https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 28 December 2021

عمامہ کی شرعی حیثیت ,کیایہ بدعت ہے.

 (۱)عمامہ پہننا مسنون ہے ؛ لیکن یہ سنن عادیہ میں سے ہے ،یعنی اس کا اختیار کرنا بہتر ہے اور اس کے ترک پر نکیر کرنا صحیح نہیں ہے ؛ لہٰذا اگر کوئی شخص ٹوپی اوڑھتا ہے ، تو اس پر نکیر نہیں کی جاسکتی، ہمارے اَکابر رحمہم اللہ میں سے اکثر حضرات عمامہ کا استعمال فرماتے تھے اور اِس وقت بھی اکثر اکابر عمامہ استعمال فرماتے ہیں، بعض مستقل پہنتے ہیں اور بعض کبھی کبھی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی صرف ٹوپی کا پہننا ثابت ہے اور جو حضرات زیادہ تر ٹوپی استعمال فرماتے ہیں، وہ بھی عمامہ کی مخالفت نہیں فرماتے ، عمامہ کی ترغیب دینے کی اِجازت ہے ؛ لیکن اُسے واجب یا لازمی قرار دینا اور تشدد اختیار کرنااور جو عمامہ نہ پہنے اُس کی تحقیر کرنا صحیح نہیں ہے ۔ (۲)سنت کی دو قسمیں ہیں: (۱) سننِ ہدیٰ (۲) سنن زوائد۔ سننِ ہدیٰ یعنی عبادات وغیرہ سے متعلق موٴکدہ سنتوں کا ترک موجب موٴاخذہ ہے اورسننِ زوائد یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس وغیرہ سے متعلق سنتیں استحباب کے درجہ کی ہیں، اُن کو اختیار کرنا بہتر ہے ؛ لیکن اُن کے ترک پر نکیر نہیں کی جائے گی۔

السنة نوعان: سنة الہدیٰ وترکہا یوجب إساء ة وکراہیة کالجماعة والأذان والإقامة ونحوہا وسنة الزوائد وترکہا لا یوجب ذٰلک کسیر النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی لباسہ وقیامہ وقعودہ۔ (شامی، کتاب الطہارة / مطلب فی السنة وتعریفہا:۱/۲۱۸زکریا) وکان یلبسہا ویلبس تحتہا القلنسوة، وکان یلبس القلنسوة بغیر عمامة ویلبس العمامة بغیر قلنسوة۔ (زاد المعاد ۱/۱۳۵)

   آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتحِ  مکہ کے علاوہ بھی عمامہ باندھنا ثابت ہے۔  چند روایات ملاحظہ فرمائیے: 

1-   حضرت عمرو بن حُریث  رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ حضورِ  اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے لوگوں کو خطبہ دیا تو آپ کے (سر کے) اوپرکالا عمامہ تھا۔  (صحیحمسلم)
2-   حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضورِ  اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے (مرض الوفات) میں خطبہ دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  (کے سر ) پر کالا عمامہ تھا۔  (صحیح بخاری وشمائل ترمذی)

3-   حضرت ابو سعید الخدری  رضی اللہ عنہ کی روایت ہے  کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  جب نیا کپڑا پہنتے تو اس کا نام عمامہ یا قمیص یا چادر رکھتے،  پھر یہ دعا پڑھتے: اے میرے اللہ! تیرا شکر ہے کہ تو نے مجھے یہ پہنایا، میں اس کپڑے کی خیر اور جس کے لیے یہ بنایا گیا ہے اس کی خیر مانگتا ہوں اور اس کی اور جس کے  لیے یہ بنایا گیا ہے اس کے شر سے پناہ مانگتا ہوں۔ (سنن ترمذی) 
4-   حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو وضو کرتے دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر قطری عمامہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے عمامہ کے نیچے اپنا ہاتھ داخل فرمایا اور سر کے اگلے حصہ کا مسح فرمایا اور عمامہ کو نہیں کھولا۔ (سنن ابو داؤد) 
5-   حضرت عبد اللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: محرم (یعنی حج یا عمرہ کا احرام باندھنے والا) کرتا، عمامہ، پائجامہ اور ٹوپی نہیں پہن سکتا ۔  (صحیح بخاری وصحیح مسلم)

محرم کے لیے عمامہ کی ممانعت سے معلوم ہوتا ہے کہ عمامہ باندھنا اس زمانے کا عام رواج تھا۔

6- حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ جب عمامہ باندھتے تھے تو اسے (یعنی شملہ کو) دونوں کاندھوں کے درمیان لٹکا (چھوڑ) دیتے تھے۔ (ترمذی)

7- حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے سر پر عمامہ باندھا، اور اس کی ایک جانب میرے سامنے اور ایک پچھلی جانب چھوڑی۔ (ابوداؤد)

8- کتبِ حدیث، سیرت وشمائل میں رسول اللہ ﷺ کے عماموں اور ان کی لمبائی وغیرہ کا بھی ذکر ہے۔

9- صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو کئی روایات میں ان کے عمامے کا استعمال ملتاہے، بلکہ جنگوں کے دوران بھی عمامہ پہننا بہت سے صحابہ سے ثابت ہے۔ 

