https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Thursday 6 August 2020

قدیم مسلم علماء سائنس

 ساتویں صدی کےاخیر اور آٹھویں صدی کی ابتدا یورپ میں جہالت و بربریت کا دور تھا۔

یورپیں مورخین اس دور کو قرون مظلمہ (The Dark Ages) سے تعبیر کرتے ہیں۔
لیکن اس کے برعکس مسلمانوں میں علمی بیداری تھی موجودہ سائنسی تحقیق کی ابتداءخاندان بنواامیّہ سے ہوئی خالد بن یزید نےکیمیا اور طب پرکتب کے تراجم کرائے اور اس طرح مسلمانوں میں علمی ذوق پیدا ہوا عباسی دور خلافت میں مامون الرشید اور ہارون الرشید نے گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ بیت الحکمت اس دور کی جدید یونیورسٹی ہے جب اہل یورپ کو زندگی گزارنے کا سلیقہ نہ تھا تو مسلمانوں نے ان کورہنا اور جینا سیکھایا۔

اسلامی حکومتوں نے علم و حکمت کی سرپرستی اورسائنس کے بڑے بڑے موجد پیدا کئے۔ جابر بن حیان، کیمیا کا موجد ابن الہیشم، طبیعات کا موجد ابو الفیض، بصریات کا موجد عمر الخیام، الجبرا کا موجد اور دیگر بے شمار سائنسدان جن کا اعتراف آج بھی مغرب کےمحقق کرتے ہیں۔

زمین گول ہونے کا مسئلہ خلافت عباسیہ کا کارنامہ ہے مسلمانوں نے نہ صرف مدارس قائم کئے بلکہ تحقیق پر بھی بہت کام کیا اسلام نے وہ کچھ حاصل کیا کہ دوسری قوم نے اس کے حصول کی کوشش تک نہ کی۔ یہ کام روم اور یونان نہ کرسکا اسلامی اندلس میں سائنس کے ہر شعبے میں تحقیقات کی تمام تر سہولتیں میسر تھیں طب کو بطور خاص فروغ حاصل ہوا۔ جامعہ قرطبہ میں کیمیا، جغرافیہ، اور تاریخ کے شعبے شامل ہیں۔

یہ وہ زمانہ تھا کہ مسلمان عربی بولنے والے تہذیب و ثقافت کےعظیم مستقبل بردار ثابت ہوئے۔ بنوامیہ نے 661 میں دمشق میں سائنسدانوں کو جمع کیا اور ان کی حوصلہ افزائی کی، اس وقت سب سے زیادہ پر مغز کتابیں سائنس اور حکمت کی تھیں اور وہ عربی زبان میں تھیں۔ علم و حکمت کے اس دور میں مسلمان حکمرانوں نے مشرق وسطیٰ اندلس اور پرتگال میں شاندار درس گاہیں قائم کیں۔

مسلمانوں نے علم کی ہر شاخ اور ہر فن میں نئی تحقیقات کا آغاز کیا ان کے کارنامے رہتی دنیا تک قائم رہیں گے اور ان کے مقابلے میں مغرب کے معاصر سائنسدان کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جدید سائنس کی بنیاد ہی مسلمان سائنس دانوں نے رکھی آج پھر سے ہمیں اسی دور کی طرح تحقیق اور جستجو کی ضرورت ہے تاکہ علم اور سائنس کے میدان میں ہم اپنا کھویا ہوا مقام پھر حاصل کر سکیں۔

فرانسس گائلز نے معروف سائنسی رسالے 'نیچر' مطبوعہ 24مارچ 1938ء میں تحریر کیا: اپنی بلندی پر کوئی ایک ہزار سال پہلے مسلم دنیا نے سائنس میں قابل قدر اضافے کئے خاص طور پر ریاضی اور طب میں۔ بغداد اور جنوبی سپین نے اپنے عروج کے دنوں میں یونیورسٹیاں بنائیں۔ جہاں ہزاروں لوگ اکٹھے ہوئے تھے اور حکمرانوں کے گرد سائنسدانوں اور فنکاروں کا ہجوم رہتا تھا۔ آزادی کی ایک لہر نے یہودیوں اور عسائیوں کو یہ اجازت دے رکھی تھی کہ وہ مسلمانوں کے شانہ بشانہ کام کریں۔ آج یہ سب کچھ خواب نظر آتا ہے۔

