https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 5 May 2020

ٹیپوسلطان ہندوستان کا ایک مظلوم ہیرو

جنگ آزادی کے عظیم سورما، برطانوی سامراج کے خلاف سینہ سپر ہونے والے اولین مجاہد آزادی ٹیپو سلطان کے حوالہ سے وقتا فوقتا یہ آواز اٹھائی گئی اور ان کے ہندو مسلم یکسانیت اور مذہبی روادری عمل کو نشانہ بنایا گیا اور اس ہندوستان کے عظیم سپوت کے حوالہ سے یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ اس نے مذہبی تعصب برتاتھا، ، کسی نے ٹیپو سلطان کو برطانوی سامراج کے خلاف سینہ سپر ہونے والا عظیم حکمراں قراردیا تو کسی نے اس عظیم سپوت کے تعلق سے اپنی مذہبی منافرت اور دریدہ دہنی کا ثبوت پیش کیا، اور اس کو جالم وجابر حکمراں قرار دیااور اسے ہزاروں لوگوں کی موت کا ذمہ دار بتلایا، ا ور ٹیوٹر پر بعض لوگوں نے ٹیپو سلطان کے ذریعہ قتل ، ٹارچر ، ہندؤں کا مذہب کروانے ، مندورں کو تباہ کرنے والے واقعات پیش کئے ۔ٹیپو سلطان کے ہندو مسلم عدم رواداری اور عدم یکسانیت کی بات در اصل یہ تاریخ سے عدم واقفیت اور تاریخ کے مطالعہ کی کمی یا خود اس عظیم جنگ آزادی کے سورما کے خلاف اس کے مسلمان حکمراں ہونے کی وجہ سے بے جا الزام ہے ۔ٹیپو سلطان ایک انتہائی باصلاحیت ، قابل ، بے پناہ بہار اور دوربیں نگاہ حکمراں تھا، اس ملک کو انگریزوں کی غلامی سے بچانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی ، انہیں شکست بھی دی ، لیکن انگریزوں کے دیگر علاقوں کے مسلمان حکمرانوں کے ساتھ اتحاد او خود اس کے وفاداروں کی غداری کے نتیجے میں میدان کارزار میں دیوانہ وار لڑتا ہوا جام شہادت نوش کیا، انگریزوں تا دمِ اخیر ٹیپو کو ہتھیار ڈالنے کو کہا تو انہوں نے اس وقت جو تاریخی جملہ کہا تھاوہ آج بھی بطور مثال اور بطور محاورہ مستعمل ہے '' شیر کی ایک دن کی زندگی گیڈر کی سو سال کی زندگی سے بہتر ہے ،''اور ٹیپو کی موت پر انگریزوں نے جو جملہ کہا تھا وہ ان کے لئے سچ بھی ثابت ہوا ''اب ہندوستان ہمارا ہے ، اب ہندوستان ہمارا ہے ، اب ہندوستان ہماراہے '' اگر ٹیپو کے پشت میں غداری کا تلوار نہ اتارا جاتا تو یقیناًبر صغیر کی پچھلے ڈیڑھ سو سال کی تاریخ جو ہے وہ اس سے مخ تلف ہوتی ، انگریز مؤرخوں نے سلطان ٹیپو کو بدنام کرنے کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا،ان کے خلاف طرح طرح سے ہندؤں کو بھڑکایا، ان کی شہادت کے بعد بھی ان کی کردار کشی سے باز نہیں آئے ، چنانچہ انہوں نے ہندو مسلم مذہبی منافرت کو ہوا دینے اور اپنے اقتدار کے ہوس کی تکمیل کے لئے ٹیپو کو ظالم وجابر ، فرقہ پرست اور مندر شکن بادشاہ قراردیا ، جب کہ تاریخی حقائق اس کی مخالفت کرتے ہیں ، ہم یہاں ٹیپو سلطان کی مذہبی رواداری کی چند ایک مثالیں تاریخ کے حوالے سے ذکر کرتے ہیں ؛ تاکہ تمام برادران وطن کو پتہ چل سکے ٹیپوسلطان ایک عادل اور رعایاپرورحکمراں تھے ۔

 ٹیپو کی شبیہ خراب کرنے میں انگریزوں کا رول:

 اولا جس شخص نے ہندو مسلم اتحاد کوخراب کرنے کے لئے ٹیپوسلطان کی شبیہ خراب کرنے کی کوشش کی وہ مشہورانگریز مؤرخ لیون بی رنگ تھا ، اسی طرح کرک پیٹرک نے بھی اس کو عدم روادارقرار دیاہے ، ولکس تاریخ میسور میں اس کو کٹر قراردیتا ہے (سیرت سلطان ٹیپو، الیاس ندوی :432)انگریزوں نے ٹیپوسلطان کے متعلق علمی خیانت سے کام لیا ہے ، ایک انگریز مؤرخ لکھتا ہے کہ صرف کورگ شہرمیں سلطان نے70 ہزار لوگوں کو قتل کیا، حالانکہ میسور تاریخ کا ادنی طالب علم بھی جانتا ہے کورگ کی جملہ آبادی 30؍یا 35ہزارسے زیادہ نہ تھی ، اس میں بھی کئی ہزار مسلمان اور عیسائی شامل تھے (حوالہ سابق)مہاتما گاند ی نے بھی سلطان پر لگائے جانے والے اس الزام کو جھوٹ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ : ٹیپو کے اپنی رعایا کے ساتھ تعلقات نہایت دوستانہ تہے اور وہ ہندو مسلم اتحاد کا محرک تھا، یہ بات اگرچہ صحیح ہے کہ سلطان نے بعض ہندوؤں کے ساتھ سختی کی مثلا کرشنا راؤ اور ان کے بھائیوں کو پھانسی کی سزادی اور بعض دوسرے لوگوں کو بھی موت کے گھاٹ اتارا ؛ لیکن یہ سزائیں ان کو ہندو ہونے کی وجہ سے نہیں دی گئیں ، بلکہ اس کا سبب ان کی نمک حرامی وغداری تھی ، اس طرح کا انتقام اس نے خود بعض مسلمانوں سے لیا ،مثلا انگریز سپاہیوں کے ساتھ زنا کرنے کی وجہ سے بعض مسلم خواتین کو قتل کردیا ، محمد قاسم کو  غداری کی وجہ سے موت کے گھاٹ اتاردیا، عثمان خان کشمیری کو پھانسی کی سزادی تو کیا کوئی ان مسلمانوں سے سلطان کی سختی کی وجہ سے کوئی یہ کہنے کی جرأت کرسکتا ہے کہ وہ خدا نخواستہ اسلام دشمن بھی تھا، جہاں ایک طرف ہندو ، مرہٹوں اور راجہ ٹرانکور سے اس کی جنگیں ہوئیں تو دوسری طرف مسلم حکمرانوں سے بھی اس کی کئی معرکہ آرائیاں ہوئیں ، مذہبی تعصب وتشدد کا الزام اس پر اس وقت درست ہو تا جب وہ غداری وبغاوت کی سزا میں مسلمانوں کو تو معاف کردیتا اور ہندؤوں وعیسائیوں کو موت کے گھاٹ اتاردیتا ، یہاں چند مثالیں ایسی پیش کی جاتی ہیں جس کے سلسلہ میں اسلامی نقطہ نظر سے بحیثیت ایک  مسلم حکمران کے سلطان ٹیپو کے لئے اس کے جواز پر بحث بھی کی جاسکتی ہے اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ مذہبی رواداری میں بعض مواقع پر اسلامی حدود سے بھی آگے بڑھ گیاتھا۔

 (1)۔ اعلی مناصب پر ہندو افسران:

 ہندو برہمن ''پورنیا' سلطان کی شہادت تک پوری سلطنت خداداد کا وزیر خزانہ اور اختیارات کے اعتبار سے وزیر اعظم میر صادق کے بعد سلطان کا نائب تأ، ''لالہ مہتابرائے سبقت''جو ہندو برہمن تھا، سلطان کا ذاتی منشی اور خاص معتمد تھا، یہ اردو اور فارسی کا قادر الکلام شاعر تھا، سلطان کے ہندومعتمدین میں سے جو چند لوگ آخرتک اس کے وفادار رہے اس میں ''ہری سنگھ'' میسور کی فوج کا افسر اعلی تھا، اس کا بھائی''نر سنگاراؤ' ' بھی حکومت کا ایک اعلی عہدیدار تھا، کورگ کا فوجدار ایک برہمن شخص تھا، ''سری نواس راؤ''اور''اپاجی رام'' کو عام طور پر ٹیپو اپنا نمائندہ بنا  کر سفارتی مشن پر بھیجتا،''راما راؤ'' ایک سوار دستہ کا کمانڈر تھا ، ملیبار میں نائروں کی بغاوت کو کچلنے کے لئے سلطان نے ''سری پت راؤ'' ہی کو بھیجا تھا، ایک دوسرے مرہٹہ سردار ''سیواجی' ' کی کمان میں تین ہزار سپاہیوں کی ایک مستقل فوج بھی رہتی تھی ، سلطان کے دربار میں سرکاری خطوط لکھنے والے کئی منشیوں میں ایک منشی''نرسیا''بھی تھا، دیہاتوں کی پنچایتوں میں اکثر سرکار کی نمائندگی ہندوہی کرتے تھے ،کیرلا میں ساگوان کی لکڑی کی کٹائی کا ٹھیکہ پہلے ایک مسلمان کو دیا گیا پھر بعد میں یہ ٹھیکہ ہندو کو دیا گیا ، ہندوؤں کے مذہبی تہوار دسہر ہ میں سلطان اپنے ت ام اعلی افسران کے ساتھ نہ صرف شریک ہوتا ؛ بلکہ حکومت کے خزانہ سے اس کے اخراجات کے لئے ایک بڑی رقم بھی فراہم کرتا تھا، ان تمام مثالوں سے ٹیپوکی رواداری کا خو ب علم ہوتا ہے ۔