 لہذا یہ کہنا کہ عمامہ باندھنا بدعت ہے، درست نہیں۔ 

رہا یہ کہ کہنا کہ عرب میں اب  بالکل رواج نہیں رہا تو عرض ہے کہ اول تو عرب کی موجودہ تہذیب کو دورِ نبوی کا نمونہ قرار نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی اس بدلے ہوئے کلچر کو شرعی دلیل بنایا جاسکتا ہے۔  نیز یہ کہنا بھی درست نہیں کہ اب عرب میں بالکل رواج نہیں،  بلکہ عرب دنیا کے بہت سے قابلِ  قدر  اہلِ علم اور بعض خطوں کے لوگ اب بھی عمامہ باندھنے کا اہتمام کرتے ہیں۔  لہذا عمامہ کو برصغیر کی بدعت شمار کرنا  نااںصافی، اور لاعلمی پر مبنی بات ہے۔ 

Monday 27 December 2021

میسیج کے ذریعہ طلاق

 اگر شوہر اپنی بیوی کو مخاطب بناکر موبائل کے ذریعہ تین طلاق لکھ کر بیوی کے پاس بھیج دے اور شوہر میسیج بھیجنے کا اقرار کرتا ہو تو اس سے طلاق پڑجائے گی خواہ طلاق کی نیت کرے یا نہ کرے۔ جتنی طلاق لکھی ہوگی اتنی پڑے گی۔ الکتابة المرسومة أما إن أرسل الطلاق بأن کتب أما بعد فأنت طالق یقع الطلاق بأن کتب أما بعد فأنت طالق یقع الطلاق (الفتاوی الہندیة: ۱/۳۷۸)

والد کو غلط کام سے روکنے کاحکم

  والد  قابلِ احترام اور  معظم ہستی ہیں، اسی وجہ سے اولاد  پر ان تمام امور میں والد کی  اطاعت فرض ہے جن کی اطاعت میں شریعت کے کسی حکم سے ٹکراؤ  لازم نہ آئے، جائز امور میں ان کی نافرمانی اور ان کی ایذا  رسانی  سخت حرام اورکبیرہ گناہ  ہے، قرآنِ کریم اور متعدد احادیثِ نبویہ  میں والدین کی فرمان برداری اور ان کے  ساتھ حسنِ سلوک و خدمت کی بڑی تاکید آئی ہے،  والدین میں سے کسی کی بھی نافرمانی یا ان کی ایذا رسانی  پر  بہت وعیدیں آئی  ہیں،  جیسے کہ قرآن مجید میں ہے:

{وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا ً وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَارَبَّيَانِي صَغِيرًا} [الإسراء: 23، 24]

 ترجمہ: اور تیرے رب  نے حکم دیا ہے کہ بجز اس کے کسی کی  عبادت مت کرو، اور تم (اپنے)  ماں  باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو،  اگر  تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جاویں، سو ان کو کبھی (ہاں سے) ہوں  بھی مت کرنا اور نہ ان کو جھڑکنا ، اور ان سے خوب اَدب سے بات کرنا، اور ان کے سامنے شفقت سے، انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا  کہ اے  پروردگار ان دونوں پر رحمت فرمائیں جیساکہ انہوں  نےمجھ کو بچپن میں پالا پرورش کیا ہے۔

(سورۃ الاسراء، رقم الآیۃ:23،24، ترجمہ:بیان القرآن)

حدیث شریف میں ہے:

"عن ابن عباس قال: قال رسول الله ﷺ: من أصبح مطیعاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من الجنة وإن کان واحداً فواحداً، ومن أصبح عاصیاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من النار، إن کان واحداً فواحداً، قال رجل: وإن ظلماه؟ قال: وإن ظلماه وإن ظلماه وإن ظلماه. رواه البیهقي في شعب الإیمان".

(مشکاة المصابیح، کتاب الآداب، باب البر والصلة، رقم الحديث:4943، ج:3، ص:1382، ط:المكتب الاسلامى)

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ  نے ارشاد فرمایا: جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا مطیع وفرماں بردار ہو تو اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کوئی ایک (حیات) ہو  (اور وہ اس کا مطیع ہو) تو ایک دروازہ کھول دیا جاتاہے۔ اور جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا نافرمان ہو تو اس کے لیے صبح کے وقت جہنم کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کسی ایک کا نافرمان ہو تو ایک دروازہ جہنم کا کھول دیا جاتاہے۔ ایک شخص نے سوال کیا: اگرچہ والدین ظلم کریں؟ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگرچہ وہ دونوں اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں۔ 

حدیث شریف میں ہے:

 " عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا حَقُّ الْوَالِدَيْنِ عَلَى وَلَدِهِمَا؟ قَالَ: «هُمَا جَنَّتُكَ وَنَارُكَ»".

