https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 11 June 2024

اپنے آپ کو کافر کہنا

 شوھرنے اگرکہاکہ میں" کافر ہوں ،میں نہیں مانتا اللہ کو "تو اس کی وجہ سے کہنے والادائرہ اسلام سے خارج ہوچکا میاں بیوی کا نکاح ختم ہوچکا۔ شوہر پر تجدید ایمان ضروری ہے ۔نیز اگر تجدید ایمان کے بعدمیاں بیوی دونوں ساتھ رہنا چاہیں تو نئے مہر اور گواہوں کی موجودگی میں تجدید نکاح کر کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"مسلم قال: أنا ملحد يكفر، ولو قال: ما علمت أنه كفر لا يعذر بهذا.....وفي اليتيمة سألت والدي عن رجل قال: أنا فرعون، أو إبليس فحينئذ يكفر كذا في التتارخانية."

(كتاب السير،الباب التاسع في احكام المرتدين جلد 2 ص: 279 ط:

الٹی ناقض وضو ہے کہ نہیں

 اگر کسی شخص کو قے ہو اور اس میں کھانا  یا پانی یا پت گرے تو اگر منہ بھر   کر قے ہوئی ہو تو وضو ٹوٹ گیا اور اگر منہ بھر  کر نہیں ہوئی تو وضو نہیں ٹوٹا۔ منہ بھر کر قے ہونے کا مطلب ہےکہ منہ میں مشکل سے رکے۔

اگر قے میں صرف بلغم گرا تو وضو نہیں ٹوٹا،  چاہے بلغم جتنا بھی ہو،منہ بھر ہو یا نہ ہو،سب کا ایک حکم ہے۔

اگر قے میں خون گرے تو اگر پتلا اور بہنے والا ہو تو وضو ٹوٹ جائے گا، چاہے کم ہو یا زیادہ،منہ بھر ہو یا نہیں ہو،اور اگر خون جمے ہوئے  ٹکڑوں کی صورت میں ہو اور منہ بھر ہو تو وضو ٹوٹ جاے گا اور اگر کم ہو تو نہیں ٹوٹے گا۔

اگر تھوڑی تھوڑی کرکے کئی دفعہ قے ہوئی، لیکن سب ملا کر اتنی ہےکہ اگر ایک دفعہ میں ہوتی تو منہ بھر جاتا تو  دیکھا جائے گا کہ اگر ایک ہی متلی مسلسل باقی رہی اور تھوڑی تھوڑی قے ہوتی رہی تو وضو ٹوٹ جائے گا اور اگر ایک ہی متلی مسلسل نہیں رہی، بلکہ پہلی دفعہ کی متلی ختم ہوگئی اور طبیعت ٹھیک ہو گئی پھر دوبارہ متلی شروع ہوئی اور تھوری قے ہو گئی،پھر جب متلی ختم ہو گئی تو تیسری دفعہ پھر متلی شروع ہوکر قے ہوئی تو وضو نہیں ٹوٹا۔

"ينقض الوضوء قىء ملأفاه بأن يضبط بتكلف من مرة اي صفراء او علق أي سوداء؛وأما العلق النازل من الرأس فغير ناقض او طعام أو ماء اذا اوصل الي معدته وان لم يستقر، وهو نجس مغلظ ولو من صبي ساعة ارتضاعه هو الصحيح لمخالطة النجاسة، ذكره الحلبي.

ولو هو في المرىء فلا نقض اتفاقا كقىء حية أو دود كثير لطهارته في نفسه،كماء فم النائم فانه طاهر مطلقا به يفتی، بخلاف ماء فم الميت فانه نجس كقيء عين خمر أو بول وان لم ينقض لقلته لنجاسته بالأصالة لا بالمجاورة لاينقضه قيء من بلغم علي المعتمد(أصلا) الا المخلوط بطعام فيعتبر الغالب،ولو استويا فكل على حدة. وينقضه دم مائع من جوف أو فم (غلب على بزاق) حكما للغالب( أو ساواه) احتياطاً. لاينقضه المغلوب بالبزاق والقيح كالدم والاختلاط بالمخاط كالبزاق.

ويجمع متفرق القيء و يجعل كقيء واحد لاتحاد السبب وهو الغيثان عند محمد رحمه الله وهو الأصح؛ لأن الأصل إضافة الأحكام إلى أسبابها إلا لمانع، كما بسط في الكافي".

