چوٹیں دکھائیں جو ان کے مطابق انھیں منگل کو لگی تھیں۔ ان کی باتیں سن ہی رہی تھی کہ بھیڑ میں شامل ایک عورت نے کہا ’انھیں فرق نہیں پڑتا ہے، ان کے تو دس دس بچے ہوتے ہیں۔ یہ تو مرنے کے لیے بھیج دیں گے لیکن ہمارا تو ایک ہی مر جائے گا تو ۔۔۔‘
دلی مدرسہ
ان کے جواب میں میں نے کہہ دیا ’بچہ ایک ہو یا دس، اس کے کھونے کا دکھ کم کیسے ہو گا۔‘
یہ کہنے پر میرے سامنے موجود لوگوں نے بہت ہی جارحانہ روپ اختیار کر لیا۔ مجھ سے میرا شناختی کارڈ مانگنے لگے۔ میرا نام پوچھا جانے لگا۔ صورتحال دیکھ کر میں نے پلٹ کر دیکھا تو میں پوری طرح گھر چکی تھی۔ وہاں کھڑے کچھ لوگوں نے میری تصویر بھی کھینچی۔ ’آپ ہمیں اپنا نام بتایے۔۔۔ کہاں سے ہیں آپ آئی ڈی دکھایے۔‘ بس یہی آواز گونج رہی تھی۔
میں یہ سمجھ چکی تھی کہ یہاں سے نکلنے کے لیے مجھے اپنا نام بتانا ہی ہو گا کیونکہ جس طرح میں گھِر چکی تھی، وہاں سے ان لوگوں کی مرضی کے بغیر نکلنا نا ممکن تھا۔ میں نے اپنا نام بتایا تو ایک لڑکے نے میرا فیس بک اکاؤنٹ کھول کر مجھے دکھایا اور پوچھا ’یہ آپ ہی ہیں۔‘ میں نے بولا ہاں۔ اب ان کے لفظوں کی تلخی ختم ہو چکی تھی۔
وہاں کھڑی عورتیں کہنے لگیں کہ ہم جاننا چاہ رہے تھے کہ آپ کون ہیں۔ مجھے زندگی میں پہلی بار اپنے نام کا اس طرح کا اثر دیکھنے کو ملا۔ مجھے اس گلی سے جانے دیا گیا۔
دنیا میں کوئی بھی ٹریننگ کیا ’ماب لنچنگ‘ یعنی ہجوم کے تشدد سے بچا سکتی ہے؟ یہ سوچتی ہوئی میں اپنی گاڑی تک پہنچی۔ دفتر کے راستے میں جلی ہوئی موٹرسائیکلیں اور کئی کاریں سڑکوں پر پڑی تھیں۔ سکول کی بسوں کو بھیں نہیں چھوڑا گیا جس میں سبھی مذہبوں کے بچے بیٹھ کر سکول جاتے ہوں گے۔