(مشکوٰۃ المصابيح، باب البر والصلة، رقم الحديث:4941، ج:3، ص:1382، ط:المكتب الاسلامى)

         ترجمہ:  حضرت ابو  امامہ رضی  اللہ  تعالی عنہ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے پوچھا ،  اے  اللہ کے رسول! والدین کا اولاد کے ذمہ کیا حق ہے؟ فرمایا : وہ تیری جنت یا دوزخ ہیں ، (یعنی ان کی خدمت کروگے تو  جنت میں جاؤ گے ،  ان نافرمانی کروگے  تو دوزخ میں جاؤگے)        

 اگر والد کسی بات اورمعاملہ میں غلطی پر ہوں تو ان  کو حکمت اور مصلحت سے سمجھائیں، تاہم اس دوران لہجہ سے امتیازی سلوک، یا بدکلامی کا احساس نہ ہو، اور نہ ہی ان کی غلطی ثابت کرنا مقصود ہو، اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ کر اخلاص سے ان کو سمجھاجایا جائے تو کوئی گناہ بھی نہ ہوگا، 

تحفة الأحوذي شرح جامع الترمذي میں ہے:

"عن عبد الرحمن بن أبي بكرة عن أبيه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ألا أحدثكم بأكبر الكبائر؟ قالوا: بلى يا رسول الله، قال: الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، قال: وجلس وكان متكئا، قال: وشهادة الزور أو قول الزور، فما زال رسول الله صلى الله عليه وسلم يقولها حتى قلنا ليته سكت".

(وعقوق الوالدين) بضم العين المهملة مشتق من العق وهو القطع والمراد به صدور ما يتأذى به الوالد من ولده من قول أو فعل إلا في شرك أو معصية ما لم يتعنت الوالد، وضبطه ابن عطية بوجوب طاعتهما في المباحات فعلا وتركا، واستحبابها في المندوبات وفروض الكفاية كذلك، ومنه تقديمهما عند تعارض الأمرين، وهو كمن دعته أمه ليمرضها مثلا بحيث يفوت عليه فعل واجب إن أستمر عندها ويفوت ما قصدته من تأنيسه لها وغير ذلك أن لو تركها وفعله وكان مما يمكن تداركه مع فوات الفضيلة كالصلاة أول الوقت أو في الجماعة (قالً وجلس) أي للاهتمام بهذا الأمر وهو يفيد تأكيد تحريمه وعظم قبحه (وكان متكئاً) جملة حالية، وسبب الاهتمام بذلك كون قول الزور أو شهادة الزور، أسهل وقوعاً على الناس والتهاون بها أكثر، فإن الإشراك ينبو عنه قلب المسلم. والعقوق يصرف عنه الطبع، وأما الزور فالحوامل عليه كثيرة كالعداوة والحسد وغيرهما فاحتيج إلى الاهتمام بتعظيمه، وليس ذلك لعظمهما بالنسبة إلى ما ذكر معها من الإشراك قطعاً، بل لكون مفسدة الزور متعدية إلى غير الشاهد بخلاف الشرك فإن مفسدته قاصرة غالباً. وهذا الحديث يأتي أيضاً بسنده ومتنه في الشهادات."

(باب ما جاء في عقوق الوالدين، ج:6، ص:23، ط:دارالكتب العلمية)

Sunday 26 December 2021

دجالی معاونین کی سبزچادروںوالی روایت کی تحقیق

 دجال کے متبعین کے بارے میں تین طرح کی احادیث مذکور ہیں،  دو روایات مصنف عبدالرزاق میں، جب کہ ایک روایت مسلم میں موجود ہے۔

امام مسلم رحمہ اللہ نے اس روایت کو ان الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے:

1- "حدثنا منصور بن أبي مزاحم قال: حدثنا يحیی بن حمزة، عن الأوزاعي، عن إسحاق بن عبدالله عن عمّه أنس بن مالك أنّ رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: يتبع الدجال من يهود أصبهان سبعون ألفًا عليهم الطيالسة". (الصحيح لمسلم، كتاب الفتن، باب يتبع الدجال من يهود أصبهان سبعون ألفًا: ۱۳۹۴، رقم الحديث : ۲٠۹۴، ط: دارالتاصيل)

ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: " اصبہان کے ستر ہزار  یہودی دجال کی اطاعت وپیروی اختیار کریں گے جن کے سروں پر طیلسان ہوں گی"۔

"طیالسه": یہ ’’طَیْلَسَان‘‘  کی جمع ہے جو عرب میں ایک مشہور کپڑے کا نام ہے اور چادر کی صورت میں استعمال ہوتا ہے۔

2-  مصنف عبدالرزاق میں روایت ان الفاظ کے ساتھ مروی ہے:

"أخبرنا عبدالرزاق عن معمر عن أبي هارون عن أبي سعيد قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: يتبع الدجال من أمّتي سبعون ألفًا عليهم السيجان". (مصنف عبدالرزاق، كتاب الفتن، باب الدجال: ۱۱/۳۹۳، ط: المجلس العلمي)

اس روایت میں ’’سِیْجَان‘‘  کا لفظ ہے جو ’’ساج‘‘  کی جمع ہے،  اور ساج بھی طیلسان کی طرح چادر کو کہا جاتا ہے،  ’’ہدایۃ الرواۃ‘‘  کے حاشیہ میں مذکور ہے: ”السيجان جمع ساج، وهو الطيلسان الأخضر“. (هداية الرواة، الفتن، باب العلامات بين يدي الساعة: ۵/۱۳٦، ط: دارابن قيم )یعنی ’’سیجان‘‘  سے مراد سبز رنگ کی چادر ہے۔

اس روایت میں الفاظ ہیں ’’میری امت کے‘‘ جب کہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے ’’یہود ‘‘ میں سے، ’’ہدایۃ الرواۃ‘‘  میں مذکور ہے کہ اس حدیث (یعنی مصنف عبدالرزاق والی اس روایت) میں ابوہارون متروک راوی ہیں، نیز محشی نے یہ بھی لکھا ہے کہ ان کی یہ حدیث صحیح مسلم کی روایت کے مخالف ہے؛  لہذا اس کا اعتبار نہیں ہے ۔

