https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 10 September 2021

قاضی ضیاء الاسلام صاحب رحمہ اللہ

 ڈھونڈو گے گرملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم


قاضی ضیاء الاسلام صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  اگرچہ باقاعدہ عالم یاقاضی نہ تھے تاہم علماء وقضاۃ کے گرویدہ خادم بلکہ مخدوم و مکرم تھے. وہ خاندانی طورپرقاضی تھے. اپنے گھرکانام بھی انہوں نے حویلی قاضیان رکھا. قاضی  صاحب نے  آج 10ستمبر 2021بروز جمعہ دس بجے دن میں وفات پائی. ان کی زندگی انتھک محنت اورجہد مسلسل سے عبارت تھی .علی گڑھ شہر میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی زیرنگرانی دارالقضاء کاقیام انہی کی محنت ولگن کانتیجہ تھا . اسلام کے لئے سینہ سپر ہوکر دن رات محنت ولگن ان کاخاصہ تھا جب کبھی کسی اجلاس کی نظامت کے فرائض سرانجام دیتے تب ان کی کڑھن اوراسلامی گرویدگی کاپتہ چلتاتھاوہ بات بات  پرسرعام اشک بار ہوتے اورخوابیدہ مجمع کو جگادیتے بلکہ رولادیتے تھے .ان کی موت نے ایک بہت بڑا خلاء چھوڑ دیاہے جس کا پرہونابظاہرمشکل ہے .علی گڑھ میں غیرمسلموں میں تحریک  دینی دعوت کے وہ سربراہ وسرخیل تھے.داعئ اسلام  حضرت مولانا کلیم صدیقی حفظہ اللہ کے جب بھی پروگرام ہوتے قاضی صاحب نظامت فرماتے تھے .ان کی سرپرستی میں دینی دعوت کاکام پوری آب وتاب اور خاموشی کے ساتھ  رواں دواں تھا کہ اچانک قاضی صاحب نے آنکھیں موندلیں. تھکاماندہ راتوں کاجگاہوایہ مسافر تھک ہارکرسوگیا. 

کون جینے کے لیے مرتا رہے

لو، سنبھالو اپنی دنیا ہم چلے

دس بجے دن میں اکثر مرحوم آرام فرماتے تھے کیونکہ رات تہجد اور رجوع الی اللہ میں  اپنے رب سے مناجات کرتے گذرتی تھی .لیکن آج انہوں نے ایک لمبی نیند لینے کافیصلہ کرلیا تاکہ قاضئ الحاجات کے دربار میں ہشاش بشاش اور فرحت وانبساط کے ساتھ حاضری ہو اور پروردگار کائنات اپنی فیاضی وسخاوت کی باران رحمت سے اس ضعیف وناتواں خادم دین مبین کوبھی شرابور فرماتے ہوئے خازن جنت کوحکم فرمائے 

بگوبخازن جنت کی خاک ایں درویش 

بہ تحفہ برسوئے فردوس عود مجمرکن 

جب قوی جواب دیدیتے ہیں چلناپھرنامشکل ہوتاہے ایسی عمرمیں بھی فکرآخرت اور دین کی محبت  ان میں جوانوں کی سی توانائی و مستعدی سائیکل پرسوار سردی گرمی کے احساس کے بغیرادھرسے ادھرلئے پھرتی تھی 

مرادر منزل جاناں چہ امن وعیش چوں ہردم 

جرس فریاد می دارد کہ بربندید محملہا 

,دین کی لگن میں انہیں نہ کپڑوں کی فکر نہ صحت کا خیال, بس ایک دھن تھی جومیلی سی شیروانی میں اس مرد خود آگاہ کوصبح وشام لئے پھرتی تھی .

اب اسے ڈھونڈوچراغ رخ زیبا لے کر 

سادگی وشرافت کے اس پیکر میں بلا کی بے باکی اور ذہانت بھی مضمرتھی . انگریزی بھگارنے والے مغرور  نابکار معترض اسلام کوبسااوقات جواب ترکی بترکی سے اس طرح نوازتے کہ وہ  اپناسامنھ لے کردم بخود رہ جاتا غرض خوبیوں کے اس پیکرکوآج سپرد خاک کردیاگیا 

 اور وہ زبان حا ل  سے یہ کہتے رہ گئے :

