https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Wednesday, 15 January 2025

مسبوق بقیہ نماز میں ثناء پڑھے کہ نہیں

 نماز میں ثناء پڑھنا سنت ہے، اگر کوئی شخص امام کے نماز شروع کرنے کے بعد آکر نماز میں شامل ہو تو اس کے لیے یہ حکم ہے کہ اگر امام نے بلند آواز سے قراءت شروع کردی ہو تو وہ ثناء نہ پڑھے، اگر امام نے بلند آواز سے قراءت شروع نہیں کی، یا امام نے قراءت شروع کردی، لیکن  سری نماز ہونے کی وجہ سے بلند آواز سے نہیں، جیسا کہ ظہر اور عصر  کی نماز میں تو  بعد میں شامل ہونے والا ثناء پڑھ کر شامل ہوجائے۔ اور اگر کوئی رکعت چھوٹ جائے تو امام کے سلام پھیرنے کے بعد اللہ اکبر کہہ کر کھڑا ہو اور سب سے پہلے ثناء پڑھے۔ 

جماعت میں ایک یا زائد رکعت کے چھوٹ جانے اور اسے اداکرنے کے بارے میں تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

دو رکعت والی فرض نماز (فجر) میں اگر ایک رکعت چھوٹ جائے تو امام کے سلام پھیرنے کے بعد مسبوق سلام پھیرے  بغیرے کھڑا ہوجائے اور سب سے پہلے ثناء پڑھے پھر اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھنے کے بعد سورہ فاتحہ اور دوسری سورت پڑھ کر رکوع وسجدہ کرے اور قعدہ میں بیٹھ کر التحیات، درود شریف اور دعا پڑھ کر سلام پھیر دے۔ اور اگر فجر کی دوسری رکعت کے رکوع کے بعد امام کے ساتھ شامل ہوا ہو تو امام کے سلام پھیرنے کے بعد مکمل دو رکعت ایسے ہی ادا کرنی ہوں گی جیسے انفرادی پڑھتے ہوئے ادا کرنی ہوتی ہیں۔

تین رکعت والی فرض نماز (مثلاً مغرب) کی نماز میں اگر ایک رکعت چھوٹ جائے تو اسی مذکورہ طریقے پر اسے ادا کرے جو طریقہ دو رکعت والی نماز کے بارے میں بیان کیا گیا، اور اگر تین رکعت والی نماز میں دو رکعت چھوٹ گئیں تو امام کے سلام پھیرنے کے بعد کھڑے ہوکر  ثناء پڑھے پھر اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھنے کے بعد سورہ فاتحہ اور دوسری سورت پڑھ کر رکوع وسجدہ کرے اور قعدہ میں بیٹھ کر التحیات پڑھ کر دوبارہ کھڑا ہوجائے، پھر بسم اللہ، سورہ فاتحہ اور دوسری سورت پڑھنے کے بعد  رکوع وسجدہ کرے اور قعدہ میں بیٹھ کر التحیات، درود شریف اور دعا پڑھ کر سلام پھیر دے۔ اور اگر مغرب کی تیسری رکعت کے رکوع کے بعد امام کے ساتھ شامل ہو تو امام کے سلام کے بعد پوری تین رکعت اسی ترتیب سے ادا کرنی ہوں گی جس طرح انفرادی طور پر ادا کی جاتی ہیں۔

چار رکعت والی فرض نماز (ظہر، عصر، عشاء) میں اگر ایک رکعت چھوٹ گئی تو اسے اوپر بیان کردہ طریقہ پر ہی پڑھے، اگر چار رکعت والی نماز میں دو رکعتیں چھوٹ گئیں تو  امام کے سلام پھیرنے کے بعد کھڑے ہوکر  ثناء پڑھے پھر اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھنے کے بعد سورہ فاتحہ اور دوسری سورت پڑھ کر رکوع وسجدہ کرنے کے بعد قعدہ میں نہ بیٹھے، بلکہ سیدھا کھڑا ہوجائے، پھر بسم اللہ، سورہ فاتحہ اور دوسری سورت پڑھنے کے بعد  رکوع وسجدہ کرے اور قعدہ میں بیٹھ کر التحیات، درود شریف اور دعا پڑھ کر سلام پھیر دے۔

چار رکعت والی نماز میں اگر تین رکعتیں چھوٹ جائیں تو ان کی ادائیگی کا طریقہ یہ ہے کہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد کھڑے ہوکر  ثناء پڑھے پھر اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھنے کے بعد سورہ فاتحہ اور دوسری سورت پڑھ کر رکوع وسجدہ کرے اور قعدہ میں بیٹھ کر التحیات پڑھ کر دوبارہ کھڑا ہوجائے، پھر بسم اللہ، سورہ فاتحہ اور دوسری سورت پڑھنے کے بعد  رکوع وسجدہ کرنے کے بعد قعدہ میں نہ بیٹھے، بلکہ سیدھا کھڑا ہوجائے ، پھر بسم اللہ اور سورہ فاتحہ پڑھ کر رکوع وسجدہ کرے اور قعدہ میں بیٹھ کر التحیات، درود شریف اور دعا پڑھ کر سلام پھیر دے۔

