https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Monday 29 November 2021

کیاحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا وراثت کے مسئلہ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ناراض رہیں


امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ صحیح بخاری میں حدیث پیش کرتے ہیں۔
حدثنا عبد الله بن محمد حدثنا هشام أخبرنا معمر عن الزهري عن عروة عن عائشة أن فاطمة والعباس عليهما السلام أتيا أبا بکر يلتمسان ميراثهما من رسول الله صلی الله عليه وسلم وهما حينئذ يطلبان أرضيهما من فدک وسهمهما من خيبر فقال لهما أبو بکر سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول لا نورث ما ترکنا صدقة إنما يأکل آل محمد من هذا المال قال أبو بکر والله لا أدع أمرا رأيت رسول الله صلی الله عليه وسلم يصنعه فيه إلا صنعته قال فهجرته فاطمة فلم تکلمه حتی ماتت

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس رسول اللہ کے (ترکہ میں سے) اپنے میراث مانگنے آئے اور وہ دونوں اس وقت فدک کی زمین اور خیبر کی زمین سے اپنا حصہ وصول کر رہے تھے تو ان دونوں سے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہمارا کوئی وارث نہ ہوگا اور جو کچھ ہم نے چھوڑا وہ صدقہ ہے صرف اس مال سے آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھائیں گے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا خدا کی قسم میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو کام کرتے ہوئے دیکھا ہے اس کو نہیں چھوڑتا ہوں چنانچہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملنا جلنا چھوڑ دیا اور ان سے گفتگو چھوڑ دی یہاں تک کہ وفات پاگئیں۔
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1645 ،- فرائض کی تعلیم کا بیان :
منکرین حدیث اس حدیث پر اعتراض کرتے ہیں کہ اگر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس فیصلے کو ماننےسے انکار کیوں کیا؟؟؟ اور ساتھ ہی یہ اعتراض بھی نقل کرتے ہیں کہ یہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی شان پر بھی چوٹ پڑتی ہے ۔کیونکہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے مرتے دم تک ابوبکر رضی اللہ عنہ سے گفتگو کی اور نہ ہی ملاقات کی۔

جواب:-

دراصل یہاں صرف اور صرف مغالطوں سے کام لیاگیا ہے،کیونکہ اگر تمام طرق احادیث اسی مسئلہ پر جمع کیے جائیں تو یہ سارے اعتراضات کا لعدم ہوجاتے ہیں۔رہی بات اس مسئلے کی کہ حضرت  فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی پیش کردہ حدیث مانے سے انکار کیوں کیا؟؟تو اس بات کو ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ حضرت  فاطمہ رضی اللہ عنہا تک یہ حدیث نہ پہنچی تھی تب تو انہوں نے وراثت مانگی لیکن جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ انہیں حدیث سنائی تو انہوں نے کبھی بھی وراثت کا سوال نہیں کیا۔اور نا ہی کسی صحیح حدیث میں موجود ہے کہ انہوں نے حدیث سننے کے بعد حدیث کی مخالفت کی ہو۔لہذا یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل طور پر عاملہ تھیں۔
جن احادیث میں یہ ذکر ہو اہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کبھی بھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے گفتگونہیں کی. اس سے مرادیہ  ہے کہ وراثت کے مسئلے کے لیے گفتگو نہیں فرمائی. ملاقات ترک کرنے کی کوئی واضح دلیل موجود نہیں ہے۔
حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:۔
{فھجرتہ فاطمۃ فلم تکلمہ حتیٰ ماتت} ووقع عندبن شبۃ من وجہ اٰخر عن معمر{فلمہ تکلمہ فی ذالک المال}فتح الباری ،ج 6 ،ص164
ترجمہ:-{فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملاقات ترک کی اور مرتے دم تک ان سے گفتگو نہ کی}معمر سے بطریق یہ روایت ہے کہ {جس روایت میں یہ ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے گفتگو نہ کی اس سے مراد یہ ہے کہ } فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے وراثت کے مال کے بارے میں گفتگو نہ کی۔"
یعنی وراثت کے مسئلے پر گفتگو نہ کی لہذا اگر کوئی ان باتوں سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مطلق ناراضگی مرادلے گا تو یہ غلط ہے۔کیونکہ دوسری روایت اس بات پر شاہد ہیں کہ حضرت  ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے گفتگو بھی فرمائی اور ان سے ملاقات بھی کی ۔
امام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب السنن الکبری میں ذکر فرماتے ہیں۔
"امام مرضت فاطمۃ رضی اللہ عنہا اتاھا ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ فاستاذن علیھا فقال علیٰ : یافاطمۃ ؛ ھذا ابوبکر یستاذن علیک فقالت : اتحب ان اذن لہ قال نعم فاذنت لہ فدخل علیھا یترضاھا"{السنن الکبری ، ج 6 ،ص 491 ،رقم 12735
ترجمہ:-"جب فاطمہ رضی اللہ عنہا بیمار ہوئیں تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کے پاس تشریف لائے اور آنے کی اجازت طلب کی تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : فاطمہ ، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے ہیں آپ سے ملنے کی اجازت طلب کر رہے ہیں۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کیا آپ ان سے ملاقات کی اجازت دیں گے ؟؟تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیوں نہیں؟ پس وہ تشریف لائے اور ان کو راضی کیا۔"
سبحان اللہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تمام اعمال اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کے لیے ہوا کرتے تھے ۔الحمدللہ اس حدیث نے واضح کردیا کہ ان میں کو ئی بھی ایک دوسرے سے خفا نہیں تھا اور نہ ہی ناراضی تھی بلکہ احا دیث ہی پر عمل پیرا ہوتے تھے اور اپنی دنیا اور آخرت کی نجات بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم اتباع میں ہی سمجھتے تھے۔

Sunday 28 November 2021

کیکڑے کی خرید و فروخت اورکھانے کاحکم

 حنفی مسلک کے اعتبار سے کیکڑے کا کھانا جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ یہ مچھلی کے قبیل سے نہیں ہے، اور پانی کے جانوروں میں سے صرف مچھلی کا کھانا حلال ہے، جہاں تک اس کی بیع کی بات ہے تو کسی نفع کی غرض سے کیکڑے کی خریدو فروخت کر سکتے ہیں۔ ”ولا یحل حیوان مائي إلا السمک“ (الدر المختارمع الشامی: ۹/۴۴۴، ط: زکریا)