شکریہ اے قبر تک پہنچانے والو شکریہ

اب اکیلے ہی چلے جائیں گے اس منزل سے ہم

لیٹ کر قرآن مجید کی تلاوت کرنا

 بہتر تو ہے یہ کہ بیٹھ کر آداب کا لحاظ رکھتے ہوئے قرآن پاک کی تلاوت کرے لیکن اگر بیٹھ کر قرآن پاک کی تلاوت کرنے پر قدرت نہ ہو تو کوشش کرکے ٹیک لگا کر بیٹھ کر تلاوت کریں، لیکن اگر ٹیک لگا کر بیٹھنے میں بھی مشقت ہو تو لیٹ کر باوضو لباس اور ستر وغیرہ کا لحاظ رکھتے ہوئے اور دونوں پاؤں کو ملا کر لحاف یاچادر سے سر نکال کر قرآن پاک کی تلاوت کرسکتے ہیں۔

الفتاویٰ الہندیہ میں ہے:

رجل أراد أن يقرأ القرآن فينبغي أن يكون على أحسن أحواله يلبس صالح ثيابه ويتعمم ويستقبل القبلة؛ لأن تعظيم القرآن والفقه واجب، كذا في فتاوى قاضي خان ... لا بأس بقراءة القرآن إذا وضع جنبه على الأرض ولكن ينبغي أن يضم رجليه عند القراءة، كذا في المحيط. لا بأس بالقراءة مضطجعا إذا أخرج رأسه من اللحاف؛ لأنه يكون كاللبس وإلا فلا، كذا في القنية.

(کتاب الکراہیۃ، الباب الرابع فی الصلاۃ والتسبیح ورفع الصوت عند قراءۃ القرآن، ج: 5، ص: 316، ط: رشیدیہ)

قرآن مجید کو ہاتھ لگانے کے بغیر ازبر تلاوت کرنے کی صورت میں وضو کرنا شرط نہیں ہے

شب جمعہ یاجمعہ کے دن سورۂ کہف پڑھنے کی فضیلت

 شبِ جمعہ (جمعہ کی رات) اور جمعہ کے دن دونوں میں سورۂ  کہف پڑھنے کے فضائل احادیث میں وارد ہوئے ہیں، بعض روایات میں صرف جمعہ کی رات کا ذکر ہے اور بعض میں صرف جمعہ کے دن کا ذکر ہے، شارحینِ حدیث  نے لکھا ہے کہ ان تمام روایات میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ جن روایات میں صرف رات کا ذکر ہے ان سے مراد رات اپنے دن سمیت ہے اور جن روایات میں صرف دن کا ذکر ہے ان سے مراد دن اپنی گزشتہ رات سمیت ہے۔

’’سنن دارمی‘‘   کی روایت میں ہے:

"عن أبي سعيد الخدري قال: من قرأ سورة الكهف ليلة الجمعة أضاء له من النور فيما بينه وبين البيت العتيق".

ترجمہ: حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ جس شخص نے سورہٴ کہف جمعہ کی رات میں پڑھی اس کے لیے اس کی جگہ سے مکہ تک ایک نور روشن ہوگا۔ (2/546دارالکتاب العربی)

فيض القدير (6/ 198):
"مَنْ قَرَأَ سُورَةَ الْكَهْفِ فِي يَوْمِ الجُمُعَةِ أَضَاءَ لَهُ مِنَ النُّورِ مَا بَيْنَ الجُمُعَتَيْنِ". (ك هق) عن أبي سعيد".

(من قرأ سورة الكهف في يوم الجمعة أضاء له من النور ما بين الجمعتين) فيندب قراءتها يوم الجمعة وكذا ليلتها كما نص عليه الشافعي رضي الله عنه، قال الطيبي: وقوله: "أضاء له"، يجوز كونه لازمًا، وقوله: "ما بين الجمعتين" ظرف؛ فيكون إشراق ضوء النهار فيما بين الجمعتين بمنزلة إشراق النور نفسه مبالغةً، ويجوز كونه متعديًا، والظرف مفعول به، وعليهما فسر: {فلما أضاءت ما حوله} ... (ك) في التفسير من حديث نعيم بن هشام عن هشيم عن أبي هاشم عن أبي مجلز عن قيس بن عبادة عن أبي سعيد (هق عن أبي سعيد) الخدري قال الحاكم: صحيح، فردّه الذهبي، فقال: قلت: نعيم ذو مناكير، وقال ابن حجر في تخريج الأذكار: حديث حسن، قال: وهو أقوى ما ورد في سورة الكهف".

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جس نے جمعہ کے دن سورۃ الکہف پڑھی اس  کے لیے دوجمعوں کے درمیان نورروشن ہوجاتا ہے۔

فيض القدير (6/ 199):
"(من قرأ سورة الكهف يوم الجمعة أضاء له من النور ما بينه وبين البيت العتيق) قال الحافظ ابن حجر في أماليه: كذا وقع في روايات يوم الجمعة وفي روايات ليلة الجمعة ويجمع بأن المراد اليوم بليلته والليلة بيومها".

یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے سورہٴ کہف جمعہ کے دن پڑھی اس کے لیے اس کی جگہ سے مکہ تک ایک نور روشن ہوگا۔

’’فتاوی شامی‘‘  میں ہے:

"مطلب ما اختص به يوم الجمعة

(قوله: قراءة الكهف) أي يومها وليلتها، والأفضل في أولهما مبادرةً للخير وحذراً من الإهمال". (2/164دارالفکر

Thursday 9 September 2021

بینک سے سودی قرض لینا

سرکاری بینک سے تعلیمی لون لینے میں سود کی ادائیگی کرنی پڑے گی اور سودی لین دین شریعت میں موجب لعنت عمل ہے اس لئے سودی معاملے سے بچنا بھی اہم ہے، اگر بلا سودی قرض کہیں سے حاصل ہو سکتا ہو تو اس کی کوشش کی جاسکتی ہے۔


 صحیح مسلم  میں ہے:

"عَنْ جَابِرٍ، قَالَ:«لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اٰكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ»، وَقَالَ:«هُمْ سَوَاءٌ»".

(کتاب المساقات،3/1219، دار احیاء التراث ، بیروت)

ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سودی معاملہ لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے، اور ارشاد فرمایا: یہ سب (سود کے گناہ میں) برابر ہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: كل قرض جرّ نفعًا حرام) أي إذا كان مشروطًا كما علم مما نقله عن البحر وعن الخلاصة. وفي الذخيرة: وإن لم يكن النفع مشروطًا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به، ويأتي تمامه".

 (کتاب البیوع،فصل فی القرض، [مطلب كل قرض جر نفعا حرام]ج۵،ص۱۶۶،ط: سعید)

Wednesday 8 September 2021

اشراق اور چاشت کی نماز کاوقت

 اشراق کا وقت سورج طلوع ہونے کے تقریباً ۲۰/ منٹ بعد شروع ہوجاتا ہے اور نصف النہار تک رہتا ہے، مگر شروع میں پڑھنا افضل ہے اور چاشت کا وقت سورج خوب روشن ہوجانے (دس گیارہ بجے) کے بعد سے شروع ہوکر نصف النہار تک رہتا ہے۔

 قال العلامة سراج أحمد في شرح الترمذي لہ: إن المتعارف في أول النہار صلاتان الأولی بعد طلوع الشمس وارتفاعہا قدر رمحٍ أو رمحین․ والثانیة عند ارتفاع الشمس قدر رمح النہار إلی ما قبل الزوال ویقال لہا صلاة الضحی واسم الضحی في کثیر من الأحادیث شامل لکلیہما، وقد ورد في بعضہا النظر الإشراق أیضًا․ (إعلاء السنن: ۷/۳۰)

تہجد کی نماز

 نماز تہجد کا وقت، نماز عشاء کے بعد سے فجر کا وقت شروع ہونے سے پہلے تک ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص سونے سے پہلے بھی چند رکعتیں تہجد کی نیت سے پڑھ لے، تو تہجد ادا ہوجائے گی، البتہ سوکر اٹھنے کے بعد تہجد پڑھنا زیادہ افضل ہے کہ یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول مبارک تھا، طبرانی کی ایک روایت میں حضرت حجاج ابن عمرو کا قول نقل کیا گیا ہے کہ تہجد وہ نماز جس کو آدمی نیند کے بعد ادا کرے: إنما التہجد المرء یُصلي الصلاة بعد رقدة (کنز العمال) فقہاء نے لکھا ہے کہ جس شخص کا معمول آدھی رات سونے اور آدھی رات عبادت کرنے کا ہو، اس کے لیے افضل طریقہ یہ ہے کہ رات کے آخری حصہ میں نماز تہجد ادا کرے، مثلاً فجر کا وقت (صبح صادق) شروع ہونے سے گھنٹہ، پون گھنٹہ پہلے۔ اور جس کا معمول ایک تہائی عبادت کرنے اور دو تہائی سونے کا ہو، اس کے لیے بہتر ہے کہ ایک تہائی حصہ سونے کے بعد درمیانی حصہ میں نماز تہجد ادا کرے: لو جعلہ أثلاثًا فالأوسط أفضل ولو أنصافًا فالأخیر أفضل۔

اشراق, چاشت اوراوابین کی نماز

 اشراق کی نماز طلوع آفتاب کے تقریباً بارہ منٹ بعد کم از کم دو رکعت ہیں. جیسا کہ  حدیث شریف میں آتا ہے:

سنن الترمذي ت بشار (1/ 727):

"عن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من صلى الغداة في جماعة ثم قعد يذكر الله حتى تطلع الشمس، ثم صلى ركعتين كانت له كأجر حجة وعمرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: تامة تامة تامة".