الفتاوى الهنديةمیں ہے:

’’(منها) أنه إذا أدرك الإمام في القراءة في الركعة التي يجهر فيها لايأتي بالثناء. كذا في الخلاصة. هو الصحيح، كذا في التجنيس. وهو الأصح، هكذا في الوجيز للكردري. سواء كان قريباً أو بعيداً أو لايسمع لصممه، هكذا في الخلاصة. فإذا قام إلى قضاء ما سبق يأتي بالثناء ويتعوذ للقراءة، كذا في فتاوى قاضي خان والخلاصة والظهيرية‘‘. (١/ ٩٠)

الدر المختارمیں ہے:

''ويقضي أول صلاته في حق قراءة، وآخرها في حق تشهد؛ فمدرك ركعة من غير فجر يأتي بركعتين بفاتحة وسورة وتشهد بينهما، وبرابعة الرباعي بفاتحة فقط، ولايقعد قبلها.''

و في الرد:

'' وفي الفيض عن المستصفى: لو أدركه في ركعة الرباعي يقضي ركعتين بفاتحة وسورة، ثم يتشهد، ثم يأتي بالثالثة بفاتحة خاصة عند أبي حنيفة. وقالا: ركعة بفاتحة وسورة وتشهد، ثم ركعتين أولاهما بفاتحة وسورة، وثانيتهما بفاتحة خاصة اهـ. وظاهر كلامهم اعتماد قول محمد''. (1/ 596، ط: سعید )

مقتدی کاامام کے پیچھے ثنا پڑھنا

 اگر امام جہری نماز میں  قراء ت شروع کردے اور مقتدی نے اب تک نماز شروع نہیں کی ہے، تو مقتدی کو اس وقت  نیت باندھ کر خاموش کھڑا ہوجانا چاہیے، ثنا نہ پڑھنی چاہیے، اور اگر امام نے ابھی قراء ت شروع نہیں کی ہے  تو ثنا پڑھ لینی چاہیے۔

2۔ اگر مقتدی ثنا پڑھ رہا تھا کہ امام نے  جہری نماز میں تلاوت شروع کردی تو مقتدی کو اسی وقت خاموش ہوجانا چاہیے،جتنی ثنا پڑھ لی بس اُسی قدر کا فی ہے۔

باقی سری نماز  میں  جب بھی قیام کی حالت میں  مقتدی امام کے ساتھ نماز میں شامل ہو جائے اس وقت ثناء پڑھ لے، خواہ امام نے قراءت شروع کی ہو یا نہ کی ہو اور چاہے مقتدی کو امام کی قراءت شروع کرنے کا علم ہو یا نہ ہو۔

فتاوى هندیہ میں ہے:

"(الفصل السابع في المسبوق واللاحق) المسبوق من لم يدرك الركعة الأولى مع الإمام وله أحكام كثيرة، كذا في البحر الرائق.
(منها) أنه إذا أدرك الإمام في القراءة في الركعة التي يجهر فيها لايأتي بالثناء، كذا في الخلاصة، هو الصحيح، كذا في التجنيس، وهو الأصح، هكذا في الوجيز للكردري، سواء كان قريبًا أو بعيدًا أو لا يسمع لصممه، هكذا في الخلاصة، فإذا قام إلى قضاء ما سبق يأتي بالثناء ويتعوذ للقراءة، كذا في فتاوى قاضي خان والخلاصة والظهيرية،وفي صلاة المخافتة يأتي به. هكذا في الخلاصة ويسكت المؤتم عن الثناء إذا جهر الإمام هو الصحيح. كذا في التتارخانية في فصل ما يفعله المصلي في صلاته."

(کتاب الصلاۃ،الباب الخامس في الإمامة،ج1،ص90۔91،ط؛دار الفکر)

Tuesday, 14 January 2025

دوران نماز صف سے نمازی نکل گیا تو خلاکو کیسے پر کریں

 دورانِ نماز اگر اگلی صف سے کوئی نمازی نکل جائے توپچھلی صف کے نمازی کو چاہیے کہ وہ آگے بڑھ کر خلا پر کردے۔اگر پچھلی صف کے نمازیوں میں سے کوئی آگے نہ بڑھے تو بعد میں آنے والے فرد کو چاہیے کہ وہ اس خلا کو پر کردے، چاہے اس کے لیے نمازی کے سامنے سے گزرنا یا صف کو چیر کر جانا کیوں نہ پڑے، خلا پر کرنے والا مذکورہ عمل کی وجہ سے گناہ گار نہ ہوگا۔ تنویر الابصار مع الدر میں ہے:

’’وَلَوْ وَجَدَ فُرْجَةً فِي الْأَوَّلِ لَا الثَّانِي لَهُ خَرْقُ الثَّانِي؛ لِتَقْصِيرِهِمْ، وَفِي الْحَدِيثِ: «مَنْ سَدَّفُرْجَةً غُفِرَ لَهُ»، وَصَحَّ: «خِيَارُكُمْ أَلْيَنُكُمْ مَنَاكِبَ فِي الصَّلَاةِ»، وَبِهَذَا يُعْلَمُ جَهْلُ مَنْ يَسْتَمْسِكُ عِنْدَ دُخُولِ دَاخِلٍ بِجَنْبِهِ فِي الصَّفِّ وَيَظُنُّ أَنَّهُ رِيَاءٌ، كَمَا بُسِطَ فِي الْبَحْرِ‘‘.

