https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 26 March 2021

ایک مجلس کی تین طلاق کا مسئلہ

 ۔ طلاق اللہ کے نزدیک نا پسندیدہ عمل ہے،  تاہم انتہائی مجبوری کی صورت میں اسے اختیار کرنے کی گنجائش ہے،  شریعت نے مرد کو آسانی دیتے ہوئے اس کا بہترطریقہ بھی بتادیا ہے ،تاکہ اگر  جانبین اپنے اس فعل پر نادم  اور پشیمان ہوں تو  انہیں اس غلطی کی تلافی کرنا ممکن ہو ، وہ بہتر صورت یہ ہے کہ  مرد  اپنی بیوی کو ایسے طہر  ( پاکی) میں طلاق دے  جس میں اس نے اپنی بیوی سے تعلقات قائم نہ کیے ہوں ،  پھر اسے چھوڑدے یہاں تک کہ اس کی عدت گزر جائے،  اس کے بعد دوسرا درجہ یہ ہے کہ مرد  اپنی بیوی کو ایسے طہر  (پاکی) میں طلاق دے  جس میں اس نے اپنی بیوی سے تعلق قائم  نہ کیا ہو ، اس کے بعد اس کے قریب نہ جائے ،  جب دوسرا طہر (پاکی) آئے  تو  اس میں دوسری طلاق دے ،  اور پھر تیسری پاکی میں تیسری طلاق دے دے، ان دونوں طریقوں میں  مرد اور عورت  کو سوچنے اور اپنی غلطیاں سدھارنے کا موقع مل جاتا ہے۔ (1)

لیکن اگر کوئی شخص  شریعت کی عطاء کردہ ان سہولیات کو کام میں نہ لائے  اور بیک وقت تینوں طلاقیں زبان سے کہہ دے تو اس کا یہ اقدام  ناجائز اور بدعت ہے، تاہم  اپنی تاثیر کے لحاظ سے یہ مؤثر اور نتیجہ خیز ثابت ہوتا ہے،   بعض ایسے امور ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان سے منع کیا ہے ، لیکن جب کوئی شخص اس کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ حکم  شرعی اپنے تمام احکام کے ساتھ واقع ہوتا ہے ، مثلاً: ''ظہار''  کو قرآنِ مجید میں  "مُنکَراً مِّنَ القَولِ وَزُورًا"  کہا گیا  ہے ، لیکن جب کوئی  شخص  اپنی بیوی سے ''ظہار'' کرتا ہے  تو اس پر حکمِ شرعی نافذ ہوجاتا ہے، قتلِ ناحق جرم اور گناہ ہے، مگر جس کو گولی یا تلوار مار کر قتل کیا جاتا ہے وہ قتل  ہو ہی جاتا ہے، اس کی موت اس کا انتظار نہیں کرتی کہ گولی جائز طریقے سے  ماری گئی ہے یا ناجائز طریقہ سے؟  اس طرح کی کئی مثالیں ہیں جن سے یہ سمجھ  میں آتا ہے  کہ  جو شخص  شریعت کی آسانیوں اور سہولتوں کو نظر انداز کرکے  بیک وقت تین طلاقیں دے دے تو تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔

2۔   قرآن کریم میں ہے :

﴿ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ﴾ [البقرة: 229]

ترجمہ:وہ طلاق دو مرتبہ کی ہے، پھر خواہ رکھ لینا قاعدہ کے موافق خواہ  چھوڑ دینا  خوش عنوانی کے ساتھ۔ (بیان القرآن)

         اس آیت  کے شانِ نزول میں مفسرین حضرات یہ بیان کرتے ہیں  کہ ابتدائے اسلام میں لوگ بغیر کسی تعداد اور گنتی کے طلاق دیا کرتے تھے،  مرد جب اپنی بیوی کو  طلاق دیتا  اور اس کی عدت مکمل ہونے کا  وقت قریب ہوتا  تو وہ  رجوع کرلیتا  اور پھر طلاق دے کر دوبارہ رجوع کرتا، اس سے  ان کا مقصد  اس عورت کو تکلیف دینا ہوتا تھا، جس پر قرآنِ کریم کی  یہ آیت نازل ہوئی۔ (2)

         یہی وجہ ہے کہ امام بخاری جیسے جلیل القدر  محدث  نے اسی آیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنی  کتاب "صحیح البخاری" میں   یہ باب قائم کیا   " باب من أجاز الطلاق  الثلاث"(3)

 امام قرطبی رحمہ اللہ، امام بخاری  رحمہ اللہ کے اس طرز پر تبصرہ کرتے ہوئے  لکھتے ہیں : "اس سے معلوم ہوتا ہے کہ  مرد کو تین طلاق کا اختیار دینا شریعت کی جانب سے ایک گنجائش ہے ، جو شخص اپنے اوپراز خود تنگی کرے  اس پر یہ حکم لازم ہوجائےگا، ہمارے علماء فرماتے ہیں   کہ فتویٰ دینے والے  ائمہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ  ایک ساتھ دی گئی تینوں  طلاقیں واقع ہوتی ہیں، یہ جمہور سلف کا قول ہے"۔ (4)

         امام ابو بکر جصاص رحمہ اللہ  لکھتے ہیں کہ آیت   ﴿ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ﴾ ایک ساتھ دی   گئی تین طلاقوں کے واقع ہونے پر دلالت کرتی ہے ، ا گرچہ ایسا کرنا باعث گناہ ہے۔ (5)

         3۔ آیت  مذکورہ  میں  " مرتان "  کا معنی  "اثنان" ہے، یعنی طلاقِ رجعی دو ہیں، یہی معنی شانِ نزول کے موافق ہے، دلیل اس کی یہ ہے کہ قرآنِ کریم میں "مرتان" کامعنی " اثنان"  کے لیے استعمال ہوا ہے:

الف: ﴿وَمَنْ يَقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُؤْتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَيْنِ وَأَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِيمًا ﴾ [الأحزاب: 31]

ترجمہ: اور جو کوئی تم میں سے  اللہ کی اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرے گی  اور نیک کام کرے گی  تو ہم اس کو اس کا ثواب دوہرا  دیں گے۔ (بیان القرآن)

ب:       ﴿ أُولَئِكَ يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُمْ مَرَّتَيْنِ بِمَا صَبَرُوا﴾ [القصص: 54]

ترجمہ: ان لوگوں کو ان کی پختگی کی وجہ سے دوہرا  ثواب ملے گا۔(بیان القرآن)

         ج:   حدیث میں عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے :

" أن النبي ﷺ توضأ مرتین مرتین".  (6)

لہذا  قرآنی حکم کا خلاصہ یہ ہوا کہ قرآن  طلاقوں کی ترتیب نہیں ،بلکہ تعداد بیان کررہا ہے ۔

          ارشادِ ربانی ہے:

﴿ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ﴾ [البقرة: 230]

ترجمہ:اگر بیوی کو تیسری طلاق دے دی  تو جب وہ عورت دوسرے  نکاح  نہ کرلے اس وقت تک وہ پہلے خاوند کے لیے حلال نہ ہوگی۔ (بیان القرآن)

         امام شافعی رحمہ اللہ  " کتاب الام" میں  لکھتے  ہیں قرآن پاک اس بات پر دلالت کرتا ہے  جو شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے  وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں ہوگی جب  تک کہ وہ دوسرے شوہر کے پاس سے نہ آجائے۔ (7)

         5۔ احادیث مبارکہ  سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ  ایک کلمہ یا ایک مجلس میں دی جانے والی تین  طلاقین واقع ہوجاتی ہیں۔

         الف : بخاری شریف  میں ہے:

'' عن عائشة، أن رجلاً طلق امرأته ثلاثاً، فتزوجت فطلق، فسئل النبي صلى الله  عليه وسلم: أتحل للأول؟ قال: «لا، حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول»''(8)

 اس حدیث میں "طلق امرأته ثلاثاً" کا لفظ  اس بات پر دلیل ہے  تین طلاقیں اکھٹی دی  گئی تھیں ، چناں چہ  ''عمدۃ القاری'' میں ہے  کہ "طلق امرأته ثلاثاً"  کا  جملہ  اس  حدیث کے  ''ترجمۃ الباب '' کے مطابق ہے، کیوں کہ اس سے ظاہر یہی ہے  کہ یہ تینوں طلاقیں اکٹھی دی گئی تھیں۔ (9)

          ''فتح الباری'' میں ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے "طلقها ثلاثاً" کے ظاہرسے استدلال کیا ہے ؛ کیوں کہ اس سے یہی  بات متبادر ہوتی ہے  کہ یہ اکٹھی دی گئی تھیں۔ (10)

         ب: صحیح البخاری  میں ہے:

'' أن عائشة، أخبرته: أن امرأة رفاعة القرظي جاءت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، إن رفاعة طلقني فبت طلاقي، وإني نكحت بعده عبد الرحمن بن الزبير القرظي، وإنما معه مثل الهدبة، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لعلك تريدين أن ترجعي إلى رفاعة؟ لا، حتى يذوق عسيلتك وتذوقي عسيلته»''۔ (11)

         حافظ ابن حجر  رحمہ اللہ  " فبت طلاقي " کی تشریح میں لکھتے ہیں  کہ  اس میں دوسرا احتمال یہ ہے کہ  انہوں نے اس عورت کو ایسی طلاق دی تھی   جس کے بعد تعلق بالکل ختم ہوجاتا ہے ، اوروہ اس صورت میں ہوتا ہے جب ایک ساتھ یا الگ الگ  تین طلاقیں دی جائیں ،  اس احتمال کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ  امام بخاری رحمہ اللہ   نے ''کتاب الادب'' میں دوسرے طریق سے ذکر کیا ہے  " طلقنی آخر ثلاث تطلیقات"۔ (12)

         ج:  امام بخاری رحمہ اللہ عویمر العجلانی  رضی اللہ عنہ کے واقعہ لعان کے بیان کے بعد  حدیث  کے یہ الفاظ بیان کرتے ہیں:

