https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Thursday 22 August 2024

زبردستی کا نکاح

 شریعت مطہرہ نکاح کے معاملہ میں عاقلہ بالغہ لڑکی کے ولی کو اس بات کا حکم دیتی ہے کہ اس کا نکاح اس کی مرضی کے بغیر نہ کرے ، بلکہ اس کے نکاح کے لیے اس سے اجازت اور رضامندی حاصل کرے ، اگر لڑکی نکاح پر راضی نہ ہو تو ولی کے لیے اس کا زبردستی نکاح کرنا جائز نہیں ہے ، لہذا صورت مسئولہ میں اگر واقعی سائلہ نے نکاح کے وقت نہ ہی ایجاب و قبول کی  اجازت دی  تھی اورنہ ہی خاموشی اختیار کر کے اپنی رضامندی ظاہر کی  تھی،بلکہ وہ نکاح سے انکار کرتی رہی تو اس کی رضامندی کے بغیر زبردستی نکاح نامہ میں اس کے انگوٹھا لگوانے سے یہ نکاح شرعاً منعقد نہیں ہوا ۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"لا يجوز نكاح أحد على بالغة صحيحة العقل من أب أو سلطان بغير إذنها بكرا كانت أو ثيبا فإن فعل ذلك فالنكاح موقوف على إجازتها فإن أجازته؛ جاز، وإن ردته بطل، كذا في السراج الوهاج."

(الفتاوى الهندية، كتاب النكاح، الباب الرابع في الأولياء في النكاح، ج:1 / ص:287، ط:رشيدية)

خیار بلوغ

 اگر کسی نابالغہ کا نکاح بچپن میں اس کے والد اور دادا کے علاوہ کوئی اور فردکروائے تو بلوغت کے بعد عورت کو اس نکاح کے فسخ کااختیار ہوتاہے،البتہ اگر والد یادادا بچپن میں کسی کا نکاح کروادیں تو شرعی طور پرلڑکی کو خیارِ بلوغ (یعنی بلوغت کے بعد اس نکاح کے فسخ کااختیار)حاصل نہیں ہوتا، اگرچہ والد، یادادا کاانتقال ہوجائے۔ 

رشتہ کے سلسلہ میں اولاد کو چاہیے کہ والدین کو اپنا خیرخواہ سمجھتے ہوئے ان کی پسند کو  اپنی پسند پر ترجیح دیں، اس لیے کہ عموماً والدین اور بزرگوں کے طے کردہ رشتے آگے چل کر خوش گوار ثابت ہوتے ہیں، ممکن ہے کہ ایک چیز فی الحال ناپسند ہو، لیکن بعد میں وہ خیر اور محبت کا ذریعہ بن جائے، اور جو رشتے وقتی جذبات سے مغلوب ہوکر کیے جاتے ہیں تجربہ شاہد ہے کہ عموماً وہ ناپائیدار ہوتے ہیں، وقتی پسند بعد میں ناپسندیدگی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

البتہ اگر باپ دادا  فاسق، فاجر، لالچی ہوں اور معاشرے میں اچھی شہرت کے حامل نہ ہوں اور انہوں نے ایسے مرد سے نکاح کروایا جو لڑکی کا  کفو (ہم پلہ)نہ ہو تو ان صورتوں میں لڑکی کو شرعاً فسخ کااختیار حاصل ہوگا۔اور اس صورت میں یہ شرط ہے کہ بلوغت یاسمجھ داری کے فوراً بعد لڑکی زبان سے اس نکاح کو فسخ کردے اور اس پر گواہ بھی بنالے۔اور پھر کسی مسلمان جج کی عدالت میں دعویٰ دائر کرکے گواہوں کے ذریعہ مذکورہ نکاح کو فسخ کرادے۔

البحرالرائق میں ہے :

"( قوله: ولهما خيار الفسخ بالبلوغ في غير الأب والجد بشرط القضاء) أي للصغير والصغيرة إذا بلغا وقد زوجا، أن يفسخا عقد النكاح الصادر من ولي غير أب ولا جد بشرط قضاء القاضي بالفرقة، وهذا عند أبي حنيفة ومحمد رحمهماالله ... بخلاف ما إذا زوجها الأب والجد؛ فإنه لا خيار لهما بعد بلوغهما؛ لأنهما كاملا الرأي وافرا الشفقة فيلزم العقد بمباشرتهما كما إذا باشراه برضاهما بعد البلوغ". (8/123)

فتاوی شامی میں ہے :

"( ولزم النكاح ولو بغبن فاحش ) بنقص مهرها وزيادة مهره ( أو ) زوجها ( بغير كفء إن كان الولي ) المزوج بنفسه بغبن ( أباً أو جدًا) وكذا المولى وابن المجنونة ( لم يعرف منهما سوء الاختيار ) مجانةً وفسقًا  ( وإن عرف لا) يصح النكاح اتفاقًا، وكذا لو كان سكران فزوجها من فاسق أو شرير أو فقير أو ذي حرفة دنيئة؛ لظهور سوء اختياره فلاتعارضه شفقته المظنونة، بحر". (3/66


خیارِ بلوغ شرعی طور پر نابالغ لڑکے اور نابالغ لڑکی، دونوں کے لیے ثابت ہوتا ہے۔ اگر خیارِ بلوغ کے ذریعہ لڑکی کی طرف سے فرقت واقع ہوئی ہو تو وہ بالاتفاق فسخِ نکاح  کے حکم میں ہے؛ اس لیے کہ لڑکی طلاق کی مالک نہیں ہوتی۔ البتہ اگر خیارِ بلوغ لڑکے کی طرف سے ہو تو یہ اختلافی صورت ہے، طرفین رحمہما اللہ  کے نزدیک  یہ فرقت طلاق  کے حکم میں ہے، جب کہ امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے نزدیک یہ فرقت فسخِ نکاح کے حکم میں ہے۔

علامہ شامی رحمہ اللہ  نے امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے اصول کو اختیار کرتے ہوئے یہ ضابطہ بیان کیا ہے کہ جو فرقت لڑکی کی جانب سے ممکن ہو، وہ فرقت  فسخِ نکاح کے حکم میں ہے، نہ کہ طلاق کے حکم میں۔

فسخِ نکاح کا اثر یہ ہے کہ اگر مذکورہ لڑکا دوبارہ مذکورہ لڑکلی سے شادی کرلے تو اسے تین طلاقوں کا اختیار ہوگا۔ نیز اگر لڑکے کی طرف سے دخول سے پہلے خیارِ بلوغ کی وجہ سے فرقت حاصل کی گئی ہو تو لڑکے پر مہر واجب نہیں ہوگا، جب کہ دخول سے پہلے طلاق کی صورت میں نصف مہر واجب ہوتا ہے۔

 لہذا  صورتِ  مسئولہ میں خیارِ بلوغ سے واقع ہونے والی فرقت  ہر حال میں فسخ ہے، نہ کہ طلاق۔

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (2 / 174):

(وإباؤه طلاق لا إباؤها)، وقال أبو يوسف إباؤه أيضا لايكون طلاقا؛ لأنه يتصور وجوده من المرأة وبمثله لا يقع الطلاق كالفرقة بسبب الملك والمحرمية وخيار البلوغ، وهذا لأن الطلاق ليس إليها فكل سبب تشاركه المرأة فيه على معنى أنه يتحقق وجوده منها لا يكون طلاقا إذا وجد منه كما لا يكون طلاقا فيما إذا وجد منها ولهما أنه فات الإمساك بالمعروف من جانبه فتعين التسريح بالإحسان فإن طلق وإلا ناب القاضي منابه ولهذا المعنى صارت الفرقة بسبب  الجب والعنة طلاقا بخلاف إبائها؛ لأن الطلاق لا يكون منها حتى ينوب القاضي منابها وبخلاف ما استشهد به من الأحكام فإن الفرقة فيه لا لهذا المعنى وبخلاف ردته أيضا عند أبي حنيفة؛ لأن الفرقة فيها للتنافي، وهذا لأن الردة تنافي النكاح ابتداء فكذا تنافيه بقاء ولهذا لا يحتاج فيه إلى حكم الحاكم وفي الإباء يحتاج إليه، ولو كان الزوج صغيرا أو مجنونا يكون طلاقا عندهما لما ذكرنا من المعنى وهي من أغرب المسائل حيث يقع الطلاق منهما ونظيره إذا كانا مجنونين أو كان المجنون عنينا فإن القاضي يفرق بينهما ويكون طلاقا اتفاقا، ثم إذا وقعت الفرقة بالإباء فإن كان بعد الدخول بها فلها المهر كله؛ لأنه تأكد به وإن كان قبل الدخول فإن كان بإبائه فلها نصف المهر؛ لأنه قبل الدخول وإن كان بإبائها فلا مهر لها؛ لأنها فوتت المبدل قبل تأكد البدل فأشبه الردة والمطاوعة.

خیار بلوغ کب رھتا ھے 

والد یادادا کے بچپن میں کرائے گئے نکاح میں بالغ ہونے کے بعد خیار بلوغ نہیں رہتا ،بشرطیکہ والدیادادا کی طرف سے سوء خیار نہ پایاجائے، اور سوء خیار ہونے کی صورت میں حکم میں درج ذیل تفصیل ہے:

۱۔عموما چونکہ اس میں سوء خیار کی بناء پرصالحہ کا غیر کفویعنی فاسق کے ساتھ نکاح ہوتا ہے،لہذا ایسا نکاح منعقد ہی نہیں ہوگا۔

۲۔اوراگروالدنے نابالغ بچی کانکاح بدوں شرط کفوکیا ہواور بعد میں معلوم ہوا کہ شوہر کفو نہیں تو اس بارے میں راجح یہ ہے کہ نکاح صحیح ہے اور لڑکی کو خیار بلوغ حاصل نہ ہوگا۔

۳۔اور اگروالدنے نابالغ بچی کا نکاح مہر مثل کے ساتھ کفومیں کیاہو،البتہ سوء خیار کی وجہ سے اس میں باپ کی طمع اور ذاتی غرض کی وجہ سے بچی کے حقوق زوجیت کی مصلحت ورعایت کا نہ پایاجانا یقینی ہو ،مثلا عمرمیں بہت زیادہ  فرق ہو یا شوہر دائم المرض ہو یا معتوہ ہو یا اپاہج ہو تو اس بارے میں  نکاح تو باطل نہ ہوگا ،لیکن لڑکی کو سوء خیار کی وجہ سے خیار بلوغ دیا جائے گا،لہذا وہ خیار بلوغ کی شرائط معہودہ کے ساتھ عدالت میں  مقدمہ پیش کر ے اور حاکم اہل رائے سے حالات کی تحقیق کرکے مناسب سمجھے تو نکاح فسخ کردے(ماخوذ ازاحسن الفتاوی:ج۵،ص۱۱۸ تا ۱۲۴)

والد کے علاوہ کسی دوسرے ولی کے بچپن کے نکاح میں بالغ ہونے کے بعد خیار بلوغ رہتا ہے بشرطیکہ بالغ ہونے کے فورا بعدمجلس علم انکار کرے ،سکوت کرنے سے خیار باطل ہوجائے گا اور خیار بلوغ استعمال کرتے ہوئے نکاح رد کردیا تو نکاح باطل ہوجائے گا۔



گواہی کی شرائط

 گواہی کے لیے شرط   یہ ہے کہ گواہ عاقل، بالغ، آزاد، مسلمان، عادل، قادر الکلام اور بینا ہو۔

نیز مندرجہ بالا شرائط کے علاوہ بعض معاملات میں چند دیگر وجوہات کی بنا پر بھی بعض لوگوں کی گواہی قبول نہیں کی جاتی جس کی تفصیل درج ذیل ہے:

  1. اولاد کی گواہی ماں، باپ، دادا وردادی کے حق میں، اور ان کی گواہی اولاد کے حق میں۔
  2. شوہر اور بیوی کی گواہی ایک دوسرے کے حق میں قبول نہیں، البتہ ایک دوسرے کے خلاف ہو تو مقبول  ۔
  3. جن لوگوں کی آپس میں دشمنی ہو، ان کی گواہی ایک دوسرے کے خلاف قبول نہیں کی جائے گی۔
  4. گواہی سے فائدہ حاصل کرنے والا شخص۔
  5. اسی مقدمے میں فریق سمجھا جانے والا۔
  6. جس پر حد قذف قائم کی گئی ہو۔
  7. کسی کی سرپرستی (کفالت) میں رہنے یا کام کرنے والے کی گواہی اپنے سرپرست (کفیل) کے حق میں۔
  8. جھوٹ کے حوالے سے مشہور شخص یا جو اس سے پہلے جھوٹی گواہی دے چکے ہوں۔
  9. فاسق شخص اور دیگر قبیح (غیر شرعی اورغیر مہذب) افعال میں مشغول رہنے والا شخص اگر صاحب مروت ہے تو اس کی گواہی قبول کی جائے گی، ورنہ نہیں۔
حوالہ جات
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (4/ 341)
القسم الثاني - شرط الأداء وهذا ثلاثة أصناف: الصنف الأول: ما يرجع على الشاهد
(1)وهو البلوغ فلذلك لا تقبل شهادة الصبي.
(2) الحرية فلذلك لا تقبل شهادة العبد.
(3) البصر.
(4) النطق فلذلك لا تقبل الشهادة الوارد ذكرها في المادة (1686) .
(5) العدالة فلذلك لا تقبل شهادة الفاسق انظر المادة (1705) .
(6) أن لا يكون محدودا بحد القذف فلذلك لا تقبل شهادة المحدود بالقذف.
(7) أن لا يكون للشاهد جر مغنم أو دفع مغرم فلذلك لا تقبل الشهادة الوارد ذكرها في المادة (1700) .
(8) أن لا يكون الشاهد خصما فلذلك لا تصح شهادة الوصي لليتيم والوكيل للموكل انظر المادة (3 170) .

نابالغ کا نکاح

 اگر نابالغہ لڑکی کا نکاح باپ یا دادا کردے تو اس صورت میں لڑکی کو بالغ ہونے کے بعد نکاح فسخ کروانے کا  حق نہیں ہوتا الّا یہ کہ باپ دادا کا سئی الاختیار ہونا معروف ہو یعنی باپ دادا نے  کسی نابالغہ   بیٹی یاپوتی کا نکاح کسی لالچ وغیرہ  میں  آکر  نا مناسب جگہ کردیا ہو،اور باپ دادا کے علاوہ کوئی اور شخص اگر   نابالغہ لڑکی کا نکاح کسی سے  کردے تو بالغ ہونے کے بعد لڑکی کو نکاح فسخ کروانے کا اختیار ہوتا ہےبشرط یہ کہ لڑکی نے بالغ ہونے کے بعد اس نکاح پر رضامندی کا اظہار نہ کیا ہو۔

 نابالغہ لڑکی کا نکاح چوں کہ اس کے باپ نے کروایا ہے اور اس سے پہلے باپ نے کسی بچی کا نامناسب جگہ نکاح  بھی نہیں کیا ہے،اس لیے  یہ نکاح شرعاً منعقد ہوگیا ہے اور اب لڑکی  کو نکاح کے ختم کرنا کا اختیار بھی  نہیں ہے، البتہ اگر بیٹی اور اس کی والدہ یہ سمجھتی ہیں کہ وہ مرد ظالم ہے اور اس کے ساتھ لڑکی کا رہنا دشوار ہے تو ایسی صورت میں اس سے کسی طرح  طلاق یا اس کی رضامندی سے خلع لے  لیں۔

الدر المختار و حاشیۃ ابن عابدین میں ہے:

"(وللولي) الآتي بيانه (‌إنكاح ‌الصغير والصغيرة)جبرا (ولو ثيبا) كمعتوه ومجنون شهرا (ولزم النكاح ولو بغبن فاحش) بنقص مهرها وزيادة مهره (أو) زوجها (بغير كفء إن كان الولي) المزوج بنفسه بغبن (أبا أو جدا) وكذا المولى وابن المجنونة (لم يعرف منهما سوء الاختيار) مجانة وفسقا(وإن عرف لا) يصح النكاح اتفاقا وكذا لو كان سكران فزوجها من فاسق، أو شرير، أو فقير، أو ذي حرفة دنية لظهور سوء اختياره فلا تعارضه شفقته المظنونة

و في الرد: أن المانع هو كون الأب مشهورا بسوء الاختيار قبل العقد فإذا لم يكن مشهورا بذلك ثم زوج بنته من فاسق صح وإن تحقق بذلك أنه سيئ الاختيار واشتهر به عند الناس، فلو زوج بنتا أخرى من فاسق لم يصح الثاني لأنه كان مشهورا بسوء الاختيار قبله، بخلاف العقد الأول لعدم وجود المانع قبله۔"

(کتاب النکاح، باب الولی: 3 / 65، 66، ط: سعید)

نابالغ کی طلاق

 جب تک شوہر نابالغ ہے تب تک وہ یا اس کا والد اس کی بیوی کو طلاق نہیں دے سکتا، شوہر کے بالغ ہونے کا انتظار کرنا پڑے گا۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

" وأهله زوج عاقل بالغ مستيقظ.