سائنس بنی نوع انسان کی میراث ہے۔ یہ وہ علم ہے جو مذاہب و قومیت کے نظریے سے مبراء ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو مسلمان یہودی عیسائی طبرانی کسی کی جانبداری نہیں کرتی بلکہ فلاح بنی نوع انسان کے اصول کو لے کر چلتی ہے اور تمام انسانیت کی فلاح و بہبود کےلئے کوشاں ہے۔ مگر بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ انسانیت کی یہ مشترکہ وراثت یعنی سائنس متعصب اقوام کے ہاتھ لگ گئی۔

تاریخ گواہ ہے کہ ایجادات کی تاریخ میں ارشمیدس کی چرخی (287ق م) کے بعد گٹن برگ (1450 ق م) کا چھاپہ خانہ نظر آتا ہے۔ درمیانی ڈیڑھ ہزار بس کا دور غائب ہے اور یہی وہ دور ہے جس کو اسلامی دور کا نام دیا جاتا ہے مگر متعصب یورپی مورخین کو یہ گوارا نہ تھا لہٰذا انہوں نے اس کو حذف کردیا۔ تمام علوم و فنون بالخصوص سائنس کے ابتدائی تصورات مسلمانوں نے متعارف کروائے۔

یہ وہ دور تھا جب پورا یورپ جہالت کی تاریکی میں ڈوبا ہو تھا۔ اس دور میں اگر کوئی ہفتے میں ایک بار نہا لیتا توپادری اس کوکوڑے لگواتے کہ وہ مسلمان ہوتا جارہا ہے۔ یہ سب خدا واسطے کا بیر تھا۔

یہی وہ دور تھا جب مسلم دنیا کا نامور سائنسدان ابن الہیشم، جابر بن حیان، الخوارزمی، ابن نفیس، ابوالقاسم زہراوی اور دیگر متعبر سائنسدانوں نے انسانیت کو ایک نئے اور اچھوتے باب سے متعارف کروایا مگر یورپی متعصبین نے اسلامی دور پر پردہ ڈالنے کےلئے اپنی نسل نو کو مسلمانوں کے کارناموں سے بے خبر رکھا اگر کچھ بتایا بھی تو محض اس طرح کہ تمام مسلمان سائنسدانوں کے نام پوری طرح تبدیل کر دئیے گئے کہ وہ نام بھی یورپی نام نظر آنے لگے۔

ذیل میں چند مسلمان سائنس دانوں کے نام اور کارناموں کا مختصر جائزہ لیا گیا ہے اور یہ بھی کہ کس طرح یورپی مورخین نے اسلامی ناموں کو تبدیل کر دیا۔!!

1۔ ابو علی محمد ابن الحسن ابن الہیشم (354ھ تا 430 ھ) کو یورپ میں الہیزان :(Alhazen) کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اس مسلمان سائنسدان نے روشنی کے قوانین بیان کئے۔ پن ہول کیمرا ایجاد کیا، آنکھ کی ساخت بیان کی ’’کتاب المناظر‘‘ ان کی شاہکار کتاب ہے۔

2۔ جابر بن حیان (721ھ تا 806ھ) : کوفے کے ایک عطار کے بیٹے تھے۔ علاوہ ازیں آپ امام جعفر صادق کے شاگرد بھی تھے۔ یورپ میں ان کو گیبر (Geber) کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ کیمیاء میں آپ کی خدمات گراں قدر ہیں۔ لہٰذا آپ کو بابائے کیمیا کہا گیا۔ آپ کی اہم ایجادات سلفیورک ایسڈ یعنی گندھک کا تیزاب اور نائٹرک ایسڈ ہیں۔ آپ علم طب میں بھی ماہر تھے۔ جابر بن حیان نے پہلی دفعہ مریض کو بےہوش کرنے کے لئے افیون کا استعمال کیا۔ علاوہ ازیں انہوں نے درختوں کی چھال سے کپڑا رنگنے کا طریقہ دریافت کیا۔

