https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 18 June 2024

قربانی کے موقع پر بال وناخن نہ کاٹنے کی حکمتیں

 ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ آپ  ﷺ نےارشاد فرمایا : ’’جب ذوالحجہ کاپہلا عشرہ شروع ہو جائے اور تم میں سے کسی کا قربانی دینے کا  ارادہ ہو تو وہ بال، ناخن یا کھال کا کچھ حصہ نہ کاٹے ، جب تک قر بانی نہ دے دے. ‘‘   ایک روایت میں یہ صراحت بھی موجود ہے کہ ذو الحجہ کا چاند طلوع ہوتے ہی ان چیزوں سے رک جائے۔

اس حدیث کی روشنی میں فقہاءِ کرام نے اس عمل کو مستحب قرار دیا ہے کہ جس کا ارادہ قربانی کرنے کا ہے اس کے لیے مستحب ہے کہ ماہِ ذی الحجہ کے آغاز سے جب تک قربانی کا جانور ذبح نہ کرے جسم کے کسی عضو سے بال اور ناخن صاف نہ کرے ، نیز بلاضرورت کھال وغیرہ بھی نہ کاٹے،   اور یہ استحباب صرف ان لوگوں کے لیے ہے جن کا ارادہ قربانی کرنے کا ہو۔

البتہ  بعض اکابر فرماتے  ہیں کہ قربانی نہ کرنے والے بھی قربانی کرنے والوں کی مشابہت اختیار کرکے  عام لوگوں کی قربانی کے بعد ناخن اور بال وغیرہ کاٹیں تو اللہ سے امید ہے کہ وہ بھی ثواب سے محرو م نہیں ہوں گے۔ نیز  اس میں یہ ملحوظ رہے کہ اگر زیر ناف بال اور ناخنوں کو چالیس دن یا زیادہ ہورہے ہوں تو  ایسی صورت میں ان کی صفائی کرنا ضروری ہے۔

مذکورہ حکم کی حکمتیں:

اور اس کی دو حکمتیں علماء ومحققین سے منقول ہیں:

1۔ پہلی حکمت:

بعض علماء نے اس کی حکمت یہ ذکر کی ہے کہ اس کی ممانعت حجاجِ بیت اللہ سے مشابہت کے لیے ہے کہ ان کے لیے حج کے ایام میں بال اور ناخن وغیرہ کاٹنا منع ہوتا ہے، لہٰذا جو لوگ حج پر نہ جاسکے اور قربانی کررہے ہوں تو وہ بھی حجاج کرام کی کچھ مشابہت اختیار کرلیں تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی اس رحمت کا کچھ حصہ انہیں بھی عطا فرمادیں گے جو حجاج بیت اللہ پر نازل ہوتی ہیں۔ اور انہی کے ضمن میں قربانی نہ کرنے والے بھی مشابہت اختیار کرلیں تو وہ بھی رحمت کے حق دار بن جائیں۔

یہ توجیہ ہمارے بعض اکابر علماء سے منقول ہے، خصوصاً جو بیت اللہ اور شعائرِ حج کا عاشقانہ ذوق رکھتے ہیں، اور یہ توجیہ اپنی جگہ درست بھی ہے۔ لیکن محققین علماء کرام اور شراح حدیث نے اس  توجیہ پر کلام کیاہے، اس لیے کہ اگر مقصود حجاج کی مشابہت ہو تو حجاج کرام کے لیے تو سلا ہوا لباس اور خوشبو کا استعمال وغیرہ بھی ممنوع ہے، اگر مشابہت مقصود ہوتی تو تمام احکام میں ہوتی۔ اس کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ مشابہت کے لیے تمام امور میں مشابہت ضروری نہیں ہوتی، رحمتِ خداوندی متوجہ کرنے کے لیے ادنیٰ مناسبت بھی کافی ہے۔ لیکن اس پر پھر سوال ہوتا ہے کہ اگر بعض امور میں ہی مشابہت کافی تھی تو  بھی بال، ناخن اور جسم کی کھال وغیرہ کاٹنے کی ممانعت میں ہی کیوں مشابہت اختیار کی گئی؟ احرام کی چادروں اور خوشبو کی پابندی میں بھی مشابہت ہوسکتی تھی! اس لیے مذکورہ حکم کی ایک اور حکمت بیان کی گئی ہے، جو تحقیق کے زیادہ قریب اور راجح ہے، وہ درج ذیل ہے:

2۔ دوسری حکمت:

اس حکمت کو سمجھنے سے پہلے قربانی کی حقیقت اور فلسفہ سمجھنا ضروری ہے

قربانی کا فلسفہ:

درحقیقت قربانی تو جان کی قربانی ہی تھی، جیساکہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے واقعے سے معلوم ہوتاہے، اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے بھی فرمایاہے کہ اصل قربانی تو جان نثاری اور جان سپاری کی قربانی تھی، اللہ تعالیٰ نے اپنی بے پایاں رحمت سے یہ قربانی جان سے ٹال کر مال کی طرف منتقل کی۔ پھر یہ بھی ہوسکتا تھا کہ مالی قربانی صدقے کی صورت میں مقرر کردی جاتی، لیکن اس طرح انسان کو اپنی جانی قربانی کی طرف توجہ اور اس کا استحضار نہ ہوتا۔ اس غرض کے لیے ایسی مالی قربانی مقرر کی گئی جس میں جانور قربان کیا جائے، تاکہ مالی قربانی میں بھی جانی  قربانی کی مشابہت موجود ہو، اور معمولی احساس رکھنے والاانسان بھی بوقتِ قربانی یہ سوچے کہ اس بے زبان جاندار کو میں کس لیے قربانی کررہاہوں؟ اس کا خون کیوں بہا رہاہوں؟ جب یہ احساس اس کے اندر پیدا ہوگا تو اسے استحضار ہوگا کہ درحقیقت یہ میرے نفس اور میری جان کی قربانی تھی، اللہ تعالیٰ نے اسے میرے مال کی صورت قبول کرلیا، یوں اسے مقصدِ اصلی بھی یاد رہے گا اور نفس کی قربانی کے لیے یہ محرک بھی ہوگا۔ اور اللہ تعالیٰ کے سامنے شکر گزاری کا جذبہ بھی بڑھے گا۔

