https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Monday 1 January 2024

مرتد اگر دوبارہ توبہ کرکے اسلام میں داخل ہوناچاہے تواس کی توبہ قبول ہو گی کہ نہیں

  کسی کفریہ قول یا عمل کا ارتکاب کرنے والا  اگر صدق دل سے توبہ کرلے تو شرعاً اس  کی توبہ قبول  ہوجاتی ہے، لہذا   اگر کوئی شخص (العیاذ باللہ) مرتد ہونے کے بعد اس کیے ہوئے فعل یا قول سے توبہ کرکے آئندہ تمام کفر و شرک کی باتوں سے پرہیز کرنے کا عہد کرے اور دل کے یقین کے ساتھ زبان سے کلمہ طیبہ اور کلمہ شہادت پڑھےاور جملہ عقائد پر ایمان لے آئے، تو وہ شخص شرعاً دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتاہے اور  توبہ کے بعد ایمان کی دولت مل جاتی ہے، اور توبہ کرنے کے بعد اس شخص کا حکم بھی عام مسلمانوں کی طرح ہوجاتا ہے۔

آیندہ اپنی زندگی شریعت کے مطابق گزارے، اپنے فرائض  انجام دے اور  منکرات سے بچے  اور غیر ضروری خیالات میں الجھنے سے گریز کرے بلکہ حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر اختیاری  وسوسہ کا آنا اور  اسے برا سمجھنا ایمان کی علامت ہے، لہذا ان خیالات اور وسوسوں سے پریشان نہ ہوں ، اور ان کا علاج یہ ہے کہ ان کی طرف بالکل دھیان نہ دیا جائے، بل کہ ان کا خیال جھڑک کر ذکر  اللہ کی کثرت کا اہتمام کرنا چاہیے۔

صحیح بخاری میں ہے:

"عن يحيى بن يعمر، حدثه، أن أبا الأسود الدؤلي، حدثه ان أبا ذر رضي الله عنه حدثه، قال: أتيت النبي صلى الله عليه وسلم وعليه ثوب أبيض، وهو نائم، ثم أتيته وقد استيقظ، فقال:" ما من عبد قال لا إله إلا الله، ثم مات على ذلك، إلا دخل الجنة"، قلت: وإن زنى وإن سرق، قال:" وإن زنى وإن سرق"، قلت: وإن زنى وإن سرق، قال:" وإن زنى وإن سرق"، قلت: وإن زنى وإن سرق، قال:" وإن زنى وإن سرق"، على رغم أنف أبي ذر، وكان أبو ذر إذا حدث بهذا، قال: وإن رغم أنف أبي ذر".

"ترجمہ: حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ کے جسم مبارک پر سفید کپڑا تھا اور آپ سو رہے تھے، پھر دوبارہ حاضر ہوا تو آپ بیدار ہو چکے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس بندہ نے بھی کلمہ «لا إله إلا الله» ”اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں“ کو مان لیا اور پھر اسی پر وہ مرا تو جنت میں جائے گا۔ میں نے عرض کیا چاہے اس نے زنا کیا ہو، چاہے اس نے چوری کی ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چاہے اس نے زنا کیا ہو، چاہے اس نے چوری کی ہو، میں نے پھر عرض کیا: چاہے اس نے زنا کیا ہو، چاہے اس نے چوری کی ہو۔ فرمایا: چاہے اس نے زنا کیا ہو، چاہے اس نے چوری کی ہو۔ میں نے (حیرت کی وجہ سے پھر) عرض کیا: چاہے اس نے زنا کیا ہو یا اس نے چوری کی ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:چاہے اس نے زنا کیا ہو چاہے اس نے چوری کی ہو۔ ابوذر کی ناک خاک آلود ہو۔ ابوذر رضی اللہ عنہ بعد میں جب بھی یہ حدیث بیان کرتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے الفاظ ابوذر کے لیے  «وإن رغم أنف أبي ذر‏.‏») ضرور بیان کرتے۔ "

(کتاب الإیمان باب المعاصي من أمر الجاهلية ولا يكفر صاحبها بارتكابها إلا بالشرك: 1/ 204، ط: دار الفكر