(قوله: وأهله زوج عاقل إلخ) احترز بالزوج عن سيد العبد ووالد الصغير، وبالعاقل ولو حكما عن المجنون والمعتوه والمدهوش والمبرسم والمغمى عليه، بخلاف السكران مضطرا أو مكرها، وبالبالغ عن الصبي ‌ولو ‌مراهقا، وبالمستيقظ عن النائم. "

(كتاب الطلاق، 3/ 230، ط: سعيد)

’’بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع ‘‘میں ہے:

" ومنها أن يكون بالغا فلا يقع طلاق الصبي وإن كان عاقلا لأن الطلاق لم يشرع إلا عند خروج النكاح من أن يكون مصلحة وإنما يعرف ذلك بالتأمل والصبي لاشتغاله باللهو واللعب لا يتأمل فلا يعرف."

(كتاب الطلاق، فصل في شرائط ركن الطلاق، 3/ 100، ط: سعيد)

مقالہ

 الحمد للہ وحدہ والصلوہ والسلام علیٰ من لا نبی بعدہ ۔امابعد۔کاقضاءایک ایسا فریضہ ہے جس میں بینہ شواہدوثبوت کی سب سے زیادہ اھمیت ہے ۔اقرارمدعاعلیہ سب سے بڑی دلیل ہے لیکن قوت سماعت وگویایء سے محروم شخص جبکہ وہ لکھنے پڑھنے سے بھی مکمل طور پر نابلد ہواس معاملہ كو سنگین تر بنادیتا ہے ۔ دور حاضر میں گونگے بہرے افراد کی تعلیم وتربیت اور اشارات پر بڑا کام ہوا ہے ان کا اپنا طرز تحریر اور اشارات کی زبان میں اپنا طرز تکلم ہے ۔ماضی قریب میں ایسے اشخاص کی طویل فہرست جنھوں نے قوت سماعت وگویایء سے محروم ہونے کے باوجود متعدد تصانیف یادگار چھوڑیں ۔مثلا ھیلن کلر،

ہیلن کیلر

ہیلن کیلر ایک بیں الاقوامی شھرت یافتہ امریکی ماہر تعلیم، معذور کارکن اور مصنفہ تھی۔  وہ قوت سماعت وگویایء اور بینایی سے محروم شخصیات میں تاریخ کی سب سے مشہور شخصیت ہے۔

1882 میں کیلر کی عمر 18 ماہ تھی اور وہ ایک شدید بیماری میں مبتلا ہو گئی جس کی وجہ سے وہ بہری، اندھی اور گونگی ہو گئی۔  اس نے بچپن کے اس تجربے کو بعد میں اپنی سوانح عمری  "The story of my Life (میری زندگی کی کہانی) "میں بیان کیاہے۔

کیلر ایک ایسے وقت میں رہتی تھی جب ڈیف بلائنڈ لوگوں کے لیے تقریباً کوئی سہارا نہیں تھا، اور اس نے ایک چھوٹے بچے کے طور پر بنیادی علامات اور کمپن محسوس کرنے کے ذریعے بات چیت کرنے کا اپنا طریقہ تیار کیا۔  اس کے بعد کیلر کا تعارف این سلیوان سے ہوا، جو اس کی زندگی بھر کی دوست اور استاد بن گئیں۔  سلیوان نے کیلر کو انگلی کے ہجے اور دوسرے طریقوں سے بات چیت کرنے کا طریقہ سکھایا۔

کیلر نے یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی اور نابینا افراد کی مدد کرنے والی ہیلن کیلر انٹرنیشنل (HKI) تنظیم کی بانی مصنفہ بن گئی۔  وہ ایک عوامی اسپیکر اور کارکن کے طور پر بھی بہروں کے حقوق کے لیے باقاعدگی سے وکالت کرتی تھیں۔

اس نے خواتین کے حق رائے دہی، مزدوروں کے حقوق، امن پسندی اور پیدائشی کنٹرول کے لیے بھی مہم چلائی۔

کٹی او نیل

'دنیا کی تیز ترین خاتون' کے طور پر جانی جانے والی، کٹی اونیل ایک امریکی اسٹنٹ وومین اور سپیڈ ریسر تھیں، جو 1970 کی دہائی میں سب سے مشہور تھیں۔

چاہے وہ عالمی رفتار کے ریکارڈ قائم کر رہی ہو، یا ونڈر وومن میں لنڈا کارٹر کے سٹنٹ ڈبل کے طور پر بالکونی سے 127 فٹ چھلانگ لگا رہی ہو، کٹی نے اپنے پورے کیرئیر میں حدوں کو آگے بڑھایا۔

یہ پانچ ماہ کی عمر میں بچپن کی متعدد بیماریوں کا مجموعہ تھا جس نے O'Neil کی سماعت کو متاثر کیا۔  دو سال کی عمر میں، O'Neil کی ماں نے پہچان لیا کہ اس کی بیٹی سن نہیں سکتی، اور اس نے اسے ہونٹ پڑھنا اور بولنا سکھایا۔

او نیل بیماریوں سے لڑتے رہے۔  اسے ریڑھ کی ہڈی کی گردن توڑ بخار ہوگیا، جس نے اس کی اولمپک ڈائیونگ کی خواہشات کو خراب کردیا۔  اس نے موت سے بچنے والے کارناموں کا تعاقب جاری رکھا، تاہم، بشمول واٹر اسکیئنگ، اسکوبا ڈائیونگ، اسکائی ڈائیونگ اور ہینگ گلائیڈنگ – یہ بتاتے ہوئے کہ ڈائیونگ "میرے لیے اتنا خوفناک نہیں تھا۔"

20 کی دہائی میں، او نیل کو کینسر کی تشخیص ہوئی تھی، لیکن اس نے بھی اسے روکا نہیں۔  اس نے زمین اور پانی پر رفتار کے 22 ریکارڈ قائم کیے اور 1982 میں اسٹنٹ کے ساتھیوں کے پرفارم کرتے ہوئے مارے جانے کے بعد ریٹائر ہوئے۔

اس کے الفاظ میں، "بہرے لوگ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔  کبھی ہمت نہ ہاریں۔  جب میں 18 سال کا تھا تو مجھے بتایا گیا کہ مجھے نوکری نہیں مل سکتی کیونکہ میں بہرا تھا۔  لیکن میں نے کہا، کسی دن میں کھیلوں میں مشہور ہونے جا رہا ہوں، انہیں یہ دکھانے کے لیے کہ میں کچھ بھی کر سکتا ہوں۔‘‘

حبن جرما۔


  • موضوع کا آغ


React

المبسوط للسرخسي (9/ 98
(قَالَ) وَلَا يُؤْخَذُ الْأَخْرَسُ بِحَدِّ الزِّنَا، وَلَا بِشَيْءٍ مِنْ الْحُدُودِ، وَإِنْ أَقَرَّ بِهِ بِإِشَارَةٍ أَوْ كِتَابَةٍ أَوْ شَهِدْت بِهِ عَلَيْهِ شُهُودٌ، وَعِنْدَ الشَّافِعِيِّ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - يُؤْخَذُ بِذَلِكَ؛ لِأَنَّهُ نَفْسٌ مُخَاطَبَةٌ فَهُوَ كَالْأَعْمَى أَوْ أَقْطَعَ الْيَدَيْنِ أَوْ الرِّجْلَيْنِ، وَلَكِنَّا نَقُولُ: إذَا أَقَرَّ بِهِ بِالْإِشَارَةِ فَالْإِشَارَةُ بَدَلٌ عَنْ الْعِبَارَةِ وَالْحَدُّ لَا يُقَامُ بِالْبَدَلِ، وَلِأَنَّهُ لَا بُدَّ مِنْ التَّصْرِيحِ بِلَفْظَةِ الزِّنَا فِي الْإِقْرَارِ وَذَلِكَ لَا يُوجَدُ فِي إشَارَةِ الْأَخْرَسِ إنَّمَا الَّذِي يُفْهَمُ مِنْ إشَارَتِهِ الْوَطْءُ، فَلَوْ أَقَرَّ النَّاطِقُ بِهَذِهِ الْعِبَارَةِ لَا يَلْزَمُهُ الْحَدُّ، فَكَذَلِكَ الْأَخْرَسُ، وَكَذَلِكَ إنْ كَتَبَ بِهِ؛ لِأَنَّ الْكِتَابَةَ تَتَرَدَّدُ وَالْكِتَابَةُ قَائِمَةٌ مَقَامَ الْعِبَارَةِ وَالْحَدُّ لَا يُقَامُ بِمِثْلِهِ، وَكَذَلِكَ إنْ شَهِدَتْ الشُّهُودُ عَلَيْهِ بِذَلِكَ؛ لِأَنَّهُ لَوْ كَانَ نَاطِقًا رُبَّمَا يَدَّعِي شُبْهَةً تَدْرَأُ الْحَدَّ وَلَيْسَ كُلُّ مَا يَكُونُ فِي نَفْسِهِ يَقْدِرُ عَلَى إظْهَارِهِ بِالْإِشَارَةِ، فَلَوْ أَقَمْنَا عَلَيْهِ كَانَ إقَامَةَ الْحَدِّ مَعَ تَمَكُّنِ الشُّبْهَةِ، وَلَا يُوجَدُ مِثْلُهُ فِي الْأَعْمَى وَالْأَقْطَعِ لِتَمَكُّنِهِ مِنْ إظْهَارِ دَعْوَى الشُّبْهَةِ.


یہاں پر میں دوبارہ عرض کرونگا کہ یہاں سقوط حد شرعی کی بات ہوئی ہے تعزیرا حاکم کوئی بھی سزا دے سکتا ہے
والحدود تندرئ بالشبہات کما ہو مقرر عند الفقہأ


قوت گویائی سے محروم شخص کی طلاق 

گونگے شخص کی طلاق اشارہ سے  چند شرائط کے ساتھ واقع ہوگی، اگر ان شرائط میں سے کوئی ایک بھی شرط مفقود ہوئی تو طلاق واقع نہیں ہوگی، وہ شرائط مندرجہ ذیل ہیں:

۱) اشارہ سے طلاق دینے والا گونگا شخص  پیدائشی گونگا ہو ، پیدائشی گونگا نہ ہونے کی صورت میں اس کے گونگے پن پر کم از کم ایک سال گزر گیا ہو۔

۲)  اس کے اشارے اور اشاروں کا مطلب لوگوں میں معروف (جانا پہچانا) ہو، اور وہ ایسے اشارہ سے طلاق دے جس کا طلاق کے اشارہ کے طور پر استعمال ہونا معروف و مشہور ہو۔

۳) اشارہ کرتے وقت اس کے منہ سے کچھ آواز بھی نکلے جیسا کہ گونگوں کی عادت ہوتی ہے۔

۴) اشارہ سے طلاق دینے والا گونگا شخص لکھنے پر قادر نہ ہو؛ جو گونگا لکھنے پر قادر ہو اس کی طلاق لکھنے سے ہی ہوگی، اشارہ کرنے سے نہیں ہوگی۔

واضح رہے کہ گونگا شخص اشارہ سے طلاق دیتے وقت جتنے عدد کا اشارہ کرے گا اتنی ہی طلاقیں واقع ہوں گی اور اگر اشارہ سے تین سے کم (ایک یا دو) طلاق دے گا تو وہ طلاقِ  رجعی ہی شمار کی جائے گی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 241):

"(أو أخرس) ولو طارئاً إن دام للموت، به يفتى، وعليه فتصرفاته موقوفة. واستحسن الكمال اشتراط كتابته (بإشارته) المعهودة؛ فإنها تكون كعبارة الناطق استحساناً.

 (قوله: إن دام للموت) قيد في طارئاً فقط ح. قال في البحر: فعلى هذا إذا طلق من اعتقل لسانه توقف، فإن دام به إلى الموت نفذ، وإن زال بطل. اهـ. قلت: وكذا لو تزوج بالإشارة لايحل له وطؤها؛ لعدم نفاذه قبل الموت، وكذا سائر عقوده، ولايخفى ما في هذا من الحرج (قوله: به يفتى) وقدر التمرتاشي الامتداد بسنة، بحر. وفي التتارخانية عن الينابيع: ويقع طلاق الأخرس بالإشارة، ويريد به الذي ولد وهو أخرس أو طرأ عليه ذلك ودام حتى صارت إشارته مفهومة وإلا لم يعتبر (قوله: واستحسن الكمال إلخ) حيث قال: وقال بعض الشافعية: إن كان يحسن الكتابة لايقع طلاقه بالإشارة؛ لاندفاع الضرورة بما هو أدل على المراد من الإشارة وهو قول حسن، وبه قال بعض مشايخنا اهـ. قلت: بل هذا القول تصريح بما المفهوم من ظاهر الرواية.

ففي كافي الحاكم الشهيد ما نصه: فإن كان الأخرس لايكتب وكان له إشارة تعرف في طلاقه ونكاحه وشرائه وبيعه فهو جائز، وإن كان لم يعرف ذلك منه أو شك فيه فهو باطل. اهـ. فقد رتب جواز الإشارة على عجزه عن الكتابة، فيفيد أنه إن كان يحسن الكتابة لاتجوز إشارته، ثم الكلام كما في النهر إنما هو في قصر صحة تصرفاته على الكتابة، وإلا فغيره يقع طلاقه بكتابة كما يأتي آخر الباب، فما بالك به (قوله: بإشارته المعهودة) أي المقرونة بتصويت منه؛ لأن العادة منه ذلك، فكانت الإشارة بياناً لما أجمله الأخرس، بحر عن الفتح. وطلاقه المفهوم بالإشارة إذا كان دون الثلاثة فهو رجعي، كذا في المضمرات ط عن الهندية".