(رد المحتار على الدرالمختار) (حاشية ابن عابدين) (ج: ا/ص ٢٩٣۔٢٨٩


فقد اختلف العلماء في اعتبار القيء ناقضا للوضوء أو غير ناقض على قولين:

الأول: أنه لا ينقض الوضوء قل أو كثر، وبه قال المالكية والشافعية، وأحمد في رواية. وعللوا ذلك بأن الأصل هو عدم النقض، فمن ادعى خلافه فعليه الدليل، وأنه لا يوجد دليل صحيح يوجب نقض الوضوء بالقيء، وما ورد من الأحاديث في ذلك فهو ضعيف، ولأن القيء خارج من غير السبيلين، فلا يعتبر ناقضا، بخلاف الخارج من السبيلين كالبول والغائط.

القول الثاني: أن القيء الكثير ينقض الوضوء دون القليل، وبه قال الحنفية، والحنابلة في المشهور من المذهب، واختلفوا في تحديد الكثير، فمنهم من قال: يحدد ذلك بالعرف، ومنهم من قال: هو ما بلغ ملء الفم.

قال ابن قدامة في المغني: بعد قول الخرقي (والقيء الفاحش، والدم الفاحش...الخ):
(وإنما ينتقض الوضوء بالكثير من ذلك دون اليسير... ولنا ما روى أبو الدرداء: أن النبي صلى الله عليه وسلم قاء فتوضأ، فلقيت ثوبان في مسجد دمشق فذكرت له ذلك، فقال ثوبان: صدق، أنا صببت له وضوءه. رواه الأثرم والترمذي، وقال: هذا أصح شيء في هذا الباب).

كما اعتبر الحنفية القيء ملء الفم ناقضا للوضوء.

والراجح - والله أعلم - أن القيء لا ينقض الوضوء ولو كان كثيرا، لأن حديث: أبي الدرداء قد ضعفه كثير من أهل العلم، وعلى افتراض صحة إسناده فإن مدلوله مجرد فعل، ومجرد الفعل لا يدل على الوجوب لأنه خال من الأمر. انظر الشرح الممتع على زاد المستقنع (1/225) للشيخ ابن عثيمين.

Monday 10 June 2024

بدفالی کااسلام سے کوئی تعلق نہیں

 کائنات کی تمام چیزوں میں تصرف کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے، اور اس کی مرضی کے بغیر کسی کو نہ کوئی خیر پہنچ سکتی ہے اور نہ ہی شر، لہذا اس قسم کے توہمات رکھنا شرعاً درست نہیں،  رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے توہمات و بد فالی  لینے  کی سختی سے تردید فرمائی ہے،  لہذا ان توہمات سے اپنے ذہنوں کو صاف کرنا اور اللہ پر کامل بھروسہ رکھتے ہوئے ان توہمات کی تردید کرنا ضروری ہے۔

شیطان اس طرح کے توہمات وبدعقیدگی ذہن میں ڈال کر اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان کم زور کرتاہے،  ایسا عقیدہ و توہم پرستی ناجائز ہے، سائلہ کا خیال اور عقیدہ درست ہے، اگر وہ اس گھر میں مجبوری کی وجہ سے دال نہیں پیس سکتی یا اچار نہیں ڈال سکتی تو اسے چاہیے کہ اپنے درست عقیدے پر ثابت قدم رہے، اس صورت میں امید ہے کہ اسے گناہ نہیں ہوگا۔ نیز اسے چاہیے کہ حکمت و تدبیر کے ساتھ گھر والوں کے اس باطل و بے حقیقت توہم کی اصلاح کی کوشش کرتی رہے۔جو اس طرح کا عقیدہ رکھے اور بدشگونی کا شکار ہو وہ ایمانی کم زوری کی وجہ سے قابلِ مؤاخذہ ہوگا

اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ اس ارشاد گرامی کے ذریعہ دراصل امت کے لوگوں کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اگر کسی کے پاس ایسا مکان ہو جس میں رہناوہ ناپسند کرتا ہو، یاکسی کی ایسی بیوی ہو جس کے ساتھ صحبت و مباشرت اسے ناگوار ہو، یا کسی کے پاس ایسا گھوڑا ہو جو اسے اچھا معلوم نہ ہوتا ہو تو ان صورتوں میں یہ چیزیں چھوڑ دینی چاہئیں، یعنی مکان والا اس مکان سے منتقل ہو جائے بیوی والا اس کو طلاق دیدے اور گھوڑے والا اس گھوڑے کو بیچ ڈالے۔

