https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 8 June 2024

کیاايمان فطرة كا حصہ ہے

 وقد أشار إلى ذلك القرآن الكريم: {فأقم وجهك للدين حنيفا فطرت الله التي فطر الناس عليها لا تبديل لخلق الله}(الروم:30). قال عبد الله بن عباس: "{فطرت الله} دين الله {التي فطر الناس عليها} التي خلق الناس عليها في بطون أمهاتهم". وقال ابن كثير: "..لازم فطرتك السليمة، التي فطر الله الخلق عليها، فإنه تعالى فطر خلقه على معرفته وتوحيده، وأنه لا إله غيره"، وقال ابن عطية: "والذي يعتمد عليه في تفسير هذه اللفظة أي: (الفطرة) أنها الخلقة والهيئة التي في نفس الإنسان، التي هي معدة ومهيئة لأن يميز بها مصنوعات الله، ويستدل بها على ربه ويعرف شرائعه". فكل مخلوق فطر على الإيمان بالله عز وجل، ووجوده سبحانه من غير تفكير أو تعليم، ولا يجهل أو ينكر وجود الله إلا من انتكست فطرته، إذ ما من شيء إلا وهو أثر من آثار قدرته.


وعن أبي هريرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (ما من مولود إلا يولد على الفطرة، فأبواه يهودانه أو ينصرانه، أو يمجسانه) رواه البخاري. قال السيوطي والقاضي عياض وغيرهما: المراد بالفطرة المذكورة في الحديث: ما أخذ عليهم وهم في أصلاب آبائهم.
وقال ابن كثير في تفسيره لقول الله تعالى: {وإذ أخذ ربك من بني آدم من ظهورهم ذريتهم وأشهدهم على أنفسهم ألست بربكم قالوا بلى شهدنا}(الأعراف:172): "يخبر تعالى أنه استخرج ذرية بني آدم من أصلابهم، شاهدين على أنفسهم أن الله ربهم ومليكهم، وأنه لا إله إلا هو. كما أنه تعالى فطرهم على ذلك وجبلهم عليه، قال تعالى: {فأقم وجهك للدين حنيفا فطرة الله التي فطر الناس عليها لا تبديل لخلق الله}(الروم:30). وفي الصحيحين عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (كل مولود يولد على الفطرة)". وقال السعدي: "أي: قررهم بإثبات ربوبيته، بما أودعه في فطرهم من الإقرار، بأنه ربهم وخالقهم ومليكهم. قالوا: بلى قد أقررنا بذلك، فإن الله تعالى فطر عباده على الدين الحنيف القيم. فكل أحد فهو مفطور على ذلك، ولكن الفطرة قد تغير وتبدل بما يطرأ عليها من العقائد الفاسدة".

حضور کے والدین کا ایمان

 صحیح بات یہی ہے کہ اس سلسلے میں توقف کیاجائے یعنی خاموشی اختیارکی جائے ،اورآپﷺ کے والدین کے بارے میں کسی قسم کی گستاخی اوربے ادبی سے زبان کومحفوظ رکھاجائے، اس لیے کہ یہ مسئلہ نہ عقائد میں داخل ہے اور ہی ایمان کا جز ہے اور نہ آخرت میں ہم سے اس بارے میں پوچھا جائے گا۔

فتاوی شامی (3/ 184) میں ہے:
'' ولا يقال: إن فيه إساءة أدب، لاقتضائه كفر الأبوين الشريفين مع أن الله تعالى أحياهما له وآمنا به، كما ورد في حديث ضعيف؛ لأنا نقول: إن الحديث أعم بدليل رواية الطبراني وأبي نعيم وابن عساكر: «خرجت من نكاح ولم أخرج من سفاح من لدن آدم إلى أن ولدني أبي وأمي لم يصبني من سفاح الجاهلية شيء»، وإحياء الأبوين بعد موتهما لا ينافي كون النكاح كان في زمن الكفر. ۔۔۔۔۔۔۔ 

وأما الاستدلال على نجاتهما بأنهما ماتا في زمن الفترة مبني على أصول الأشاعرة أن من مات ولم تبلغه الدعوى يموت ناجياً، أما الماتريدية، فإن مات قبل مضي مدة يمكنه فيها التأمل ولم يعتقد إيماناً ولا كفراً فلا عقاب عليه، بخلاف ما إذا اعتقد كفراً أو مات بعد المدة غير معتقد شيئاً.
نعم البخاريون من الماتريدية وافقوا الأشاعرة، وحملوا قول الإمام:لا عذر لأحد في الجهل بخالقه على ما بعد البعثة، واختاره المحقق ابن الهمام في التحرير، لكن هذا في غير من مات معتقداً للكفر، فقد صرح النووي والفخر الرازي بأن من مات قبل البعثة مشركاً فهو في النار، وعليه حمل بعض المالكية ما صح من الأحاديث في تعذيب أهل الفترة بخلاف من لم يشرك منهم ولم يوجد بل بقي عمره في غفلة من هذا كله ففيهم الخلاف، وبخلاف من اهتدى منهم بعقله كقس بن ساعدة وزيد بن عمرو بن نفيل فلا خلاف في نجاتهم، وعلى هذا فالظن في كرم الله تعالى أن يكون أبواه صلى الله عليه وسلم من أحد هذين القسمين، بل قيل: إن آباءه صلى الله عليه وسلم كلهم موحدون؛ لقوله تعالى: ﴿ وَتَقَلُّبَكَ فِي السَّاجِدِيْنَ ﴾ [الشعراء: 219]۔ لكن رده أبو حيان في تفسيره بأن قول الرافضة ومعنى الآية وترددك في تصفح أحوال المتهجدين، فافهم.
وبالجملة كما قال بعض المحققين: إنه لا ينبغي ذكر هذه المسألة إلا مع مزيد الأدب. وليست من المسائل التي يضر جهلها أو يسأل عنها في القبر أو في الموقف، فحفظ اللسان عن التكلم فيها إلا بخير أولى وأسلم''۔
 فق

Friday 7 June 2024

اجتماعی قربانی سے منافع یااجرت کی چند صورتیں اور ان کاحکم

   اجتماعی قربانی کرنے والے اور اجتماعی قربانی میں حصہ لینے والے لوگوں کے درمیان معاملہ کی ممکنہ طور پر چند صورتیں ہوسکتی ہیں،  اور ان مختلف صورتوں کی وجہ سے  اجتماعی قربانی کرنے والوں کے لیے اجرت رکھنے یا نہ رکھنے کے حکم میں فرق آئے گا؛ لہذا ن سب کا شرعی حکم  الگ الگ  لکھا جاتا  ہے:

1۔۔     خرید وفروخت کی صورت:

اس کا طریقہ یہ ہے کہ اجتماعی قربانی کا اہتمام کرنے والے اپنے  پیسوں سے قربانی کا  جانور خرید لیں، اور اس پر خود یا اپنے وکیل کے ذریعے قبضہ کرلیں، اس کے بعد جو شخص  اجتماعی قربانی میں حصہ لینا چاہے اس  کو  مکمل جانور یا مطلوبہ حصے (مثلاً ایک، دو  یا تین وغیرہ)  اپنا منافع رکھ کرفروخت کردیں، اجتماعی قربانی والے شخص کو بتادیں یا رسید پر لکھ دیں کہ فی حصہ اتنے میں فروخت کیا جاتا ہے،    پھر ان کی طرف سے نائب بن کر ان کی اجازت سے  قربانی کی جائے  اور    قربانی کے بعد خریدار کو  گائے میں سے اس کے حصہ کے بقدر دے دیا جائے۔

2۔۔   وعدہ بیع کی صورت:

         اس کا طریقہ یہ ہے کہ مثلاً اجتماعی قربانی کرنے والوں کے پاس فی الحال جانور خریدنے کا انتظام نہیں  تو وہ  جانور کے بیوپاریوں سے قیمت طے کرلیں اور ان سے وعدہ بیع کرلیں، پھر  اجتماعی قربانی میں حصہ لینے والوں سے وعدہ بیع کرلیں کہ ہم آپ کو ایک حصہ اتنے میں دیں گے (اور اس میں اپنا منافع رکھ لیں جیسا کہ پہلی صورت میں تھا) اور وعدہ بیع کی مد میں پیشگی ان سے رقم لے لیں، پھر آخر میں جانور خرید لیں  اور جانور خریدنے کے بعد  ان کا حصہ ان کی طرف سے ذبح کرلیا جائے۔

3۔۔ وکالت:

اجتماعی قربانی کرنے والوں کی طرف سے جانور خریدا جائے، اور اس صورت میں جو جو اخراجات آتے  ہیں وہ سب بھی ان کو بتا کر ان سے لے لیے جائیں، قربانی کاجانور خریدنے اور اس پرآنے والے تمام اخراجات  کے بعد جو رقم  بچ جائے  وہ حصہ داروں کو واپس کی جائے، اس رقم کو ان کی اجازت  کے بغیر  اپنے پاس رکھ لینا  بالکل ناجائز ہے، ہاں اگر وہ خود ہی خوش دلی  سے  باقی  بچ جانے والی  رقم ادارہ  کو عطیہ کردیں   تو اس صورت میں یہ  رقم لینا درست ہے ۔

وکالت والی صورت میں پہلے سے ہی طے کرکے الگ سے حق الخدمت/سروس چار جز کے نام سے ادارہ کے لیے  اجتماعی قربانی میں حصہ لینے والوں سے طے شدہ اجرت وصول کی جاسکتی ہے

Thursday 6 June 2024

بعد وضو سورہ قدر پڑھنا

 فقراءة سورة القدر بعد الوضوء ليس له أصل في السنة، ففي "كنز العمال": من قرأ في أثر وضوئه إنا أنزلناه في ليلة القدر كان من الصديقين، ومن قرأها مرتين كان في ديوان الشهداء، ومن قرأها ثلاثا يحشره الله محشر الأنبياء.

قال العجلوني في "كشف الخفاء": لا أصل له. انتهى.

وفي السلسلة الضعيفة للشيخ الألبانيقراءة سورة إنا أنزلناه عقب الوضوء لا أصل له. انتهى.

Monday 3 June 2024

وتر میں دعائے قنوت کے بجائے سورہ فاتحہ پڑھنا

 وتر کی تیسری رکعت میں رکوع سے قبل تکبیر کے بعد کوئی بھی دعا جو کلام الناس کے مشابہ نہ ہو پڑھی جاسکتی ہے،  دعاء قنوت  کی  جو مشہور دعا وتر میں پڑھی جاتی ہے (اللھم انا نستعینک ۔۔) وہ دعا  پڑھنا سنت ہے واجب نہیں ہے۔ اس  لئے اس کی جگہ اگر کسی نے  کوئی سورہ پڑھ لی، یا کوئی دعا پڑھ لی، یا  سورہ فاتحہ پڑھ لی تو سجدہ  سہو واجب نہیں ہوگا اور نماز درست  ہوجائے گی، اس لئے آپ کی نماز درست ہوگئی۔

’’وليس في القنوت دعاء مؤقت، كذا في التبيين. و الأولي أن يقرأ : اللّهم إنا نستعينك و يقرأ بعده اللّهم اهدنا فيمن هديت. و من لم يحسن القنوت يقول: "ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة و قنا غذاب النار"، كذا في المحيط. أو يقول: اللّهم اغفرلنا، و يكرر ذلك ثلاثاً، وهو اختيار أبي الليث، كذا في السراجية  (الھندیۃ، الباب الثامن في صلاة الوتر، ١/ ١١١، ط: دار الفکر)

 (قولہ ویسن الدعاء المشہور) قد منافی بحث الواجبات التصریح بذلک عن النھر، وذکر فی البحر عن الکرخی انّ القنوت لیس فیہ دعاء مؤقت، لانہ روی عن الصحابۃ ادعیۃ مختلفۃ، لانّ المؤقت من الدعا یذھب برقۃ القلب… ومن لا یحسن القنوت یقول۔ ربنا اتنا فی الدنیا حسنہ ـ الآیۃ۔ وقال ابو لیث یقول: اللھم اغفرلی یکررھا ثلاثا، وقیل یقول یارب ثلاثا، ذکرہ فی الذخیرۃ۔ (شامی 2/7)

وقولہ ویسن الدعاء المشھور) وھو اللھم انا نستعینک ونستھدیک ونستغفرک ونتوب الیک ونومن بک…الخ ویجوز ان یقتصر فی دعا القنوت علی نحو قولہ رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِیْ الآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ او یقول یا رب ثلاثا او اللھم اغفرلی ثلاثا لانہ غیر مؤقت فی ظاھر الروایۃ مطلقا سواء کان یحسن الدعا اولا (حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار (۲۸۰/۱)

Sunday 2 June 2024

سوتیلی ساس سے پردہ

  شادی کی وجہ سے میاں بیوی کے اصول و فروع ایک دوسرے پر حرام ہوجاتے ہیں، اصول وفروع کے علاوہ دیگر لوگ غیرمحرم ہوتے ہیں۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل کے لیے اس کے سسر کی دوسری بیوی(سوتیلی ساس ) نامحرم ہے اور اس سے پردہ ضروری ہے، البتہ اگر وہ اتنی بڑی عمر کی ہے کہ چہرہ کھول کر سامنے آنے میں فتنے کا اندیشہ نہیں ہے تو داماد(سائل) کے سامنے چہرہ  کھولنے کی گنجائش ہوگی۔

بدائع الصنائع  میں ہے:

"معنى قوله تعالى: {وأحل لكم ما وراء ذلكم} [النساء: 24] أي: ما وراء ما حرمه الله تعالى... ويجوز الجمع بين امرأة وبنت زوج كان لها من قبل، أو بين امرأة وزوجة كانت لأبيها وهما واحد؛ لأنه لا رحم بينهما فلم يوجد الجمع بين ذواتي رحم."

