https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Thursday 8 February 2024

امام کو قرآن نہ سنانے کی بناپر پریشان کرنا

 


الجواب وباللّٰہ التوفیق: ذاتی مفاد اور کسی  غرض سے کسی مسجد کے امام کو جس سے کوئی شرعی اختلاف نہیں ہے، الگ یا معزول نہیں کیا جا سکتا یہ بہت بری بات ہے کہ معمولی سے  اختلاف یا ذاتی مفاد کو امام پر یا امامت پر اتارا جائے اس طرح کی گھناؤنی حرکتوں سے بچا جائے کہ یہ حرکت غیر اخلاقی اور غیر شرعی ہے، اگر واقعی امام صاحب میں کوئی کمی ہے، تو ان کو بصد ادب واحترام معروف وسہل انداز میں تمام احترامات کے ساتھ متوجہ کر دینا چاہئے۔ بغیر وجہ شرعی کے موجود ہ امام کو معزول اور الگ کرنا جائز نہیں ہے۔(۱)

(۱) عن عمر و بن الحارث بن المصطلق قال: کان یقال أشد الناس عذابا یوم القیامۃ إثنان إمرأۃ عصت زوجہا، وإمام قوم وہم لہ کارہون، قال ہناد: قال جریر: قال منصور: فسألنا عن أمر الإمام فقیل لنا: إنما عني بہذا الأئمۃ الظلمۃ، فأما من أقام السنۃ، فإنما الإثم علیٰ من کرہہ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ماجاء في من أم قوماً وہم لہ کارہون‘‘: ج۱، ص: ۶۶،رقم:۳۵۹)
ولوأم قوماً وہم لہ کارہون، إن الکراہۃ لفساد فیہ، أو لأنہم أحق بالإمامۃ منہ کرہ لہ ذلک تحریماً (إلیٰ قولہ) وإن ہو أحق لا، والکراہۃ علیہم الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸)
وفي جامع الفصولین بغض عالمًا أو فقیہًا بلا سبب ظاہر خیف علیہ الکفر۔…(جامع الفصولین، الباب الثامن والثلثون في مسائل کلمات الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۹)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص266اولا ًتو کسی  ایک عام مسلمان کو برا  کہنا، شرعی اعتبار سے بہت بڑا گناہ ہے،پھر جب سامنے مسجد کا امام ہو ،اور اس کے بارے میں غلط الفاظ منہ سے نکالے جائیں ،تو گناہ کی سنگینی میں اور اضافہ ہوجاتا ہے،امامت کا مرتبہ تو وہ مرتبہ ہے ،کہ جس پر انبیاء ،خلفاء راشدین،اللہ کے نیک وکار لوگ فائز تھے،ایسے مبارک منصب پر جو شخص موجود ہو،اس کے بارے میں بلا وجہ نازیبا زبان استعمال کرناگناہ ہے،لہذا جو بھی لوگ اس حرکت میں مبتلا ہیں ،ان کو چاہیے کہ فورا پہلے امام سے جاکر معافی مانگیں،جو بھی گلے شکوے ہیں ،ان کو بیٹھ کر دور کیا جائے ،اور پھر اللہ کے سامنے بھی توبہ واستغفار کرے۔

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص جو امام کو برا بھلا کہے،اس کو گالیاں دے،تو ایسے شخص کی نماز اس امام کے پیچھے ہوجائے گی ،اعادہ کی ضرورت نہیں ۔ 

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"أن ‌اسم ‌الإمامة يتناول ما ذكرناه، فالأنبياء عليهم السلام في أعلى رتبة الإمامة، ثم الخلفاء الراشدون بعد ذلك، ثم العلماء والقضاة العدول ومن ألزم الله تعالى الاقتداء بهم، ثم الإمامة في الصلاة ونحوها."

(باب القول في بسم الله الرحمن الرحيم، ج:١، ص:٨٣، ط:دار الكتب العلمية)

البحر الرائق میں ہے:

" ومن أبغض عالماً من غير سبب ظاهر خيف عليه الكفر، ولو صغر الفقيه أو العلوي قاصداً الاستخفاف بالدين كفر، لا إن لم يقصده".