فتاوی شامی میں ہے:

’’وَفِي الْقُنْيَةِ: قَامَ فِي آخِرِ صَفٍّ وَبَيْنَهُ وَبَيْنَ الصُّفُوفِ مَوَاضِعُ خَالِيَةٌ فَلِلدَّاخِلِ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ لِيَصِلَ الصُّفُوفَ؛ لِأَنَّهُ أَسْقَطَ حُرْمَةَ نَفْسِهِ، فَلَا يَأْثَمُ الْمَارُّ بَيْنَ يَدَيْهِ، دَلَّ عَلَيْهِ مَا فِي الْفِرْدَوْسِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ نَظَرَ إلَى فُرْجَةٍ فِي صَفٍّ فَلْيَسُدَّهَا بِنَفْسِهِ؛ فَإِنْ لَمْ يَفْعَلْ فَمَرَّ مَارٌّ فَلْيَتَخَطَّ عَلَى رَقَبَتِهِ؛ فَإِنَّهُ لَا حُرْمَةَ لَهُ»، أَيْ فَلْيَتَخَطَّ الْمَارُّ عَلَى رَقَبَةِ مَنْ لَمْ يَسُدَّالْفُرْجَةَ. اهـ. (قَوْلُهُ: أَلْيَنُكُمْ مَنَاكِبَ فِي الصَّلَاةِ) الْمَعْنَى إذَا وَضَعَ مَنْ يُرِيدُ الدُّخُولَ فِي الصَّفِّ يَدَهُ عَلَى مَنْكِبِ الْمُصَلِّي لان لَهُ ط عَنْ الْمُنَاوِيِّ، (قَوْلُهُ: كَمَا بُسِطَ فِي الْبَحْرِ) أَيْ نَقْلًا عَنْ فَتْحِ الْقَدِيرِ حَيْثُ قَالَ: وَيَظُنُّ أَنَّ فَسْحَهُ لَهُ رِيَاءٌ بِسَبَبِ أَنْ يَتَحَرَّكَ لِأَجْلِهِ، بَلْ ذَاكَ إعَانَةٌ عَلَى إدْرَاكِ  الْفَضِيلَةِ  وَإِقَامَةٌ لِسَدِّ الْفُرُجَاتِ الْمَأْمُورِ بِهَا فِي الصَّفِّ، وَالْأَحَادِيثُ فِي هَذَا شَهِيرَةٌ كَثِيرَةٌ. اهـ‘‘. (١/ ٥٧٠ ، ٥٧١) 

صف میں خالی جگہ ہو تو اسے کیسے پر کریں

 تکبیر تحریمہ کہنے کے بعد اگر نمازی اگلی صف میں جگہ خالی دیکھے اور اس جگہ کو پر کرنے والے اس کے علاوہ کوئی اور نہ ہو تو  نمازی کو آگے بڑھ کر خلا کو پر کرنا چاہیے ،چاہے کسی نمازی کے نکلنے سے جگہ خالی ہوئی ہو یا بغیر نکلے ہی صف میں جگہ بن جائے،خالی جگہ پر کرنے کے لیے آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اگلی صف میں جانا بھی درست ہے اور رک رک کر جانا بھی درست ہے۔

"بقي ما إذا رأى الفرجة بعد ما أحرم هل يمشي إليها؟ لم أره صريحا. وظاهر الإطلاق نعم، ويفيده مسألة من جذب غيره من الصف كما قدمناه فإنه ينبغي له أن يجيبه لتنتفي الكراهة عن الجاذب، فمشيه لنفي الكراهة عن نفسه أولى فتأمل."

(حاشية ابن عابدين : ط الحلبي (1/ 570)

ولو وجد فرجة في الأوّل لا الثاني لہ خرق الثاني لتقصیرہم وقال ابن عابدین تحتہ: أن الکلام فیما إذا شرعوا، وفي القنیة: قام في آخر صف وبین الصّفوف مواضع خالیہ فللدّاخل أن یمرّ بین یدیہ لیصل الصّفوف۔ (الدر مع الرد، کتاب الصلاة، باب الإمامة، ۲/۳۱۲، زکریا دیوبند)

تین بھائی اور چاربہنوں میں وراثت کی تقسیم

 مرحوم کے ذمہ اگر قرض ہو،  اسے ادا کرنے کے بعد ، اگر انہوں نے وصیت کی ہے تو بقیہ ترکے کے تہائی حصے  سے ان کی وصیت نافذ کرنے کے بعد  باقی مال  کو  دس حصوں میں تقسیم کیا جائے گا،  دو دو حصے ہر بھائی کو اور ایک ایک حصہ ہر بہن کو ملے گا، مکان اور ترکہ کے دیگر سامان کی مارکیٹ ویلیو کے اعتبار سے قیمت لگا کر اسی حساب سے تقسیم کی جائے گی

