https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 20 November 2021

تحقیق حدیث من سب علیا فقد سبنی

 

صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کا مقام اور ان سے محبت یا بغض یاعداوت رکھنے والوں کا مقام اور حکم خود حضور صلّی اللہ علیہ وسلّم نے بیان فرما رکھا ھے،اس کی روشنی میں ایسے لوگوں کا حکم بالکل واضح ھے۔ چنانچہ آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم کے اس سلسلے میں چندارشادات ملاحظہ ھوں: 1: میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو،میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو،ان کو میرے بعدہدف اورنشانہ ملامت مت بنانا،،یادرکھو جو شخص ان کودوست رکھتا تو وہ میری وجہ سے ان کو دوست رکھتا ھے اور جو ان سے دشمنی رکھتا ھے تو وہ مجھ سے دشمنی رکھنے کے سبب ان کو دشمن رکھتا ھے، اورجس شخص نے ان کو اذیت پہنچائی اس نےگویا مجھے اذیت پہنچائی اور جس نے مجھے اذیت پہنچائی اس نے گویا خدا کو اذیت پہنچائی،اور جس نے خدا کو اذیت پہنچائی تو وہ دن دور نہیں جب خدا اس کو پکڑے گا۔ جامع الترمذی،ابواب المناقب، باب فی من سبّ اصحاب النبیّ صلی اللہ علیہ وسلّم، 2225، ط:قدیمی کراچی 2: تم میرے صحابہ کو برا نہ کھو، حقیقت یہ ھے کہ تم میں سے کوئی شخص احدپہاڑ کے برابر سونا اللہ کی راہ میں خرچ کرے تو اس کا ثواب میرے صحابہ کے ایک مدیاآدھے مد کے ثواب کے برابربھی نہیں پہنچ سکتا۔ صحیح مسلم، باب تحریم سبّ الصحابہ، 2310، ط: قدیمی کراچی 3: میرے اصحاب کی تعظیم وتکریم کرو کیونکہ وہ تمھارے برگزیدہ اور بزرگ ترین لوگ ہیں۔ مشکوۃ المصابیح بحوالہ نسائی، باب مناقب الصحابہ، الفصل الثانی، ص: 554، ط: قدیمی کراچی اس کے علاوہاور بھی متعدّداحادیث سے یہ بات واضح ھوتی ھے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو گالی دینا، براکہنا یا ان پر تبرّا کرنا حرام اور باعثِ فسق وگمراہی ہے، نیز اس سے ایمان ضائع ہونے کا بھی اندیشہ ہے۔ فتاوی شامی، 4236، 


جاء الحديث في كتابين :

((السنن الكبرى - النسائي ج 5 ص 133 : 
( 8476 ) أخبرنا العباس بن محمد قال حدثنا يحيى بن أبي بكير قال حدثنا إسرائيل عن أبي إسحاق عن أبي عبد الله الجدلي قال دخلت على أم سلمة فقال تأيسب رسول الله صلى الله عليه وسلم فيكم فقلت سبحان الله أو معاذ الله قالت سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول من سب عليا فقد سبني 
.))

(()الجامع الصغير - جلال الدين السيوطي ج 2 ص 608 : 8736 من سب عليا فقد سبني ، ومن سبني فقد سب الله))

فهو حديث ضعيف قد ضعفه الشيخ المحدث / محمد ناصر الدين الالباني – رحمه الله – في ضعيف الجامع انظر ( حديث رقم 5618 ) .

ومدار الحديث على (أبي نا يحيى بن أبي بكير نا إسرائيل عن أبي إسحاق عن أبي عبد الله الجدلي )

والآن فسننظر في حال رجال هذا الإسناد ..