''قال عويمر: كذبت عليها يا رسول الله إن أمسكتها، فطلقها ثلاثاً قبل أن يأمره رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال ابن شهاب: «فكانت تلك سنة المتلاعنين»''۔ (13)

مذکورہ واقعہ کے متعلق امام ابو داؤد نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان تینوں  طلاقوں کو  نافذ کردیا تھا،چناں چہ فرماتے ہیں:

'' عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، فِي هَذَا الْخَبَرِ، قَالَ: فَطَلَّقَهَا ثَلَاثَ تَطْلِيقَاتٍ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْفَذَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ مَا صُنِعَ عِنْدَ النَّبِيِّ صلّىالله عليه وسلم سُنَّةٌ''۔ (14)

         د  : سنن ابن ماجہ میں ہے کہ  عامر شعبی  سے روایت ہے کہ میں نے  فاطمہ بنت حبیش سے  کہا :مجھے اپنی طلاق کے بارے میں بتائیں ،  انہوں نے مجھے بتایا کہ مجھے میرے شوہر نے تین طلاقیں دیں  ، وہ یمن سے باہر تھے تو آپﷺ نے ان تین طلاقوں کو نافذ قراردیا۔ (15)

         اس روایت سے  امام ابن ماجہ نے ایک  مجلس کی تین طلاقوں پر استدلال کیا ہے، اور باب قائم کیا ہے"باب من طلاق ثلاثاً في مجلس واحد" ،  جس کے تحت اس حدیث کو  ذکر کیا ہے،  اسی روایت کو امام نسائی رحمہ اللہ نے سنن نسائی  (16)   میں   اور امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے سنن  ابی داؤد  (17)میں ذکر کیا ہے۔

          حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ  صحابہ  کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا  اجماع ہوچکا تھا کہ  ایک مجلس کی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوں گی، اس سلسلے میں محققین  فقہاء  ومحدثین کے اقوال ملاحظہ فرمائیں :

         الف   :   علامہ ابو بکر جصاص  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ  قرآن کریم ، سنتِ مطہرہ اور سلف کا اجما ع  ایک ساتھ دی گئی تین طلاقوں کا لازم قرار دینا ہے، اگرچہ ایسا کرنا گناہ  ہے ۔(18)

         ب   :حافظ ابن رجب حنبلی  رحمہ اللہ   لکھتے ہیں کہ ہمیں امت میں سے کسی  ایک فرد کا علم نہیں  جو اس سلسلے میں فیصلہ ، قضا، علم اور فتویٰ دینے میں کھل کر مخالفت کرتا ہے، تاہم ایک چھوٹی سی جماعت سے اختلاف منقول ہے  ، جن پر ان کے معاصرین نے انتہائی درجہ کا انکار کیا ہے،ان میں سے اکثر  اپنے اس مسلک کو چھپاتے تھے، کسی پر ظاہر نہیں کرتے تھے ۔ (19)

          ج   :علامہ شامی رحمہ اللہ   فرماتے ہیں  کہ جمہور صحابہ ،  تابعین اور ان  کے بعد مسلمانوں کے ائمہ اس مذہب  پر ہیں کہ  تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ (20)

          د     : علامہ نووی رحمہ اللہ   نے لکھا ہے  کہ  جو شخص اپنی بیوی کو کہے : "أنت طلاق  ثلاثاً" (تجھے تین طلاق ہیں)  اس کے حکم میں اختلاف ہے، امام شافعی، امام مالک، امام ابوحنیفہ، امام احمد اور  جمہور  علماء  فرماتے ہیں کہ تین طلاقیں واقع ہوں  گی۔ (21)

          ''صحیح مسلم'' میں مذکور حضرت ابن عباس رضی اللہ  عنہ سے  مروی روایت سے استدلال کیا  ہےجس کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت کے ابتدائی دو سالوں  میں تین طلاقیں ایک ہوا کرتی تھیں،  حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ لوگوں نے ایک ایسے معاملے میں جلد بازی شروع کردی جس میں ان کے لیے سہولت تھی، اگر ہم ان پر تینوں کو نافذ کردیں تو اچھا ہو۔اس کے بعد انہوں نے اس حکم کو نافذ کردیا۔(22)

         اس سلسلے میں چند باتیں قابلِ غور ہیں:

الف  :  نبی کریمﷺکے زمانے میں جب شوہر ایک طلاق دینے کے بعد دوسری اور تیسری مرتبہ بھی طلاق کے الفاظ استعمال کرتا تھا اور اس کی مراد پہلی دی گئی طلاق کی تاکید ہوتی تھی توآپﷺ اس طلاق کو ایک طلاق قرار دیتے تھے، آپﷺ صاحبِ وحی تھے، کوئی شخص آپ سے غلط بیانی نہیں کرسکتا تھا، اگر کوئی غلط بیانی کرتا تو آپﷺ کو وحی کے ذریعہ اطلاع مل جاتی، جب حضورﷺکے بعد وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے الفاظِ طلاق کو دیکھتے ہوئے تین طلاقوں کا فیصلہ نافذ کیا، نیتِ تاکید کا اعتبار نہیں کیا۔

         حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانےمیں اس قسم کا واقعہ پیش نہیں آیا ہوگایا آیا ہوگا تو لوگوں کی دیانت کو دیکھتےہوئے نیت کا اعتبار کیا جاتا ہوگا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں بہت سے احکام نے قانونی شکل اختیار کی جس میں سےایک قانون یہ بھی ہے۔ (23)

         صحیح بخاری میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نےفرمایا کہ رسول اللہﷺ کے زمانہ میں لوگوں کا مواخذہ وحی کے ذریعہ کیا جاتا تھا، اب وحی منقطع ہوگئی، اب تم لوگوں کی پکڑ تمہارے ظاہری اعمال پر ہوگی،جو ہمارے سامنےخیر و بھلائی ظاہر کرےگاہم اسے امن دیں گے اور قریب کریں گے، ہمیں ا س کے باطن سے کوئی سروکار نہیں۔اللہ تعالیٰ اس کے باطن کا مواخذہ کرے گا، جو ہمارے سامنے برائی ظاہر کرے گاہم اس کو نہ امن دیں گے اور نہ اس کی تصدیق کریں گے اگرچہ وہ یہ کہے کہ میرا باطن اور میری نیت اچھی ہے۔(24)

دورِ فاروقی میں یہ فیصلہ بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ اب صرف ظاہر کا اعتبار ہوگا، صدیوں سے اسلامی عدالتیں اسی قانون پر عمل پیرا ہیں۔

ب  :  صحیح مسلم کی اس روایت کو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے کئی روایات میں مروی ہے کہ وہ ایک جملہ میں تین طلاقوں کو تین طلاقیں سمجھا کرتے تھے، ان کے جلیل القدر شاگرد علماء، عمرو  بن دینار، سعید بن جبیر، مجاہد اور طاووس ان سے یہی نقل کرتے ہیں۔ذیل میں چند روایات مذکور ہیں:

         الف:  مجاہد فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس تھا، ایک آدمی آیا اور اس نے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں ، ابنِ عباس رضی اللہ عنہ خاموش ہوگئے، یہاں تک کہ میں یہ سمجھا کہ شاید اس کی بیوی کو اس کی جانب لوٹانے والےہیں، پھر فرمایا کہ تم میں سے کوئی جاتا ہے اور حماقت کرجاتا ہے، پھر کہتا ہے اے ابنِ عباس! اے ابنِ عباس! اے ابنِ عباس! اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کےلیے راہ نکالتے ہیں، اور تم اللہ سے نہیں ڈرے، اس لیے مجھے تمہارے لیے کوئی راہ نہیں مل رہی، تو نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور تیری بیوی تجھ سے جدا ہوگئی۔ (25)

         امام ابو داؤد اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ  اس حدیث کو حمید الاعرج  وغیرہ نے مجاہد رحمہ اللہ سے اور مجاہد   نے ابن عباس رضی اللہ عنہ  نقل کیا ہے، اور شعبہ رحمہ اللہ نے عمرو بن مرہ سے  اور انہوں نے سعید بن جبیر سے ، انہوں نے  ابن عباس رضی اللہ عنہ  سے اس حدیث  کو روایت کیا ہے ، ۔۔۔۔ اور ابن جریج نے عبد الحمید بن رافع سے ، انہوں نے عطاء سے ، انہوں نے  ابن عباس رضی اللہ عنہ  سے نقل کیا ہے، اور اس حدیث کو  اعمش نے مالک بن حارث سے ، انہو ں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ  سے نقل کیا ہے،  اور ابن جریج نے   عمروبن دینار سے اور انہوں نے  ابن عباس رضی اللہ عنہ  سے، سب  نے تین  طلاقوں کے متعلق فرمایا کہ انہوں نے تین طلاقوں کو  نافذ قرار دیا ہے اور  کہا کہ تم سے بیوی جدا ہوگئی ۔(26)

         ب :   موطا امام مالک میں ہے کہ  ایک آدمی نے  ابن عباس رضی اللہ عنہ  سے فرمایا کہ  میں نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دی ہیں ، آپ میرے لیے کیا فیصلہ کرتے ہیں ؟ تو ابن عباس رضی اللہ عنہ   نے ان سے کہا  کہ تمہاری  بیوی کو تم سے تین طلاقیں ہوگئی  ہیں ، اور ستانوے  طلاقوں کے  ذریعہ  تم نے اللہ تعالیٰ کی آیات کا مذاق بنایا ہے۔ (27)

         ج  :   موطا امام محمد میں ہے کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی  کو رخصتی سے پہلے  تین طلاقیں  دیں ، پھر اس نے چاہا کہ  اس سے نکاح کرے تو وہ مسئلہ پوچھنے آیا ، اس  نے ابن عباس  اور ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہما  سے پوچھا ، ان دونوں نے جواب دیا  اس وقت تک نکاح نہیں کرسکتے جب  وہ کسی اور  سے نکاح نہیں کرلیتی، اس  نے کہا کہ  میں نے تو صرف ایک طلاق دی  ہے، ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تو نے اپنے ہاتھوں سے اس گنجائش کو ختم کردیا جو تجھے حاصل تھی۔(28)