شریعت میں عام قاعدہ ہے کہ : "جو شخص کسی واجب کو ادا کرنے سے عاجز ہو جائے تو واجب ساقط ہو جاتا ہے، تاہم جس قدر واجب ادا کرنے کی استطاعت ہو، اسے بجا لانا ضروری ہوتا ہے"، اس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے: (فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ)بقدرِ استطاعت اللہ سے ڈرتے رہو ۔ [التغابن: 16]

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جب میں تمہیں کسی کام کا حکم دوں تو اپنی استطاعت کے مطابق اس پر عمل کرو) متفق علیہ

اس بنا پر گونگااور بہرافرد جو پڑھ نہیں سکتا، اس  سے زبانی عبادات ساقط ہونگی، اور اگر تسبیح یا ذکر الہی کسی حد تک کر سکتا ہو تو پھر  قراءت کی جگہ پر تسبیح اور ذکر الہی کریگا۔

اور اگر تسبیح وغیرہ بھی نہیں کر سکتا، اور نہ ہی اس کیلئے سیکھنا ممکن ہے تو قراءت کرنا اس سے ساقط ہو جائے گا، چنانچہ اس پر تلاوت کے بدلے میں  کچھ اور پڑھنا لازمی نہیں ہوگا، اور اگر گونگا شخص تکبیر کہہ سکتا ہو تو تکبیر کے موقع  پر تکبیر  کہنا لازمی ہوگا۔

اور اگر یکسر کسی چیز کا تلفظ کرنا اس کیلئے ناممکن ہو تو نماز کے تمام زبانی اعمال اس سے ساقط ہو جائیں گے، اور ایسا شخص  قیام ورکوع، اور سجود پر مشتمل عملی  ارکان  بجا لائے گا۔

عام لوگوں کی طرح نماز کی نیت اپنے دل میں کر کے بغیر تلاوت کے کھڑا رہے ، پھر رکوع  اور سجدہ کرے،  اور زبان سے کچھ پڑھنا اس کیلئے ضروری نہیں ہوگا۔

دائمی فتوی کمیٹی  سے پوچھا گیا:
"جو شخص  گونگا اور بہرا ہے، یا بول لیتا ہے، لیکن سن نہیں پاتا ، وہ نماز کیسے اد اکریگا؟"

تو کمیٹی نے جواب دیا:
"ایسا شخص اپنی استطاعت کے مطابق  نماز پڑھے گا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
( لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا) 
ترجمہ: اللہ تعالی کسی نفس کو اس کی استطاعت سے بڑھ کر مکلّف نہیں بناتا۔ [البقرہ: 286]
اور اسی طرح فرمایا:
(مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ حَرَجٍ)
ترجمہ: اللہ تعالی تم پر کسی قسم کی تنگی نہیں ڈالنا چاہتا۔ [المائدہ: 6]


اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:
(يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ)
ترجمہ: اللہ تعالی تم پر آسانی کرنا چاہتا ہے [البقرہ: 185]

اسی طرح فرمایا:
 ( فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ)  
ترجمہ: تمہارے اندر جتنی استطاعت ہو اس کے مطابق  اللہ سے ڈرو۔ [التغابن: 16]" انتہی
" فتاوى اللجنة الدائمة" (6/403)

تاہم اس بارے میں علمائے کرام کا  اختلاف ہے کہ  کیا ایسی صورتِ حال میں  گونگے بہرے شخص  کو تلاوت و  اذکار کے وقت اپنی زبان کو حرکت دینی ہوگی یا نہیں؟

چنانچہ "الموسوعة الفقهية " (19/92) میں ہے کہ:
"جو شخص تلفظ کی استطاعت  گونگے ہونے یا کسی اور وجہ سے نہ رکھتا ہو تو قولی عبادات اس سے ساقط ہو جائیں گی، اس پر تمام فقہائے کرام کا اتفاق ہے۔
تاہم اس بارے میں  فقہائے کرام کا اختلاف ہے کہ : تکبیر اور قراءت کے وقت  زبان کو خالی حرکت دینا واجب ہے یا نہیں؟
چنانچہ  مالکی، حنبلی، اور احناف کے صحیح موقف کے مطابق: گونگے شخص پر زبان کو حرکت دینا واجب نہیں ہے، بلکہ ایسا شخص دل میں  نماز کی تکبیر  کہے گا؛ کیونکہ زبان کو خالی حرکت دینا ، فضول حرکت ہے، اور شریعت میں اسکا حکم بھی نہیں ہے۔
جبکہ شافعی  فقہائے کرام کے ہاں  گونگے شخص پر زبان، ہونٹ، اور کوّے کو تکبیر کے وقت قدرِ امکان حرکت دینا واجب ہے،  یہی حکم اسکے تشہد، سلام سمیت تمام اذکار کا ہے، ابن رفعہ کہتے ہیں: اگر زبان وغیرہ کو حرکت دینا بھی ممکن نہ ہو تو مریض شخص کی طرح دل سے ادائیگی کی نیت کرے گا۔

لیکن شافعی فقہاء کی یہ بات  ظاہری طور پر ایسے گونگے پن کیلئے ہے جو بعد میں پیدا ہوا ہے، البتہ پیدائشی گونگے  کیلئے زبان کو حرکت دینا واجب نہیں ہے" انتہی

اس مسئلے میں جمہور کا موقف  زیادہ بہتر ہے کہ زبان کو حرکت دینا  بھی ساقط ہے۔

ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"چنانچہ اگر [نمازی] گونگا ہو، یا زبان سے تکبیر کہنا اس کیلئے ناممکن ہو، تو تکبیر کہنا اس سے ساقط ہو جائے گا، ۔۔۔اور اس کیلئے تلاوت  کی جگہوں پر زبان  کو حرکت دینا لازم نہیں ہوگا۔۔۔، کیونکہ  بغیر کسی تلفظ کے زبان کو حرکت دینا فضول عمل ہے، شریعت میں اسکا حکم نہیں دیا گیا، چنانچہ نماز میں ایسا کرنا جائز نہیں ہوگا، جیسے کہ بدن کے دیگر اعضا کو فضول حرکت دینا  جائز نہیں ہے" انتہی مختصراً
"المغنی" (2/130)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اور جو شخص قراءت اور ذکر  نہ  کر سکے، یا گونگا  ہو  تو وہ اپنی زبان کو خالی حرکت نہیں دے گا، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ زبان کو خالی حرکت دینے سے نماز باطل ہو جائے گی تو یہ موقف  زیادہ بہتر ہوگا؛ کیونکہ یہ فضول حرکت ہے، جو کہ خشوع  وخضوع کے خلاف ہے، اور شرعی طریقہ کار میں اضافہ کے مترادف ہے" انتہی
"الفتاوى الكبرى" (5/ 336)

گونگے شخص کی گواہی 

گواہ میں جن شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، اس میں سے ایک یہ ہے کہ اسے قوت گویائی حاصل ہو، گونگا نہ ہو، لہذا اگر کسی شخص میں گواہ کی تمام شرائط موجود ہوں، لیکن قوت گویائی کی شرط موجود نہ ہو، تو ایسا شخص گواہی کا اہل نہیں ہے اور اس کی اشارے سے گواہی دینے پر عدالت فیصلہ صادر کرنے کی مجاز نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الفقہ الاسلامی و ادلته: (شروط اداء الشھادۃ، 564/6، ط: دار الفکر)
النطق: اشترط الحنفیۃ والشافعیۃ والحنابلۃ ان یکون الشاھد ناطقًا فلاتقبل شھادۃ الاخرس وان فہمت اشارتہ لان الاشارۃ لاتعتبر فی الشھادات لانھا تتطلب الیقی
ن
 
22 مئی 2012

بھارتی سپريم کورٹ نے کہا ہے کہ گونگے اور بہرے افراد کی گواہی عدالتی کارروائی ميں اہميت کی حامل ہے اور ايسے افراد اشاروں کی مدد سے اپنی گواہی دے سکتے خبر رساں ادارے اے ايف پی کے مطابق قتل کے ايک مقدمے کی سماعت کے دوران بھارتی عدالت عالیہ نے يہ فيصلہ سنايا ہے کہ گونگے اور بہرے لوگ اشاراس سلسلے ميں پير کے روز سپريم کورٹ کے دو ججوں نے اپنا تحريری فيصلہ سنايا۔ اس فيصلے ميں کہا گيا ہے، ’’گونگے اور بہرے اشخاص کارآمد گواہ ہوتے ہيں۔ ايسے افراد کو محض ان کی جسمانی حالت کی وجہ سے گواہ بننے سے روکا نہيں جا سکتا۔‘‘ ان ججز نے مزيد کہا کہ اشارے، جيسا کہ سر ہلانا اور کسی معاملے پر گردن جھکا کر ہاں کرنا، بيانات جيسی اہميت رکھتے ہيں اور وہ عدالتی کارروائی ميں گواہ کی حيثيت رکھتے ہيں۔

سپريم کورٹ کے اس فيصلے سے قبل گونگے اور بہرے لوگوں کی گواہیوں کو کوئی اہميت حاصل نہيں تھی ليکن اس عدالتی فيصلے کے بعد صورتحال تبدیل ہو جائے گی۔ البتہ خبر ايجنسی اے ايف پی کے مطابق اس نئے فيصلے کے تحت عدالت پر بھی کافی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

بھارت ميں عدالت عظمی کی جانب سے يہ فيصلہ اس مقدمے کی سماعت کے دوران سامنے آیا جس ميں بھارتی رياست راجھستان ميں سن 2001 ميں ہونے والے قتل کے ایک کيس کی کارورائی درست انداز سے اس ليے نہيں ہو سکی تھی کيونکہ پوليس متعلقہ کيس ميں مقتول کی اہليہ سے بيان لينے ميں ناکام رہی تھی۔ مقتول کی اہليہ گونگی اور بہری ہے مگر يہ دعوی کرتی ہے کہ وہ قتل کی چشم ديد گواہ ہے۔ اپنے اس حاليہ فيصلے کے ذريعے بھارتی سپريم کورٹ نے وکيل دفاع کی اس بات کو رد کر ديا کہ گونگے اور بہرے شخص کی گواہی قانونی اہميت نہيں رکھتی کيونکہ وہ ٹھوس ثبوت نہيں ہوتی۔

شریعت میں قوت گویائی سے محروم شخص کی گواہی:

شریعت اسلامی نے گواہ بننے کے لیے چند شرائط مقرر کی ہیں، جن کا گواہی دینے والے کے اندر پایا جانا ضروری ہے، ان شرائط میں سے ایک شرط قوت گویائی بھی ہے، پس اگر کوئی شخص گونگا ہو تو وہ گواہ بننے کا شرعاً اہل نہیں ہے، لہذا گونگے شخص کے گواہ بننے کی صورت میں کیا گیا نکاح شرعاً معتبر نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الفقہ الاسلامی و ادلتہ: (شروط اداء الشھادۃ، 564/6)
لما قال العلامۃ وھبۃ الزحیلیؒ: النطق: اشترط الحنفیۃ والشافعیۃ والحنابلۃ ان یکون الشاھد ناطقًا فلاتقبل شھادۃ الاخرس وان فہمت اشارتہ لان الاشارۃ لاتعتبر فی الشھادات لانھا تتطلب الیقین وانما المطلوب التلفظ بالشھادۃ۔


گونگے کی طلاق 

فقہاء احناف کے نزدیک جو شخص پیدائشی گونگا ہو یا بعد میں گونگا ہوگیا اور اس کے گونگے پن پر کم ازکم ایک سال کا عرصہ گذر گیا اور اس کے اشارے معہود (جانے پہچانے) ہوں اور وہ لکھنے پر قادر نہ ہو اگر ایسے گونگے نے آواز کے ساتھ اپنی بیوی کو ایسے اشارے سے طلاق دی جسے لوگ طلاق سمجھتے ہوں تو اس کی بیوی پر طلاق واقع ہوجائے گی، اور وہ اشارے سے جو طلاق دے گا اگر وہ تین سے کم ہوں تو انھیں رجعی ہی قرار دیا جائے گا، بائنہ نہیں قرار دیا جائے گا، کذا فی الدر والرد (أول کتاب الطلاق: ۴/۴۴۸، ط: زکریا دیوبند)


گونگے شخص کیسے اسلام میں داخل ہوسکتا ہے 


"تفسیر سعدی" (صفحہ: 868)

بخاری: (7288) اور مسلم: (1337)-الفاظ مسلم کے ہیں- ابو ہریرہ رضی اللہ  عنہ  کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب میں تمہیں کسی چیز کے بارے میں حکم دو تو اس پر اپنی استطاعت کے مطابق عمل کرو، اور جب تمہیں کسی چیز سے روک دوں تو  اسے یکسر  چھوڑ دو)

ابن قیم رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
"مکلّف شخص اگر کسی حکم پر مکمل طور سے عمل  نہ کر سکتا ہو تو وہ اپنی استطاعت کے مطابق ضرور عمل کریگا" انتہی
"مدارج السالكین" (1 /382)

چہارم:

"خرس" یعنی: گونگا پن، ایسی کیفیت کو کہتے ہیں جس میں انسان  بیماری کی وجہ سے  یا پیدائشی طور پر بول نہ سکے، عربی میں گونگے مرد کو "اخرس" اور مؤنث کو: "خرساء" کہتے ہیں"۔
"لسان العرب" (6/ 62)

چنانچہ کلمہ شہادت پڑھنے سے عاجز کسی گونگے شخص پر کلمہ شہادت کی ادائیگی  کرنا اسلام میں داخل ہونے کیلئے ضروری نہیں ہے۔

اسی کے حکم میں عجمی جو عربی کی ادائگی سے قاصر ہو، اور کلمہ شہادت پڑھنے سے عاجز افراد بھی شامل ہونگے، ایسے ہی دیگر زبانی عبادات کا بھی یہی حکم ہوگا، کیونکہ اس قسم کے لوگوں کے پاس زبانی عبادت کی استطاعت نہیں ہے۔

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"شریعت کے قواعد و کلّیات میں یہ بھی شامل ہے کہ: "عاجز ہونے کی صورت میں کچھ  واجب نہیں ، اور ضرورت  کے وقت کچھ حرام نہیں"" انتہی
"اعلام الموقعین" (2/ 17)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"زبان سے تلفظ ادا کرنا کسی گونگے شخص  کے ایمان لانے کی شرط نہیں ہے" انتہی
"المسائل والأجوبة" (صفحہ: 131)

قاضی عیاض رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اہل السنہ کا یہ موقف ہے کہ: معرفت الہی  کلمہ شہادت کے ساتھ منسلک ہے، دونوں ایک دوسرے کیلئے لازمی ہیں، کوئی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتا، الّا کہ جس شخص کی زبان کٹی ہوئی ہو، یا اسے کلمہ شہادت پڑھنے کی  مہلت ہی نہیں ملی کہ فوت ہو گیا[اس کیلئے کلمہ شہادت کا زبان سے تلفظ لازمی نہیں ہے]" انتہی
"اكمال المعلم بفوائد مسلم"(1/ 253-254)

گونگا شخص  اگر لکھنے کی استطاعت رکھتا ہو تو لکھ کر اسلام قبول کریگا، یا اشاروں کی مدد سے اسلام میں داخل ہونے  پر رضا مندی اور اسلام قبول کرنے کا اظہار کریگا۔

مسند احمد: (7906) اور ابو داود: (3284) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: "ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک سیاہ لونڈی لیکر آیا جو کہ بول نہیں سکتی تھی، اس شخص نے آ کر کہا: "یا رسول اللہ! میرے ذمہ ایک مؤمن غلام کو آزاد کرنا ہے[اور میں اس لونڈی کو آزاد کرنا چاہتا ہوں]"تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لونڈی سے پوچھا: (اللہ تعالی کہاں ہے؟)تو اس لونڈی نے اپنی شہادت والی انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: (میں کون ہوں؟)تو اس لونڈی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اور آسمان کی طرف اشارہ کیا، یعنی: آپ اللہ کے رسول ہیں، تو اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اسے آزاد کر دو)" اس حدیث کو امام ذہبی نے "العلو" (صفحہ:16) میں حسن کہا ہے، اور البانی نے اسے "ضعیف ابو داود "میں  ضعیف قرار دیا ہے۔

صاحب کتاب : "جواهر الإكليل" میں اُبی رحمہ اللہ  (2/ 52) میں لکھتے ہیں:


"۔۔۔کلمہ شہادت کیلئے  زبان سے تلفظ ادا کرنا  لازمی شرط ہے، تاہم گونگے وغیرہ پر شرط نہیں ہے، لیکن  کوئی ایسی بات  یا قرینہ ضرور ہونا چاہیے جس سے قبول اسلام کا اظہار ہو، اس کے بعد اسے مسلمان سمجھا جائے گا، اور اس پر اسلامی احکامات جاری ہونگے" انتہی


گونگے کی بیع و شراء 

جو شخص زبان کے ذریعہ بولنے سے عاجز ہو ایسے شخص کے لیے اشارے اور تحریر کے ذریعہ معاملات سرانجام دینے کی اجازت ہے اور ایسے گونگے شخص کے حق میں اشارہ کرنا یا لکھ کر دینا یہ زبانی بات چیت (ایجاب وقبول)کے قائم مقام ہے ۔ لہذا گونگا آدمی اپنی زمین اشاروں میں اجازت کے ذریعہ یا تحریری طورپر لکھ دینے کے ذریعہ فروخت کرسکتا ہے، اور اس کے حق میں یہی اشارہ کرنا اور لکھنا گویائی (بولنے) کے قائم مقام ہوگا، چنانچہ فقہاء نے طلاق وغیرہ کے احکام میں اشارے کے ذریعہ گونگے کے تصرفات کو نافذ قرارد یا ہے۔

العناية شرح الهداية - (16 / 271):
قال: ( وإذا كان الأخرس يكتب كتابًا أو يومئ إيماءً يعرف به فإنه يجوز نكاحه وطلاقه وعتاقه وبيعه وشراؤه ويقتص له ومنه ، ولا يحد ولا يحد له ) أما الكتابة فلأنها ممن نأى بمنزلة الخطاب ممن دنا ؛ ألا ترى أن النبي عليه الصلاة والسلام أدى واجب التبليغ مرة بالعبارة وتارة بالكتابة إلى الغيب ، والمجوز في حق الغائب العجز وهو في حق الأخرس أظهر وألزم .