یعنی جو شخص فجر کی نماز جماعت سے ادا کرے پھر اپنی جگہ بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا رہے یہاں تک کہ سورج طلوع ہوجائے، پھر اس کے بعد دو رکعت پڑھے تو  اس کو  کامل حج و عمرہ کا ثواب ملے گا۔

2۔ چاشت کی نماز کم از کم دو رکعت ہے اور زیادہ سے زیادہ بارہ رکعات ہیں جب کہ افضل اور اوسط آٹھ رکعات ہیں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 22):

"(و) ندب (أربع فصاعداً في الضحى) على الصحيح من بعد الطلوع إلى الزوال، ووقتها المختار بعد ربع النهار. وفي المنية: أقلها ركعتان وأكثرها اثني عشر، وأوسطها ثمان وهو أفضلها، كما في الذخائر الأشرفية؛ لثبوته بفعله وقوله عليه الصلاة والسلام".

3۔ مغرب کی نماز کے بعد اوابین کےنام سے جو نوافل پڑھی جاتی ہیں وہ چھ رکعات ہیں، مفتی بہ قول کے مطابق یہ چھ رکعات مغرب کے بعد کی دو رکعات سنتِ مؤکدہ  کے علاوہ ہیں۔ البتہ بعض فقہاء  فرماتے ہیں کہ سنتِ مؤکدہ کو ملا کر چھ رکعات ادا کرنے سے بھی یہ فضیلت حاصل ہوجائے گی

نماز کے مکروہ اوقات

 تین اوقات میں ہر قسم کی نماز ممنوع ہے خواہ فرض نماز ہو یا نفل، ادا نماز ہو یاقضا۔ ان تین اوقات میں پڑھی گئی نفل نماز کراہتِ تحریمی کے ساتھ اداہوجائے گی، اور فرض یا واجب نماز پڑھی تو اس کااعادہ لازم ہوگا(سوائے وقتی نمازِ عصر کے کہ اگر سورج غروب ہونے سے پہلے شروع کی اور اسی دوران سورج غروب ہوگیاتو کراہت کے ساتھ اداہوجائے گی اور اتنی تاخیر کرناگناہ ہے)۔

اوقات ممنوعہ درج ذیل ہیں:

1۔عین طلوعِ شمس سے لے کر سورج ایک نیزہ بلند ہونے تک۔

 2۔نصف  النہاریعنی استوائے شمس کے وقت ۔ جب سورج دوپہر کے وقت بالکل سر پر آجائے، یہ بہت ہی مختصر وقت ہے، تاہم  فقہاءِ کرام فرماتے ہیں کہ احتیاطاً اس سے پانچ منٹ پہلے اور پانچ منٹ بعد نماز نہ پڑھی جائے۔

 3۔ عصر کے بعد سورج زرد پڑجانے کے بعد سے لے کر سورج غروب ہوجانے تک۔ (سوائے اس دن کی عصر کی نماز)

مذکورہ اوقات کے علاوہ دو اوقات مزید ایسے ہیں جن میں نفل نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے:

(1) صبح  صادق سے طلوع آفتاب (یعنی نمازِ فجر کا وقت شروع ہونے سے لے کر اشراق کا وقت ہونے تک)

(2) عصر کی نماز ادا کرنے کے  بعد سے غروب تک۔ ان اوقات میں بھی نفل نماز پڑھنامکروہِ تحریمی ہے جب کہ فرائض کی قضا پڑھ سکتے ہیں۔(عمدۃ الفقہ،ص؛57،ط:زوار اکیڈمی)