(فصل أنواع الجمع بين ذوات الأرحام منه جمع في النكاح، 2/ 263، ط:دارالكتب العلمية)

البحر الرائق  میں ہے:

"وقد جمع عبد الله بن جعفر بين ‌زوجة ‌علي وبنته ولم ينكر عليه أحد."

(فصل في المحرمات بالنكاح، 3/ 105، ط:دارالمعرفة)

الدرالمختار میں ہے:

"و ) حرم الجمع ( وطأ بملك يمين بين امرأتين أيتهما فرضت ذكراً لم تحل للأخرى ) أبداً؛ لحديث مسلم: "لاتنكح المرأة على عمتها"، وهو مشهور يصلح مخصصاً للكتاب، فجاز الجمع بين امرأة وبنت زوجها أو امرأة ابنها أو أمة ثم سيدتها؛ لأنه لو فرضت المرأة أو امرأة الابن أو السيدة ذكراً لم يحرم بخلاف عكسه".

(الدرالمختار مع ردالمحتار،(39/3 ط: سعید)

Friday 31 May 2024

بیوہ،چاربیٹی،اور ایک بھائی کے درمیان وراثت کی تقسیم

 مرحوم  کی جائیداد کی تقسیم کا طریقہ کار یہ ہو گا کہ  مرحوم کی جائیداد میں سے اولاً اُن کی تجہیز و تکفین کے اخراجات اور قرضہ جات ادا کیے جائیں، پھر اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اس کو ایک تہائی میں سے نافذ کیا جائے، اس کے بعد مرحوم کی کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ  کو 24 حصوں میں تقسیم کر کے 3 حصے مرحوم کی  بیوہ  کو، 16 حصے مرحوم کی بیٹیوں کو (ہر ایک بیٹی کو چار حصے) اور مرحوم کے بھائی کو  5 حصے ملیں گے۔

یعنی فیصد کے اعتبار سے ساڑھے بارہ فیصد مرحوم کی بیوہ کو، 16.66 فیصد ہر ایک بیٹی کو اور 20.83  فیصد بھائی کو ملے گا۔

رسالةفي الخضاب لإبن لكمال

 الحمد لله الذي ألهم الحق لذوي الألباب، والصلاة على من أوتي الكتاب، محمد الناطق بالصواب، والسلام على آله وصحبه خير الآل والأصحاب، وبعد:

فهذه رسالة في "الخضاب"، رتبتها على مقدمة وثلاثة أبواب.

 

أما المقدمة: ففي بيان ما لا بدَّ من تقريره أمام الكلام.

 

اعلم أن السنة في اللغة: الطريقة، قال الإمام المطرزي في "المغرب": "ومنها - أي: من السنة بمعنى الطريقة -: الحديث في مجوس هجر: ((سُنُّوا بهم سنَّة أهل الكتاب))؛ أي: اسلكوا بهم طريقهم، يعني عامِلُوهم معاملة هؤلاء في إعطاء الأمان بأخذ الجزية منهم"؛ انتهى كلامه.

 

وأهل الشرع نَقَلوها عن مطلق الطريقة إلى الطريقة المخصوصة، وهي الطريقة المسلوكة في الدين.

 

والسنَّة بهذا المعنى تنتظم الطاعات والعبادات، ولها معنيان آخران اصطلاحيان:

أحدهما: ما ذكر في كتب الأصول على أنها أحد الأركان الأربعة للدِّين، وهي: الكتاب، والسنَّة، والإجماع، والقياس.

 

والسنة بهذا المعنى تنتظم قول النبي عليه السلام وفعله وتقريره، فهي أعم من الحديث؛ لاختصاصه بالقسم الأول من الثلاثة المذكورة، وأخص من السنة بالمعنى الأول الاصطلاحي؛ لانتظامها الأحكام أيضًا دون السنة بهذا المعنى.

 

وثانيهما: ما ذكر في الفروع على أنها أحد الأحكام الخمسة (الإباحة والندب والسنة والوجوب والفرض)، ومغايرة السنة بهذا المعنى للسنة بأحد المعنيين الأولين ظاهرة.

هذا ما عند الحنفية.

 

وأما الشافعية، فهم لا يفرِّقون بين المندوب والمَسنون؛ قال الإمام النووي في "التهذيب": "تُطلَق السنَّة على المندوب، وقال جماعة من أصحابنا في أصول الفقه: السنة والمندوب والتطوع والنفل والمرغب فيه والمستحب: كلها بمعنى واحد، وهو ما كان فعله راجحًا على تركه، ولا إثم في تركه"، إلى هنا كلامه.

 

 وليكن هذا التعميم عند الشافعية على ذُكْرٍ منك، فإنه به يندفع الاشتباه في بعض المواضع.

 

وأما الباب الأول:

ففي بيان أن الخضاب في اللحية مباح أم مسنون أم مستحب:

 اعلم أن السنَّة بمعنى المسنون التي هي أحد الأحكام الخمسة المذكورة فيما سبق: ما واظب عليه (عليه السلام)، ولا خلاف في أنه عليه السلام ما واظب على الخضاب؛ إنما الخلاف في أنه عليه السلام هل فعله مرة؟ قال في المبسوط: "اختلفت الروايات في أن النبي عليه السلام هل فعل ذلك في عمره؟ والأصح أنه عليه السلام لم يفعل" انتهى كلامه.

 

وإذا ثبت أنه عليه السلام ما واظب عليه فقد ثبت أنه ليس بسنَّة، فإن قلتَ: فما وجه قول صاحب الشرعة: "الخضاب سنَّة قولاً وفعلاً"؟

 قلت: أراد بالسنة الطريقة المسلوكة في الدين، لا السنَّة المُصطلَحة، والفرق بينهما واضح عند الخواص، وإن اشتبه على العوام، يرشدك إلى الفرق بينهما انتظام الأولى للمُستحب والمباح؛ بل الواجب والفرض أيضًا.

 

 بخلاف الثانية، فإنها مقابلة للأربعة المذكورة، وكفاك دليلاً قاطعًا على أنه أراد بالسنة المعنى الأول، قوله: قولاً، فإن السنة بالمعنى الثاني لا تثبت بقوله عليه السلام؛ لما عرفت أنه لا بدَّ فيها من المواظبة من النبي عليه السلام عليها، وهي لا تكون إلا بالفعل، هذا على تقدير أن صاحب الشرعة من أئمة الحنفية، وأما على تقدير أن يكون من أئمة الشافعية، فالأمر بيِّن؛ لأن السنة عندهم تنتظم المندوب على ما عرفت فيما تقدم.