(باب احكام المرتدين، ج:٥، ص:١٣٤، ط:دار الكتاب الإسلامي)

فتاوٰی مفتی محمود میں ہے:

"س:کیافرماتےہیں علمائے دین دریں مسئلہ کہ ایک آدمی کی امام مسجد سے کافی عرصہ سے بول چال نہیں ہے،وجہ یہ ہوئی کہ دونوں میں جھگڑا صرف دنیاداری پرہے،اورباقی لوگوں نے دونوں کومنانے کی کوشش کی لیکن صلح نہیں ہوسکی،نہ امام مسجد مانتاہے ،نہ مقتدی مانتاہے،گزارش یہ ہے کہ اگرمقتدی اس امام کے پیچھےنمازپڑھ لے تونماز ہوسکتی ہے یانہیں؟

ج:شخص ِمذکور اگرامام ِمذکور کی پیچھے نمازپڑھے گاتو نمازاداہوجائےگی۔"

(باب الامامۃ، ج:2، ص:208، ط:جمعیت پبلیکیشنز)

Friday 2 February 2024

ایک یا دو طلاق کے بعد رجوع کا طریقہ

 پہلی اور دوسری صریح طلاق کو ’طلاقِ‌ رجعی‘ کہا جاتا ہے، اس کا حکم یہ ہے کہ طلاق کی عدت مکمل ہونے تک نکاح قائم رہتا ہے، عورت بدستور اِسی شوہر کے عقد میں‌ ہوتی ہے۔ اس دوران اگر میاں بیوی کی صلح ہو جائے تو طلاق کا اثر ختم ہو جاتا ہے، اسی عمل کو ’رجوع‘ کہا جاتا ہے۔ رُجوع کے مخصوص الفاظ‌ ہیں نہ کوئی خاص طریقہ ہے۔ شوہر زبان سے کہہ دے کہ میں نے طلاق واپس لے لی، بیوی کو ہاتھ لگا دے، بیوی سے ہمبستری کر لے، رجوع کی نیت سے فون کر لے، رجوع کی نیت سے برقی پیغام (message) بھیج دے تو رجوع ہو جاتا ہے۔ اگر عدت کی مدت مکمل ہو جائے تو رجوع کے لیے دوبارہ نکاح کرنا لازم ہوتا ہے۔

رجوع کے بعد اگرچہ طلاق کا اثر ختم ہوجاتا ہے، لیکن طلاق کا یہ حق استعمال ہونے کے بعد شوہر کے پاس اب باقی طلاقوں کا اختیار ہوگا۔ عقد نکاح کے وقت شوہر کو طلاق کے کُل تین حق ملے تھے اگر اس نے ایک حق استعمال کر کے رجوع کر لیا اُس کے پاس دو حق باقی ہیں، اگر دو حق استعمال کر کے رجوع کر لیا اس کے پاس صرف ایک حق باقی ہوگا۔ اگر اس نے یہ تیسرا حق بھی استعمال کر لیا تو اس کی بیوی اس پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوجائے گی۔


الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 397):

"(هي استدامة الملك القائم) بلا عوض ما دامت (في العدة) ... (بنحو) متعلق باستدامة (رجعتك) ورددتك ومسكتك بلا نية لأنه صريح (و) بالفعل مع الكراهة (بكل ما يوجب حرمة المصاهرة) كمس.

 (قوله: بنحو راجعتك) الأولى أن يقول بالقول نحو راجعتك ليعطف عليه قوله الآتي وبالفعل ط، وهذا بيان لركنها وهو قول، أو فعل... (قوله: مع الكراهة) الظاهر أنها تنزيه كما يشير إليه كلام البحر في شرح قوله والطلاق الرجعي لا يحرم الوطء رملي، ويؤيده قوله في الفتح - عند الكلام على قول الشافعي بحرمة الوطء -: إنه عندنا يحل لقيام ملك النكاح من كل وجه، وإنما يزول عند انقضاء العدة فيكون الحل قائماً قبل انقضائها. اهـ. ... (قوله: كمس) أي بشهوة، كما في المنح".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 409):

"(وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع) ومنع غيره فيها لاشتباه النسب".

Thursday 1 February 2024

جہری نماز امام نے سری پڑھادی

 جن نمازوں میں یا جن رکعتوں میں  آہستہ آواز سے قراءت کرنا ضروری ہےاس میں اگر امام بلند آواز سے تلاوت کرلیتا ہے یا سری نماز میں بلند آواز سے تلاوت کرلیتا ہے تو اگر اتنی مقدار بلند آواز سے یا آہستہ آواز سے  قراءت کرلے کہ جس  مقدارِ قراءت سے نماز درست  ہوجاتی ہے یعنی تین مختصر آیتوں یا ایک لمبی آیت کے بقدر تو اس سے سجدہ سہو لازم ہوجاتا ہے، صرف ایک دو کلمہ  سری نماز میں  بلند آواز سے اور جہری نمازوں میں آہستہ آواز سے قراءت کرلینے سے سجدہ سہو لازم نہیں ہوتا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 81):

"(والجهر فيما يخافت فيه) للإمام، (وعكسه) لكل مصل في الأصح، والأصح تقديره (بقدر ما تجوز به الصلاة في الفصلين. وقيل:) قائله قاضي خان، يجب السهو (بهما) أي بالجهر والمخافتة (مطلقاً) أي قل أو كثر.