فى الحديث :

1- ابو عبد الله الجدلي :
قال الحافظ فى "تهذيب التهذيب" 12/148 : 
(( قال ابن سعد فى الطبقة الأولى من أهل الكوفة : اسمه عبد بن عبد بن عبد الله ابن أبى العمر بن حبيب بن عائذ بن مالك بن واثلة بن عمرو بن رماح بن يشكر بن عداون بن عمرو بن قيس عيلان بن مضر ، يستضعف فى حديثه. و كان شديد التشيع ،))

أذن هو شديد التشيع فلا نقبل حديثة لانه روى في بدعته حديثاً لم ينقل عن غيره ..
وايضاً كان العلماء يستضعفون حديثه ..


2-ابو اسحاق السبيعي :

قال الحافظ فى "تهذيب التهذيب" 8/65 :
(( قال ابن حبان فى كتاب " الثقات " : كان مدلسا . و كذا ذكره فى المدلسين حسين الكرابيسى ، و أبو جعفر الطبرى .
و قال أبو إسحاق الجوزجانى : كان قوم من أهل الكوفة لا تحمد مذاهبهم ـ يعنى :التشيع ـ هم رؤوس محدثى الكوفة
و حدثنا إسحاق ، حدثنا جرير ، عن معن قال : أفسد حديث أهل الكوفة الأعمش ،
و أبو إسحاق ـ يعنى للتدليس ـ .))

أّن هو جمع بين التدليس والتشيع بل كان من رؤوس التشيع فلا نقبل حديثه .

3- اسرائيل بن يونس :

(( و قال يعقوب بن شيبة : صالح الحديث . و فى حديثه لين . 
و قال فى موضع آخر : ثقة صدوق ، و ليس بالقوى فى الحديث ، و لا بالساقط .)) انظر لترجمه في تهذيب الكمال 

قال الحافظ فى "تهذيب التهذيب" 1/263 :
و قال محمد بن أحمد بن البراء عن على ابن المدينى : إسرائيل ضعيف .
و أطلق ابن حزم ضعف إسرائيل ، و رد به أحاديث من حديثه فما صنع شيئا .
و قال عثمان بن أبى شيبة عن عبد الرحمن بن مهدى : إسرائيل لص يسرق الحديث .))
أذن هو ضعيف الحديث ويكفى انه لص للحديث ..\


وللعلم ان من ذكرت من العلماء ممن نقلوا هذا الحديث فانهم في كتبهم لا يلتزموا الصحة بل يذكروا في احاديثهم الغث والسمين .. الصحيح والضعيف ..

ولا حجة في ذكرهم للحديث ..

معنوی اعتبار سے یہ حدیث صحیح ہے. اگرچہ سند میں ضعف ہے. حاکم وذہبی وغیرہ نے اسے صحیح کہا ہے اہل سنت والجماعت کے نزدیک یہ صحیح  اور قابل استدلال ہے .یہی اہل سنت والجماعت کا صحابہ کرام کے بارے میں موقف ہے. 





Friday 19 November 2021

صلاۃ التسبیح کی اہمیت, فضیلت اورطریقہ

 صلاۃ التسبیح'  بڑی اہماور عظیم اجر و ثواب کی حامل نفل نماز ہے۔ آپ ﷺنے حضرت عباس  اور حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہما  کو یہ نماز بڑی تاکید کے بعد بطورِ تحفہ سکھائی تھی۔  چنانچہحضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک دن اپنے چچا حضرت عباس بن عبد المطلب سے فرمایا: اے عباس! اے میرے محترم چچا! کیا میں آپ کی خدمت میں ایک گراں قدر عطیہ اور ایک قیمتی تحفہ پیش کروں؟ کیا میں آپ کو خاص بات بتاؤں؟ کیا میں آپ کے دس کام اور آپ کی دس خدمتیں کروں (یعنی آپ کو ایک ایسا عمل بتاؤں جس سے آپ کو دس عظیم الشان منفعتیں حاصل ہوں، وہ ایسا عمل ہے کہ) جب آپ اس کو کریں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کے سارے گناہ معاف فرما دے گا، اگلے بھی اور پچھلے بھی،  پرانے بھی اور نئے بھی، بھول چوک سے ہونے والے بھی اور دانستہ ہونے والے بھی، صغیرہ بھی اور کبیرہ بھی،  ڈھکے چھپے بھی، اور اعلانیہ ہونے والے بھی، (وہ عمل 'صلاۃ التسبیح 'ہے) (میرے چچا) اگر آپ سے ہو سکے تو روزانہ یہ نماز پڑھا کریں اور اگر روزانہ نہ پڑھ سکیں تو ہر جمعہ کے دن پڑھ لیا کریں، اور اگر آپ یہ بھی نہ کر سکیں تو سال میں ایک دفعہ پڑھ لیا کریں اور اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو کم از کم زندگی میں ایک بار ہی پڑھ لیں۔ [ابوداؤد و ابن ماجہ]