متعلقہ عنوانات

اسی بارے میں

ہندوستانی نظام انصاف پر بی بی سی کا تجزیہ

انصاف کی امید کس سے کریں؟

  •  
   

Image copyrightGETTY IMAGESمایا کوڈنانی
Image captionاحمد آباد کی ذیلی عدالت نے مایا کوڈنانی کو 28 سال قید کی سزا سنائی تھی
انڈیا کی ریاست گجرات کی ہائی کورٹ نے جمعہ کو بی جے پی کی رہنما اور سابق وزیر مایا کوڈنانی اور کئی دیگر افراد کو گجرات فسادات کے تمام الزامات سے بری کر دیا۔
مایا کوڈنانی پر الزام تھا کہ انھوں نے گودھرا میں سابرمتی ٹرین کے ایک ڈبے میں ایودھیا سے واپس آنے والے 50 سے زیادہ ہندو زائرین کو ہلاک کیے جانے کے بعد احمدآباد کی ایک مسلم بستی میں مسلمانوں پر حملے کے لیے ہندوؤں کے ایک ہجوم کو مشتعل کیا تھا۔
اس واقع کی تفتیش سپریم کورٹ کی نگرانی میں ایک خصوصی تفتیشی ٹیم نے کی تھی۔ احمد آباد کی ذیلی عدالت نے سنہ 2012 میں مایا کوڈنانی کو 28 برس قید کی سزا دی تھی۔ انھوں نے اس فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
وہ فسادات کے دوران گجرات کی مودی حکومت میں وزیر تھیں اور سزا پانے والی وہ سب سے اہم حکومتی اہلکار تھیں۔ ہائی کورٹ نے انھیں ناکافی ثبوتوں کی بنا پر الزاما ت سے بری کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
اس سے قبل گذشتہ پیر کو حیدر آباد کی مکہ مسجد بم دھماکے کے سلسلے میں وہاں کی ایک ذیلی عدالت نے سوامی اسیمانند سمیت سبھی ملزموں کو تمام الزامات سے بری کر دیا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ تفتیش کار اس دھماکے میں ملزمان کا ہاتھ ہونے کا الزام ثابت نہیں کر سکے۔
Image copyrightGETTY IMAGESمکہ مسجد
Image captionحیدر آباد کی مکہ مسجد بم دھماکے کے سلسلے میں وہاں کی ایک ذیلی عدالت نے سوامی اسیمانند سمیت سبھی ملزموں کو تمام الزامات سے بری کر دیا
اس سے پہلے سوامی اسیم آنند نے اقبالیہ بیان میں دھماکے میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا تھا۔ انھوں نے ایک میگزین کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بھی اپنے ملوث ہونے کا اعتراف کیا تھا۔ دلچسپ پہلو یہ ہے مکہ مسجد دھماکے کے سلسلے میں تفتیش کاروں نے پہلے متعدد مسلمانوں کو گرفتار کیا وہ کئی برس تک جیل میں رہے اور جب مزید تفتیش ہوئی تو انھیں بے قصور پایا گیا۔
فسادات، فرضی تصادم اور بم دھماکوں کے کئی اہم مقدمات ملک کی مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اور تقریـباً ہر ہفتے کسی نہ کسی مقدمے سے یہ خبر آتی ہے کہ تفتیش کاروں نے جنھیں اپنا گواہ بنا کر پیش کیا تھا وہ منحرف ہوتے جا رہے ہیں۔
اہم گواہوں کے منحرف ہونے سے تفتیش کی کڑیاں ٹوٹنے لگتی ہیں اور ملزم کے خلاف جرم ثابت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ سہراب الدین فرضی انکاؤنٹر کیس اور سمجھوتہ ایکسریس بم دھماکے جیسے اہم مقدمات میں درجنوں گواہ منحرف ہو چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
معروف صحافی راج دیپ سر دیسائی نے انصاف کی موجودہ صورت حال پرتبصرہ کرتے ہوئے لکھا 'جب حکومت تبدیل ہوتی ہے تو ثبوت بھی بدل جاتے ہیں، الزامات بدل جاتے ہیں، تفتیش کار تبدیل ہو جاتے ہیں اور فیصلے بھی بدل جاتے ہیں۔ ان حالات میں جب ہر اہم مقدمے کو سیاسی رنگ دے دیا جاتا ہے تو پھر انصاف کے نظام پر کس طرح یقین کیا جائے۔'
Image copyrightNALSA.GOV.INدیپک مشرا
Image captionچیف جسٹس دیپک مشرا کو ان کے عہدے سے ہٹانے کے لیے مہم چلائی جا رہی ہے
ملک میں تفتیش کا نظام شدید سیاسی دباؤ میں ہے۔ تفتیش اب سیاست کی تابع ہوتی جا رہی ہے۔ پولیس اور سی بی آئی جیسے اداروں کی ساکھ بری طرح مجروح ہوئی ہے اور ان پر لوگوں کا یقین شکستہ ہو چکا ہے۔ امید کا آخری محور، ملک کی عدلیہ بھی اب ساکھ کے بحران سے گزر رہی ہے۔
چند ہفتے قبل سپریم کورٹ کے چار سینیئر ججوں نے ایک غیر معمولی پریس کانفرنس میں ملک کے چیف جسٹس کے طریقۂ کار پر سوالات اٹھائے تھے۔ اب حزب اختلاف کی جماعتوں نے چیف جسٹس کو ہٹانے کے لیے مواخذے کی قرارداد پیش کی ہے۔ یہ صورت حال عدلیہ، حکومت اور ملک کی عوام کے لیے فکر کا باعث ہے۔
عدل کا نظام اگرچہ ملک کی اکثریت کی پہنچ سے باہر ہے اور اس کا عمل اتنا طویل ہے کہ انصاف ملتے ملتے اکثر وہ اپنا اثر اور مقصد کھو دیتا ہے لیکن اس کے باوجود عدلیہ عوام کی آخری امید ہے۔
انصاف کا یہ ادارہ پوری آزادی اور خود مختاری کے ساتھ اپنا کام کرتا رہا ہے۔ اس کی غیر جانبداری، خود مختاری اور اس کے وقار کا تحفظ ملک کے جمہوری نظام کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔
ملک کے عدل و انصاف کے نظام کو تنازعات اور شکوک سے پاک رکھنے کے لیے ججوں کی تقرری سے لے کر انصاف کے عمل تک ہر پہلو میں شفافیت لانے کی ضررت ہے۔ عدلیہ کی غیر جانبداری اور خود مختاری کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے اسے ہر طرح کی سیاست اور مداخلت سے پاک رکھا جائے۔