Monday, 13 January 2025

دوبارنماز جنازہ

  واضح رہے  کہ اگر میت کے اولیاء  نے  نماز جنازہ پڑھ  لی یا ان کی اجازت سےنماز جنازہ    پڑھائی گئی  تو نمازِ جنازہ ادا ہو گئی اور فر ضِ کفایہ ادا ہوگیا۔ دوبارہ جنازہ  ادا کرنا درست نہیں ؛ اس لیے کہ  نماز جنازہ میں اصل یہ ہے کہ ایک مرتبہ ہی پڑھی جائے ،ایک سے  زیادہ مرتبہ پڑھنا اصلًا مشروع نہیں ،لیکن  اگر  میت کے ولی نے نمازِ جنازہ نہیں پڑھی  اور نہ ہی اس کی اجازت سے پڑھی گئی، بلکہ ایسے لوگوں نے پڑھی جن کو اس میت پر ولایت کا حق نہیں  تو ولی اس کی نمازِجنازہ پڑھ سکتا ہے، لیکن اس دوسری جماعت میں صرف وہ لوگ شریک ہوں گے جو پہلی میں شریک نہیں تھے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر پہلی  مرتبہ نماز جنازہ میں میت  کا ولی شریک  تھا یا ولی کی اجازت سے  نماز جنازہ ادا کی گئی تھی تو     دوبارہ نماز جنازہ پڑھنا درست نہیں تھا  خواہ پہلی مرتبہ تمام اولیاء شریک نہ ہوئے ہوں۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"و لو صلّى علیه الولي، و للمیت أولیاء أخر بمنزلته، لیس لهم أن یعیدوا، کذا في الجوهرة النیرة."

(الفتاویٰ الهندیة، کتاب الصلاة، الباب الحادي و العشرون في الجنائز، الفصل الخامس في الصلاة على المیت، (1/164) ط: رشیدیه کوئٹه)

Friday, 10 January 2025

ہلکا خون مسوڑہے سے آیے تووضوکاحکم

 منہ یا دانتوں سے خون تھوک کے ساتھ مل کر آئے تو اگر خون تھوک پر غالب یا برابر ہے تو  وضو جاتارہے گا اور کم ہے تو وضو نہیں ٹوٹا ۔( ماخوذ از عمدۃ الفقہ ) خون غالب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ تھوک کا رنگ سرخی مائل ہوجائے

Thursday, 2 January 2025

ماں کی زندگی کے خطرہ کے پیش نظر اسقاط حمل

 الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وآلہ وصحبہ ومن والاہ۔ فقہاءِ کرام اس بات پر متفق ہیں کہ اگر ماں کے پیٹ میں بچے کی عمر ایک سو بیس دن تک پہنچ جائے -اور اسی مدت میں بچے میں روح پھونکی جاتی ہے - تو اسقاطِ حمل جائز نہیں ہے بلکہ اس حالت میں اسقاط حمل قطعا حرام ہے۔ کیونکہ یہ اس جان کا قتل سمجھا جائے گا جسے ناحق قتل کرنا اللہ تعالی نے حرام قرار دیا ہے ؛ اللہ رب العزت نے فرمایا :﴿وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ مِنْ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ﴾ یعنی: (اور تنگدستی کی وجہ سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو، ہم تمہیں بھی رزق دیں گے اور انہیں بھی)۔ [الأنعام: 151]، اور ارشادِ باری تعالی ہے: ﴿وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ﴾ ]الإسراء: 33[۔ یعنی: (اور ناحق کسی جان کو قتل نہ کرو جس کا قتل اللہ نے حرام کیا ہے)۔