         مسند احمد میں ہے کہ  رکانہ بن عبد یزید  رضی اللہ عنہ نے  اپنی بیوی کو تین بار ایک مجلس میں طلاق دی،  تو اس پر وہ بہت زیادہ رنجیدہ ہوئے،  رسول اکرمﷺ نے ان سے  سوال کیا  تم نے کیسے طلاق دی؟ انہوں نے کہا کہ ایک مجلس میں تین طلاقیں دی تھیں ، آپ ﷺ نے فرمایا  وہ ایک طلاق ہوئی، اگر چاہو تو رجوع کرلو،  راوی کہتے ہیں کہ  انہوں نے رجوع کرلیا۔ (29)

اس سلسلے میں چند باتیں قابلِ غور ہیں:

الف :  علماء اور محدثین کی آراء کی روشنی میں یہ بات سامنے آتی ہے  یہ حدیث معلول (ضعیف) ہے،  چناں چہ حافظ ابن حجر نے ''التلخیص الحبیر'' میں اس حدیث کو ذکر کرکے فرمایا کہ " وهو معلول أیضاً" (30)  ، اسی طرح حافظ ذھبی ؒ نے اس کو داؤد ابن الحصین کے مناکیر میں شمار کیا ہے۔ (31)

ب :  نیز مسند احمد کی مذکورہ  روایت میں اضطراب ہے ، بعض روایات میں  طلاق کی تعداد مذکور نہیں ہے،  محمد  بن ثور الصنعانی کی روایت میں ہے "إني طلقتها"   یعنی میں نے تجھے  طلاق دی، اس میں نہ "ثلاثاً"  کا لفظ ہے نہ "البته "کا،  اور  صنعانی کی جلالت قدر محدثین میں مسلم ہے۔(32)

جب کہ سنن ترمذی، سنن ابی داؤد، اور ابن ماجہ میں  "ثلاثاً" کا لفظ نہیں ہے ، بلکہ " البتة"کے الفاظ ہیں، ان تینوں روایتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ  انہوں نے اپنی بیوی کو  " البتة" سے طلاق دی (جس میں ایک سے تین طلاقوں کی گنجائش ہوتی ہے)، پھر آپﷺ کو اطلاع دی ، اور فرمایا ؛ خدا کی  قسم  میں نے لفظ  " البتة"سے  ایک طلاق کی نیت کی ہے،  جس کی تصدیق آپﷺ نے  ان سے کی  کہ بخدا تمہاری نیت ایک ہی طلاق کی تھی؟ تو حضرت رکانہ  نے کہا کہ بخدا  میری  نیت ایک ہی طلاق کی تھی، تب آں حضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم نے جو نیت کی تھی اسی کا اعتبار ہے۔(33)

ج:  حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ  نے  مسند احمد کی حدیث ذکر کرکے لکھا ہے کہ  امام ابو داؤد نے  اس سے بہتر طریق سے ذکر کیا ہے کہ  رکانہ نے اپنی بیوی  سہیمۃ کو " البتة" کے لفظ سے طلاق دی تھی۔(34)

د  : امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں  کہ وہ روایت جسے مخالفین ذکر کرتے ہیں کہ  رکانہ نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی تھیں جسے نبی کریمﷺ نے ایک قرار دیا وہ  مجہول  راویوں سے منقول ضعیف روایت ہے، صحیح روایت وہی ہے  جسے ہم نے ذکر کیا کہ انہوں نے اپنی بیوی کو " البتة" کہہ کر طلاق دی ، اور لفظ " البتة" ایک اور تین کا احتمال رکھتا ہے، ہوسکتا ہے کہ اس ضعیف روایت کے راوی نے  یہ سوچا کہ لفظ " البتة"تین کا احتمال رکھتا ہے تو انہوں نے  روایت بالمعنی کی، اور اس میں غلطی کی۔(35)

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوں گی ایک نہیں، یہ کہنا غلط ہے کہ طلاق کا تعلق عورت کے حیض سے ہے، سورہ نساء میں ایسی کوئی آیت نہیں جس میں طلاق کے لیے تین حیض کو معیار بنایا گیا ہو، تاہم سورہ بقرہ میں عدت کے لیے تین حیض بتایا گیا ہے، آپ کو دونوں آیتوں میں شبہ ہورہا ہے، عدت کا حکم بتانے والی آیت کو طلاق سے جوڑ دیا۔

حوالہ جات

  1. أحكام القرآن للجصاص ط: العلمية (1 / 459):

قَالَ أَصْحَابُنَا: أَحْسَنُ الطَّلَاقِ أَنْ يُطَلِّقَهَا إذَا طَهُرَتْ قَبْلَ الْجِمَاعِ ثُمَّ يَتْرُكَهَا حَتَّى تَنْقَضِيَ عِدَّتُهَا، وَإِنْ أَرَادَ أَنْ يُطَلِّقَهَا ثَلَاثًا طَلَّقَهَا عِنْدَ كُلِّ طُهْرٍ وَاحِدَةً قَبْلَ الْجِمَاعِ وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ. وَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ: وَبَلَغَنَاعَنْ إبْرَاهِيمَ عَنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُمْ كَانُوا يَسْتَحِبُّونَ أَنْ لَا يَزِيدُوا فِي الطَّلَاقِ عَلَى وَاحِدَةِ حَتَّى تَنْقَضِيَ الْعِدَّةُ، وَأَنَّ هَذَا عِنْدَهُمْ أَفْضَلُ مِنْ أَنْ يُطَلِّقَهَا ثَلَاثًا عِنْدَ كُلِّ طُهْرٍ وَاحِدَةً.

  1. تفسير الألوسي = روح المعاني (1 / 530،  ط: دار الکتب العلمیه):

فقد أخرج مالك والشافعي والترمذي رضي الله تعالى عنهما وغيرهم. عن عروة قال: كان الرجل إذا طلق امرأته ثم ارتجعها قبل أن تنقضي عدّتها كان ذلك له وإن طلقها ألف مرة، فعمد رجل إلى امرأته فطلقها حتى إذا ما شارفت انقضاء عدّتها ارتجعها ثم طلقها ثم قال: والله لا آويك إليّ ولا تخلين أبدا، فأنزل الله تعالى الآية.

  1. صحيح البخاري (2/791، ط:قدیمی):

باب من أجاز طلاق الثلاث لقول الله تعالى: {الطلاق مرتان فإمساك بمعروف أو تسريح بإحسان} [البقرة: 229]

  1. تفسير القرطبي (3 / 128):

تَرْجَمَ الْبُخَارِيُّ عَلَى هَذِهِ الْآيَةِ" بَابُ مَنْ أَجَازَ الطَّلَاقَ الثَّلَاثَ بِقَوْلِهِ تَعَالَى: الطَّلاقُ مَرَّتانِ فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ" وَهَذَا إِشَارَةٌ منه إلى أن هذاالتعديد إنما هو فسخه لَهُمْ، فَمَنْ ضَيَّقَ عَلَى نَفْسِهِ لَزِمَهُ. قَالَ عُلَمَاؤُنَا: وَاتَّفَقَ أَئِمَّةُ الْفَتْوَى عَلَى لُزُومِ إِيقَاعِ الطَّلَاقِ الثَّلَاثِ فِي كَلِمَةٍ وَاحِدَةٍ، وَهُوَ قَوْلُ جُمْهُورِ السَّلَفِ.

  1. أحكام القرآن للجصاص (1 /527 ، ط: قدیمی):

قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَوْله تَعَالَى: {الطَّلاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ} الْآيَةَ، يَدُلُّ عَلَى وُقُوعِ الثَّلَاثِ مَعًا مَعَ كَوْنِهِ مَنْهِيًّا عَنْهَا.

  1. صحيح البخاري (1 / 43، دار طوق النجاة):

عن عبد الله بن زيد أن النبي صلى الله عليه وسلم «توضأ مرتين مرتين».

  1. الأم للشافعي (5 / 196،  دار المعرفة - بيروت):

(قَالَ الشَّافِعِيُّ) : وَالْقُرْآنُ يَدُلُّ وَاَللَّهُ أَعْلَمُ عَلَى أَنَّ مَنْ طَلَّقَ زَوْجَةً لَهُ دَخَلَ بِهَا أَوْ لَمْ يَدْخُلْ بِهَا ثَلَاثًا لَمْ تَحِلَّ لَهُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِامْرَأَتِهِ الَّتِي لَمْ يَدْخُلْ بِهَا أَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثًا فَقَدْ حُرِّمَتْ عَلَيْهِ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا.

  1. صحيح البخاري(2/791، ط:قدیمی):

عن عائشة، أن رجلا طلق امرأته ثلاثا، فتزوجت فطلق، فسئل النبي صلى الله عليه وسلم: أتحل للأول؟ قال: «لا، حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول».

  1. عمدة القاری (2/336، ط؛ رشیدیه)

مطابقته  للترجمة في قوله: طلق امراته ثلاثاً فإنه ظاهر في كونها مجموعة.

  1. فتح الباري لابن حجر (9 / 367):

فالتمسك بظاهرقوله طلقها ثلاثا فإنه ظاهر في كونها مجموعة.