الاختيار لتعليل المختار - (2 / 124):

ويستحلف الأخرس فيقول له القاضي : عليك عهد الله إن كان لهذا عليك هذا الحق ، ويشير الأخرس برأسه : أي نعم .

وفیه أیضاً: (3 / 140):

( ويقع طلاق الأخرس بالإشارة ) والمراد إذا كانت إشارته معلومة.

البحر الرائق شرح كنز الدقائق (9 / 151):

فإن كان الأخرس لايكتب وكان له إشارة تعرف في طلاقه ونكاحه وشرائه وبيعه فهو جائز .

مصرمیں شادی بیاہ روز کی بات ہے اور بعض شادیاں اپنے انوکھے پہلوئوں کی وجہ سے کافی شہرت بھی حاصل کرتی ہیں۔ شادیوں کی گہما گہمی میں مصر میں ایک ایسی شادی بھی انجام پائی ہے جس میں رسم نکاح اشاروں میں منعقد کی گئی۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ نے اس پورے واقعے کی تفصیلات اور اشاروں میں ہونے والی رسم نکاح کی فوٹیج بھی نشرکی ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ منفرد رسم نکاح شمالی مصر کی دمیاط گورنری میں منعقد ہوئی جس میں دلہن باسمین محمد عبدالرزاق اور دلہا احمد الشھاوی رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔

باسمین نے العربیہ ڈاٹ نیٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کے والد پیشے کے اعتبارسے دکاندار ہیں اور فرنیچرکا کروبارکرتے ہیں۔ مگر وہ گونگے اور بہرے ہیں۔

باسمین کا کہنا ہے کہ اس کا رشتہ طے ہونے کےبعد اس کے والد خود ہی میری شادی کے وکیل بننے کے خواہاں تھے۔ پہلے ہم اس کے لیے تیار نہیں تھےمگر آخر کار ہم نے فیصلہ کیا کہ نکاح کی رسم اشاروں میں انجام دی جائے گی۔

باسمین کا کہنا ہے کہ وہ خود بھی اشاروں کی زبان جانتی ہیں۔ اس نے اپنے والد کے اشاروں کا خود ہی اشاروں میں ترجمانی کا فیصلہ کیا اور اس کے بارے میں اپنے نکاح خواں کو بھی بتا دیا۔ نکاح خواں کی طرف سے منظوری کے بعد ہم نے نکاح کی تقریب منعقد کی۔ ایک سوال کے جواب میں باسمین کا کہنا تھا کہ اشاروں میں رسم نکاح کے ذریعے شادی پروہ بے حد خوش ہے۔ وہ اپنی ایک ہمشیرہ اور بھائی کی شادی بھی اس طریقے سے منعقد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

اشاروں کی زبان میں وکالت 

بھارتی سپریم کورٹ میں ایک کیس کی پیروی کے لیے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کے سامنے حاضر ہونا سارہ سنی کے لیے خواب کے حقیقت بننے کے مترادف تھا۔ وہ گزشتہ 22 ستمبر کو عدالت میں حاضر ہوئیں اور علامتی زبان میں ترجمانی کرنے والے(انٹرپریٹر) شخص کی مدد سے اپنے موکل کا کیس پیش کیا۔

 سارہ کو بھارت میں سماعت سے محروم پہلی رجسٹرڈ وکیل سمجھا جاتا ہے، اب وہ سپریم کورٹ میں بھی جرح کرنے والی ایسی پہلی وکیل بن گئیں۔

قبل ازیں چیف جسٹس چندر چوڑ نے سارہ کو انٹرپریٹر کی مدد سے جرح کرنے اجازت دے دی۔ گزشتہ دو سالوں کے دوران کوشش کے باوجود نچلی عدالتوں نے انہیں جرح کے لیے انٹرپریٹر کی مدد حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔

انہوں نے جاوید عابدی فاونڈیشن کی طرف سے دائر کردہ اس عرضی پر جرح کی جس میں معذور آبادی کی مساوی شراکت داری اور حقوق کے نفاذ کی درخواست کی گئی ہے۔

نابینا فوجی ’بیناؤں کے لیے مثال‘

سارہ سنی کی اس کامیابی نے بھارتی عدالتی نظام کو درپیش ایک بڑے چیلنج کو بھی اجاگر کیا ہے کہ سماعت اور گویائی سے محروم افراد کی انصاف تک رسائی کس طرح ہو۔

 بھارت کو آزادی ملنے کے 74سال بعد سن 2021 میں ایک وکیل کے طورپر 27 سالہ سارہ سنی کو باضابطہ رجسٹریشن مل سکا تھا۔


کوما کیا ہے

کوما ایک طویل بے ہوشی کی حالت ہے جو مختلف عوامل کی وجہ سے ہوتی ہے، بشمول سر کا صدمہ، فالج، دماغی رسولی، یا ادویات۔ ثانوی حالات جیسے ذیابیطس یا انفیکشن بھی کوما کو متحرک کر سکتے ہیں۔

یہاں کچھ علامات ہیں جو کوما میں رہنے والا شخص ظاہر کرتا ہے:

  • کوما میں، وہ شخص زندہ ہے، لیکن وہ اپنے اردگرد کی دنیا پر ردعمل ظاہر نہیں کرتا، اور اس کا دماغ بہت غیر فعال ہے۔
  • کوما میں رہنے والا شخص اپنے اردگرد کے ماحول سے بے خبر ہوگا اور سوتا ہوا نظر آئے گا۔ گہری نیند کے برعکس، وہ درد سمیت کسی بھی محرک سے بیدار نہیں ہو سکتے۔
  • کوما کو طبی ایمرجنسی کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، یہ بے ہوشی کی ایسی حالت ہے جس میں فرد ردِ عمل کا اظہار نہیں کرتا اور اسے جگایا بھی نہیں جا سکتا۔ اس کی وجہ سر میں چوٹ یا دھچکا لگنے سے دماغ میں زخم ہو سکتی ہے۔ زہریلی الکحل یا دماغ کی انفیکشن بھی اس کا سبب ہو سکتی ہیں۔ ذیابیطس میں مبتلا افراد میں اگر گلوکوز کی سطح اچانک گر جائے یا بہت زیادہ ہو جائے تو وہ بھی کوما کی حالت میں جا سکتے ہیں۔ ذیل میں دی گئی معلومات بالخصوص ان افراد کے لیے مفید ہوں گی جن کا کوئی اپنا کوما کی حالت میں ہے۔ کوما کیا ہے؟: کوما میں بے ہوشی طاری ہوتی ہے اور دماغ کی سرگرمی کم ترین سطح پر آ جاتی ہے۔ ایسے افراد زندہ ہوتے ہیں لیکن انہیں جگایا نہیں جا سکتا۔ وہ ایسی علامات ظاہر نہیں کرتے جن سے معلوم ہو کہ وہ اردگرد سے آگاہ ہیں۔ ایسے میں فرد کی آنکھیں بند ہوں گی اور اردگرد کے ماحول میں ہونے والی تبدیلیوں پر ردعمل ظاہر نہیں کرے گا۔ کوما کی حالت میں افراد عام طور پر آواز یا درد کی صورت میں ردعمل ظاہر نہیں کرتے۔ نہ وہ کچھ کہہ سکتے ہیں اور نہ خود حرکت کر سکتے ہیں۔ انہیں کھانسی بھی بمشکل آتی ہے۔ وہ ازخود سانس لینے کے قابل ہوتے ہیں، تاہم بعض افراد کو سانس کی مشین کی مدد درکار ہوتی ہے۔ کچھ افراد چند ہفتوں بعد بیدار ہو جاتے ہیں جبکہ بعض گہرے کوما میں چلے جاتے ہیں۔ مریض کی دیکھ بھال: ڈاکٹر عموماً ایسے فرد کی شعوری سطح کا اندازہ ایک پیمانے سے لگاتے ہیں جسے ’’گلاسکو کوما سکیل‘‘ کہا جاتا ہے۔ فردکے شعور کی سطح کا باقاعدگی سے معائنہ کیا جاتا ہے۔ اس پیمانے کے مطابق تین چیزوں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ آنکھ کھلنا… اگر سکور ایک ہو تو اس کا مطلب ہے کہ آنکھ کھل نہیں رہی، اور چار سکور کا مطلب ہے کہ آنکھ اچانک کھل جاتی ہے۔ زبانی ردعمل… اگر سکور ایک ہو تو اس کا مطلب ہے کہ کوئی زبانی ردعمل نہیں اور اگر پانچ ہو تو وہ الرٹ ہے اور بات کر سکتا ہے۔ بتانے پر جسمانی حرکت… اگر فرد کوئی حرکت نہ کرے تو اس کا سکور ایک ہوگا اور اگر وہ حرکت کرے تو چھ ہو گا۔ کوما کی حالت میں زیادہ تر افراد کا کل سکور آٹھ یا اس سے کم ہوتا ہے۔ اگر سکور کم ہو تو اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ دماغ کو زیادہ نقصان پہنچا ہے اور بحالی آسان نہیں ہوگی۔ کچھ عرصہ کوما میں مبتلا فرد کو ’’انٹنسو کیئر یونٹ‘‘ یا آئی سی یو میں رکھا جاتا ہے۔ علاج کے دوران اس امر کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ حالت نہ بگڑے اور ضروری جسمانی افعال جاری رہیں، جیسا کہ مریض سانس لیتا رہے اور اس کا فشار خون نارمل رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کوما میں جانے کے سبب کو دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔بعدازاں عموماً ایسے مریض کو ہسپتال کے وارڈ میں شفٹ کر دیا جاتا ہے۔ اس دوران مریض کی خوراک اور انفیکشن سے بچاؤ کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے۔ مریض کو بستر پر باقاعدگی سے حرکت دی جاتی ہے تاکہ بستر پر ایک ہی حالت میں پڑے رہنے سے اس کے جسم پر زخم نہ ہو جائیں۔ مریض کے جوڑوں کو آرام سے ورزش بھی کرائی جاتی ہے تاکہ وہ سخت نہ ہو جائیں۔ تیماردار کو کیا کرنا چاہیے؟: مختلف افراد میں کوما مختلف طرح کا ہوتا ہے۔ بحال ہونے پر کچھ لوگوں کو ایسے واقعات یاد ہوتے ہیں جو اردگرد پیش آئے ہوں، جبکہ دوسروں کو کچھ بھی یاد نہیں ہوتا۔ اگر آپ کا کوئی اپنا کوما کی حالت میں ہے اور آپ تیمارداری کے لیے ہسپتال ملنے جا رہے ہیں تو آپ کو مندرجہ ذیل کام کرنے چاہئیں۔ ٭ یہ بتائیں کہ آپ کون ہیں۔ ٭ آپ کا دن کیسا گزرا، اس کے بارے میں بالکل نارمل انداز میں مریض کو بتائیں۔ یاد رکھیں، جو کچھ بھی آپ کہہ رہے ہیں، ممکن ہے مریض سن رہا ہو۔ ٭ اپنی چاہت، دوستی یا لگاؤ کا اظہار کریں۔ اس کے ساتھ بیٹھیں، ہاتھ کو آرام سے تھامیں یا جِلد کو آہستگی سے چھوئیں۔ ممکن ہے اس سے مریض کو راحت کا احساس ہو۔ تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ چھونے، سننے، دیکھنے اور سونگھنے جیسی بنیادی حسوں کو متحرک کرنے سے کوما سے واپسی کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ آپ کمرے میں مریض کی پسندیدہ خوشبو بکھیر سکتے ہیں یا اس کی پسندیدہ موسیقی سنوا سکتے ہیں۔ بحالی: عام طور پر کوما چند ہفتے رہتا ہے جس کے دوران فرد آہستہ آہستہ جاگنے اور شعور حاصل کرنے لگتا ہے۔ تاہم یہ بھی ممکن ہے کہ وہ زیادہ گہری بے ہوشی کا شکار ہو جائے۔ بعض افراد اس حالت سے بھی دھیرے دھیرے نکل آتے ہیں، جبکہ کچھ افراد سالوں تک بہتری کی جانب مائل نہیں ہوتے۔جو افراد کوما سے واپس آتے ہیں زیادہ تر انہیں پوری طرح باشعور ہونے میں وقت لگتا ہے اور دشواری کا سامنا رہتا ہے۔ کچھ لوگ فوراً بحال ہو جاتے ہیں اور نہیں لگتا کہ وہ کوما کی حالت میں تھے۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو دماغ کی چوٹ کی وجہ سے معذور ہو جاتے ہیں۔ انہیں فزیوتھراپی یا اکوپیشنل تھراپی کی ضرورت پڑتی ہے۔ ان کی نفسیاتی حالت کی جانچ بھی کی جاتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ بدنصیبوں کو تاحیات مدد کی ضرورت رہے۔ کوما سے بحال کا دارومدار سبب کی شدت، عمر اور کوما کے عرصے پر ہوتا ہے۔ یہ پیش گوئی کرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے کہ فرد مکمل طور پر کب بحال ہو گا۔ اسی طرح یہ بتانا بھی کم و بیش ممکن نہیں ہوتا کہ کوما کتنا عرصہ رہے گا۔

کوما ‘‘ کے مریض کی بے ہوشی ایک دن اور ایک رات مسلسل (دن را ت کی پانچ نمازوں) سے زیادہ ہو تو ا س کے لیے ان نمازوں کی قضا  نہیں ہے، لیکن اگر کومے  کا مریض اس سے کم وقت بے ہوش رہے تو فوت شدہ نمازوں کی قضا  کرے گا۔

المحیط البرہانی میں ہے:

"وفي «واقعات الناطفي»: قدر المطبق في قول أبي حنيفة وأبي يوسف رحمهما الله بالشهر، فالحاصل أن الصلوات في حق المطبق تقدر بست صلوات وفي حق الصوم بالشهور، وفي الزكاة وما سواها على الخلاف، وإذا عرفت حد الجنون المطبق فغير المطبق ما دونه وهو المراد في قوله في الكتاب يجن ويفيق". (3/45، الفصل الثالث، ط: بيروت)

درر الحکام شرح غرر الاحکام میں ہے:

"الجنون المطبق عند أبي يوسف أكثر السنة، وفي رواية عنده أكثر من يوم وليلة، وكان محمد يقول أولاً: شهر، ثم رجع، فقال: سنة كاملة، وقول أبي حنيفة شهر، وبه يفتى لا محالة، ففي الصلوات ست صلوات، وفي الصوم والزكاة على الخلاف الذي ذكرنا".  (درر الحكام، 1/156، ط: بيروت)

رد المحتار میں ہے:

"(قوله: المطبق) بالكسر كما في المغرب وفي القاموس أطبقه غطاه ومنه الجنون المطبق والحمى المطبقة  والمراد به الملازم الممتد. والذي حرره ابن الهمام في التحرير وفتح القدير وتبعه في البحر أن قدر الامتداد المسقط في الصلوات بصيرورتها ستًّا عند محمد، وفي الصوم باستغراق الشهر ليله ونهاره، وفي الزكاة باستغراق الحول". (رد المحتار 2/108، ط: سعيد)

البحر الرائق میں ہے:

"أن المجنون يفيق في أثناء الشهر ولو ساعة يلزمه قضاء كل الشهر وكذا الذي جن أو أغمي عليه أكثر من صلاة يوم وليلة لايقضي وفيما دونها يقضي انقدح في ذهنه إيجاب القضاء على هذا لامريض إلى يوم وليلة حتى يلزم الإيصاء به إن قدر عليه بطريق وسقوطه إن زاد ثم رأيت عن بعض المشايخ إن كانت الفوائت أكثر من يوم وليلة لا يجب عليه القضاء وإن كانت أقل وجب قال في الينابيع وهو الصحيح". (2/125، باب: لم يقدر المصلي المريض على الإيماء برأسه، ط: بيروت)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما المجنون الذي يجن في حال ويفيق في حال فما يوجد منه حال إفاقته فهو فيه بمنزلة سائر العقلاء وما يوجد منه في حال جنونه فهو بمنزلة المجنون المطبق اعتبارا للحقيقة". (بدائع الصنائع 4 / 55، ط: بيروت) 


کومہ کے مریض کا فسخ نکاح 


 عدالت سے رجوع کرکے بیوی شوہر  کی  کوما  میں ہونے کی کیفیت ثابت کرے، اور پھر اپنے اعذار پیش کرے، مثلاً: شوہر کے کومے  میں ہونے کی بنا پر اسے نان نفقہ نہیں مل رہا،  یا اپنے اوپر فتنے کا اندیشہ ہے وغیرہ ، اس کے بعد عدالت دونوں کے درمیان نکاح کو فسخ کردے تو نکاح ختم ہوجائے گا۔

أراء الفقهاء في التفريق لعدم الإنفاق:
للفقهاء رأيان: رأي الحنفية، ورأي الجمهور (١):
أولا ـ رأي الحنفية: لا يجوز في مذهب الحنفية والإمامية التفريق لعدم الإنفاق؛ لأن الزوج إما معسر أو موسر. فإن كان معسرا فلا ظلم منه بعدم الإنفاق، والله تعالى يقول: {لينفق ذو سعة من سعته، ومن قدر عليه رزقه، فلينفق مما آتاه الله، لا يكلف الله نفسا إلا ما آتاها، سيجعل الله بعد عسر يسرا} [الطلاق:٧/ ٦٥] وإذا لم يكن ظالما فلا نظلمه بإيقاع الطلاق عليه. 

وإن كان موسرا فهو ظالم بعدم الإنفاق، ولكن دفع ظلمه لا يتعين بالتفريق، بل بوسائل أخرى كبيع ماله جبرا عنه للإنفاق على زوجته، وحبسه لإرغامه على الإنفاق. ويجاب بأنه قد يتعين التفريق لعدم الإنفاق لدفع الضرر عن الزوجة.
ويؤكده أنه لم يؤثر عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه مكن امرأة قط من الفسخ بسبب إعسار زوجها، ولا أعلمها بأن الفسخ حق لها. ويجاب بأن التفريق بسبب الإعسار مرهون بطلب المرأة، ولم تطلب الصحابيات التفريق.
ثانيا ـ رأي الجمهور: أجاز الأئمة الثلاثة التفريق لعدم الإنفاق لما يأتي:
١ - قوله تعالى: {ولا تمسكوهن ضرارا لتعتدوا} [البقرة:٢٣١/ ٢] وإمساك المرأة بدون إنفاق عليها إضرار بها. وقوله تعالى: {فإمساك بمعروف أو تسريح بإحسان} [البقرة:٢٢٩/ ٢] وليس من الإمساك بالمعروف أن يمتنع عن الإنفاق عليها.
٢ - قال أبو الزناد: سألت سعيد بن المسيب عن الرجل لا يجد ماينفق على امرأته، أيفرق بينهما؟ قال: نعم، قلت له: سنة؟ قال: سنة. وقول سعيد: سنة، يعني سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم.
٣ - كتب عمر رضي الله عنه إلى أمراء الأجناد، في رجال غابوا عن نسائهم، يأمرهم أن يأخذوهم أن ينفقوا أو يطلقوا، فإن طلقوا بعثوا بنفقة ما مضى.
٤ - إن عدم الإنفاق أشد ضررا على المرأة من سبب العجز عن الاتصال الجنسي، فيكون لها الحق في طلب التفريق بسبب الإعسار أو العجز عن الإنفاق من باب أولى. والراجح لدي رأي الجمهور لقوة أدلتهم، ودفعا للضرر عن المرأة، ولا ضرر ولا ضرار في الإسلام.(الفقه الإسلامي وأدلته: ٩/ ٧٠٤٣-٧٠٤٥


قیدی کافسخ نکاح 





 عورت کے شوہر کو بیس سال قید کی سزا ہوئی ہے، اور  اس کی جلد رہائی کی کوئی امید نہیں ہے تو  ایسی صورت میں اگر عورت کے لیے  نان ونفقہ اور گزارہ کا کچھ انتظام ہو،  اور وہ اتنی مدت تک صبروتحمل اور عفت کے ساتھ زندگی گزارسکے تو    وہ عورت صبر کرے، اور اگراس کے نان و نفقہ کا کوئی انتظام نہ ہو یا شوہر کے بغیر رہنے میں عفت وعصمت پر داغ لگنے اور گناہ اور فتنہ میں پڑنے کا قوی اندیشہ ہے تو ایسی صورت میں شوہر سے طلاق لے لے یا باہمی رضامندی سے خلع حاصل کرلے، البتہ اگر اس  کی صورت نہ  ہو تو  مجبوری میں مسلمان جج کی عدالت میں  فسخ نکاح کا دعوی دائر کرے،   اور قاضی مکمل تحقیق کے بعد  دونوں کے نکاح کو فسخ کرسکتا ہے۔

کفایت المفتی میں ہے: 

"(سوال)  ایک شخص کو کالے پانی کی سزا  بتعین ۲۰ سال کی ہوئی ہے اور اس  کی بیوی جوان ہے وہ اس  عرصہ تک نہیں رہ سکتی اور اپنی شادی کرنا چاہتی ہے تو ایسی صورت میں عقد ثانی کا کیا حکم ہے؟

(جواب ۹۹)  اگر ممکن  ہو تو اس قیدی شوہر سے طلاق حاصل کرلی جائے لیکن اگر حصول طلاق کی کوئی صورت ممکن  نہ ہو تو پھر یہ حکم ہے کہ اگر عورت اتنی طویل مدت تک صبر نہ کرسکتی ہو یا اس کے نفقہ کی کوئی صورت خاوند کی جائداد وغیرہ سے نہ ہوتو کسی مسلمان حاکم سے نکاح فسخ کرالیا جائے - اور بعد فسخ  نکاح و انقضائے عدت دوسرا نکاح کردیا جائے ۔ محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ"

(کفایت المفتی ، کتاب الطلاق، 6/ 111، ط: دارالاشاعت)



 اگر کسی نابالغہ کا نکاح بچپن میں اس کے والد اور دادا کے علاوہ کوئی اور فردکروائے تو بلوغت کے بعد عورت کو اس نکاح کے فسخ کااختیار ہوتاہے،البتہ اگر والد یادادا بچپن میں کسی کا نکاح کروادیں تو شرعی طور پرلڑکی کو خیارِ بلوغ (یعنی بلوغت کے بعد اس نکاح کے فسخ کااختیار)حاصل نہیں ہوتا، اگرچہ والد، یادادا کاانتقال ہوجائے۔ 

رشتہ کے سلسلہ میں اولاد کو چاہیے کہ والدین کو اپنا خیرخواہ سمجھتے ہوئے ان کی پسند کو  اپنی پسند پر ترجیح دیں، اس لیے کہ عموماً والدین اور بزرگوں کے طے کردہ رشتے آگے چل کر خوش گوار ثابت ہوتے ہیں، ممکن ہے کہ ایک چیز فی الحال ناپسند ہو، لیکن بعد میں وہ خیر اور محبت کا ذریعہ بن جائے، اور جو رشتے وقتی جذبات سے مغلوب ہوکر کیے جاتے ہیں تجربہ شاہد ہے کہ عموماً وہ ناپائیدار ہوتے ہیں، وقتی پسند بعد میں ناپسندیدگی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

البتہ اگر باپ دادا  فاسق، فاجر، لالچی ہوں اور معاشرے میں اچھی شہرت کے حامل نہ ہوں اور انہوں نے ایسے مرد سے نکاح کروایا جو لڑکی کا  کفو (ہم پلہ)نہ ہو تو ان صورتوں میں لڑکی کو شرعاً فسخ کااختیار حاصل ہوگا۔اور اس صورت میں یہ شرط ہے کہ بلوغت یاسمجھ داری کے فوراً بعد لڑکی زبان سے اس نکاح کو فسخ کردے اور اس پر گواہ بھی بنالے۔اور پھر کسی مسلمان جج کی عدالت میں دعویٰ دائر کرکے گواہوں کے ذریعہ مذکورہ نکاح کو فسخ کرادے۔

البحرالرائق میں ہے :

"( قوله: ولهما خيار الفسخ بالبلوغ في غير الأب والجد بشرط القضاء) أي للصغير والصغيرة إذا بلغا وقد زوجا، أن يفسخا عقد النكاح الصادر من ولي غير أب ولا جد بشرط قضاء القاضي بالفرقة، وهذا عند أبي حنيفة ومحمد رحمهماالله ... بخلاف ما إذا زوجها الأب والجد؛ فإنه لا خيار لهما بعد بلوغهما؛ لأنهما كاملا الرأي وافرا الشفقة فيلزم العقد بمباشرتهما كما إذا باشراه برضاهما بعد البلوغ". (8/123)

فتاوی شامی میں ہے :

"( ولزم النكاح ولو بغبن فاحش ) بنقص مهرها وزيادة مهره ( أو ) زوجها ( بغير كفء إن كان الولي ) المزوج بنفسه بغبن ( أباً أو جدًا) وكذا المولى وابن المجنونة ( لم يعرف منهما سوء الاختيار ) مجانةً وفسقًا  ( وإن عرف لا) يصح النكاح اتفاقًا، وكذا لو كان سكران فزوجها من فاسق أو شرير أو فقير أو ذي حرفة دنيئة؛ لظهور سوء اختياره فلاتعارضه شفقته المظنونة، بحر". (3/66

نابالغ کے معاملہ کی کارروائی 

خیارِ بلوغ شرعی طور پر نابالغ لڑکے اور نابالغ لڑکی، دونوں کے لیے ثابت ہوتا ہے۔ اگر خیارِ بلوغ کے ذریعہ لڑکی کی طرف سے فرقت واقع ہوئی ہو تو وہ بالاتفاق فسخِ نکاح  کے حکم میں ہے؛ اس لیے کہ لڑکی طلاق کی مالک نہیں ہوتی۔ البتہ اگر خیارِ بلوغ لڑکے کی طرف سے ہو تو یہ اختلافی صورت ہے، طرفین رحمہما اللہ  کے نزدیک  یہ فرقت طلاق  کے حکم میں ہے، جب کہ امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے نزدیک یہ فرقت فسخِ نکاح کے حکم میں ہے۔

علامہ شامی رحمہ اللہ  نے امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے اصول کو اختیار کرتے ہوئے یہ ضابطہ بیان کیا ہے کہ جو فرقت لڑکی کی جانب سے ممکن ہو، وہ فرقت  فسخِ نکاح کے حکم میں ہے، نہ کہ طلاق کے حکم میں۔

فسخِ نکاح کا اثر یہ ہے کہ اگر مذکورہ لڑکا دوبارہ مذکورہ لڑکلی سے شادی کرلے تو اسے تین طلاقوں کا اختیار ہوگا۔ نیز اگر لڑکے کی طرف سے دخول سے پہلے خیارِ بلوغ کی وجہ سے فرقت حاصل کی گئی ہو تو لڑکے پر مہر واجب نہیں ہوگا، جب کہ دخول سے پہلے طلاق کی صورت میں نصف مہر واجب ہوتا ہے۔

 لہذا  صورتِ  مسئولہ میں خیارِ بلوغ سے واقع ہونے والی فرقت  ہر حال میں فسخ ہے، نہ کہ طلاق۔

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (2 / 174):

(وإباؤه طلاق لا إباؤها)، وقال أبو يوسف إباؤه أيضا لايكون طلاقا؛ لأنه يتصور وجوده من المرأة وبمثله لا يقع الطلاق كالفرقة بسبب الملك والمحرمية وخيار البلوغ، وهذا لأن الطلاق ليس إليها فكل سبب تشاركه المرأة فيه على معنى أنه يتحقق وجوده منها لا يكون طلاقا إذا وجد منه كما لا يكون طلاقا فيما إذا وجد منها ولهما أنه فات الإمساك بالمعروف من جانبه فتعين التسريح بالإحسان فإن طلق وإلا ناب القاضي منابه ولهذا المعنى صارت الفرقة بسبب  الجب والعنة طلاقا بخلاف إبائها؛ لأن الطلاق لا يكون منها حتى ينوب القاضي منابها وبخلاف ما استشهد به من الأحكام فإن الفرقة فيه لا لهذا المعنى وبخلاف ردته أيضا عند أبي حنيفة؛ لأن الفرقة فيها للتنافي، وهذا لأن الردة تنافي النكاح ابتداء فكذا تنافيه بقاء ولهذا لا يحتاج فيه إلى حكم الحاكم وفي الإباء يحتاج إليه، ولو كان الزوج صغيرا أو مجنونا يكون طلاقا عندهما لما ذكرنا من المعنى وهي من أغرب المسائل حيث يقع الطلاق منهما ونظيره إذا كانا مجنونين أو كان المجنون عنينا فإن القاضي يفرق بينهما ويكون طلاقا اتفاقا، ثم إذا وقعت الفرقة بالإباء فإن كان بعد الدخول بها فلها المهر كله؛ لأنه تأكد به وإن كان قبل الدخول فإن كان بإبائه فلها نصف المهر؛ لأنه قبل الدخول وإن كان بإبائها فلا مهر لها؛ لأنها فوتت المبدل قبل تأكد البدل فأشبه الردة والمطاوعة.