Sunday 31 December 2023

کفریہ کلمات

 جان بوجھ کر انکار دین کی مختلف صورتیں ہیں:

۱۔صراحۃً(واضح طور پر) انکار کرنا اور جھٹلانا۔

حقیقی انکار درجِ ذیل صورتوں میں ہوتا ہے:

الف۔رسول اللہ ﷺ کی رسالت ہی کو نہ مانے۔

ب۔آپ ﷺ کے کسی ایک بھی حکم کو صراحۃً غلط (خلافِ واقع یا خلاف حقیقت) قرار دے۔

ج۔کسی مسلمہ طور پر ثابت شدہ(اجماعی) حکم کا جان بوجھ کر انکار کرے۔

۲۔اپنے قول یا فعل سے دین کے کسی قطعی حکم(جس کا ثبوت کسی بھی درجے میں قطعی اور یقینی ہو یعنی مستحب یا سنت کے طور پر ہو یا فرض وواجب کے طور پر)کا مذاق اُڑانا،توہین و تحقیر کرنا۔

۳۔عمداً ایسا کام کرنا یا ایسی بات کہنا جو استخفاف (دین میں ثابت شدہ کسی مسلمہ امر کی تحقیر) کی واضح علامت ہو۔

۴۔اپنی مرضی واختیار سے ایسا اقدام کرناجو دین کی تکذیب (جھٹلانے) کی دلیل اور علامت ہو، مثلاً کافروں کی طرح بتوں کو سجدہ کرنا یا قرآن کو گندگی میں ڈالنا یا کافروں کے مذہبی شعار اپنانا۔

۵۔بغیر کسی جبر واکراہ کےکسی باطل فرقے کی طرف اپنی نسبت کرنا،مثلاً اپنے کوقادیانی کہنایا لکھنا،لکھوانا ۔

۶۔ضروریاتِ دین (قطعی و بدیہی احکام) میں سے کسی حکم کی ایسی تاویل کرنا جو اجماع امت کے خلاف اور کھلم کھلا بے بنیاد ہو۔

ان چھ صورتوں میں سے پہلی صورت حقیقی انکار و تکذیب کی ہے،جبکہ باقی پانچ صورتیں بھی انکار کے حکم میں ہیں، اگرچہ ان میں صاف انکار نہیں۔

قطعیات وضروریات میں تاویل وانکار کا حکم:

وضاحت: جن احکامِ شرعیہ کا انکار باعث ِ تکفیر ہے ان کی دو نوعیتیں ہیں:

1۔قطعی محض،2۔قطعی بدیہی

قطعی محض:

وہ احکامِ شرعیہ جن کا ثبوت قرآن و حدیث اور اجماعِ اُمت کے ایسے صریح واضح اور یقینی دلائل سے ہو جن میں کسی قسم کا شبہہ نہ ہو،لیکن اس قدر معروف ومشہور نہ ہوں جس سے ہر خاص و عام  واقف ہو۔

قطعی بدیہی:

وہ احکامِ شرعیہ جو مذکورہ بالا مفہوم کے مطابق قطعی ہونے کے علاوہ اس قدر معروف و مشہور ہوں کہ ہر عام و خاص اس سے واقف ہو جیسے: نماز، زکوٰۃ، اذان ، ختم نبوت وغیرہ۔

قطعی محض کا انکار اس وقت موجب ِ کفر بنتا ہے،جبکہ انکار کرنے والے کو اس کا حکم شرعی ہونا یقینی طور پر معلوم ہو(روح المعانی)اور کسی معتبرذریعے(شرعی دلیل )کے سہارےسےحاصل تاویل کے بغیر انکار کرے،(در مختار)لہذاکسی دلیل کی بنیادپرتاویل یاجہالت(ناواقفیت)غلطی اور بھول کی بناء پر انکار باعث ِ کفر نہ ہوگا،جبکہ قطعی بدیہی کا انکار بہر صورت (خواہ علم ہو نہ ہو) بالاتفاق باعث ِ کفر ہے،نیز قطعی بدیہی کی خلاف ِظاہر تاویل بھی بہر حال(خواہ بظاہرکسی دلیل کا سہارا لے یا کہ نہیں۔)باعث ِ کفر ہے جیسا کہ ختم نبوۃ کے مفہوم میں مرزاقادیانی کا تاویل کرنا۔