  1. صحيح البخاري (2/791، ط:قدیمی):

أن عائشة، أخبرته: أن امرأة رفاعة القرظي جاءت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، إن رفاعة طلقني فبت طلاقي، وإني نكحت بعده عبد الرحمن بن الزبير القرظي، وإنما معه مثل الهدبة، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لعلك تريدين أن ترجعي إلى رفاعة؟ لا، حتى يذوق عسيلتك وتذوقي عسيلته»۔

  1. فتح الباري لابن حجر (9 / 367، دار المعرفة - بيروت):

قوله فبت طلاقي فإنه ظاهر في أنه قال لها أنت طالق ألبتة ويحتمل أن يكون المراد أنه طلقها طلاقا حصل به قطع عصمتها منه وهو أعم من أن يكون طلقها ثلاثا مجموعة أو مفرقة ويؤيد الثاني أنه سيأتي في كتاب الأدب من وجه آخر أنها قالت طلقني آخر ثلاث تطليقات۔

  1. صحیح البخاری ، 2/ 791،  ط: قدیمی
  2. سنن ابی داؤد ، 1/324، باب فی اللعان، ط: رحمانیه
  3. سنن ابن ماجه (1 /145):

 عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: قُلْتُ لِفَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ: حَدِّثِينِي عَنْ طَلَاقِكِ، قَالَتْ: «طَلَّقَنِي زَوْجِي ثَلَاثًا، وَهُوَ خَارِجٌ إِلَى الْيَمَنِ، فَأَجَازَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»۔

  1. سنن نسائی،  2/100، کتاب الطلاق، باب الرخصة فی ذالک ط؛قدیمی۔
  2. سنن ابی داؤد ، 1/331، رحمانیه
  3. أحكام القرآن للجصاص (1 /529 ، ط: قدیمی):

 فَالْكِتَابُ وَالسُّنَّةُ وَإِجْمَاعُ السَّلَفِ تُوجِبُ إيقَاعَ الثَّلَاثِ مَعًا وَإِنْ كَانَتْ مَعْصِيَةً۔

  1.  الاشفاق( ص: 53، 54)

قال ابن رجب : لا  نعلم من الأمة أحداً خالف  في هذه المسئلة مخالفةً ظاهرةً ولا حکماً ولا قضاءً ولا علماً ولا إفتاءً ، ولم یقع  ذلک  إلا من نفر یسیر  جداً وقد أنکر علیهم من عاصرهم  غایة الإنکار وکان أکثرهم یستخفي بذلک ، ولایظهره.

  1. الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 233):

 وذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث.

  1. شرح النووي على مسلم (1/474، قدیمی):

وَقَدِ اخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِيمَنْ قَالَ لِامْرَأَتِهِ أَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثًا فَقَالَ الشَّافِعِيُّ وَمَالِكٌ وَأَبُو حَنِيفَةَ وَأَحْمَدُ وَجَمَاهِيرُ الْعُلَمَاءِ مِنَ السَّلَفِ وَالْخَلَفِ يَقَعُ الثَّلَاثُ.

  1. صحيح مسلم (1/477، 478، ط: قدیمی):

عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " كَانَ الطَّلَاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: إِنَّ النَّاسَ قَدِ اسْتَعْجَلُوا فِي أَمْرٍ قَدْ كَانَتْ لَهُمْ فِيهِ أَنَاةٌ، فَلَوْ أَمْضَيْنَاهُ عَلَيْهِمْ، فَأَمْضَاهُ عَلَيْهِمْ "۔

  1. شرح النووي على مسلم (1/478، ط: قدیمی):

 فَاخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِي جَوَابِهِ وَتَأْوِيلِهِ فَالْأَصَحُّ أَنَّ مَعْنَاهُ أَنَّهُ كَانَ فِي أَوَّلِ الْأَمْرِ إِذَا قَالَ لَهَا أَنْتِ طَالِقٌ أَنْتِ طَالِقٌ أَنْتِ طَالِقٌ وَلَمْ يَنْوِ تَأْكِيدًا وَلَا اسْتِئْنَافًا يُحْكَمُ بِوُقُوعِ طَلْقَةٍ لِقِلَّةِ إِرَادَتِهِمُ الِاسْتِئْنَافَ بِذَلِكَ فَحُمِلَ عَلَى الْغَالِبِ الَّذِي هُوَ إِرَادَةُ التَّأْكِيدِ فَلَمَّا كَانَ فِي زَمَنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَكَثُرَ اسْتِعْمَالُ النَّاسِ بِهَذِهِ الصِّيغَةِ وَغَلَبَ مِنْهُمْ إِرَادَةُ الِاسْتِئْنَافِ بِهَا حُمِلَتْ عِنْدَ الْإِطْلَاقِ عَلَى الثَّلَاثِ عَمَلًا بِالْغَالِبِ السَّابِقِ إِلَى الْفَهْمِ مِنْهَا فِي ذَلِكَ الْعَصْرِ۔

  1. صحيح البخاري (1/360، کتاب الشهادات، ط: قدیمی):

 سمعت عمر بن الخطاب رضي الله عنه، يقول: " إن أناسا كانوا يؤخذون بالوحي في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، وإن الوحي قد انقطع، وإنما نأخذكم الآن بما ظهر لنا من أعمالكم، فمن أظهر لنا خيرا، أمناه، وقربناه، وليس إلينا من سريرته شيء الله يحاسبه في سريرته، ومن أظهر لنا سوءا لم نأمنه، ولم نصدقه، وإن قال: إن سريرته حسنة ".

  1. سنن أبي داود (1/317، ط: رحمانیه):

عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ فَجَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: إِنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا، قَالَ: فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ رَادُّهَا إِلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: " يَنْطَلِقُ أَحَدُكُمْ، فَيَرْكَبُ الْحُمُوقَةَ ثُمَّ يَقُولُ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، وَإِنَّ اللَّهَ قَالَ: {وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا} [الطلاق: 2] ، وَإِنَّكَ لَمْ تَتَّقِ اللَّهَ فَلَمْ أَجِدْ لَكَ مَخْرَجًا، عَصَيْتَ رَبَّكَ، وَبَانَتْ مِنْكَ امْرَأَتُكَ.

  1. سنن أبي داود (1/317، ط: رحمانیه):

رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ حُمَيْدٌ الْأَعْرَجُ، وَغَيْرُهُ عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَرَوَاهُ شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَيُّوبُ، وَابْنُ جُرَيْجٍ، جَمِيعًا عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَرَوَاهُ الْأَعْمَشُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ كُلُّهُمْ قَالُوا: فِي الطَّلَاقِ الثَّلَاثِ أَنَّهُ أَجَازَهَا، قَالَ: وَبَانَتْ مِنْكَ۔

  1. موطأ مالك (199، باب ما جاء فی البتة):

 عَنْ مَالِكٍ أَنَّهُ بَلَغَهُ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ إِنِّي طَلَّقْتُ امْرَأَتِي مِائَةَ تَطْلِيقَةٍ فَمَاذَا تَرَى عَلَيَّ؟ فَقَالَ لَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ «طَلُقَتْ مِنْكَ لِثَلَاثٍ، وَسَبْعٌ وَتِسْعُونَ اتَّخَذْتَ بِهَا آيَاتِ اللَّهِ هُزُوًا».

  1. موطأ  امام محمد (203)

 أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِيَاسِ بْنِ بُكَيْرٍ، قَالَ: طَلَّقَ رَجُلٌ امْرَأَتَهُ ثَلاثًا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا، ثُمَّ بَدَا لَهُ أَنْ يَنْكِحَهَا فَجَاءَ يَسْتَفْتِي، قَالَ: فَذَهَبَتْ مَعَهُ، فَسَأَلَ أَبَا هُرَيْرَةَ، وَابْنُ عَبَّاسٍ، فَقَالا: «لا يَنْكِحُهَا حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ» ، فَقَالَ: إِنَّمَا كَانَ طَلاقِي إِيَّاهَا وَاحِدَةً، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: «أَرْسَلْتَ مِنْ يَدِكَ مَا كَانَ لَكَ مِنْ فَضْلٍ».

  1. مسند أحمد (4 / 215، ط: مؤسسة الرسالة، ترکی):

حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي دَاوُدُ بْنُ الْحُصَيْنِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " طَلَّقَ رُكَانَةُ بْنُ عَبْدِ يَزِيدَ أَخُو بَنِي الْمُطَّلِبِ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا فِي مَجْلِسٍ وَاحِدٍ، فَحَزِنَ عَلَيْهَا حُزْنًا شَدِيدًا، قَالَ: فَسَأَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَيْفَ طَلَّقْتَهَا؟» قَالَ: طَلَّقْتُهَا ثَلَاثًا، قَالَ: فَقَالَ: «فِي مَجْلِسٍ وَاحِدٍ؟» قَالَ: نَعَمْ قَالَ: «فَإِنَّمَا تِلْكَ وَاحِدَةٌ فَأَرْجِعْهَا إِنْ شِئْتَ» قَالَ: فَرَجَعَهَا۔

  1. التلخيص الحبير  (3 / 458، دار الكتب العلمية):

وَفِي الْبَابِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْحَاكِمُ، وَهُوَ مَعْلُولٌ أَيْضًا.

  1. ميزان الاعتدال (2 / 6، ط: دار المعرفة للطباعة والنشر، بيروت)
  2. المستدرك على الصحيحين للحاكم (2 / 533، دار الكتب العلمية - بيروت):

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ الصَّنْعَانِيُّ بِمَكَّةَ، ثنا عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ الصَّنْعَانِيُّ، ثنا يَزِيدُ بْنُ الْمُبَارَكِ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ ثَوْرٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: طَلَّقَ عَبْدُ يَزِيدَ أَبُو رُكَانَةَ أُمَّ رُكَانَةَ، ثُمَّ نَكَحَ امْرَأَةً مِنْ مُزَيْنَةَ، فَجَاءَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا يُغْنِي عَنِّي إِلَّا مَا تُغْنِي هَذِهِ الشَّعْرَةُ لِشَعْرَةٍ أَخَذَتْهَا مِنْ رَأْسِهَا، فَأَخَذَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَمِيَّةً عِنْدَ ذَلِكَ فَدَعَا رُكَانَةَ وَإِخْوَتَهُ ثُمَّ قَالَ لِجُلَسَائِهِ: «أَتَرَوْنَ كَذَا مِنْ كَذَا؟» فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَبْدِ يَزِيدَ: «طَلِّقْهَا» فَفَعَلَ فَقَالَ لِأَبِي رُكَانَةَ: «ارْتَجِعْهَا» فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي طَلَّقْتُهَا. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قَدْ عَلِمْتُ ذَلِكَ فَارْتَجِعْهَا» فَنَزَلَتْ {يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ} [الطلاق: 1] «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ»۔

  1. سنن الترمذي ت شاكر (1/222، ط: قدیمی):

 عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ رُكَانَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي طَلَّقْتُ امْرَأَتِيَ البَتَّةَ، فَقَالَ: «مَا أَرَدْتَ بِهَا؟» قُلْتُ: وَاحِدَةً، قَالَ: «وَاللَّهِ؟» قُلْتُ: وَاللَّهِ، قَالَ: «فَهُوَ مَا أَرَدْتَ»۔

سنن أبي داود (1/318، ط: رحمانیه)

عَنْ نَافِعِ بْنِ عُجَيْرِ بْنِ عَبْدِ يَزِيدَ بْنِ رُكَانَةَ، أَنَّ رُكَانَةَ بْنَ عَبْدِ يَزِيدَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ سُهَيْمَةَ الْبَتَّةَ، فَأَخْبَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ، وَقَالَ: وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ إِلَّا وَاحِدَةً، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَاللَّهِ مَا أَرَدْتَ إِلَّا وَاحِدَةً؟» ، فَقَالَ رُكَانَةُ: وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ إِلَّا وَاحِدَةً، فَرَدَّهَا إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَطَلَّقَهَا الثَّانِيَةَ فِي زَمَانِ عُمَرَ، وَالثَّالِثَةَ فِي زَمَانِ عُثْمَانَ.