تقریب التہذیب میں ابوہارون کا تذکرہ ان الفاظ کے ساتھ مذکور ہے:

 ”عمارة بن جزء بن لحیم مصغر، أبو هارون العبدي، مشهور بكنيته، "متروك"، ومنهم من كذّبه، شيعي من الرابعة، مات سنة أربع وثلاثين‘‘. (تقريب التهذيب:۴۳٦، مكتبه رشيديه)

3- مصنف عبدالرزاق میں دوسری روایت ان الفاظ کے ساتھ منقول ہے:

”أخبرنا عبدالرزاق عن معمر عن يحيى بن أبي كثير يرويه، قال: عامّة من يتبع الدجال يهود أصبهان“. (مصنف عبدالرزاق، الفتن، باب الدجال: ۱۱/۳۹۳،۳۹۴، ط: المجلس العلمي)

یہ حدیث متصل نہ ہونے کی وجہ سے صحیح مسلم والی روایت کے معارض نہیں،  لہذا مسلم والی روایت کو ترجیح حاصل ہوگی ، اور اسی کو درست قرار دیا جائے گا ۔

خلاصہ  یہ ہے کہ مذکورہ لباس (کپڑے) سے مراد سبز عمامہ نہیں ہے، بلکہ سبز چادر ہے، نیز دجال کے مذکورہ پیروکاروں سے مراد یہود ہیں، یہود کے متعصب مذہبی افراد آج بھی بعض جگہوں پر سبز چادر استعمال کرتے ہیں،  لہٰذا  اس حدیث کا مصداق مسلمانوں کے کسی خاص فرقے یا فرد کو قرار دینا درست نہیں۔

یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ سبز عمامہ پہننا رسول اللہ ﷺ کی سنت نہیں ہے۔ البتہ قرونِ ثلاثہ اولیٰ اور بعد کے اولیاء سے اس کا استعمال ثابت ہے۔ ہمارے اکابر نے اس کے التزام و اصرار اور اسے سنت کہنے یا صرف اسے محبتِ رسول ﷺ کی علامت سمجھنے یا کہنے سے منع کیا ہے، اور چوں کہ موجودہ دور میں ایک خاص طبقے نے مذکورہ قیود کے ساتھ اس کا التزام کیا ہے، اس لیے اس سے اجتناب کا کہاجاتاہے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اگر کسی مسلمان کا عقیدہ یا عمل بدعت کے درجے تک محدود ہے تو اسے بدعت اور بے راہ روی تک ہی محدود رکھا جائے،  اس کی مخالفت میں اسے دجال کے متبعین میں شمار کرنا صریح ناانصافی ہوگا۔

البتہ دجال کا فتنہ سخت ترین فتنہ ہوگا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہر نبی علیہ السلام نے اپنی امت کو اس فتنے سے ڈرایا ہے، اور بعض روایات میں ہے کہ دجال کا فتنہ قبر کے فتنے کے قریب ہوگا، اس لیے اللہ تبارک وتعالیٰ سے ڈرتے رہنا چاہیے اور خلوص سے دعا کرنی چاہیے کہ اللہ پاک ہمیں ان میں شامل نہ فرمائے اور ہم سب کی حفاطت فرمائے

گھرسے نکلنے کے وقت کی دعاء

بِسْمِ اللَّهِ، تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ میں اللہ ہی کے نام کے ساتھ نکلا، (اور) میں نے اللہ پر بھروسہ کیا، گناہوں سے پھرنے اور عبادت کرنے کی طاقت اللہ ہی کی طرف سے ہے۔

(الجامع الترمذی، باب ماجاء ما یقول اذا خرج من بیتہ، رقم الحدیث 3426)

فضیلت: جو شخص گھر سے نکلتے ہوئے یہ دعا پڑھتا ہے، تو اس سے کہا جاتا ہے کہ تیری کفایت کر دی گئی، اور تجھے بچا لیا گیا، اور شیطان تجھ سے دور ہو گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

لما جاء فی الجامع الترمذی:

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْأُمَوِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ إِسْحَاق بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَنْ قَالَ يَعْنِي إِذَا خَرَجَ مِنْ بَيْتِهِ:‏‏‏‏ بِسْمِ اللَّهِ تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏يُقَالُ لَهُ كُفِيتَ وَوُقِيتَ وَتَنَحَّى عَنْهُ الشَّيْطَانُ.

(الجامع الترمذی، باب ماجاء ما یقول اذا خرج من بیتہ، رقم الحدیث 3426، دارالحدیث القاہرۃ)

Saturday 25 December 2021

گھر میں داخل ہونے کی دعاء

 اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ خَيْرَ الْمَوْلِجِ، وَخَيْرَ الْمَخْرَجِ، بِسْمِ اللَّهِ وَلَجْنَا، وَبِسْمِ اللَّهِ خَرَجْنَا، وَعَلَى اللَّهِ رَبِّنَا تَوَكَّلْنَا


ترجمہ:
اے اللہ ! میں آپ سے داخل ہونے کی بھلائی اور نکلنے کی بھلائی مانگتا ہوں، اللہ ہی کے نام سے ہم داخل ہوئے اور اللہ ہی کے نام سے ہم نکلے اور اللہ ہی پر جو ہمارا پروردگار ہے، ہم نے بھروسہ کیا۔