(قوله: والجهر فيما يخافت فيه للإمام إلخ) في العبارة قلب، وصوابها: والجهر فيما يخافت لكل مصل، وعكسه للإمام، ح وهذا ما صححه في البدائع والدرر، ومال إليه في الفتح وشرح المنية والبحر والنهر والحلية على خلاف ما في الهداية والزيلعي وغيرهما، من أن وجوب الجهر والمخافتة من خصائص الإمام دون المنفرد.

والحاصل: أن الجهر في الجهرية لا يجب على المنفرد اتفاقاً؛ وإنما الخلاف في وجوب الإخفاء عليه في السرية، وظاهر الرواية عدم الوجوب، كما صرح بذلك في التتارخانية عن المحيط، وكذا في الذخيرة وشروح الهداية كالنهاية والكفاية والعناية ومعراج الدراية. وصرحوا بأن وجوب السهو عليه إذا جهر فيما يخافت رواية النوادر اهـ فعلى ظاهر الرواية لا سهو على المنفرد إذا جهر فيما يخافت فيه، وإنما هو على الإمام فقط.

(قوله: والأصح إلخ) وصححه في الهداية والفتح والتبيين والمنية؛ لأن اليسير من الجهر والإخفاء لا يمكن الاحتراز عنه، وعن الكثير يمكن، وما تصح به الصلاة كثير، غير أن ذلك عنده آية واحدة، وعندهما ثلاث آيات هداية. (قوله: في الفصلين) أي في المسألتين مسألة الجهر والإخفاء".فقط واللہ اعلم

دواء کے نشے میں طلاق

 اگر نشہ دوا کی وجہ سے ہو تو نشے کی حالت میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی،   البتہ اگر نشہ کسی  گناہ  کی وجہ سے ہو،  مثلاً شراب پی ہو اور نشہ آگیا، تو ایسے نشے کی حالت میں طلاق ہوجاتی ہے۔

صورتِ  مسئولہ میں اگر دماغ کی دوا کے اثر سے نشے کی حالت ہوئی اور طلاق دی تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 240):

"(قوله: أو أفيون أو بنج) الأفيون: ما يخرج من الخشخاش. البنج: بالفتح نبت منبت. وصرح في البدائع وغيرها بعدم وقوع الطلاق بأكله معللًا بأن زوال عقله لم يكن بسبب هو معصية. والحق التفصيل، وهو إن كان للتداوي لم يقع لعدم المعصية، وإن للهو وإدخال الآفة قصدا فينبغي أن لايتردد في الوقوع.

وفي تصحيح القدوري عن الجواهر: وفي هذا الزمان إذا سكر من البنج والأفيون يقع زجرا، وعليه الفتوى، وتمامه في النهر (قوله: زجرًا) أشار به إلى التفصيل المذكور، فإنه إذا كان للتداوي لا يزجر عنه لعدم قصد المعصية."

Wednesday 31 January 2024

عبیر کا مطلب

 ’عبیر‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے، ’’عبیر‘‘ ایک خاص قسم کی خوشبو کو کہتے ہیں جو متعدد قسم کی خوشبوؤں کا مجموعہ ہوتی ہے، ’’عبیر‘‘ نام رکھنا درست ہے۔

تاج العروس(12/ 508):

(والعبير: الزعفران) وحده. عند أهل الجاهلية، قال الأعشى:

وتبرد برد رداء العرو

س في الصيف رقرقت فيه العبيرا

وقال أبو ذؤيب:

وسرب تطلى بالعبير كأنه                               دماء ظباء بالنحور ذبيح

(أو) العبير: (أخلاط من الطيب) يجمع بالزعفران. وقال ابن الأثير: العبير: نوع من الطيب ذو لون يجمع من أخلاط.

قلت: وفي الحديث: أتعجز إحداكن أن تتخذ تومتين ثم تلطخهما بعبير أو زعفران) ففي هاذا الحديث بيان أن العبير غير الزعفران.

حالت حيض میں قرآن پڑھنا

  ایام کے دنوں میں عورتوں کے لیے  تلاوت کی غرض سے قرآنِ پاک پڑھنا (خواہ ایک آیت ہی ہو) کسی صورت بھی جائز نہیں ہے، نہ چھو کر اور نہ ہی بغیر چھوئے،  اسی طرح تعلیم و تعلم کی غرض سے بھی  تسلسل کے ساتھ قرآن پاک پڑھنا یاپڑھانا جائزنہیں ہے، البتہ تعلیم و تعلم کی غرض سے ایک ایک کلمہ علیحدہ علیحدہ کرکے پڑھنے یا پڑھانے کی گنجائش ہے۔