اِس لیے سال بھر وقتاً فوقتاً اِس کو پڑھنے اور پڑھتے رہنے کی کوشش کرنی چاہیے ، اور رمضان المُبارک میں اور دیگر  مُبارک راتوں اور دنوں جیسے شبِ براءت یا شبِ قدر یا جمعہ کے دن میں اِس کو اور بھی زیادہ اہتمام سے پڑھنا چاہیے ، اور یہ کوئی مشکل نہیں،بس دل میں نیکی کے حصول کا شوق اور اللہ تعالیٰ کی محبت ہونی چاہیے، پھر خود ہی مشقت برداشت کرنا آسان ہوجاتاہے ۔

صلاۃ التسبیح کے فضائل مندرجہ ذیل ہیں:

پہلی فضیلت :'صلاۃ التسبیح' سے دس قسم کے گناہوں کا معاف ہونا:

یہ وہ نماز ہے جس کے پڑھنے سے دس قسم کے گناہ معاف ہوتے ہیں :
(1)اگلے گناہ ۔ (2)پچھلے گناہ ۔ (3)پُرانے گناہ ۔(4)نئے گناہ ۔ (5)غلطی سے کیے ہوئے گناہ ۔(6)جان کر کیے ہوئے گناہ ۔ (7)چھپ کر کیے ہوئے گناہ۔(8)کھلم کھلا کیے ہوئے گناہ۔(9)چھوٹے گناہ ۔(10)بڑے گناہ ۔(ابوداؤد:1297)

دوسری فضیلت : صلاۃ التسبیح سے بکثرت گناہوں کا معاف ہونا:

صلاۃ التسبیح کی برکت سے اللہ تعالیٰ بندوں کے بکثرت گناہ معاف کرتے ہیں ، احادیث طیّبہ میں اِس کثرت کی کئی مثالیں ذکر کی گئی ہیں:
(1)کل اِنسانیت کی تعداد سے بھی زیادہ گناہ ہوں تو مغفرت ہوجائے گی ۔ (ابوداؤد:1298)
(2)ریت کی تعداد سے زیادہ بھی گناہ ہوں تو معاف ہوجائیں گے۔ (ابن ماجہ: 1386)
(3)سمندر کی جھاگ سے بھی زیادہ گناہ ہوں تو معاف ہوجائیں گے۔ (طبرانی کبیر:987)
(4)ستاروں کی تعداد سے زیادہ گناہ ہوں تو معاف ہوجائیں گے۔(مصنف عبد الرزاق:5004)
(5)قطروں کی تعداد سےزیادہ گناہ ہوں تو معاف ہوجائیں گے۔(مصنف عبد الرزاق:5004)