 

أما ثبوت سنية الخضاب بالمعنى الأول بقوله عليه السلام، فلا شُبهة فيه؛ لورود الأحاديث الصحيحة في هذا الباب على ما ذُكر في الكتب الصحاح؛ ومنها:

 ما روى أبو هريرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ((إن اليهود والنصارى لا يصبغون فخالفوهم))[1].

 

 ومنها: ما روي عنه أيضًا أنه قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: ((غيِّروا هذا الشَّيب، ولا تشبَّهوا باليهود))[2].

 

 وهذان الحديثان ظاهران في استحباب الخضاب.

 

 وأما ثبوت سُنَّيته بالمعنى الأول فعلاً، فلما روي عن ابن عمر رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يَلبس النعال السبتية، ويصفِّر لحيته بالورس والزعفران[3].

 

• والورس: صبغ أصفر، وقيل: نبت طيب الرائحة؛ ذكرَه في "المغرب".

 

 هذا ما عند أهل الظاهر من أصحاب الحديث، وبه أخذ صاحب الشرعة.

 

 والذي عند أهل الرأي والتحقيق ما قدمناه من أن النبي عليه السلام ما اختضب لحيته، والحديث المذكور ليس بنص في هذا الباب؛ لاحتمال ألا يكون ما ذكر من الاختضاب لتغيير الشيب، بل يكون لتطييب الرائحة، وفي عبارة: (يصفر لحيته) دون (يُغير شيبته)، والجمع بين طيبي الرائحة في الورس والزعفران: نوع تأييد لذلك الاحتمال.



وأما الباب الثاني: ففي بيان أنواع الخضاب:

وتفصيل بابه، التفضيل فيما بينها.

 

اعلم: أن الخضاب على خمسة أنواع:

حسن، وأحسن إضافي، وحسن حقيقي، ومكروه، وحرام.

أما الأول: فالخضاب بالحناء والوسمة.

وأما الثاني: فالخضاب بالحناء والكتم.

وأما الثالث: فالخضاب بالصفرة.

 

وإنما كان الثاني أحسن من الأول؛ لأنه أقرب إلى الصفرة، والأول أقرب إلى السواد؛ وذلك لأن الوسمة يشمل الكتم.

 

قال الجوهري: الكَتَم بالتحريك: "نبت يخلط بالوسمة يختضب به"، فالخضاب بالحناء والوسمة يكون أقرب إلى السواد من الخضاب بالحناء والكتم، والخضاب بالحناء والكتم يكون أقرب إلى الصفرة من الخضاب بالحناء والوسمة، وما هو أقرب إلى الأحسن الحقيقي يكون أحسن مما هو أقرب إلى الحرام.

 

وسيأتي نقل الخبر عن خير البشر على وفق هذا التفصيل.

 

وأما الرابع: فالخضاب بالحناء الخالص.

 

وأما الخامس: فالخضاب بالسواد؛ لما روى أبو داود والنسائي عن حديث ابن عباس رضي الله عنهما أن النبي عليه السلام قال: ((يكون في آخر الزمان قوم يخضبون بالسواد كحواصل الحمام، لا يريحون رائحة الجنة))؛ إسناده جيد[4].

 

ولا خفاء في أن مثل هذا الوعيد لا يكون إلا في حق الحرام، فمراد عامَّة المشايخ في هذه المسألة من الكراهية كراهيةُ التحريم.

 

قال صاحب المحيط: عامة المشايخ على أن الخضاب بالسواد مكروه، وبعضهم جوَّزه، وهو مروي عن أبي يوسف، وفي كتاب التحري من "المحيط" لرضي الدين السرخسي نقلاً عن "المبسوط" قال عليه السلام: ((اختضبوا بالسواد؛ فإنه أهيب للعدو، وأعجب للنساء))[5].

 

وقال شمس الأئمة السرخسي في أوائل "شرح سير الكبير": فمن فعل ذلك من الغزاة ليكون أهيب في عين الأعداء، كان ذلك محمودًا منه، فأما إذا فعل ذلك في حق النساء، فعامة المشايخ على الكراهة، وبعضهم جوزوا ذلك، وقد روي عن أبي يوسف أنه قال: "كما يعجبني أن تتزين لي، يُعجبها أن أتزين لها" انتهى.

 

فمن رخص فيه يقول: إن الوعيد الشديد الوارد في الحديث في حق من يفعله لا لمصلحة الدين، فلا ينتظم من يفعله لترهيب الأعداء في الجهاد، ومن يفعله لترغيب امرأته وجواريه؛ لأن فيه تحصين النفس، وهو من مهمات مصالح الدين.

 

وأما الكراهة في الخضاب بالحناء الخالص، فكراهة التنزيه؛ ووجه ذلك: ما روى أبو داود والنسائي أن امرأة سألت عائشة رضي الله عنها عن خضاب الحناء الخالص فقالت: "لا بأس ولكن أكرهه؛ كان حبيبي صلى الله عليه وسلم يكره ريحه" انتهى[6].



ومن هنا ظهر وجه ما تقدم من جعلنا الخضاب بالحناء الخالص أدنى درجةً من الخضاب بالحناء والوسمة في الحسن.

 

وقولنا: إنه حسن دون أحسن، هو أن النبي صلى الله عليه وسلم قال فيه: ((ما أحسن هذا!))؛ وذلك فيما روى أبو داود والنسائي عن ابن عباس رضي الله عنهما أنه قال: مرَّ على النبي صلى الله عليه وسلم رجل قد خضب بالحناء فقال: ((ما أحسن هذا!))، قال: فمرَّ آخر قد خضب بالحناء والكتم فقال: ((هذا أحسن من هذا))، ثم مر آخر قد خضب بالصفرة فقال: ((هذا أحسن من هذا كله))[7] انتهى.

 

هذا ما وعدنا إيراده.

 

قال شمس الأئمة السرخسي في أوائل "شرح السير الكبير" عن عمر رضي الله عنه أنه عليه السلام قال: ((لا تزال هذه الأمة على الشِّرعة من الإسلام حسنة، هم لعدوهم قاهرون، وعليهم ظاهرون، ما لم يصبغوا الشَّعر، ويَلبسوا المعصفَر، ويشاركوا الذين كفروا في صغارهم، فإن فعلوا ذلك كانوا قَمِنًا أن ينتصف منهم عدوهم)).

 

في الحديث:

 بيان النصرة لهذه الأمة ما داموا مشتغلين بالجهاد، وقال الله تعالى: ﴿ إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ ﴾ [محمد: 7].

 

 وفيه بيان أنهم إذا اشتغلوا بالدنيا، واتَّبعوا اللذات والشهوات، وأعرضوا عن الجهاد، يظهر عليهم عدوُّهم.

 

 ومعنى قوله: ((قَمِنًا)) أي: خليقًا وجَديرًا.