اصول کرخی اور غلط فہمیاں



امام ابوالحسن الکرخی (متوفی 340)فقہ حنفی کے معتبر ائمہ میں سے ہیں۔ وہ امام طحاوی کےہم عصر ہیں اورامام طحاوی کے شیوخ واساتذہ سے علم حاصل کیاتھا۔امام کرخی کے شاگردوں میں بڑے با کمال اور نامورفقہاء ہوئے ہیں۔اسی کے ساتھ ساتھ وہ نہایت زاہد وعابد بھی تھے ۔کئی مرتبہ کو ان کے علمی مرتبہ ومقام کی وجہ سے عہدہ قضاپیش کیاگیا لیکن انہوں نے باوجود تنگدستی کے انکار کردیا۔صرف اسی پر بس نہیں بلکہ ان کے شاگردوں میں سے جوبھی فرد قضاء کا عہدہ قبول کرتاتھا۔ اس سے تعلقات ترک کردیتے تھے۔
آخرعمر میں جب فالج کا حملہ ہواتوان کے شاگردوں نے یہ سوچ کرکہ اس بیماری کے علاج کیلئے خاصی رقم کی ضرورت ہے۔سیف الدولہ ابن حمدان کو خط لکھ کر ان کے حال کے تعلق سے واقف کرایا۔سیف الدولہ نے ان کیلئے دس ہزاردرہم بھیجا۔ان کو اس سے قبل پتہ چل چکاتھاکہ میرے شاگردوں نے ایساکیاہے۔انہوں نے بارگاہ الہی میں دعاکیاکہ اے اللہ اس رقم کے مجھ تک پہنچنے سے پہلے تومجھ کو اپنے پاس بلالے۔ایساہی ہوا۔سیف الدولہ کی رقم پہنچنے سے پہلے ان کا انتقال ہوگیا۔رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ

اصول فقہ میں انہوں نے مختصر طورپرایک کتاب لکھی ہے ۔اوراس کو اصول فقہ کیوں کہئے اس کے بجائے مناسب ہے کہ اس کوقواعدفقہ کی کتاب کہئے ۔جس میں فقہ کے چند بنیادی قاعدے بیان کئے گئے ہیں۔

اس میں انہوں نے ایک دوباتیں ایسی ذکر کی ہیں جن سے بظاہرایسالگتاہے کہ قرآن وحدیث پر ائمہ کے اقوال کو ترجیح دی جارہی ہے لیکن درحقیقت ایسانہیں ہے اورجومطلب ہے وہ پوری طرح قابل قبول اورعقل وفہم میں آنے والا اورقرآن حوحدیث کے سے کسی بھی طرح متصادم نہیں ہے۔ اس کی حقیقت کو سمجھے بغیر اورغوروفکر کئے بغیر کچھ لوگ فوراتبراشروع کردیتے ہیں اورصرف امام ابوالحسن الکرخی کے ساتھ یہ معاملہ نہیں کرتے بلکہ پورے جمعیت احناف کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں یہ ان کی روایتی قلت فہم کی نشانی ہے کہ کسی بات کو سمجھے اورس کی حقیقت معلوم کئے بغیر فوراطعن وتشنیع شروع کردینا۔

امام ابوالحسن الکرخی اصول میں لکھتے ہیں۔
ان کل آیتہ تخالف قول اصحابنافانھاتحمل علی النسخ او علی الترجیح والاولی ان تحمل علی التاویل من جھۃ التوفیق

ہروہ آیت جو ہمارے اصحاب کے قول کے خلاف ہوگی تواس کو نسخ پر محمول کیاجائے گا یاترجیح پر محمول کیاجائے گا اوربہتر یہ ہے کہ ان دونوں میں تاویل کرکے تطبیق کی صورت پیداکی جائے۔

ان کل خبریجی بخلاف قول اصحابنا فانہ یحمل علی النسخ اوعلی انہ معارض بمثلہ ثم صارالی دلیل آخر اوترجیح فیہ بمایحتج بہ اصحابنامن وجوہ الترجیح اویحمل علی التوفیق،وانمایفعل ذلک علی حسب قیام الدلیل فان قامت دلالۃ النسخ یحمل علیہ وان قامت الدلالۃ علی غیرہ صرناالیہ ۔(اصول البزدوی ویلیہ اصول الکرخی ص374)

(ترجمہ )ہروہ خبر جو ہمارے اصحاب کے قول کے خلاف ہوگی تو وہ نسخ پر محمول کی جائے گی،یاوہ اسی کے مثل دوسری حدیث کے معارض ہوگی توپھرکسی دوسرے دلیل سے کام لیاجائے گایاجس حدیث سے ہمارے اصحاب نے استدلال کیاہے اس میں وجوہ ترجیح میں سے کوئی ایک ترجیح کی وجہ ہوگی یاپھر دونوں حدیث میں تطبیق وتوفیق کا راستہ اختیار کیاجائے گا اوریہ دلیل کے لحاظ سے ہوگا۔ اگر دلیل معارض حدیث کے نسخ کی ہے تونسخ پر محمول کیاجائے گا یااس کے علاوہ کسی دوسری صورت پر دلیل ملتی ہے تو وہی بات اختیار کی جائے گی۔

یہی وہ عبارت ہے جس کی حقیقت سمجھے بغیر لوگ اناپ شناپ کہتے رہتے ہیں اوراس میں پیش پیش وہ لوگ  ہیں جن کا علم اردو کی کتابوں اورچند عربی کتابوں کے اردو ترجمہ کی حدتک محدود ہے ۔اپنے معمولی علم وفہم کو کام میں لاکر کنویں کے مینڈک کی طرح وہ یہی سمجھتے ہیں کہ جوکچھ میں نے سمجھاہے وہی حرف آخر ہے اوراس کے علاوہ کوئی دوسرانقطہ نظر قابل قبول ہی نہیں ہے۔