 (2)۔ مندروں اور اس کے سوامیوں کا احترام:

 سلطان کے دل میں ہندؤں کے مندروں اور اسکے سوامیوں کا بڑا احترام تھا، 1791ء میں مرہٹہ دراندازوں نے رگھوناتھ راؤ کی قیاد میں سلطنت خداداد پر حملہ کے دوران سر ینگیری کے مندر کی بے حرمتی کی ، اس کی قیمتی املاک کو لوٹ لیا، سونے سے بنی قیمتی پالکی اور جانووروں وغیرہ کو بھی لے گئے ، سارہ دیوی نام کی مورتی کو اس کی جگہ سے اٹھا کر باہر پھینک دیا ، کئی برہمنوں کوبھی اس حملہ میں پکڑ کر قتل کیاگیا، یہاں تک کہ مندر کے سوامی اور متولی شنکر گرو اچاریہ وہاں سے بھاگ کر شہر کارکل میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے ، وہاں انہوں نے ٹیپو کو ایک شکایتی خط لکھااور مندر کی بے حرمتی کی تف یلات سے آگاہ کرکے مالی امداد کی درخواست کی ، اس وقت اس واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ٹیپو نے جو جواب شنکر گروا اچاریہ کو موصول ہو اور وہ خط میسور کے محکمہ آثار قدیمہ کے ڈائر کٹر راؤ بہادر نرسمہا اچاریہ کو 1916ء میں سرینگری کے مندر میں ملا تھا ، خط کا مضمون کچھ یوں ہے :''

 ''جو لوگ مقدس ومتبرک مقامات کی توہیں وبے حرمتی کرتے ہیں وہ اس دنیاہی میں بد اعمالیوں کا بدلہ پائیں گے جیسا کہ شاعر نے کہا کہ لوگ گناہ تو ہنس ہنس کر کرتے ہیں ؛ لیکن اس کا بدلہ رورو کر بھگتے ہیں مند ر کے سوامیوں کے ساتھ بد سلوکی کرنا خود اپنی نسل کی تباہی کو دعوت دینا ہے ، جو لوگ ہمارس سلطنت میں داخل ہو کر ہماری رعایاکو ستارہے ہیں ان سے ہم خود نبٹ لیں رہے ہیں ، آپ کی شخصیت قابل احترام اور دنیا سے بے نیاز ہے ، آپ ہماری سلطنت کی بقاء وحفاظت اور دشمنوں کی ہلاکت کے لئے دعاکیجئے ، آپ کو حسب ضرورت ہمارے زیر قبضہ دیہاتوں سے کسی بھی چیز کے لینے کا اختیار ہے ،''اس خط کے ساتھ اس علاقہ کے گورنر کو سلطان نے یہ حکم بھی بھیجا کہ وہ شنکر اچاریہ کی خدمت میں فورا اس کی طرف سے دو سو اشرفیاں مع غلہ پیش کرے اور سرکاری مصارف پر سارا دیوی نام کی مورتی کو احترام کے ساتھ دوبارہ اس کی جگہ نصب کیاجائے اور اس تقریب کے موقع پر ایک ہزار فقراء کو کھانا بھی کھلا یاجائے( سیرت سلطان ٹیپو شہید: 432۔435)

 (3)مندروں کو نذرانے :

 تعلقہ ننجن گڑھ کے ایک گاؤں کلالے کے لکشمی کانتھ مندر میں چاندی کے چار پیالے ، ایک پلیٹ اور ایک اگلدان اب بھی موجود ہے جو ٹیپو نے اس مندر کونذر کئے تھے ، اسی شہر کے سری کنیشور مند ر کو سلطان نے ایک ایسا مرصع پیالہ بھی دیا تھا جس کے نچلے حصے میں پانچ قیمتی جواہرات جڑے ہوئے تھے ، سیلکوٹ کے نرائن سوامی مندر کو بھی قیمتی جواہرات سے جڑے ہوئے کچھ برتن ایک نقارہ اور بارہ ہاتھی اس نے روانہ کئے تھے ، خود سری رنگاپٹنم کے رنگناتھ مندر میں ایک کافور دان اور چاندی کے سات پیالے اس کے دیئے ہوئے اب بھی موجود ہیں ، ڈنڈیگل کے قلعہ پر جب سلطانی افواج نے حملہ کیا تو اس نے ان کو  یہ حکم دیا کہ چونکہ سامنے راجہ کا مندر موجود ہے اس لئے پیچھے سے گولہ باری کی جائے ، ملیبار میں گروایور پر قبضہ کے دوران جب مسلمان سپاہیوں نے وہاں کے مندر کو آگ لگانے کی کوشش کی تو اس نے ان کو نہ صرف سزائیں دیں ؛ بلکہ اسی وقت مندر کی مرمت بھی کروادی، اس کی مزید بے شمار مثالوں کے لئے ملاحظہ کیجئے (سیرت سلطان ٹیپو: 428۔429)

 (4) شاہی محل کے قریب مندر :

 بچپن میں ایک درویش کی طرف سے اس کے حق میں کی گئی پیشن گوئی کے پورا ہونے کے بعد جب سلطان تخت میسور کا وارث بنا تو اس نے اس درویش سے کئے گئے اپنے وعدہ کے مطابق اپنے محل کے قریب مسجد کی تعمیر کا ارادہ کیا ؛ چونکہ محل کے قریب سری رنگناتھ کا مندر پہلے سے موجود تھا ؛ اس لئے اسی سے متصل مسجد کی تعمیر کے لئے اس نے سب سے پہلے ہندو سوامیوں اور عوام سے اس کی اجازت حاصل کی ، ان کی مرضی کے بغیر اس جگہ مسجد کی تعمیر کو وہ صحیح نہیں سمجھتا تھا، ان سے اجازت ملنے کے بعد اس نے اس جگہ مسجد اعلی کی بناء رکھی ، کبھی اگر وہ چاہتا تو اپنی طاقت کے بل بوتے پر بادشاہ ہونے کی وجہ سے ان کی  جازت کے بغیر ہی اس جگہ مسجد بنا سکتا تھا،مسجد اعلی سے متصل مندر رنگناتھ مندر کے علاوہ جو اس کے محل سے صرف ایک سو گز کے فاصلہ پر تھا قلعہ میں نرسمہا اور گنگادھریسوا نام کے دواور مندر بھی موجود تھے جہاں ، روزانہ صبح وشام گھنٹیوں کی آواز سلطان کے محل میں پہنچتی تھی؛ لیکن اس نے کبھی ان کے ان مذہبی ااعمال کی ممانعت نہیں ۔

 (5) مندروں کو جائیدادیں :

 ڈاکٹر سی کے کریم کی کتاب (kerala under tipu) کے حوالہ سے محمد عبد اللہ بنگلوری نے اپنی کتاب ٹیپو کے تذکرے مختلف ادوار میں لکھا ہے کہ صرف کیرالا کے جنوبی ضلع کے ایک تعلقہ کے ساٹھ مندروں کو سلطان نے سرکاری خزانہ سے سالانہ وظیفے جاری کئے تھے ، گرویاریاکے مندر کو ہی چھ سو ایکڑ قابل کاشت زمین بطور انعام دی گئی تھی ، ملیبار کے مندروں وبرہمنوں کو جو زمینیں بغیر سرکاری لگان کے ٹیپو نے دی تھیں ، ان کی جو تفصیلات محب الحسن صاحب نے اپنی کتاب تاریخ ٹیپو میں نقل کی ہے وہ کچھ اس طرح ہے (1) کالی کٹ کے قبضہ امسوم کے ترکنٹیشور وتاکوام کنعاؤ مندر کے لئے 195 ایکڑ زمین (2) پونانی کے گورو ا مندر کے لئے ۵۰۴ ایکڑ زمین (3) چیلم برا تعلقہ اراند کے مانور مندر کے لئے 173ایکڑ زمین(4) پونانی کے ترو انچکموم مندر کے لئے212 ایکڑ زمین، (5) پونانی کے نمودری مندر کے لئے 551 ایکڑ زمی، ،سلطنت کے وزیز خرانہ ''پورنیا'' کا خود کہنا تھا کہ سرکاری خزانہ سے مندروں کو سالانہ959193 پگوڈا مالی امداد دی جاتی تھی، جب کہ مساجد کے لئے یہ امداد اس سے بہت کم تھی ۔