(6)دنیا کے کل ایام سے زیادہ گناہ ہوں تو معاف ہوجائیں گے۔(مصنف عبد الرزاق:5004)
تیسری فضیلت : ایک بہترین تحفہ ، بخشش اور خوشخبری:
نبی کریمﷺنے اپنے چچا حضرت عباس ﷜کو جب یہ نماز  تلقین فرمائی تو اُنہیں اِس نماز کی تاکید بھی فرمائی اور اِس نماز کو تحفہ ، بخشش اور خوش خبری قرار دیا۔ (ابوداؤد:1297—1298)
چوتھی فضیلت : 300 مرتبہ تیسرا کلمہ پڑھنے کی سعادت:
'صلاۃ التسبیح'  کی ایک بڑی فضیلت یہ ہے کہ اِسے اداء کرتے ہوئے بندے کو تین سو مرتبہ تیسرے کلمہ  (سُبْحَانَ اللّٰهِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ وَلَآ اِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَاللّٰهُ أَکْبَرُ) کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا پر مشتمل بہترین کلمہ پڑھنے کی سعادت حاصل ہوتی ہے ، اور تیسرا کلمہ بذاتِ خود ایک انتہائی بابرکت اورعظیم الشان اجر و ثواب کا حامل کلمہ ہے، جن کا خلاصہ ملاحظہ کیجیے:
(1)مذکورہ کلمہ ایک مرتبہ پڑھنے پر جنت میں درخت لگ جاتا ہے۔(مستدرکِ حاکم:1887)
(2)یہ کلمہ اللہ تعالی کے نزدیک سب سے محبوب کلمہ ہے۔(مسلم:2137)
(3)جنت ایک چٹیل میدان ہے اور مذکورہ کلمہ جنّت کے پودے ہیں ۔(ترمذی:3462)
(4)اس کلمے کے اندر  پائے جانے والے ہر ایک کلمہ کا ثواب اُحد پہاڑ سے زیادہ ہے۔(طبرانی کبیر:10604)
(5)اس کلمے کے پڑھنے پر ہر حرف کے بدلہ دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔(طبرانی اوسط:6491)
(6)اس کلمے کا وِرد جہنم کی آگ سے بچنے کے لیے بہترین ڈھال ہے۔(طبرانی اوسط:4027)
(7)مذکورہکلمہ پڑھنے والے کے لیے فرشتے اِستغفار(دعائے مغفرت) کرتے ہیں۔(مستدرکِ حاکم:3589)

(8)اس کلمے کا کثرت سے وِرد کرنے والا افضل ترین مؤمن ہے۔(سنن کبریٰ نسائی:10606)
(9)اس کلمے کا پڑھنا گناہوں کی مغفرت اور بخشش کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔(ترمذی:3533)
(10)اس کلمے کا ہر کلمہ صدقہ کرنے کے برابر ثواب رکھتا ہے۔(مسلم:720)
(11)یہ کلمہ میزانِ عمل میں بہت بھاری ثابت ہونے والا کلمہ ہے۔(صحیح ابن حبان:833)
(12)یہ کلمہ قرآن کریم پڑھنے سے عاجز شخص کے لیے بہترین بدل ہے۔(ابوداؤد:832)

'صلاۃ التسبیح' کے بارے میں اَسلاف کے چند اقوال: 
(1)……حضرت عبد العزیز بن ابی روّاد﷫جو حضرت عبد اللہ بن مُبارک﷫جیسے عظیم محدّث کے بھی استاذ ہیں،وہ فرماتے ہیں :جس کا جنت میں جانے کا ارادہ ہو اُس کے لیے ضروری ہے کہ صلاۃ التسبیح کو مضبوطی سے پکڑے۔
(2)……حضرت ابو عثمان حیری ﷫ جوکہ ایک بڑے زاہد ہیں ، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے مصیبتوں اور غموں کے ازالے کے لیے صلاۃ التسبیح جیسی کوئی چیز نہیں دیکھی ۔
(3)……علّامہ تقی الدین سبکی ﷫فرماتے ہیں:جوشخص اِس نمازکی فضیلت و اہمیت کو سُن کر بھی غفلت اختیار کرے وہ دین کے بارے میں سستی کرنے والا ہے ، صلحاء کے کاموں سے دور ہے، اس کو پکا(دین میں چست) آدمی نہ سمجھنا چاہیے۔(فضائلِ ذکر ، شیخ الحدیث مولانا زکریا)

امام حاکم رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس حدیث کے صحیح ہونے پر یہ دلیل ہے کہ تبع تابعین کے زمانہ سے ہمارے زمانہ تک مقتدا حضرات اس پر مداومت کرتے اور لوگوں کو تعلیم دیتے رہے ہیں، جن میں عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ تعالیٰ بھی ہیں۔ یہ چار رکعات والی نماز ہے جس میں تین سو مرتبہ تسبیحات پڑھی جاتی ہیں۔