امام کرخی کے قول کا مطلب کیاہے اس کا جواب کئی اعتبار سے دیاجاسکتاہے۔

1:کسی بھی قول کابہتر مطلب قائل یاقائل کے شاگردوں کی زبانی سمجھنابہتر ہوتاہے کیونکہ وہ قائل کے مراد اورمنشاء سے دوسروں کی بنسبت زیادہ واقف ہوتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ جو بات کہی گئی ہے یالکھی گئی ہے اس میں کیامطلق اورکیامقید ہے کون سی بات ہے جو بظاہر تومطلق ہے لیکن وہ درحقیقت وہ مقید ہے۔اوراسی وجہ سے محدث الھند شاہ ولی اللہ دہلوی نے ائمہ اربعہ کی ہی اتباع اورپیروی کوواجب کہا ہے اوردیگر مجہتد ین کی پیروی سے منع کیاہے۔(دیکھئے عقد الجید)

امام کرخی کے شاگردوں کے شاگرد ابوحفص عمر بن محمد النسفی ہیں جو اپنے علمی تبحر کیلئے مشہور ہیں اور ان کی کتابیں فقہ حنفی کا بڑا ماخذ سمجھی جاتی ہیں۔ان کا انتقال 537ہجری میں ہوا۔انہوں نے اصول کرخی کے اصولوں کی تشریح کی ہے وہ کیاکہتے ہیں۔اسے بھی دیکھیں۔ وہ پہلے اصول ان کل آیتہ کی تشریح اور مثال میں لکھتے ہیں۔

قال(النسفی)من مسائلہ ان من تحری عندالاشتباہ واستدبرالکعبۃ جاز عندنالان تاویل قولہ تعالیٰ فولوا وجوھکم شطرہ اذاعلمتم بہ ،والی حیث وقع تحریکم عندالاشتباہ،اویحمل علی النسخ،کقولہ تعالیٰ ولرسولہ ولذی القربی فی الآیۃ ثبوت سھم ذوی القربی فی الغنیمۃ ونحن نقول انتسخ ذلک باجماع الصحابہ رضی اللہ عنہ او علی الترجیح کقولہ تعالیٰ والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا ظاہریقتضی ان الحامل المتوفی عنھازوجھا لاتنقضی عدتھا بوضع الحمل قبل مضی اربعۃ اشھر وعشرۃ ایام لان الآیۃ عامۃ فی کل متوفی عنھازوجھا حاملااوغیرھا وقولہ تعالیٰ اولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن یقتضی انقضاء العدۃ بوضع الحمل قبل مضی الاشھر لانھاعامۃ فی المتوفی عنھازوجھا وغیرھا لکنارجحناھذہ الآیۃ بقول ابن عباس رضی اللہ عنھما انھانزلت بعد نزول تلک الآیۃ فنسختھا وعلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جمع بین الاجلین احتیاطا لاشتباہ التاریخ۔(اصول البزدوی ویلیہ اصول الکرخی ص374)

ان کل آیتہ تخالف قول اصحابناالخ کی شرح میں وہ لکھتے ہیں۔اس کے مسائل میں سے یہ ہے کہ جس پر قبلہ مشتبہ ہوجائے اوروہ غوروفکر کے بعد ایک سمت اختیار کرلے توہمارے نزدیک اس کی نماز جائز ہے (اگر چہ اس نے قبلہ کے علاوہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی ہو)کیونکہ ہمارے نزدیک اللہ تعالیٰ کے قول کی تاویل فولواوجوھکم شطرہ کی یہ ہے کہ جب تم اس کے بارے میں واقف رہو،اوراشتباہ کی صورت میں غوروفکر کے بعد جو سمت اختیار کرو،یاوہ نسخ پر محمول ہوگا جیساکہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے ولرسولہ ولذی القربی الخ آیت میں رشتہ داروں کیلئے بھی غنیمت کے مال میں حصہ کا ثبوت ہے اورہم کہتے ہیں کہ یہ صحابہ کرام کے اجماع سے منسوخ ہے ۔ترجیح پر محمول کرنے کی صورت یہ ہے کہ آیت پاک والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا کا ظاہری تقاضایہ ہے کہ حاملہ عورت کاشوہر مرجائے تو اس کی عدت وضع حمل سے نہیں ہوگی بلکہ اس کو چارماہ دس دن عدت کے گزارنے ہوں گے کیونکہ آیت ہرایک عورت کے بارے میں عام ہے خواہ و ہ حاملہ ہو یاغیرحاملہ ہو،اللہ تبارک وتعالیٰ کا دوسراارشاد ہے کہ حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل ہو اس کا تقاضایہ ہے کہ حاملہ عورت کے وضع حمل کے بعد عدت ختم ہوجائے گی خواہ چارماہ دس دن پورے نہ ہوئے ہوں۔یہ آیت عام خواہ حاملہ عورت کا شوہر مراہو یانہ مراہو۔لیکن اس آیت کو ہم نے اس لئے ترجیح دی کیونکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول موجود ہے کہ یہ آیت پہلی آیت والذین یتوفون منکم کے بعد نازل ہوئی ہے۔اس سے پہلی آیت منسوخ ہوگئی ہے اورحضرت علی رضی اللہ عنہ نے دونوں قول میں جمع کی صورت اختیار کی ہے احتیاط کی بناء پر۔

قال من ذلک ان الشافعی یقول بجواز اداء سنۃ الفجر بعد اداء فرض الفجر قبل طلوع الشمس لماروی عن عیسی رانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اصلی رکعتین بعد الفجر فقال ماھما فقلت رکعتاالفجر کنت الم ارکعھما فسکت قلت ھذا منسوخ بماروی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال لاصلوۃ بعد الفجر حتی تطلع الشمس ولابعد العصر حتی تغرب الشمس والمعارضۃ فکحدیث انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ انہ کان یقنت فی الفجر حتی فارق الدنیا فھو معارض بروایۃ عن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قنت شھراثم ترکہ فاذا تعارضا روایتاہ تساقطافبقی لنا حدیث ابن مسعود وغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قنت شھرین یدعو علی احیاء العرب ثم ترکہ واماالتاویل فھو ماروی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ کان اذارفع راستہ من الرکوع قال سمع اللہ لمن حمدہ ربنالک الحمد وھذا دلالۃ الجمع بین الذکرین من الامام وغیرہ ثم روی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال اذاقال الامام سمع اللہ لمن حمدہ قولوا ربنالک الحمد والقسمۃ تقطع الشرکۃ فیوفق بینھما فنقول الجمع للمنفرد والافراد للامام والمتقدی وعن ابی حنیفۃ انہ یقول الجمع للمتنفل والافراد للمفترض(المصدرالسابق)