یکم ذی الحجہ سے بال اور ناخن وغیرہ نہ کاٹنے کی راجح حکمت:

اب جب کہ قربانی کا مقصد معلوم اور مستحضر ہوگا تو گویا قربانی کرنے والے نے اپنے آپ کو  گناہوں کی وجہ سے عذاب  کا مستحق سمجھا کہ میں اس قابل ہوں کہ ہلاک ہوجاؤں اور میری جان خدا کے لیے قربان ہوجائے، لیکن شریعت نے جان کے فدیہ میں  جانور کی قربانی مقرر کردی، سو یہ جانور انسان کی نیابت میں قربان ہورہاہے، تو  قربانی کے جانور کا ہر جزو قربانی کرنے والے کے جسم کے ہر جز کا بدلہ ہے ۔ لہٰذا جس وقت جانور قربانی کے لیے خریدا جائے یا قربانی کے لیے خاص کیا جائے اس وقت انسانی جسم جس حالت میں ہو، مختص کردہ جانور اس انسانی جسم کے قائم مقام ہوجائے گا، اور جانور قربانی کے لیے خاص کرنے کے بعد جسم کا کوئی جز (نال، ناخن، کھال وغیرہ) کاٹ کر کم کردیا گیا تو گویا مکمل انسانی جسم کے مقابلے میں جانور کی قربانی نہیں ہوگی، جب کہ جانور انسانی جان کا فدیہ قرار پاچکاتھا۔ لہٰذا مناسب معلوم ہواکہ قربانی اور نزولِ رحمت کے وقت انسانی جسم کا کوئی عضو و جزو  کم ہو کر اللہ تعالیٰ کی  رحمت  اور فیضان الٰہی کی برکات سے محروم نہ رہے،تاکہ اس کو مکمل فضیلت حاصل ہو  اور وہ مکمل طور پر گناہوں سے پاک ہو ،  اس لیے آں حضرتﷺنے مذکور حکم دیا ہے 

یکم ذی الحجہ مقرر کرنے کی وجہ:

اس کے لیے قریب ترین کسی زمانے کی تعیین کی ضرورت تھی، یہ بھی ہوسکتا تھا کہ ہر شخص جب اپنا جانور خریدے یا قربانی کے لیے خاص کرے اسی وقت سے اسے ناخن یا بال کاٹنا منع ہو۔ لیکن دینِ اسلام نے زندگی کے ہرمعاملے میں نظم وضبط اور نظام پر زور دیاہے، دین کی عبادات سے لے کر انفرادی اور اجتماعی احکام کو دیکھ لیاجائے، غور کرنے پر ہر حکم میں نظم واضح نظر آئے گا۔ لہٰذا نظام کا تقاضا تھا کہ قربانی کرنے والے تمام مسلمانوں کے لیے ایک وقت مقرر کرکے نظم قائم کردیا جائے ، اس کے لیے ایک قریب ترین مدت مقرر کی گئی۔

پھر یہ بھی ہوسکتاتھا کہ عیدالاضحی سے ایک آدھ دن پہلے وقت مقرر کردیاجاتا، لیکن اس کے لیے ذی الحجہ کا چاند مقرر کیا گیا، اس لیے کہ قربانی کی عبادت کا تعلق عید الاضحٰی اور حج کی عبادت سے ہے، جیساکہ رمضان المبارک کے روزوں کے بعد عیدالفطر ہے، اور اسلام نے شرعی احکام کو اوقات کے ساتھ جوڑا ہے، اور ان کا مدار قمری مہینے اور تاریخ پر رکھاہے، چناں چہ رمضان المبارک چاند دیکھ کر شروع اور چاند دیکھ کر ختم ہوتاہے، ذی الحجہ کا چاند دیکھتے ہی حج کی تیاری تقریباً اختتام کو پہنچتی ہے، اور ذی الحجہ کے چاند سے عیدالاضحیٰ کا دن اور صحیح وقت متعین ہوتاہے، لہٰذا قربانی کی تعیین میں بھی ذی الحجہ کے چاند کو دخل ہوا۔ نیزضمنی طور پر اس بات کی ترغیب بھی دے دی گئی کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ قربانی کا جانور کچھ ایام پہلے لے کر پالیں، تاکہ ان سے انسیت قائم ہونے کے بعد قربانی کرنے سے نفس کی قربانی اور جان نثاری کے جذبات مزید ترقی پائیں۔ اسی طرح جانور جلدی لے کر، اس کی خدمت کرنے، اور بال، ناخن وغیرہ نہ کاٹنے سے جو میل کچیل کی کیفیت ہوگی تو اس سے انسان کو اپنی حقیقت کی طرف بھی دھیان ہو اور تواضع وعاجزی کی ترقی بھی بنے۔

 صحيح مسلم (3/ 1565)