حدیث کی ان توضیحات کی روشنی میں یہ بات صاف ہوگئی کہ یہ ارشاد گرامی" الطیرة منهى عنها" (بدشگونی لینے کی ممانعت) کے منافی نہیں ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ عام طور پر لوگ جو یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ مکان منحوس ہے یا فلاں عورت یا فلاں گھوڑا سبزقدم(باعث نحوست،منحوس) ہے، تویہ بات یہاں مراد نہیں ہے۔

(مظاہرحق ،کتاب النکاح،الفصل الاول،ج:3،ص:246-247،ط:دارالاشاعت کراچی)

ارشادباری تعالیٰ ہے:

"وَیَسْتَجِیْبُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ یَزِیْدُهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖؕ وَ الْكٰفِرُوْنَ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ(26) وَ لَوْ بَسَطَ اللّٰهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهٖ لَبَغَوْا فِی الْاَرْضِ وَ لٰكِنْ یُّنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا یَشَآءُؕ-اِنَّهٗ بِعِبَادِهٖ خَبِیْرٌۢ بَصِیْرٌ(27)"

ترجمہ:اور ان لوگوں کی عبادت قبول کرتا ہے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے اور ان کو اپنے فضل سے اور زیادہ (ثواب) دیتا ہے اور جو لوگ کفر کر رہے ہیں انکے لیے سخت عذاب ہے،اور اگر اللہ تعالیٰ نے اپنے سب بندوں کے لیے روزی فراخ کردیتاتو وہ دنیا میں شرارت کرنے لگتے  لیکن جتنا رزق چاہتا ہے انداز (مناسب) سے (ہر ایک کے لیے) اتارتا ہے۔ وہ اپنے بندوں (کے مصالح) کو جاننے والا (اور ان کا حال) دیکھنے والا ہے۔

(تفسیربیان القرآن ،ج؛3،ص:351،ط:رحمانیہ

Saturday 8 June 2024

سنت غیر مؤکدہ بلاعذر چھوڑنا

 سنت مؤکدہ کا پڑھنا لازم ہے اور اسے بلا کسی عذر کے چھوڑنے والا گناہ گار ہوتا ہے، جب کہ سنت غیر مؤکدہ کے پڑھنے پر بہت ثواب ملتا ہے لیکن  بلا عذر چھوڑنے پر کوئی گناہ نہیں ملتا۔ چوں کہ  سنت غیر مؤکدہ نفل نماز کے درجہ میں ہے، اس لیے اس پر نفل نماز والے احکام ہی جاری ہوتے ہیں۔


البحرالرائق میں ہے:

’’سنة مؤكدة قوية قريبة من الواجب حتى أطلق بعضهم عليه الوجوب، ولهذا قال محمد: لو اجتمع أهل بلد على تركه قاتلناهم عليه، وعند أبي يوسف يحبسون ويضربون وهو يدل على تأكده لا على وجوبه.‘‘ [3/ 6]

فتاویٰ شامی میں ہے:

’’ولهذا كانت السنة المؤكدة قريبة من الواجب في لحوق الإثم، كما في البحر ويستوجب تاركها التضليل واللوم، كما في التحرير، أي على سبيل الإصرار بلا عذر.‘‘ [2/ 12]

فتاویٰ شامی میں ہے:

’’تركه لايوجب إساءةً ولا عتابًا كترك سنة الزوائد، لكن فعله أفضل.‘‘ [1/ 477، دارالفکر]

قرآن کریم کے بوسیدہ اوراق کو جلانا

 قرآنِ کریم کے جو اَوراق انتہائی بوسیدہ ہوجائیں اور استفادہ کے لائق نہ رہیں ان کی حفاظت کی بہتر صورت  یہ ہے کہ انہیں کسی پاک کپڑے میں لپیٹ کر گہرائی میں دفن کردیا جائے تا کہ ان کی بے حرمتی نہ ہو، ان  کو جلانا خلافِ ادب ہے۔"درمختار مع ردالمحتار" میں ہے:

" المصحف إذا صار بحال لا يقرأ فيه يدفن كالمسلم"۔ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطهارة، سنن الغسل (1/177) ط:سعید)

"فتاویٰ ہندیہ" میں ہے:

"المصحف إذا صار خلقا وتعذرت القراءة منه لا يحرق بالنار، أشار الشيباني إلى هذا في السير الكبير وبه نأخذ، كذا في الذخيرة". (الفتاوی الهندیة، کتاب الکراهیة، الباب الخامس في آداب المسجد والقبلة والمصحف وما كتب فيه شيء من القرآن (5/323) ط: دار الفکر