(سنن لابی داؤد، باب ما يقول الرجل إذا دخل بيته، رقم الحدیث5096)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

لما جاء فی السنن لابی داؤد:

حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْفٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ابْنُ عَوْفٍ وَرَأَيْتُ فِي أَصْلِ إِسْمَاعِيل، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي ضَمْضَمٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ شُرَيْحٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي مَالِكٍ الْأَشْعَرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِذَا وَلَجَ الرَّجُلُ بَيْتَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَلْيَقُلْ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ خَيْرَ الْمَوْلَجِ وَخَيْرَ الْمَخْرَجِ، ‏‏‏‏‏‏بِسْمِ اللَّهِ وَلَجْنَا وَبِسْمِ اللَّهِ خَرَجْنَا وَعَلَى اللَّهِ رَبِّنَا تَوَكَّلْنَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ لِيُسَلِّمْ عَلَى أَهْلِهِ .

(سنن لابی داؤد، باب ما يقول الرجل إذا دخل بيته، رقم الحدیث5096، المکتبۃ العصریۃ)

Friday 24 December 2021

اولادکاوالدین کوان کی خیرخواہی میں ٹوکنااورغصہ کرنا

  شریعتِ مطہرہ نے جہاںوالدین سے حسنِ سلوک کو فرائض میں شمار کیا ہے، وہیں حسنِ سلوک کا طریقہ بھی بتا دیا  اور وہ  یہ ہے کہ والدین کے ساتھ  نرمی سے پیش آئیں ایسا رویہ اختیار نہ کریں جس سے ان کو ایذا  ہو،  چنانچہ قرآن پاک میں ہے :

{وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا }  [الإسراء: 23]

ترجمہ :  اور  تیرے رب نے حکم کر دیا ہے کہ بجز اس کے کسی کی عبادت مت کرو اور تم (اپنے) ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جاویں سو ان کو کبھی (ہاں سے) ہوں بھی مت کرنا اور نہ ان کو جھڑکنا اور ان سے خوب ادب سے بات کرنا۔

  قرآنِ  پاک میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے والد کو سب سے بڑے گناہ  یعنی شرک سے توبہ کرنے کی دعوت کو نقل کیا گیا ہے   جس میں انہوں نے والد کے ادب کو بھی ملحوظ رکھا :

{إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِي عَنْكَ شَيْئًا} [مريم: 42]

ترجمہ : بابا شیطان کی عبادت نہ  کیجیے کہ شیطان رحمان کی نافرمانی کرنے والا ہے۔

نیز قرآنِ پاک میں حکم ہے کہ اگر والدین اولاد کو شرک پر مجبور کریں تو  اولاد ان کی اطاعت تو ہرگز نہ کرے، لیکن اس کے ساتھ ہی حکم دیا کہ دنیا میں ان کے ساتھ گزران اچھا رکھے، اور حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ فرعون سے نرمی سے بات کریں، شاید کہ وہ نصیحت حاصل کرے یا اللہ کا لحاظ کرلے۔

بہرحال  والدین کے فائدے کے لیے بھی انہیں کچھ   کہتے وقت ان کے مقام کا لحاظ  رکھا جائے، ادب  کے دائرے میں ہی صحیح بات کی طرف متوجہ کیا جائے، اگر ادب کے دائرے سے نکل کر ان سے گفتگو  کی گئی اور  اس بے ادبی پر انہیں تکلیف ہوئی تو اس صورت میں اس تکلیف اور حق تلفی پر ان سے معافی مانگنا لازم ہے، البتہ اگر ان سے ایسا تعلق ہو کہ وہ اس بے ادبی کو برا نہ محسوس کریں،  بلکہ اولاد کا خیر خواہانہ  جذبہ ان کے سامنے ہو اور تکلیف محسوس نہ کریں تو اس بے ادبی  پر ان سے معافی مانگنا ضروری نہیں، اللہ تعالی سے معافی مانگنا کافی  ہے۔

الموسوعة الفقهية الكويتية (8 / 64):

"و قدم في الحديث بر الوالدين على الجهاد؛ لأن برهما فرض عين يتعين عليه القيام به، و لاينوب عنه فيه غيره."

تفسير ابن كثير ت سلامة (5 / 64):

"و لما نهاه عن القول القبيح و الفعل القبيح، أمره بالقول الحسن والفعل الحسن فقال:{وقل لهما قولًا كريمًا} أي: لينًا طيبًا حسنًا بتأدب وتوقير وتعظيم."

تفسير ابن كثير ت سلامة (5 / 67):

{ربكم أعلم بما في نفوسكم إن تكونوا صالحين فإنه كان للأوابين غفورا}

قال سعيد بن جبير: هو الرجل تكون (9) منه البادرة إلى أبويه، وفي نيته وقلبه أنه لا يؤخذ به -وفي رواية: لا يريد إلا الخير بذلك -فقال:{ربكم أعلم بما في نفوسكم}

وقوله [تعالى] (10) : {فإنه كان للأوابين غفورا}

تفسير الجلالين (1 / 368):

{ربكم أعلم بما في نفوسكم}من إضمار البر والعقوق {إن تكونوا صالحين} طائعين لله{فإنه كان للأوابين}الرجاعين إلى طاعته{غفورا} لما صدر منهم في حق الوالدين من بادرة وهم لايضمرون عقوقًا."