'سمع سعيد بن المسيب، يحدث عن أم سلمة، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إذا دخلت العشر، وأراد أحدكم أن يضحي، فلا يمس من شعره وبشره شيئاً»۔'

سنن النسائي (7/ 211)
'عن أم سلمة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من رأى هلال ذي الحجة، فأراد أن يضحي، فلا يأخذ من شعره، ولا من أظفاره حتى يضحي»۔'
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (3/ 1081)
 ' قال التوربشتي: ذهب بعضهم إلى أن النهي عنهما للتشبه بحجاج بيت الله الحرام المحرمين، والأولى أن يقال: المضحي يرى نفسه مستوجبةً للعقاب وهو القتل، ولم يؤذن فيه، ففداها بالأضحية، وصار كل جزء منها فداءً كل جزء منه، فلذلك نهي عن مس الشعر والبشر ؛ لئلا يفقد من ذلك قسط ما عند تنزل الرحمة، وفيضان النور الإلهي، ليتم له الفضائل، ويتنزه عن النقائص. قال ابن حجر: ومن زعم أن المعنى هنا التشبه بالحجاج غلطوه بأنه يلزم عليه طلب الإمساك عن نحو الطيب ولا قائل به اهـ.وهو غلط فاحش من قائله ؛ لأن التشبه لا يلزم من جميع الوجوه، وقد وجه توجيهاً حسناً قي خصوص اجتناب قطع الشعر أو الظفر

 لو قلم المضحى أظافره أو قص شعره فالأضحية صحيحة ومقبولة، ولا إثم عليه، الحكمة من عدم الحلق تشبيه بالمُحرم أثناء الحج، حيث يحظر عليه تقليم أظفاره وقص شعره.

 الإمام السيوطي قال: «من أراد أن يضحي فلا يقلم من أظفاره ولا يحلق شيئًا من شعره في عشر الأول من ذي الحجة، وهذا النهي عند الجمهور نهى تنزيه والحكمة فيه أن يبقى كامل الأجزاء للعتق من النار وقيل للتشبيه بالمحرم».

الحكمة من عدم قص المضحي شعره وأظافره

قال الدكتور على جمعة، مفتي الجهورية السابق، عضو هيئة كبار العلماء بالأزهر الشريف، إنه من العبادات التي يتقرب بها المسلم  إلى الله - عز وجل- في الأيام العشر المباركة من ذي الحجة عبادة الأضحية.

وأوضح «جمعة»، أنه قبل ذبح الأضحية يقدم التوجه لله وحده والتوحيد له والإقرار بملة إبراهيم -عليه السلام-، ويؤكد أن الأعمال كلها لا تنصرف إلا لله - سبحانه-، فيذبح الأضحية تقربا إلى الله - تعالى- بكلام يوضح إذن الله لنا في ذبح هذا الحيوان للانتفاع به بالأكل والإطعام والإهداء.وأضاف عضو هيئة كبار العلماء أن هذا فيما يخص الجواب عن شبه اتهام الإسلام بالعنف والقسوة على الحيوان في شأن الأضحية، وفي الحديث عن الأضحية وفقهها، فعلينا أن نعلم أن هناك آداب يتحلى به من أراد ذبح الأضحية، منها: أنه إذا بدأ ذو الحجة لا يقلم أظفاره ولا يحلق رأسه  تشبهًا بالحجيج.

واستشهد  بقوله - صلى الله عليه وسلم-: «من أراد أن يضحى فلا يقلم أظفاره ولا يحلق شيئا من شعره في العشر من ذي الحجة»، (رواه ابن حبان في صحيحه).

 

الحكمة من عدم قص المضحي شعره وأظافره
ولفت إلى أن التشبه بالحجاج والمحرمين يشبع شيئا من أشواق المشتاقين إلى زيارة البيت الحرام، ومن شعر بالشوق يدرك ذلك الكلام، فمن زار تلك البقاع المقدسة يشعر بالشوق إليها ويحن للطواف بالبيت العتيق وزيارة روضة الحبيب - صلى الله عليه وسلم- ، وأن يأنس بالوقوف في تأدب وسلام ومحبة للحبيب - عليه الصلاة والسلام.

 

هل قص الشعر يبطل الأضحية 

قالت دار الإفتاء المصرية، إن من السُنة النبوية امتناع المُسلم المُضحي عن قص شعره وتقليم أظافره، مع أول أيام ذي الحجة.


واستشهدت الإفتاء في إجابتها عن سؤال: «هل يحرم على المُضحي الأخذ من شعره وأظافره؟» بما روي عَنْ أم سلمة رضي الله عنها أن النبي صلى الله عليه وسلم قَالَ: «إِذَا رأيتم هِلالَ ذِي الْحِجَّةِ وأراد أحدكم أَنْ يُضَحِّيَ فَلْيُمْسِكْ عَنْ شَعرِهِ وأظفاره» أخرجه مسلم في صحيحه. وفي رواية :«فَلا يَمَسَّ مِنْ شَعرِهِ وَبَشَرِهِ شَيْئًا».

وأوضحت أن جمهور العلماء رأى أن الأمر بالإمساك عن الشعر والأظافر في هذا الحديث محمول على الندب والاستحباب لا على الحتم والإيجاب، بمعني أن من أراد أن يضحي فإنه يكره له الأخذ من شعره وأظفاره، وكذلك سائر جسده، فإن فعل لا يكون آثمًا، إنما تاركًا للفضيلة فحسب، وذلك من ليلة اليوم الأول من ذي الحجة إلى الفراغ من ذبح الأُضْحِيَّة.
 