(مزیدتفصیل کے لیے رسالہ"ایمان اور کفر" تالیف مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ  اور رسالہ"ایمان و کفر کا معیار" تالیف مفتی رشید احمد رحمہ اللہ  ،مندرجہ احسن الفتاویٰ 1/70 ملاحظہ ہو۔)

حاصل یہ کہ کفر پورے دین اسلام کے صراحۃً انکار ہی کو نہیں کہا جاتا،بلکہ دین اسلام کے قطعی احکام میں سے کسی ایک حکم کا بھی جان بوجھ کر انکار یا استخفاف کرنا خواہ صراحۃً ہو یا دلالۃً یا کسی قطعی بدیہی حکم کی خلافِ ظاہر وبداہت تاویل کرنا یا کسی کافر فرقے کی طرف اپنا انتساب کرنا بھی کفر ہے اور اس سے انسان کافر ہو جاتا ہے۔

لزومِ کفر:

لزومِ کفر یہ ہے کہ ان جانے میں ایسے قول یا فعل کا ارتکاب کیا جائے جس سے کفر لازم آئے۔

چنانچہ بعض دفعہ کفریہ کلمات کے زبان پر لانے سے بھی انسان نادانستہ طور پر شرعاً کافر قرار پاتا ہے۔

البتہ کسی کلمۂ کفر کو زبان پر لانے کی مختلف صورتیں ہیں،جن کے احکام بھی مختلف ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔حکم شرعی قطعی کا یقینی علم ہو اور عمداً (جان بوجھ کر) زبان پر کلمۂ کفر لایا جائے اور کفر کا ارادہ اور نیت بھی ہو، مثلاً جان بوجھ کر اپنے اختیار سے کلمۂ کفر کہنا۔(یہ در حقیت التزام کفر ہے۔)

۲۔حکم شرعی قطعی کا علم ہواورعمداً (جان بوجھ کر)زبان پرکلمۂ کفرلائے،اور کفر کا ارادہ نہ ہو،لیکن ساتھ ہی استخفاف کی واضح دلیل وعلامت پائی جائے،مثلاًمزاح یالہوولعب کے طورپرکلمۂ کفر کہنا،ان دونوں صورتوں میں بالاتفاق قائل کو کافر کہاجائے گا۔

۳۔نہ حکم شرعی قطعی کا علم ہو اور نہ ہی جان بوجھ کر زبان پر لایا اور نہ ہی کفر کا ارادہ ہو، مثلاً: بھول کر زبان سے کلمۂ کفر کہنا۔

۴۔علم تو تھا،لیکن نہ تو جان بوجھ کر زبان پر لایا ہو اور نہ ہی کفر کا قصد و ارادہ ہو، مثلاً: غلطی سے یا جبراً کسی کلمۂ کفر کا زبان پر لانا۔ ان دونوں صورتوں میں بالاتفاق قائل کو کافر نہیں کہا جائے گا۔

۵۔جان بوجھ کر زبان پر کلمۂ کفر لایا،لیکن کلمۂ کفر ہونے کا یا حکم ِ قطعی شرعی ہونے کا علم نہ ہو اور نہ ہی قصد اور ارادۂ کفر ہو، مثلاً: جہالت کی وجہ سے کلمۂ کفر بولنا۔

۶۔علم بھی ہواوربغیر کسی صحیح غرض ( نقل وحکایت)کےجان بوجھ کرزبان پربھی لایاہو،اور کفریہ معنی یاکافرہونے کاارادہ نہ ہویاکافرنہ ہونےکا ارادہ ہو،لیکن ساتھ ہی استخفاف کی کوئی واضح علامت بھی نہ پائی جائے۔مثلاً:صحیح اعتقاد کے باوجود،بلاضرورت جان بوجھ کر کلمۂ کفر بولنا۔