3۔ محمد بن موسی الخوارزمی (780ھ تا 850ھ) : الجبرا کے بانی ہیں۔ انہیں یورپ میں الگورزم (Algorizm) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان کی شہرہ آفاق کتاب ’’حساب ، الجبراء و المقابلہ‘‘ ہے۔ کو یر نیکس اور کیپلر نے الخوارزمی کی معلومات پر اپنی تحقیق و تجربات کو آگے بڑھایا۔

4۔ ابو موسی علی ابن الطبری (822ھ تا 899ھ) : یورپ میں الٹیبر (Altaber) کے نام سے مشہور ہیں۔ ’’فردوس الحکمتہ‘‘ ان کی مشہور تصنیف ہے۔ آپ علم طب کے عظیم طبیب ’’الرازی‘‘ کے استاد تھے۔

5۔ ابو عباس احمد الفرغانی (832ھ تا 903ھ) : یورپ کے ہیئیت دان اور مہنسدس حلقے میں الفرگانوس (Alfreganus) کے نام سےجانے جاتے ہیں۔ آپ کا اہم کارنامہ دریائے نیل میں پانی کی گہرائی ناپنے والے آلے کی ایجاد ہے۔ اس آلے کو دریائے نیل کی نسبت سے (Nilometer) کہا جاتا ہے۔ آپ نے زمین کا قطر بھی معلوم کیا جو کہ آپ کے حساب سے صرف 0.6 فیصد غلطی کا مرتکب ہوا ہے۔

6۔ ابوبکر محمد بن الزکریا (864ھ تا 925ھ) : دنیا کے عظیم طبی انسائیکلو پیڈیا ’’الحاوی‘‘ کے مصنف اور نویں صدی کے عظیم طبیب ہیں۔ یورپ میں ان کو رہیزز (Rhazes) کے نام سے پکارا جاتاہے۔

7۔ ابوالقاسم بن ابن العباس الزہراوی (936ھ تا 1004ھ) : دنیا کے سب سے پہلے نامور سرجن ہیں جنہوں نے انسانی عضاء کی تحقیق کے لئے ’’پوسٹ مارٹم‘‘ پر زور دیا۔ سرجری کے موضوع پر ان کی تصنیف ’’الستعریف‘‘ آج بھی یورپ کے میڈکل کالجز میں پڑھائی جاتی ہیں۔ ان کو یورپ میں ابل کیسس (Abul Casis) کہا جاتا ہے۔

8۔ ابن سینا (980ھ تا 1037ھ) : مشہور کتاب ’’القانون فی الطب‘‘ کے مصنف اور تھرمامیٹر کے بانی ہیں۔ یورپ میں ان کو ایوی سینا (Avicenna) کہا جاتا ہے۔ آپ کی تصانیف آج بھی یورپ میں پڑھائی جاتی ہیں۔

9۔ ابوبکر محمد ابن یحییٰ ابن باجہ (1080ھ تا 1138ھ) کو یورپ میں ایون پیس (Avenpace) کہا جاتا ہے۔ آپ افلاطون کے بعد اسلامی دنیا کے نامور مفکر ہیں۔

10۔ ابوبکر محمد عبدالملک ابن طفیل القیسی (1113ھ تا 1185ھ) اندلس کے سب سے بڑے فلسفی اور طبیب تھے۔ یورپ میں ان کو ابو باسر (Abu Basir)کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ ابن طفیل القیسی ہی تھے جنہوں نے ’’حئی ابن یقظان‘‘ کے نام سے فلسفیانہ روایات کی طرح ڈالی اور اس کے لئے وہ عظیم راستہ متعارف کروایا جس پر چل کر ’’دانتے‘‘ نے Divin Comdy متعارف کروائی۔ نقادوں کے نزدیک دانتے کی ڈیوائن کامیڈی، ابن طفیل کے ’’حئی ابن یقظان‘‘ ہی کا چربہ ہے۔