مولی علی کہنا

 مولیٰ"  کا لفظ کلماتِ مشترکہ میں سے ہے جس کے متعدد معانی آتے ہیں، ان معانی میں سے کسی ایک معنی کو ترجیح دینے اور کہنے والے کی مراد سمجھنے کے لیے اس کلمہ کا استعمال، اس کا سیاق و سباق اور  سامعین نے  جملہ میں استعمال کے بعد اس کا  کیا معنی سمجھا ہے، اسے بھی جاننا ضروری ہوتا ہے۔

  •   پس حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے متعلق  "من كنت مولاه فعلي مولاه" والی روایت مختلف طرق سے  مختصر و طویل متن کے ساتھ متعدد کتب حدیث میں منقول ہے، ان تمام روایات کے مجموعہ کے سیاق و سباق اور پس منظر پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے لیے "مولا"  کا لفظ  محب، دوست  اورمحبوب کے معنی میں استعمال فرمایا ہے، اور یہی معنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے سمجھا تھا؛ لہذا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے لیے "مولا"  کا لفظ اسی معنی میں استعمال کرنا چاہیے۔
  • "مولیٰ" کا ایک معنی سردار بھی آتاہے، اس معنی کے اعتبار سے بھی "مولا علی"  کہنا جائز ہوگا۔

تاہم "مولی علی" آج کے زمانے میں ایک گم راہ فرقے کا شعار بن چکا ہے، اور "مولی علی" کے الفاظ کے پیچھے ان کا ایک نظریہ چھپاہوتا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد  ان کے خلیفہ بلا فصل تھے وغیرہ ؛ لہذا ان الفاظ کے استعمال  سے اجتناب کرنا چاہیے، خصوصاً ایسے مواقع پر جہاں سننے والے "مولا علی" کے مختلف معانی کے فرق اور پس منظر کو نہ سمجھتے ہوں۔

سنن ابن ماجہ میں ہے:

''حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ مُسْلِمٍ، عَنِ ابْنِ سَابِطٍ وَهُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَ: قَدِمَ مُعَاوِيَةُ فِي بَعْضِ حَجَّاتِهِ، فَدَخَلَ عَلَيْهِ سَعْدٌ، فَذَكَرُوا عَلِيًّا، فَنَالَ مِنْهُ، فَغَضِبَ سَعْدٌ، وَقَالَ: تَقُولُ هَذَا لِرَجُلٍ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ»، وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: «أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى، إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي» ، وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: «لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ الْيَوْمَ رَجُلًا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ»''. 

( فضل علی بن ابی طالب، رقم الحدیث:121، ج:1، ص:45، ط:دارالکتب العلمیۃ)

کسی مسلمان کو کافر کہنا

 اگر بطور گالی کافر کہا ہو اورعقیدہ کے اعتبار سے اسے کافر قرار نہ دیا ہو، تو یہ حرام ہے،  کہنے  والا گناہ گار ہوگا، تاہم کافر نہ ہوگا۔ البتہ اگر اس نے کسی مسلمان کو  اعتقاداً کافر قرار دیا ہو اور سامنے والے شخص میں کفر نہ پایا جاتا ہو تو کہنے والا کافر ہوجائے گا، تجدیدِِ ایمان کرنا ضروری ہوگا، شادی شدہ ہو تو تجدیدِ ایمان کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں نیا مہر مقرر کرکے نکاح کی تجدید بھی کرنی ہوگی، بصورتِ دیگربیوی حلال نہ ہوگی۔

الأذكار للنووي میں ہے:

"520- فصل [النهي عن قول المسلم: يا كافر] :

1811- يحرم عليه تحريماً مغلّظاً أن يقولَ لمسلم: يا كافر!.

1812- رَوَيْنَا في صحيحي البخاري [رقم: 6103] ، ومسلمٍ [رقم: 60] ، عن ابن عمر رضي الله عنهُما، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذَا قالَ الرَّجُلُ لأخِيهِ: يا كافِرٌ! فَقَدْ باءَ بِها أحَدُهُما، فإن كانَ كما قال، وَإِلاَّ رَجَعَتْ عَلَيْهِ".