اس کی شرح یہ ہے کہ امام شافعی طلوع شمس سے پہلے فجر کی فرض نماز کی ادائیگی کے بعد فجر کی سنت پڑھنے کو جائز قراردیتے ہیں ان کی دلیل حضرت حضرت عیسی سے منقول وہ حدیث ہے کہ رسول پاک نے مجھ کو فجر کے بعد دورکعت پڑھتے دیکھا انہوں نے پوچھایہ تم کیاپڑھ رہے تھے۔ میں نے عرض کیاکہ فجر کی دو سنت رکعتیں جس کو میں نہیں پڑھ سکتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کو سکوت اختیار کیا۔ میں کہتاہوں کہ یہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے منسوخ ہے کہ فجر کے بعد کوئی نماز نہ پڑھی جائے تاوقتیکہ سورج طلوع ہوجائے اورعصر کے بعد کوئی نماز نہ پڑھی جائے تاوقتیکہ سورج غروب ہوجائے ۔
معارضہ کی صورت یہ ہے کہ حضرت انس رضی اللہ کی حدیث ہے کہ آپ فجر کی نماز میں قنوت پڑھتے رہے اوراسی معمول پر دنیا سے رخصت ہوجائے ۔یہ حدیث حضرت انس کے دوسری حدیث کے معارض ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینہ فجر کی نماز میں قنوت پڑھاپھر اس کوچھوڑ دیا۔یہ دونوں روایت ایک دوسرے کے معارض ہونے کی بناء پر ساقط ہوگئیں ہم نے اس کے بعد حضرت عبداللہ بن مسعود کی حدیث پر عمل کیاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دومہینہ فجر کی نماز میں قنوت نازلہ پڑھی جس میں عرب کے قبیلوں کیلئے بددعا کی گئی پھر اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑدیا۔
اورتاویل کی صورت یہ ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے منقول ہے کہ آپ جب رکوع سے اپناسراٹھاتے تو سمع اللہ لمن حمدہ ربنالک الحمد کہتے تھے ۔یہ دونوں ذکر کوجمع کرنے کی دلیل ہے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی منقول ہے کہ انہوں نے فرمایاکہ جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربناالک الحمد کہاکرو تقسم شرکت کے منافی ہے۔توان دونوں حدیث میں تطبیق اس تاویل کے ذریعہ دی جائے گی کہ دونوں ذکر سمع اللہ لمن حمدہ اورربنالک الحمد کہنے کی صورت منفرد کیلئے ہے اورتقسیم اس صورت میں ہے جب باجماعت نماز ہورہی ہو ۔امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ جمع نفل نماز پرھنے والے کیلئے ہے اورافراد فرض نماز پڑھنے والے کیلئے ہے۔

امام کرخی کے قاعدے کی امام نسفی کی وضاحت کی روشنی میں اتنی بات واضح ہوگئی ہے کہ
1: اس قول کا ظاہری مطلب مراد نہیں ہے کہ اگرکوئی قرآن کی آیت ہو یاکوئی حدیث ہو تواس کے مقابل میں صرف امام ابوحنیفہ کا قول کافی ہوگا۔

2:یہ بھی واضح ہوگیاہے کہ امام کرخی کاصحیح منشاء یہ ہے کہ وہ یہ بتاناچاہ رہے ہیں کہ آئمہ احناف نے اگرقرآن پاک کی کسی آیت کو ترک کیاہے یاکسی حدیث کوقابل عمل نہیں ماناہے تواس وجہ یہ ہے کہ ان کی رائے میں قرآن کی وہ آیت منسوخ ہے یاپھر اپنے ظاہر پر نہیں ہے ۔

3: ائمہ احناف نے کسی مسئلہ میں جس پہلو کو اختیار کیاہے اس کیلئے بھی ان کے پاس قرآن وحدیث سےدلائل موجود ہیں۔

میرے خیال سے اتنی بات ماننے میں کسی بھی صحیح الدماغ شخص کو تامل نہ ہوگا۔

2: امام کرخی کی یہ بات کہ ائمہ احناف نے اگرآیت یاحدیث کو چھوڑاہے تواس لئے کہ یاتو وہ ان کی رائے میں منسوخ ہے،یااس کے معارض کوئی دوسری حدیث ہے یاپھروہ حدیث اپنے ظاہر پر محمول نہیں ہے۔

امام کرخی کی بات کاجومنشاء اورمقصد ہے وہ اپنی جگہ بالکل درست ہے اوریہی بات ہردور میں علماء اعلام نے ائمہ کرام کی جانب سے کہی ہیں۔چاہے وہ ابن تیمیہ ہوں یاپھر حضرت شاہ ولی اللہ ۔

امام ابن تیمیہ نے ایک کتاب لکھی ہے رفع الملام عن ائمۃ الاعلام ۔اس میں وہ ائمہ کرام کے کسی حدیث یانص قرانی کی مخالفت کی وجوہات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

الأسباب التي دعت العلماء إلى مخالفة بعض النصوص،وجميع الأعذار ثلاثة أصناف: أحدها: عدم اعتقاده أن النبي صلى الله عليه وسلم قاله. والثاني: عدم اعتقاده إرادة تلك المسألة ذلك القول. والثالث: اعتقاده أن ذلك الحكم منسوخ. وهذه الأصناف الثلاثة تتفرع إلى أسباب متعددة.(رفع الملام عن ائمۃ الاعلام12)

وہ اسباب جس کی وجہ سے علماء نے بعض نصوص کی مخالفت کی وہ تمام اعذار تین قسم کے ہیں۔ ایک تویہ کہ ان کویقین نہ ہو کہ رسول پاک نے ایساکہاہوگا ۔دوسرے یہ کہ ان کا یقین نہ ہو کہ رسول پاک نے اس قول سے وہی بات مراد لی ہوگی ۔تیسرے ان کا یقین کہ وہ حکم منسوخ ہے ۔

اس کے بعد ابن تیمیہ نے ان تینوں اعذار کی شرح کی ہے اور شرح میں وہ لکھتے ہیں۔
السبب التاسع: اعتقاده أن الحديث معارض بما يدل على ضعفه، أو نسخه، أو تأويله إن كان قابلا للتأويل بما يصلح أن يكون معارضا بالاتفاق مثل آية أو حديث آخر أو مثل إجماع ۔(المصدرالسابق ص30)