اگروالدہ نمازنہ پڑھے تو اولاد کو کیاکرناچاہئے.

 شریعتِ  مطہرہ نے والدہ سے حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے، اگر کوئی شخص والدہ سے بدسلوکی، بدتمیزی سے پیش آتا ہے تو مختلف احادیث میں ایسے شخص کے  لیے سخت وعیدوں کا ذکر ہے، جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:

 "عن ابن عباس قال: قال رسول الله ﷺ: من أصبح مطیعاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من الجنة وإن کان واحداً فواحداً، ومن أصبح عاصیاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من النار، إن کان واحداً فواحداً، قال رجل: وإن ظلماه؟ قال: وإن ظلماه وإن ظلماه وإن ظلماه. رواه البیهقي في شعب الإیمان".

(مشکاة المصابیح، کتاب الآداب، باب البر والصلة، رقم الحديث:4943، ج:3، ص:1382، ط:المكتب الاسلامى)

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا مطیع وفرماں بردار ہو تو اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کوئی ایک (حیات) ہو (اور وہ اس کا مطیع ہو) تو ایک دروازہ کھول دیا جاتاہے۔ اور جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا نافرمان ہو تو اس کے لیے صبح کے وقت جہنم کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کسی ایک کا نافرمان ہو تو ایک دروازہ جہنم کا کھول دیا جاتاہے۔  ایک شخص نے سوال کیا: اگرچہ والدین ظلم کریں؟ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگرچہ وہ دونوں اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں۔ 

حدیث شریف میں ہے:

 " عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا حَقُّ الْوَالِدَيْنِ عَلَى وَلَدِهِمَا؟ قَالَ: «هُمَا جَنَّتُكَ وَنَارُكَ»".

(مشکوٰۃ المصابيح، باب البر والصلة، رقم الحديث:4941، ج:3، ص:1382، ط:المكتب الاسلامى)

         ترجمہ:  حضرت ابو  امامہ رضی  اللہ  تعالی عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے پوچھا ،  اے  اللہ کے رسول! والدین کا اولاد کے ذمہ کیا حق ہے؟ فرمایا : وہ تیری جنت یا دوزخ ہیں ، (یعنی ان کی خدمت کروگے تو  جنت میں جاؤ گے ،  ان نافرمانی کروگے  تو دوزخ میں جاؤگے) ۔

حدیث شریف میں ہے:

"وَعَنْ أَبِي بَكْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كلُّ الذنوبِ يغفرُ اللَّهُ مِنْهَا مَا شاءَ إِلَّا عُقُوقَ الْوَالِدَيْنِ فَإِنَّهُ يُعَجَّلُ لِصَاحِبِهِ فِي الحياةِ قبلَ المماتِ»".

(مشکاۃ المصابیح، باب البر والصلۃ، رقم الحديث:4945، ج:3، ص:1383، ط:المكتب الاسلامى)

         ترجمہ: رسول کریمﷺ نے فرمایا : شرک کے علاوہ تمام گناہ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان میں سے جس قدر چاہتا ہے بخش دیتا ہے، مگر والدین کی نافرمانی کے گناہ کو نہیں بخشتا، بلکہ اللہ تعالیٰ ماں باپ کی نافرمانی کرنے والے کو موت سے پہلے اس کی زندگی میں  جلد ہی سزا  دے دیتا ہے۔

  والدہ کے نماز پڑھنے پر قدرت ہونے کے باوجود نماز نہ پڑھنا واقعتًا ایک بڑا گناہ ہے، تاہم والدہ کو حکمت ومصلحت سے نرمی اور محبت کے ساتھ  (بدتمیزی، بے ادبی اور ناروا سلوک کیے بغیر)سمجھانا چاہیے، ان کی خدمت کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے مسلسل ان کی ہدایت کی دعا بھی کرنی چاہیے،  

Thursday 23 December 2021

بچے کی پرورش کا حق

 طلاق  کے لیے بچہ دینے کی شرط لگانا کہ بچہ دوگی تبھی طلاق دوں گا ورنہ نہیں ,جائز نہیں،  بلکہ طلاق سے پہلے اور  بعد میں  چھوٹے بچے  کی حضانت (پرورش)  کا حق  ماں کو  حاصل ہے، ہاں سات سال کے بعد بچے کی تربیت کی عمر ہے، اور بچے کی تربیت والد کے ذمے ہے،لہذا بچے  کی عمر سات سال  ہونے کے بعد  والد اسے لے سکتا ہے۔

"و أما بیان من له الحضانة فالحضانة تکون للنساء في وقت و تکون للرجال في وقت، و الأصل فیها النساء لأنهن أشفق و أرفق و أهدی إلی تربیة الصغار، ثم تصرف إلی الرجال لأنهم علی الحمایة و الصیانة و إقامة مصالح الصغار أقدر."

(بدائع الصنائع ۳: ۴۵۶)

"أحق الناس بحضانة الصغیر حال قیام النکاح، أو بعد الفرقة الأم … وإن لم یکن أم تستحق الحضانة بأن کانت غیر أهل للحضانة، أو متزوجة بغیر محرم أو ماتت، فأم الأم أولیٰ. فإن لم یکن للأم أم، فأم الأب أولیٰ ممن سواہا، وإن علت."