1813- وَرَوَيْنَا في  "صحيحيهما"  [البخاري، رقم: 6045؛ مسلم، رقم: 61] ( ؛ عن أبي ذرّ رضي الله عنهُ، أنهُ سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقولُ: "مَنْ دَعا رَجُلاً بالكُفْرِ" -أوْ قَالَ: "عَدُوُّ اللَّه" - "وَلَيْسَ كَذَلِكَ، إلاَّ حَارَ عَلَيهِ". هذا لفظ رواية مسلم، ولفظ البخاري بمعناه. ومعنى "حَارَ": رَجَعَ.

( كتاب حفظ اللسان، بابٌ في ألفاظٍ يكره استعمالها، فصل النهي عن قول المسلم: يا كافر، ص: 568، ط: الجفان والجابي - دار ابن حزم للطباعة والنشر الطبعة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

وَلَوْ قَالَ لِمُسْلِمٍ أَجْنَبِيٍّ: يَا كَافِرُ، أَوْ لِأَجْنَبِيَّةٍ يَا كَافِرَةُ، وَلَمْ يَقُلْ الْمُخَاطَبُ شَيْئًا، أَوْ قَالَ لِامْرَأَتِهِ:  يَا كَافِرَةُ، وَلَمْ تَقُلْ الْمَرْأَةُ شَيْئًا، أَوْ قَالَتْ الْمَرْأَةُ لِزَوْجِهَا: يَا كَافِرُ وَلَمْ يَقُلْ الزَّوْجُ شَيْئًا كَانَ الْفَقِيهُ أَبُو بَكْرٍ الْأَعْمَشُ الْبَلْخِيّ يَقُولُ: يَكْفُرُ هَذَا الْقَائِلُ،  وَقَالَ غَيْرُهُ مِنْ مَشَايِخِ بَلْخٍ رَحِمَهُمْ اللَّهُ تَعَالَى: لَايَكْفُرُ،  وَالْمُخْتَارُ لِلْفَتْوَى فِي جِنْسِ هَذِهِ الْمَسَائِلِ أَنَّ الْقَائِلَ بِمِثْلِ هَذِهِ الْمَقَالَاتِ إنْ كَانَ أَرَادَ الشَّتْمَ وَلَايَعْتَقِدُهُ كَافِرًا لَايَكْفُرُ، وَإِنْ كَانَ يَعْتَقِدُهُ كَافِرًا فَخَاطَبَهُ  بِهَذَا بِنَاءً عَلَى اعْتِقَادِهِ أَنَّهُ كَافِرٌ يَكْفُرُ، كَذَا فِي الذَّخِيرَةِ.

( كتاب السير، الْبَابُ التَّاسِعُ فِي أَحْكَامِ الْمُرْتَدِّينَ، مطلب فِي مُوجِبَاتُ الْكُفْرِ أَنْوَاعٌ مِنْهَا مَا يَتَعَلَّقُ بِالْإِيمَانِ وَالْإِسْلَامِ، ٢ / ٢٧٨، 

کیاايمان فطرة كا حصہ ہے

 وقد أشار إلى ذلك القرآن الكريم: {فأقم وجهك للدين حنيفا فطرت الله التي فطر الناس عليها لا تبديل لخلق الله}(الروم:30). قال عبد الله بن عباس: "{فطرت الله} دين الله {التي فطر الناس عليها} التي خلق الناس عليها في بطون أمهاتهم". وقال ابن كثير: "..لازم فطرتك السليمة، التي فطر الله الخلق عليها، فإنه تعالى فطر خلقه على معرفته وتوحيده، وأنه لا إله غيره"، وقال ابن عطية: "والذي يعتمد عليه في تفسير هذه اللفظة أي: (الفطرة) أنها الخلقة والهيئة التي في نفس الإنسان، التي هي معدة ومهيئة لأن يميز بها مصنوعات الله، ويستدل بها على ربه ويعرف شرائعه". فكل مخلوق فطر على الإيمان بالله عز وجل، ووجوده سبحانه من غير تفكير أو تعليم، ولا يجهل أو ينكر وجود الله إلا من انتكست فطرته، إذ ما من شيء إلا وهو أثر من آثار قدرته.