ان آخری دونوں صورتوں میں اختلاف ہے،بعض کے نزدیک قائل کو کافر کہا جائے گا اور بعض کے نزدیک کافر نہیں اور فتویٰ بھی اسی پر ہے کہ ان صورتوں میں قائل کو کافرتو نہیں کہا جائےگا، البتہ مرتکب کفر ضرور کہا جائے گا۔

لہٰذا جن صورتوں میں بالاتفاق تکفیر کی گئی ہے ان میں قائل کے لیے تجدید ایمان کے ساتھ تجدید نکاح بھی ضروری ہے،جبکہ جن صورتوں میں تکفیر میں اختلاف ہے ان میں فقط توبہ و استغفار ضروری ہے، البتہ احتیاطاً تجدید ایمان اور نکاح بھی کر لینا چاہیے،کیا خبر کفر واقع ہونا درست ہو۔ اگر تجدید نکاح نہیں کرے گا تو احتیاط پر عمل نہ کرنے کا گناہ ہوگا،لیکن نکاح کو ختم نہیں سمجھا جائے گا۔

تنبیہ:

گزشتہ بالا تفصیل اس کلمۂ کفر کے بارے میں ہے جس کا کلمۂ کفر ہونے میں علماء کا اختلاف نہ ہو،لہٰذا اگر کسی کلمہ کے کفریہ ہونے میں اختلاف ہو یا کفریہ ہونا واضح نہ ہو بلکہ صحیح معنی اور مفہوم بھی اس کا بن سکتا ہو اور اس کا قائل کسی قسم کے کفریہ معنی و مفہوم کا ارادہ بھی نہ رکھتا ہو تو ایسی صورت میں اہل فتویٰ کا اتفاق ہے کہ قائل کی تکفیر نہیں کی جائے گی،البتہ ایسے الفاظ سے اجتناب کے ساتھ احتیاطا تجدید نکاح وایمان کی تلقین کی جائے گی۔

البتہ اگر قائل خود ہی کفریہ معنی کے ارادے کا اقرار کرے تو ایسی صورت میں ایسے قائل کی تکفیر میں کوئی تأمل نہ کیا جائے گا۔

مذکورہ تفصیل صرف نفس مسئلہ اور اس کی حساسیت کو سمجھانے کے لیے لکھی گئی ہے،لہذا کسی کے قول یا فعل پر اس کی تطبیق صرف ماہر ومستنداہل فتوی ہی کا کام ہے،عوام کےلیےاز خود کوئی فیصلہ کرنا درست نہیں،نیزآپ اپنے گھر والوں کی دینی حوالےسے ذہن سازی کی کوشش کریں،جس کا بنیادی وبہترین طریقہ یہ ہے کہ انہیں کسی مستند عالم وبزرگ کی مجلس میں باقاعدگی سے شریک کرانے کی کوشش کریں یا کم از کم تبلیغ کے عمل سے انہیں وابستہ کرانے کی کوشش کریں اور گھر میں فضائل اعمال اوردیگربزرگوں کے اصلاحی مواعظ کے کتابچوں کی تعلیم کا بھی اہتمام کریں اوردینی مسائل میں بحث ومباحثہ سے قطعی اجتناب رکھیں۔


الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 224)

(قوله والطوع) أي الاختيار احترازا عن الإكراه ودخل فيه الهازل كما مر لأنه يعد مستخفا لتعمده التلفظ به، وإن لم يقصد معناه وفي البحر عن الجامع الأصغر: إذا أطلق الرجل كلمة الكفر عمدا، لكنه لم يعتقد الكفر قال بعض أصحابنا: لا يكفر لأن الكفر يتعلق بالضمير ولم يعقد الضمير على الكفر، وقال بعضهم: يكفر وهو الصحيح عندي لأنه استخف بدينه. اهـ. ثم قال في البحر والحاصل: أن من تكلم بكلمة للكفر هازلا أو لاعبا كفر عند الكل ولا اعتبار باعتقاده كما صرح به في الخانية ومن تكلم بها مخطئا أو مكرها لا يكفر عند الكل، ومن تكلم بها عامدا عالما كفر عند الكل ومن تكلم بها اختيارا جاهلا بأنها كفر ففيه اختلاف. اهـ.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/344)