 مجموعی طور پر سلطان کی ہندو رعایا نے اس کے ساتھ محبت وعقیدت کا جو سلوک کیا ، اس کی مثال ملک کے کسی دوسرے مسلم حکمراں کی تاریخ میں بہت کم ملتی ہیں، ہندؤں کی اکثریت نے آخری وقت تک اس کے ساتھ وفاداری کا ثبوت دیا4مئی 1799 میں شہادت کے دن سلطان کی لاش کے آس پاس سینکڑوں ہندو خواتیں لاشیں ملیں جس میں بعض نوجوان لڑکیاں بھی پائی گئی خود انگریز افسران نے جب یہ ماجرا دیکھا تو ہندو رعایا کے دلوں میں بھی اپنے مسلم حکمراں کے لئے عقیدت کے یہ جذبات دیکھ کر انہیں خود حیرت ہوئی جب سلطان کا جنازہ اٹھا تو راستہ میں ہندو عورتیں ماتم کرتی ہوئیں اپنے سروں پر مٹی ڈال رہی تھیں ، محا صرہ دار السطنت پر کئی برہمنوں نے سلطان کی فتح کے لئے اپنی مذہبی رسومات کے مطابق دن بھر کا روزہ رکھا تھا، اگر سلطان کا سلوک ان ہندوؤں کے ساتھ اچھا نہیں ہوتا تو کیا یہ ممکن تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں ہندو ایک مسلم حکمراں کے لئے اپنی جانیں تک قربانی کرتے ، اگر اس کے خلاف عام ہندؤوں میں ناراضگی پائی جاتی تو انگریزوں یا مرہٹوں کے لئے اپنے مقاصد کے خاطر ہند و مذہب کے حوالے سے ان سب کو سلطان کے خلاف اجتماعی بغاوت کے لئے اکسانا بہت آسان تھا ؛ لیکن پوری سلطنت خداداد کی تاریخ میں اس قسم کا کوئی واقعہ کسی متعصب انگریز مؤرخ کی کتاب میں نہیں ملتا، یہی وجہ ہے کہ سلطان ک غداروں کی فہرست میں ہندوؤں کی تعداد سلطنت میں اکثریت میں ہونے کے باوجود ان کی آبادی کے تناسب سے مسلمانوں کے مقابلہ میں کم تھی ۔

 ان تمام تاریخی حوالہ جات سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہوتی ہے آج ہمارے برادران وطن کو ٹیپو کے تعلق سے جو غلط فہمیاں ہیں وہ انگریزوں کے ٹیپو اور اس کی جراء ت وہمت اور اس کی مذہبی رواداری اور ہندو مسلم اتحاد سے بعض وعناد اور اس کی وجہ سے اپنی حکومت سازی میں جو رکاوٹیں در پیش ہورہی تھیں ان کا سب کا نتیجہ تھا، جس کی رو میں بہہ کر اس عظیم مسلمان حکمراں اور سامراج کو ناکوں چنے چبوانے والے ملک کے سپوت کے تعلق زبان درازی کی کوشش یا تو یہ تاریخی حقائق سے عدم واقفیت یاتعصب ذہنی کی علامت ہے ۔





 This voice was raised from time to time in reference to Tipu Sultan, the great warrior of the war of independence, the first freedom fighter against British imperialism, and his Hindu-Muslim equality and religious tolerance were targeted and referred to this great son of India.  Attempts were made to make him believe that he was religiously biased. Some called Tipu Sultan a great ruler who fought against British imperialism.  What, and called him a tyrant and a tyrant and blamed him for the deaths of thousands of people,  On Twitter, some people reported incidents of Tipu Sultan's murder, torture, conversion of Hindus, destruction of temples. Tipu Sultan's talk of Hindu-Muslim intolerance and inequality is in fact ignorance of history and history.  The lack of education or the heroism of this great war of independence itself is an unwarranted accusation against him for being a Muslim ruler.  Every effort was made to save them, even defeating them, but the British allied themselves with the Muslim rulers of other areas.  As a result of the betrayal of his own loyalists, he was martyred while fighting like a madman in the battlefield.  "A day in the life of a lion is better than a hundred years in the life of a gadder," and what the British said about Tipu's death came true for them. "Now India is ours, now India is ours."  "Now India is ours."  Destroyed, British historians did not spare a single minute to defame Sultan Tipu, incited Hindus against him in various ways, did not stop his immorality even after his martyrdom, so they hated Hindu-Muslim religious hatred.  He called Tipu a tyrant, a sectarian and a temple-breaking king in order to fuel his lust for power, while historical facts contradict him. Here are a few examples of Tipu Sultan's religious tolerance with reference to history.  Mention ؛ so that all the brothers of the homeland may know Tipu Sultan was a just and prudent ruler.

 The role of the British in tarnishing Tipu's image:

 The first person who tried to tarnish the image of Tipu Sultan in order to tarnish the Hindu-Muslim unity was the famous English historian Leon B. Ring, as well as Kirk Patrick, who is considered intolerant by Volks history in Mysore.  Sultan Tipu, Ilyas Nadvi: 432) The British have acted with scientific treachery about Tipu Sultan, a British historian writes that in the city of Korg alone, the Sultan killed 70,000 people, although even the lowest student of Mysore history knows Korg's sentence  The population did not exceed 30,000 or 35,000, including several thousand Muslims and Christians.  He also refuted the allegation leveled against the Sultan and said: "Tipu's relations with his subjects were very friendly and he was the instigator of Hindu-Muslim unity. Although it is true that the Sultan  At the same time, Krishna Rao and his brothers were sentenced to death by hanging and some others were also killed; but these punishments were not given to them because they were Hindus, but because of their salt, illegitimate treason.  He took such revenge on some Muslims himself, such as killing some Muslim women for adultery with British soldiers, to Muhammad Qasim.  Executed for treason, execution of Usman Khan Kashmiri. Can anyone dare to say to these Muslims because of the Sultan's harshness that he was also an enemy of Islam, God willing, where on the one hand Hindus, Marhats  And he had wars with Raja Trunkor and on the other hand he had many battles with the Muslim rulers. The accusation of religious bigotry and violence was justified on him only if he forgave the Muslims as punishment for treason and rebellion and the Hindus and Christians.  Here are a few examples of what it means to be a death knell.  The legitimacy of Sultan Tipu, the Muslim ruler, can also be debated, and it can be said that he went beyond Islamic limits in religious tolerance at times.

 (1).  Hindu high-ranking officials:

 Until the martyrdom of the Hindu Brahmin "Purnia" Sultan, the entire Sultanate of Khudadad was the Minister of Finance and in terms of powers, after the Prime Minister Mir Sadiq, the Deputy of the Sultan, "Lala Mehtabrai Sabqat"  He was a trustworthy poet of Urdu and Persian. Among the few Hindu trustees of the Sultan who remained loyal to him till the end was Hari Singh, a senior officer of the Mysore army, and his brother Nar Sangarao.  He was also a high-ranking government official, the chief of the Korg was a Brahmin, and Srinivas Rao and Apaji Ram were generally represented by Tipu.  Kar sent on a diplomatic mission, "Rama Rao" was the commander of a cavalry detachment, the Sultan had sent "Sri Pat Rao" to crush the Nair rebellion in Malibar, another Marhata chief "Sivaji"  There was also a permanent army of 3,000 soldiers under his command. Among the many druggists who wrote official letters at the Sultan's court was a scribe, Narcissus. In village panchayats, the government was often represented by Hindus in Kerala.  The contract for cutting teak wood was first given to a Muslim and later to a Hindu. During the Hindu religious festival of Dussehra, the Sultan  Umm shares not only with his superiors, but it did provide a large amount, decent knowledge of tapioca b tolerance of all phrase for the costs of government finance.

 (2).  Respect for the temple and its lords:

 In the heart of the Sultan there was great respect for the Hindu temples and their lords. In 1791, during the invasion of the Khudadad Empire under the leadership of Raghunath Rao, the Marathi invaders desecrated the temple of Sir Ingiri and looted its valuable property.  They also took away valuable palanquins and animals etc., lifted the idol named Sara Devi from its place and threw it out, many Brahmins were also caught and killed in this attack, even the temple lord and trustee Shankar Guru Acharya was there.  Forced to flee to the city of Karkal, where he wrote a letter to Tipu complaining of desecration of the temple.  After informing Yalat and requesting financial assistance, Tipu regretted the incident at that time and the reply received by Shankar Garva Acharya and the letter was sent to Rao Bahadur Narasimha Acharya, Director, Archaeological Department, Mysore, Srinagar in 1916.  Found in the temple, the text of the letter is as follows:

 “Those who blaspheme the holy places will be recompensed for their evil deeds in this world, as the poet said,“ People laugh at sin, but repay it with tears.  To abuse is to invite the destruction of one's own race. We are dealing with those who have entered our kingdom and are staring at our subjects. Your personality is respectable and independent of the world.  Pray for the survival and protection of the kingdom and for the destruction of the enemies. You have the right to take anything from our occupied villages as you wish, ”the letter said.  The Sultan also sent an order to the governor of the area to immediately offer two hundred ashrafs with grain in the service of Shankar Acharya and to re-install the idol named Sara Devi with respect at government expense.  And on the occasion of this ceremony one thousand poor people should be given food (Seerat Sultan Tipu Shaheed: 432-435)

 (3) Offerings to temples:

 The Lakshmi Kanth Temple in Kalale, a village in the Taluka of Ninjangarh, still has four silver bowls, a plate and an eagle that Tipu dedicated to the temple. The Sultan also gave a minimalist cup to Sri Kanishwar Mandir in the same city  At the bottom of which were five precious jewels inlaid, he also sent to Narain Swami temple in Selkot some vessels associated with precious jewels, a nikara and twelve elephants, a camphor dancer in the Ranganath temple in Srirangapatnam himself and  The seven silver bowls he gave are still there. When the Sultan's forces attacked the fort of Dundigal, he  He ordered that since the Raja's temple was in front, shelling should be carried out from behind. He not only punished the Muslim soldiers when they tried to set fire to the temple there during the occupation of Gravior in Malibar.  The temple was repaired at the same time. See for more examples (Seerat Sultan Tipu: 428-429).