 

 كنى به عن اتِّباع الشهوات بأن يصبغوا الشعر - يريد به الخضاب - لترغيب النساء فيهم، فأما نفس الخضاب، فغير مذموم، بل هو من سيماء المسلمين؛ قال عليه السلام: ((غيِّروا الشَّيب، ولا تشبهوا باليهود))، فقال الراوي: رأيت بعد هذا الحديث أن أبا بكر رضي الله عنه على منبر رسول الله صلى الله عليه وسلم ولحيته كأنها ضرام عرفج - يريد به أنه كان مخضوب اللحية - إلى هنا كلامه.

 

 قوله: "يريد به الخضاب لترغيب النساء فيهم" على ما اختاره عامة المشايخ من عدم الرخصة فيه لترغيبهم؛ قال القاضي الإمام ظهير الدين في فتاواه: "ولا بأس بخضاب اللحية؛ لما رُوي عن أبي بكر رضي الله عنه أنه خضب لحيته حتى صارت كأنها ضرام عرفج"، والضرام: اللهب، والعرفج: الشوكة، وقال الإمام الحاكم الجليل في "المنتقى": "ولا بأس بخضاب الرأس واللحية"، وقال صاحب "المحيط" في كتاب الاستحسان: "ولا بأس بخضاب الرأس واللحية بالحناء والوسمة للرجال والنساء؛ لأن ذلك سبب لزيادة الرغبة والمحبة والمودة بين الزوجين إلى صاحبه"، وقال محمد - رحمه الله - في "المبسوط": "لا بأس في الخضاب في غير الحرب، وهو الأصح".

 

 فإن قلت: أليس عبارة "لا بأس" صريحةً في أنه ليس بمندوب؟ فما وجه ما ذكر في مجمع الفتاوى في فصل قتْل الأعونة من كتاب الحظر والإباحة: "أما بالحمرة، فهي سُنَّة للرجال"، والسنة فوق المندوب؟ قلت: أراد بالسنَّة هنا: السنَّة بمعنى الطريقة المسلوكة في الدين، والسنَّة بهذا المعنى تنتظم ما دون المندوب من المُباحات؛ ما رآه المؤمنون حسنًا.

 

 قال الإمام قاضي خان في باب "ما يكره من الثياب والحلي": "والخضاب والوسمة حسن" انتهى.

 

 ومختار السيد أبو شجاع أنه مستحبٌّ؛ حيث قال في "آداب الملتقط": ويُستحبُّ خضاب الشعر واللحية للرجال"، ولم يفصل بين الحرب وغيره، وهذا في خضاب اللحية والرأس، وأما خضاب اليد والرِّجل، فلا بأس للنساء ما لم يكن فيه تماثيل، ويُكره للرجال والصبيان؛ لأن ذلك تزيين، وهو مباح للنساء دون الرجال، كذا قال صاحب "المحيط" في أوائل كتاب الاستحسان.



وأما الباب الثالث: ففي فضائل الخضاب ومنافعه:

ذكر حسن بن زياد من تلاميذ أبي حنيفة في المجرد: "وبعد ما قال: ولا ينبغي أن يخضب رجله ولا يده، وجوَّز على الرِّجْلِ بعذرٍ؛ استدلالاً بما رُوي عن النبي صلى الله عليه وسلم: ما شكى إليه أحد من وجع الرِّجل إلا قال له: ((اخضب))[8].

 

وقال صاحب "الكشاف" في "الفائق": عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: ((الخضاب بالحناء يَجلو البصر، ويُطيب النكهة، ويطرد الشيطان))[9]، والنكهة: رائحة الفم.

 

قال الشاعر: كأبهر يتنافى بنكهة الجار [؟].

 

وفي حديث شارب الخمر: ((استنكهوه))[10]، قال ابن الأثير في "النهاية": أي شمُّوا نكهة رائحة الفم، هل شرب الخمر أم لا؟

 

قال قاضي القضاة مجد الشريعة المعروف بقاضي مجدٍ لما سُئل عن الخضاب وما جاء في الحديث: ((إذا دُفن الميت وهو مختضب بالحناء أتاه ملَكان، ويقول لكل واحد منهما لصاحبه: ارفق بالمؤمنين، أما ترى آثار الإيمان أو نور الإيمان عليه)): إن هذا الخضاب محمول على اللحية أو على الرِّجل؛ كذا في "جواهر الفتاوى".

 

قوله: إن الخضاب محمول على جواب قاضي مجدٍ عن السؤال عن الخضاب المذكور في الحديث المزبور، يعني: أن مفهوم قوله عليه السلام: ((وهو مختضب بالحناء)): وهو مختضب اللحية أو مختضب الرِّجل بالحناء، ولا خفاء في أن الترديد المذكور يأبى عن أن يراد بنور الإيمان نفس الخضاب؛ إذ لا خلاف في أن الخضاب على الرِّجل ليس بمظنَّة لهذه الفضيلة، فلا بد من التأويل بأن المراد منه ما في موضع الخضاب من آثار الوضوء، هذا ما عند القاضي مجد.

 

والذي عندي: أن المعنى: وهو مختضب اللحية، والمراد من النور: نور الشيب؛ لما روى الترمذي والدارمي عن كعب بن مرة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((مَن شاب شيبة في الإسلام، كانت له نورًا يوم القيامة))[11]، وروى أبو داود والترمذي والقزويني عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((لا تَنتفوا الشيب؛ فإنه نور المسلم، مَن شاب شيبةً في الإسلام كتب الله له بها حسَنة، وكفر بها عنه خطيئة، ورفعه بها درجة))[12] انتهى.

 

ولما كان الخضاب على اللحية أمَارة الشيب، قال المَلَك عند رؤيته: أما ترى نور الإيمان؟ فالفضيلة للشَّيب لا للخضاب، والله أعلم بالصواب.

 

ومن فوائد الخضاب:

ما ذكر محمد في "الزيادات"؛ حيث قال: "إذا اختلط موتى المسلمين بموتى الكفار، يُميز بينهم بالسيماء، وسيماءُ المسلمين: الختان، والخضاب، ولبس السواد، وعلامات الكفار: أن يكون غير مختون، وزنار قد شدَّه فوق قبائه، وأبيض الرأس واللحية قد جعل رأسه فضة كما يفعله أهل الذمة"، وقال الشارح: يريد به أنه لم يغيِّر شعره سوادًا بالخضاب، وفي "سير المحيط": "وأما لبس السواد، فإنه عادة بني العباس، كانوا في زمنهم يلبسون السواد يأخذون الناس".

 

قال صاحب "النقاية": ويُستحبُّ أن يلبس المصبوغ أحيانًا خلافًا للمجوس، وإنما قيل: خلافًا للمجوس؛ لأنهم يلبسونه دائمًا، وقيل: لأن بعض المجوس يقال لهم سبيدجامه كانوا يلبسون الأبيض دائمًا.

 

تمت رسالة الخضاب؛ لمولانا أحمد بن كمال باشا.