اور اگر ماں کے پیٹ میں موجود بچہ ایک سو بیس دن کی عمر تک نہ پہنچا ہو تو اس صورت میں اسقاط حمل کے حکم میں فقہاءِ کرام کا اختلاف ہے:
کچھ علماء کرام نے اسے حرام کہا ہے اور یہ مالکیہ اور ظاہریہ کا معتمد علیہ مذہب ہے۔
کچھ علماء کرام نے کہا ہے کہ یہ مطلقا مکروہ ہے ، اور یہ بعض مالکیہ کی رائے ہے۔
اور بعض فقہاءِ اسلام نے کہا کہ جب کوئی عذر پایا جا رہا ہو تو یہ جائز ہے ، اور یہ بعض احناف اور شافعیہ کی رائے ہے۔
اس فتوی میں راجح اور مختار رائے یہ ہے کہ اسقاط حمل حرام ہے چاہے روح پھونکے جانے سے پہلے ہو یا بعد میں ہو، سوائے اس صورت کہ جب کوئی شرعی ضرورت پائی جا رہی ہو؛ اور عادل اور ثقہ معالج نے یہ کہا ہو کہ اگر بچہ اپنی ماں کے پیٹ میں رہا تو ماں کی زندگی کو یا صحت کو خطرہ ہے تو ایسی صورت میں اس کا اسقاط حمل جائز ہے؛ یہ اس لئے کہ ماں کی مستحکم زندگی اور صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے بچے کی غیر مستحکم زندگی پر ترجیح دی جائے گی۔
مکہ مکرمہ میں رابطہ عالمِ اسلامی کی اسلامی فقہی کونسل نے قرار دیا ہے: اگر حمل ایک سو بیس دن تک پہنچ گیا ہو ، تو اس کواسقاط کرنا جائز نہیں ہے ، اگرچہ طبی تشخیص بتاتی ہوکہ اس کی خلقت صحیح نہیں ہے۔ ہاں اگر سپیشلسٹ ڈاکٹروں کی میڈیکل کمیٹی کی رپورٹ سے ثابت ہو جائے کہ حمل کا جاری رکھنا ماں کیلئے ایک یقینی خطرے کا باعث ہے تو اس صورت دو نقصانوں میں سے بڑے نقصان سے بچنے کیلئے اسقاط جائز ہو گا]۔
اس کی بنیاد پر مذکورہ سوال کے جواب میں ہم کہیں گے: اگر ڈاکٹر کی رپورٹ میں کہا گیا ہو کہ حمل کو جاری رکھنا حاملہ ماں کی صحت کے لیے خطرہ ہے اور یہ اسے شدید نقصان پہنچا سکتا ہے ، تو ایسی صورت میں اسقاط حمل جائز ہو گا ، اور شریعتِ اسلام میں اس سے کوئی ممانعت نہیں ہو گی۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.

Tuesday, 31 December 2024

غیرمسلموں سے سود لین یادینا

 واضح رہے کہ سودی معاملہ اور سودی لین دین نصِ قرآن واحادیثِ مبارکہ کی رو سے حرام ہے،  اسلام میں جس طرح سود دیناحرام و ناجائز ہے، اسی طرح سود لینابھی حرام و ناجائز ہے ، احادیثِ  مبارکہ میں دونوں پر وعیدیں وارد ہوئی ہیں،لہٰذا مسلمان خواہ دار الحرب میں ہو یا دار الاسلام میں،  سودی معاملہ مسلمان سے کرے یا غیر مسلم سے،  ہر حال میں ناجائز وحرام ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں غیر مسلموں سے  ایک یا  دو مہینے کی مدت تاخیر کرنے پر پانچ یا دس فیصد سود لینا جائز  نہیں ہے،چاہے اس رقم کو ہدیہ یا غرباء میں تقسیم کرنے ہی کی نیت کیوں نہ ہو، البتہ  اگر پہلے سودی معاملہ کیا گیا ہو اور رقم آگئی ہو تو  اگر کسی فرد سے لی ہو او وہ معلوم بھی ہو، تو اس کو لوٹانا شرعاً ضروری ہوگا، اور اگر اس شخص تک رقم پہنچانا دشوار ہو یا وہ معلوم نہ ہو ،تو کو بلا نیتِ ثواب سودی رقم کو  صدقہ کردے اور اپنے فعل پر توبہ واستغفار کرے۔

نیز اگر  کسٹمر سے ثمن كی وصوليابی ميں تاخیر کی وجہ سے دشواری پیش آرہی ہو، تو بائع  کو چاہیےکہ ادھار کی صورت میں اپنے مال کی قیمت بڑھاکر فروخت کرے اور جس قیمت پر فروخت کرے وہی قیمت وصول کرنا جائز ہوگا،تاخیر کی وجہ سے اس پر جرمانہ وصول کرنا ناجائز ہوگا۔

قرآنِ کریم میں باری تعالی کا ارشاد ہے :

"{یَا أَیُّهَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰهَ وَذَرُوْا مَابَقِیَ مِنَ الرِّبوٰ إِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ، فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِه}."

ترجمہ:…’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایا ہے اس کو چھوڑدو، اگر تم ایمان والے ہو، پھر اگر تم اس پر عمل نہیں کروگے تو اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے‘‘۔ [البقرۃ:۲۷۸،۲۷۹-بیان القرآن]

حدیث شریف میں ہے:

"عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه»، وقال: «هم سواء»".

(صحیح مسلم، باب لعن آکل الربوٰ و موکلہ، ج:1219،3،ط:داراحیاءالتراث العربی

Monday, 30 December 2024

کرسی پر نماز

 جو شخص بیماری کی وجہ سے کھڑے ہونے پر قادر نہیں، یا کھڑے ہونے پر قادر ہے، لیکن زمین پر بیٹھ کر سجدہ کرنے پر قادر نہیں ہے، یا قیام و سجود کے ساتھ نماز پڑھنے کی صورت میں بیماری میں اضافہ یا شفا ہونے میں تاخیر یا ناقابلِ برداشت درد کا غالب گمان ہو تو ان صورتوں میں کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے، البتہ کسی قابلِ برداشت معمولی درد یا کسی موہوم تکلیف کی وجہ سے فرض نماز میں قیام کو ترک کردینا اور کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز نہیں۔