 (4) Temple near the royal palace:

 After the fulfillment of a prophecy made in his favor by a dervishes in his childhood, when the Sultan inherited the throne of Mysore, he intended to build a mosque near his palace as promised to the dervishes.  Since the temple of Sri Ranganath already existed near the palace, he first sought permission from the Hindu lords and the people to build a mosque adjacent to it, without their consent.  He did not think it was right. After getting permission from him, he built a high mosque in this place.  He could have built a mosque on this place without permission. Apart from the Ranganath temple adjacent to the high mosque, which was only a hundred yards away from his palace, there were also temples in the fort called Narasimha and Gangadhariswa where daily, morning and evening.  The bells rang in the Sultan's palace; but he never forbade them to perform these religious acts.

 (5) Properties to temples:

 Referring to Dr. C. K. Karim's book (kerala under tipu), Muhammad Abdullah Bangalore has mentioned in his book Tipu in different periods that only sixty temples in a taluka in the southern district of Kerala were given annual stipends by the Sultan from the state treasury.  Six hundred acres of cultivable land was given as a reward to the temple of Guruvariya itself.  It is something like this (1) Occupy of Kali Kit 195 acres of land for Tarkantishore Vatakoom Kannao Temple of Amsum (2) Guru of Poonani  7 acres of land for the temple (3) 173 acres of land for the Manor Temple of Chalam Bara Taluka Arand (4) 212 acres of land for the Troi Inchkamum Temple of Poonani, (5) 551 acres of land for the Namudri Temple of Poonani,  Purnia himself said that 959,193 pagodas were given to temples annually from the state exchequer, while the amount for mosques was much less.

 The love and devotion shown to him by the Hindu subjects of the Sultan as a whole is unparalleled in the history of any other Muslim ruler of the country. The majority of Hindus showed loyalty to him till the last moment. 4 May 1799  Hundreds of Hindu women were found around the Sultan's body on the day of his martyrdom in which some young girls were also found. When the British officers themselves saw this incident, they also saw in the hearts of the Hindu subjects these feelings of devotion for their Muslim ruler.  Surprised himself, when the Sultan's funeral took place, Hindu women were mourning and pouring mud on their heads.  Many Brahmins had fasted for a day according to their religious rites for the victory of the Sultan. If the Sultan had not treated these Hindus well, would it have been possible for such a large number of Hindus to join a Muslim ruler?  Sacrificing their lives for it, if there was resentment among the common Hindus against it, it would have been very easy for the British or the Marhats to incite all of them to a mass revolt against the Sultan for their own purposes regarding Hinduism and religion;  No such incident in the history of the Khudadad Empire is found in the books of any fanatical English historian.  The number of Hindus in the list of traitors empire, despite the majority in proportion to their population was lower against the Muslims.

 It is clear from all these historical references that the misconceptions that our compatriots have about Tipu today are some of the British Tipu and its audacity and its religious tolerance and some obstinacy from Hindu-Muslim unity and  This was the result of all the obstacles that were being put in the way of the formation of their government, due to which the attempt to speak out about this great Muslim ruler and the grandson of the country who chewed the cud of imperialism was either a historic one.  Ignorance or prejudice is a sign of mental illness.

Sunday 3 May 2020

Islam never used forces to convert to Islam:

Is it true that in the early Muslim conquests, Muslims forced natives to convert to Islam after conquering their land?

It's absolutely wrong, Muslims never forced anyone to convert to Islam after conquering the land. Islamic conquests begin from Makkah till Constantinople, but forcefully conversion never been existed. Spain where Muslims ruled more than seven hundred years now almost empty from the Muslim population if they were used force there would be at least more than half of the population Muslim.
The Muslim conquest of Sicily began in June 827 and lasted until 902, when the last major Byzantine stronghold on the island, Taormina, fell. Isolated fortresses remained in Byzantine hands until 965, but the island was henceforth under Muslim rule until conquered in turn by the Normans in the 11th century, but they never used force to convert natives into Islam.
Islam entered southern Europe through North Africa in the 8th–10th centuries; Musl  political entities existed firmly in the hat is today SpainPortugal, Sicily, Malta. Islam expanded into the Caucasus through the Muslim conquest of Persia in the 7th century. The Ottoman EmpiKosovxpanded into southeastern Europe, invading and conquering huge portions of the Serbian EmpireBulgarian Empire, kosov, Bosnia and Herzegovina, Albania and all the remaining Byzantine Empire in the 14th and 15th centuries. But never used force to convert natives into Islam.

Saturday 2 May 2020

چلی ہے رسم کہ نہ کوئی سر اٹھا کے چلے

نئی دہلی-2 مئی( اردو لیکس)دہلی پولیس نے دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کیا ہے۔ ظفر الاسلام خان پر سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز تبصرے کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ دہلی اسپیشل پولیس کے جوائنٹ سی پی ایل نیرج ٹھاکر نے بتایا کہ یہ معاملہ دہلی کے وسنت کنج علاقے کے ایک شخص کے ذریعہ دہلی پولیس میں درج شکایت کے تحت آئی پی سی کے سیکشن 124 اے اور 153 اے کے تحت درج کیا گیا ہے۔ وسنت کنج کے رہائشی نے پولیس سے شکایت کی ہے کہ دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ، ظفر الاسلام خان کی 28 اپریل کو ٹویٹر اور فیس بک پر شائع ہونے والی پوسٹ فرقہ وارانہ تشدد کو ہوا دینے کے مترادف ہے۔اس معاملہ کے ظفر الاسلام خان نے سوشل میڈیا پر شائع کی گئی پوسٹ کے لئے معذرت کا اعلان کر دیا ہے۔ اس کے باوجود پولیس نے ان کے خلاف کارروائی کی ہے اسی دوران ظفر الاسلام خان نے کہا کہ وہ ایف آئی آر کی کاپی ملنے کے بعد ہی اس معاملے پر تبصرہ کریں گے ۔

Friday 1 May 2020

ہندوستان میں مذہبی آزادی

لندن۔ 30 اپریل (سیاست ڈاٹ کام) امریکی حکومت کے ایک ادارہ نے زور دیا ہے کہ انڈیا کو مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کی پاداش میں بلیک لسٹ کیا جائے کیونکہ وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت میں مذہبی آزادی بری طرح انحطاط پذیر ہے۔ امریکی پیانل کی سفارش پر نئی دہلی نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی سفارش ضرور کرسکتا ہے لیکن وہ پالیسی طئے نہیں کرتا اور ضروری نہیں کہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ اس کی تجویز یا سفارش پر عمل کرے۔ ہندوستان بلاشبہ امریکی حلیف ہے اور دونوں ملکوں کے تعلقات میں حالیہ عرصہ میں گہرائی آئی ہے۔ دو پارٹیوں پر مشتمل پیانل نے سالانہ رپورٹ میں کہا کہ ہندوستان کو تشویش و فکرمندی والے ممالک کی صفوں میں شامل کیا جانا چاہئے۔ اگر وہ اپنے ٹریک ریکارڈ میں بہتری نہیں لاتے ہیں تو ان پر تحدیدات عائد کرنا چاہئے۔ 2019ء میں امریکی پیانل کی رپورٹ کے مطابق انڈیا میں مذہبی آزادی کی صورتحال میں انحطاط آیا اور مذہبی اقلیتوں کو لگاتار حملوں کا نشانہ بنایا جانے لگا ہے۔ پیانل نے امریکہ سے تعزیری اقدامات لاگو کرنے پر زور دیا ہے جیسے ویزا پر پابندی اور مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کیلئے ذمہ دار سمجھے جانے والے ہندوستانی عہدیداروں کے امریکہ میں داخلے کو روکنا، ایسے سیول سوسائٹی گروپس کیلئے فنڈس کو بھی روکنا جو نفرت پھیلانے کا کام کرتے ہیں۔ کمیشن نے کہا کہ مودی کی ہندو قوم پرست حکومت جسے 2019ء میں اکثریت حاصل ہوئی، وہ پارلیمنٹ میں اپنی عددی طاقت کا غلط استعمال کرتی پائی گئی ہے۔ کمیشن نے کہا کہ مودی حکومت نے اقلیتوں کے خلاف تشدد پر خاموشی اختیار کی اور ان کی عبادت گاہوں پر نشانہ بنانے پر بھی کوئی کارروائی نہیں کی بلکہ برسراقتدار قائدین نے نفرت انگیز تقاریر کے ذریعہ عوام کو تشدد پر اُکسایا ہے۔ وزیر داخلہ امیت شاہ کے تبصروں کی نشاندہی بھی کی گئی جنہوں نے زیادہ تر مسلم تارکین وطن کو دیمک کہا تھا۔ کمیشن نے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کا ذکر بھی کیا جس پر ملک گیر احتجاج چھڑ گئے۔ کشمیر کی خودمختاری کی تنسیخ کو بھی اُجاگر کیا گیا۔ جموں و کشمیر، ہندوستان کی واحد مسلم اکثریتی ریاست تھی لیکن دستور کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرتے ہوئے اسے تقسیم کردیا گیا اور اب وہ ریاست نہیں بلکہ مرکزی علاقہ ہے۔ رواں سال فروری میں دہلی پولیس نے شمال مشرقی دہلی میں فسادات کے دوران اکثریتی غنڈوں کے تشدد پر آنکھیں بند رکھیں۔ ہندوستانی حکومت جو طویل عرصہ سے امریکی کمیشن کے تبصروں سے پریشان ہے، اس نے اس رپورٹ کو فوری مسترد کردیا ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سریواستو نے کہا کہ یہ ہندوستان کے خلاف جانبدارانہ تاثرات ہیں اور کوئی نئی بات نہیں ہے، لیکن اس موقع پر کمیشن غلط باتوں کو پیش کرنے کی نئی سطح تک پہنچ گیا ہے۔سریواستو نے کہا کہ حکومت اس ادارہ کو مخصوص نوعیت کا پیانل سمجھتی ہے اور اسی کے مطابق اس پر توجہ دی جائے گی۔ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کے معاملے پر 9 ممالک چین، ایرٹریا، ایران ، میانمار ، نارتھ کوریا ، پاکستان ، سعودی عرب ، تاجکستان اور ترکمینستان کو نامزد کیا ہے۔