قص الشعر لمن لمن ينوي الأضحية
وأضافت في فتوى لها: أما من لم يَعزم على الأضحية من أول شهر ذي الحجة بل ترك الأمر في ذلك معلقًا حتى يتيسر له أن يضحي فإنه لا يصدق عليه أنه مريد للتضحية، فلا يُكره في حقه أن يأخذ من شعره أو أظفاره أو سائر بدنه شيئًا حتى يعزم على الأضحية؛ فإن عزم استُحِبَّ في حقه أن يمسك عن الشعر وغيره من حين العزيمة.

وتابعت: أما من أراد الحج متمتعًا ولم يرد التضحية فإنه لا يُكره له الأخذ من شعره وأظفاره وسائر بدنه ما لم يُحرِم؛ لأن الأضحية تختلف عن هدي التمتع، فإذا دخل في الإحرام حَرُم عليه ذلك من حيث إنه من محظورات الإحرام، فإذا قضى عمرته وتحلل من إحرامه جاز له كل ما كان حرامًا عليه حال إحرامه بما في ذلك ما ورد في السؤال من أخذ شيء من شعره أو أظافره حتى يُحرِم مرة أخرى بالحج، فيعود ذلك كله محظورًا عليه.

Monday 17 June 2024

اجتماعی ذکر بالجہر

 اصولی اور عمومی طور پر تو تنہائی میں  آہستہ آواز  سے ذکر کرنا بہتر ہے، لیکن  اجتماعی طور پر جہرًا ذکر کرنا بھی شریعتِ  مطہرہ کی رو سے جائز ہے، اس کو  مطلقًا بدعت سمجھنا درست نہیں ہے، کیوں کہ جہرًا  ذکر کرنے کی اصل  حدیث سے ثابت ہے؛ حدیثِ قدسی میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:

’’ جب میرا بندہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے یاد کرتا ہوں، پس اگر وہ مجھے اپنے دل میں (یعنی چھپ کر آہستہ سے تنہائی میں) یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنے دل میں (یعنی تنہائی میں جیسے اس کی شان ہے) یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھے کسی مجمع میں یاد کرتا ہے (یعنی لوگوں کے درمیان جہرًا میرا ذکر کرتا ہے) تو میں اس سے بہتر اور افضل مجمع (یعنی فرشتوں کے مجمع) میں اس کا تذکرہ کرتا ہوں۔‘‘

بلکہ فقہاءِ کرام نے بعض احوال و اشخاص کے اعتبار سے ذکر بالجہر کو  افضل قرار دیا ہے۔

لہٰذا اگر کوئی متبعِ شریعت، شیخِ  کامل اپنے مریدوں کی اصلاح  و تربیت کے  لیے کسی ایسی جگہ پر ذکر کی مجلس منعقد کرے جہاں دیگر عبادت کرنے والوں کی عبادت میں خلل نہ پڑتا ہو  اور اسے لازم و ضروری نہ سمجھا جائے، بلکہ تربیت کا حصہ سمجھا جائے، نیز اسے ہی افضل نہ سمجھا جائے اور ذکر بالجہر نہ کرنے والوں کو برا یا کم تر نہ سمجھا جائے تو اس کی اجازت  ہوگی،   لیکن رسمی طور پر بلاکسی معتبر مربی کے ایسی مجلسیں منعقد کرنا جہاں حدود کی رعایت نہ رکھی جاتی ہو، یا ان مجلسوں میں شرکت کو ایسا لازم سمجھنا کہ شریک نہ ہونے والے کو  حقارت کی نظر سے دیکھا جائے یا ان پر جبر کیا جائے، یا ایسی جگہ پر مجلس منعقد کرنا جس سے دیگر عبادات گزاروں کی عبادت میں خلل پڑے، یہ قطعاً جائز نہیں ہے، اس سے احتراز لازم ہے، اسی طرح اگر اسی کو افضل سمجھا جائے تو یہ بھی درست نہیں ہے،  اور  بہر حال بہتر  یہی  ہے کہ ذکر کے معمولات لوگ اپنے اپنے طور پر تنہائی میں پورے کیا کریں۔

اور جہاں ذکر بالجہر میں  مصلحت  ہو تو بھی یہ صورت  نہ اختیار کی جائے کہ پورا مجمع بیک زبان ایک ہی کلمہ دہرائے، بلکہ ہر ایک اپنے اپنے طور پر کلمات پڑھتا رہے، یا  یہ صورت اختیار کی جائے کہ شیخ ایک مرتبہ بلند آواز سے کلمات دہرا لے، اور پھر متوسلین اسے دل دل میں دہرائیں، پھر  دوسرے کلمات پڑھنے ہوں تو  شیخ بلند آواز سے پڑھ دے، تاکہ حاضرین کو پتا چل جائے کہ   اب دوسرا کلمہ پڑھنا ہے۔


الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 660):

