https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Sunday 16 June 2024

تقدیر بدل سکتی ہے کہ نہیں

 واضح رہے کہ  تقدیر کی  دو قسمیں ہیں : تقدیر مبرم،  تقدیر معلق۔

پہلی قسم "تقدیر مبرم"  ہے۔ یہ آخری فیصلہ ہوتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے لوحِ محفوظ پر لکھ دیا جاتا ہے، اور اس میں تبدیلی نا ممکن ہے۔

دوسری  قسم "قضائے معلق"  کی ہے ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے  یہ وعدہ ہے کہ اگر کوئی بندہ چاہے تو ہم اس کےنیک عمل  اور دعا کے ساتھ ہی اس کی تقدیر بھی بدل دیں گے۔ سورۃ الرعد میں ارشاد فرمایا :

"{يَمْحُو اللّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِ}" [الرعد: 13، 39]

ترجمہ: ’’اللہ جس (لکھے ہوئے) کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جسے چاہتا ہے) ثبت فرما دیتا ہے اور اسی کے پاس اصل کتاب (لوح محفوظ) ہے۔‘‘

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں شام میں طاعون کی وبا پھیلی اور اس زمانے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی شام کے سفر پر تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ وبا زدہ علاقوں کی طرف نہیں بڑھے، بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے مشورہ کرنے اور اس بارے میں احادیثِ مبارکہ کا مذاکرہ کرنے کے بعد جلدی واپسی کا فیصلہ فرمایا، تو حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : "أتَفِرُّ مِنْ قَدْرِ ﷲِ" ، یعنی: ’’کیا آپ تقدیر سے بھاگتے ہیں؟‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس  کے جواب میں ارشاد فرمایا:"أفِرُّ مِنْ قَضَاء ﷲ اِلٰی قَدْرِ ﷲِ". (ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 3 : 283)  یعنی ’’میں  اللہ کی قضا سے اس کی قدر کی طرف بھاگتا ہوں‘‘،  بعض روایات میں یہ الفاظ ہیں : "نفر من قدر الله إلی قدر الله". 

اسی کی نسبت احادیث میں ارشاد ہوتا ہے :

«لايرد القضاء إلا الدعاء، و لا يزيد في العمر إلا البر».

ترجمہ: ’’صرف دعا ہی قضا کو ٹالتی ہے اور صرف نیکی ہی عمر میں اضافہ کرتی ہے۔‘‘

(جامع الترمذي، الجامع الصحيح، کتاب القدر، باب ماجاء لا يرد القدر إلا الدعاء، رقم : 2139)

اس حدیث کی تشریح میں شارحین نے لکھا ہے کہ اس حدیث میں وہ عمر مراد ہے جس کا تعلق تقدیرِ  معلق سے  ہے، یعنی مثلًا کسی کی تقدیر معلق میں لکھا ہے کہ اگر اس شخص نے حج یا عمرہ نہیں کیا تو اس کی عمر چالیس سال ہوگی اور اگر حج یا عمرہ کیا تو اس کی عمر ساٹھ  سال ہوگی، اب اگر وہ حج یا عمرہ کرلیتا ہے تو اس کی عمر ساٹھ سال ہوجاتی ہے، گویا نیکی کی وجہ سے اس شخص کی عمر میں اضافہ ہوگیا، جب کہ تقدیر مبرم یہی تھی  یہ شخص یہ والی نیکی کرے گا اور اس کی عمر ساٹھ سال ہوگی۔

دوسرا مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اس حدیث میں عمر کے بڑھنے سے عمر میں برکت ہونا اور زیادہ نیک اعمال کرنے کی توفیق ملنا ہے، یعنی اس کی عمر کے اوقات ضائع نہیں ہوتے؛ اس  لیے وہ تھوڑے سے عرصہ میں اتنے سارے کام اور اعمال کرلیتا ہے جو دوسرے لوگ بہت زیادہ وقت میں بھی نہیں کرپاتے ہیں۔(جیسا کہ بہت سارے اولیاء اللہ کی زندگی کے مشاہدہ سے یہ بات ثابت بھی ہوچکی ہے۔)

No comments:

Post a Comment