خیار بلوغ کب رھتا ھے 

والد یادادا کے بچپن میں کرائے گئے نکاح میں بالغ ہونے کے بعد خیار بلوغ نہیں رہتا ،بشرطیکہ والدیادادا کی طرف سے سوء خیار نہ پایاجائے، اور سوء خیار ہونے کی صورت میں حکم میں درج ذیل تفصیل ہے:

۱۔عموما چونکہ اس میں سوء خیار کی بناء پرصالحہ کا غیر کفویعنی فاسق کے ساتھ نکاح ہوتا ہے،لہذا ایسا نکاح منعقد ہی نہیں ہوگا۔

۲۔اوراگروالدنے نابالغ بچی کانکاح بدوں شرط کفوکیا ہواور بعد میں معلوم ہوا کہ شوہر کفو نہیں تو اس بارے میں راجح یہ ہے کہ نکاح صحیح ہے اور لڑکی کو خیار بلوغ حاصل نہ ہوگا۔

۳۔اور اگروالدنے نابالغ بچی کا نکاح مہر مثل کے ساتھ کفومیں کیاہو،البتہ سوء خیار کی وجہ سے اس میں باپ کی طمع اور ذاتی غرض کی وجہ سے بچی کے حقوق زوجیت کی مصلحت ورعایت کا نہ پایاجانا یقینی ہو ،مثلا عمرمیں بہت زیادہ  فرق ہو یا شوہر دائم المرض ہو یا معتوہ ہو یا اپاہج ہو تو اس بارے میں  نکاح تو باطل نہ ہوگا ،لیکن لڑکی کو سوء خیار کی وجہ سے خیار بلوغ دیا جائے گا،لہذا وہ خیار بلوغ کی شرائط معہودہ کے ساتھ عدالت میں  مقدمہ پیش کر ے اور حاکم اہل رائے سے حالات کی تحقیق کرکے مناسب سمجھے تو نکاح فسخ کردے(ماخوذ ازاحسن الفتاوی:ج۵،ص۱۱۸ تا ۱۲۴)

والد کے علاوہ کسی دوسرے ولی کے بچپن کے نکاح میں بالغ ہونے کے بعد خیار بلوغ رہتا ہے بشرطیکہ بالغ ہونے کے فورا بعدمجلس علم انکار کرے ،سکوت کرنے سے خیار باطل ہوجائے گا اور خیار بلوغ استعمال کرتے ہوئے نکاح رد کردیا تو نکاح باطل ہوجائے گا۔

نابالغ کا نکاح 


 اگر نابالغہ لڑکی کا نکاح باپ یا دادا کردے تو اس صورت میں لڑکی کو بالغ ہونے کے بعد نکاح فسخ کروانے کا  حق نہیں ہوتا الّا یہ کہ باپ دادا کا سئی الاختیار ہونا معروف ہو یعنی باپ دادا نے  کسی نابالغہ   بیٹی یاپوتی کا نکاح کسی لالچ وغیرہ  میں  آکر  نا مناسب جگہ کردیا ہو،اور باپ دادا کے علاوہ کوئی اور شخص اگر   نابالغہ لڑکی کا نکاح کسی سے  کردے تو بالغ ہونے کے بعد لڑکی کو نکاح فسخ کروانے کا اختیار ہوتا ہےبشرط یہ کہ لڑکی نے بالغ ہونے کے بعد اس نکاح پر رضامندی کا اظہار نہ کیا ہو۔

 نابالغہ لڑکی کا نکاح چوں کہ اس کے باپ نے کروایا ہے اور اس سے پہلے باپ نے کسی بچی کا نامناسب جگہ نکاح  بھی نہیں کیا ہے،اس لیے  یہ نکاح شرعاً منعقد ہوگیا ہے اور اب لڑکی  کو نکاح کے ختم کرنا کا اختیار بھی  نہیں ہے، البتہ اگر بیٹی اور اس کی والدہ یہ سمجھتی ہیں کہ وہ مرد ظالم ہے اور اس کے ساتھ لڑکی کا رہنا دشوار ہے تو ایسی صورت میں اس سے کسی طرح  طلاق یا اس کی رضامندی سے خلع لے  لیں۔

الدر المختار و حاشیۃ ابن عابدین میں ہے:

"(وللولي) الآتي بيانه (‌إنكاح ‌الصغير والصغيرة)جبرا (ولو ثيبا) كمعتوه ومجنون شهرا (ولزم النكاح ولو بغبن فاحش) بنقص مهرها وزيادة مهره (أو) زوجها (بغير كفء إن كان الولي) المزوج بنفسه بغبن (أبا أو جدا) وكذا المولى وابن المجنونة (لم يعرف منهما سوء الاختيار) مجانة وفسقا(وإن عرف لا) يصح النكاح اتفاقا وكذا لو كان سكران فزوجها من فاسق، أو شرير، أو فقير، أو ذي حرفة دنية لظهور سوء اختياره فلا تعارضه شفقته المظنونة

و في الرد: أن المانع هو كون الأب مشهورا بسوء الاختيار قبل العقد فإذا لم يكن مشهورا بذلك ثم زوج بنته من فاسق صح وإن تحقق بذلك أنه سيئ الاختيار واشتهر به عند الناس، فلو زوج بنتا أخرى من فاسق لم يصح الثاني لأنه كان مشهورا بسوء الاختيار قبله، بخلاف العقد الأول لعدم وجود المانع قبله۔"

(کتاب النکاح، باب الولی: 3 / 65، 66، ط: سعید)


نابالغ کی طلاق 

 جب تک شوہر نابالغ ہے تب تک وہ یا اس کا والد اس کی بیوی کو طلاق نہیں دے سکتا، شوہر کے بالغ ہونے کا انتظار کرنا پڑے گا۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

" وأهله زوج عاقل بالغ مستيقظ.

(قوله: وأهله زوج عاقل إلخ) احترز بالزوج عن سيد العبد ووالد الصغير، وبالعاقل ولو حكما عن المجنون والمعتوه والمدهوش والمبرسم والمغمى عليه، بخلاف السكران مضطرا أو مكرها، وبالبالغ عن الصبي ‌ولو ‌مراهقا، وبالمستيقظ عن النائم. "

(كتاب الطلاق، 3/ 230، ط: سعيد)

’’بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع ‘‘میں ہے:

" ومنها أن يكون بالغا فلا يقع طلاق الصبي وإن كان عاقلا لأن الطلاق لم يشرع إلا عند خروج النكاح من أن يكون مصلحة وإنما يعرف ذلك بالتأمل والصبي لاشتغاله باللهو واللعب لا يتأمل فلا يعرف."

(كتاب الطلاق، فصل في شرائط ركن الطلاق، 3/ 100، ط: سعيد)


 وکالت کی حقیقت یہ ہے کہ  آپ عدالت میں قاضی کے سامنے اپنے موکل کی جانب سے تنازعات میں ظلم کے خاتمے یا حق کے حصول کیلیے کوشش کریں۔

ایسی صورت میں بنیادی طور پر وکالت  جائز ہے۔

ابن قطان رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"تنازعات اور حق طلبی  میں کسی کی وکالت کرنا کہ موکل بھی حاضر  اور ملزم  بھی اس پر راضی ہو تو اس کے جائز ہونے پر اجماع ہے" ختم شد
"الإقناع" (2 / 156)

شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"[عربی زبان میں  مستعمل لفظ: ] "محامی" تنازعات میں وکالت کرنے والے کو کہتے ہیں، اور تنازعات میں وکالت  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد سے لیکر اب تک موجود ہے، لہذا کسی کا وکیل بننے میں کوئی حرج نہیں، البتہ وکیل کو "محامی" کہنا یہ نیا نام ہے۔

تاہم اگر وکیل اللہ سے ڈرے اور اپنے موکل کا غلط اقدامات  اور جھوٹ پر معاون نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے" ختم شد
"فتاوى نور على الدرب" (19 / 231)

اس لیے وکیل کی ذمہ داری بنتی ہے کہ  اصل حقدار کے حق کا تحفظ کرے، لیکن ظالم  کی ظلم پر یا غاصب کی مدد کرنا کسی صورت جائز نہیں۔

فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ )
ترجمہ: اور نیکی اور تقوی کے کاموں میں باہمی تعاون کرو  لیکن گناہ اور زیادتی کے کاموں میں باہمی تعاون مت کرو، اور اللہ سے ڈرو، بیشک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔[ المائدة :2]

ایسے ہی فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَلَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتَانُونَ أَنْفُسَهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَّانًا أَثِيمًا )
ترجمہ: ان لوگوں کی طرف سے مباحثہ مت کریں جو اپنے آپ سے خیانت کرتے ہیں، بیشک اللہ تعالی بہت زیادہ خیانت کرنے والے اور گناہ گار سے  محبت نہیں فرماتا۔[ النساء :107]

شیخ عبدالرحمن سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"( وَلَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتَانُونَ أَنْفُسَهُمْ) اس ایت میں "يَخْتَانُونَ" کا ماخذ خیانت ہے  اور  اس کا مصدر " اختتان" ہے اس کا یہاں پر مطلب ہے جرم، ظلم اور گناہ۔ یہاں آیت میں اس بات سے بھی ممانعت ہے کہ  کوئی شخص جرم کر بیٹھے  اور اس پر سزا، حد یا تعزیر لاگو کرنے کا حکم جاری کر دیا جائے تو اب اس کی سزا، حد یا تعزیر  ختم کروانے کیلیے  اس کے جرم کا دفاع نہیں کیا جائے گا، یا اس پر جاری ہونے والی قانونی سزا  کو ختم کروانے کی کوشش نہیں کی جائے گی؛ (إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَّانًا أَثِيمًا) مطلب یہ ہے کہ: جو بہت زیادہ جرم کرتا ہو اور گناہ کرتا ہو، اور جب کسی کے دل سے محبت ختم ہو گئی تو اس کا متضاد ثابت ہو گیا اور وہ ہے بغض[یعنی اللہ تعالی اس سے محبت نہیں کرتا تو اس سے نفرت فرماتا ہے]، گویا کہ  یہ حصہ آیت کی ابتدا میں موجود ممانعت کی علت اور سبب ہے" ختم شد
"تفسیر السعدی" (ص 200)

یحیی بن راشد کہتے ہیں ہم عبد اللہ بن عمر رضی الہ عنہ کی انتظار میں بیٹھے تھے تو آپ ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا  آپ فرما رہے تھے: (جس کی سفارش اللہ کی حدود میں سے کسی حد  کے آڑے آ گئی تو اس نے اللہ تعالی کے ساتھ ضد بازی کی، جو شخص جانتے ہوئے بھی جھوٹے معاملے کی مدافعت کرے تو وہ اس وقت تک اللہ کی ناراضگی میں رہتا ہے جب تک وہ اس وکالت سے نکل نہیں جاتا، اور جو شخص کسی مومن کے بارے میں ایسی بات کہتا ہے جو اس میں ہے ہی نہیں تو اللہ تعالی اسے  جہنمیوں کے نچوڑ میں ٹھہرائے گا یہاں تک کہ وہ اس بات سے رجوع کر لے جو اس نے کہی تھی)
ابو داود (3597) اسے البانی رحمہ اللہ نے سلسلہ صحیحہ (1/798) میں صحیح کہا ہے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"وکالت اس کو کہتے ہیں کہ:  انسان کسی کی طرف سے نیابت کرتے ہوئے اس کے جھگڑے کی پیروی کرے، اور اس کی دو قسمیں ہیں:  ایک قسم وہ ہے جس میں انسان حق بات کے ذریعے حق کا تحفظ کرتا ہے، تو ایسی وکالت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ اس میں زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ آپ نے کسی شخص کو اجرت کے عوض میں وکالت اور نیابت پر رکھ لیا ہے اور اجرت کے عوض نیابت  میں کوئی حرج نہیں ہے۔




وکیل مسخر کاحکم 


الَّذِي بِيَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ.

وہ (شوہر) جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے۔

البقرة، 2: 237

یعنی طلاق دینے کا اصل اختیار شوہر کے ہاتھ میں ہوتا ہے لیکن وہ اپنا یہ اختیار کسی اور کو بھی سونپ سکتا ہے۔ شوہر چاہے تو طلاق دینے کے لیے اپنی طرف سے وکیل مقرر کر سکتا ہے، بذریعہ قاصد طلاق بھیج سکتا ہے یا طلاق دینے کا حق بیوی کو تفویض کر سکتا ہے۔ آج کل کے دور میں بذریعہ ای میل، واٹس ایپ، ٹیکسٹ میسج، وائس میسج یا دیگر تمام جدید ذرائع خود بھی طلاق دے سکتا ہے اور کسی دوسرے شخص کو بھی طلاق دینے کا اختیار سونپ سکتا ہے۔ بذریعہ وکیل طلاق دینے کی مثال درج ذیل حدیث مبارکہ میں ہے:

عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ، أَنَّ أَبَا عَمْرِو بْنَ حَفْصٍ طَلَّقَهَا الْبَتَّةَ، وَهُوَ غَائِبٌ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا وَكِيلُهُ بِشَعِيرٍ، فَسَخِطَتْهُ، فَقَالَ: وَاللهِ مَا لَكِ عَلَيْنَا مِنْ شَيْءٍ، فَجَاءَتْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: لَيْسَ لَكِ عَلَيْهِ نَفَقَةٌ.

حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضرت ابو عمرو بن حفص نے انہیں طلاق بتہ (نکاح ختم کرنے والی طلاق) دے دی، جبکہ وہ ان کے پاس موجود نہیں تھے، اس لیے انہوں نے اپنی طرف سے ایک وکیل اُن کی طرف کچھ جو دے کر بھیجا، حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا اس پر ناراض ہوئیں تو ان کے وکیل نے کہا بخدا، ہم پر تمہارا کوئی حق واجب نہیں ہے۔ حضرت فاطمہ بنت قیس، رسول اللہ a کے پاس گئیں اور اس بات کا ذکر کیا، آپ a نے فرمایا: تمہارا اس پر کوئی نفقہ (کھانے اور رہائش کا خرچہ) واجب نہیں ہے۔

  1. مسلم، الصحيح، كتاب الطلاق، باب المطلقة ثلاثا لا نفقة لها، 2: 1114، الرقم: 1480، بيروت: دارإحياء التراث
  2. أبو داود، السنن، كتاب الطلاق، باب في نفقة المبتوتة، 2: 285، الرقم: 2284، بيروت: دار الفكر

یہ ایک طویل حدیث ہے جس میں سے متعلقہ حصہ نقل کیا گیا ہے۔ اس حدیث مبارکہ کے مطابق حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کا شوہر اُن کے پاس موجود نہیں تھے، انہوں نے وکیل کے ذریعہ سے طلاق دی ساتھ کچھ جو بھی بھیجے اور رسول اللہ a نے اس طلاق کو نافذ العمل قرار دے کر عدت پوری کرنے کا حکم فرمایا جیسا کہ حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:

أَرْسَلَ إِلَيَّ زَوْجِي بِطَلَاقِي، فَشَدَدْتُ عَلَيَّ ثِيَابِي ثُمَّ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: كَمْ طَلَّقَكِ؟ فَقُلْتُ: ثَلَاثًا، قَالَ: لَيْسَ لَكِ نَفَقَةٌ، وَاعْتَدِّي فِي بَيْتِ ابْنِ عَمِّكِ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ.

مجھے میرے خاوند نے طلاق کہلا بھیجی، اور بعد ازاں میں نے اپنے کپڑے اوڑھ لیے، اور میں حضور نبی اکرم a کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی۔ نبی کریم a نے دریافت فرمایا کہ آپ کو کتنی طلاقیں دی گئی ہیں۔ میں نے عرض کیا تین۔ آپ a نے فرمایا: تجھے عدت بیٹھنے کے لیے تیرے خاوند کی طرف سے خرچہ نہ ملے گا اور آپ نے ارشاد فرمایا کہ آپ اپنے چچا کے بیٹے کے گھر میں ایام عدت پورے کریں یعنی ابن ام مکتوم کے پاس۔

النسائي، السنن، 6: 150، كتاب الطلاق، باب إرسال الرجل إلى زوجته بالطلاق، الرقم: 3418، حلب، شام: مكتب المطبوعات

طلاق کا حق کسی دوسرے شخص کو سونپنے کے حوالے سے ابن ابی شیبہ نے ایک روایت نقل کی ہے:

عَنِ الْحَسَنِ، فِي الرَّجُلِ يَجْعَلُ أَمْرَ امْرَأَتِهِ بِيَدِ رَجُلٍ، قَالَ: هُوَ كَمَا قَالَ.