سنن ابن ماجه (149، قدیمی)

 عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ بْنِ رُكَانَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ الْبَتَّةَ، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: «مَا أَرَدْتَ بِهَا؟» قَالَ: وَاحِدَةً، قَالَ: «آللَّهِ، مَا أَرَدْتَ بِهَا إِلَّا وَاحِدَةً؟» قَالَ: آللَّهِ، مَا أَرَدْتُ بِهَا إِلَّا وَاحِدَةً، قَالَ: فَرَدَّهَا عَلَيْهِ.

  1. بلوغ المرام من أدلة الأحكام (2 / 98،ط: دار أطلس للنشر والتوزيع، الرياض):

وَقَدْ رَوَى أَبُو دَاوُدَ مِنْ وَجْهٍ آخَرَ أَحْسَنَ مِنْهُ: - أَنَّ رُكَانَةَ طَلَّقَ اِمْرَأَتَهُ سُهَيْمَةَ اَلْبَتَّةَ , فَقَالَ: "وَاَللَّهِ مَا أَرَدْتُ بِهَا إِلَّا وَاحِدَةً, فَرَدَّهَا إِلَيْهِ اَلنَّبِيُّ -صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔

  1. شرح النووي على مسلم (1/478، ط: قدیمی)

وأما الرواية التي رواها المخالفون أن ركانة طلق ثلاثا فجعلها واحدة فرواية ضعيفة عن قوم مجهولين وإنما الصحيح منها ما قدمناه أنه طلقها ألبتة ولفظ ألبتة محتمل للواحدة وللثلاث ولعل صاحب هذه الرواية الضعيفة اعتقد أن لفظ ألبتة يقتضي الثلاث فرواه بالمعنى الذي فهمه وغلط في ذلك۔

Wednesday 24 March 2021

تنہائی میں جہاں کوئی موجود نہ ہو طلاق دینے کا حکم

 اگر  تنہائی میں لفظ طلاق اپنی بیوی کی نیت سے کہا ہو تو اس سے بیوی پر طلاق واقع ہوجائے گی: ولا یلزم کون الإضافة صریحة في کلامہ․․․ لو قال: طالق، فقیل لہ من عنیت؟ فقال امرأتي طلقت امرأتہ (رد المحتار: ۴/۴۵۸، ط زکریا دیوبند) اور اگر اس نے بغیر کسی نیت کے محض ویسے ہی لفظ طلاق زبان سے کہہ دیا تو اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ لو قال: امرأة طالق أو قال طلقت امرأة ثلاثا وقال: لم أعن امرأتي یصدق․․․ قید بخطابھا لأنہ لو قال إن خرجت یقع الطلاق أو لا تخرجي إلا بإذني فإني حلفت بالطلاق فخرجت لم یقع لترکہ الإضافة إلیھا (در مع رد المحتار: ۴/۴۵۸، ط زکریا دیوبند) اگر کسی نے تنہائی میں یہ کہہ دیا کہ میری بیوی پر طلاق، یا میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی اوراسی طرح کے بہت سارے الفاظ جن میں طلاق کی اضافت بیوی کی طرف ہو یا اضافت کے بجائے بیوی کی نیت ہو ان سب سے تنہائی میں بھی بیوی پر طلاق واقع ہوجاتی ہے۔

ماں کے کہنے پر بیوی کو طلاق دینا

  اگر والدہ کسی شرعی وجہ کے بغیر طلاق کا مطالبہ کریں تو ان کا بلاوجہ طلاق کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے  اور بلا وجہ مطالبہ کرنے کی صورت میں بیوی کو طلاق دینا بھی درست نہیں ہے، البتہ اگر بیوی ان کے ساتھ  اچھا برتاؤ نہ کرتی ہو، ان کی گستاخی کرتی ہواور بدگوئی اور بے رخی سے پیش آتی ہو اور سمجھانے کے باوجود باز نہ آتی ہو تو پھر ان کے مطالبہ پر طلاق دینے کی گنجائش ہوگی، لیکن پسندیدہ نہیں ہے، حکمت و بصیرت کے ساتھ دونوں کے درمیان صلح کرانے اور اچھے تعلقات استوار کرنے کی کوشش کرنی چاہیے،  کیوں کہ حلال کاموں میں جو کام اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہے وہ طلاق دینا ہے، اس لیے حتی الامکان انتہائی سخت مجبوری کے بغیر طلاق دینے سے گریز کرنا چاہیے۔ اگر دونوں کا ساتھ رہنا مشکل ہو تو  بیوی کے لیے علیحدہ کمرہ، بیت الخلا و غسل خانہ اور باورچی خانہ کا انتظام کردیجیے، اور آپ اپنی والدہ کی خدمت اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک جاری رکھیے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (1/ 132):
"عن معاذ قال: «أوصاني رسول الله صلى الله عليه وسلم بعشر كلمات، قال: " لاتشرك بالله شيئًا، وإن قتلت وحرقت، ولاتعقن والديك وإن أمراك أن تخرج من أهلك ومالك

 (ولاتعقن والديك) أي تخالفنهما، أو أحدهما فيما لم يكن معصية إذ لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق ( «وإن أمراك أن تخرج من أهلك» ) أي: امرأتك أو جاريتك، أو عبدك بالطلاق أو البيع أو العتق أو غيرها (ومالك) : بالتصرف في مرضاتهما. قال ابن حجر: شرط للمبالغة باعتبار الأكمل أيضًا أي: لاتخالف واحدًا منهما، وإن غلا في شيء أمرك به، وإن كان فراق زوجة أو هبة مال، أما باعتبار أصل الجواز فلايلزمه طلاق زوجة أمراه بفراقها، وإن تأذيا ببقائها إيذاءً شديدًا؛ لأنه قد يحصل له ضرر بها، فلايكلفه لأجلهما؛ إذ من شأن شفقتهما أنهما لو تحققا ذلك لم يأمراه به فإلزامهما له مع ذلك حمق منهما، ولايلتفت إليه، وكذلك إخراج ماله"

طلاق رجعی اور رجوع کا طریقہ

 اگر بیوی کو طلاق کے صریح الفاظ کے ساتھ ایک  یا دو طلاق دی تو ایسی طلاق کو ''طلاقِ رجعی'' کہتے ہیں، طلاقِ رجعی کے بعد  شوہر کے لیے اپنی بیوی کی عدت (تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو) میں رجوع  کرنے کا حق ہوتا ہے، اگر عدت میں قولاًوفعلاً  رجوع کرلیا یعنی زبان سے یہ کہہ دیا کہ میں نے رجوع کرلیا ہے  یا ازدواجی تعلقات قائم کرلیے تو اس سے رجوع درست ہوجائے گا  اور نکاح برقرار  رہے گا، اور اگر شوہر نے عدت میں رجوع نہیں کیا تو عدت گزرتے ہی طلاقِ بائنہ سے نکاح  ٹوٹ جائے گا، میاں بیوی کا تعلق ختم ہوجائے گا، بعد ازاں  اگر میاں بیوی باہمی رضامندی سے دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو شرعی  گواہان کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا پڑے گا، اور دونوں صورتوں میں(عدت میں رجوع کرے یا عدت کے بعد نکاحِ جدید کرے) شوہر نے اگر اس  سے پہلے کوئی اور طلاق نہ دی ہو تو ایک طلاقِ رجعی دینے کی صورت میں اس کو مزید دو طلاقوں کا اختیار ہوگا، اور اگر دوطلاقیں صریح دیں تو آئندہ ایک طلاق کا اختیار باقی ہوگا۔

اور طلاقِ بائن کے ذریعے  ایک یا دو طلاق دی ہو  تو پھر عدت میں رجوع کا حق نہیں ہوگا، البتہ  باہمی رضامندی سے تجدیدِ نکاح کرکے دوبارہ ساتھ رہا جاسکتا ہے۔

اور اگر تین طلاقیں دے دیں تو پھر شوہر کے لیے رجوع جائز نہیں  ہوگا۔فقط واللہ اعلم

Tuesday 23 March 2021

طلاق کے بعد بچوں کی پرورش کا حق

 سات سال کی عمر تک ماں کے لیے بیٹوں کو اپنی پرورش میں رکھنے کا حق حاصل ہے،  بشرطیکہ ماں نے غیر خاندان میں شادی نہ کی ہو،  اگر غیر خاندان میں شادی کر لی، تو نانی کوحقِ پرورش حاصل ہوگا اگر نانی زندہ ہو۔  اور اگر نانی زندہ نہیں ، تو پھر دادی کوحقِ پرورش حاصل ہوگا، سات سال کی عمر کے بعد باپ کو لینے کا حق حاصل ہو گا۔