صلاۃ التسبیح پڑھنے کا طریقہ :
1۔.. نیت:چار رکعت صلاۃ التسبیح کی نماز پڑھ رہا ہوں’’الله أکبر‘‘پھر ہاتھ ناف کے نیچے باندھ لے اور حسب معمول ثناء پڑھے ، ثنا یہ ہے:
’’سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالٰى جَدُّكَ، وَلَا إِلٰهِ غَيْرُكَ‘‘
پھر   أَعُوْذُ باللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ  اور  بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِپڑھ کر سورہ فاتحہ اور کوئی سورت پڑھے، پھر پندرہ مرتبہ یہ تسبیح پڑھے:
’’سُبْحَانَ اللّٰهِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ وَلَآ اِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَاللّٰهُ أَکْبَرُ‘‘
2...رکوع میں جانے کے بعد حسبِ معمول تین مرتبہ ’’ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ‘‘پڑھے، پھر دس مرتبہ مذکورہ بالا تسبیح پڑھے، اس کے بعد رکوع سے اٹھے۔
3...رکوع سےاٹھتے ہوئے پہلے حسب معمول ’’سَمِعَ اللّٰهُ لِمَنْ حَمِدَهٗ  ‘‘کہے اور کھڑا ہو کر ’’ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ‘‘کہے ، پھرکھڑے کھڑے دس مرتبہ یہی تسبیح پڑھے۔
4... پھر ’’ اَللّٰهُ أَکْبَرُ‘‘ کہتے ہوئے سجدے میں جائے اور حسب معمول ’’ سُبْحَانَ رَبِّیْ الْأَعْلیٰ‘‘تین مرتبہ پڑھے، پھر سجدے میں دس مرتبہ یہی تسبیح پڑھے، اس کے بعد ’’ اَللّٰهُ أَکْبَرُ‘‘ کہہ کر سجدے سے اٹھے۔
5... سجدے سے اٹھ کر بیٹھے، اور بیٹھے بیٹھے دس مرتبہ یہی تسبیح پڑھے، پھر ’’ اَللّٰهُ أَکْبَرُ‘‘  کہہ کر دوسرے سجدے میں جائے۔
6...دوسرے سجدے میں جا کر حسب معمول پہلے ’’ سُبْحَانَ رَبِّیْ الْأَعْلیٰ‘‘  تین مرتبہ پڑھے، پھر سجدے میں دس مرتبہ یہی تسبیح پڑھے۔
7... دوسرے سجدے کے بعد بیٹھ کرمذکورہ بالا تسبیح دس مرتبہ پڑھے، پھر دوسری رکعت کے لیے کھڑا ہو جائے۔
اس طرح ایک رکعت میں پچھتر(۷۵)مرتبہ یہ تسبیحات پڑھی گئیں، اسی طرح باقی تین رکعتیں بھی پڑھ لے۔یوں چار رکعتوں میں کل تین سو تسبیحات ہو جائیں گی، دوسری اور چوتھی رکعت کے قعدے میں یہ تسبیحات التحیات پڑھنے کے بعد پڑھے۔
دوسرا طریقہ:......حضرت عبد اللہ بن مبار ک سے ایک اور طریقہ بھی ثابت ہے،وہ طریقہ یہ ہے:
’’ نیت باندھنے کے بعد ثناءپڑھے اور اس کے بعد پندرہ مرتبہ یہ تسبیحات پڑھے پھرأعوذ باللہ، بسم اللہ ، سورہ فاتحہ اور دوسری سورت کی قراءت سے فارغ ہونے کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے ان تسبیحات کو دس مرتبہ پڑھے، پھر دوسرے سجدے تک دس دس مرتبہ پڑھتا رہے،دوسرے سجدے سے اٹھتے ہوئے ان تسبیحات کو نہ پڑھے، بلکہ سجدے سے براہ راست ’’ اَللّٰهُ أَکْبَرُ‘‘ کہتاہوا سیدھا کھڑا ہو جائے، اس طریقے کے مطابق دوسرے سجدے میں دس مرتبہ پڑھنے کے بعد تسبیحات کی تعداد پچھتر (75) ہوجائے گی۔