Thursday 30 April 2020

Who invented the concept of lockdown

Narrated `Abdullah bin 'Amir:
`Umar went to Sham and when he reached Sarah, he got the news that an epidemic or pandemic had broken out in Sham. `Abdur-Rahman bin `Auf told him that Allah's Messenger (ﷺ) said, "If you hear that it (pandemic ) has broken out in a land, do not go to it; but if it breaks out in a land where you are present, do not go out escaping from it."
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرٍ، أَنَّ عُمَرَ، خَرَجَ إِلَى الشَّأْمِ، فَلَمَّا كَانَ بِسَرْغَ بَلَغَهُ أَنَّ الْوَبَاءَ قَدْ وَقَعَ بِالشَّأْمِ، فَأَخْبَرَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏ "‏ إِذَا سَمِعْتُمْ بِهِ بِأَرْضٍ فَلاَ تَقْدَمُوا عَلَيْهِ وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلاَ تَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْهُ ‏"‏‏.‏
Reference
: Sahih al-Bukhari 5728
In-book reference
: Book 76, Hadith 43
USC-MSA web (English) reference
: Vol. 7, Book 71, Hadith 624
(deprecated numbering scheme)

Wednesday 29 April 2020

حکومت کی بے حسی

15 دن پہلے اتر پردیش کے انصاف علی نے شراوستی ضلع میں اپنے گھر پہنچنے کے لیے ممبئی سے پیدل چلنا شروع کیا تھا۔ ممبئی کے وسئی میں رہنے والے مزدور انصاف علی نے راستے میں کھانے اور پانی کے لیے کافی جدوجہد کی، لیکن انھوں نے چلنا جاری رکھا اور تقریباً 1500 کلو میٹر پیدل چل کر اپنے گاؤں بھی پہنچ گیا۔ وہ پیر کے روز اپنے گاؤں کے باہری علاقے میں پہنچا اور اسے فوراً ضلع کے ملہی پور پولس اسٹیشن کے تحت مٹکھنوا میں ایک کوارنٹائن سنٹر میں لے جایا گیا۔
کچھ گھنٹے بعد پانی کی کمی اور تھکاوٹ کی وجہ سے انصاف علی کی موت ہو گئی۔ شراوستی کے پولس سپرنٹنڈنٹ انوپ کمار سنگھ کا اس معاملے میں کہنا ہے کہ علی صبح 7 بجے کے قریب مٹکھنوا پہنچے اور مقامی اسکول میں شروعاتی جانچ کرنے کے بعد انھیں چھوڑ دیا گیا۔ انوپ سنگھ مزید بتاتے ہیں کہ "انھیں ایک مناسب ناشتہ بھی دیا گیا جس کے بعد انھوں نے آرام کیا۔ لیکن پانچ گھنٹے کے بعد انھیں پیٹ کے اوپری حصے میں درد کی شکایت شروع ہوئی اور تین بار الٹی بھی ہوئی۔" وہ بتاتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ ڈاکٹر کو بلایا جاتا، انصاف علی کی موت ہو گئی۔
چیف میڈیکل افسر اے پی بھارگو کا کہنا ہے کہ انھوں نے انصاف علی کے نمونے لیے تھے اور لکھنؤ میں ڈاکٹر رام منوہر لوہیا اسپتال میں کورونا وائرس ٹیسٹ کے لیے بھیج دیا تھا۔ چیف میڈیکل افسر کا کہنا ہے کہ "رپورٹ سامنے آنے کے بعد ہی ہم انصاف علی کی موت کے صحیح اسباب کا پتہ لگانے کے لیے اس کی لاش کا پوسٹ مارٹم کریں گے۔" حالانکہ انھوں نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ڈاکٹروں کی ایک ٹیم کے ذریعہ کیے گئے شروعاتی جانچ کے دوران کورونا وائرس کی کوئی علامت دیکھنے کو نہیں ملی تھی۔
مٹکھنوا کے گرام پردھان اگیارام کا کہنا ہے کہ علی 14 اپریل کو شراوستی پہنچے تھے اور تقریباً 10 کلو میٹر دور اپنی سسرال میں رکے۔ انھوں نے کہا کہ "پیر کو وہ مٹکھنوا گاؤں میں اپنے گھر کے لیے نکلے اور ان کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی۔" بہر حال، انصاف علی کافی مشقت سے اپنے گاؤں پہنچے تھے اور پھر اپنے رشتہ داروں کے ساتھ وقت گزارے بغیر دنیا سے کوچ کر گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ انصاف علی اپنے پیچھے بیوی سلمہ بیگم اور 6 سالہ بیٹے کو چھوڑ گئے ہیں۔