اس پیراگراف کو غورسے پڑھئے اوردیکھئے کہ امام کرخی کے بیان میں اورامام ابن تیمیہ کے بیان میں کس درجہ مطابقت ہے۔امام کرخی کی بات اورابن تیمیہ کی بات میں بہت کم فرق ہے اوراگرکچھ فرق ہے توصرف اسلوب اورطرزاداء کا ۔امام کرخی کا اسلوب بیان منفی ہے یعنی ہروہ آیت یاحدیث جوہمارے اصحاب کے قول کے مخالف ہو ،جب کہ ابن تیمیہ کا بیان مثبت ہے یعنی اگرکسی امام نے کسی حدیث پر عمل ترک کیاہے تواس کی وجہ اس کا منسوخ ہونا،کسی دوسرے حدیث کے معارض ہونا وغیرہ ہے۔ اسلوب بیان کے فرق کے علاوہ گہرائی اورگیرائی سے دیکھیں اورپرکھیں تو دونوں میں کوئی فرق نہیں ملے گا۔

23: امام کرخی کے بیان کردہ قاعدہ کاایک اور مطلب ہے۔

امام کرخی نے اپنے بیان میں "ہمارے اصحاب"کا ذکر کیا ہے۔امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کانام خاص طورپر نہیں لیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہے یانادرالوقوع ہے کہ ائمہ امام ابوحنیفہ،امام ابویوسف،امام محمد،امام زفراوراسی طرح ائمہ متقدمین میں سے اورکچھ لوگ تمام کے تمام کسی ایسے قول کے قائل ہوں جس پر قرآن وحدیث کی کوئی دلیل نہ ہو ۔ایسانہیں ہوسکتابلکہ عموماایساہواہے کہ ائمہ احناف کے درمیان مختلف مسائل میں اختلاف رہاہے اوربعض کے ائمہ ترجیح نے دلائل کی بنیاد پر ایک قول کو دوسرے قول پر ترجیح دی ہے ۔ وقف کے مسئلہ میں صاحبین نے امام ابوحنیفہ سے اختلاف کیاہے۔ قرات خلف الامام کے مسئلہ میں امام محمد امام مالک اورامام احمد بن حنبل کی رائے کے قائل ہیں کہ جہری نمازوں میں نہ پڑھی جائے اور سری نمازوں میں پڑھی جائے ۔

اب اگرایسے میں تمام ائمہ احناف نے کسی آیت پر عمل نہ کیاہویاکسی حدیث کو ترک کردیاہوتواس کی وجہ ہوسکتی ہے جوامام کرخی بیان کرچکے ہیں۔ میراخیال ہے کہ اس میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے بشرطیکہ انسان سنجیدگی سے سمجھنے کی کوشش کرے اوردل کو ائمہ احناف کی طرف سے عناد اورتعصب کی جذبات سے پاک کرلے۔کسی کے عناد اورتعصب سے ان کا توکچھ بگڑنے والانہیں ہے انشاء اللہ لیکن یہ یہ غریب خسرالدنیاوالآخرۃ کا مصداق ضرور ہوگا۔

امام کرخی کے قاعدہ کے اس مطلب کے قریب قریب بات حضرت شاہ ولی اللہ نے بھی بیان کیاہے چنانچہ و ہ فیوض الحرمین میں لکھتے ہیں۔
عرضنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان فی المذہب الحنفی طریقۃ انیقۃ ھی اوفق الطرق بالسنۃ المعروفۃ التی جمعت ونقحت فی زمان البخاری واصحابہ ،وذلک ان یوخذمن اقوال الثلاثۃ قول اقبلھم بھا فی المسئلۃ ثم بعد ذلک یتبع اختیارات الفقہاء الحنفین الذی علماء الحدیث(فیوض الحرمین64)

حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کوبتایاکہ مذہب حنفی میں ایک ایسابہترین طریقہ وپہلو ہے کہ جوتمام طرق میں سب سے زیادہ ان احادیث کے موافق ہے جن کی تدوین وتنقیح امام بخاری اوران کے اصحاب کے دور میں ہوئی۔
اور وہ طریقہ یہ ہے کہ علماء ثلاثہ (یعنی اما م صاحب اورصاحبین) کے اقوال میں سے جس کا قول حدیث کے معنی سے زیادہ قریب ہو اسے اختیار کیاجائے۔پھراس کے بعد ان حنفی فقہاء کے اختیارات پر عمل کیاجائے جو محدث بھی تھے۔

ایک دوسری جگہ حضرت شاہ ولی اللہ اسی کتاب فیوض الحرمین(ص63) میں لکھتے ہیں۔

"پھر فقہ حنفی کے ساتھ احادیث کو تطبیق دینے کا ایک نمونہ وصورت مجھ پر منکشف کیاگیا اوربتایاگیاکہ علماء ثلاثہ(امام ابوحنیفہ وصاحبین)میں سے کسی ایک کے قول کو لے لیاجائے ،ان کے عام اقوال کو خاص قراردیاجائے،ان کے مقاصد سے واقف ہواجائے۔اوربغیرزیادہ تاویل سے کام لئے احادیث کے ظاہری الفاظ کا جومطلب سمجھ میں آتاہو اس پر اکتفاء کیاجائے ۔نہ تو احادیث کو ایک دوسرے سے ٹکرایاجائے،اورنہ ہی کسی حدیث صحیح کو امت کے کسی فرد کے قول کے پیش نظرترک کیاجائے"۔

دیکھنے کی بات یہ ہے کہ دونوں مقام پر حضرت شاہ ولی اللہ ائمہ ثلاثہ کا ہی ذکر کرتے ہیں کہ ان کے اقوال سے باہر نہ نکلاجائے ۔بالواسطہ یہ بات کہہ رہے ہیں کہ ائمہ ثلاثہ میں سے تینوں کسی ایسے قول پرمتفق ہوجائیں جس پر قرآن وحدیث کی کوئی دلیل نہ ہو ایسانہیں ہوسکتابلکہ ان میں سے کسی ایک کا قول قرآن وحدیث کی تائید سے متصف ہوگا۔