’’مطلب في رفع الصوت بالذكر

(قوله: و رفع صوت بذكر إلخ) أقول: اضطرب كلام صاحب البزازية في ذلك؛ فتارةً قال: إنّه حرام، وتارةً قال: إنّه جائز. وفي الفتاوى الخيرية من الكراهية والاستحسان: جاء في الحديث به اقتضى طلب الجهر به نحو: "«وإن ذكرني في ملإ ذكرته في ملإ خير منهم» رواه الشيخان. وهناك أحاديث اقتضت طلب الإسرار، والجمع بينهما بأن ذلك يختلف باختلاف الأشخاص و الأحوال كما جمع بذلك بين أحاديث الجهر و الإخفاء بالقراءة و لايعارض ذلك حديث «خير الذكر الخفي»؛ لأنه حيث خيف الرياء أو تأذي المصلين أو النيام، فإن خلا مما ذكر؛ فقال بعض أهل العلم: إن الجهر أفضل؛ لأنه أكثر عملًا و لتعدي فائدته إلى السامعين، و يوقظ قلب الذاكر فيجمع همّه إلى الفكر، و يصرف سمعه إليه، و يطرد النوم، و يزيد النشاط. اهـ. ملخصًا، و تمام الكلام هناك فراجعه. وفي حاشية الحموي عن الإمام الشعراني: أجمع العلماء سلفًا و خلفًا على استحباب ذكر الجماعة في المساجد و غيرها إلا أن يشوش جهرهم على نائم أو مصل أو قارئ ...إلخ ‘‘

عید کے دن اشراق وچاشت

 عید کے دن فجر کی نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد سے عید کی نماز ادا کرنے تک نفل نماز ادا کرنا مطلقاً (عیدگاہ ہو یا گھر یا کوئی اور جگہ) مکروہِ (تحریمی) ہے، اور عید کی نماز کے بعد سے اس دن کے زوال تک صرف عیدگاہ میں نفل نماز ادا کرنا مکروہ ہے، جب کہ  عید کی نماز کے بعد گھر میں نفل نماز ادا کرنا جائز ہے، لہذا عید کی نماز کے بعد گھر آکر اشراق اور چاشت کے نوافل پڑھنا جائز ہے۔

"طحطاوی علی الدر المختار" میں ہے:

"ولايتنفل قبلها مطلقاً ... و كذا لايتنفل بعدها في مصلاه؛ فإنه مكروه عند العامة، و إن تنفل بعدها في البيت جاز ... قوله: (فإنه مكروه) أي تحريماً علی الظاهر..."الخ (كتاب الصلاة، باب العيدين، ١/ ٣٥٣، ط: رشيدية)

Sunday 16 June 2024

بڑے جانور میں قربانی اور عقیقہ کے حصے لینا

  بڑے جانور جیسےگائے اور بھینس وغیرہ میں  سات آدمی شریک ہوسکتے ہیں اس سے زیادہ نہیں البتہ یہ جائز ہے کہ بڑے جانور  کے سات  حصوں میں سے بعض حصوں میں قربانی کی نیت کرے اور بعض میں عقیقہ کی نیت کرے ۔

           لہذا اگر ایک آدمی نے بڑے جانور میں تین حصے لیے ہوں  تو اگر  ان میں سے ایک حصے میں بچے کے عقیقے  کی نیت کرے اورباقی میں قربانی کی نیت کرے تو یہ جائز ہے  اور اس سے قربانی پر کچھ اثر نہیں پڑتا۔

وشمل ما لو كانت القربة واجبة على الكل أو البعض اتفقت جهاتها أو لا: كأضحية وإحصار وجزاء صيد وحلق ومتعة وقران خلافا لزفر، لأن المقصود من الكل القربة، وكذا لو أراد بعضهم العقيقة عن ولد قد ولد له من قبل لأن ذلك جهة التقرب بالشكر على نعمة الولد ذكره محمد.(رد المحتار على الدر المختار،كتاب الاضحية،ج:6،ص:326)

نماز فجریاعصر کے بعد مصافحہ کرنا

  مصافحہ ملاقات کے وقت مسنون ہے، جیسا کہ سنن الترمذي (5 / 74)میں ہے:

"عن البراء بن عازب قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: ما من مسلمين يلتقيان فيتصافحان إلا غفر لهما قبل أن يفترقا. قال أبو عيسى: هذا حديث حسن غريب من حديث أبي إسحاق عن البراء".

(ترجمہ) جب دو مسلمان مل کر باہم مصافحہ کریں تو ان کے جدا ہونے سے قبل ہی ان کی مغفرت ہوجاتی ہے۔

لہذا اس کے علاوہ اوقات میں مصافحہ کرنا مثلاً نمازوں کے بعد، سنت کے خلاف عمل ہے اور اگر اس کا التزام کیا جائے اور مصافحہ نہ کرنے والے کو ملامت کا نشانہ بنایا جائے یا اس کے بغیر نماز نامکمل سمجھی جائے تو  یہ مصافحہ بدعت ہے، جیساکہ حاشية رد المحتار على الدر المختار  (6 / 381):
"ونقل في تبيين المحارم عن الملتقط: أنه تكره المصافحة بعد أداء الصلاة بكل حال؛ لأن الصحابة رضي الله تعالى عنهم ما صافحوا بعد أداء الصلاة؛ ولأنها من سنن الروافض اهـ ثم نقل عن ابن حجر عن الشافعية أنها بدعة مكروهة لا أصل لها في الشرع، وأنه ينبه فاعلها أولًا ويعزر ثانيًا، ثم قال: وقال ابن الحاج من المالكية في المدخل: إنها من البدع، وموضع المصافحة في الشرع إنما هو عند لقاء المسلم لأخيه لا في أدبار الصلوات، فحيث وضعها الشرع يضعها، فينهي عن ذلك ويزجر فاعله لما أتى به من خلاف السنة اهـ ثم أطال في ذلك فراجعه".