ایامِ حیض میں حائضہ عورت بوقتِ ضرورت قرآن مجیدکو ایسے کپڑے کے ساتھ چھو سکتی ہے جو اس نے پہنا نہ ہو، مثلاً: رومال وغیرہ سے جو بدن سے جدا ہو، لیکن دستانے چوں کہ ملبوس (پہنے ہوئے) ہوتے ہیں اور بدن سے جدا نہیں ہوتے؛ اس لیے  ہاتھ پر دستانے پہن کر اس سے قرآن پاک کو پکڑنا یا چھونا جائز نہیں ہے۔ قاعدے میں جس جگہ قرآن پاک کی کوئی آیت لکھی ہوئی ہو، اس جگہ کو بغیر حائل کے چھونا بھی جائز نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 292)

''(وقراءة قرآن) بقصده (ومسه) ولو مكتوباً بالفارسية في الأصح، (وإلا بغلافه) المنفصل، كما مر (وكذا) يمنع (حمله) كلوح وورق فيه آية.

 (قوله: وقراءة قرآن) أي ولو دون آية من المركبات لا المفردات؛ لأنه جوز للحائض المعلمة تعليمه كلمةً كلمةً كما قدمناه، وكالقرآن التوراة والإنجيل والزبور، كما قدمه المصنف، (قوله: بقصده) فلو قرأت الفاتحة على وجه الدعاء أو شيئاً من الآيات التي فيها معنى الدعاء ولم ترد القراءة لا بأس به، كما قدمناه عن العيون لأبي الليث، وأن مفهومه أن ما ليس فيه معنى الدعاء كسورة أبي لهب لا يؤثر فيه قصد غير القرآنية، (قوله: ومسه) أي القرآن ولو في لوح أو درهم أو حائط، لكن لا يمنع إلا من مس المكتوب، بخلاف المصحف فلا يجوز مس الجلد وموضع البياض منه. وقال بعضهم: يجوز، وهذا أقرب إلى القياس، والمنع أقرب إلى التعظيم، كما في البحر: أي والصحيح المنع، كما نذكره، ومثل القرآن سائر الكتب السماوية، كما قدمناه عن القهستاني وغيره، وفي التفسير والكتب الشرعية خلاف مر، (قوله: إلا بغلافه المنفصل) أي كالجراب والخريطة دون المتصل كالجلد المشرز، هو الصحيح، وعليه الفتوى؛ لأن الجلد تبع له، سراج، وقدمنا أن الخريطة الكيس. أقول: ومثلها صندوق الربعة، وهل مثلها كرسي المصحف إذا سمر به؟ يراجع''۔

Tuesday 30 January 2024

أدوات الاستفهام والتعجب فى اللغة الاسبانية

 أدوات الاستفهام والتعجب

  • ¿Qué ما
  • ¿Por qué? لماذا؟
  • ¿Quién? من؟
  • ¿Cuál? اي
  • ¿Dónde? اين
  • ¿Cuándo? متى
  • ¿Cuánto? كم
  • ¿Cómo? كيف

أمثلة على أدوات الاستفهام

  • ¿Qué idiomas habla usted?
  • ما اللغات التي تتكلمها؟
  • ¿Qué va a tomar?
  • ماذا تريد أن تتناول؟
  • لماذا تدرس اللغة الإسبانية؟
  • ¿Por qué estudias el español?
  • من يكون؟
  • ¿Quién es?
  • أي هذه الكتب يكون كتابك؟
  • ¿Cuál es tu libro?
  • أين تعيش؟
  • ¿Dónde vives?
  • متى يصل القطار؟
  • ¿Cuándo llega el tren?
  • كم أخًا لديك؟
  • ¿Cuántos hermanos tienes?
  • كيف حالك؟
  • ¿Cómo estas?

أمثلة على أدوات التعجب

  •  Qué bonito!
  •  يا للجمال!
  •  Qué calor!
  •  يا للحر!
  •  Qué bien!
  •  يا للحسن!
  •  يا لكثرة ما يشربه!
  •  Cuánto! bebe!
  •  يا لطريقته في اللعب!
  •  Cómo juega!

ملاحظات ضرورية على ضمائر الربط وأدوات الاستفهام والتعجب:

أولا:- حيث إن جميع ضمائر الربط التى سبق ذكرها ما عدا الضمير
Cuyas) – Cuyo– Cuya – Cuyos) يمكن استخدامهما كأدوات للاستفهام أو للتعجب، ولتحويلهم إلى أدوات استفهام أو تعجب يجب أن نقوم بوضع شدة مكتوبة على هذه الضمائر

ثانيا :- إذا استخدم ثالث ضمائر الربط كأداة استفهام أو تعجب لا يجب أن تسبقه أية أداة.
(Las cuales – El cual – La cual – Los cuales) أى أنه لا يجب أن نحذف منه أدوات التعريف