اسی طرح جو شخص فرض نماز میں مکمل قیام پر تو قادر نہیں، لیکن کچھ دیر کھڑا ہو سکتا ہے اور سجدہ بھی زمین پر کرسکتا ہے توایسے شخص کے لیے اُتنی دیر کھڑا ہونا فرض ہے، اگر چہ کسی چیز کا سہارا لے کر کھڑا ہونا پڑے، اس کے بعد بقیہ نماز زمین پر بیٹھ کر پڑھنا چاہیے۔

اور اگر زمین پر سجدہ کرنے پر قادر نہیں تو ایسی صورت میں شروع ہی سے زمین یا کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے۔ اور اس صورت میں اس کی نماز اشاروں والی ہوتی ہے، اور اس کے لیے بیٹھنے کی کوئی خاص ہیئت متعین نہیں ہے، وہ جس طرح سہولت ہو بیٹھ کر اشارہ سے نماز پڑھ سکتا ہے، چاہے زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھے یا کرسی پر بیٹھ کر، البتہ زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھنا زیادہ بہتر ہے، لہذا جو لوگ زمین پر بیٹھ کر نماز ادا کرسکتے ہیں تو زمین پر بیٹھ کر نماز ادا کریں، اور اگر زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھنے میں مشقت ہوتو وہ کرسی پر بیٹھ کر فرض نمازیں، وتر اور سنن سب پڑھ سکتے ہیں۔

اشارہ سے نماز پڑھنے والے بیٹھنے کی حالت میں معمول کے مطابق ہاتھ باندھیں، اور سجدہ میں رکوع کی بنسبت ذرا زیادہ جھکیں، تشہد بھی معمول کے مطابق کریں، اور اگر زمین پر بیٹھنے کی صورت میں تشہد میں دو زانو ہو کر بیٹھنا مشکل ہوتو جس طرح سہولت ہو  مثلاً چار زانو (آلتی پالتی مار کر)، یا پاؤں پھیلا کر جس طرح سہولت ہو بیٹھ سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ جو شخص زمین پر سجدہ کرنے پر قادر نہ ہو اس کے لیے قیام پر قدرت ہونے کے باوجود قیام فرض نہیں ہے، لہٰذا ایسا شخص کرسی پر یا زمین پر نماز ادا کر رہاہو تو اس کے لیے دونوں صورتیں جائز ہیں: قیام کی حالت میں قیام کرے اور بقیہ نماز بیٹھ کر ادا کرے یا مکمل نماز بیٹھ کر بغیر قیام کے ادا کرے، البتہ دوسری صورت یعنی مکمل نماز بیٹھ کر ادا کرنا ایسے شخص کے لیے زیادہ بہتر ہ

Thursday, 26 December 2024

جتناچندہ کیاہے اس کانصف سفیر کی اجرت رکھنا


جواب

        کسی ادارے کی سفیر کی حیثیت اجیر کی ہوتی ہے اور عقد اجارہ میں ضروری ہے کہ اجرت متعین ہو۔ صورت مسؤلہ میں کمیشن پر چندہ اکٹھا کرنا تین وجوہ سے درست نہیں:

           پہلی وجہ یہ ہے کہ اس میں سفیر کی اجرت مجہول ہوتی ہےجب کہ اجارہ کی صحت کے لیے ضروری ہے کہ اجیر کی اجرت معلوم ہو،لہذا اجرت کی جہالت کی بنا پر یہ معاملہ جائز نہیں۔

          دوسری وجہ یہ ہے کہ اس عقد میں منفعت بھی مجہول ہے،کیونکہ اگر اس کا کام لوگوں سے چندہ وصول کرنا ہے تووہ  اس کے اختیار میں نہیں،اس کا کام تو محض لوگوں کو چندہ کی ترغیب دینا ہے ،لہذا یہ اجارہ ایسے عمل پر ہوا جو اس کے دائرہ اختیار سے باہر ہے ۔اور اگر اجارہ اس پر منعقد ہوا کہ وہ لوگوں کو چندہ کی ترغیب دیا کرے تو اس صورت میں بھی یہ واضح نہیں کہ اس کام میں کتنا وقت خرچ کرے گا ،نیز کن کن مواقع پر لوگوں کو ترغیب دےگا۔

            تیسری وجہ یہ ہے کہ اس معاملہ میں سفیر کی تنخواہ چندہ سے مقرر کی جاتی ہے اور فقہاےکرام کی آراء کے مطابق جو چیز اجیر کے عمل سے حاصل ہوتی ہو،اسے اجرت میں مقرر کرنا جائز نہیں۔

لہذا کسی دینی مدرسہ کے سفیر کی یا مہتمم کی تنخواہ چندہ کی رقم سے بطور کمیشن مقرر کرنا جائز نہیں ۔جائز صورت یہ ہے کہ معین تنخواہ مقرر کی جائے ۔

 

وشرطها:كون الأجرة والمنفعة معلومتين؛لأن جهالتهما تفضي الى المنازعة۔(الدر المختار على صدر رد المحتار:كتاب الإجارة،ج:9،ص:7)

(تفسد الأجارة بالشروط المخالفة لمقتضى العقد،فكل ما أفسد البيع،يفسدها)كجهالة مأجور أوأجرة۔(الدر المختار على صدر رد المحتار:كتاب الإجارة،باب الإجارة الفاسدة:ج:9،ص:64)