 (الایمان) ھو تصدیق محمد صلی اﷲ علیہ وسلم فی جمیع ما جاء بہ عن اﷲ تعالیٰ مما علم مجیئہ ضرورۃً۔

والکفر لغۃ الستروشرعاً تکذیبہ صلی اﷲ علیہ وسلم فی شیء مما جاء بہ من الدین ضرورۃ۔

 و فی الشامیۃ: قلت وقد حقق فی المسایرۃ أنہ لا بد فی حقیقۃ الإیمان من عدم ما یدل علی الاستخفاف من قول أو فعل ویأتی بیانہ۔

وفیھا أیضًا: قال فی المسایرۃ واتفق القائلون بعدم اعتبار الإقرار علی أنہ یلزم المصدق أنہ یعتقد أنہ حتی طولب بہ أتی بہ فإن طولب بہ فلم یقر بہ فہو أی کفر عن الإقرار کفر عناد، وھذا ما قالوا: إن ترک العناد شرط وفسروہ بہ … اقول: الظاھر أن المراد بالاشتراط المذکور نفی اعتقاد عدمہ ای أن لا یعتقد أنہ متی طولب بہ لا یقر الخ۔

تفسير الألوسي = روح المعاني (1/ 129)

یمین لغو

  یمین لغو (بلاقصد قسم)

یمین یعنی قسم کی تین قسمیں ہیں ان میں سے ایک قسم یمین لغو یا( یمین مظنون،یمین المعصیۃ) ہے اس کی تفسیر میں اختلاف ہے۔

امام شافعی کا قولترمیم

امام شافعی کے نزدیک یمین لغو کے معنی یہ ہیں کہ یہ جو قسم انسان کی زبان سے بلاقصد اور ارادہ نکل جائے جیسے عرب میں لاواللہ اور بلی واللہ تکیہ کلام تھا ایسی قسم میں نہ گناہ ہے نہ کفارہ۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ جس میں ارادہ ہو اگر وہ نفس الامر کے خلاف ہو تو اس میں کفارہ واجب ہوگا اگرچہ قسم کھانے والے کے گمان میں وہ واقع اور نفس الامر کے مطابق ہو۔

امام ابو حنیفہ کا قولترمیم

امام ابوحنیفہ کے نزدیک یمین لغووہ ہے کہ کسی گزشتہ چیز کو سچ سمجھ کر قسم کھائے اور واقع میں اس کے خلاف ہو لیکن اس نے اپنے گمان میں اس کو سچ سمجھ کر قسم کھالی ہو ایسی قسم میں نہ کفارہ ہے اور نہ کوئی گناہ، عبداللہ بن رواحہ اور ان کے داماد بشیر بن نعمان میں کسی بات پر کچھ تکرار ہواعبداللہ بن رواحہ نے قسم کھائی کہ میں نہ تم سے ملوں گا اور نہ تم سے کلام کروں گا اور نہ تمہاری کسی بھلائی اور برائی میں دخل دوں گا اس کے بعد عبد اللہ سے جب کوئی اس بارے میں کوئی بات کرتا اور کچھ کہنا چاہتا تو یہ کہہ دیتے کہ میں نے اللہ کی قسم کھالی ہے اس لیے میں کچھ نہیں کر سکتا اس پر یہ آیت نازل ہوئی "اور اللہ کے نام کو اپنی قسموں کے لیے آڑ نہ بناؤ یعنی رشتہ داروں میں سلوک اور احسان کرنے کے لیے اور تقوی اور پرہیزگاری کا کام کرنے کے لیے اور لوگوں میں صلح کرانے کے لیے قسم کو بہانہ نہ بناؤ" اور یہ نہ کہو کہ میں نے قسم کھالی ہے اس لیے میں یہ کام نہیں کر سکتا۔