Wednesday 22 April 2020

موت اس کی ہے کرے جس پہ زمانہ افسوس

پریم لتا
پنکھے پر لٹکی ہوئی لاش اورٹیبل پر رکھے سو سائڈ نوٹ نے اسپیکٹراودھیش کمار پانڈے کے سامنے ساری کہانی بیان کر دی تھی۔سوسائڈ نوٹ میں لکھا ہوا تھا۔
میں پریم لتا۔
میری موت کا ذمے دار کوئی ایک شخص نہیں بلکہ پورا سماج ہے۔خاص طور سے میرے پتی پرمیشور جمنا پرشاد شرما اور میرا بیٹا موہن داس شرما۔یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے میری فیلنگس (Feelings)کو کبھی نہیں سمجھا ۔میں آج بھی اپنے پتی کی پوجا کرتی ہوں او ر اپنے اکلوتے بیٹے موہن سے بے انتہاء محبت کرتی ہوں ۔مجھے جیون بھر افسوس رہا اور مرنے کے بعد بھی اس کا دکھ رہے گا کہ نہ میرے پتی مجھے سمجھ سکے اور نہ میرا بیٹا۔۔پتی تو خیر ۔۔۔لیکن میرا بیٹا تو میرا ہی انش ہے۔مجھے اس کا دکھ ہے کہ اس نے بھی مجھے جیتے جی مارنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی۔
میں آج بتانا چاہتی ہوں کہ میں کبھی غلط نہیں تھی۔ہاں اتنا ضرور تھا کہ میں غریب اور پریشان لوگوں کو نہیں دیکھ سکتی تھی۔کیونکہ میری تربیت اسی طرح ہوئی تھی۔مجھے آج بھی یاد ہے کہ ہمارے گھر کے دروازے پر جب کوئی بھیک مانگنے آتا تو ممی میرے پاتھ سے اسے آٹا یا روپئے دلواتیں۔پتا جی دیکھتے تو کہتے۔
'' پریما سے بھیک کیوں دلواتی ہو؟؟؟ تم خود کیوں نہیں دیتیں؟؟؟میں بھی تو گھر میں ہوں ۔۔۔ذرا انتظار کیا کرو۔''تو مری ممی کہتیں۔
''آپ نہیں سمجھیں گے ۔۔۔پریما کو ابھی سے لوگوں کی مدد کی عادت ہونی چاہئے ۔۔۔تاکہ بڑی ہوکر اسے دکھی لوگوں کی سہایتا کرنے میں کوئی جھجھک نہ ہو۔''
اس طرح میری تربیت ہوئی۔مجھے ایک واقعہ اور یاد آرہا ہے جب میں کالج کی چھاترا تھی ۔ہندی میرا سبجیکٹ تھا ۔میں نے ہندی ساہتیہ کا گہن ادھین کیا تو میرے دل میں انسانیت کا جذبہ اور زیادہ ابھرنے لگا مجھے لگتا کہ دنیا میں انسانوں نے انسانوں کا حق مارا ہے اگر ہم غریبوں کی زیادہ سے زیادہ مدد کریں تواس سے بڑا کوئی پنیہ نہیں۔اس لئے میں نے اپنی فیس کے روپے ایک غریب رکشہ والے کو دے دئیے مجھے لگا کہ اگر یہ رکشہ ایک دن نہیں کھینچے گا اور اس کا روپیوں سے خرچہ پورا ہو جائے گا تو میرے من کو بہت شانتی ملے گی۔لیکن جب یہ بات پتا جی کو پتہ چلی تو انھوں نے مجھے بہت ڈانٹاان کا کہنا تھا کہ وہ دن بھر تالوں کی فیکٹری میں کڑی محنت کرکے روپیہ کماتے ہیں اور میں انھیں فضول کے کامو ں میں اڑا دیتی ہوں۔انھیں میری پڑھائی بھی پسند نہیں تھی ان کا کہنا تھا کہ میں ایم اے کر کے کیا کروں گی؟؟؟ جب کہ شادی کے بعد مجھے گھر گرہستی کا کام سنبھالنا ہے۔
اچانک ایک نوجوان کے رونے نے اسپیکٹر اودھیش کمار پانڈے کو اپنی طرف متوجہ کیا۔
''تم ۔۔۔۔تم کون ہو؟؟؟۔''
اسپیکٹر نے آنے والے نوجوان سے سوال کیا ۔
''جی ۔۔۔میں ۔۔موہن داس شرما۔''
''ہمم۔۔۔میڈم کے بیٹے؟؟؟۔''
''جی۔۔۔''
کس لئے ۔۔۔آئے ہو؟؟؟۔۔۔تمہارے پتا جی کہاں ہیں؟؟؟۔''
''جی وہ۔۔۔''
''کیا۔۔۔وہ؟؟؟۔''
''جی ۔۔۔انھوں نے آنے سے انکار کر دیا۔''
''جی !!!
مجھے معلوم ہے۔۔۔ویسے تمہارا آنا بھی۔۔۔تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گا۔''
''جی!!! میں جانتا ہوں۔۔۔ممی مجھ سے ناراض تھیں۔''
اسپیکٹر نے ذرا خاموش رہ کر کہا۔
''یہ ۔۔۔آپ کی ممی کا سوسائڈ نوٹ ہے ۔۔۔خود ہی پڑھ لو۔''
''نہیں ۔۔۔میں نہیں پڑھ سکتا ۔۔۔مجھ میں اتنی طاقت نہیں۔''موہن نے آستین سے آنسو پہنچتے ہوئے کہااور برابر میں صوفے پر بیٹھ گیا ۔وہیں 'بھوری' بھی بیٹھی تھی۔جو خاموشی کے ساتھ آنسو بہارہی تھی اور بار بار اپنے ملگجی دوپٹے سے اپنی آنکھوں کو صاف کر رہی تھی۔دونوں نے ایک نظر ایک دوسرے کو دیکھا اور اپنی اپنی نگاہیں پھیر لیں۔
پنکھے سے پریم لتا کی لاش اتاری جا چکی تھی اور اسے پوسٹ مارٹم کے لئے بھیجنے کی تیاری ہورہی تھی۔
اسپیکٹر اودھیش نے ایک بار لاش کی طرف دیکھا اس نے دیکھا کہ لاش کے چہرے پر عجیب سا سکون ہے۔اس نے لاش سے نگاہ ہٹاتے ہوئے ایک بار پھر سو سائڈ نوٹ کو پڑھنا شروع کیا۔نوٹ میں لکھا ہوا تھا۔
میری ممی ہمیشہ میرا دفع کرتیں اور مجھے پڑھنے کے لئے ہر آسانی مہیا کرتیں ۔ان کی محنت کا ہی نتیجہ ہے کہ میں آج 'سینٹ سیموئل کالج آف لٹریچرعلی گڑھ'' کی پرنسپل ہوں۔لیکن ہر آسانی اور دولت کی فراوانی ہونے کے باوجود میں ابھی تک وہی بچی ہوں جو بچپنے میں غریبوں کے لئے دل دکھایا کرتی تھی۔مجھے آج بھی کسی غریب کو سخت سست سنانا اچھا نہیں لگتا ۔میں اپنے دفتر کے پی آن 'اقبال' کو ہمیشہ 'اقبال بھائی' کہہ کر پکارتی ہوں۔مجھے بہت برا لگتا ہے جب کوئی ٹیچر انھیں ان کے نام سے پکارتا ہے۔وہ ہم سے بڑے ہیں انھوں نے کالج کو اپنی زندگی کے پینتیس سال دئیے ہیں ۔ان کے چہرے پر داڑھی ہے تو کیا ہوا ؟؟؟وہ اگر مسلمان ہیں تو کیا ہوا؟؟؟ وہ کوئی آتنک وادی تو نہیں۔
اسپیکٹر اودھیش نے نوٹ کی عبارت ابھی یہیں تک پڑھی تھی کہ اس کو ایک شور نے اپنی جانب متوجہ کیا۔اس نے کانسٹیبل سریش سے کہا ۔
''ذرا پتا لگائو۔۔۔یہ شور کیسا ہے؟؟؟''۔۔۔ان لوگوں سے کہو سوشل ڈسٹنسنگ کا خیال رکھیں۔۔۔کیا انھیں معلوم نہیں کہ کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈائون ہے؟؟؟۔''
یہ کہہ کر اسپیکٹر اودھیش پھر نوٹ پڑھنے میں مصروف ہوگیا۔اس میں لکھا ہوا تھا۔
وقت بھی کتنا ظالم ہے بڑی جلدی گذر جاتا ہے ۔پتہ نہیں کب میری شادی ہوگئی اور میں بیاہ کر گھنشیام پوری رام گھاٹ روڈ علی گڑھ سے میل روز اپارٹمنٹ بنا دیوی کے فلیٹ نمبر آٹھ میںآگئی۔یہاں کچھ دن تک سب ٹھیک رہا لیکن ایک دن میری تقدیر نے ایک موڑ لیا۔ سیموئل کالج آف لٹریچر علی گڑھ میں ہندی کے ٹیچرس کی جگہ نکلیں میں نے اپنے پتی جمنا پرشاد کو بتا یا تو انھوں نے کہا۔
''تمہیں معلوم ہے کہ ہمارے پاس کوئی کمی نہیں ۔۔۔ممی اور پاپا ۔۔۔تمہیں نوکری میں دیکھ کر خوش نہیں ہوںگے۔اور پھر موہن کی پرورش کا بھی تو سوال ہے۔''
لیکن میں اپنی ضد پر اڑی رہی اور کسی طرح نہ چاہتے ہوئے بھی میرے پتی میری نوکری کے لئے راضی ہوئے۔یہیں سے میری بربادی کا دور شروع ہوا ۔میں نے اسکول جانے کے لئے ایک رکشہ طے کیا ۔رکشہ والا غریب طبقے سے تعلق رکھتا تھا۔ایک دن میں جب کالج سے لوٹ رہی تھی۔تو مجھے اندازہ ہوا کہ وہ کچھ اداس ہے۔مجھ سے رہا نہ گیا میں نے کہا۔
''شاداب بھائی کیا ہوا؟؟؟کیوں اداس ہو؟؟؟
''نہیں !!! میم ساب کوئی بات نہیں۔''
''کچھ تو بات ہے؟؟؟''
''ہاں !!! جے بات ہے کہ ہم کل سے آپ کو کالج نہ لے جاسکیں گے۔''
''کیوں؟؟؟''
''وہ ۔۔۔ہم بتا نہیں سکتے۔۔۔آپ کو گھر پہنچ کر خودی پتہ لگ جائے گا۔''