بعض علماءکرام  دوسرے طریقے کو افضل کہتے ہیں اور وجہ فضیلت یہ بیان فرماتے ہیں کہ چوں کہ پہلے طریقے میں جلسہ استراحت کی ضرورت پڑتی ہے اور ہمارے ہاں جلسہ استراحت راجح نہیں ؛ اس لیے وہ طریقہ افضل ہے جس میں جلسہ استراحت موجود نہیں، لیکن علامہ شامی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ان دونوں طریقوں سے صلاۃ التسبیح پڑھنی چاہیے، کبھی پہلے طریقے سے، کبھی دوسرے طریقے سے۔

صلاۃ التسبیح کا ثبوت:

صلاۃ التسبیح صحیح حدیث سے ثابت ہے۔امام ابو عبد اللہ الحافظ النیسابوری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب 'المستدرک علی الصحیحین' میں صلاۃ التسبیح والی حدیث کو ذکر کر کے اس کو صحیح قرار دیا ہے، نیز حاکم رحمہ اللہ نے امت کے تلقی بالقبول سے بھی اس روایت کی صحت پر استدلال کیاہے۔اور علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے اس پر نہ صرف یہ کہ سکوت کیا ہے، بلکہ اس حدیث کے دیگر شواہد بھی پیش کیے ہیں، یہ بات اہلِ علم جانتے ہیں کہ ' مستدرکِ حاکم' کی روایت پر علامہ ذہبی کا سکوت روایت کی صحت ورنہ کم از کم حسن ہونے کی دلیل ہے، جب کہ اس روایت کے شواہد بھی علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے ذکر فرمائے ہیں۔

المستدرك على الصحيحين للحاكم (1/ 464)

' حدثناه أبو علي الحسين بن علي الحافظ إملاء من أصل كتابه، ثنا أحمد بن داود بن عبد الغفار بمصر، ثنا إسحاق بن كامل، ثنا إدريس بن يحيى، عن حيوة بن شريح، عن يزيد بن أبي حبيب، عن نافع، عن ابن عمر، قال: وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم جعفر بن أبي طالب إلى بلاد الحبشة، فلما قدم اعتنقه وقبل بين عينيه، ثم قال: «ألا أهب لك، ألا أبشرك، ألا أمنحك، ألا أتحفك؟» قال: نعم، يا رسول الله. قال: " تصلي أربع ركعات تقرأ في كل ركعة بالحمد وسورة، ثم تقول بعد القراءة وأنت قائم قبل الركوع: سبحان الله، والحمد لله، ولا إله إلا الله، والله أكبر، ولا حول ولا قوة إلا بالله خمس عشرة مرةً، ثم تركع فتقولهن عشراً تمام هذه الركعة قبل أن تبتدئ بالركعة الثانية، تفعل في الثلاث ركعات كما وصفت لك حتى تتم أربع ركعات۔ «هذا إسناد صحيح لاغبار عليه، ومما يستدل به على صحة هذا الحديث استعمال الأئمة من أتباع التابعين إلى عصرنا هذا إياه ومواظبتهم عليه وتعليمهن الناس، منهم عبد الله بن المبارك رحمة الله عليه»'۔

قال الذهبي: أخرجه أبو داود والنسائي، وابن خزيمة في الصحيح ثلاثتهم عن عبد الرحمن بن بشر'۔

(المستدرک مع التلخیص، ج:۱ ص:۳۱۹، ط:دار المعرفة، بیروت ) 

مشکاة المصابيح (صـ۱۱۷):