ان اوقات میں نماز پڑھنے کی ممانعت کی اصل وجہ تو یہ ہے کہ احادیثِ مبارکہ میں ان اوقات میں نماز کی ادائیگی سے منع کیا گیا ہے، اور نفل کے لیے اضافی دو ممنوعہ اوقات کا ذکر بھی احادیثِ مبارکہ میں ہے، لہٰذا جب حدیث شریف میں ان اوقات میں نماز کی ممانعت ہے تو مسلمان کی شان یہی ہے کہ وہ ان اوقات میں نماز ادا نہ کرے، خواہ اس کی کوئی اور وجہ ہو یا نہ ہو، یا حکمت سمجھ آئے یا نہ آئے۔ تاہم مقاصدِ شریعت سے بحث کرنے والے محققین علماءِ کرام نے اَحکامِ شرع کی حکمتیں اور مصالح اور عقلی توجیہات بھی پیش کی ہیں، جن میں سے بعض احادیثِ مبارکہ میں صراحتاً مذکور ہیں، اور بعض کی طرف نصوص میں اشارہ موجود ہے، اور کچھ عقلِ سلیم کی روشنی میں سمجھ آتی ہیں، لیکن ایسی حکمتوں کی روشنی میں شریعت کے ثابت اَحکام میں تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔

مذکورہ ممنوعہ اوقاتِ نماز کی وجہ احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں یہ ہے کہ مشرکین ومجوس ان اوقات میں آفتاب کی پرستش کرتے تھے اور اس کو سجدہ کرتے تھے؛ چناں چہ ان کی مشابہت کی سے بچنےکے لیے اس سے منع کیا گیا۔ (حجۃ اللہ البالغہ 2/21، کتب خانہ رشیدیہ دہلی)

لیکن واضح رہے کہ اس حکمت کا اعتبار  تشریعِ اَحکام کے وقت کیا گیا، لہٰذا اسے دیکھ کر اِس دور میں کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ آج سورج کی پرستش کرنے والے مشرکین فلاں فلاں وقت بھی عبادت کرتے ہیں یا مذکورہ اوقات میں نہیں کرتے تو اب ان اوقات میں نماز کی اجازت دی جائے، اور جن اوقات میں کرتے ہوں ان میں منع کردیا جائے، اب شرعی منصوص اَحکام میں تبدیلی کا کسی کو حق نہیں ہے، خواہ وہ ایسی حکمت کی روشنی میں ہو جو منصوص ہو، کیوں کہ شریعت کے اَحکام مقرر ہوجانے کے بعد کسی کو ان میں تبدیلی کا حق نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 370، 374):
"(وكره) تحريماً، وكل ما لايجوز مكروه (صلاة) مطلقاً (ولو) قضاءً أو واجبةً أو نفلاً أو (على جنازة وسجدة تلاوة وسهو) لا شكر قنية (مع شروق) ... (وسجدة تلاوة، وصلاة جنازة تليت) الآية (في كامل وحضرت) الجنازة (قبل) لوجوبه كاملا فلا يتأدى ناقصا، فلو وجبتا فيها لم يكره فعلهما: أي تحريما. وفي التحفة: الأفضل أن لاتؤخر الجنازة".

الفتاوى الهندية (1/ 52):
"ثلاث ساعات لاتجوز فيها المكتوبة ولا صلاة الجنازة ولا سجدة التلاوة إذا طلعت الشمس حتى ترتفع وعند الانتصاف إلى أن تزول وعند احمرارها إلى أن يغيب إلا عصر يومه ذلك فإنه يجوز أداؤه عند الغروب. هكذا في فتاوى قاضي خان قال الشيخ الإمام أبو بكر محمد بن الفضل ما دام الإنسان يقدر على النظر إلى قرص الشمس فهي في الطلوع. كذا في الخلاصة. هذا إذا وجبت صلاة الجنازة وسجدة التلاوة في وقت مباح وأخرتا إلى هذا الوقت فإنه لا يجوز قطعا أما لو وجبتا في هذا الوقت وأديتا فيه جاز؛ لأنها أديت ناقصة كما وجبت. كذا في السراج الوهاج وهكذا في الكافي والتبيين لكن الأفضل في سجدة التلاوة تأخيرها وفي صلاة الجنازة التأخير مكروه. هكذا في التبيين ولايجوز فيها قضاء الفرائض والواجبات الفائتة عن أوقاتها كالوتر. هكذا في المستصفى والكافي".
الفتاوى الهندية (1/ 52):
"تسعة أوقات يكره فيها النوافل وما في معناها لا الفرائض. هكذا في النهاية والكفاية فيجوز فيها قضاء الفائتة وصلاة الجنازة وسجدة التلاوة. كذا في فتاوى قاضي خان.
منها ما بعد طلوع الفجر قبل صلاة الفجر.... ومنها ما بعد صلاة الفجر قبل طلوع الشمس. هكذا في النهاية والكفاية۔۔۔ ومنها ما بعد صلاة العصر قبل التغير. هكذا في النهاية والكفاية".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 375):
"(لا) يكره (قضاء فائتة و) لو وترا أو (سجدة تلاوة وصلاة جنازة وكذا) الحكم من كراهة نفل وواجب لغيره لا فرض وواجب لعينه (بعد طلوع فجر سوى سنته) لشغل الوقت به، (قوله: أو سجدة تلاوة) لوجوبها بإيجابه تعالى لا بفعل العبد كما علمته فلم تكن في معنى النفل"