وعن أبي هريرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (ما من مولود إلا يولد على الفطرة، فأبواه يهودانه أو ينصرانه، أو يمجسانه) رواه البخاري. قال السيوطي والقاضي عياض وغيرهما: المراد بالفطرة المذكورة في الحديث: ما أخذ عليهم وهم في أصلاب آبائهم.
وقال ابن كثير في تفسيره لقول الله تعالى: {وإذ أخذ ربك من بني آدم من ظهورهم ذريتهم وأشهدهم على أنفسهم ألست بربكم قالوا بلى شهدنا}(الأعراف:172): "يخبر تعالى أنه استخرج ذرية بني آدم من أصلابهم، شاهدين على أنفسهم أن الله ربهم ومليكهم، وأنه لا إله إلا هو. كما أنه تعالى فطرهم على ذلك وجبلهم عليه، قال تعالى: {فأقم وجهك للدين حنيفا فطرة الله التي فطر الناس عليها لا تبديل لخلق الله}(الروم:30). وفي الصحيحين عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (كل مولود يولد على الفطرة)". وقال السعدي: "أي: قررهم بإثبات ربوبيته، بما أودعه في فطرهم من الإقرار، بأنه ربهم وخالقهم ومليكهم. قالوا: بلى قد أقررنا بذلك، فإن الله تعالى فطر عباده على الدين الحنيف القيم. فكل أحد فهو مفطور على ذلك، ولكن الفطرة قد تغير وتبدل بما يطرأ عليها من العقائد الفاسدة".

حضور کے والدین کا ایمان

 صحیح بات یہی ہے کہ اس سلسلے میں توقف کیاجائے یعنی خاموشی اختیارکی جائے ،اورآپﷺ کے والدین کے بارے میں کسی قسم کی گستاخی اوربے ادبی سے زبان کومحفوظ رکھاجائے، اس لیے کہ یہ مسئلہ نہ عقائد میں داخل ہے اور ہی ایمان کا جز ہے اور نہ آخرت میں ہم سے اس بارے میں پوچھا جائے گا۔

فتاوی شامی (3/ 184) میں ہے:
'' ولا يقال: إن فيه إساءة أدب، لاقتضائه كفر الأبوين الشريفين مع أن الله تعالى أحياهما له وآمنا به، كما ورد في حديث ضعيف؛ لأنا نقول: إن الحديث أعم بدليل رواية الطبراني وأبي نعيم وابن عساكر: «خرجت من نكاح ولم أخرج من سفاح من لدن آدم إلى أن ولدني أبي وأمي لم يصبني من سفاح الجاهلية شيء»، وإحياء الأبوين بعد موتهما لا ينافي كون النكاح كان في زمن الكفر. ۔۔۔۔۔۔۔ 

وأما الاستدلال على نجاتهما بأنهما ماتا في زمن الفترة مبني على أصول الأشاعرة أن من مات ولم تبلغه الدعوى يموت ناجياً، أما الماتريدية، فإن مات قبل مضي مدة يمكنه فيها التأمل ولم يعتقد إيماناً ولا كفراً فلا عقاب عليه، بخلاف ما إذا اعتقد كفراً أو مات بعد المدة غير معتقد شيئاً.
نعم البخاريون من الماتريدية وافقوا الأشاعرة، وحملوا قول الإمام:لا عذر لأحد في الجهل بخالقه على ما بعد البعثة، واختاره المحقق ابن الهمام في التحرير، لكن هذا في غير من مات معتقداً للكفر، فقد صرح النووي والفخر الرازي بأن من مات قبل البعثة مشركاً فهو في النار، وعليه حمل بعض المالكية ما صح من الأحاديث في تعذيب أهل الفترة بخلاف من لم يشرك منهم ولم يوجد بل بقي عمره في غفلة من هذا كله ففيهم الخلاف، وبخلاف من اهتدى منهم بعقله كقس بن ساعدة وزيد بن عمرو بن نفيل فلا خلاف في نجاتهم، وعلى هذا فالظن في كرم الله تعالى أن يكون أبواه صلى الله عليه وسلم من أحد هذين القسمين، بل قيل: إن آباءه صلى الله عليه وسلم كلهم موحدون؛ لقوله تعالى: ﴿ وَتَقَلُّبَكَ فِي السَّاجِدِيْنَ ﴾ [الشعراء: 219]۔ لكن رده أبو حيان في تفسيره بأن قول الرافضة ومعنى الآية وترددك في تصفح أحوال المتهجدين، فافهم.
وبالجملة كما قال بعض المحققين: إنه لا ينبغي ذكر هذه المسألة إلا مع مزيد الأدب. وليست من المسائل التي يضر جهلها أو يسأل عنها في القبر أو في الموقف، فحفظ اللسان عن التكلم فيها إلا بخير أولى وأسلم''۔
 فق