' صلاة التسبیحـعن ابن عباسؓ أن النبي ﷺ قال للعباس بن عبدالمطلب: یا عباس، یا عماه، ألا أعطیک! ألا أمنحک! ألا أخبرک! ألا أفعل بک عشر خصال! إذا أنت فعلت ذلک غفراﷲ لک ذنبک : أوله وآخره، قدیمه وحدیثه، خطأه وعمده، صغیره وکبیره، سره وعلانیته، أن تصلی أربع رکعات تقرء في کل رکعة فاتحة الکتاب وسورة، فإذا فرغت من القراء ة في أول رکعة وأنت قائم، قلت: سبحان اﷲ والحمد ﷲ ولا إله إلا اﷲ واﷲ أکبر خمس عشرة مرةً، ثم ترکع فتقولها وأنت راکع عشراً، ثم ترفع رأسک من الرکوع فتقولها عشراً، ثم تهوي ساجداً فتقولها وأنت ساجد عشراً، ثم ترفع رأسک من السجود فتقولها عشراً، ثم تسجد فتقولها عشرا، ثم ترفع رأسک فتقولها عشراً، فذلک خمس وسبعون في کل رکعة، تفعل ذلک في أربع رکعات، إن استطعت أن تصلیها في کل یوم مرةً فافعل۔۔۔ ' الخ۔
وفي مرقاة المفاتیح(۳۷۷/۳):

' وینبغي للمتعبد أن یعمل بحدیث ابن عباس تارةً، ویعمل بحدیث ابن مبارک أخری' ۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 27)

' وأربع صلاة التسبيح بثلاثمائة تسبيحة، وفضلها عظيم.

(قوله: وأربع صلاة التسبيح إلخ) يفعلها في كل وقت لا كراهة فيه، أو في كل يوم أو ليلة مرةً، وإلا ففي كل أسبوع أو جمعة أو شهر أو العمر، وحديثها حسن ؛ لكثرة طرقه. ووهم من زعم وضعه، وفيها ثواب لا يتناهى، ومن ثم قال بعض المحققين: لايسمع بعظيم فضلها ويتركها إلا متهاون بالدين، والطعن في ندبها بأن فيها تغييراً لنظم الصلاة إنما يأتي على ضعف حديثها، فإذا ارتقى إلى درجة الحسن أثبتها وإن كان فيها ذلك، وهي أربع بتسليمة أو تسليمتين، يقول فيها ثلثمائة مرة: «سبحان الله، والحمد لله ولا إله إلا الله، والله أكبر»، وفي رواية زيادة «ولا حول ولا قوة إلا بالله»، يقول ذلك في كل ركعة خمسة وسبعين مرة ؛ فبعد الثناء خمسة عشر، ثم بعد القراء ة وفي ركوعه، والرفع منه، وكل من السجدتين، وفي الجلسة بينهما عشراً عشراً بعد تسبيح الركوع والسجود، وهذه الكيفية هي التي رواها الترمذي في جامعه عن عبد الله بن المبارك أحد أصحاب أبي حنيفة الذي شاركه في العلم والزهد والورع، وعليها اقتصر في القنية وقال: إنها المختار من الروايتين. والرواية الثانية: أن يقتصر في القيام على خمسة عشر مرةً بعد القراءة، والعشرة الباقية يأتي بها بعد الرفع من السجدة الثانية، واقتصر عليها في الحاوي القدسي والحلية والبحر، وحديثها أشهر، لكن قال في شرح المنية: إن الصفة التي ذكرها ابن المبارك هي التي ذكرها في مختصر البحر، وهي الموافقة لمذهبنا ؛ لعدم الاحتياج فيها إلى جلسة الاستراحة ؛ إذ هي مكروهة عندنا. اهـ. قلت: ولعله اختارها في القنية لهذا، لكن علمت أن ثبوت حديثها يثبتها وإن كان فيها ذلك، فالذي ينبغي فعل هذه مرةً وهذه مرةً.