[1] صحيح البخاري رحمه الله (3462) مسلم رحمه الله (2103).
[2] أخرجه الترمذي رحمه الله (1752) وقال: حسن صحيح، أحمد رحمه الله في مسنده 13 / 274، صححه أحمد شاكر رحمه الله، والألباني رحمه الله.
[3] أخرجه أبو داود رحمه الله (4210) وسكت عنه، قال ابن القطان رحمه الله: ما به مِن ضَعف، حسنه ابن حجر رحمه الله، صححه السيوطي رحمه الله في الجامع، وصححه الألباني رحمه الله.
[4] جوَّد إسناده العراقي رحمه الله في "الإحياء"، وصحَّحه ابن باز رحمه الله في مج فتاواه 4 / 58، 10 / 89، وصحَّحه الألباني رحمه الله.
[5] لم أجده بهذا اللفظ، أخرجه ابن ماجه رحمه الله بلفظ: ((إن أحسن ما اختضبتم به...))، وضعَّفه الألباني رحمه الله، والبزار 6 / 30: ((عليكُم بخضابِ السَّوادِ؛ فإنَّهُ أرهَبُ لَكُم في صدورِ عَدوِّكم، وأرغَبُ لنسائِكُم فيكُم))، وإسناده ليس بالقوي.
[6] أبو داود (4146)، وسكت عنه، وضعَّفه ابن العربي رحمه الله والألباني، وحسنه ابن الملقن رحمه الله في البدر.
[7] أبو داود (4211)، وسكت عنه، جوده الألباني في المشكاة، وضعَّفه في أبي داود، في إسناده حميد بن وهب القرشي الكوفي، وهو منكر الحديث، ومحمد بن طلحة الكوفي، وكان ممن يُخطئ حتى خرج عن حد التعديل.
[8] أبو داود (3858) عن سلمى أم رافع خادمة النبي، والحديث صحَّحه الحاكم ووافقه الذهبي، وهو في الصحيحة للألباني.
[9] لم أجده.
[10] حديث بريدة رضي الله عنه: "جاء ماعز رضي الله عنه..." أخرجه الطبراني رحمه الله في الأوسط 5 / 117، قال الهيثمي 6 / 282: رجاله رجال الصحيح.
[11] ابن العربي "عارضة الأحوزي" 4 / 118، وأخرجه الترمذي (1635) عن عمرو بن عبسة رضي الله عنه، وقال: حسن صحيح غريب، حديث كعب بن مرة رضي الله عنه عند النسائي صحَّحه الألباني في الترغيب والترهيب للمنذري عن عمرو بن عبسة بإسناد صحيح، وعن فضالة رضي الله عنه بسند ثقات فيه ابن لهيعة، وبإسنادين لأبي أمامة أحدهما سنده ثقات، وعن عمر رضي الله عنه، وأخرجه ابن حبان في صحيحه (2983) عن عمر رضي الله عنه.
[12] حسَّنه الألباني في المشكاة.


رابط الموضوع: https://www.alukah.net/sharia/0/79516/%D8%B1%D8%B3%D8%A7%D9%84%D8%A9-%D9%81%D9%8A-%D8%A7%D9%84%D8%AE%D8%B6%D8%A7%D8%A8-%D9%84%D8%A7%D8%A8%D9%86-%D9%83%D9%85%D8%A7%D9%84-%D8%A8%D8%A7%D8%B4%D8%A7/#ixzz8boG6z0V1





سیاہ خضاب

 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کی ایک جماعت سے سیاہ خضاب کا استعمال كرنا  بھی منقول  ہے، جیسا کہ ابن قيم رحمه الله  (المتوفى: 751ھ) نے تفصیل کے ساتھ  لکھا ہے کہ کن کن صحابہ كرام   و تابعین واہل علم سے کالا خضاب لگانا منقول ہے، ان کی عبارت ملاحظہ فرمائیں :

"أَنَّ الْخِضَابَ بِالسَّوَادِ الْمَنْهِيِّ عَنْهُ خِضَابُ التَّدْلِيسِ، كَخِضَابِ شَعْرِ الْجَارِيَةِ، وَالْمَرْأَةِ الْكَبِيرَةِ تَغُرُّ الزَّوْجَ، وَالسَّيِّدَ بِذَلِكَ، وَخِضَابِ الشَّيْخِ يَغُرُّ الْمَرْأَةَ بِذَلِكَ، فَإِنَّهُ مِنَ الْغِشِّ وَالْخِدَاعِ، فَأَمَّا إِذَا لَمْ يَتَضَمَّنْ تَدْلِيسًا وَلَا خِدَاعًا، فَقَدْ صَحَّ عَنِ الحسن والحسين رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهُمَا كَانَا يَخْضِبَانِ بِالسَّوَادِ، ذَكَرَ ذَلِكَ ابْنُ جَرِيرٍ عَنْهُمَا فِي كِتَابِ "تَهْذِيبِ الْآثَارِ " وَذَكَرَهُ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ، وَسَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، وَالْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، وَجَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وَعَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، وَحَكَاهُ عَنْ جَمَاعَةٍ مِنَ التَّابِعِينَ: مِنْهُمْ عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، وَعَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَسْوَدِ، وَمُوسَى بْنُ طَلْحَةَ، وَالزُّهْرِيُّ، وأيوب، وإسماعيل بن معدي كرب. وَحَكَاهُ ابْنُ الْجَوْزِيِّ عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ، ويزيد، وَابْنِ جُرَيْجٍ، وأبي يوسف، وأبي إسحاق، وَابْنِ أَبِي لَيْلَى، وَزِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ، وغيلان بن جامع وَنَافِعِ بْنِ جُبَيْرٍ، وعمرو بن علي المقدمي، وَالْقَاسِمِ بْنِ سَلَامٍ. "

(زاد المعاد، حرف الكاف، كتم، (4/ 337 و338)، ط/ مؤسسة الرسالة، بيروت)

علامہ عینی رحمہ اللہ(المتوفى: 855ھ)نےبھی  اس تفصیل کو کچھ ان الفاظ میں نقل فرمایا ہے: 

"وذكر ابن أبي العاصم بأسانيد: إن حسنا وحسينا رضي الله عنهما، كانا يختضبان به، أي: بالسواد، وكذلك ابن شهاب، وقال: أحبه إلينا أحلكه، وكذلك شرحبيل بن السمط، وقال عنبسة بن سعيد: إنما شعرك بمنزلة ثوبك فاصبغه بأي لون شئت، وأحبه إلينا أحلكه. وكان إسماعيل بن أبي عبد الله يخضب بالسواد، وعن عمر بن الخطاب رضي الله عنه، أنه كان يأمر بالخضاب بالسواد، ويقول: هو تسكين للزوجة وأهيب للعدو، وعن ابن أبي مليكة: أن عثمان كان يخضب به، وعن عقبة بن عامر والحسن والحسين أنهم كانوا يختضبون، ومن التابعين: علي ابن عبد الله بن عباس وعروة بن الزبير وابن سيرين وأبو بردة. "