محاذات

 مرد اور عورت کے ایک ساتھ  نماز پڑھنے سے مراد اگر یہ ہو کہ نماز پڑھتے ہوئے مرداور عورت دونوں ایک ہی ساتھ صف میں کھڑے ہوں، تو یہ مسئلہ اصطلاح میں ”محاذات“ کا مسئلہ کہلاتا ہے، اس کا شرعی حکم درج ذیل ہے:

اگر کوئی مرد کسی عورت کے دائیں بائیں یا پیچھے اس کی سیدھ میں نماز پڑھے اور وہاں درج ذیل شرائط پائی جائیں تو مرد کی نماز فاسد ہوجائے گی ، وہ شرائط یہ ہیں :

(1)   وہ عورت مشتہاۃ ہو، یعنی  ہم بستری کے قابل ہو خواہ بالغ ہو یا نہ ہو، بوڑھی ہو یا محرم، سب کا حکم یہی ہے۔

(2)  دونوں نماز میں ہوں، یعنی  ایسا نہ ہو کہ ایک نماز میں ہے اور دوسرا نماز میں نہیں ہے۔

(3)  مرد کی پنڈلی، ٹخنہ  یا بدن کا کوئی بھی عضو عورت کے کسی عضو کے مقابلہ میں آرہا ہو۔

(4)  یہ سامنا کم از کم ایک رکن (تین تسبیح پڑھنے کے بقدر) تک برقرار رہا ہو۔

(5)  یہ اشتراک مطلق نماز میں پایا جائے، یعنی نمازِ جنازہ کا یہ حکم نہیں ہے۔

(6)  دونوں کی نماز ایک ہی قسم کی ہو، یعنی  مرد وعورت دونوں ایک ہی امام کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے ہوں۔

(7)  تحریمہ دونوں کی ایک ہو،  یعنی برابر نماز پڑھنے والی عورت نے برابر والے مرد کی اقتدا  کی ہو یا دونوں نے کسی تیسرے آدمی کی اقتدا کی ہو۔

(8)  عورت میں  نماز صحیح ہونے کی شرائط موجود ہوں،  یعنی  عورت پاگل یا حیض ونفاس کی حالت میں  نہ ہو۔

(9)   مرد وعورت کے نماز پڑھنے کی جگہ سطح کے اعتبار سے برابر ہو، یعنی اگر سطح میں آدمی کے قد کے بقدر فرق ہو، تو محاذات کا حکم نہ ہوگا۔

(10) دونوں کے درمیان کوئی حائل نہ ہو،  یعنی دونوں کے درمیان ایک انگلی کے برابر موٹی اور سترے کی مقدار اونچی کوئی چیز یا  ایک آدمی کے کھڑے ہونے کے بقدر فاصلہ نہ ہو۔

(11)  مردنے اپنے قریب آکر کھڑی ہونے والی عورت کو اشارے سے وہاں کھڑے ہونے سے منع نہ کیا ہو، اگر اشارہ کیا ہو  پھر بھی عورت  مرد کے برابر میں کھڑی رہی، تواب مرد کی نماز فاسد نہ ہوگی۔

(12) اور امام نے مرد کے برابر میں کھڑی ہوئی عورت کی امامت کی نیت بھی کی ہو۔

  اگر مذکورہ شرائط پائی جائیں تو ایک عورت کی وجہ سے تین مردوں ( دائیں بائیں جانب والے دو مردوں کی اور عورت کی سیدھ میں پیچھے ایک مرد) کی نماز فاسد  ہوجائے گی۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"محاذاة المرأة الرجل مفسدة لصلاته ولها شرائط:

(منها) أن تكون المحاذية مشتهاةً تصلح للجماع ولا عبرة للسن وهو الأصح .... (ومنها) أن تكون الصلاة مطلقةً وهي التي لها ركوع وسجود.... (ومنها) أن تكون الصلاة مشتركةً تحريمةً وأداءً .... (ومنها) أن يكونا في مكان واحد...(ومنها) أن يكونا بلا حائل ... وأدنى الحائل قدر مؤخر الرحل وغلظه غلظ الأصبع والفرجة تقوم مقام الحائل وأدناه قدر ما يقوم فيه الرجل، كذا في التبيين. (ومنها) أن تكون ممن تصح منها الصلاة.... (ومنها) أن ينوي الإمام إمامتها أو إمامة النساء وقت الشروع ... (ومنها) أن تكون المحاذاة في ركن كامل.... (ومنها) أن تكون جهتهما متحدة ..... ثم المرأة الواحدة تفسد صلاة ثلاثة واحد عن يمينها وآخر عن يسارها وآخر خلفها ولا تفسد أكثر من ذلك. هكذا في التبيين.وعليه الفتوى. كذا في التتارخانية والمرأتان صلاة أربعة واحد عن يمينهما وآخر عن يسارهما واثنان خلفهما بحذائهما ،وإن كن ثلاثا أفسدت صلاة واحد عن يمينهن وآخر عن يسارهن وثلاثة خلفهن إلى آخر الصفوف وهذا جواب الظاهر. هكذا في التبيين (1/ 89، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس فی الامامہ، الفصل  الخامس فی بیان مقام الامام والماموم، ط:رشیدیہ)