نیز فتاوی رحٰیمیہ(۲ /۲۲۸،کتاب السنۃ والبدعۃ) میں ’’مصافحہ بعد نماز‘‘  کا جواب لکھتے ہوئے آخر میں لکھا ہے:

بہرحال نمازفجریاعصر کے بعد مصافحہ التزام کرنا اور مصافحہ نہ کرنے والے کو براسمجھنا بدعت ہے بغیر کسی التزام کے مصافحہ کرنادرست ہےاسے لازمی نہ سمجھا جایے 

مفتی عبدالرحیم لاجپوری لکھتے ہیں:

’’ لوگوں کے حالات بہت نازک ہوچکے ہیں، مزاج بگڑچکے ہیں، بات بات پر لڑائیاں ہوتی ہیں، بدگمانیاں پھیلتی ہیں، لہذا رفعِ فتنہ کے طور علماء نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر کوئی مصافحہ کے  لیے ہاتھ بڑھائے تو اپنا ہاتھ کھینچ کر ایسی صورت پیدا نہ کرنا چاہیے کہ اسے بدگمانی ، شکایت اور رنج ہو‘‘۔

اللہ کو گالی دینے والے شخص کاحکم

 جو شخص (العیاذ باللہ) اللہ تعالی کو گالی دے  تووہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے ،اس  پر لازم ہے کہ وہ تجدیدِ ایمان کرے اور صدق دل سے توبہ واستغفار کرے، اور اگر شادی شدہ ہے تو تجدیدِ نکاح بھی لازم  ہے۔

الفتاوى الهندية (2/ 258):
"(ومنها: ما يتعلق بذات الله تعالى وصفاته وغير ذلك) يكفر إذا وصف الله تعالى بما لايليق به، أو سخر باسم من أسمائه، أو بأمر من أوامره، أو نكر وعده ووعيده، أو جعل له شريكاً، أو ولداً، أو زوجةً، أو نسبه إلى الجهل، أو العجز، أو النقص ويكفر بقوله: يجوز أن يفعل الله تعالى فعلاً لا حكمة فيه، ويكفر إن اعتقد أن الله تعالى يرضى بالكفر، كذا في البحر الرائق".

تقدیر بدل سکتی ہے کہ نہیں

 واضح رہے کہ  تقدیر کی  دو قسمیں ہیں : تقدیر مبرم،  تقدیر معلق۔

پہلی قسم "تقدیر مبرم"  ہے۔ یہ آخری فیصلہ ہوتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے لوحِ محفوظ پر لکھ دیا جاتا ہے، اور اس میں تبدیلی نا ممکن ہے۔

دوسری  قسم "قضائے معلق"  کی ہے ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے  یہ وعدہ ہے کہ اگر کوئی بندہ چاہے تو ہم اس کےنیک عمل  اور دعا کے ساتھ ہی اس کی تقدیر بھی بدل دیں گے۔ سورۃ الرعد میں ارشاد فرمایا :

"{يَمْحُو اللّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِ}" [الرعد: 13، 39]

ترجمہ: ’’اللہ جس (لکھے ہوئے) کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جسے چاہتا ہے) ثبت فرما دیتا ہے اور اسی کے پاس اصل کتاب (لوح محفوظ) ہے۔‘‘

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں شام میں طاعون کی وبا پھیلی اور اس زمانے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی شام کے سفر پر تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ وبا زدہ علاقوں کی طرف نہیں بڑھے، بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے مشورہ کرنے اور اس بارے میں احادیثِ مبارکہ کا مذاکرہ کرنے کے بعد جلدی واپسی کا فیصلہ فرمایا، تو حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : "أتَفِرُّ مِنْ قَدْرِ ﷲِ" ، یعنی: ’’کیا آپ تقدیر سے بھاگتے ہیں؟‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس  کے جواب میں ارشاد فرمایا:"أفِرُّ مِنْ قَضَاء ﷲ اِلٰی قَدْرِ ﷲِ". (ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 3 : 283)  یعنی ’’میں  اللہ کی قضا سے اس کی قدر کی طرف بھاگتا ہوں‘‘،  بعض روایات میں یہ الفاظ ہیں : "نفر من قدر الله إلی قدر الله". 

اسی کی نسبت احادیث میں ارشاد ہوتا ہے :

«لايرد القضاء إلا الدعاء، و لا يزيد في العمر إلا البر».

ترجمہ: ’’صرف دعا ہی قضا کو ٹالتی ہے اور صرف نیکی ہی عمر میں اضافہ کرتی ہے۔‘‘

(جامع الترمذي، الجامع الصحيح، کتاب القدر، باب ماجاء لا يرد القدر إلا الدعاء، رقم : 2139)

اس حدیث کی تشریح میں شارحین نے لکھا ہے کہ اس حدیث میں وہ عمر مراد ہے جس کا تعلق تقدیرِ  معلق سے  ہے، یعنی مثلًا کسی کی تقدیر معلق میں لکھا ہے کہ اگر اس شخص نے حج یا عمرہ نہیں کیا تو اس کی عمر چالیس سال ہوگی اور اگر حج یا عمرہ کیا تو اس کی عمر ساٹھ  سال ہوگی، اب اگر وہ حج یا عمرہ کرلیتا ہے تو اس کی عمر ساٹھ سال ہوجاتی ہے، گویا نیکی کی وجہ سے اس شخص کی عمر میں اضافہ ہوگیا، جب کہ تقدیر مبرم یہی تھی  یہ شخص یہ والی نیکی کرے گا اور اس کی عمر ساٹھ سال ہوگی۔