الفتاوى الهندية (1/ 541):
"أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأم إلا أن تكون مرتدةً أو فاجرةً غير مأمونة، كذا في الكافي ... وإن لم يكن له أم تستحق الحضانة بأن كانت غير أهل للحضانة أو متزوجةً بغير محرم أو ماتت فأم الأم أولى من كل واحدة ... والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني، وقدر بسبع سنين، وقال القدوري: حتى يأكل وحده، ويشرب وحده، ويستنجي وحده. وقدره أبو بكر الرازي بتسع سنين، والفتوى على الأول. والأم والجدة أحق بالجارية حتى تحيض. وفي نوادر هشام عن محمد - رحمه الله تعالى -: إذا بلغت حد الشهوة فالأب أحق، وهذا صحيح. هكذا في التبيين... وإذا وجب الانتزاع من النساء أو لم يكن للصبي امرأة من أهله يدفع إلى العصبة فيقدم الأب، ثم أبو الأب، وإن علا"

Friday 12 March 2021

وہیں لگی کہ جونازک مقام تھے دل کے

 آجکل اسلام کے خلاف کوئی نہ کوئی انہونی اور لرزہ خیز آواز دل ودماغ پر تقریباروز ہی بجلی گرا جاتی ہے.ابھی پاکستانی خواتین مارچ کاغم تازہ تھا کہ خود ہندوستان سے اس سے بھی سینکڑوں گنااندوہناک خبر آئی کہ وسیم رضوی نام کے زندیق نے جوشیعہ وقف بورڈ کے سابق چیرمین ہیں اپنی خباثت کابرملااظہار کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں 26آیات قرآنی کو قرآن مجید سےہٹادینے کی عرضی دی ہے.اس کی من گھڑت سوچ کے مطابق یہ آیات خلفاء ثلاثہ حضرت ابوبکر,حضرت عمر,حضرت عثمان رضی اللہ عنہم اجمعین کے ذریعے بڑھائی گئ تھیں .اس لئے اس کے بقول انہیں قرآن سے ہٹاناضروری ہے(نعوذباللہ).اس کے لئے اس مردود نے سپریم کورٹ سے استدعاء کی ہے.یہ دراصل آرایس ایس کی بہت پرانی مانگ ہے کہ قرآن مجیدمیں موجود جہاد سے متعلق آیات ہٹائی جائیں وسیم خبیث انہیں کا ایک آلۂ کار ہے.یہ حکومت کاہی زرخریدچمچہ ہے. اب دیکھنا  یہ ہے کہ سپریم کورٹ اس بارے میں کیارویہ اپناتی ہے.حکومت مسلمانان ہند کے خلاف نت نئے مسائل چھیڑکرعالم اسلام بالخصوص مسلمانان ہند کو ذہنی اذیت سے دوچارکررہی ہےاس سے پہلے سی اے اے ,این آر سی.دفعہ 370 کی تنسیخ ,طلاق ثلاثہ بل.بابری مسجدکاظالمانہ فیصلہ.لوجہاد کاخودساختہ قانون  وغیرہ کی لمبی فہرست ہے.حکومت اصل مسائل سے لوگوں کی نظریں ہٹانے کے لئے فرقہ پرستی پرمبنی متنازع ایشوز کھڑاکررہی ہے کیونکہ لڑاؤاورحکومت کرو کا انگریزی ضابطہ ہی اس کے مدنظرہے.تاکہ عوام انہیں مسائل سے دوچار اوردست و گریباں رہیں ملک ومعیشت ترقی وتوانائی کے الفاظ کو مکمل طور سے بھول جائیں.ان حالات میں خواب خرگوش میں رہناسخت نادانی ہوگی.

توڑدے مصلحت وقت کے پیمانے کو

نہ ملاخاک میں یہ بادۂ ناب اے ساقی

آیات قرآنی پریہ اعتراضات کم علمی نادانی  اورحماقت کے بھی غماز ہیں.

مثال کے طورپر سب سے زیادہ اعتراض

درج ذیل آیت پر کیا جاتاہے.

آیت السیف سورۂ توبہ آیت نمبر5:
فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُوْهُمْ وَ خُذُوْهُمْ وَ احْصُرُوْهُمْ وَ اقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ١ۚ فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَلُّوْا سَبِيْلَهُمْ١ؕ﴾
’’تو جب حرمت والے مہینے گزرجائیں تو ان مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو اور انھیں پکڑو اور اُنھیں گھیرو اور ان کے لیے ہرگھات کی جگہ بیٹھو۔ پھر اگر وہ توبہ کریں اور نماز قائم کریں تو اُن کا راستہ چھوڑدو۔‘‘

یہ آیات سیاق وسباق سے ہٹاکرپڑھی جاتی ہیں جس کی بناپر نادان لوگ انہیں قابل اعتراض سمجھتے ہیں 

  سیاق و سباق کو سمجھنے کے لیئے ضروری ہے کہ اس سورت کا مطالعہ آیت نمبر 1 سے شروع کیا جائے۔ جو یہ ہے کہ مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان جو معاہداتِ امن ہوئے تھے، ان سے براءت کا اعلان کیا جاتا ہے۔ اس براءت( معاہدات کی منسوخی )سے عرب میں شرک اور مشرکین کا وجود عملاً خلاف قانون ہوگیا کیونکہ ملک کا غالب حصہ اسلام کے زیر حکم آچکا تھا۔ ان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہ رہا کہ یا تو لڑنے پر تیار ہوجائیں یا ملک چھوڑ کر نکل جائیں یا پھر اپنے آپ کو اسلامی حکومت کے نظم و ضبط میں دے دیں۔ مشرکین کو اپنا رویہ بدلنے کے لیے چار ماہ کا وقت دیا گیا۔
امام ابوبکر جصاص نے اسی تخصیص پر اپنی کتاب شرح مختصر طحاوی ج2 ص 13 پر لکھا ہے : یہ آیت مشرکین عرب کے بارےمیں اتری ہے دلیل اس پر اللہ تعالی کا فرمان اس سے پچھلی آیت” فاتموا الیہم عھدہم الی مدتہم ” “ان کے ساتھ کئے ہوئے معاہدے کی مدت کو پورا کرو (التوبہ ، آیت 4)ہے اسلئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس وقت معاہدہ صرف مشرکین عرب سے تھا۔ قرآن کے اِسی حکم کو اللہ کے رسول ﷺنے((اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ النَّاسَ))کے الفاظ سے بیان کیا ہے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اِس حدیث کو اسی آیت کی تفسیر کے طور پر بیان کیا ہے۔ اسکو بھی مخالفین سارے سیناریو سے ہٹ کے پیش کرتے ہیں ۔
((اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَشْھَدُوْا اَنْ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ وَیُقِیْمُوا الصَّلَاۃَ وُیُـؤْتُوا الزَّکٰوۃَ ‘ فَاِذَا فَعَلُوْا ذٰلِکَ عَصَمُوْا مِنِّیْ دِمَائَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ اِلاَّ بِحَقِّ الْاِسْلَامِ‘ وَحِسَابُھُمْ عَلَی اللّٰہِ))
’’مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اُس وقت تک قتال کروں جب تک کہ وہ یہ اقرار نہ کر لیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد‘ اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم نہ کریں اور زکوٰۃ ادانہ کریں۔پس جب وہ یہ کر لیں گے ‘تو اپنے مال اور جانیں مجھ سے بچا لیں گے‘ سوائے اسلام کے حق کے‘اور اُن کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔‘‘(صحیح البخاری،کتاب الایمان،باب فان تابو واقومواالصلوٰۃ وآتوا الزکٰوۃ،حدیث رقم 24،صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب الامر بقتال الناس حتیٰ یقول لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ،حدیث رقم 31(
اِس حدیث مبارکہ میں((الناس))سے مراد مشرکین ہیں چنانچہ سنن ابی داؤد اور سنن نسائی کی ایک روایت میں ((اَنْ اُقَاتِلَ الْمُشْرِکِیْنَ))کے الفاظ آئے ہیں۔یہ حکم خصوصی طور پر مشرکین عرب کے متعلق ہے 

ہندوستانی مشرکین سے ان آیات کاکوئی تعلق نہیں. لیکن اس کے باوجود واویلااور قرآن مجید سے آیات مذکور کوہٹانے کامطالبہ صرف اسلامیان ہند کوذہنی کرب واذیت میں مبتلاکرنا ہے.

Monday 8 March 2021

مقتدی کاپچھلی صف میں تنہا نماز پڑھنا

 کسی صف میں ایک مقتدی کا اکیلے نماز پڑھنا مکروہ ہے، لہذا اگر اگلی صف میں گنجائش ہو تو اگلی صف میں شامل ہوجائے، ورنہ انتظار کرے، اس دوران کوئی دوسرا نمازی آجائے تو  اس کے ساتھ پچھلی صف میں کھڑے ہوکر نماز شروع کردے، لیکن اگر امام کے رکوع کرنے تک کوئی دوسرا نمازی نہ آئے تو  اگلی صف سے کسی نمازی کو کھینچ کر یا  اشارہ کر کے پیچھے بلا لے، بشرطیکہ اس کے بارے میں یہ اندیشہ نہ ہو کہ وہ نماز کے احکامات سے لاعلمی کی وجہ سے اپنی نماز فاسد  کر بیٹھے گا، اگر اس طرح کا اندیشہ ہو تو پھر اکیلے ہی پچھلی صف میں نیت باندھ کر امام کے ساتھ نماز میں شامل ہوجائے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 647):

"وقدمنا كراهة القيام في صف خلف صف فيه فرجة للنهي، وكذا القيام منفردًا وإن لم يجد فرجةً بل يجذب أحدًا من الصف ذكره ابن الكمال، لكن قالوا: في زماننا تركه أولى، فلذا قال في البحر: يكره وحده إلا إذا لم يجد فرجةً.
(قوله: لكن قالوا إلخ) القائل صاحب القنية فإنه عزا إلى بعض الكتب أتى جماعة ولم يجد في الصف فرجةً، قيل: يقوم وحده ويعذر، وقيل: يجذب واحدًا من الصف إلى نفسه فيقف بجنبه. والأصح ما روى هشام عن محمد أنه ينتظر إلى الركوع، فإن جاء رجل وإلا جذب إليه رجلًا أو دخل في الصف، ثم قال في القنية: والقيام وحده أولى في زماننا لغلبة الجهل على العوام فإذا جره تفسد صلاته اهـ قال في الخزائن قلت: وينبغي التفويض إلى رأي المبتلى، فإن رأى من لايتأذى لدين أو صداقة زاحمه أو عالمًا جذبه وإلا انفرد. اهـ. قلت: وهو توفيق حسن اختاره ابن وهبان في شرح منظومته (قوله: فلذا قال إلخ) أي فلم يذكر الجذب؛ لما مر."