شام کے پانچ بج چکے تھے فروری کا مہینہ تھا سردی ابھی پائوں پسارے ہوئے علی گڑھ میں اپنے رنگ دکھا رہی تھی۔میں روز کی طرح گھر پہنچی۔دروازہ کھٹکھٹایا ۔تو موہن نے کھولا۔گھر میں ایک چبھتی ہوئی خاموشی نے میرا استقبال کیا۔ڈرائنگ روم میں ہمارے پڑوسی اجے پال یادوبیٹھے تھے۔ان کے برابر میں صوفے پر میری ساس سسر اور میرے پتی بیٹھے تھے۔
جمنا پرشاد نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا ۔۔کہاں سے آرہی ہو؟؟میں نے جواب دیا ۔
''کیا تمہیں نہیں معلوم؟؟؟''
''معلوم ہے۔۔۔یہ بتائو کہ تم جس رکشے والے کے ساتھ آتی ہو وہ تمہیں کیسا لگتا ہے؟؟؟''
میرے پتی کے اس سوال نے میرے دل کو اندر تک زخمی کردیا۔
''کیا ۔۔۔کیا ۔۔مطلب؟؟؟''میں نے اپنے غصے کو قابو کرتے ہوئے کہا۔
''مطلب یہ کہ اجے پال بھائی صاحب نے ۔۔تمہیں ۔۔۔'''
''کیا۔۔۔تمہیں؟؟؟''
اچانک میرے جگر کا ٹکڑا موہن بول اٹھا ۔
''آپ نے رکشے والے کو دس ہزار روپے بینک سے نکال کر دئیے ۔یہ اجے پال انکل نے اپنی آنکھوں سے دیکھا''۔
''تو کیا ہوا؟؟؟ہاں دئیے۔۔۔اس میں غلط کیا ہے؟؟؟''
میں نے برجستہ جواب دیا۔
''ممی ایک تو وہ غریب ۔۔۔اور پھر ۔۔۔پھر ۔۔۔مسلمان۔۔۔آپ نے ایک مسلمان کی مدد کی۔۔۔ کیوں؟؟؟''
''اس کی لڑکی کی شادی تھی۔۔اسے پیسوں کی ضرورت تھی۔''
یکایک میری ساس پائل دیوی بول اٹھیں۔
''تمہارے اس کے ساتھ ۔۔۔۔''
جملہ ادھورا ہی رہ گیا لیکن مجھے تکلیف پہنچا گیا۔ایسا لگا کسی نے میرے دل میں ہزاروں چھریاں پیوست کر دیں ہوں۔
سسر جی بھی کہاں پیچھے رہنے والے تھے۔غصے سے بولے۔
''دیکھ پریما۔۔۔ تیری بہت شکایت آرہی ہیں۔۔۔کبھی تو سبزی والے سے بولتی ہے۔۔کبھی پھل والے کو دیکھ کر مسکراتی ہے۔۔۔ساری سوسائٹی میں تیرے چرچے ہو رہے ہیں۔۔۔اور۔۔۔ہماری ناک کٹ رہی ہے۔''
جمنا پرشاد کی آنکھوں میں لہو تیر رہا تھا اس نے آئو دیکھا نہ تائو میرے بال پکڑ کر ایک طمانچہ لگاتے ہوئے بولا ۔۔۔اب تو کبھی کالج نہیں جائے گی۔''
''میں ضرور جائوں گی۔''
میں نے بھی غصے کے عالم میں کہا۔مجھے سب سے زیادہ اس بات کا افسوس تھا کی مجھے پڑوسی کے سامنے مارا گیا تھا۔رات جیسے تیسے کٹی۔اگلی صبح جب میں کالج کے لئے تیار ہوئی تو جمنا پرشادنے موہن سے کہا ۔
''اپنی ممی سے کہہ دے اگر گھر سے باہر گئی تو پھر کبھی لوٹ کر یہاں نہ آئے۔''
ابھی اسپیکٹر سوسائڈ نوٹ پڑھ ہی رہا تھا کہ اس نے دیکھا کہ پریم لتا کا اسٹاف اس کی موت کی خبر پاکر اس کے گھر آچکا تھا۔
ایک ضعیف داڑھی والے بوڑھے نے جیوں ہی یہ منظر دیکھا کہ پریم لتا کی لاش زمین پر پڑی ہوئی ہے ۔بے تحاشہ رونے لگا،ایک تلک دھاری ادھیڑ عمر کے شخص نے اسے خاموش کرایا ۔
''اقبال بھائی ۔۔۔صبر کرو۔۔۔شانت رہو۔۔۔میڈم کے مرنے کا دکھ ہمیں بھی ہے۔''
اچانک اسپیکٹر کو محسوس ہوا کہ سوسائڈ نوٹ ایک بار پھر اسپیکٹر سے مخاطب ہے اور کہہ رہا ہے مجھے مکمل پڑھو۔اس میں آگے لکھا ہوا تھا۔
تقریباً تین سال ہو چکے ہیں اب میں ایک کرائے کے مکان پرکوارسی بائی پاس میں پی اے سی کے پاس رہتی ہوں۔یہاں بھی آکر مجھے سکون نہیں ۔پتی اور بیٹے نے تو کب کا قطع تعلق کر لیا ہے لیکن یہاں کے آس پاس کے لوگ بھی مجھے تکلیف پہنچاتے ہیں مجھ پر طرح طرح کے طنز کرتے ہیں۔اس میں میرا کیا قصور ہے کہ میں ایک غریب بھکارن کو اپنے گھر یہ سوچ کر لے آئی ہوں کہ کورونا وائرس کی وجہ سے غریبوں پر فاقہ کشی کی نوبت ہے۔میری مراد' بھوری' سے ہے یہ مجھے تقریباً ڈیڑھ سال پہلے آکر ملی تھی میں اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھی میرا بائی کی رچنائیں پڑھ رہی تھی کہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایااور آواز آئی۔
''اﷲکے نام پر دے دو باجی۔۔۔۔اﷲکے نام پر دے دو باجی۔۔۔''
مجھے تعجب ہواکہ ہمارے محلے میں اﷲکے نام پر مانگنے والا کون آگیا ؟؟؟کیا اسے یہاں ڈر نہیں لگتا؟؟؟خیر میں نے اسے دس کا نوٹ دیا۔اب وہ روزانہ شام کو میرے دروازے پر یہی صدا دیتی۔
''اﷲکے نام پر دے دو باجی۔۔۔۔اﷲکے نام پر دے دو باجی۔۔۔''
ایک دن میرے ایک پڑوسی کو شکایت ہو ہی گئی ۔
''آپ کو معلوم ہے میڈم یہ مانگنے والی کون ہے؟؟؟''
''کون ہے گپتا جی؟؟؟۔۔۔انسان اور کون؟؟؟۔۔۔وہ بھی غریب۔۔۔میں اس کے بارے میں جانتی ہوں جیون گڑھ میں رہتی ہے۔۔۔اس کا پتی شرابی ہے۔کچھ کماتا نہیں اسے مارتا الگ ہے۔۔۔بچہ کوئی ہے نہیں ۔''
گپتا جی چڑ کر بولے۔
''آپ تو پتہ نہیں کہاں کہاں کی کتھا سنانے لگیں۔۔۔آپ کو معلوم ہے یہ مسلمان ہے۔۔۔اور ۔۔۔مسلمانوں سے میں نفرت کرتا ہوں۔۔''
''وہ کیوں؟؟؟''
''یہ چور۔۔اچکے۔۔۔اور ۔۔۔آتنک وادی ہوتے ہیں۔۔۔دیش سے محبت نہیں کرتے۔۔۔غدار ہیں۔۔۔''
''میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
''کس نے کہا؟؟؟''
''ارے!!! لیجئے ساری دنیا کہتی ہے۔۔۔نیوز چیلنزنہیں دیکھتیںآپ؟؟؟۔''
بات ختم ہوگئی لیکن محلے میں ایک نئے انداز میں میری بدنامی شروع ہوگئی۔اس بدنامی کو اس وقت اور پر لگے جب کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈائون ہوا تو ایک دن صبح سویرے 'بھوری 'روتی ہوئی میرے گھر آئی۔
''میڈم جی!!! میڈم جی!!! میرے شوہر نے آج مجھے بہت مارا۔''
''کیوں؟؟؟۔''
میں نے اسے ڈارئنگ روم میں پڑے ہوئے صوفے پر بیٹھنے کے لئے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔وہ نیچے فرش پر بیٹھنے لگی۔میں نے کہا۔
''زمین پر نہیں صوفے پر بیٹھو۔''
میں نے محسوس کیا کہ اس کے سانولے رنگ میں مزید اضافہ ہو چکا تھا اور اس کی گردن پر کٹے کا نشان تھا۔
اس واقعہ کے بعد وہ میرے گھر پر ہی رہ رہی ہے۔لیکن آج مجھے بہت افسوس ہوا جب میرے پاس میرے بیٹے کا فون آیا۔
''ممی !!! بہت ہوا۔۔۔پہلے آپ رکشے والے کے ساتھ گھومتی تھیں اور اب ایک مسلمان بھکارن کے ساتھ آپ کے۔۔۔۔''
اس کی بات ادھوری ہی رہ گئی اور میں نے فون کاٹ دیا۔
میں سب کچھ برداشت کر سکتی ہوںلیکن اپنوں کی غلط فہمی نہیں ،خاص طور سے اپنے بیٹے موہن کی۔اس لئے میں خود کو ختم کر رہی ہوں بھوری بغل کے کمرے میں سو رہی ہے اور میں ہمیشہ کے لئے سونے جا رہی ہوں۔میرے بعد میرے بینک میں جتنا روپیہ ہے اس کی مالک بھوری ہے اور میرے پتی اور بیٹے کو میرے انتم سنسکار میں نہ آنے دیا جائے۔
پریم لتا ۔شانتی کٹیر۔4/222کوارسی نیر پی اے سی علی گڑھ۔
سوسائڈ نوٹ نے پریم لتا کی ساری کہانی بیان کر دی تھی۔اسپیکٹر اودھیش کمار کی آنکھوں میں چند آنسوئوں کے قطرے جھلک کر خشک ہو گئے۔برابر میں ایک گھر سے ٹی وی کی زور سے آواز آرہی تھی۔''مسلمانوں کی وجہ سے پھیلا کورونا وائرس۔''