حضرت حسن فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کا معاملہ کسی دوسرے آدمی کے سپرد کر دے، پھر وہ دوسرا آدمی جو کرے وہی نافذ ہو گا۔

ابن أبي شيبة، المصنف، 4: 85، الرقم: 18070، الرياض: مكتبة الرشد

کسی دوسرے شخص کی طرح شوہر بیوی کو طلاق کا حق دے تو وہ بھی اپنے آپ کو طلاق دے سکتی ہے حضرت ابوالحلال کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمان g سے سوال کیا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کا معاملہ اسی کے سپرد کر دے تو کیا حکم ہے؟ انہوں نے فرمایا:

الْقَضَاءُ مَا قَضَتْ.

جو فیصلہ وہ کرے وہی نافذ ہو گا۔

ابن أبي شيبة، المصنف، 4: 86، الرقم: 18078

مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ شوہر طلاق دینے کا حق کسی ادارے یا فردِ واحد کو سونپ سکتا ہے یا قاصد کے ذریعے طلاق کا پیغام اپنی بیوی کو بھیج سکتا ہے یا بیوی کو حقِ طلاق تفویض کر سکتا ہے۔

وکالت کی دوقسمیں ہیں:١-عمومی۔٢_خصوصی۔(الدرالمختار علی ھامش ردالمحتار ص٤٥٥/ج٤)


وکیل بالاجرت 



 وکالت جس طرح بغیر اجرت کے جائز   ہے ، اسی طرح وکالت کے بدلہ اجرت  لینا  بھی جائز ہے، لہذا   اگر کوئی اپنے انویسٹر سے پہلے سے اپنی  اجرت طے کر لے  کہ میں آپ کے لیے گاڑی خریدکر آگے فروخت کروں گا اور  اس کے عوض اتنی اجرت لوں گا اور پھر وہ جو رقم انویسٹر سے  لیتا ہے اور  بطور وکیل اس  رقم سے  گاڑی خرید کر آگے لوگوں کو ادھاری پر بیچتا ہے ، اور اپنی  طے شدہ اجرت   لیتا ہے تو یہ جائز ہے اس میں شرعا کوئی قباحت نہیں۔ 

درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"(إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا. فليس له أن يطالب بالأجرة) يستحق في الإجارة الصحيحة الأجرة المسمى. وفي الفاسدة أجر المثل ...لكن إذا لم يشترط في الوكالة أجرة ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا، وليس له أن يطلب أجرة. أما إذا كان ممن يخدم بالأجرة يأخذ أجر المثل ولو لم تشترط له أجرة".

(الکتاب الحادی عشر الوکالة، الباب الثالث،الفصل االاول،المادة:۱۴۶۷ ،ج:۳؍۵۷۳،ط:دارالجیل)

ولی اور وکیل 



 ’’ولی‘‘ اور  ’’وکیل‘‘ شرعی و فقہی اصطلاحات ہیں، جو  ایک ہی فرد میں بھی جمع ہوسکتی ہیں، یعنی ایک ہی شخص ولی اور وکیل دونوں ہوسکتاہے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ دونوں الگ الگ ہوں۔ ’’ولی‘‘ ولایت سے ہے اور ولایت سرپرستی کو کہتے ہیں، نکاح میں دولہے یا دولہن کا ولی اس دولہے یا دولہن کا وہ سرپرست ہے جس کو شریعت نے سرپرست مقرر کیا ہے ،  یعنی  اگر بیٹا ہو (مثلاً: کسی بیوہ یا مطلقہ کا نکاح ہورہاہو) تو سب سے پہلے ولایت  بیٹے کو حاصل ہوگی،  اگر وہ نہ ہو تو پوتے کو۔  اور اگر وہ نہ ہو  یا کسی کنواری کا نکاح ہورہاہو تو باپ ولی ہوگا، وہ نہ ہو تو دادا۔  اور اگر وہ بھی نہ ہو تو سگا بھائی، اور اگر وہ بھی نہ ہو تو باپ شریک بھائی۔ اور اگر وہ  بھی نہ ہو تو سگے بھائی کا بیٹا (بھتیجا)، اور اگر وہ نہ ہو تو باپ شریک بھائی کا بیٹا، اور اگر وہ نہ ہو تو سگا  چچا، وہ بھی نہ ہو تو چچا کا بیٹا …الخ۔ یعنی ولایت کی وہی ترتیب ہے جو میراث میں عصبہ بنفسہ کی ہوتی ہے۔ عصبہ اس قریبی خونی رشتہ دار کو کہتے ہیں جس سے رشتے میں عورت کا واسطہ درمیان میں نہ آتاہو،  وہ درجہ بدرجہ ولی بنتاہے۔

’’وکیل‘‘  وکالت سے ہے اور وکالت کہتے ہیں کسی کا معاملہ اس کے نمائندے کی حیثیت سے انجام دینا یا پیش کرنا۔ نکاح میں دولہے یا دولہن کا وکیل وہ شخص ہوتا ہے جس کو دولہے یا دولہن نے اپنا نکاح کرانے کی اجازت دی ہو۔

عموماً دولہا مجلسِ عقد میں موجود ہوتاہے اور اپنا عقد خود انجام دیتاہے، اس لیے اس کے ولی اور وکیل کی ضرورت نہیں ہوتی، البتہ بعض صورتوں میں اس کی ضرورت ہوسکتی ہے۔ جب کہ لڑکی کے لیے پردے وغیرہ کے شرعی احکام اور فطری حیا کی وجہ سے دلہن عقدِ نکاح کی مجلس میں حاضر بھی نہیں ہوتی اور اپنا عقد خود انجام بھی نہیں دیتی، لہٰذا اس کے لیے ولی اور وکیل کی ضرورت ہوتی ہے، اب نکاح میں ولی اور وکیل دونوں ایک ہی شخص ہوسکتے ہیں، یعنی لڑکی کا باپ جو شرعی طور پر از خود ولی/ سرپرست ہوتاہے وہی نکاح کے عقد کی انجام دہی کے لیے دلہن کی طرف سے وکیل بن جائے اس کی بھی اجازت ہے۔ 

اور یہ بھی ممکن ہے کہ لڑکی کے والد (ولی) کی موجودگی میں کسی اور کو عقدِ نکاح کا معاملہ انجام دینے کا وکیل بنادیا جائے، مثلاً: والد کی موجودگی میں چچا یا بھائی کو نکاح کا وکیل بنا دیا جائے، اس کی بھی اجازت ہے۔ 

اس تفصیل سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ دولہے یا دولہن کا ولی تو شرعی طور پر طے ہے، یعنی ولایت غیر اختیاری معاملہ ہے جب کہ وکیل بنانا دولہے یا دولہن کے اپنے اختیار میں ہے۔

"قال الحنفية: الولي في النكاح العصبة بنفسه وهو من يتصل بالميت حتى المعتق بلا توسط أنثى على ترتيب الإرث والحجب، فيقدم الابن على الأب عند أبي حنيفة وأبي يوسف خلافاً لمحمد حيث قدم الأب، وفي الهندية عن الطحاوي: إن الأفضل أن يأمر الأب الابن بالنكاح حتى يجوز بلا خلاف، وابن الابن كالابن، ثم يقدم الأب، ثم أبوه، ثم الأخ الشقيق، ثم لأب، ثم ابن الأخ الشقيق، ثم لأب، ثم العم الشقيق، ثم لأب، ثم ابنه كذلك، ثم عم الأب كذلك، ثم ابنه كذلك، ثم عم الجد كذلك، ثم ابنه كذلك". (الموسوعة الفقهية الكويتية، ۴۱ / ۲۷۵،طبع الوزارة


خلع کا صحیح طریقہ 

 اگر زوجین میں نبھاؤ کی کوئی شکل نہ رہے اور شوہر بلاعوض طلاق دینے پر آمادہ نہ ہو ، تو عورت کے لیے یہ راستہ تجویز کیا گیا ہے کہ وہ خلع کی پیش کش کرکے اپنے کو آزاد کرالے ۔ اِسی بات کو قرآنِ کریم کی اِس آیت میں اِرشاد فرمایا گیا : 

وَلاَ یَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَأْخُذُوْا مِمَّا اٰتَیْتُمُوْہُنَّ شَیْئًا اِلاَّ اَنْ یَّخَافَا اَلاَّ یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ  فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہٖ  تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلاَ تَعْتَدُوْہَا  وَمَنْ یَتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَاُولٰٓـئِکَ ہُمُ الظَّالِمُوْنَ ۔ ( البقرۃ : ۲۲۹ ) 
ترجمہ: اور تم کو یہ روا نہیں ہے کہ عورتوں کو دیا ہوا کچھ بھی مال اُن سے واپس لو ، مگر یہ کہ جب میاں بیوی اِس بات سے ڈریں کہ اللہ کے اَحکام پر قائم نہ رہ سکیں گے ۔ پس اگر تم لوگ اِس بات سے ڈرو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہیں گے تو اُن دونوں پر کچھ گناہ نہیں ہے اِس میں کہ عورت بدلہ دے کر چھوٹ جائے ، یہ اللہ کی باندھی ہوئی حدیں ہیں ، سو اُن سے آگے نہ بڑھو ، اور جو کوئی اللہ کی حدود سے آگے بڑھے گا سو وہی لوگ ظالم ہیں ۔ 
نیز  روایات میں وارد ہے کہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی اہلیہ پیغمبر علیہ الصلاۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ میں ثابت کے اخلاق اور اُن کی دین داری کے بارے میں تو کوئی عیب نہیں لگاتی ؛ لیکن مجھے اُن کی ناقدری کا خطرہ ہے ( اِس لیے میں اُن سے علیحدگی چاہتی ہوں ) تو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  : ’’ اُنہوں نے جو  باغ تمہیں مہر میں دیا ہے وہ تم اُنہیں لوٹادوگی ؟ ‘‘ تو اہلیہ نے اِس پر رضامندی ظاہر کی ، تو پیغمبر علیہ السلام نے حضرت ثابت کو بلاکر فرمایا : ’’ اپنا باغ واپس لے لو اوراِنہیں طلاق دے دو ‘‘ ۔ ( ابوداؤد شریف / باب الخلع ۱ ؍ ۳۰۳ ، تفسیر ابن کثیر مکمل ۱۸۳-۱۸۵ ریاض )

شرعاً خلع صحیح ہونے کے لیے شوہر کا اسے قبول کرنا ضروری ہے اور  جب شوہر خلع  دینے پر راضی ہوجائے اور خلع   دے دے تو اس صورت میں عورت پر ایک طلاقِ بائن واقع ہوجاتی ہے ۔

2:- خلع کی عدت : جس عورت کو ایام آتے ہوں،  اس کے لیے   عدت کی مدت تین ماہواریاں ہوں گی، اگرچہ تین مہینے پورے ہونے سے پہلے مکمل ہوجائےاور جس عورت کی ماہواری بند ہوجائے، اُس کی عدتِ   مہینوں کے اعتبار سے تین ماہ میں پوری ہوگی، البتہ اگرعورت حاملہ ہوتو عدت بچے کی پیدائش پر ختم ہوگی۔

3:-  خلع کی عدت شوہر کے گھر  میں گزارنا ضروری ہے ،بغیر سخت شرعی مجبوری کے اس گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے۔

4:- خلع سے ایک طلاقِ بائن واقع ہوتی ہے،خلع کے بعد پہلے شوہر سے دوبارہ  نکاح کرنے کی اجازت ہے ،اس کے لیے  کسی اور کے نکاح میں آنا اور اس کے ساتھ ہم بستری  کرنا ضروری نہیں  ، البتہ  نئے مہر کے ساتھ، دو گواہوں کی موجودگی میں نکاح کی تجدید کرنا ضروری ہے، اور   دوبارہ  نکاح ہونے کی صورت میں شوہر کو آئندہ دو طلاقوں کا اختیار ہوگا۔

یہ حکم اس وقت ہے جب کہ خلع سے پہلے شوہر نے دو طلاقیں نہ دی ہوں، بصورتِ دیگر خلع کے نتیجے میں مجموعی طور پر تین طلاقیں متصور ہوکر بیوی شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجائے گی۔

5:- خلع کی عدت  میں عورت کے لیے کسی شدید مجبوری کے بغیر گھر سے نکلنے، سفر کرنے یا خوشی غمی کے موقع پر کسی رشتہ دار کے گھر جانا جائز نہیں ہے، ، نیز زیب و زینت اختیار کرنا، خوش بو  لگانا،سر میں تیل لگانا، سرمہ لگانا، مہندی لگانا،  نکاح یا منگنی کرنا وغیرہ یہ سب امور  ناجائز ہیں۔

البتہ اگر سر درد ہو یا سر میں جوئیں پڑگئی ہوں تو علاج کے طور پر سر میں تیل لگانے کی اجازت ہے۔نیز دورانِ عدت گھر  میں کسی مخصوص کمرے میں بیٹھنا ضروری نہیں، معتدہ پورے گھر میں گھوم پھر سکتی ہے اور گھر کی چار دیواری میں رہتے ہوئے کھلے آسمان تلے بھی جاسکتی ہے،اور بوقتِ ضرورت علاج معالجے کے لیے ڈاکٹر کے پاس بھی جاسکتی ہے، گھریلو کام کاج بھی کرسکتی ہے۔

نیز عدت کے دوران عورت کے لیے کسی اور جگہ نکاح کرنا جائز نہیں ہے،  اور کسی مرد کو ایسی عورت کو نکاح کا صراحتاً  پیغام دینا بھی جائز نہیں ہے۔

"إلا نفقۃ العدۃ وسکناہا فلا یسقطان إلا إذا نص علیہا فتسقط النفقۃ "۔ ( الدر المختار ، کتاب الطلاق / باب الخلع ۵ ؍ ۱۰۶


 اتحاد مجلس صحت نکاح  وخلع کے لیے شرط صحت ہے، چنانچہ علامہ کاسانی علیہ الرحمة بدائع الصنائع میں اتحاد مجلس کی وضاحت کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: ”وأما الذي یرجع إلی مکان العقد فواحد وہو اتحاد المجلس بأن کان الإیجاب والقبول في مجلس واحدٍ“ یعنی متعاقدین کا کلام ایک ہی زمانہ اور ایک ہی مکان میں مربوط ہو لیکن اس کے معنیٰ ہرگز نہیں اگر فریقین الگ الگ مقامات پر رہتے ہوں اور خط ارسال کرکے نکاح یاخلع کے لیے ایجاب وقبول کریں تو نکاح وخلع کو تحریری یازبانی طورپر قبول کرنے سے ہوجائے گا حالانکہ فریقین ایک میں اتحاد مجلس نہیں پایا جاتا ۔ وأما الذي یرجع إلی مکان العقد فواحد وہو اتحاد المجلس الخ بدائع: ۴/ ۳۲۴، ط: زکریا وکذا في البحر: ۳/ ۱۴۸، ط: زکریا وکذا في الدر مع الرد: ۴/۸۷-۹۱، ط: زکریا دیوبند)

نکاح وخلع میں اتحاد مجلس کے معنیٰ 

خط کے ذریعے نکاح کی آسان صورت یہ ہے کہ اگر جانبین میں سے کوئی ایک مجلسِ نکاح میں موجود نہ ہو تو اس صورت میں اپنا وکیل مقرر کرے ، پھر یہ وکیل اپنے مؤکل کی طرف سے اس کا نام مع ولدیت لے کر مجلسِ نکاح میں ایجاب وقبول کرے، تو نکاح منعقد ہوجائے گا۔ 

 اور دوسری صورت یہ ہے کہ  خط کے ذریعے نکاح کا پیغام فریقِِ ثانی کو بھیجا جاتا ہے اور یہ خط جس مجلس میں کھول کر پڑھا جاتاہے وہ نکاح کی مجلس ہوتی ہے، اگر فریقِِ ثانی گواہوں کی موجودگی میں اس پیغام کو پڑھ کر قبول کرلیتا ہے تو نکاح منعقد ہوجاتا ہے اور اگر انکار کرتا ہےیا اس مجلس سے الگ ہوجاتا ہے  تو یہ پیغام کالعدم ہوجاتا ہے، اور نکاح منعقد نہیں ہوتا۔

یہی کیفیت خلع کی ہےجوعام طور پردارالقضاء میں رایج ہے کیونکہ تحریری ایجاب وقبول کے لیے اتحاد مجلس کے معنیٰ میں توسع ہے کما ."تحریری ایجاب کا جواب قبولیت وانکار میں تحریری جواب پیش کرنے تک گویادایرہے۔

قال ابن عابدين : "(قوله: لو حاضرين) احترز به عن كتابة الغائب، لما في البحر عن المحيط الفرق بين الكتاب والخطاب أن في الخطاب لو قال: قبلت في مجلس آخر لم يجز وفي الكتاب يجوز؛ لأن الكلام كما وجد تلاشى فلم يتصل الإيجاب بالقبول في مجلس آخر فأما الكتاب فقائم في مجلس آخر، وقراءته بمنزلة خطاب الحاضر فاتصل الإيجاب بالقبول فصح. اهـ." (الدر المختار و حاشية ابن عابدين، 3/14، دار الفكر)

"و لایصح النکاح من غیر کفء، أو بغبن فاحش أصلاً (إلی قوله) وإن کان من کفوء وبمهر المثل صح..." الخ (الدر المختار، کتاب النکاح، باب الولي، ۳/۶۸)

وفی الدر المختار مع الرد المحتار:

"ومن شرائط الإیجاب والقبول: اتحاد المجلس لوحاضرین...

