https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Thursday 3 November 2022

بیٹی نوسال کے بعد کس کی حضانت میں رہے گی

جب تک بچی کی عمر اس حد تک نہ پہنچی ہو جس میں وہ قابل ِشہوت ہو تب تک اس کی پرورش کی حقدار اس کی ماں ہے۔جب کہ اس کے بعد اس کی پرورش کا حق باپ کی طرف منتقل ہوجا تاہے۔فقہاے کرام نے عمر کی یہ حد نو(9)سال ذکر کی ہے۔صورتِ مسئولہ کے مطابق اگرآپ کی بیٹی کی عمر نو(9) سال ہوتو ماں کاحقِ پرورش ختم ہوا ہے لہذا اب سائل ہی اس کی پرورش کا حقدار ہے۔ (2) بیٹی اگرباپ کے ساتھ ہو تو ماں جب چاہےاپنی بیٹی کے ساتھ ملاقات کےلیےجا سکتی ہے ۔اسی طرح اگروہ ماں کے ساتھ ہوتو باپ اس کے ساتھ جب چاہے، ملاقات کرسکتا ہے۔دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کوملاقات سے منع کرنے کا مجاز نہیں۔ ( والأم والجدة ) لأم أو لأب ( أحق بها ) بالصغيرة ( حتى تحيض ) أي تبلغ في ظاهر الرواية.....( وغيرهما أحق بها حتى تشتهي ) وقدر بتسع وبه يفتى.....( وعن محمد أن الحكم فى الأم والجدة كذلك ) وبه يفتى لكثرة الفساد.(الدرالمختارمع تنويرالأبصار،كتاب الطلاق،باب الحضانة.ج5ص267) الْوَلَدُ مَتَى كان عِنْدَ أَحَدِ الْأَبَوَيْنِ لَا يَمْنَعُ الْآخَرَ عن النَّظَرِ إلَيْهِ وَعَنْ تَعَاهُدِهِ(الفتاوى الهندية،كتاب الطلاق،الباب السادس عشرفى الحضانة،ج1ص594) قلت وفى السراجية إذا سقطت حضانة الأم وأخذه الأب لا يجبر على أن يرسله لها بل هي إذا أرادت أن تراه لا تمنع من ذلك.(أيضا،ص275) والمطلقة البائنة خرجت بولدها إلى موضع يقدر الزوج أن يزور ولده في يومه لهاذالك،وإن خرجت إلى موضع لم يقدر الزوج أن يزور ولده في يومه لم يجز.(خزانة الفقه،كتاب الشهادات، باب المقادير،مادارعلى يوم واحد، ص324) "قال ابن الهمام: إذا بلغ الغلام السن الذي يكون الأب أحق به كسبع مثلًا أخذه الأب، ولايتوقف على اختيار الغلام ذلك، وعند الشافعي يخير الغلام في سبع أو ثمان، وعند أحمد وإسحاق يخير في سبع لهذا الحديث". الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (3 / 567): "(ولا خيار للولد عندنا مطلقًا) ذكرًا كان، أو أنثى خلافًا للشافعي. قلت: وهذا قبل البلوغ، أما بعده فيخير بين أبويه، وإن أراد الانفراد فله ذلك مؤيد زاده معزيًا للمنية، وأفاده بقوله: (بلغت الجارية مبلغ النساء، إن بكرًا ضمها الأب إلى نفسه) إلا إذا دخلت في السن واجتمع لها رأي فتسكن حيث أحبت حيث لا خوف عليها (وإن ثيبًا لا) يضمها (إلا إذا لم تكن مأمونةً على نفسها) فللأب والجد ولاية الضم لا لغيرهما كما في الابتداء، بحر عن الظهيرية. (والغلام إذا عقل واستغنى برأيه ليس للأب ضمه إلى نفسه) إلا إذا لم يكن مأمونًا على نفسه فله ضمه لدفع فتنة، أو عار، وتأديبه إذا وقع منه شيء، ولا نفقة عليه إلا أن يتبرع، بحر" بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع - (8 / 244): "ولا خيار للغلام والجارية إذا اختلف