دوسرا مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اس حدیث میں عمر کے بڑھنے سے عمر میں برکت ہونا اور زیادہ نیک اعمال کرنے کی توفیق ملنا ہے، یعنی اس کی عمر کے اوقات ضائع نہیں ہوتے؛ اس  لیے وہ تھوڑے سے عرصہ میں اتنے سارے کام اور اعمال کرلیتا ہے جو دوسرے لوگ بہت زیادہ وقت میں بھی نہیں کرپاتے ہیں۔(جیسا کہ بہت سارے اولیاء اللہ کی زندگی کے مشاہدہ سے یہ بات ثابت بھی ہوچکی ہے۔)

تکفیر مسلم

 کسی بھی مسلمان پربغیرکسی شرعی دلیل کے کافرہونے کاحکم لگانا،سخت گناہ اورحرام ہے،ایمان کے لئے بھی خطرناک ہے،اس سے آدمی کااپنادین وایمان سلامت نہیں رہتا،لہذا دوسرے مسلمانوں پرکفرکاحکم لگانے والے شخص کواپنے دین وایمان کی فکرکرنی چاہیئے،اپنی حرکات سے بازآکرتوبہ تائب ہوناچاہیے،ایسے شخص کوحکمت وتدبیرکے ساتھ سمجھایاجائے ،اگر اپنی ان حرکات سے بازنہ آئے تواس سے قطع تعلق کرنادرست ہے۔

مشکوۃ شریف میں ہے:

" حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہا تو ان دونوں میں سے ایک پر کفر لوٹ گیا یعنی یا تو کہنے والا خود کافر ہوگیا یا وہ شخص جس کو اس نے کافر کہا ہے۔ (بخاری ومسلم)

دوسری روایت میں ہے:

''حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے جانتے بوجھتے کسی دوسرے کو باپ بنایا تو یہ بھی کفر کی بات ہے اور جس شخص نے ایسی بات کو اپنی طرف منسوب کیا جو اس میں نہیں ہے تو ایسا شخص ہم میں سے نہیں ہے اور اس کو اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنانا چاہئے اور جس نے کسی کو کافر کہا یا اللہ کا دشمن کہہ کر پکارا حالانکہ وہ ایسا نہیں ہے تو یہ کلمہ اسی پر لوٹ آئے گا''۔

(صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 219 )

تین یاچارکان والے جانور کی قربانی

 اگر کسی جانور کے پیدائشی تین یا چار کان ہوں تو ایسے جانور کی قربانی درست نہیں ہے، کیونکہ یہ عیب ہے جو کہ قربانی کے جواز سے مانع ہے۔                                            

عیدین کی نماز کا طریقہ

 عید الفطر اور عید الاضحیٰ کی نماز کا طریقہ ایک ہی ہے۔عید کی نماز کے لیے اذان اور اقامت نہیں، جب نماز کھڑی کی جائے تو عید کی نماز  چھ زائد تکبیرات کے ساتھ پڑھنے کی نیت کرے، اس کے بعد تکبیر کہہ کر ہاتھ ناف کے نیچے باندھ لے اور ثناء پڑھے، اس کے بعد تین زائد تکبیریں کہے، دو تکبیروں میں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دے اور تیسری تکبیر پر ہاتھ اٹھا کر ناف کے نیچے باندھ لے، اس کے بعد امام اونچی آواز میں قراءت کرے، قراءت مکمل ہونے کے بعد بقیہ رکعت (رکوع اور سجدہ  وغیرہ) دیگر  نمازوں کی طرح ادا کرے۔

پھر دوسری رکعت کے شروع میں امام اونچی آواز میں قراءت کرے، اس کے بعد تین زائد تکبیریں کہے، تینوں تکبیروں میں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دے، پھر ہاتھ اٹھائے بغیر چوتھی تکبیر کہہ کر رکوع میں جائے اور پھر دیگر نمازوں کی طرح دو سجدوں کے بعد التحیات، درود اور دعا پڑھ کر سلام پھیر دے، پھرنماز مکمل کرنے کے بعد امام  دو  خطبے دے، دونوں خطبوں کے درمیان تھوڑی دیر بیٹھے۔ 

دھرکوبراکہنے سے متعلق حدیث

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

"ابن آدم (انسان)   مجھے تکلیف دیتا ہے، (یعنی اس طرح کہ) وہ زمانہ کو برا کہتا ہے حال آں کہ زمانہ (کچھ نہیں وہ) میں ہی ہوں، سب تصریفات میں میرے قبضہ میں ہے، اور شب وروز کی گردش میرے ہی حکم سے ہوتی ہے۔"

مذکورہ حدیث میں "دھر" سے مراد زمانہ اور وقت دونوں ہی ہیں، کیوں کہ زمانہ اور وقت قریباً ایک ہی ہیں، وقت لمحے بھر کو بھی کہا جاتا ہے، جب کہ زمانہ کچھ مدت وقت کے لیے استعمال ہوتاہے، گویا وقت زمانے کا ہی حصہ ہے، جاہلوں کی عادت ہے کہ وہ انسانوں کو اپنی پیدا کی ہوئی پریشانیوں اور مصیبتوں کو برائی کی صورت میں زمانے اور وقت کے سرپر ڈال دیتے ہیں، اور اپنی زبان سے اس طرح کے الفاظ نکالتے ہے کہ زمانہ خراب ہے، بہت برا وقت ہے، حدیث شریف میں زمانہ اور وقت کو برا کہنے کی مذمت کی گئی ہے، کیوں کہ زمانہ کا خالق اللہ تعالیٰ ہے، اور زمانے کو برا کہنے کا مطلب اللہ تعالیٰ کو برا کہنے کے مترادف ہے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ( «قال الله تعالى: يؤذيني ابن آدم، يسب الدهر وأنا الدهر بيدي الأمر، أقلب الليل والنهار» ) متفق عليه.