Friday 7 June 2024

اجتماعی قربانی سے منافع یااجرت کی چند صورتیں اور ان کاحکم

   اجتماعی قربانی کرنے والے اور اجتماعی قربانی میں حصہ لینے والے لوگوں کے درمیان معاملہ کی ممکنہ طور پر چند صورتیں ہوسکتی ہیں،  اور ان مختلف صورتوں کی وجہ سے  اجتماعی قربانی کرنے والوں کے لیے اجرت رکھنے یا نہ رکھنے کے حکم میں فرق آئے گا؛ لہذا ن سب کا شرعی حکم  الگ الگ  لکھا جاتا  ہے:

1۔۔     خرید وفروخت کی صورت:

اس کا طریقہ یہ ہے کہ اجتماعی قربانی کا اہتمام کرنے والے اپنے  پیسوں سے قربانی کا  جانور خرید لیں، اور اس پر خود یا اپنے وکیل کے ذریعے قبضہ کرلیں، اس کے بعد جو شخص  اجتماعی قربانی میں حصہ لینا چاہے اس  کو  مکمل جانور یا مطلوبہ حصے (مثلاً ایک، دو  یا تین وغیرہ)  اپنا منافع رکھ کرفروخت کردیں، اجتماعی قربانی والے شخص کو بتادیں یا رسید پر لکھ دیں کہ فی حصہ اتنے میں فروخت کیا جاتا ہے،    پھر ان کی طرف سے نائب بن کر ان کی اجازت سے  قربانی کی جائے  اور    قربانی کے بعد خریدار کو  گائے میں سے اس کے حصہ کے بقدر دے دیا جائے۔

2۔۔   وعدہ بیع کی صورت:

         اس کا طریقہ یہ ہے کہ مثلاً اجتماعی قربانی کرنے والوں کے پاس فی الحال جانور خریدنے کا انتظام نہیں  تو وہ  جانور کے بیوپاریوں سے قیمت طے کرلیں اور ان سے وعدہ بیع کرلیں، پھر  اجتماعی قربانی میں حصہ لینے والوں سے وعدہ بیع کرلیں کہ ہم آپ کو ایک حصہ اتنے میں دیں گے (اور اس میں اپنا منافع رکھ لیں جیسا کہ پہلی صورت میں تھا) اور وعدہ بیع کی مد میں پیشگی ان سے رقم لے لیں، پھر آخر میں جانور خرید لیں  اور جانور خریدنے کے بعد  ان کا حصہ ان کی طرف سے ذبح کرلیا جائے۔

3۔۔ وکالت:

اجتماعی قربانی کرنے والوں کی طرف سے جانور خریدا جائے، اور اس صورت میں جو جو اخراجات آتے  ہیں وہ سب بھی ان کو بتا کر ان سے لے لیے جائیں، قربانی کاجانور خریدنے اور اس پرآنے والے تمام اخراجات  کے بعد جو رقم  بچ جائے  وہ حصہ داروں کو واپس کی جائے، اس رقم کو ان کی اجازت  کے بغیر  اپنے پاس رکھ لینا  بالکل ناجائز ہے، ہاں اگر وہ خود ہی خوش دلی  سے  باقی  بچ جانے والی  رقم ادارہ  کو عطیہ کردیں   تو اس صورت میں یہ  رقم لینا درست ہے ۔

وکالت والی صورت میں پہلے سے ہی طے کرکے الگ سے حق الخدمت/سروس چار جز کے نام سے ادارہ کے لیے  اجتماعی قربانی میں حصہ لینے والوں سے طے شدہ اجرت وصول کی جاسکتی ہے

Thursday 6 June 2024

بعد وضو سورہ قدر پڑھنا

 فقراءة سورة القدر بعد الوضوء ليس له أصل في السنة، ففي "كنز العمال": من قرأ في أثر وضوئه إنا أنزلناه في ليلة القدر كان من الصديقين، ومن قرأها مرتين كان في ديوان الشهداء، ومن قرأها ثلاثا يحشره الله محشر الأنبياء.

قال العجلوني في "كشف الخفاء": لا أصل له. انتهى.

وفي السلسلة الضعيفة للشيخ الألبانيقراءة سورة إنا أنزلناه عقب الوضوء لا أصل له. انتهى.