یمین لغو میں اختلافترمیم

یمین لغو کی تفسیر میں ائمہ کا اختلاف ہے۔ ابن عباس اور حسن بصری اور مجاہد اور نخعی اور زہری اور سلیمان بن یسار اور قتاوہ اور سدی اور مکحول اور امام ابو حنیفہ کہتے ہیں یمین لغو یہ ہے کہ کسی گذشتہ بات پر یہ جان کر کہ یہ یوں ہے قسم کھاوے اور اصل وہ یوں نہ ہوجیسا کہ کوئی کہے واللہ پرسوں بارش ہوئی تھی اور اس کو گمان غالب ہے کہ ہوئی تھی اور دراصل یہ غلطی پر تھا۔ یا کہے کہ واللہ یہ فلاں چیز ہے اور دراصل اس کا خیال غلط ہے۔ چونکہ اس نے عمداً جھوٹ نہیں بولا۔ یہ معاف ہے جیسا کہ اس آیت میں فرمایا ہے لا یؤ اخذکم اللہ باللغوفی ایمانکم اور عائشہ صدیقہ اور شبعی اور عکرمہ اور امام شافعی کہتے ہیں یہ یمین لغو نہیں کیونکہ اس میں قصد پایا گیا۔ اس پر کفارہ لازم ہوگا بلکہ لغو یہ ہے کہ بلا قصد یوں ہی بات بات پر واللہ باللہ کا استعمال کیا جاوے چونکہ اس میں قصد نہیں یہ لغویت معاف ہے ٗ خدا دل کو دیکھتا ہے۔
تکیہ کلام کے طورپر جیسے لوگوں میں رواج ہے کہ فلاں کے سر کی قسم یا فلاں کی جان کی قسم یہ بالکل منع ہے۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)عمرفاروق کے پاس پہنچے اس وقت وہ گھوڑے پر سوار تھے اور اپنے باپ کی قسم کھا رہے تھے، آپ نے فرمایا خبردار اللہ تعالیٰ تمہیں اس بات سے منع فرماتا ہے کہ اپنے باپوں کی قسم کھاؤ جس شخص کو قسم کھانا ہے تو وہ اللہ کی قسم کھائے یا خاموش رہے۔
جس قسم پر مواخذہ نہیں ہوگا اسے ’’ یمین لغو‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ لیکن یمین لغوکا لفظ ہمیں ایک اور اہم اور نازک بات کی طرف بھی متوجہ کرتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ یہ صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ اس قسم پر مواخذہ نہیں فرمائیں گے‘ لیکن اللہ تعالیٰ کا اس قسم کو لغو قرار دینا یقینا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پروردگار اس فعل اور رویے کو پسند نہیں فرماتے۔ کیونکہ کوئی سا لغو کام بھی اللہ کو پسند نہیں۔ اور ایک مومن کی جو صفات گنوائی گئی ہیں‘ اس میں بھی بطور خاص اس بات کا ذکر فرمایا ہے والذین ہم عن اللغو معرضون ’’ کہ فلاح پانے والے مومن وہ ہیں جو لغو سے اعراض کرنے والے ہیں‘‘ ایک مومن کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ اس کی زبان سے لغویات کا صدور ہو۔ چاہے اس کا تعلق زبان کی بے احتیاطی سے ہو اور چاہے اس کا تعلق معاملات میں لاپروائی سے ہو۔ ہر لا یعنی بات کو لغو کہا جاتا ہے۔ ایسے لا یعنی کاموں کو کرنا ایک مومن کو اس لیے زیب نہیں دیتا کیونکہ اس سے اسلام کا حسن دھندلا کر رہ جاتا ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے من حسن اسلام المرء ترکہ ما لا یعنیہ ’’ ایک آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ ہر لا یعنی بات کو چھوڑ دے‘‘ لغوقَسم بھی چونکہ ایسے ہی لا یعنی کاموں میں سے ہے‘ اس لیے ایک مومن کو اس کے ارتکاب سے ہمیشہ بچنا چاہیے۔[4] یمین لغویہ ہے کہ انسان ماضی یا حال کی کسی بات پر اپنی دانست میں سچی قسم کھائے اور درحقیقت وہ جھوٹ ہو‘ اس کو لغو اس لیے کہتے ہیں کہ اس پر کوئی ثمرہ مرتب نہیں ہوتا‘ نہ گناہ نہ کفارہ اس میں قسم کھانے والے کی بخشش کی امید کی گئی ہے۔ امام شافعی یہ کہتے ہیں کہ یمین لغو اس قسم کو کہتے ہیں جو انسان کی زبان پربلاقصد جاری ہو جیسے ’’ لا واللہ بلی واللہ‘‘ نہیں خدا کی قسم‘ ہاں خدا کی قسم