Wednesday 3 March 2021

پاکستان کے لاپتہ افراد !

 پاکستان میں دوہزار سے زیادہ افرادجبری طور پرلاپتہ ہیں ..آج بی بی سی نے سیربین میں بتایاکہ لاپتہ افراد کے اہل خانہ کس کرب سے گزرہے ہیں واقعی بہت دلدوز کیفیت ہے.رپورٹ سن کر آنکھیں خودبخود اشکبارہوجاتی ہیں .یہ کیسا ملک ہے جہاں انسان کی جان محفوظ نہیں ,جہاں دن دھاڑے انسان اغواکرلئے جاتے ہیں پھروہ لوٹ کرنہیں آتے.یہ کیساملک ہے!نامکمل,غیرمحفوظ.جہاں کسی کوصرف اس وجہ سے ماردیاجاتاہے کہ وہ قادیانی,شیعہ ,سنی,یادیوبندی اوربریلوی ہے.یہ ایک ایساملک ہے جہاں حکومت کمزور,پولیس نااہل,فوج غدار اہل سیاست دبنگ اورعوام بیزار اور اسلام اس حقیقی اسلام سے مختلف ہے جومحمدعربی ہاشمی ومطلبی نے جزیرۃ العرب میں بپاکیاتھا.کسی غیرمسلم کو صرف اس وجہ سے سرعام ہلاک کردیناکیونکہ وہ غیراسلامی عقیدہ رکھتاہےکونسے اسلام میں جائزومباح ہے.؟یہ سراسرانارکی ,لاقانونیت اورغنڈہ گردی ہے.پاکستان میں مذہبی شدت پسندی اور ہندوستان میں آرایس ایس دونوں ممالک کے ایسے ناسور ہیں جن  کی بناپر ہندوستان میں ماب لنچنگ اور پاکستان میں اغواوقتل یاجبری گمشدگی عام سی بات ہے دونوں ہی بنیاد یوں تو مذہب پر ہے لیکن حقیقی مذاہب سے ان کادورتک کوئی رشتہ نہیں.

 تحفظ کے باب میں  مسلم اور غیرمسلم دونوں برابر ہیں دونوں کی جان کا یکساں تحفظ و احترام کیا جائے گا اسلامی ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی غیرمسلم رعایا کی جان مال کابھی ایساہی تحفظ کرے جیساکہ مسلم رعایاکاکرتی ہےانھیں ظلم و زیادتی سے یکساں طورپر محفوظ رکھے۔ پیغمبر  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

”من قتل معاہدًا لم یرح رائحة الجنة، وان ریحہا لیوجد من مسیرة أربعین عامًا“ (بخاری شریف کتاب الجہاد، باب اثم من قتل معاہدًا بغیر جرمِ، ج:۱، ص: ۴۴۸)

جو کسی معاہد کو قتل کرے گا وہ جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا، جب کہ اس کی خوشبو چالیس سال کی مسافت سے بھی محسوس ہوتی ہے۔

حضرت عمر نے اپنی  وصیت میں فرمایاتھا:

”میں اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کو اللہ اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد و ذمہ کی وصیت کرتا ہوں کہ ذمیوں کے عہد کو وفا کیا جائے، ان کی حفاظت و دفاع میں جنگ کی جائے، اور ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بار نہ ڈالا جائے۔“(۱)

تحفظ مال:

اسلامی ریاست مسلمانوں کی طرح ذمیوں کے مال وجائیداد کا تحفظ کرے گی، انھیں حق ملکیت سے بے دخل کرے گی نہ ان کی زمینوں اور جائیدادوں پر زبردستی قبضہ، حتی کہ اگر وہ جزیہ نہ دیں، تو اس کے عوض بھی ان کی املاک کو نیلام وغیرہ نہیں کرے گی۔ حضرت علی نے اپنے ایک عامل کو لکھا:

”خراج میں ان کا گدھا، ان کی گائے اور ان کے کپڑے ہرگز نہ بیچنا۔“(۲)

ذمیوں کو بھی مسلمانوں کی طرح خرید و فروخت، صنعت و حرفت اور دیگر تمام ذرائع معاش کے حقوق حاصل ہوں گے، اس کے علاوہ، وہ شراب اور خنزیر کی خریدوفروخت بھی کرسکتے ہیں۔ نیز انھیں اپنی املاک میں مالکانہ تصرف کرنے کا حق ہوگا، وہ اپنی ملکیت وصیت و ہبہ وغیرہ کے ذریعہ دوسروں کو منتقل بھی کرسکتے ہیں۔ ان کی جائیدادانھیں کے ورثہ میں تقسیم بھی ہوگی، حتیٰ کہ اگر کسی ذمی کے حساب میں جزیہ کا بقایا واجب الادا تھا اور وہ مرگیا تو اس کے ترکہ سے وصول نہیں کیا جائے گا اور نہ اس کے ورثہ پر کوئی دباؤ ڈالا جائے گا۔

کسی جائز طریقے کے بغیر کسی ذمی کا مال لینا جائز نہیں ہے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

”ألا ! لا تحل أموال المعاہدین الا بحقہا“(۳)

خبردار معاہدین کے اموال حق کے بغیر حلال نہیں ہیں۔

تحفظِ عزت و آبرو:

مسلمانوں کی طرح ذمیوں کی عزت وآبرو اور عصمت و عفت کا تحفظ کیاجائے گا، اسلامی ریاست کے کسی شہری کی توہین و تذلیل نہیں کی جائے گی۔ ایک ذمی کی عزت پر حملہ کرنا، اس کی غیبت کرنا، اس کی ذاتی و شخصی زندگی کا تجسس، اس کے راز کو ٹوہنا،اسے مارنا، پیٹنا اور گالی دینا ایسے ہی ناجائز اور حرام ہے، جس طرح ایک مسلمان کے حق میں۔

”ویجب کف الأذی عنہ، وتحرم غیبتہ کالمسلم“ (۴)

اس کو تکلیف دینے سے رکنا واجب ہے اوراس کی غیبت ایسی ہی حرام ہے جیسی کسی مسلمان کی۔

عدالتی و قانونی تحفظ:

فوج داری اور دیوانی قانون ومقدمات مسلم اور ذمی دونوں کے لیے یکساں اور مساوی ہیں، جو تعزیرات اور سزائیں مسلمانوں کے لیے ہیں، وہی غیرمسلموں کے لیے بھی ہیں۔ چوری، زنا اور تہمتِ زنا میں دونوں کو ایک ہی سزا دی جائے گی، ان کے درمیان کوئی امتیاز نہیں کیا جائے گا۔ قصاص، دیت اور ضمان میں بھی دونوں برابر ہیں۔ اگر کوئی مسلمان کسی ذمی کو قتل کردے، تواس کو قصاص میں قتل کیاجائے گا۔ حدیث شریف میں ہے:

”دماوٴہم کدمائنا“ (۵)

ان کے خون ہمارے خون ہی کی طرح ہیں۔

حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک مسلمان نے ایک ذمی کو قتل کردیا، تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو قصاص میں قتل کرنے کا حکم دیا اور فرمایا:

”أنا أحق من وفیٰ بذمتہ“ (۶)

میں ان لوگوں میں سب سے زیادہ حقدار ہوں جو اپنا وعدہ وفا کرتے ہیں۔

البتہ ذمیوں کے لیے شراب اور خنزیر کو قانون سے مستثنیٰ کردیاگیا ہے، چنانچہ انھیں خنزیر رکھنے، کھانے اور خرید و فروخت کرنے،اسی طرح شراب بنانے، پینے اور بیچنے کا حق ہے۔

مذہبی آزادی:

ذمیوں کو اعتقادات و عبادات اور مذہبی مراسم وشعائر میں مکمل آزادی حاصل ہوگی، ان کے اعتقاد اور مذہبی معاملات سے تعرض نہیں کیا جائے گا، ان کے کنائس، گرجوں، مندروں اور عبادت گاہوں کو منہدم نہیں کیا جائے گا۔

قرآن نے صاف صاف کہہ دیا:

لا اکراہ في الدین قد تبین الرشد من الغي (البقرہ)

دین کے معاملہ میں کوئی جبر واکراہ نہیں ہے، ہدایت گمراہی سے جدا ہوگئی۔

وہ بستیاں جو امصار المسلمین (اسلامی شہروں) میں داخل نہیں ہیں، ان میں ذمیوں کو صلیب نکالنے، ناقوس اور گھنٹے بجانے اور مذہبی جلوس نکالنے کی آزادی ہوگی، اگر ان کی عبادت گاہیں ٹوٹ پھوٹ جائیں، تو ان کی مرمت اور ان کی جگہوں پر نئی عبادت گاہیں بھی تعمیر کرسکتے ہیں۔ البتہ امصار المسلمین یعنی ان شہروں میں، جو جمعہ عیدین، اقامت حدود اور مذہبی شعائر کی ادائیگی کے لیے مخصوص ہیں، انھیں کھلے عام مذہبی شعائر ادا کرنے اور دینی و قومی جلوس نکالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اور نہ وہ ان جگہوں میں نئی عبادت گاہیں تعمیر کرسکتے ہیں۔ البتہ عبادت گاہوں کے اندر انھیں مکمل آزادی حاصل ہوگی۔ اور عبادت گاہوں کی مرمت بھی کرسکتے ہیں۔

وہ فسق و فجور جس کی حرمت کے اہل ذمہ خود قائل ہیں اور جو ان کے دین و دھرم میں حرام ہیں، تو ان کے اعلانیہ ارتکاب سے انھیں روکا جائے گا۔ خواہ وہ امصار المسلمین میں ہوں یا اپنے امصار میں ہوں۔

