https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Sunday 16 June 2024

نماز فجریاعصر کے بعد مصافحہ کرنا

  مصافحہ ملاقات کے وقت مسنون ہے، جیسا کہ سنن الترمذي (5 / 74)میں ہے:

"عن البراء بن عازب قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: ما من مسلمين يلتقيان فيتصافحان إلا غفر لهما قبل أن يفترقا. قال أبو عيسى: هذا حديث حسن غريب من حديث أبي إسحاق عن البراء".

(ترجمہ) جب دو مسلمان مل کر باہم مصافحہ کریں تو ان کے جدا ہونے سے قبل ہی ان کی مغفرت ہوجاتی ہے۔

لہذا اس کے علاوہ اوقات میں مصافحہ کرنا مثلاً نمازوں کے بعد، سنت کے خلاف عمل ہے اور اگر اس کا التزام کیا جائے اور مصافحہ نہ کرنے والے کو ملامت کا نشانہ بنایا جائے یا اس کے بغیر نماز نامکمل سمجھی جائے تو  یہ مصافحہ بدعت ہے، جیساکہ حاشية رد المحتار على الدر المختار  (6 / 381):
"ونقل في تبيين المحارم عن الملتقط: أنه تكره المصافحة بعد أداء الصلاة بكل حال؛ لأن الصحابة رضي الله تعالى عنهم ما صافحوا بعد أداء الصلاة؛ ولأنها من سنن الروافض اهـ ثم نقل عن ابن حجر عن الشافعية أنها بدعة مكروهة لا أصل لها في الشرع، وأنه ينبه فاعلها أولًا ويعزر ثانيًا، ثم قال: وقال ابن الحاج من المالكية في المدخل: إنها من البدع، وموضع المصافحة في الشرع إنما هو عند لقاء المسلم لأخيه لا في أدبار الصلوات، فحيث وضعها الشرع يضعها، فينهي عن ذلك ويزجر فاعله لما أتى به من خلاف السنة اهـ ثم أطال في ذلك فراجعه".

نیز فتاوی رحٰیمیہ(۲ /۲۲۸،کتاب السنۃ والبدعۃ) میں ’’مصافحہ بعد نماز‘‘  کا جواب لکھتے ہوئے آخر میں لکھا ہے:

بہرحال نمازفجریاعصر کے بعد مصافحہ التزام کرنا اور مصافحہ نہ کرنے والے کو براسمجھنا بدعت ہے بغیر کسی التزام کے مصافحہ کرنادرست ہےاسے لازمی نہ سمجھا جایے 

مفتی عبدالرحیم لاجپوری لکھتے ہیں:

’’ لوگوں کے حالات بہت نازک ہوچکے ہیں، مزاج بگڑچکے ہیں، بات بات پر لڑائیاں ہوتی ہیں، بدگمانیاں پھیلتی ہیں، لہذا رفعِ فتنہ کے طور علماء نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر کوئی مصافحہ کے  لیے ہاتھ بڑھائے تو اپنا ہاتھ کھینچ کر ایسی صورت پیدا نہ کرنا چاہیے کہ اسے بدگمانی ، شکایت اور رنج ہو‘‘۔

No comments:

Post a Comment