ابن عابدین کا قولترمیم

علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں لوگوں کی زبان پر جو نہیں خدا کی قسم اور ہاں خدا کی قسم ! جاری ہوتا ہے یہ یمین لغو ہے‘ ہمارے نزدیک یہ قسم ماضی اور حال پر موقوف ہے اور ہمارے نزدیک یہ لغو ہے اور ہمارے اور امام شافعی کے درمیان اختلاف کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص بلاقصد مستقبل کے متعلق قسم کھائے تو یہ امام شافعی کے نزدیک یمین لغو ہے اور اس میں کفارہ نہیں ہے اور ہمارے نزدیک یہ یمین منعقدہ ہے اور اس میں کفارہ ہے۔ یمین لغو صرف وہ ہے جو ماضی یا حال کے متعلق بلاقصد کھائی جائے [6]

علامہ ماوردی کا قولترمیم

علامہ ماوردی شافعی لکھتے ہیں
یمین لغو وہ ہے جو زبان پر بلاقصد جاری ہوجاتی ہے جیسے نہیں خدا کی قسم ! اور ہاں خدا کی قسم ! یہ سیدتنا عائشہ اور ابن عباس کا قول ہے‘ اور امام شافعی کا یہی مذہب ہے۔

ابن جوزی کا قولترمیم

علامہ ابن جوزی حنبلی لکھتے ہیں
یمین لغو میں

  • ایک قول یہ ہے کہ ایک شخص اپنے گمان کے مطابق کسی بات پر حلف اٹھائے پھر اس پر منکشف ہو کہ واقعہ اس کے خلاف ہے‘ابوہریرہ‘ ابن عباس عطاء شعبی‘ ابن جبیر‘ مجاہد‘ قتادہ‘ امام مالک اور مقاتل کا یہی قول ہے۔
  • دوسرا قول یہ ہے کہ کوئی شخص قسم کھانے کے قصد کے بغیر کہے : نہیں خدا کی قسم ! ہاں خدا کی قسم ! یہ عائشہ صدیقہ، طاؤس‘ عروہ‘ نخعی اور امام شافعی کا قول ہے‘ اس قول پر اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے ‘’’ لیکن اللہ ان قسموں پر تم سے مواخذہ کرے گا جو تم نے پختہ ارادوں سے کھائی ہیں‘‘۔ یہ دونوں قول امام احمد سے منقول ہیں‘
  • تیسرا قول یہ ہے کہ آدمی غصہ میں جو قسم کھائے وہ یمین لغو ہے‘
  • چوتھا قول یہ ہے کہ آدمی کسی گناہ پر قسم کھائے‘ پھر قسم توڑ کر کفارہ دے اس پر کوئی گناہ نہیں ہے‘ وہ یمین لغو ہے‘ یہ سعید بن جبیر کا قول ہے‘ پانچواں قول یہ ہے کہ آدمی کسی چیز پر قسم کھائے پھر اس کو بھول جائے‘ یہ نخعی کا قول ہے۔ قاضی ابوبکر ابن العربی مالکی لکھتے ہیں
  • امام مالک کے نزدیک یمین لغو یہ ہے کہ آدمی اپنے گماں کے مطابق کسی چیز پر قسم کھائے اور واقعہ اس کے خلاف ہو

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی قسم کھا نا

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کھانا جائز نہیں،فقہاء نے اس سے منع فرمایا ہے ؛لہذا قسم کی روسے آپ پر کوئی کفارہ واجب نہیں ؛البتہ اگر آپ نے نیک کام کے کرنے کا عزم کیا ہو تو اس کو پورا کرنا بہتر اور پسندیدہ ہوگا۔ولا یقسم بغیر اللّٰہ کالنبي والقرآن والکعبة۔ (الدر المختار) وفي الشامیة: بل یحرم کما في القہستاني؛ بل یخاف منہ الکفر۔ (شامي، الأیمان / مطلب في القرأن ۵/۴۸۵زکریا)