اگرخدا نے عقل وذہن کی دولت بخشی ہے توامام کرخی کے قول پرغورکریں ۔وہ بھی بالواسطہ طورپر یہی کہہ رہے ہیں لیکن ان کے طرز تعبیر نے ان کو ملامت کا نشانہ بنادیاہے۔

4: کبھی ایساہوتاہے اوربہت ہواہے کہ بات صحیح ہوتی ہے لیکن 47غلط طرز تعبیر سے بات کچھ کی کچھ ہوجاتی ہے اسی جگہ اگر طرز اورتعبیر کو درست کردیاجائے تووہی بات درست اورصحیح لگنے لگے گی۔

Saturday 27 November 2021

امام کاربنالک الحمد کہنا

 امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک امام رکوع سے اٹھتے ہوئے صرف تسمیع (سَمِعَ اللّٰہ لمَن حَمِدَہ) کہنے پر اکتفا کرے گا، تحمید (رَبَّنَا لَکَ الحمد) امام نہیں کہے گا، یہی قول متون کاہے، اس لیے امام کو صرف تسمیع پر اکتفا کرنا چاہیے۔ تعدیل ارکان امام کے رَبَّنَا لَکَ الحمدکہنے پر موقوف نہیں ہے۔ قال الحصکفي : ثم یرفع رأسہ من رکوعہ مسمعاً۔۔۔۔۔۔ویکتفي بہ الامام۔۔۔۔۔۔۔قال ابن عابدین: المتون علی قول الامام۔۔۔۔۔۔ ( کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة)

نماز میں رکوع سے اٹھتے ہوئے امام کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ  ”سمع اللہ لمن حمدہ“ کہے، اور مقتدی  ”ربنا لک الحمد“ کہیں، اور اگر نماز پڑھنے والا منفرد ہے تو وہ یہ دونوں کہے، باقی امام ”سمع اللہ لمن حمدہ“ کہنے کے بعد  ”ربنا لک الحمد“ کہے یا نہیں؟ یہ مسئلہ ہمارے مشایخ میں مختلف فیہ ہے،  امام صاحب رحمہ اللہ کا قول یہ ہے امام صرف ”سمع اللہ لمن حمدہ“ کہنے پر اکتفا کرے، فتویٰ اسی پرہے۔ جب کہ صاحبین رحمہما اللہ اور امام صاحب کی ایک روایت یہ ہے کہ امام   ”سمع اللہ لمن حمدہ“ کہنے کے بعد  ”ربنا لک الحمد“ بھی کہے یہ افضل اور مستحب ہے، اور متاخرین میں سے بہت سے مشایخ نے اس کو راجح قرار دیا ہے، یہ اختلاف صرف افضلیت میں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 496):
"(ثم يرفع رأسه من ركوعه مسمعاً) في الولوالجية لو أبدل النون لا ما يفسد وهل يقف بجزم أو تحريك؟ قولان (ويكتفي به الإمام) ، وقالا: يضم التحميد سراً (و) يكتفي (بالتحميد المؤتم) وأفضله: اللهم ربنا ولك الحمد، ثم حذف الواو، ثم حذف اللهم فقط. 

(قوله: وقالا: يضم التحميد) هو رواية عن الإمام أيضاً، وإليه مال الفضلي والطحاوي وجماعة من المتأخرين، معراج عن الظهيرية. واختاره في الحاوي القدسي، ومشى عليه في نور الإيضاح، لكن المتون على قول الإمام".

الفتاوى الهندية (1/ 74):

"فإن كان إماماً يقول: سمع الله لمن حمده بالإجماع، وإن كان مقتدياً يأتي بالتحميد ولايأتي بالتسميع بلا خلاف، وإن كان منفرداً الأصح أنه يأتي بهما، كذا في المحيط. وعليه الاعتماد، كذا في التتارخانية وهو الأصح"

Friday 26 November 2021

تفسیر ان رحمۃ اللہ قریب من المحسنین

إنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ

یقینا اللہ کی رحمت نیکی کرنے والوں کے قریب ہے .
محسن کے اردو میں دو ترجمے کئے جاسکتے ہیں. نیکی کرنے والا ,دوسرااحسان کرنے والا. 

 :اپنے روابط اللہ اور بندوں کے ساتھ درست رکھنے والے ہی محسنین (نیکی کرنے والے) ہوتے ہیں۔ رحمۃ اللہ قریبۃ نہیں فرمایا۔ چونکہرحمۃ مصدر ہے۔ اس میں دونوں صورتیں جائز ہیں۔ جیسے لَعَلَّ السَّاعَۃَ قَرِیۡبٌ ۔۔۔۔ (۴۲ شوری:۱۷) بندوں سے تعلق و ربط کی نوعیت بھی اسی بندگی کے دائرہ میں ہونی چاہیے کہ اللہ نے جن فطری تقاضوں کے مطابق انسانوں کو بنایا اور انہی فطری تقاضوں کے مطابق قانون بنایا۔ ان کو سبوتاژ کر کے زمین میں فساد نہ پھیلاؤ۔

اہم نکات

۱۔ رب کی بندگی سے آزاد ہو تو انسان مفسد و تجاوز کار بن جاتاہے۔

۲۔ بندگی خود بینی و مایوسی سے نہیں، خوف و رجاء کے دائرے میں ہوتی ہے: خَوۡفًا وَّ طَمَعًا۔۔۔۔