(عمدة القاري، باب الجعد،(51/22)، ط/ دار احیاء التراث العربی)

 ممانعت  کی روایت کے باوجود  جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ایسا کرنے کا ثبوت اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ ممانعت  کی  روایت بالکل عام نہیں ہے، بلکہ اس سے خا ص حالت کو استثنا حاصل ہے ، جو مذکورہ روایت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے  جملہ ’’وأهيب للعدو‘‘  (یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کالے خضاب کے لگانے کا حکم فرماتے تھے اس وضاحت کے ساتھ کہ اس سے  دشمن  زیادہ ہیبت زدہ (مرعوب) ہوتا ہے

چنانچہ شارح مصابيح السنۃ علامہ ابن المَلَك  رحمہ اللہ (المتوفى: 854 ھ)  لکھتے ہیں : 

"واجتَنِبُوا السوادَ، قيل: هذا في حقِّ غيرِ الغُزَاة، وأما مَن فعلَ ذلك مِن الغُزَاة؛ ليكون أهيبَ في عينِ العدوّ، لا للتزين فلا بأسَ به، روي: أن عثمانَ والحسنَ والحسينَ خَضَبُوا لحاهم بالسواد للمهابة.

(شرح المصابیح لابن الملک، (53/5) تحت رقم (3414)، ط/إدارة الثقافة الإسلامیة)

علامہ شامی رحمہ اللہ (المتوفى: 1252ھ)  نقل فرماتے ہیں: 

"قوله - عليه الصلاة والسلام - «غيروا هذا الشيب واجتنبوا السواد» اهـ قال الحموي: وهذا في حق غير الغزاة، ولا يحرم في حقهما للإرهاب، ولعله محمل من فعل ذلك من الصحابة."

(الدرالمختار وحاشیةابن عابدین، (756/6)، ط/ دارالفکر)


ذهب الحنفية، والمالكية، والحنابلة إلى أن خضاب الرجل بالسواد مكروه في غير الجهاد في الجملة.

وللحنفية، والمالكية في ذلك تفصيل: قال ابن عابدين: يكره الخضاب بالسواد أي: لغير الحرب, قال في الذخيرة: أما الخضاب بالسواد للغزو ـ ليكون أهيب في عين العدو ـ فهو محمود بالاتفاق، وإن كان ليزين نفسه للنساء فمكروه, وعليه عامة المشايخ، وبعضهم جوزه بلا كراهة، روي عن أبي يوسف أنه قال: كما يعجبني أن تتزين لي يعجبها أن أتزين لها.

وقال المالكية: الخضاب بالسواد إذا كان للتغرير فهو حرام، كمن أراد نكاح امرأة فصبغ شعر لحيته الأبيض بالسواد، وإن كان للجهاد حتى يوهم العدو الشباب ندب، وإن كان للتشاب كره، وإن كان مطلقا فقولان: بالكراهة، والجواز.

 وقال الشافعية: إن الخضاب بالسواد حرام في الجملة, ولهم في ذلك تفصيل، وخلاف، قال النووي في المجموع: اتفقوا على ذم خضاب الرأس، واللحية بالسواد, ثم قال: قال: الغزالي في الإحياء, والبغوي في التهذيب, وآخرون من الأصحاب: هو مكروه، وظاهر عبارتهم أنه مكروه كراهة تنزيه, والصحيح ـ بل الصواب ـ أنه حرام، وممن صرح بتحريمه صاحب الحاوي في باب الصلاة بالنجاسة, قال: إلا أن يكون في الجهاد, وقال في آخر كتاب الأحكام السلطانية يمنع المحتسب الناس من خضاب الشيب بالسواد، إلا المجاهد.

ودليل تحريمه حديث جابر -رضي الله عنه- قال: {أتي بأبي قحافة والد أبي بكر الصديق -رضي الله عنهما- يوم فتح مكة ورأسه ولحيته كالثغامة بياضا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: غيروا هذا, واجتنبوا السواد}, وعن ابن عباس -رضي الله عنهما- قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: {يكون قوم يخضبون في آخر الزمان بالسواد كحواصل الحمام, لا يريحون رائحة الجنة}.

ولا فرق في المنع من الخضاب بالسواد بين الرجل والمرأة... هذا مذهبنا.

وحكي عن إسحاق بن راهويه أنه رخص فيه للمرأة تتزين به لزوجها، وقال النووي في روضة الطالبين: خضاب المرأة بالسواد إن كانت خلية من الزوج وفعلته، فهو حرام, وإن كانت زوجة وفعلته بإذنه فجائز على المذهب, وقيل: وجهان كوصل الشعر، وقال الرملي: يحرم على المرأة الخضاب بالسواد, فإن أذن لها زوجها في ذلك جاز; لأن له غرضا في تزينها له, كما في الروضة، وأصلها, وهو الأوجه... اهـ.


ولحديث ابن عباس أيضا مرفوعا : يكون قوم في آخر الزمان يخضبون بهذا السواد كحواصل الحمام لا يجدون رائحة الجنة " . رواه أبو داود والنسائي وفي إسناده مقال .

ولحديث أبي الدرداء رفعه : " من خضب بالسواد سود الله وجهه يوم القيامة " . أخرجه الطبراني وابن أبي عاصم وسنده لين .

Friday 24 May 2024

أ غرب كلمات اللغة العربية

 

  • كلمة نقاخ: يتم نطق هذه الكلمة من خلال ضم الحرف الأول وفتح الحرف الثاني، ومعناها هو الماء العذب.
  • كلمة هِلَّوف: تنطيق عبر كسر الحرف الأول مع فتح وتشديد الحرف الثاني، ومعنى هذه الكلمة يشير إلى من يست غمامه شمسه.
  • كلمة اطلخم: كسر الحرف الأول وفتح الثاني، وهي تأتي بمعنى زاد واشتد، كأن نقول على سبيل المثال: اطلخم الأمر.
  • كلمة الجرشي: استخدم بعض الشعراء هذه الكلمة ولقد كان معناها يُشير إلى النفس، مثل قول (كريم الجرشي عظيم النسب).
  • كلمة العرين: يتم استخدام هذه الكلمة في الوقت الحالي إلى حد ما، ولكن كان يتم نطقها بطريقة في لفظة يُشير معناها إلى (اللحم).