ثالثا :- كما أنه هناك العديد من الكلمات التي تستخدم كضمائر للربط بين جملتين على الرغم من أنها لم توضع لهذا الغرض أصلًا، ويمكن أن يحل محلها (Que – Cual )، مثل:

Donde: يستخدم كضمير للربط بشرط أن يكون عائدا على مكان، وقد نستخدم بدلًا منه (Que – Cual) مسبوقتين بأدوات التعريف ( و تأتي أدوات التعريف إما مؤنثة أو مذكرة على حسب اسم المكان الذي يسبق الضمير) ، ومصحوبة بحرف الجر للدلالة على المكان ( وغالبًا ما يكون حرف en)

مثل:

  • المنزل الذي أعيش فيه يكون كبيرًا.
  • La casa donde vivo es grande

ومن الممكن استخدام ( Que – Cual )

  • أما المنزل الذي أعيش فيه يكون كبيرًا.
  • La casa en la que vivo es grande
  • أو المنزل الذي أعيش فيه يكون كبيرًا.
  • La casa en la cual vivo es grande

Como : تستخدم كضمير للربط بشرط أن يكون عائدا على اسم يدل على الكيفية أو الأسلوب أو الطريقة، مثل:

  • أعجبتني الطريقة التي أُنهيت بها المشكلة.
  • Me gusta la manera como se terminaba el problema

Cuando: تستخدم كضمير للربط بشرط أن يكون عائدا على اسم يدل على زمن معين ( ساعة – يوم – سنة ) ، مثل

  • Aquel dia cua


الضمائر في اللغة الإسبانية

Monday 29 January 2024

طلاق دیدوں گا سے طلاق ہویی کہ نہیں


اگر واقعۃ  نے یہی الفاظ کہے ہیں کہ "میں  تجھےطلاق دے دوں گا تیرا بھائی اور تیری بہن ہی تجھے رکھے گی"اس کے علاوہ کوئی اور الفاظ نہیں کہے ہیں تو  ایسی صورت میں مذکورہ الفاظ آئندہ مستقبل میں طلاق دینے کی دھمکی کے ہیں اور شرعا دھمکی کے ان الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی ہے  ،لہذا نکاح بدستور قائم اور برقرار ہے۔

العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں ہے:

"صيغة المضارع لا يقع بها الطلاق إلا إذا غلب في الحال كما صرح به الكمال بن الهمام۔"

(كتاب الطلاق ج:1 ،ص:38،ط:دار المعرفة)

Saturday 27 January 2024

فسخ نکاح بوجہ عدم ادائیگی نفقہ

 حیلہ ناجزۃ میں ہے :

"والمتعنت الممتنع عن الانفاق  ففی مجموع الامیر ما نصہ : ان منعھا   نفقۃ الحال فلہا القیام فان لم   یثبت عسرہ  انفق او طلق  و الا طلق علیہ  ، قال محشیہ : قولہ   والا طلق علیہ ای   طلق علیہ الحاکم من غیر تلوم…..الی ان قال: وان تطوع بالنفقۃ قریب اواجنبی فقال ابن القاسم:لہا ان تفارق  لان الفراق قد وجب لہا،  وقال ابن عبدالرحمن:  لا مقال لہا لان سبب الفراق  ہو عدم النفقۃ   قد انتہی وہو الذی   تقضیہ المدونۃ  کما قال ابن المناصب   ، انظر الحطاب، انتہی."

(حیلہ ناجزہ ص: 73،فصل  فی حکم زوجۃ المتعنت)

Tuesday 23 January 2024

مذی کپڑوں پر لگ جائے تو کیسے پاک کریں

 مذی ناپاک ہے، نجاستِ غلیظہ ہے، کپڑے اور بدن پر لگنے سے  کپڑا اور بدن ناپاک ہوجاتا ہے، اگر مذی کپڑے پر لگ جائے اور اس کی مقدار  ایک درہم  (5.94 مربع سینٹی میٹر) سے کم ہو اور  اس کو دھوئے بغیر نماز پڑھ لی ہو تو نماز ہوجائے گی، (اگرچہ اس مقدار میں بھی نجاست کو دھو لیناچاہیے) اور اگر اس کی مقدار ایک درہم سے زیادہ ہو تو  نماز ادا نہیں ہوگی۔

اور اس کو پاک کرنے کے لیے تین مرتبہ اچھی طرح دھویا جائے اور ہر مرتبہ دھونے کے بعد اچھی طرح نچوڑا جائے کہ پانی کے قطرے ٹپکنا بند ہوجائیں، اس طرح تین مرتبہ دھونے سے وہ پاک ہوجائے گا، البتہ اگر اس کو  بہتے پانی یا تالاب  یا زیادہ پانی میں یا کسی اور جگہ اچھی طرح دھویا جائے، اور اس پر خوب پانی بہایا جائے کہ نجاست کا اثر دور ہوجائے تووہ کپڑا پاک ہوجاتا ہے، اگر  چہ اسے تین مرتبہ نچوڑا نہ  گیا ہو