لا یکون الیمین بغیر اللّٰہ تعالیٰ فإنہ حرام۔ (مجمع الأنہر ۲/۲۶۹بیروت)

قرآن کریم کی قسم کھا نا

 اگر کوئی شخص  اللہ تعالیٰ کے نام کی یا اس کے کلام یعنی قرآن کی قسم اٹھاتا ہے تو اس سے قسم منعقد ہوجائےگی، اور توڑنے کی صورت میں کفارہ لازم ہوجائےگا، اگر کوئی شخص اللہ کے نام اور کلام(قرآن) کے علاوہ کسی اور چیز  (مثلاً خانہ کعبہ/ نبی) کی قسم اٹھا لے تو وہ قسم درست ہی نہیں ہوتی اور  ایسی قسم توڑنے کی صورت میں کوئی کفارہ بھی لازم نہیں ہوتا، تاہم اس طرح کی  قسم کھانے پر توبہ و استغفار ضرور کرنا چاہیے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(لا) يقسم (بغير الله تعالى كالنبي والقرآن والكعبة) قال الكمال: ولايخفى أن الحلف بالقرآن الآن متعارف فيكون يمينًا.

و في الرد : (قوله: لايقسم بغير الله تعالى) عطف على قوله والقسم بالله تعالى: أي لاينعقد القسم بغيره تعالى أي غير أسمائه وصفاته ولو بطريق الكناية كما مر، بل يحرم كما في القهستاني، بل يخاف منه الكفر في نحو وحياتي وحياتك كما يأتي.
مطلب في القرآن:
(قوله: قال الكمال إلخ) مبني على أن القرآن بمعنى كلام الله، فيكون من صفاته تعالى كما يفيده كلام الهداية حيث قال: ومن حلف بغير الله تعالى لم يكن حالفا كالنبي والكعبة، لقوله عليه الصلاة والسلام: "من كان منكم حالفًا فليحلف بالله أو ليذر"، وكذا إذا حلف بالقرآن؛ لأنه غير متعارف اهـ. فقوله: "وكذا" يفيد أنه ليس من قسم الحلف بغير الله تعالى، بل هو من قسم الصفات، و لذا علله بأنه غير متعارف، ولو كان من القسم الأول كما هو المتبادر من كلام المصنف والقدوري لكانت العلة فيه النهي المذكور أو غيره؛ لأن التعارف إنما يعتبر في الصفات المشتركة لا في غيرها. وقال في الفتح: وتعليل عدم كونه يمينًا بأنه غيره تعالى؛ لأنه مخلوق؛ لأنه حروف وغير المخلوق هو الكلام النفسي منع بأن القرآن كلام الله منزل غير مخلوق. ولايخفى أن المنزل في الحقيقة ليس إلا الحروف المنقضية المنعدمة، وما ثبت قدمه استحال عدمه، غير أنهم أوجبوا ذلك؛ لأن العوام إذا قيل لهم: إن القرآن مخلوق تعدوا إلى الكلام مطلقًا. اهـ. وقوله: ولايخفى إلخ رد للمنع.
وحاصله: أن غير المخلوق هو القرآن بمعنى كلام الله الصفة النفسية القائمة به تعالى لا بمعنى الحروف المنزلة غير أنه لايقال: القرآن مخلوق لئلايتوهم إرادة المعنى الأول. قلت: فحيث لم يجز أن يطلق عليه أنه مخلوق ينبغي أن لايجوز أن يطلق عليه أنه غيره تعالى بمعنى أنه ليس صفة له؛ لأن الصفات ليست عينًا ولا غيرًا كما قرر في محله، ولذا قالوا: من قال بخلق القرآن فهو كافر. ونقل في الهندية عن المضمرات: وقد قيل هذا في زمانهم، أما في زماننا فيمين وبه نأخذ ونأمر ونعتقد. وقال محمد بن مقاتل الرازي: إنه يمين، وبه أخذ جمهور مشايخنا اهـ فهذا مؤيد لكونه صفة تعورف الحلف بها كعزة الله وجلال".

(کتاب الأیمان، ج:3، ص:712، ط:ایچ ایم سعید)