ان اللہ علی کل شی قدیر کا ترجمہ

 لغۃً لفظ ِ " شیئ" کا اطلاق ممکن ، واجب اور محال تینوں پر ہوتا ہے، لیکن"شیئ" کے متعلقات بدل جانے سے اس کا مفہوم بدل جاتا ہے،لفظ ِ "شیئ"جب قدرت کا متعلق بنے تو اس سے ممکنات ہی مراد ہوتی ہیں، جیسا کہ روح المعانی میں ہے:

"والشيء لغة ما يصح أن يعلم ويخبر عنه كما نص عليه سيبويه، وهو شامل للمعدوم والموجود الواجب والممكن وتختلف إطلاقاته، ويعلم المراد منه بالقرائن فيطلق تارة، ويراد به جميع أفراده كقوله تعالى: والله بكل شيء عليم [البقرة: 282، النساء: 176، النور: 18، 64، التغابن: 11] بقرينة إحاطة العلم الإلهي بالواجب والممكن المعدوم والموجود والمحال الملحوظ بعنوان ما، ويطلق ويراد به الممكن مطلقا كما في الآية الكريمة بقرينة القدرة التي لا تتعلق إلا بالممكن، وقد يطلق ويراد به الممكن الخارجي الموجود في الذهن كما في قوله تعالى: ولا تقولن لشيء إني فاعل ذلك غدا إلا أن يشاء الله [الكهف: 23، 24] بقرينة كونه متصورا مشيئا فعله غدا، وقد يطلق ويراد به الممكن المعدوم الثابت في نفس الأمر كما في قوله تعالى: إنما قولنا لشيء إذا أردناه أن نقول له كن فيكون [النحل: 40] بقرينة إرادة التكوين التي تختص بالمعدوم، وقد يطلق ويراد به الموجود الخارجي كما في قوله تعالى: وقد خلقتك من قبل ولم تك شيئا [مريم: 9] أي موجودا خارجيا لامتناع أن يراد نفي كونه شيئا بالمعنى اللغوي الأعم الشامل للمعدوم الثابت في نفس الأمر لأن كل مخلوق فهو في الأزل شيء- أي معدوم- ثابت في نفس الأمر".

(سورة البقرة، الآية: 20 ج:1،ص: 180، ط: العلمية)

اس  سے معلوم ہوا کہ  قدرت کا تعلق ممکنات کے ساتھ ہے،واجبات یا محالات کے ساتھ نہیں ، نیزمحالات   کے ساتھ قدرت الہی کے متعلق نہ ہونے سےعجز  لازم نہیں آتا، کیونکہ یہاں پر قصور  شیئ ( محال یا واجب ) میں ہے کہ اس میں مقدور بننے کی صلاحیت ہی نہیں، مقدور بننے کی صلاحیت صرف ممکنات میں ہے،محالات یا واجبات میں نہیں۔

رہی یہ بات کہ  "اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ" کا ترجمہ  اس طرح کرنا کہ  "بے شک اللہ ہر ممکن چیز پر قادر ہے" درست نہیں ہے،   ترجمہ کرتے وقت  لفظِ "ممکن " کا اضافہ نہ کیا جائے کہ اس سے  عوام  میں خوامخواہ تشویش ہوگی، اور اشکالات ابھریں گے،اور  اُن کے لیے اس بحث کو سمجھنا مشکل ہو جائے گا؛ کیوں کہ یہ علم الکلام کی بحث ہے،جو اہل علم  تک محدود رہنی چاہیے،عوام کا   اس میں  پڑنا  مضر ہے۔

کیااللہ تعالیٰ اپنا جیسا خدا بنانے پر قادر ہے

 اللہ تعالیٰ تو جو چاہیں،جیسا چاہیں پیدا کرنے پر قادر ہیں،لیکن کسی اور ذات میں معبود اور خدا بننے کی صلاحیت ہی نہیں ہے،کیوں کہ خدا وہ ہوتا ہےجو کسی کا محتاج نہیں ہو،اور جب وہ دوسری ذات اپنی تخلیق میں اللہ تعالیٰ کی محتاج ہوئی تو اس کا خدا بننا کیسے ممکن ہوسکتاہے؟،لیکن چوں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کےحوالے سےاس خاص واقعہ کا پیش آنا معلوم نہ ہوسکاکہ کسی یہودی نے صحابہ سے سوال کیاتھا کہ کیا اللہ تعالی اپنا جیسا خدا بنانے پر قادر ہے توحضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کاجواب دیا کہ اللہ تعالی اس پر قادر ہے

لیکن اللہ پھر بھی خالق رہے گا اور دوسرا خدا مخلوق ہو گا،

 اس لیے اس واقعہ کو حضرت کی طرف منسوب کرکے بیان نہ کیا جائے۔

"متن العقیدۃ الطحاوية"میں ہے:

"ذلك بأنه على كل شيء قدير، وكل شيء إليه فقير، وكل أمر عليه يسير، لا يحتاج إلى شيء، ليس كمثله شيء وهو السميع البصير."

(ص:١٠،ط:دار ابن حزم)

"تفسیر الطبری"میں ہے:

"(يَخْلُقُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ) يقول: يحدث الله ما يشاء من الخلق (إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ) يقول: إن الله على إحداث ذلك وخلقه، وخلق ما يشاء من الأشياء غيره، ذو قدرة لا يتعذّر عليه شيء أراد."

(ص:٢٠٤،ج:١٩،سورۃ النور،الآیة:٤٥،ط:دار التربية والتراث)