https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 8 June 2024

مولی علی کہنا

 مولیٰ"  کا لفظ کلماتِ مشترکہ میں سے ہے جس کے متعدد معانی آتے ہیں، ان معانی میں سے کسی ایک معنی کو ترجیح دینے اور کہنے والے کی مراد سمجھنے کے لیے اس کلمہ کا استعمال، اس کا سیاق و سباق اور  سامعین نے  جملہ میں استعمال کے بعد اس کا  کیا معنی سمجھا ہے، اسے بھی جاننا ضروری ہوتا ہے۔

  •   پس حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے متعلق  "من كنت مولاه فعلي مولاه" والی روایت مختلف طرق سے  مختصر و طویل متن کے ساتھ متعدد کتب حدیث میں منقول ہے، ان تمام روایات کے مجموعہ کے سیاق و سباق اور پس منظر پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے لیے "مولا"  کا لفظ  محب، دوست  اورمحبوب کے معنی میں استعمال فرمایا ہے، اور یہی معنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے سمجھا تھا؛ لہذا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے لیے "مولا"  کا لفظ اسی معنی میں استعمال کرنا چاہیے۔
  • "مولیٰ" کا ایک معنی سردار بھی آتاہے، اس معنی کے اعتبار سے بھی "مولا علی"  کہنا جائز ہوگا۔

تاہم "مولی علی" آج کے زمانے میں ایک گم راہ فرقے کا شعار بن چکا ہے، اور "مولی علی" کے الفاظ کے پیچھے ان کا ایک نظریہ چھپاہوتا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد  ان کے خلیفہ بلا فصل تھے وغیرہ ؛ لہذا ان الفاظ کے استعمال  سے اجتناب کرنا چاہیے، خصوصاً ایسے مواقع پر جہاں سننے والے "مولا علی" کے مختلف معانی کے فرق اور پس منظر کو نہ سمجھتے ہوں۔

سنن ابن ماجہ میں ہے:

''حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ مُسْلِمٍ، عَنِ ابْنِ سَابِطٍ وَهُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَ: قَدِمَ مُعَاوِيَةُ فِي بَعْضِ حَجَّاتِهِ، فَدَخَلَ عَلَيْهِ سَعْدٌ، فَذَكَرُوا عَلِيًّا، فَنَالَ مِنْهُ، فَغَضِبَ سَعْدٌ، وَقَالَ: تَقُولُ هَذَا لِرَجُلٍ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ»، وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: «أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى، إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي» ، وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: «لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ الْيَوْمَ رَجُلًا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ»''. 

( فضل علی بن ابی طالب، رقم الحدیث:121، ج:1، ص:45، ط:دارالکتب العلمیۃ)

No comments:

Post a Comment