11۔ ابوالولید محمد ابن احمد ابن رشد (1126ھ تا 1198ھ) مشہور ہیئیت دان، طبیب اور ارسطو کے نظریات کے قابل ترین شارح تھے۔ چیچک کے مرض پر ان کی شہرہ آفاق کتاب ’’الکلیات فی الطب‘‘ ہے۔ یورپ میں انو ایروز (Averroes) کہا جاتا ہے۔

12۔ علی ابن العباسی المجوسی کو یورپ میں میجوز (Majues) کہا جاتا ہے۔ طب پر ان کی شہرہ آفاق کتاب ’’الملکی‘‘ ہے۔

13۔ حنین ابن اسحاق : یورپ میں یوہینیٹس (Johanates) کہا جاتا ہے۔ یونانی اور طبرانی زبانوں پر عبور حاصل ہونے کےعلاوہ وہ بہت بڑے طبیب تھے۔ شروع میں عیسائی تھے مگر آخری عمر میں مسلمان ہوگئے۔

1: الخجندی وفات1000 ء محوری جھکاؤ اور عرض بلد کے معلوم کرنے پر رسالہ فی المیل و عرض بلد پیش کرتا ہے۔ وہ مسئلہ جیب زاویہ یا سائن تھیورم دریافت کرتا ہے جو مینی لاؤ کے قانون کی جگہ لے لیتا ہے۔
2: الزہراوی وفات 1004 ء دنیا کے پہلے سرجن کا اعزاز حاصل کرتا ہے۔ وہ فن میں ٓاپریشن کے طریقے دیرافت کرتا ہے۔ وہ اپنی کتاب التصریف میں سوسے زیادہ سرجری کے آلات بیان کرتا ہے۔
3: علی بن عبدالرحمن یونس وفات 1004 ء دائرۃ البروج(inclination of ecliptic) کی قیمت 23 درجے35 منٹ اور اوج شمسی (Sun apogee) 86 درجے 10 منٹ معلوم کرتا ہے جو کہ جدید تحقیق کے بہت قریب ہے۔ وہ زمین کے محور کی 26 ہزار سالوں میں360 ڈگری مکمل ہونے والی حرکت کو دریافت کرتا ہے جو کہ جدید تحقیق کے مطابق ہے۔
4: احمد بن محمد علی مسکویہ وفات1032 ء تاریخ میں پہلی بار نباتات میں زندگی دریافت کرتا ہے۔ وہ زندگی کی تحقیق اور دماغی ارتقاء کی درجہ بندی کرتا ہے۔ جو کہ بعد میں ڈارون اسی طرح پیش کرتا ہے۔
5: ابن سینا وفات 1036 ء جسم کے اعضاء کی تقسیم بندی کرتا اورنفسیاتی طریقہ علاج دریافت کرتا ہے۔ وہ طب کی مکمل ترین اور مستند ترین تصنیف قانون الطب لکھتا ہے جو سولہویں صدی تک یور پ میں پڑھائی جاتی ہے۔
6: ابن الہشم وفات1038 ء اپنی شہرہ آفاق تصنیف کتاب المناظرمیں روشنی کا ذراتی نظریہ پیش کرتا ہے۔ وہ روشنی کے انعطاف ، انعکاس ، روشنی کے خطِ مستقیم میں سفر اور پردۂ چشم (ریٹینا) کو دریافت کرتا ہے۔ اس کی تحقیقات فزکس میں انقلاب برپا کر دیتی ہیں۔
7: علی احمد نسوی وفات 1030 ء ساعت یعنی گھنٹے کو 60 کے ہندسے پر تقسیم کر کے دقیقہ (منٹ) اور ثانیہ (سیکنڈ) میں تقسیم کرتا ہے۔ نسوی چھوٹے چھوٹے پیمانوں کی تقسیم در تقسیم کا دس کی نسبت سے طریقہ دریافت کرتا ہے جسے اعشاریہ کا نام دیا جاتاہے۔
8: البیرونی وفات1049 ء دھاتوں کی کثافت اضافی معلوم کرتا ہے۔ وہ طول البلد اور عرض بلد اور زمین کا محیط24779 میل معلوم کرتا ہے جس میں جدید تحقیق (24858 میل )صرف 79 میل کا فرق معلوم کر سکتی ہے۔