الکوثر فی تفسیر القران جلد 3 صفحہ 2
وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا وَ ادْعُوْهُ خَوْفًا وَّ طَمَعًا١ؕ اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ
وَ : اور لَا تُفْسِدُوْا : نہ فساد مچاؤ فِي الْاَرْضِ : زمین میں بَعْدَ : بعد اِصْلَاحِهَا : اس کی اصلاح وَادْعُوْهُ : اور اسے پکارو خَوْفًا : ڈرتے وَّطَمَعًا : اور امید رکھتے اِنَّ : بیشک رَحْمَتَ : رحمت اللّٰهِ : اللہ قَرِيْبٌ: قریب مِّنَ : سے الْمُحْسِنِيْنَ : احسان (نیکی) کرنیوالے
اور ملک میں اصلاح کے بعد خرابی نہ کرنے اور خدا سے خوف کھاتے ہوئے اور امید رکھتے ہوئے دعائیں مانگتے رہنا۔ کچھ شک نہیں کہ خدا کی رحمت نیکی کرنے والوں سے قریب ہے۔
قولہ تعالیٰ : آیت : ولا تفسدوا فی الارض بعد اصلاحھا اس میں ایک مسئلہ ہے : وہ یہ کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اصلاح کے بعد چاہے وہ تھوڑی ہو یا زیادہ ہر فساد سے منع فرمایا ہے چاہے وہ قلیل ہو یا کثیر۔ صحیح اقوال کے مطابق یہ حکم عام ہے۔ اور حضرت ضحاک (رح) نے کہا ہے : اس کا معنی ہے تم چشمے دار پانی بند نہ کرو اور نقصان پہنچانے کے لیے پھل دار درخت نہ کاٹو۔ اور یہ بھی وارد ہے : زمین میں فساد سے دنانیر ختم ہوگئے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ زمین میں فساد سے حکام کی تجارت منقطع ہوگئی۔ اور علامہ قشیری نے کہا ہے : اس سے مراد ہے اور تم شرک نہ کرو، پس یہ شرک، خون بہانے اور زمین میں ہرج اور فساد برپا کرنے سے نہی ہے اور زمین میں اصلاح کے بعد احکام شریعہ کو لازم پکڑنے کا حکم ہے، بعد اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی جانب سے رسول بھیج کر اس کی اصلاح فرما دی ہے، ( پس یہ) شرائع کو پختہ کرنا اور حضور نبی رحمت ﷺ کے دین کی وضاحت ہے۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : اس قول کے قائل نے عظیم اصلاح کے بعد بہت بڑے فساد کا قصد کیا ہے پس اس نے اسے خاص طور پر ذکر کیا ہے (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 411) ۔ میں ( مفسر) کہتا ہوں : رہا وہ جو حضرت ضحاک (رح) نے ذکر کیا ہے تو وہ اپنے عموم پر نہیں ہے، بلاشبہ وہ تب ہے جب اس میں ضرور اور نقصان مومن کا ہو۔ اور اگر اس کا ضرر اور نقصان مشرکین کو پہنچے تو پھر وہ جائز ہے، کیونکہ حضور نبی مکرم ﷺ نے بدر کے کنویں کا پانی بند کیا اور آپ نے کافروں کے درخت کاٹ دیئے۔ قطو الدنانیر کے بارے میں بحث سورة ہود میں آئے گی انشاء اللہ تعالیٰ ۔ آیت : وادعوہ خوفا وطمعا یہ اس بارے امر ہے (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 411) کہ انسان انتظار، کواور اللہ تعالیٰ سے امید کی حالت میں ہوتا ہے، یہاں تک کہ امید اور خوف انسان کے لیے پرندے کے دو پروں کی مثل ہوتے ہیں جو اسے صراط مستقیم میں اٹھائے رکھتے ہیں اور اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک منفرد ہوجائے تو انسان ہلاک ہوجائے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : آیت : نبی عبادی انی انا الغفور الرحیم وان عذابی ھو العذاب الالیم ( الحجر) ( بتا دو میرے بندوں کو کہ میں بلا شبہ بہت بخشنے والا از حد رحم کرنے والا ہوں اور ( یہ بھی بتا دو کہ) میرا عذاب بھی بہت درد ناک ہے۔ خوف کا معنی ہے : الانزعاج لما لا یومن من المضار ( اس شے کے لیے بےقرار اور بےچین ہونا جس کے ضرور اور نقصان سے وہ محفوظ نہ ہو) اور طمع کا معنی ہے : توقع المحبوب ( کسی محبوب اور پسندیدہ شی کی توقع رکھنا) یہ علامہ قشیری نے کہا ہے۔ اور بعض اہل علم نے کہا ہے : مناسب یہ ہے کہ طویل زندگی میں خوف امید پر غالب رہے (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 411) اور جب موت آجائے تو پھر امید غالب رہے۔ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : لا یموتن احدکم الا وھو یحسن الظن باللہ (صحیح مسلم، الجنۃ وصفۃ نعیمھا، جلد 2، صفحہ 387) ( تم میں سے کوئی نہ مرے مگر اس حال میں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں حسن ظن رکھتا ہو) یہ حدیث صحیح ہے اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔ قولہ تعالیٰ : آیت : ان رحمۃ اللہ قریب من المحسنین اس میں قریمۃ نہیں کیا، سو اس میں سات وجوہ ہیں : ان میں سے پہلی یہ ہے کہ رحمت اور رحم ایک ہی شے ہے اور یہ عفو اور غفران کے معنی میں ہیں۔ یہ زجاج نے کہا ہے۔ اور نحاس نے اسے ختیار کیا ہے۔ اور نضر بن شمیل نے کہا ہے : رحمت مصدر ہے اور مصدر کا حق یہ ہے کہ وہ مذکر ہو، جیسے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : آیت : فمن جآء موعظۃ ( البقرہ : 175) یہ قول زجاج کے قول کے قریب ہے، کیونکہ موعظۃ بمعنی وعظ ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رحمت سے احسان کا ارادہ کیا ہے۔ اور اس لیے بھی کہ جس کی تانیث حقیقی نہ ہو تو اسے مذکر لانا جائز ہوتا ہے، اسے جوہری نے ذکر کیا ہے۔ اور یہ قول بھی ہے کہ یہاں رحمت سے مراد بارش ہے۔ یہ اخفش نے کہا ہے۔ اور کہا : اسے مذکر لانا جائز ہے جیسے بعض مونث کو مذکر ذکر کیا جاتا ہے۔ اور یہ شعر بھی کہا ہے : فلا مزنۃ ودقت ودقھا ولا ارض ابقل ابقالھا اور ابو عبیدہ نے کہا ہے : مکان کی تذکیر کی بنا پر قریب مذکر ذکر کیا گیا ہے، یعنی مکانا قریبا۔ علی بن سلیمان نے کہا ہے : یہ خطا ہے، اگر اس طرح ہوتا جیسے انہوں نے کہا تو پھر قرآن کریم میں قریب منصوب ہوتا، جیسے آپ کہتے ہیں : ان زیدا قریبا منک اور یہ بھی کہا گیا ہے : اسے نسبت کی بنا پر مذکر ذکر کیا گیا ہے، گویا کہ فرمایا : ان رحمۃ اللہ ذات قرب ( بیشک اللہ تعالیٰ کی رحمت قرب والی ہے) جیسے آپ کہتے ہیں : امراۃ طالق وحائض۔ اور فراء نے کہا ہے : جب قریب کا لفظ مسافت کے معنی میں ہو تو اسے مذکر اور مونث دونوں طرح لایا جاتا ہے اور اگر نسب کے معنی میں ہو تو پھر بلا اختلاف مونث لایا جاتا ہے۔ آپ کہتے ہیں : ھذہ المراۃ قریبتی، ای ذات قرابتی اسے جوہری نے ذکر کیا ہے۔ اور اس کے علاوہ نے فراء سے ذکر کیا ہے : نسب میں کہا جائے گا قریبۃ فلان اور غیر نسب میں تذکیر وتانیث دونوں جائز ہیں۔ کہا جاتا ہے : دارک منا قریب ( تیرا گھر ہمارے قریب ہے) وفلانۃ منا قریب ( اور فلانہ ہمارے قریب ہے) اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : آیت : ومایدریک لعل الساعۃ تکون قریبا ( الاحزاب) ( اور ( اہل سائل) ! ) تو کیا جانے شاید وہ گھری قریب ہی ہو) اور جس نے اس کا استدلال کیا ہے اس نے کہا ہے : اسی طرح کلام عرب بھی ہے، جیسا کہ امرء القیس نے کا کہا ہے : لہ الویل ان امسی ولا ام ہاشم قریب ولا البسباسۃ ابنۃ یشکرا زجاج نے کہا ہے : یہ غلطی ہے، کیونکہ مذکر اور مونث کا طریقہ یہ ہے کہ وہ دونوں اپنے افعال پر جاری ہوں.