(فتاوی عالمگیری ۱: ۵۴۱)

اولاد کے ذمہ والدکانفقہ کب لازم ہے

 اگر والدکی آمدنی کا کوئی ذریعہ موجود ہویا اس کے پاس جمع پونجی ہو،تو والد پر اسی میں سے اپنے نان ونفقہ کا انتظام کرنا لازم ہوگااور اگر والد کی آمدنی کا کوئی ذریعہ موجود نہ ہو اور کوئی جمع پونجی بھی نہ ہو،تو اس کی صاحب ِ حیثیت اولادپر اس کے نان ونفقہ کا انتظام کرنا برابر سرابر لازم ہے۔

الدرالمختار مع رد المحتار میں ہے:

"(و) تجب (على موسر) ولو صغيرا (يسار الفطرة) على الأرجح...(النفقة لأصوله)۔۔۔(الفقراء) ولو قادرين على الكسب"

"(قوله ولو قادرين على الكسب) جزم به في الهداية، فالمعتبر في إيجاب نفقة الوالدين مجرد الفقر"

(کتاب الطلاق،باب النفقة،ج:3،ص621،ط:سعید)

رد المحتار میں ہے:

"القسم الأول: الفروع فقط: والمعتبر فيهم القرب والجزئية: أي القرب بعد الجزئية دون الميراث كما علمت، ففي ولدين لمسلم فقير ولو أحدهما نصرانيا أو أنثى تجب نفقته عليهما سوية ذخيرة للتساوي في القرب والجزئية وإن اختلفا في الإرث"

(کتاب الطلاق،باب النفقة،ج:3،ص624،ط:سعید)

بیٹے کاوالدہ کے پاؤں دبانا

 بیٹا اپنی والدہ کے پاؤں دبا سکتا ہے بلکہ اولاد کو اپنی والدہ اور والد دونوں کی خدمت کرنی چاہیئے, یہ والدین کا حق ہے  ,أحادیث میں اس کی بہت فضیلت آئی ہے,حدیث میں ہے کہ جس نے اپنی والدہ کا پاؤں چوما گویا اس نے جنت کی چوکھٹ(یعنی دروازہ) کو بوسہ دیا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 367)
(وما حل نظره) مما مر من ذكر أو أنثى (حل لمسه) إذا أمن الشهوة على نفسه وعليها «لأنه عليه الصلاة والسلام كان يقبل رأس فاطمة» وقال - عليه الصلاة والسلام -: «من قبل رجل أمه فكأنما قبل عتبة الجنة» وإن لم يأمن ذلك أو شك، فلايحل له النظر والمس كشف الحقائق لابن سلطان والمجتبى (إلا من أجنبية) فلا يحل مس وجهها وكفها وإن أمن الشهوة؛ لأنه أغلظ ولذا تثبت به حرمة المصاهرة وهذا في الشابة
۔

طلاق کے بعد بچوں کووالدین سے ملنے کاپوراحق ہے.

 شوہر کو طلاق کے بعد بچوں کو ماں سے  ملنے سے روکنے کا حق حاصل نہیں ہے،ناہی ماں کویہ حق حاصل ہے کہ وہ ان کواپنے والدسے ملنے سے روکے.  بلکہ بچے اگر بالغ ہوں تو ان پر خود لازم ہے کہ والدہ سے ملیں اور اس کے ساتھ حسنِ سلوک کریں، اور اگر چھوٹے ہوں تو ماں کو ان سے  ملنے کا حق ہے اور شوہر کا انہیں روکنا ناجائز ہے۔

الفتاوى الهندية (1/ 543):

"الولد متى كان عند أحد الأبوين لايمنع الآخر عن النظر إليه وعن تعاهده، كذا في التتارخانية ناقلًا عن الحاوي."

Wednesday 22 December 2021

کسی عورت کو محرم بنانے کے لئے اس کی نابالغ بچی سے غیرجنسی عارضی نکاح کرناکیسا ہے ؟

 بالغ یا نابالغ لڑکی سے نکاح ہوتے ہی اس کی ماں سے حرمتِ  مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے، یعنی نکاح کرنے والے پر منکوحہ کی ماں ہمیشہ کے لیے حرام ہوجاتی ہے، بالفاظِ  دیگر منکوحہ کی  ماں سے حرمتِ  مصاہرت کے ثبوت کے  لیے منکوحہ  سے جنسی تعلق قائم کرنا شرط نہیں، لہذا صورتِ  مسئولہ میں نابالغ بچی سے نکاح ہوتے ہی اور جنسی تعلق  قائم کرنے سے پہلے ہی اس کی ماں نکاح کرنے والے پر ہمیشہ کے لئے حرام ہوجائے گی۔