(قوله: اتحاد المجلس) قال في البحر: فلو اختلف المجلس لم ینعقد، فلو أوجب أحدهما فقام الآخر أو اشتغل بعمل آخر، بطل الإیجاب؛ لأن شرط الارتباط اتحاد الزمان، فجعل المجلس جامعاً تیسیراً". (کتاب النکاح: ۳/ ۱۴، ط: سیعد)


 خاوند اور بيوى ميں عليحدگى تو طريقوں سے ہوتى ہے يا تو طلاق يا پھر فسخ نكاح كے ذريعہ.

اور ان دونوں ميں فرق يہ ہے كہ خاوند كى جانب سے ازدواجى تعلق كو ختم كرنا طلاق كہلاتا ہے، اور اس كے كچھ مخصوص اور معروف الفاظ ہيں.

اور رہا فسخ نكاح تو يہ عقد نكاح كو توڑنا اور ازدواجى ارتباط كو بالكل اصلا ختم كرنے كا نام ہے گويا كہ يہ ارتباط تھا ہى نہيں، اور يہ قاضى يا شرعى حكم كے ذريعہ ہوگا.

اور ان دونوں ميں درج ذيل فرق پايا جاتا ہے:

1 ـ طلاق صرف خاوند كے الفاظ اور اس كے اختيار و رضا سے ہوتى ہے، ليكن فسخ نكاح خاوند كے الفاظ كے بغير بھى ہو جاتا ہے، اور اس ميں خاوند كى رضا اور اختيار كى شرط نہيں.

امام شافعى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ہر وہ جس سے تفريق اور عليحدگى كا فيصلہ كيا جائے اور خاوند اس كے الفاظ نہ بولے، اور اسے نہ چاہے... تو يہ عليحدگى طلاق نہيں كہلائيگى " انتہى

ديكھيں: الام ( 5 / 128 ).

2 ـ طلاق كے كئى ايك اسباب ہيں، اور بعض اوقات بغير كسى سبب كے بھى ہو سكتى ہے، بلكہ طلاق تو صرف خاوند كا اپنى بيوى كو چھوڑنے كى رغبت سے ہوگى.

ليكن فسخ نكاح كے ليے سبب كا ہونا ضرورى ہے جو فسخ كو واجب يا مباح كرے.

فسخ نكاح ثابت ہونے والے اسباب كى مثاليں:

ـ خاوند اور بيوى كے مابين كفؤ و مناسبت نہ ہونا ـ جنہوں نے لزوم عقد ميں اس كى شرط لگائى ہے ـ.

ـ جب خاوند يا بيوى ميں سے كوئى ايك اسلام سے مرتد ہو جائے، اور دين اسلام ميں واپس نہ آئے.

ـ جب خاوند اسلام قبول كر لے اور بيوى اسلام قبول كرنے سے انكار كر دے، اور وہ مشركہ ہو اور اہل كتاب سے تعلق نہ ركھتى ہو.

ـ خاوند اور بيوى ميں لعان ہو جائے.

ـ خاوند كا نفقہ و اخراجات سے تنگ اور عاجز ہو جانا، جب بيوى فسخ نكاح طلب كرے.

ـ خاوند يا بيوى ميں سے كسى ايك ميں ايسا عيب پايا جائے جو استمتاع ميں مانع ہو، يا پھر دونوں ميں نفرت پيدا كرنے كا باعث بنے.

3 ـ فسخ نكاح كے بعد خاوند كو رجوع كا حق حاصل نہيں اس ليے وہ اسے نئے عقد نكاح اور عورت كى رضامندى سے ہى واپس لا سكتا ہے.

ليكن طلاق رجعى كى عدت ميں وہ اسكى بيوى ہے، اور اسے پہلى اور دوسرى طلاق كے بعد اسے رجوع كرنے كا حق حاصل ہے، چاہے بيوى راضى ہو يا راضى نہ ہو.

ـ فسخ نكاح ميں مرد جن طلاقوں كى تعداد كا مالك ہے اسے شمار نہيں كيا جاتا.


امام شافعى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور خاوند اور بيوى كے مابين جو فسخ نكاح ہو تو اس سے طلاق واقع نہيں ہوتى، نہ تو ايك اور نہ ہى اس كے بعد " انتہى

ديكھيں: كتاب الام ( 5 / 199 ).

ابن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" فسخ نكاح اور طلاق ميں فرق يہ ہے كہ اگرچہ ہر ايك سے خاوند اور بيوى ميں عليحدگى اور تفريق ہو جاتى ہے: فسخ يہ ہے كہ جب اس كے بعد خاوند اور بيوى دوبارہ نكاح كريں تو وہ پہلى عصمت پر ہيں، اور عورت اپنے خاوند كے پاس تين طلاق پر ہو گى ( يعنى خاوند كو تين طلاق كا حق ہوگا ) اور اگر اس نے فسخ نكاح سے قبل طلاق دى اور رجوع كر ليا تو اس كے پاس دو طلاقيں ہونگى " انتہى

ديكھيں: الاستذكار ( 6 / 181 ).

5 ـ طلق خاوند كا حق ہے، اور اس ميں قاضى كے فيصلہ كى شرط نہيں، اور بعض اوقات خاوند اور بيوى دونوں كى رضامندى سے ہوتى ہے.

ليكن فسخ نكاح شرعى حكم يا پھر قاضى كے فيصلہ سے ہو گا، اور فسخ نكاح صرف خاوند اور بيوى كى رضامندى سے نہيں ہو سكتا، الا يہ كہ خلع كى صورت ميں.

ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" دونوں ( يعنى خاوند اور بيوى ) كو بغير عوض ( يعنى خلع ) كے فسخ نكاح پر راضى ہونے كا حق حاصل نہيں، اس پر اتفاق ہے " انتہى

ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 598 ).

6 ـ دخول سے قبل فسخ نكاح عورت كے ليے كوئى مہر واجب نہيں كرتا، ليكن دخول سے قبل طلاق ميں مقرر كردہ مہر كا نصف مہر واجب ہوتا ہے.

ليكن خلع يہ ہے كہ عورت اپنے خاوند سے مطالبہ كرے كہ وہ مالى عوض يا پھر مہر سے دستبردار ہونے كے مقابلہ ميں اس سے عليحدگى اختيار كر لے.

علماء كرام كا اختلاف ہے كہ آيا يہ فسخ نكاح ہے يا كہ طلاق ؟ اقرب يہى ہے كہ يہ فسخ ہے

طلاق اور فسخ نكاح ميں فرق كے ليے درج ذيل كتب سے استقادہ كيا گيا:

المنثور فى القواعد ( 3 / 24 ) الفقہ الاسلامى و ادلتہ ( 4 / 595 ) الموسوعۃ الفقھيۃ الكويتيۃ ( 32 / 107 - 113 ) فقہ السنۃ ( 2 / 

خلع طلاق ہے کہ نہیں 

راجح قول يہى ہے كہ خلع طلاق شمار نہيں ہوتى چاہے وہ طلاق كے الفاظ ميں ہى ہو، اس كى تفصيل ذيل ميں پيش كى جاتى ہے:

1 ـ جب خلع طلاق كے الفاظ ميں نہ ہو اور نہ ہى اس سے طلاق كى نيت كى گئى ہو تو اہلم علم كى ايك جماعت كے ہاں يہ فسخ نكاح ہے، اور قديم مذہب ميں امام شافعى كا يہى قول ہے اور حنابلہ كا بھى مسلك يہى ہے، اس كے فسخ ہونے كى بنا پر اسے طلاق شمار نہيں كيا جائيگا، اس ليے جس نے بھى اپنى بيوى سے دو بار خلع كر ليا تو اسے نيا نكاح كر كے رجوع كا حق حاصل ہے اور وہ طلاق شمار نہيں ہو گى.

اس كى مثال يہ ہے كہ: خاوند بيوى كو كہے ميں نے اتنى رقم كے عوض تجھ سے خلع كيا، يا اتنے مال پر ميں نے نكاح فسخ كيا.

2 ـ ليكن اگر خلع طلاق كے الفاظ كے ساتھ ہو مثلا ميں نے اپنى بيوى كو اتنے مال كے عوض ميں طلاق دى تو جمہور اہل علم كے قول ميں يہ طلاق شمار ہوگى "

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 19 / 237 ).

اور بعض علماء كہتے ہيں كہ يہ بھى فسخ نكاح ہى ہوگا، اور اسے طلاق شمار نہيں كيا جائيگا، يہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے، اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے اسے ہى اختيار كيا اور كہا ہے:

يہ قدماء صحابہ كرام رضى اللہ تعالى عنہم اور امام احمد رحمہ اللہ سے بيان كردہ ہے "

ديكھيں: الانصاف ( 8 / 393 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ليكن راجح قول يہ ہے كہ: يہ ( يعنى خلع ) طلاق نہيں چاہے يہ خلع صريح طلاق كے الفاظ سے واقع ہو، اس كى دليل قرآن مجيد كى آيت ہے فرمان بارى تعالى ہے:

يہ طلاقيں دو مرتبہ ہيں پھر يا تو اچھائى سے روكنا يا پھر عمدگى كے ساتھ چھوڑ دينا ہے البقرۃ ( 229 ).

يعنى دونوں بار يا تو اسے ركھيں يا پھر چھوڑ ديں يہ معاملہ آپ كے ہاتھ ميں ہے.

اس كے بعد فرمايا:

اور تمہيں حلال نہيں كہ تم نے انہيں جو ديا ہے اس ميں سے كچھ بھى لو، ہاں يہ اور بات ہے كہ دونوں كو اللہ كى حديں قائم نہ ركھ سكنے كا خوف ہو، اس ليے اگر تمہيں ڈر ہو كہ يہ دونوں اللہ كى حديں قائم نہ ركھ سكيں گےتو عورت رہائى پائے كے ليے كچھ دے ڈالے، اس ميں ان دونوں پر گناہ نہيں يہ اللہ كى حدود ہيں خبردار ان سے آگے مت نہ بڑھنا اور جو لوگ اللہ كى حدود سے تجاوز كر جائيں وہ ظالم ہيں البقرۃ ( 229 ).

تو يہ تفريق فديہ شمار ہو گى پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے فرمايا:

پھر اگر اس كو ( تيسرى ) طلاق دے دے تو اب اس كے ليے حلال نہيں جب تك كہ وہ عورت اس كے سوا دوسرے سے نكاح نہ كرے البقرۃ ( 230 ).

اس ليے اگر ہم خلع كو طلاق شمار كريں تو فرمان بارى تعالى: " اگر وہ اسے طلاق دے دے " يہ چوتھى طلاق ہوگى، اور يہ اجماع كے خلاف ہے، اس ليے فرمان بارى تعالى: اگر اس نے اسے طلاق دے دى يعنى تيسرى طلاق تو " اس كے ليے حلال نہيں جب تك وہ عورت كسى دوسرے سے نكاح نہ كر لے "

اس آيت سے دلالت واضح ہے، اسى ليے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كا كہنا ہے: ہر وہ تفريق جس ميں عوض و معاوضہ ہو وہ خلع ہے طلاق نہيں، چاہے وہ طلاق كے الفاظ سے ہى ہو، اور راجح قول بھى يہى ہے " انتہى

ديكھيں: الشرح الممتع ( 12 / 467 - 470 ).

اور شيخ رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

" چنانچہ ہر وہ لفظ جو معاوضہ كے ساتھ تفريق پر دلالت كرتا ہو وہ خلع ہے چاہے وہ طلاق كے الفاظ سے ہى ہو، مثلا خاوند كہے ميں نے اپنى بيوى كو ايك ہزار ريال كے عوض طلاق دى، تو ہم كہيں گے يہ خلع ہے، اور عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے يہى مروى ہے:

ہر وہ جس ميں معاوضہ ہو وہ طلاق نہيں "

امام احمد كے بيٹے عبد اللہ كہتے ہيں:

ميرے والد صاحب خلع ميں وہى رائے ركھتے جو عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى عنہ كى رائے تھى، يعنى يہ فسخ نكاح ہے چاہے كسى بھى لفظ ميں ہو، اور اسے طلاق شمار نہيں كيا جائيگا.

اس پر ايك اہم مسئلہ مرتب ہوتا ہے:

اگر كوئى انسان اپنى بيوى كو دو بار علحيدہ عليحدہ طلاق دے اور پھر طلاق كے الفاظ كے ساتھ خلع واقع ہو جائے تو طلاق كے الفاظ سے خلع كو طلاق شمار كرنے والوں كے ہاں يہ عورت تين طلاق والى يعنى بائنہ ہو جائيگى، اور اس كے ليے اس وقت تك حلال نہيں ہو گى جب تك وہ كسى دوسرے سے نكاح نہيں كر ليتى.

ليكن جو علماء خلع كو طلاق شمار نہيں كرتے چاہے وہ طلاق كے الفاظ ميں ہى ہوا ہو تو يہ عورت اس كے ليے نئے نكاح كے ساتھ حلال ہوگى حتى كہ عدت ميں بھى نكاح كر سكتى ہے، اور راجح بھى يہى ہے.

ليكن اس كے ساتھ ساتھ ہم خلع كرنے والوں كو يہ نصيحت كرتے ہيں كہ وہ يہ نہ كہيں كہ ميں نے اپنى بيوى كو اتنى رقم كے عوض طلاق دى، بلكہ وہ كہيں ميں نے اپنى بيوى سے اتنى رقم كے عوض خلع كيا؛ كيونكہ ہمارے ہاں اكثر قاضى اور ميرے خيال ميں ہمارے علاوہ بھى يہى رائے ركھتے ہيں كہ يہ خلع اگر طلاق كے الفاظ كے ساتھ ہو تو يہ طلاق ہوگى.

تو اس طرح عورت كو نقصان اور ضرر ہوگا، اگر اسے آخرى طلاق تھى وہ بائن ہو جائيگى، اور اگر آخرى نہ تھى تو اسے طلاق شمار كر ليا جائيگا " انتہى

ديكھيں: الشرح الممتع ( 12 / 450 ).

اس بنا پر اگر آپ اپنى بيوى سے رجوع كرنا چاہتے ہيں تو پھر نيا نكاح ضرورى ہے، اور آپ دونوں پر طلاق شمار نہيں كى جائيگى.