علما کو گالی دینا

 کسی عام مسلمان کو بھی  گالی دینا، از روئے حدیث سببِ فسق ہے،  جس سے اجتناب لازم ہے، اور حدیث شریف کے مطابق انسان کو جہنم کی آگ میں اوندھے منہ ڈالنے کا بڑا سبب زبان ہے، ایک حدیث میں ہے کہ جو دو چیزوں کی مجھے ضمانت دے دے میں اسے جنت کی ضمانت دیتاہوں، ان دو میں سے ایک زبان ہے۔

ریاض الصالحین للنووی میں ہے:

"وعنِ ابنِ مَسعودٍ قَالَ: قَالَ رسُولُ اللَّه ﷺ: سِباب المُسْلِمِ فُسوقٌ، وقِتَالُهُ كُفْرٌ متفقٌ عَلَيهِ". ( رياض الصالحين للنووي، باب تحريم سَبّ المسلم بغير حق)

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مسلمان کو گالی دینا فسق ہے، اور اسے قتل کرنا کفر ہے۔

"وعنْ أَبي هُرَيرةَ أنَّ رسُولَ اللَّه ﷺ قالَ: المُتَسابانِ مَا قَالا، فَعَلى البَادِي مِنْهُما حتَّى يَعْتَدِي المظلُومُ. رواه مسلم". ( رياض الصالحين للنووي، باب تحريم سَبّ المسلم بغير حق)

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : ایک دوسرے کو گالی دینے والے جو کچھ کہتے ہیں، تو وہ ان میں سے پہل کرنے والے کے سر ہے، یہاں تک کہ مظلوم زیادتی کرجائے۔ ( یعنی پھر وہ بھی اس گناہ میں شریک قرار پائے گا) .

علماءِ کرام کو بغیر کسی سبب ظاہری کے برا بھلا کہنا یا گالی دینا ناجائز ہے، فقہاءِ کرام نے ایسے شخص کے بارے میں بھی کفر کا اندیشہ ظاہر کیا ہے جو  کسی ظاہری سبب کے بغیر دل میں علماءِ کرام کا بغض رکھتاہو، لہذا اپنے اس عمل پر سچے دل سے توبہ و استغفار  لازم ہے، اور آئندہ علماءِ کرام سے بدگمان ہونے سے اجتناب کرنے کے  لیے اچھوں کی صحبت اختیار کی جائے۔

مجمع الأنهر في شرح ملتقي الأبحر  میں ہے:

"وَفِي الْبَزَّازِيَّةِ: فَالِاسْتِخْفَافُ بِالْعُلَمَاءِ؛ لِكَوْنِهِمْ عُلَمَاءَ اسْتِخْفَافٌ بِالْعِلْمِ، وَالْعِلْمُ صِفَةُ اللَّهِ تَعَالَى مَنَحَهُ فَضْلًا عَلَى خِيَارِ عِبَادِهِ لِيَدُلُّوا خَلْقَهُ عَلَى شَرِيعَتِهِ نِيَابَةً عَنْ رُسُلِهِ، فَاسْتِخْفَافُهُ بِهَذَا يُعْلَمُ أَنَّهُ إلَى مَنْ يَعُودُ، فَإِنْ افْتَخَرَ سُلْطَانٌ عَادِلٌ بِأَنَّهُ ظِلُّ اللَّهِ تَعَالَى عَلَى خَلْقِهِ، يَقُولُ الْعُلَمَاءُ بِلُطْفٍ اللَّهُ اتَّصَفْنَا بِصِفَتِهِ بِنَفْسِ الْعِلْمِ، فَكَيْفَ إذَا اقْتَرَنَ بِهِ الْعَمَلُ الْمُلْكُ عَلَيْك لَوْلَا عَدْلُك فَأَيْنَ الْمُتَّصِفُ بِصِفَتِهِ مِنْ الَّذِينَ إذَا عَدَلُوا لَمْ يَعْدِلُوا عَنْ ظِلِّهِ، وَالِاسْتِخْفَافُ بِالْأَشْرَافِ وَالْعُلَمَاءِ كُفْرٌ. وَمَنْ قَالَ لِلْعَالِمِ عُوَيْلِمٌ أَوْ لِعَلَوِيٍّ عُلَيْوِيٌّ قَاصِدًا بِهِ الِاسْتِخْفَافَ كَفَرَ.

وَمَنْ أَهَانَ الشَّرِيعَةَ أَوْ الْمَسَائِلَ الَّتِي لَا بُدَّ مِنْهَا كَفَرَ، وَمَنْ بَغَضَ عَالِمًا مِنْ غَيْرِ سَبَبٍ ظَاهِرٍ خِيفَ عَلَيْهِ الْكُفْرُ، وَلَوْ شَتَمَ فَمَ عَالِمٍ فَقِيهٍ أَوْ عَلَوِيٍّ يُكَفَّرُ، وَتَطْلُقُ امْرَأَتُهُ ثَلَاثًا إجْمَاعًا كَمَا فِي مَجْمُوعَةِ الْمُؤَيَّدِيِّ نَقْلًا عَنْ الْحَاوِي، لَكِنَّ فِي عَامَّةِ الْمُعْتَبَرَاتِ أَنَّ هَذِهِ الْفُرْقَةَ فُرْقَةٌ بِغَيْرِ طَلَاقٍ عِنْدَ الشَّيْخَيْنِ فَكَيْفَ الثَّلَاثُ بِالْإِجْمَاعِ، تَدَبَّرْ". (كتاب السير، بَابُ الْمُرْتَدِّ، أَلْفَاظَ الْكُفْرِ أَنْوَاع، الرَّابِعُ فِي الِاسْتِخْفَافِ بِالْعِلْمِ، ١ / ٦٩٥، ط: دار احياء التراث

Thursday 23 May 2024

تین طلاق کے بعد رجوع

  تین طلاقیں ایک ساتھ دینے سے  تینوں طلاق واقع ہوچکی ہیں، بیوی اپنے شوہر پر حرمتِ  مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے،  رجوع جائز نہیں، نیز تجدیدِ نکاح کی بھی اجازت نہیں ہے۔ عدت کے گزرنے کے بعد بیوی دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔ اگر وہ دوسری جگہ نکاح کرتی ہے اور وہ زن و شو کا تعلق قائم کرنے کے بعد از خود طلاق دے دیتاہے یا اس کا انتقال ہوجاتاہے اور اس کی عدت بھی گزر جاتی ہے تو پہلے شوہر سے نئے مہر کے تقرر کے ساتھ نکاح  جائز ہوگا۔

الفتاوى الهندية (1 / 473):

"وإن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية".

Sunday 19 May 2024

لا صلاة لجارالمسجد الا في المسجد کی تحقیق

 فحديث " لا صلاة لجار المسجد إلا في المسجد " ضعيف، وقد أخرجه الدارقطني، والحاكم ، والبيهقي . وقد أورده ابن الجوزي في الموضوعات ، وضعفه الألباني في : ( إرواء الغليل في تخريج أحاديث منار السبيل)(2/251) و (السلسة الضعيفة برقم: 183) ، وضعيف الجامع الصغير برقم 6297.

ومع أن الحديث ضعيف فإن للمعنى الذي يدل عليه أصلا ثابتا