چونکہ اس عمل کا مقصد نکاح کے مقاصد کا حصول نہیں، بلکہ محض اپنی ضرورت پوری کرنا ہے جواصلاََ نکاح کے شرعی مقاصدکے خلاف ہے، علامہ سرخسی رحمہ اللہ نکاح کے چند مقاصد کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:اس عقد کے ساتھ بے شمار دینی اور دنیوی مصلحتیں متعلق ہوتی ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں : عورتوں کی حفاظت ونگرانی، ان کا نان ونفقہ،زنا سے بچنا،اللہ تعالی کے بندوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی کثرت،(بروزِ قیامت) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے فخر کا متحقق ہونا،جیساکہ فرمانِِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ: "نکاح کرو اور نسل بڑھاؤ،تمہاری کثرت ہوگی ، سو میں قیامت کے دن تمہاے سبب فخر کروں گا" نکاح کی مشروعیت کا سبب اللہ تعالی کے مقرر کیے ہوئے وقت تک اس عالم کا بقا ہے اور یہ بقا توالد و  تناسل کے ذریعے ہی ممکن ہوگا۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں صرف بچی کی ماں کو محرم بنانے کے لیے نکاح کرنے سے  شریعتِ مطہرہ کی جانب سے میاں بیوی کےلیے وضع کردہ کئی اَحکام  کی خلاف ورزی اور بہت سے اَحکام کا استحصال ہوگا، چنانچہ اس عارضی  نکاح کے نتیجہ میں بیوی نان نفقہ سے محروم رہے گی، جب کہ نکاح کے عقد کی وجہ سے یہ ذمہ داری شوہر پر عائد ہوتی  ہے، "علامہ ابن نجیم" رحمہ اللہ نے " بدائع الصنائع " کے حوالہ سے نکاح کے اَحکام تفصیلًا ذکر کیے ہیں ، چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ: بدائع میں نکاح کے اَحکام علیحدہ فصل میں ذکر کیے ہیں، فرماتے ہیں کہ نکاح کے اَحکام میں سے مہر کا واجب ہونا، نفقہ اور پوشاک کا شوہر کے ذمہ لازم ہونا،حرمتِ مصاہرت کا ثابت ہونا، جانبین سے وراثت کا اجرا اور ان حقوق کی ادائیگی میں عدل کا واجب ہونا (جب کہ ایک سے زائد بیویاں ہوں) وغیرہ شامل ہیں۔لہذا اس قسم کے عارضی نکاح سے اجتناب کیا جائے۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق  (3 / 100)

"قَوْلُهُ ( وَأُمُّ امْرَأَتِهِ ) بَيَانٌ لِمَا ثَبَتَ بِالْمُصَاهَرَةِ لِقَوْلِهِ تَعَالَى { وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ } النساء 23 أَطْلَقَهُ فَلَا فَرْقَ بين كَوْنِ امْرَأَتِهِ مَدْخُولًا بها أو لَا وهو مُجْمَعٌ عليه عِنْدَ الْأَئِمَّةِ الْأَرْبَعَةِ وَتَوْضِيحُهُ في الْكَشَّافِ".

أحكام القرآن للجصاص (3 / 71)

"فلما كان قوله وَأُمَّهاتُ نِسائِكُمْ جملة مكتفية بنفسها يقتضى عمومها تحريم أمهات النساء مع وجود الدخول وعدمه وكان قوله تعالى وَرَبائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ مِنْ نِسائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُمْ بِهِنَّ جملة قائمة بنفسها على ما فيها من شرط الدخول لم يجز لنا بناء إحدى الجملتين على الأخرى بل الواجب إجراء المطلق منهما على إطلاقه والمقيد على تقييده وشرطه إلا أن تقوم الدلالة على أن إحداهما مبنية عن الأخرى محمولة على شرطها وأخرى وهي أن قوله تعالى وَرَبائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ مِنْ نِسائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَإِنْ لَمْ تَكُونُوا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلا جُناحَ عَلَيْكُمْ يجرى هذا الشرط مجرى الاستثناء".

في المبسوط للسرخسي:

"ثم يتعلق بهذا العقد أنواع من المصالح الدينية والدنيوية من ذلك حفظ النساء والقيام عليهن والإنفاق، ومن ذلك صيانة النفس عن الزنا، ومن ذلك تكثير عباد الله تعالى وأمة الرسول صلى الله عليه وسلم وتحقيق مباهاة الرسول صلى الله عليه وسلم بهم كما قال: «تناكحوا تناسلوا تكثروا فإني مباه بكم الأمم يوم القيامة» وسببه تعلق البقاء المقدور به إلى وقته فإن الله تعالى حكم ببقاء العالم إلى قيام الساعة وبالتناسل يكون هذا البقاء".

(کتاب النکاح،ج:4،ص:192،ط:دار المعرفة،بیروت)

في البحر الرائق:

"وقد ذكر أحكامه في البدائع في فصل على حدة فقال: منها حل الوطء لا في الحيض والنفاس والإحرام، وفي الظهار قبل التكفير ووجوبه قضاء مرة واحدة وديانة فيما زاد عليها، وقيل يجب قضاء أيضا، ومنها حل النظر والمس من رأسها إلى قدمها إلا لمانع ومنها ملك المنفعة، وهو اختصاص الزوج بمنافع بضعها وسائر أعضائها استمتاعا، ومنها ملك الحبس والقيد، وهو صيرورتها ممنوعة عن الخروج والبروز، ومنها وجوب المهر عليه، ومنها وجوب النفقة والكسوة، ومنها حرمة المصاهرة، ومنها الإرث من الجانبين، ومنها وجوب العدل بين النساء في حقوقهن، ومنها وجوب طاعته عليها إذا دعاها إلى الفراش، ومنها ولاية تأديبها إذا لم تطعه بأن نشزت، ومنها استحباب معاشرتها بالمعروف، وعليه حمل الأمر في قوله تعالى، {وعاشروهن بالمعروف} [النساء: 19] ، وهو مستحب لها أيضا والمعاشرة بالمعروف الإحسان قولا، وفعلا وخلقا إلى آخر ما في البدائع". 

(کتاب النکاح،ج:3،ص:139،ط:دار الکتب العلمیة)