فتاویٰ شامی میں ہے:

"( وعفا ) الشارع ( عن قدر درهم ) وإن كره تحريماً، فيجب غسله وما دونه تنزيهاً فيسن، وفوقه مبطل ( وهو مثقال ) عشرون قيراطاً ( في ) نجس ( كثيف ) له جرم ( وعرض مقعر الكف ) وهو داخل مفاصل أصابع اليد ( في رقيق من مغلظة كعذرة ) آدمي وكذا كل ما خرج منه موجبا لوضوء أو غسل مغلظ". (1/316،ط:بیروت)

وفيه أيضًا:

"لَوْ غُسِلَ فِي غَدِيرٍ أَوْ صُبَّ عَلَيْهِ مَاءٌ كَثِيرٌ، أَوْ جَرَى عَلَيْهِ الْمَاءُ طَهُرَ مُطْلَقًا بِلَا شَرْطِ عَصْرٍ وَتَجْفِيفٍ وَتَكْرَارِ غَمْسٍ هُوَ الْمُخْتَارُ".

(1/333، باب الأنجاس، ط: سعید)

Monday 22 January 2024

شب زفاف کا اسلامی طریقہ

 شب زفاف میں پہلی ملاقات کے وقت ابتداءً دو رکعت شکرانہ کی نماز پڑھیں، مرد آگے کھڑا رہے عورت پیچھے،نماز کے بعد خیر وبرکت، مودت ومحبت، آپسی میل ملاپ کی دعا کریں۔ حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک شخص عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے ایک باکرہ عورت سے نکاح کیا ہے اور مجھے ڈر ہے کہ وہ مجھے پسند نہ کرے اور دشمن تصور کرے، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا محبت اللہ کی طرف سے ہے اور دشمنی شیطان کافعل ہے، جب عورت تیرے گھر میں آوے تو تو اس سے کہہ کہ تیرے پیچھے کھڑی ہوکر دو رکعت نماز پڑھے، اور تو یہ دعا پڑھ: اللھُمَّ بَارِکْ لِي فِي أَھْلِی، وَبَارِکْ لَأہْلِيوٴ فِيَّ، اللھُمَّ ارْزُقْنِي مِنْھُمْ وَارْزُقْھُمْ مِنِّی، اللھُمَّ اجْمَعَ بَیْنَنَا إذَا جَمَعْتَ فِيْ خَیْرٍ وَفَرِّقْ بَیْنَنَا إِذَا فَرَّقْتَ إِلَی خَیْرٍ․ اس کے بعد بیوی کی پیشانی کے بال پکڑکر یہ دعا پڑھے۔ اللّٰہُمَّ اِنِّيْ أَسْئَلُکَ مِنْ خَیْرِہَا وَخَیْرِ مَا جَبَلْتَہَا عَلَیْہِ وَأَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّہَا وَشَرِّ مَا جَبَلْتَہَا عَلَیْہِ․ شوہر تلطف ومحبت سے پیش آئے، اپنا سکہ اور رعب جمانے کی فکر نہ کرے، اور ہرطرح اس کی دلجوئی کرے کہ عورت کو مکمل سکون اور قلبی راحت حاصل ہو اور ایک دوسرے میں انسیت پیدا ہو۔ جب مباشرت کا ارادہ کرے تو مباشرت سے پہلے عورت کو مانوس کرے، بوس وکنار ملاعبت وغیرہ جس طرح ہوسکے اسے بھی مباشرت کے لیے تیار کرے، اور اس بات کا ہرمباشرت کے وقت خیال رکھے فوراً ہی صحبت شروع نہ کردے اور بوقت صحبت اس بات کا خیال رکھے کہ عورت کی بھی شکم سیری ہوجائے، انزال کے بعد فوراً جدا نہ ہوجائے، اسی حالت پر رہے اورعورت کی خواہش پوری ہونے کا انتظار کرے، ورنہ عورت کی طبیعت پر اس سے بڑا بار پیدا ہوگا اور بسا اوقات اس کا خیال نہ کرنے سے آپس میں نفرت اور دشمنی پیدا ہوجاتی ہے جو کبھی جدائیگی کا سبب بن جاتی ہے۔ غنیة الطالبین میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ ارشاد فرماتے ہیں: ویستحب لہا الملاعبة لہا قبل الجماع والانتظار لہا بعد قضاء حاجتہ حتی تقضي حاجتہا فإن ترک ذلک مضرة علیہا ربما أفضی إلی البغضاء والمفارقة (غنیة الطالبین: ۹۸) جب صحبت کرنے کا ارادہ کرے تو اولاً بسم اللہ پڑھے اور یہ دعا پڑھے: اللَّھُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطَانَ وَجَنِّبِ الشَّیْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا، بوقت صحبت قبلہ کی طرف رخ نہ کرے، سر ڈھانک لے اور جتنا ہوسکے پردے کے ساتھ صحبت کرے کسی کے سامنے حتی کہ بالکل ناسمجھ بچے کے سامنے بھی صحبت نہ کرے اور بوقت صحبت بقدر ضرورت ستر کھولے، انزال کے وقت دل میں یہ دعا پڑھے: اللَّھُمَّ لَا تَجْعَلْ لِلشَّیْطَانِ فِیمَا رَزَقْتنَا نَصِیبًا۔ صحبت کے بعد یہ دعا پرھے: الْحَمْدُ لِلّٰہ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَہ ُ نَسَبًا وَصِھْرًا․ شب زفاف اور صحبت کے سلسلے کی آپس کی جو باتیں پوشیدہ ہوں کسی سے ان کا تذکرہ نہ کرے یہ بے حیائی اور بے مروتی کی بات ہے۔ (مستفاد: فتاوی رحیمیہ: ۴/ ۲۸۶ تا ۲۸۹ بحوالہ غنیة الطالبین مترجم: ۹۷ تا ۱۰۰ فصل فی آداب النکاح)