Friday 28 February 2020

دہلی کے فسادات کی جواب دہی کس کے ذمے؟

بظاہردہلی کے فسادات منصوبہ بند طریقے سے حکومت نے کرائے ہیں جو مسلمانوں کی کھلی ہوئی دشمن ہے.کیونکہ آرایس ایس کے غنڈے تلوار اٹھائے لاٹھی اور ڈنڈوں ہتھیاروں سے لیس متعدد ویڈیو فوٹیج میں حتی کہ مسجد کے مینار پر بھی چڑھے نظر آرہے ہیں. بعض فوٹیج سے ثابت ہوتا ہے کہ پولیس برابرکی شریک ہے مسلمانوں کو دیمک کہنے والے امت شاہ  وزیر داخلہ ہونے کی بنا پرپولیس کے سربراہ ہیں انہوں نے ہی پولیس کو شہہ دی ورنہ اتنازبردست فساد ممکن نہیں تھا  اب کسی میں ہمت ہے جو ان سے پوچھے! کٹھ پتلی راشٹر پتی میں بھی نہیں !مہاڈرپوک اور کرپٹ رشوت خور عدلیہ میں بھی نہیں! قارون زمانہ ڈولنڈ ڈرمپ میں بھی نہیں,آرایس ایس نفرت کے بیج جب تک بوتی رہی گی انسانیت کا خون اور گاندھی کا قتل باربار ہندوستان میں ہوتارہے گا, کیاہندومذہب معصوم لوگوں کو بلاوجہ قتل کرنے کی اجازت دیتاہے؟نفرت کی سیاست کرنے کی اجازت دیتاہے؟بھید بھاؤ کی اجازت دیتا ہے ؟میرا خیال ہے بالکل نہیں دیتا,پھر یہ آرایس ایس ,مودی ,یوگی امت شاہ ,بی جے پی,انوراگ,کپل شرما,گری راج وغیرہ وغیرہ,کیسے ہندوہیں ,یہ تو کھلے عام نفرت کی باتیں کرتے ہیں اور اپنے ہندوہونے پر انہیں فخرہے! اگر سارے ہندو ایسے ہی ہوجائیں تونفرت کی آگ لگ جائے.عام ہندو شریف اور سادہ ہے اس کی غلطی یہ ہے کہ وہ ان خون کے سوداگروں کے بہکاوے میں آجاتاہے.دہلی کے فسادات گوڈسے کے پرستاروں نے کرائے ہیں جو امن وآشتی کے دشمن ہیں انہیں گاندھی سے نفرت ہے.بی جے پی کے کئ ایم پی ایم ایل اے گوڈسے کی تعریف کرچکے ہیں.حتی کہ ایک صاحب کھلے عام گاندھی کی تحریک کو ڈرامہ بازی سے تعبیر کرچکے ہیں .حقیقت یہ کہ ہندوستان کے سبھی اہم مناصب پر خواہ وہ صدارت,ہو یاوزارت عظمی عدلیہ ,فوج ,پولیس بیوروکریسی وغیرہ سبھی پر آرایس ایس کے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں اس لئے بڑی سے بڑی واردات ,فسادات ہوں یا بالکل بکواس اور مضکہ خیز فیصلے, ایم پیز کی نفرت آمیز ہزیان سرائی ہو یا انتقام کی سیاست,حتی کے فرقہ پرستی پرمبنی قانون سی اے اے تک اسی پارلیامنٹ نے پاس کردیا جواپنے کو گاندھی کی آماجگاہ کہنے پر فخر محسوس کرتی ہے .اب ایک مضبوط ومستحکم عدلیہ کی ضرورت ہے جو گوگوئی کی طر ح جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے اصول پر فیصلہ کرکے انصاف کاخون نہ کرے بلکہ اس میں ٹی این سیشن کی جرأت ہونی چاہئے,حقیقت یہ ہے کہ نفرت کی سیاست کرکے بی جے پی اور اس کی حامی پارٹیاں ہندومذہب سے دنیا کو بدگمان کررہی ہیں سچے حقیقی مذہب پرست ہندوؤں کو آگے آکر ان کی کھلے عام اصلاح کرنی چاہئے اور اپنے مذہب کی سچی تصویر پیش کرنی چاۂیے مذہب کے نام پر خون خرابہ کرنے والوں اور اپنی سیاست چمکانے والوں کو اس گندی حرکت سے باز رکھنا چاہئے,