 (حاشیہ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، ص: 329، باب مایفسد الصلاۃ، ط: قدیمی)

(شامی، 1/572، کتاب الصلاۃ ،باب الامامہ،ط: سعید) 


Wednesday, 25 December 2024

سلام میں مغفرتہ کا اضافہ کرنا

 سلام کرنے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ   "السَّلَامُ عَلَیکُم و رحمة اللّٰه  و بركاته"  کہا جائے اور جواب ان الفاظ سے دیا جائے "وَعَلَیکُمُ السَّلَام و رحمة اللّٰه  و بركاته"۔ اگر  سلام میں "السلام علیکم ورحمۃ اللہ "  یا  صرف "السلام علیکم " پر اکتفا کیا جائے تب بھی درست ہے، مزید اضافہ کرنا یعنی لفظ" مغفرتہ " جیسے الفاظ نہیں   بڑھانا چاہیے۔

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"طریق سلام اور اس کا جواب 

سوال:- ایک شخص کہتا ہے "السلام علیکم " دوسرا شخص جواب میں کہتا ہے "وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ و مغفرتہ" ،  کیا یہ جواب درست ہے؟  اس کا کہیں سے ثبوت ملتا ہے یا نہیں؟

الجواب حامداً ومصلیاً!

افضل یہ ہے کہ سلام کرنے والا اس طرح سلام کرے " السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ" اور جواب دینے والا "وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ "کہے۔ اس سے زیادہ کوئی لفظ بڑھانا جیسے’’ومغفرته‘‘مناسب نہیں، اگرچہ بعض روایات میں لفظ ’’ومغفرته‘‘ سلام کے ساتھ وارد ہوا ہے،  جیسا کہ مشکوٰۃ ج:1، ص:398، میں ہے، مگر حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا  ہے کہ سلام کی انتہا ’’وبركاته‘‘ ہے۔

فقط واللہ تعالیٰ اعلم

حررہٗ العبد محمودگنگوہی عفااللہ عنہ معین مفتی مدرسہ مظاہرعلوم سہارنپور "

المنتقى شرح الموطإ میں ہے:

"(ص) : (عَنْ مَالِكٍ عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ أَنَّهُ قَالَ: كُنْت جَالِسًا عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ فَدَخَلَ عَلَيْهِ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، ثُمَّ زَادَ شَيْئًا مَعَ ذَلِكَ أَيْضًا، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَ هُوَ يَوْمَئِذٍ قَدْ ذَهَبَ بَصَرُهُ مَنْ هَذَا قَالُوا: هَذَا الْيَمَانِيُّ الَّذِي يَغْشَاك فَعَرَّفُوهُ إيَّاهُ، قَالَ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: إنَّ السَّلَامَ انْتَهَى إلَى الْبَرَكَةِ).

(ش) : قَوْلُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - إنَّ السَّلَامَ انْتَهَى إلَى الْبَرَكَةِ يُرِيدُ أَنَّهُ لَا يَزِيدُ عَلَى ذَلِكَ فِيهِ، وَإِنَّمَا هِيَ ثَلَاثَةُ أَلْفَاظٍ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ فَمَنْ اقْتَصَرَ عَلَى بَعْضِهَا أَجْزَأَهُ وَمَنْ اسْتَوْعَبَهَا فَقَدْ بَلَغَ الْغَايَةَ مِنْهُ فَلَيْسَ لَهُ أَنْ يَزِيدَ عَلَيْهَا.

وَقَدْ قَالَ الْقَاضِي أَبُو مُحَمَّدٍ: أَكْثَرُ مَا يَنْتَهِي السَّلَامُ إلَى الْبَرَكَةِ يُرِيدُ أَنْ لَا يُزَادَ عَلَى ذَلِكَ، وَيَقْتَضِي ذَلِكَ أَنْ لَا يُغَيَّرَ اللَّفْظُ وَهَذَا فِيمَا يَتَعَلَّقُ بِابْتِدَاءِ السَّلَامِ أَوْ رَدِّهِ وَأَمَّا الدُّعَاءُ فَلَا غَايَةَ لَهُ إلَّا الْمُعْتَادُ الَّذِي يَلِيقُ بِكُلِّ طَائِفَةٍ مِنْ النَّاسِ وَبِاَللَّهِ التَّوْفِيقُ."  

(كتاب الجامع، العمل فى السلام، ج:7، ص:280، ط:مطبعة السعادة) 

فتاوی عالمگیری (الفتاوى الهندية ) میں ہے:

"والأفضل للمسلم أن يقول: السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، و المجيب كذلك يرد، ولاينبغي أن يزاد على البركات شيء، قال ابن عباس - رضي الله عنهما - لكل شيء منتهى ومنتهى السلام البركات، كذا في المحيط. "

(كتاب الكراهية، الباب السابع فى السلام، ج:5، ص:325، ط:مكتبه رشيديه)