الأبوان فيهما قبل البلوغ عندنا، وقال الشافعي: يخير الغلام إذا عقل التخيير. واحتج بما روي عن أبي هريرة رضي الله عنه أن امرأة أتت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت: زوجي يريد أن ينتزع ابنه مني، وإنه قد نفعني وسقاني من بئر أبي عنبة، فقال: { استهما عليه، فقال الرجل: من يشاقني في ابني؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم للغلام: اختر أيهما شئت، فاختار أمه، فأعطاها إياه}؛ ولأن في هذا نظر للصغير؛ لأنه يحتاج الأشفق. ولنا ما روينا عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال للأم: { أنت أحق به ما لم تنكحي ولم يخير}؛ ولأن تخيير الصبي ليس بحكمة؛ لأنه لغلبة هواه يميل إلى اللذة الحاضرة من الفراغ والكسل والهرب من الكتاب وتعلم آداب النفس ومعالم الدين فيختار شر الأبوين وهو الذي يهمله ولايؤدبه. وأما حديث أبي هريرة رضي الله عنه فالمراد منه التخيير في حق البالغ؛ لأنها قالت: نفعني وسقاني من بئر أبي عنبة، ومعنى قولها: نفعني أي: كسب علي، والبالغ هو الذي يقدر على الكسب. وقد قيل: إن بئر أبي عنبة بالمدينة لايمكن الصغير الاستقاء منه، فدل على أن المراد منه التخيير في حق البالغ، ونحن به نقول: إن الصبي إذا بلغ يخير. والدليل عليه ما روي عن عمارة بن ربيعة المخزومي أنه قال: غزا أبي البحرين؛ فقتل، فجاء عمي ليذهب بي، فخاصمته أمي إلى علي بن أبي طالب رضي الله عنه، ومعي أخ لي صغير، فخيرني علي رضي الله عنه ثلاثًا، فاخترت أمي فأبى عمي أن يرضى، فوكزه علي رضي الله عنه بيده وضربه بدرته، وقال: لو بلغ هذا الصبي أيضًا خيّر، فهذا يدل على أن التخيير لايكون إلا بعد البلوغ". بچی کی پرورش کا حق ماں کو بچی کے ۹/ سال کی عمر پہونچ جانے تک رہتا ہے بشرطیکہ ماں نے دوسری شادی بچی کے نامحرم سے نہ کرلی ہو اگر دوسری شادی کرے گی تو اس کا حق حضانت ختم ہو جائے گا اسی طرح بچی کے ۹/سال کی عمر کو پہونچ جانے پر بھی بچی کا حق حضانت ماں کے لئے ختم ہو جاتا ہے۔ اور باپ کو اختیار اور حق حاصل ہو جاتا ہے کہ بچی کو اپنی پرورش اور تربیت میں رکھے پھر شادی کے لائق ہو جانے پر اس کی شادی کا بندوبست کرے۔ قال فی الدر: والام احق بہا حتی تحیض... وغیرہما احق بہا حتی تشتہی وقدر بتسع وبہ یفتی وعن محمد ان الحکم فی الام والجدة وبہ یفتی لکثرة الفساد ۔ ص:۲۶۸، ۵۸۰۔ بچوں سے ماں باپ کا ملنا ملانا بھی تربیت کی ایک قسم ہے جوکہ بچہ والدین کی پرورش میں ہی سیکھتا ہے اوران دونوں کی دیکھـ بھال اوراس کی اچھی تربیت کرنے سے بچے کا جسم بڑھتا اوراس کی عقل میں نمو اورپختگي آتی ہے اوروہ اپنے آپ کو پاکيزہ بنا کر زندگی کے لیے تیار کرتا ہے ۔ اورجب والدین کے درمیان علیحدگی ہوجاۓ اوران کا کوئي بچہ بھی ہو تواس صورت میں باپ سے زيادہ ماں کو بچے کا حق ہے جب تک کہ کوئي مانع نہ پایا جاۓ اوریا پھر بچے میں کوئي وصف ہوجواختیار کا تقاضہ کرے ۔ باپ کے مقابلہ میں ماں کومقدم کرنے کا سبب یہ ہے کہ ماں کوہی بچے کی پرورش اوررضاعت کا حق حاصل ہے ، اس لیے کہ وہ بچے کی تربییت کرنا زيادہ جانتی ہے اوراسے اس پر قدرت بھی زيادہ حاصل ہوتی ہے اوراسی طرح اس معاملے میں صبرکرنے کی بھی گنجائش ہوتی ہے جوکہ مرد کے پاس نہیں ۔ اوراسی طرح ماں کے پاس تربیت کے لیے وقت بھی زیادہ ہوتا ہے جو کہ مرد کے پاس نہيں اس لیے بچے کی مصلحت کومد نظر رکھتے ہوۓ ماں کوپرورش اورتربیت کے لیے مقدم کیا گیا ہے ۔ عبداللہ بن عمرو رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا : اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بلاشبہ اس بچے کے لیے میرا پیٹ ایک برتن بنا رہا ، اورمیری گود اس کے لیے حفاظت کی جگہ رہی اورمیرا سینہ اس کے لیے خوراک مہیا کرتا رہا ، اوراب اس کا والد سے مجھ سے چھیننا چاہتا ہے ۔ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تک تونکاح نہ کرلے اس کی توہی زيادہ حقدار ہے ۔ مسند احمد ( 2/ 182 ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2276 ) مستدرک الحاکم ( 2 / 225 ) امام حاکم رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کوصحیح کہا ہے ۔ یحیی بن سعید کہتے ہیں کہ میں نے قاسم بن محمد سے سنا وہ کہہ رہے تھے کہ عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ کے پاس ( بیوی ) ایک انصاری عورت تھی جس سے ان کے بیٹے عمر بن عاصم پیدا ہوۓ ، پھربعد میں عمر رضي اللہ تعالی عنہ نے اس عورت کوچھوڑ دیا ، ایک دفعہ عمر رضي اللہ تعالی عنہ قبا گۓ تواپنے بیٹے عاصم کومسجد کے صحن میں کھیلتے ہوۓ پایا تواسے بازو سے پکڑ کراپنے ساتھ سواری پر سوار کرلیا اتنی دیر میں بچے کی نانی عمر رضي اللہ تعالی عنہ تک آ پہنچی اوربچے کولینے کی کوشش کرنے لگی حتی کہ دونوں ابوبکرصدیق رضي اللہ تعالی عنہ کے پاس آۓ ۔ اورعمر رضي اللہ تعالی عنہ کہنے لگے : میرا بیٹا ہے ، اورعورت کہنے لگی یہ بیٹا میرا ہے ، توابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ نے فرمایا : آپ اسے اس عورت کو دے دیں توعمر رضي اللہ تعالی عنہ نے ان سے کوئي بات بھی نہ کی ۔ امام مالک رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کوموطا میں روایت کیا ہے ( 2 / 767 ) سنن بیھقی ( 8 / 5 ) ۔ ابن عبدالبر رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ یہ حدیث منقطع اورمتصل دونوں طریق سے مشہور ہے اوراہل علم نے اسے قبول کا درجہ دیا ہے ۔ اوربعض روایات میں ہے کہ ابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ نے فرمایا : ماں زيادہ مہربان اوررحم کرنے والی اورنرم دل ، زيادہ محبت کرنے والی ، زيادہ لائق اور جب تک شادی نہ کرلے وہ بچے کی زيادہ حقدار ہے ۔ اورابوبکررضي اللہ تعالی عنہ نے جویہ فرمایا تھا کہ ماں زيادہ مہربان اوررحمدل ہوتی ہے ، اسی علت اورسبب سے ماں چھوٹے بچے کی زيادہ حقدار ہے ،

No comments:

Post a Comment