مسبوق اپنی نماز کیسے پوری کرے

  نماز میں ثناء پڑھنا سنت ہے، اگر کوئی شخص امام کے نماز شروع کرنے کے بعد آکر نماز میں شامل ہو تو اس کے لیے یہ حکم ہے کہ اگر امام نے بلند آواز سے قراءت شروع کردی ہو تو وہ ثناء نہ پڑھے، اگر امام نے بلند آواز سے قراءت شروع نہیں کی، یا امام نے قراءت شروع کردی، لیکن  سری نماز ہونے کی وجہ سے بلند آواز سے نہیں، جیسا کہ ظہر اور عصر  کی نماز میں تو  بعد میں شامل ہونے والا ثناء پڑھ کر شامل ہوجائے۔ اور اگر کوئی رکعت چھوٹ جائے تو امام کے سلام پھیرنے کے بعد اللہ اکبر کہہ کر کھڑا ہو اور سب سے پہلے ثناء پڑھے۔ 

جماعت میں ایک یا زائد رکعت کے چھوٹ جانے اور اسے اداکرنے کے بارے میں تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

دو رکعت والی فرض نماز (فجر) میں اگر ایک رکعت چھوٹ جائے تو امام کے سلام پھیرنے کے بعد مسبوق سلام پھیرے  بغیرے کھڑا ہوجائے اور سب سے پہلے ثناء پڑھے پھر اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھنے کے بعد سورہ فاتحہ اور دوسری سورت پڑھ کر رکوع وسجدہ کرے اور قعدہ میں بیٹھ کر التحیات، درود شریف اور دعا پڑھ کر سلام پھیر دے۔ اور اگر فجر کی دوسری رکعت کے رکوع کے بعد امام کے ساتھ شامل ہوا ہو تو امام کے سلام پھیرنے کے بعد مکمل دو رکعت ایسے ہی ادا کرنی ہوں گی جیسے انفرادی پڑھتے ہوئے ادا کرنی ہوتی ہیں۔

تین رکعت والی فرض نماز (مثلاً مغرب) کی نماز میں اگر ایک رکعت چھوٹ جائے تو اسی مذکورہ طریقے پر اسے ادا کرے جو طریقہ دو رکعت والی نماز کے بارے میں بیان کیا گیا، اور اگر تین رکعت والی نماز میں دو رکعت چھوٹ گئیں تو امام کے سلام پھیرنے کے بعد کھڑے ہوکر  ثناء پڑھے پھر اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھنے کے بعد سورہ فاتحہ اور دوسری سورت پڑھ کر رکوع وسجدہ کرے اور قعدہ میں بیٹھ کر التحیات پڑھ کر دوبارہ کھڑا ہوجائے، پھر بسم اللہ، سورہ فاتحہ اور دوسری سورت پڑھنے کے بعد  رکوع وسجدہ کرے اور قعدہ میں بیٹھ کر التحیات، درود شریف اور دعا پڑھ کر سلام پھیر دے۔ اور اگر مغرب کی تیسری رکعت کے رکوع کے بعد امام کے ساتھ شامل ہو تو امام کے سلام کے بعد پوری تین رکعت اسی ترتیب سے ادا کرنی ہوں گی جس طرح انفرادی طور پر ادا کی جاتی ہیں۔