ذمی اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے مذہبی درسگاہیں بھی قائم کرسکتے ہیں۔ انھیں اپنے دین و مذہب کی تعلیم و تبلیغ اور مثبت انداز میں خوبیاں بیان کرنے کی بھی آزادی ہوگی۔

اسلامی ریاست ذمیوں کے پرسنل لاء میں کوئی مداخلت نہیں کرے گی، بلکہ انھیں ان کے مذہب و اعتقاد پر چھوڑ دے گی وہ جس طرح چاہیں اپنے دین و مذہب پر عمل کریں۔ نکاح، طلاق، وصیت، ہبہ، نان و نفقہ، عدت اور وراثت کے جو طریقے ان کے دھرم میں جائز ہیں، انھیں ان پر عمل کرنے کی مکمل آزادی ہوگی، خواہ وہ اسلامی قانون کی رو سے حرام و ناجائز ہی کیوں نہ ہوں۔ مثلاً اگر ان کے یہاں محرمات سے نکاح بغیر گواہ اور مہر کے جائز ہے، تو اسلامی ریاست انھیں اس سے نہیں روکے گی؛ بلکہ اسلامی عدالت ان کے قانون کے مطابق ہی فیصلہ کرے گی۔

حضرت عمر بن عبدالعزیز نے حضرت حسن سے اس سلسلے میں ایک استفتاء کیا تھا:

”ما بال الخلفاء الراشدین، ترکوا أہل الذمة، وماہم علیہ من نکاح المحارم، واقتناء الخمور والخنازیر“

کیا بات ہے کہ خلفاء راشدین نے ذمیوں کو محرمات کے ساتھ نکاح اور شراب اور سوَر کے معاملہ میں آزاد چھوڑدیا۔

جواب میں حضرت حسن نے لکھا:

”انما بذلوا الجزیة لیترکوا وما یعتقدون، وانما أنت متبع لا مبتدع“

انھوں نے جزیہ دینا اسی لیے تو قبول کیاہے کہ انھیں ان کے عقیدے کے مطابق زندگی بسر کرنے کی اجازت دی جائے۔ آپ کاکام پچھلے طریقے کی پیروی کرنا ہے نہ کہ کوئی نیا طریقہ ایجاد کرنا“(۷)

منصب وملازمت:

اسلامی آئین سے وفاداری کی شرط پوری نہ کرنے کی وجہ سے اہل ذمہ پالیسی ساز اداروں، تفویض وزارتوں اور ان مناصب پر فائز نہیں ہوسکتے ہیں، جو اسلام کے نظامِ حکومت میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں، بقیہ تمام ملازمتوں اور عہدوں کے دروازے ان کے لیے کھلے ہیں۔ اس سلسلے میں ماوردی نے ذمیوں کی پوزیشن ظاہر کرتے ہوئے لکھاہے:

”ایک ذمی وزیر تنفیذ ہوسکتا ہے، مگر وزیر تفویض نہیں۔ جس طرح ان دونوں عہدوں کے اختیارات میں فرق ہے، اسی طرح ان کے شرائط میں بھی فرق ہے۔ یہ فرق ان چار صورتوں سے نمایاں ہوتا ہے: پہلے یہ کہ وزیر تفویض خود ہی احکام نافذ کرسکتا ہے اور فوج داری مقدمات کا تصفیہ کرسکتا ہے، یہ اختیارات وزیر تنفیذ کو حاصل نہیں۔ دوسرے یہ کہ وزیر تفویض کو سرکاری عہدے دار مقرر کرنے کا حق ہے، مگر وزیر تنفیذ کو یہ حق حاصل نہیں ہے۔ تیسرے یہ کہ وزیر تفویض تمام جنگی انتظامات خود کرسکتا ہے وزیر تنفیذ کو یہ حق حاصل نہیں ہے۔ چوتھے یہ کہ وزیر تفویض کو خزانے پر اختیار حاصل ہے وہ سرکاری مطالبہ وصول کرسکتا ہے اور جو کچھ سرکار پر واجب ہے اسے ادا کرسکتا ہے۔ یہ حق بھی وزیر تنفیذ کو حاصل نہیں ہے۔ ان چار شرطوں کے علاوہ اور کوئی بات ایسی نہیں جو ذمیوں کو اس منصب پر فائز ہونے سے روک سکے“(۸)

اسلامی خزانے سے غیرمسلم محتاجوں کی امداد

صدقات واجبہ (مثلاً زکوٰة عشر) کے علاوہ بیت المال کے محاصل کا تعلق جس طرح مسلمانوں کی ضروریات و حاجات سے ہے، اسی طرح غیرمسلم ذمیوں کی ضروریات و حاجات سے بھی ہے، ان کے فقراء ومساکین اور دوسرے ضرورت مندوں کے لیے اسلام بغیر کسی تفریق کے وظائف معاش کا سلسلہ قائم کرتا ہے۔ خلیفہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ اسلامی ریاست کا کوئی شہری محروم المعیشت نہ رہے۔

ایک مرتبہ حضرت عمر نے گشت کے دوران میں ایک دروازے پر ایک ضعیف العمر نابینا کو دیکھا آپ نے اس کی پشت پر ہاتھ رکھ کر پوچھا کہ تم اہل کتاب کے کس گروہ سے تعلق رکھتے ہو،اس نے جواب دیا کہ میں یہودی ہوں۔

حضرت عمر نے دریافت کیا کہ گداگری کی یہ نوبت کیسے آئی۔ یہودی نے کہا۔ ادائے جزیہ، شکم پروری اور پیری سہ گونہ مصائب کی وجہ سے۔ حضرت عمر نے یہ سن کر اس کا ہاتھ پکڑ کر گھرلائے اور جو موجودتھا،اس کو دیا اور بیت المال کے خازن کو لکھا:

”یہ اور اس قسم کے دوسرے حاجت مندوں کی تفتیش کرو۔ خدا کی قسم ہرگز یہ ہمارا انصاف نہیں ہے کہ ہم جوانی میں ان سے جزیہ وصول کریں اور بڑھاپے میں انھیں بھیک کی ذلت کے لیے چھوڑ دیں قرآن کریم کی اس آیت (انما الصدقات للفقراء والمساکین) میں میرے نزدیک فقراء سے مسلمان مراد ہیں اور مساکین سے اہل کتاب کے فقراء اور غرباء۔ اس کے بعد حضرت عمر نے ایسے تمام لوگوں سے جزیہ معاف کرکے بیت المال سے وظیفہ بھی مقرر کردیا۔“(۹)

حضرت ابوبکر کے دور خلافت میں حضرت خالد بن ولید نے اہل حیرہ کے لیے جو عہدنامہ لکھا وہ حقوق معاشرت میں مسلم اور غیرمسلم کی ہمسری کی روشن مثال ہے:

”اورمیں یہ طے کرتاہوں کہ اگر ذمیوں میں سے کوئی ضعف پیری کی وجہ سے ناکارہ ہوجائے، یا آفت ارضی و سماوی میں سے کسی آفت میں مبتلا ہوجائے، یا ان میں سے کوئی مالدار محتاج ہوجائے اوراس کے اہل مذہب اس کو خیرات دینے لگیں، تو ایسے تمام اشخاص سے جزیہ معاف ہے۔ اور بیت المال ان کی اور ان کی اہل وعیال کی معاش کا کفیل ہے۔ جب تک وہ دارالاسلام میں مقیم رہیں۔“ (۱۰)

معاہدین کے حقوق

مذکورہ بالا حقوق میں تمام اہل ذمہ شریک ہیں، البتہ وہ غیرمسلم رعایا، جو جنگ کے بغیر، یا دوران جنگ مغلوب ہونے سے پہلے،کسی معاہدے یا صلح نامے کے ذریعہ اسلامی ریاست کے شہری ہوگئے ہوں تو ان کے ساتھ شرائط صلح کے مطابق معاملہ کیا جائے گا۔ ان شرائط پر سختی سے عمل کیا جائے گا۔ ان سے ایک سرمو بھی تجاوز نہیں کیا جائے گا، نہ ان پر کسی قسم کی زیادتی کی جائے گی، نہ ان کے حقوق میں کمی کی جائے گی۔ نہ ان کی مذہبی آزادی سلب کی جائے گی، نہ ان پر طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالا جائے گا۔

معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والے کو آخرت میں باز پرس کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑے گا اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اس کے خلاف قیامت کے دن مستغیث ہوں گے۔

”ألا من ظلم معاہدًا، أو انتقصہ، أو خلفہ فوق طاقتہ أو أخذ منہ شیئًا بغیر طیب نفس، فأنا حجیجہ یوم القیامة“

خبردار! جو شخص کسی معاہد پر ظلم کرے گا، یا اس کے حقوق میں کمی کرے گا، یا اس کی طاقت سے زیادہ اس پر بار ڈالے گا، یا اس سے کوئی چیزاس کی مرضی کے خلاف وصول کرے گا،اس کے خلاف قیامت کے دن میں خود مستغیث بنوں گا۔(۱۱)

(۱)         حضرت عمر کے سیاسی نظرئیے، ص: ۹۳ : ابو یحییٰ امام خان ، مطبوعہ گوشہٴ ادب چوک انارکلی لاہور

(۲)        اسلامی حکومت میں غیرمسلموں کے حقوق، ص: ۲۰

(۳)        ابوداؤد کتاب الاطعمة باب ما جاء فی اکل السباع

(۴)        اسلامی حکومت میں غیرمسلموں کے حقوق، ص: ۱۵

(۵)        نصب الرایة، ج:۲، ص: ۳۸۱

(۶)        اسلامی حکومت میں غیرمسلموں کے حقوق، ص: ۱۱

(۷)        اسلامی حکومت میں غیرمسلموں کے حقوق، ص: ۱۱

(۸)        بنیادی حقوق، ص: ۳۱۱

(۹)         اسلام کا اقتصادی نظام، ص: ۱۵۱

(۱۰)       اسلام کا اقتصادی نظام

(۱۱)        اسلامی حکومت میں غیرمسلموں کے حقوق، ص: ۶