Saturday 18 April 2020

بھارتی مسلمانوں کے لیے 'صورت حال نسل کشی کی طرف جا رہی ہے،' ارون دتی رائے

ارون دتی رائے نے جمعہ سترہ اپریل کو ڈوئچے ویلے کو دیے گئے ایک انٹرویو میں خبردار کیا کہ اس وقت پوری دنیا میں پھیل چکی کورونا وائرس کی وبا کے تناظر میں بھارت میں اس وبائی مرض کی آڑ میں جو صورت حال پیدا ہو رہی ہے، اس پر پوری دنیا کو نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
ایک ارب تیس کروڑ کی آبادی والے ملک بھارت میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ملکی سطح پر لاک ڈاؤن کے چھ میں سے تین ہفتے پورے ہو چکے ہیں۔ نئی دہلی میں مودی حکومت کا کہنا ہے کہ اس لاک ڈاؤن کا مقصد کووِڈ انیس نامی مرض کا سبب بننے والے وائرس کے پھیلاؤ کے سلسلے کو منقطع کرنا ہے۔ تاہم جنوبی ایشیا کے اس ملک میں کورونا وائرس کے خلاف جدوجہد کا ایک مذہبی پہلو بھی ہے۔ مثال کے طور پر شہر میرٹھ میں مسلم اقلیتی شہریوں کو اس لیے نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ چند مقامی شخصیات کے بقول وہ مبینہ طور پر 'کورونا جہاد' کر رہے تھے۔
'مسلمانوں کے خلاف نفرت کا بحران'
ڈی ڈبلیو نیوز نے اس پس منظر میں معروف بھارتی ناول نگار اور سماجی کارکن ارون دتی رائے کے ساتھ ایک انٹرویو میں ان سے یہ پوچھا کہ وہ کیا کہنا چاہیں گی کہ اس وقت ان کے اپنے وطن میں کیا ہو رہا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ارون دتی رائے نے کہا، ''بھارت میں کووِڈ انیس کا مرض اب تک کسی حقیقی بحران کی وجہ نہیں بنا۔ اصل بحران تو نفرت اور بھوک کا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ایک بحران ہے، جس سے قبل دہلی میں قتل عام بھی ہوا تھا۔ قتل عام، جو اس بات کا نتیجہ تھا کہ لوگ شہریت سے متعلق ایک مسلم مخالف قانون کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ اس وقت بھی جب ہم یہ گفتگو کر ر ہے ہیں، کورونا وائرس کی وبا کی آڑ میں بھارتی حکومت نوجوان طلبہ کو گرفتار کرنے میں لگی ہے۔ وکلاء، سینیئر مدیران، سیاسی اور سماجی کارکنوں اور دانشوروں کے خلاف مقدمات قائم کیے جا چکے ہیں اور ان میں سے کچھ کو تو حال ہی میں جیلوں میں بند بھی کیا جا چکا ہے۔''
ڈی ڈبلیو نیوز کی سارہ کَیلی نے اس انٹرویو میں ارون دتی رائے سے یہ بھی پوچھا کہ اگر ان کے بقول بھارت میں اصل بحران نفرت کا بحران ہے، تو پھر ایک سماجی کارکن کے طور پر خود ان کا بھارت کی ہندو قوم پسند حکومت کے لیے اپنا پیغام کیا ہو گا، جو بظاہر کشیدگی کو ہوا دے رہی ہے؟
اس سوال کے جواب میں متعدد ناولوں کی انعام یافتہ مصنفہ ارون دتی رائے نے کہا، ''مقصد ہی یہی ہے۔ آر ایس ایس نامی وہ پوری تنظیم جس سے وزیر اعظم مودی کا بھی تعلق ہے اور جو حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے پیچھے فعال اصل طاقت ہے، وہ تو عرصے سے یہ کہتی رہی ہے کہ بھارت کو ایک ہندو ریاست ہونا چاہیے۔ اس کے نظریہ ساز بھارتی مسلمانوں کو ماضی کے جرمنی میں یہودیوں سے تشبیہ دے چکے ہیں۔ جس طرح بھارت میں کووِڈ انیس نامی بیماری کو استعمال کیا جا رہا ہے، وہ طریقہ کافی حد تک ٹائیفائیڈ کے اس مرض جیسا ہے، جسے استعمال کرتے ہوئے نازیوں نے یہودیوں کو ان کے مخصوص رہائشی علاقوں میں ہی رہنے پر مجبور کیا تھا۔ میں بھارت میں عام لوگوں اور دنیا بھر کے انسانوں کو یہی کہوں گی کہ وہ اس صورت حال کو بہت ہلکے پھلکے انداز میں نہ لیں۔''
'بھارت میں صورت حال نسل کشی کی طرف بڑھتی ہوئی'
ارون دتی رائے نے اپنی اس تنبیہ کی وضاحت کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ''بھارت میں اس وقت صورت حال نسل کشی کی طرف جا رہی ہے، کیونکہ حکومت کا ایجنڈا یہی رہا ہے۔ جب سے موجودہ حکومت اقتدار میں آئی ہے، مسلمانوں کو جلایا گیا اور ان کا شکار کیا گیا۔ لیکن اب مسلمانوں کے اس وبا کے ساتھ نتھی کیے جانے سے حکومتی پالیسیاں کھل کر سڑکوں تک پر آ گئی ہیں۔ آپ ہر جگہ ان کی بازگشت سن سکتے ہیں۔ اس بات کے ساتھ شدید تشدد اور خونریزی کا خطرہ بھی جڑا ہوا ہے۔ اب تو اسی شہریت ترمیمی قانون کا نام لے کر حراستی مراکز کی تعمیر بھی شروع ہو چکی ہے۔ اب اس صورت حال کو بے ضرر سا بنا کر اور کورونا وائرس کی وبا سے منسوب کر کے ایسا کچھ کرنے کی کوشش کی جائے گی، جس پر دنیا کو اچھی طرح نظر رکھنا چاہیے۔ اس سے زیادہ اس خطرے کی نشاندہی میں نہیں کر سکتی۔''
ارون دتی رائے نے حال ہی میں اپنے ایک مضمون میں بھی لکھا تھا کہ بھارت کے موجودہ حالات ایک ایسا المیہ ہیں، جو بہت بڑا اور حقیقی تو ہے لیکن نیا نہیں ہے۔ ''تو پھر اس المیے کی نشاندی کے حوالے سے کس کی آنکھیں کھلی ہیں اور کس کی آنکھیں بند ہیں؟'' اس پر رائے کا جواب تھا، ''دنیا کی آنکھیں بند ہیں۔ ہر بین الاقوامی رہنما وزیر اعظم (نریندر مودی) کا خیر مقدم کرتا اور گلے ملتا نظر آتا ہے، حالانکہ وہ بھی تو خود اس پورے ایجنڈے کا حصہ ہیں۔ جب پرتشدد واقعات شروع ہوتے ہیں، تو مودی خاموش رہتے ہیں۔ دہلی میں جو گزشتہ قتل عام ہوا، وہ وہی وقت تھا جب امریکی صدر ٹرمپ بھی بھارت کے دورے پر تھے۔ لیکن ٹرمپ نے بھی کچھ نہ کہا۔ کوئی بھی کچھ نہیں کہتا۔ اسی طرح بھارتی میڈیا بھی، سارا نہیں لیکن اس کا ایک حصہ، آج کل ایک نسل کش میڈیا بنا ہوا ہے، ان جذبات کی وجہ سے جن کو ابھارنے کا وہ کام کر رہا ہے۔ بھوک کے اس بحران کی تو میں نے ابھی بات ہی نہیں کی، جس کا کئی ملین بھارتی باشندوں کو سامنا ہے۔''

Sunday 12 April 2020

The similarity between Judaism and Islam:


There is a common perception that Muslims and Jews have been at odds for hundreds of years. Consequently, it is often stated that the “Muslim-Jewish conflict” can never be resolved. However, this is historically inaccurate. People mistakenly conflate the Israeli-Palestinian conflict with Islam and Judaism. Even then, the Israeli-Palestinian conflict started in 1948, prior to that there were very few wars between Muslims and Jews. This is not meant to downplay the conflicts that do occur but to contextualize them historically. These two faiths share more in common than many might initially think. With the rise of anti-Semitism and Islamophobia around the world, it is important to understand what these two faiths have in common.
The Qur’ān refers to Jews and Christians as people of the bookأهل الكتاب.This means that they have a special place and treatment because of their similar beliefs with Muslims. Many might be surprised to know that Islam allows Muslim men to marry Jewish or Christian women. Further, Islam allows Muslims to eat meat that was properly slaughtered by a Jew or Christian. The two faiths are not as radically different than some might expect. The purpose of this article is to dispel the myth that Islam and Judaism are completely at odds by highlighting some of the similarities between the two religious traditions.
They worship the same God
Islam and Judaism are resolutely monotheistic faiths. Allah is the Arabic name for God. The Arabic name Allah has linguistic connotations that are not shared with the English term God. For instance, the word Allah cannot be made plural like the word God. Nevertheless, Allah is the same Creator, Sustainer, and Provider that Jews and Christians worship.
Jesus
Because these two faiths are strictly monotheistic in nature, they both do not consider Jesus to be divine. They both consider it blasphemous to attribute a literal son to God. The idea that God has a son is inconsistent with the uncompromising monotheistic message found both in the Qur’ān and Torah. However, unlike Jews, Muslims believe that Jesus is a great Prophet of God who delivered the message of Oneness to the Children of Israel and that his mother Mary was the greatest of all women.
Prophets
Muslims and Jews share beliefs in certain Prophets. They both believe that God sent Prophets to mankind to deliver the message of monotheism. Jews believe that Moses is the greatest of all Prophets who was sent to mankind. Muslims also believe in Moses, who is, in fact, the Prophet most mentioned in the Qur’ān. Muslims and Jews also believe in Abraham, Noah, David, Solomon, Isaac, Jacob, and Joseph. Because Muslims believe in all Prophets and Messengers, they also believe in the scripture they delivered. Therefore, Muslims believe that Moses was given a book called the Torah. However, they believe this book was not preserved in its original form. For Muslims the Prophet Muhammad, God’s final Messenger to mankind who delivered the final book, the Qur’ān.
Jerusalemبيت المقدس
Historically, many of these Prophets resided in the city of Jerusalem. Both Islam and Judaism consider Jerusalem to be a holy city. Prophet Solomon established the first Temple in Jerusalem which made it the religious centre for Judaism. Jerusalem is Islam’s third-holiest city after Mecca and Medina. Prophet Muhammad was taken on a miraculous journey from Mecca to Jerusalem and then ascended to the heavens.
Circumcision
Islamic law and Jewish law share many things in common. In the Bible, Abraham was commanded to undergo circumcision. This practice has been established among Abraham’s children. The Torah instructs that newborns be circumcised on the eighth day after birth. The command for circumcision is not in the Qur’ān, but the Prophet Muhammad peace be upon him required it for his male followers.
Dietary Restrictions
Jews only eat kosher and Muslims only eat halal. There are many similarities between kosher and halal, and in some cases, kosher is considered halal for Muslims. Some kinds of foods, such as pork, are prohibited in both Islam and Judaism. Other kinds of foods must be prepared in a certain way for them to be permissible for consumption. The animal must be slaughtered properly, mentioning the name of God, and for Jews, the person must be Jewish. However, Muslims are allowed to consume an animal if it is slaughtered by a Muslim, Jew, or Christian.
Female Head Covering
Both religions encourage modesty and require that women cover their hair. This is not meant to detract from women’s beauty, but to channel it to her marriage where it truly belongs. Many married Jewish women wear a scarf to cover their hair. Islam instructs that women wear a headscarf (hijab) after puberty. Along with the head covering, both religions encourage women to dress modestly. This includes wearing long and loose-fitting clothing. Although they both cover in very similar ways after 9/11 Muslim women have been targeted for their hijabs more than women of other faiths.