سب سے افضل دعاء

 

سب سے افضل دعا عافیت کی طلب ہے

سننِ ابن ماجہ میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ :ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ: ’’یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَيُّ الدُّعَائِ أَفْضَلُ؟‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’اے اللہ کے رسول! کون سی دعا افضل ہے؟‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ سَلْ رَبَّکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِيْ الدُّنْیَا وَالْأٰخِرَۃِ‘‘ اپنے رب سے دنیا وآخرت میں عفو اور عافیت کا سوال کرو، پھر دوسرے روز بھی یہی سوال وجواب ہوا، پھر تیسرے دن یہ شخص حاضر ہوا اور کہنے لگا: ’’ یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! أَيُّ الدُّعَائِ أَفْضَلُ؟‘‘۔۔۔۔۔ ’’اے اللہ کے نبی! کون سی دعا افضل ہے؟‘‘ ۔۔۔۔۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سَلْ رَبَّکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِيْ الدُّنْیَا وَالْأٰخِرَۃِ فَإِذَا أُعْطِیْتَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِيْ الدُّنْیَا وَالْأٰخِرَۃِ فَقَدْ أَفْلَحْتَ۔‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’اپنے رب سے دنیا وآخرت میں عفو اور عافیت کا سوال کرو، جب تمہیں دنیا وآخرت میں عفو اور عافیت مل جائے تو تحقیق تم کامیاب ہوگئے۔‘‘
مشکوٰۃ شریف میں بحوالہ ترمذی یہ حدیث مذکور ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مَنْ فُتِحَ لَہٗ مِنْکُمْ بَابُ الدُّعَائِ فُتِحَتْ لَہٗ أَبْوَابُ الرَّحْمَۃِ وَمَا سُئِلَ اللّٰہُ شَیْئًا یَعْنِيْ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِنْ أَنْ یُسْأَلَ الْعَافِیَۃَ۔‘‘ یعنی ’’تم میں سے جس کے لیے دعا کے دروازے کھولے گئے، اس کے لیے رحمت کے دروازے کھول دیئے گئے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس سے عافیت مانگنا ہر چیز مانگنے سے زیادہ محبوب ہے۔‘‘
مسند احمد بن حنبل میں امیرالمؤمنین سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے ایک طویل روایت میں یہ منقول ہے، ارشاد فرماتے ہیں کہ :میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ’’لَمْ تُؤْتُوْا شَیْئًا بَعْدَ کَلِمَۃِ الْإِخْلَاصِ مِثْلَ الْعَافِیَۃِ فَسَلُوْا اللّٰہَ الْعَافِیَۃَ۔‘‘ ۔۔۔۔۔’’کہ تمہیں کلمۂ اخلاص (کلمۂ شہادت) کے بعد عافیت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں دی گئی، لہٰذا تم اللہ تعالیٰ سے عافیت کا سوال کیا کرو۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی بڑی کثرت سے رب العالمین سے عافیت کی دعا مانگا کرتے تھے، احادیثِ مبارکہ میں مختلف الفاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عافیت کی دعائیں مانگنا منقول ہے، اس دعا کو آپ ہمیشہ اپنے معمولات میں شامل فرماتے تھے،چنانچہ ابوداؤد شریف اور دیگرحدیث کی کتابوں میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے یہ روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صبح وشام نہایت پابندی سے ان الفاظ کے ذریعہ دعا مانگتے:’’اَللّٰہُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُکَ الْعَافِیَۃَ فِيْ الدُّنْیَا وَالْأٰخِرَۃِ اَللّٰہُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِيْ دِیْنِيْ وَدُنْیَايَ وَأَہْلِيْ وَمَالِيْ اَللّٰہُمَّ اسْتُرْ عَوْرَتِيْ۔‘‘ بہتر تو یہی ہے کہ یہ پوری دعا یاد کی جائے اور صبح و شام اس کے پڑھنے کو معمول بنایا جائے، تاہم مکمل یاد نہ ہوتو کم ازکم ’’ اللّٰہُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُکَ الْعَافِیَۃَ فِيْ الدُّنْیَا وَالْأٰخِرَۃِ۔‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’اے اللہ! میں آپ سے دنیاوآخرت کی عافیت طلب کرتا ہوں۔‘‘ نہایت ہی مختصر سے الفاظ ہیں، ان الفاظ کے ساتھ اس دعا کو یاد کرلینا چاہیے، اور اگر عربی الفاظ یاد نہ ہوں تو اُردو میں یہ دعا مانگ لیا کریں۔ یہ دعااللہ رب العزت کو بڑی پسند ہے، بندے اپنے پروردگار سے عافیت مانگتے رہیں، اللہ اس مانگنے کو سب سے زیادہ پسند فرماتاہے ۔