چار رکعت والی فرض نماز (ظہر، عصر، عشاء) میں اگر ایک رکعت چھوٹ گئی تو اسے اوپر بیان کردہ طریقہ پر ہی پڑھے، اگر چار رکعت والی نماز میں دو رکعتیں چھوٹ گئیں تو  امام کے سلام پھیرنے کے بعد کھڑے ہوکر  ثناء پڑھے پھر اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھنے کے بعد سورہ فاتحہ اور دوسری سورت پڑھ کر رکوع وسجدہ کرنے کے بعد قعدہ میں نہ بیٹھے، بلکہ سیدھا کھڑا ہوجائے، پھر بسم اللہ، سورہ فاتحہ اور دوسری سورت پڑھنے کے بعد  رکوع وسجدہ کرے اور قعدہ میں بیٹھ کر التحیات، درود شریف اور دعا پڑھ کر سلام پھیر دے۔

چار رکعت والی نماز میں اگر تین رکعتیں چھوٹ جائیں تو ان کی ادائیگی کا طریقہ یہ ہے کہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد کھڑے ہوکر  ثناء پڑھے پھر اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھنے کے بعد سورہ فاتحہ اور دوسری سورت پڑھ کر رکوع وسجدہ کرے اور قعدہ میں بیٹھ کر التحیات پڑھ کر دوبارہ کھڑا ہوجائے، پھر بسم اللہ، سورہ فاتحہ اور دوسری سورت پڑھنے کے بعد  رکوع وسجدہ کرنے کے بعد قعدہ میں نہ بیٹھے، بلکہ


سیدھا کھڑا ہوجائے ، پھر بسم اللہ اور سورہ فاتحہ پڑھ کر رکوع وسجدہ کرے اور قعدہ میں بیٹھ کر التحیات، درود شریف اور دعا پڑھ کر سلام پھیر دے۔

خلاصہ یہ ہے کہ جس کی امام کے ساتھ شامل ہونے کی صورت میں کچھ رکعتیں چھوٹ گئی ہوں تو چھوٹی ہوئی رکعتوں میں قرأت کرتے ہوئے ان رکعتوں کو ابتدائی رکعت تصور کرے گا اور  قعدہ میں بیٹھنے یا نہ بیٹھنے میں ان رکعتوں کو آخر کی رکعتیں مان کر اس حساب سے قعدہ کرے گا، یعنی اگر ایک یا دو رکعتیں چھوٹی ہوں تو ان کو ابتدائی رکعتیں مان کر دونوں میں سورہ فاتحہ پڑھنے کے بعد بھی مزید قرأت کرے گا اور تین رکعتیں چھوٹنے کی صورت میں تیسری رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھنے کے بعد مزید قرأت نہیں کرے گا، جب کہ تین رکعت والی نماز میں ایک یا دو رکعت چھوٹنے کی صورت میں ان رکعتوں کو قعدہ کے اعتبار سے دوسری اور تیسری رکعت مان کر دونوں میں قعدہ میں بیٹھے گا، چار رکعت والی نماز میں اگر ایک، یا تین رکعتیں چھوٹ جائیں تو پہلی رکعت کو قعدہ کے اعتبار سے دوسری رکعت مان کر اس میں قعدہ کریں گے،اور تیسری کو چوتھی مان کر اس میں قعدہ کرے گا۔ 

الفتاوى الهنديةمیں ہے:

’’(منها) أنه إذا أدرك الإمام في القراءة في الركعة التي يجهر فيها لايأتي بالثناء. كذا في الخلاصة. هو الصحيح، كذا في التجنيس. وهو الأصح، هكذا في الوجيز للكردري. سواء كان قريباً أو بعيداً أو لايسمع لصممه، هكذا في الخلاصة. فإذا قام إلى قضاء ما سبق يأتي بالثناء ويتعوذ للقراءة، كذا في فتاوى قاضي خان والخلاصة والظهيرية‘‘. (١/ ٩٠)

الدر المختارمیں ہے:

''ويقضي أول صلاته في حق قراءة، وآخرها في حق تشهد؛ فمدرك ركعة من غير فجر يأتي بركعتين بفاتحة وسورة وتشهد بينهما، وبرابعة الرباعي بفاتحة فقط، ولايقعد قبلها.''

و في الرد:

'' وفي الفيض عن المستصفى: لو أدركه في ركعة الرباعي يقضي ركعتين بفاتحة وسورة، ثم يتشهد، ثم يأتي بالثالثة بفاتحة خاصة عند أبي حنيفة. وقالا: ركعة بفاتحة وسورة وتشهد، ثم ركعتين أولاهما بفاتحة وسورة، وثانيتهما بفاتحة خاصة اهـ. وظاهر كلامهم اعتماد قول محمد''. (1/ 596، ط: سعید )