9: علی ابن علی بن جعفر وفات1061 ء جدید طب میں مریض کے معانئے کے لیے استعمال ہونے والے طریقےGeneral Physical examination اورSystemic inquiry کا سلسلہ جاری کرتا ہے۔
10: غزالی وفات 1111 ء جدید فلسفہء اخلاق کے موجد اور محقق کے طور پر سامنے آتے ہیں۔
11: عمر خیام وفات 1131 ء 28 سال کی عمر میں اپنی کتاب الجبرو المقابلہ مکمل کرتا ہے۔ اس میں وہ الجبرا کے چھ نئے اصول بیان کرتا ہے مثلاً بائی نو میل تھیورم ۔ عمر خیام شمسی سال کی مقدار 365 دن 5 گھنٹے اور 49 منٹ نکالتا ہے جو کہ صرف ایک منٹ کے فرق سے جدید تحقیق کے مطابق ہے۔ وہ شمسی کیلنڈر میں بعض مہنیوں کو 30 اور بعض کو 31 دن کا کر کے لیپ ائیر کی بنیاد رکھتا ہے جو آج یورپ اور امریکہ میں رائج ہے۔
12: ابن زہر وفات 1162 ء متعدی خارش(Scabies) کی وجہ دریافت کرتا ہے۔ وہ تاریخ میں پہلی بار طفیلیوں (پیراسائٹس) کا وجود ثابت کرتا ہے۔
13: الادریسی وفات1164 ء پہلی بار زمین کو گول بتاتا ہے۔ وہ زمین کا چاندی کا ایک گلوب بناتا ہے۔ وہ دنیا کے پہلے ماہر نقشہ نویس کی حیثیت سے دنیا کا نقشہ بناتا ہے اور دریائے نیل کا منبع دریافت کرتا ہے۔ اس کی کتاب نزہتہ المشتاق فی الحتراق الآفاق جغرافیہ کی پہلی کتاب ثابت ہوتی ہے۔
14: ابن رشد وفات 1198 ء پہلی بار ثابت کرتا ہے کہ جس آدمی کو ایک بار چیچک ہو جائے ، اسے زندگی بھر دوبارہ نہیں ہوتی جسے جدید سائنس بھی مانتی ہے۔
15: شرف الدین طوسی وفات1213 ء طولی اصطر لاب(Linear astrobabla) ایجاد کرتا ہے۔جو ستاروں کی بلندی ، وقت اور قبلے کے تعین کے لیے کیے گئے مشاہدات کو ممکن بناتی ہے۔
16: عبداللہ ابن بیطار وفات 1248 ء سپین کاعظیم ترین ماہر نباتیات (باٹنی) ثابت ہوتا ہے۔ وہ جڑی بوٹیوں کی تلاش کے لیے سپین سے شام کا وسیع سفر کرتا ہے۔ وہ اینٹی کینسر خصوصیات رکھنے والی دوائی ہند باہ دریافت کرتا ہے جس کی تصدیق جدید سائنس بھی کرتی ہے۔
17: ابن النفیس وفات1288 ء تاریخ میں پہلی بار پھیپھڑوں اور دل میں دورانِ خون (پلمونری اور کرونری سرکولیشن) کو دریافت کرتا ہے جو طب میں انقلاب برپا کر دیتی ہے۔ وہ دورانِ خون کا پہلا محقق ثابت ہو تا ہے۔
18: کمال الدین فارسی وفات 1320 ء قوسِ قزح بننے کے عمل کی پہلی درست وجہ دریافت کرتا ہے۔
19: ابن خلدون وفات1406 ء مقدمہ ابن خلدون مرتب کر کے عمرانیات کی بنیاد رکھتا ہے۔
20: پری رئیس محی الدین وفات1554 ء دنیا کا پہلا جدید نقشتہ بناتا ہے جس میں نو دریافت شدہ براعظم امریکا اور انٹار کٹکا بھی دکھائے جاتے ہیں۔
21: تقی الدین محمد ابن معروف وفات1585 ء دنیا کا پہلا سٹیم انجن اور دو ر بین بنا تا ہے۔