کیااونٹ کاگوشت کھانے سے وضوٹوٹ جاتا ہے

 اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے، یہی جمہور صحابہ اور جمہور  فقہاء  بشمول ائمہ ثلاثہ امام ابو حنیفہ، امام مالک اور امام شافعی  رحمہم اللہ کا مسلک ہے، اور جس حدیث میں اونٹ کا گوشت کھا کر وضو کرنے کا ذکر ہے، اس سے مراد لغوی وضو ہے، یعنی منہ ہاتھ دھونا، کیوں کہ اونٹ کے گوشت میں چکناہٹ اور ایک قسم کی بو ہوتی ہے، جب کہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری عمل پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد وضو  نہ فرمانے کاتھا، اور  پکی ہوئی چیز میں اونٹ کا گوشت بھی داخل ہے۔ لہذا اس سے معلوم ہوا اونٹ کا گوشت کھاکر وضو کرنے والی روایت سے یا لغوی معنی ( ہاتھ اور منہ دھولینا) مراد ہے، یا یہ حدیث حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی حدیث  سے منسوخ ہے،  کیوں کہ اس میں آپ ﷺ کا آخری عمل بتایا گیا ہے۔

 ’’معارف السنن شرح سنن الترمذی‘‘  میں ہے:

"وقال جمهور الفقهاء مالك و أبوحنيفة و الشافعي و غيرهم: لاينقض الوضوء بحال، و المراد بالوضوء غسل اليد و الفم عندهم، و ذلك؛ لأن للحم الإبل دسماً و زهومةً و زفراً بخلاف لحم الغنم، و من أجل ذلك جاء ت الشريعة بالفرق بينهما". ( باب الوضوء من لحم الابل، ١/ ٣٥٣، ط: مجلس الدعوة والتحقيق الإسلامي)

بذل المجهود في حل سنن أبي داود (2 / 67):
"وأما القائلون بعدم النقض فاحتجوا بحديث جابر - رضي الله عنه - الذي أخرجه الأربعة (1) أنه قال: "كان آخر الأمرين من رسول الله صلى الله عليه وسلم ترك الوضوء مما مست النار" أي تحقق الأمران: الوضوء والترك، وكان الترك آخر الأمرين، فارتفع الوضوء أي وجوبه.
ولهذا قال الترمذي: وكأن هذا الحديث ناسخ للحديث الأول حديث الوضوء مما مسّت النار، ولما كانت لحوم الإبل داخلة فيما مسّت النار، وكانت فردًا من أفراده، ونُسِخ وجوبُ الوضوء عنه بجميع أفراده، استلزم نسخ الوجوب عن هذا الفرد أيضًا.
فما قال النووي: لكن هذا الحديث عام، وحديث الوضوء من لحوم الإبل خاص، مندفع, لأنا لانسلم كونه منسوخًا بحيث إنه خاص، بل لأنه فرد من أفراد العام الذي نسخ، فإذا نسخ العام وهو وجوب الوضوء مما مست النار نسخ جميع أفرادها، ومن أفرادها أكل لحوم الإبِل التي مسته النار، ولو سُلِّمَ كونها خاصًّا، فالعام والخاص عندنا قطعيان متساويان، لا يقدم أحدهما على الآخر، فعلى هذا العام ينسخ الخاص أيضًا"

Tuesday 7 September 2021

مدینہ منورہ

 مدینہ : مدینہ عربی لفظ ہے جس کا لفظی مطلب شہر ہے۔

طابہ: مدینہ منورہ کو طابہ بھی کہا جاتا تھا۔ طابہ اور طیب ہم معنی الفاظ ہیں ،، لفظی معنی پاک کے ہے۔ ایک حدیث میں بھی ذکر ملتا ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا:"اللہ تعالیٰ نے اس شہر کا نام طابہ رکھا ہے یثرب:یثرب مدینہ کا قدیم نام ہے۔ رسولﷺ نے شہر کا نام یثرب سے تبدیل کر کے مدینہ رکھ دیا۔ تبدیلی کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ لغت میں یثرب کے معنی "ملامت، فساد اور خرابی" ہیں۔مدینۃ النبی:مدینۃ النبوی کا مطلب نبیﷺ کا شہر ہے۔ کافی عرصے تک یہ لفظ لوگ اس شہر کے لیے استعمال کرتے رہے۔ 
مدینہ المنورہ: لفظ منورہ کے معنی "روشن ہوا،پُر نور ہوا یا نور سے سرشار" ہیں۔ رسول ﷺ کی آمد کے بعد لوگوں نے اسے مدینہ منورہ (یعنی وہ شہر جو منور ہوا ہے) کا نام دیا۔