[تتمة] قيل لابن عباس: هل تعلم لهذه الصلاة سورة؟ قال: التكاثر والعصر والكافرون والإخلاص. وقال بعضهم: الأفضل نحو الحديد والحشر والصف والتغابن ؛ للمناسبة في الاسم

صلوۃ التسبیح کاطریقہ

 صلوٰۃالتسبیح چاررکعت نمازہوتی ہے۔یہ نمازرسول اللہﷺ نےاپنےچچاحضرت عباس رضی اللہ عنہ کوبطورتحفہ وعطیہ کےسکھائی تھی،اس کی فضیلت یہ ارشادفرمائی ہے کہ اس کےپڑھنےسےسارےگناہ(چھوٹےبڑے) معاف ہوجاتےہیں۔اس نماز کے کے پڑھنےکےدوطریقےہیں:

ایک طریقہ یہ ہے کہ چاررکعات صلوٰۃ التسبیح کی نیت باندھ کرپہلی رکعت میں کھڑےہوکرثناء،تعوذ،تسمیہ،سورۂفاتحہ اورکوئی سورت پڑھنےکےبعد رکوع میں جانے سے پہلے پندرہ مرتبہ یہ تسبیح پڑھیں"سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمدُلِلّٰہِ وَلَاإلٰہَ إلَّاإللّٰہ ُوَاللّٰہ ُأکْبَرُ"پھررکوع میں " سُبحَان َرَبِّي َالعَظِیْم"کےبعددس مرتبہ تسبیح پڑھیں،پھرقومہ میں " سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ"،"رَبَّنَالَکَ الْحَمدُ" کےبعددس مرتبہ تسبیح پڑھیں،پھرپہلےسجدہ میں " سُبْحَانَ رَبِّیَ الاَعلٰی "کےبعددس مرتبہ پڑھیں،پھرپہلےسجدہ سےاٹھ کرجلسہ میں دس  مرتبہ پھردوسرےسجدہ میں " سُبْحَان َرَبِّیَ الاَعْلٰی"کےبعددس مرتبہ تسبیح پڑھیں،پھردوسرےسجدےسےاٹھتےہوئے " اَللہ ُاَکْبَرْ  " کہہ کربیٹھ جائیں اوردس مرتبہ تسبیح پڑھیں۔پھربغیر" اَللہُ اَکْبَرْ " کہےدوسری رکعت کےلیےکھڑےہوجائیں پھراسی طرح دوسری،تیسری اورچوتھی رکعت مکمل کریں۔

دوسری اورچوتھی رکعت کےقعدہ میں پہلےدس مرتبہ تسبیح پڑھیں اورپھرالتحیات پڑھیں۔اسی ترتیب سےچاروں رکعات میں تسبیح پڑھیں،اس طرح چاررکعات میں کل تسبیحات تین سومرتبہ ہوجائیں گی۔

دوسراطریقہ یہ ہے کہ پہلی رکعت میں کھڑےہوکرثناءکےبعدپندرہ مرتبہ تسبیح پڑھیں،پھرتعوذ،تسمیہ،سورۂفاتحہ اورکوئی سورت پڑھ کررکوع میں جانےسےپہلےدس مرتبہ یہ تسبیح پڑھیں،رکوع،قومہ،پہلےسجدہ،جلسہ اوردوسرےسجدےمیں دس دس مرتبہ تسبیح پڑھیں،اس کےبعد"اللہُ اَکبَر"کہتےہوئےسیدھےکھڑےہوجائیں۔

اسی ترتیب سےدوسری،تیسری اورچوتھی رکعت میں تسبیح پڑھیں۔دوسری رکعت میں کھڑےہوتےہی پندرہ مرتبہ تسبیح پڑھیں گے۔(سنن الترمذی،ابواب الوتر،باب ماجاءفیصلاۃالتسبیح،1/117،قدیمی)اسی ترتیب سےباقی رکعات اداکریں۔یہ دونوں طریقےصحیح اورقابلِ عمل ہیں،جوطریقہ آسان معلوم ہواس کواختیارکیاجائے۔اس نماز کا کوئی خاص وقت نہیں ،اسےمکروہ اوقات کے علاوہ  جب بھی ہوسکے پڑھ  سکتے ہیں

الصورالتى ينقض فيها الحاكم النكاح بين الزوجين