22: احمد چلبی وفات(سترہویں صدی عیسوی) انسانی پرواز کا تجربہ کرتاہ ہے۔۔ اس سے ایک سال پہلے لغاری حسن چلبی راکٹ کے ذریعے پہلی انسانی پرواز کرتا ہے۔
23: شیر میسور ٹیپو سلطان شہادت 1799 ء تاریخ میں پہلی بار جنگی راکٹ ایجاد کرتا ہے۔ جنہیں برطانوی یورپ لے جا کر ان نے پر مزید تحقیق سے نئے راکٹ بناتے ہیں۔1793ء سے 1794ء کے دوران ٹیپو کی تعمیر کردہ flint lock blunderbuss gun آج تک اپنے وقت کی جدید ترین ٹیکنالوجی شمار کی جاتی ہے۔ٹیپو کے راکٹوں کی بنیاد پررائل وولوک آرسینل نے ملٹری راکٹوں پر تحقیق شروع کی ۔یہ تحقیق 1801ء میں شروع ہوئی اور اس کی بنیاد ٹیپو کی کی ٹیکنالوجی تھی۔اس تحقیق کا نتیجہ 1805ء میں ٹھوس ایندھن راکٹوں (سالڈ فیول راکٹ) کی صورت میں سامنے آیا۔ اس کے بعد ولیم کانگریو نے A concise account of origin and progress of rocket system شائع کیا۔کانگریو کے راکٹوں کو انگریزوں نے نپولین سے جنگوں میں استعمال کیا۔1812ء اور بعد میں 1814ء کی بالٹی مور کی لڑائی میں انگریزوں نے جدید راکٹوں کا استعمال شروع کیا جن کی بنیاد ٹیپو کی راکٹ ٹیکنالوجی تھی۔
24: ہلوسی بہست وفات1948 ء خون کی نالیوں کی ایک بیماری دریافت کرتا ہے جسے بہست سنڈروم کہا جاتا ہے۔ہلوسی بیس فروری 1889ء کو استنبول میں پیدا ہوا اور آٹھ مارچ 1948ء کو فوت ہوا۔وہ ترکی سے تعلق رکھنے والا مسلمان ماہر امراض جلد(ڈرماٹا لوجسٹ)اور سائنسدان تھا۔ہلوسی نے خون کی نالیوں کی سوزش (Inflammation of blood vessels)کی ایک بیماری کو 1937ء میں دریافت کیا ج13146ے اس کے نام پر بہست کی بیماری(Behcet disease) کا نام دیا گیا۔ 1924ء میں اس نے ڈرماٹالوجی(امراض جلد) پر ترکی کا پہلا جریدہ Dermatologisische Wochenshriftشائع کیا جس میں اس نے آتشک اور دوسرے جلدی امراض خی تمیزی تشخیص(Differential diagnosis) پر مفصل معلومات ہیں۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سائنسدان ایک ہی وقت میں آتشک یا Syphilisاور دیگر امراض جلد کے متتعلق جان سکتے تھے۔یہ کتاب آج تک اس میدان میں اہم سمجھی جاتی ہے اور اسے Clinical and practical syphilis,diagnosis and related dermatoses کہا جاتا ہے۔
25: ہندوستانی سب انسپکٹر عزیز الحق بیسویں صسدی کے پہلے نصف میں فنگر پرنٹس کی کلاسیفکیشن دریافت کرتا ہے سے اس کے انگریز آقا ایڈورڈ ہنری سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔اس نے اس نظام کی ریاضیاتی بنیاد بھی فراہم کی لیکن یورپ نے روایتی علمی چوری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے اس کے انگریز سر پرست ایڈورڈ ہنری کے نام سے” ہنری کلاسیفکیشن سسٹم آف فنگر پرنٹس” کا نام دے دیا۔


No comments:

Post a Comment