امام مہدی کے اوصاف

 امام مہدی کے ظہور کو قرب قیامت کی علامات میں سے بیان کیا گیا ہے، امام مہدی کے نام، نسب، ظہور کا زمانہ اور خصوصی علامات احادیث متواترہ سے ثابت ہیں، ان کے ظہور کا وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول من السماء کے زمانہ سے کچھ پہلے ہوگا، ان کا نام محمد بن عبد اللہ اور ان کی والدہ کا نام آمنہ ہوگا، مدینہ منورہ میں پیدا ہوں گے پھر مکہ تشریف لائیں گے تو لوگ ان کو پہچان کر مقام ابراہیم اور حجر اسود کے درمیان بیعت کریں گے اور اپنا بادشاہ بنائیں گے۔ اس وقت غیب سے یہ آواز آئے گی: ھذا خلیفة اللہ المھدي فاسمعوا لہ وأطیعوا امام مہدی خلیفہ ہونے کے بعد روئے زمین کو عمل اور انصاف سے بھردیں گے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام انھیں کے زمانہ میں نزول فرمائیں گے اور دجال کو قتل کریں گے۔ حدیث میں آیا ہے کہ اصحاب کہف حضرت مہدی کے مددگار ہوں گے۔

امام مہدی ملک شام جاکر دجال کے لشکر سے جہاد و قتال کریں گے اس وقت دجال کے ساتھ ستر ہزار یہودیوں کا لشکر ہوگا۔ یہ سب علامات اوراس کے علاوہ اور بھی علامات احادیث متواترہ سے ثابت ہیںعن عبد اللہ، عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: لو لم یبق من الدنیا إلا یوم قال زائدة لطول اللہ ذلک الیوم حتی یبعث رجلا منی أو من أہل بیتی یواطئ اسمہ اسمی، واسم أبیہ اسم أبی․ (أبوداوٴد شریف: ۵۸۸، ط: اتحاد دیوبند) عن عبد اللہ بن مسعود رضي اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا تذہب الدنیا حتی یملک العرب رجل من أہلأ بیتي یواطئ اسمہ اسمي واسم أبیہ اسم أبي یملأ الأرض قسطا وعدلا کما ملئت ظلما وجورًا․ (حاشیة أبو داوٴد شریف: ۵۸۸، ط: اتحاد دیوبند)


Monday 6 September 2021

توبہ کاطریقہ

 توبہ کا  طریقہ یہ ہے کہ گناہوں پر صدقِ دل سے ندامت ہو، فوراً گناہوں والے اعمال ترک کردیں، توبہ کی نیت  سے دو رکعت نفل پڑھ کر اللہ تعالی سے معافی مانگیں اور آئندہ گناہوں سے بچنے کا پختہ ارادہ کریں۔ اور اگرشریعت نے اس گناہ کے لیے کوئی کفارہ متعین کیا ہو  تو کفارہ اداکریں،اور اگر گناہ کا تعلق کسی آدمی کے حق سے ہے تووہ حق ادا کریں یااس سے معاف کرالیں۔

"" عن عبد الله رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلی الله علیه وسلم : ’’ التوبة من الذنب أن یتوب منه ثم لا یعود فیه‘‘۔"" (المسند للإمام أحمد بن حنبل:۴/۱۹۸، رقم الحدیث:۴۲۶۴)
وفي شرح مسلم للنووي: قال أصحابنا وغيرهم من العلماء: للتوبة ثلاثة شروط: أن يقلع عن المعصية، وأن يندم فعلها، وأن يعزم عزماً جازماً أن لايعود إلى مثلها أبداً، فإن كانت المعصية متعلق بآدمي، فلها شرط رابع، وهو: رد الظلامة إلى صاحبها، أو تحصيل البراء ة منه"".( ۸/۲۹۳، باب في استحباب الاستغفار والاستکثار فیه، مرقاة المفاتیح:۵/۲۴۱، باب الاستغفار والتوبة)