Monday 3 June 2024

وتر میں دعائے قنوت کے بجائے سورہ فاتحہ پڑھنا

 وتر کی تیسری رکعت میں رکوع سے قبل تکبیر کے بعد کوئی بھی دعا جو کلام الناس کے مشابہ نہ ہو پڑھی جاسکتی ہے،  دعاء قنوت  کی  جو مشہور دعا وتر میں پڑھی جاتی ہے (اللھم انا نستعینک ۔۔) وہ دعا  پڑھنا سنت ہے واجب نہیں ہے۔ اس  لئے اس کی جگہ اگر کسی نے  کوئی سورہ پڑھ لی، یا کوئی دعا پڑھ لی، یا  سورہ فاتحہ پڑھ لی تو سجدہ  سہو واجب نہیں ہوگا اور نماز درست  ہوجائے گی، اس لئے آپ کی نماز درست ہوگئی۔

’’وليس في القنوت دعاء مؤقت، كذا في التبيين. و الأولي أن يقرأ : اللّهم إنا نستعينك و يقرأ بعده اللّهم اهدنا فيمن هديت. و من لم يحسن القنوت يقول: "ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة و قنا غذاب النار"، كذا في المحيط. أو يقول: اللّهم اغفرلنا، و يكرر ذلك ثلاثاً، وهو اختيار أبي الليث، كذا في السراجية  (الھندیۃ، الباب الثامن في صلاة الوتر، ١/ ١١١، ط: دار الفکر)

 (قولہ ویسن الدعاء المشہور) قد منافی بحث الواجبات التصریح بذلک عن النھر، وذکر فی البحر عن الکرخی انّ القنوت لیس فیہ دعاء مؤقت، لانہ روی عن الصحابۃ ادعیۃ مختلفۃ، لانّ المؤقت من الدعا یذھب برقۃ القلب… ومن لا یحسن القنوت یقول۔ ربنا اتنا فی الدنیا حسنہ ـ الآیۃ۔ وقال ابو لیث یقول: اللھم اغفرلی یکررھا ثلاثا، وقیل یقول یارب ثلاثا، ذکرہ فی الذخیرۃ۔ (شامی 2/7)

وقولہ ویسن الدعاء المشھور) وھو اللھم انا نستعینک ونستھدیک ونستغفرک ونتوب الیک ونومن بک…الخ ویجوز ان یقتصر فی دعا القنوت علی نحو قولہ رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِیْ الآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ او یقول یا رب ثلاثا او اللھم اغفرلی ثلاثا لانہ غیر مؤقت فی ظاھر الروایۃ مطلقا سواء کان یحسن الدعا اولا (حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار (۲۸۰/۱)

Sunday 2 June 2024

سوتیلی ساس سے پردہ

  شادی کی وجہ سے میاں بیوی کے اصول و فروع ایک دوسرے پر حرام ہوجاتے ہیں، اصول وفروع کے علاوہ دیگر لوگ غیرمحرم ہوتے ہیں۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل کے لیے اس کے سسر کی دوسری بیوی(سوتیلی ساس ) نامحرم ہے اور اس سے پردہ ضروری ہے، البتہ اگر وہ اتنی بڑی عمر کی ہے کہ چہرہ کھول کر سامنے آنے میں فتنے کا اندیشہ نہیں ہے تو داماد(سائل) کے سامنے چہرہ  کھولنے کی گنجائش ہوگی۔

بدائع الصنائع  میں ہے:

"معنى قوله تعالى: {وأحل لكم ما وراء ذلكم} [النساء: 24] أي: ما وراء ما حرمه الله تعالى... ويجوز الجمع بين امرأة وبنت زوج كان لها من قبل، أو بين امرأة وزوجة كانت لأبيها وهما واحد؛ لأنه لا رحم بينهما فلم يوجد الجمع بين ذواتي رحم."

(فصل أنواع الجمع بين ذوات الأرحام منه جمع في النكاح، 2/ 263، ط:دارالكتب العلمية)

البحر الرائق  میں ہے:

"وقد جمع عبد الله بن جعفر بين ‌زوجة ‌علي وبنته ولم ينكر عليه أحد."

(فصل في المحرمات بالنكاح، 3/ 105، ط:دارالمعرفة)

الدرالمختار میں ہے:

"و ) حرم الجمع ( وطأ بملك يمين بين امرأتين أيتهما فرضت ذكراً لم تحل للأخرى ) أبداً؛ لحديث مسلم: "لاتنكح المرأة على عمتها"، وهو مشهور يصلح مخصصاً للكتاب، فجاز الجمع بين امرأة وبنت زوجها أو امرأة ابنها أو أمة ثم سيدتها؛ لأنه لو فرضت المرأة أو امرأة الابن أو السيدة ذكراً لم يحرم بخلاف عكسه".

(الدرالمختار مع ردالمحتار،(39/3 ط: سعید)