القرطبی:الاعراف.

برےپڑوسی سے بچنے کی دعاء

 اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنْ جَارِ السَّوْءِ


ترجمہ: اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں برے ہمسائے سے۔

(السنن النسائي، الاستعاذة من جار السوء، رقم الحديث: 5517)

Thursday 25 November 2021

حضرت الاستاذ مولاناعلی محمد علیہ الرحمۃ

 حضرت الاستاذ مولاناعلی محمد قاسمی ہرواڑی علیہ الرحمۃ 

زہدوتقوی, تعلیم وتعلم درس و تدریس شرم وحیا متانت وسنجیدگی بے باکی ووضعداری خودداری وغمناکی شرافت وکرامت سے منسوب پیکر علم ودیانت حضرت مولانا علی محمد علیہ الرحمۃ کی شخصیت میوات کے طبقۂ علماء میں محتاج بیان نہیں .آپ سے میں نے مدرسہ میل کے زمانۂ قیام میں صرف ونحومنطق فلسفہ, معانی وبلاغت وغیرہ علوم اسلامی ہی کی تحصیل نہیں کی بلکہ اس کارگہ حیات کے بے شمار اتارچڑھاؤ, نشیب و فراز سے روبرو ہونے کے وہ نکتہائے دقیق بھی سیکھے جنہیں عام طور پر اوراق کتب میں نہیں لکھاجاتا.

حیران ہیں اب جائیں کہاں ڈھونڈنے تم کو

آئینۂ ادراک میں بھی تم نہیں رہتے


دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑ لا میں بحیثیت طالب علم میں نے دومرتبہ داخلہ لیا. سب سے پہلا مرحلہ وہ تھا جب کہ" باتک سدنل ید ہل" سے میری تعلیم کاآغاز ہواان دنوں مولانارحیم اللہ سلطانپوری یہ رسالہ پڑھایاکرتے تھے. موصوف بہت ہنس مکھ مزاحیہ طبع تھے. بہت سے بچوں کاایک ساتھ سبق سنتے تھے مجھ جیسے نابکاراس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حضرت کے سامنےانگلی چلاتے ہوئے ہونٹ ہلاتے ہوئے پڑھائی کےشور کاپورا پورا فائدہ اٹھاتے.اس طرح کئ دن سبق سنایا لیکن ایک روز مولانا رحیم اللہ صاحب نے تاڑلیا اس کے بعد ہی حقیقتاً تعلیم کاصحیح طور پر آغاز ہوا اس کے بعد میں نے قاری صابر صاحب تاؤلوی علیہ الرحمہ کے درجہ میں حفظ قرآن مجید کی شروعات کی.اس زمانے میں میرے نگراں حافظ منشی صاحب دامت برکاتہم ہواکرتے تھے وہ میرے والدماجد علیہ الرحمہ کے مرکز نظام الدین میں ہم درس رہ چکے تھے اس دور میں بھی حضرت مولانا علی محمد علیہ الرحمہ کادارالعلوم محمدیہ میں طوطی بولتا تھا. اس وقت مولانانثاراحمدبستوی ,مولاناصغیرصاحب بستوی بڑے اساتذہ تھے, مولاناصغیر صاحب اکثر صبح کوحاضری لیتے تھے, اورمولانانثارصاحب سراپامتانت وسنجیدگی حلم وبردباری تقوی وطہارت کاایساپیکرتھے جسے دیکھ کربڑے بڑے اساتذہ بے محابہ کھڑےہوجاتے تھے میں انہیں دیکھ کر دل دل میں خوش ہوتا تھا ان کا رعب ودبدبہ طلباء ہی نہیں اساتذہ پربھی تھا. مولانا علی محمد علیہ الرحمہ اس زمانے میں اپنے ہم عمرطلباء کوشرح جامی مختصرالمعا نی, شرح تہذیب, سلم العلوم, قطبی کافیہ وغیرہ پڑھاتے تھے, اس دور کے منتہی درجات کےطلباء میں مولاناجمال الدین عرف دادا, مولاناسراج الدین مالپوری, مولاناشرف الدین چلی, مولاناعالم چلی,وغیرہ ہواکرتھے .مولانا علی محمد صاحب ان لحیم شیحم طلباء کے مابین ان کے ہم درس معلوم ہوتے تھے. لیکن سبھی طلباء پر ان کارعب ودبدبہ قابل دیدہوتاتھا. ان کی ضرب مبرح اورغیرمبرح,نیزمتانت,وسنجیدگی سےسبھی خائف رہتے تھے. ان کی آمد ہوا کے جھونکے کی طرح اچانک ہوتی تھی جودریامیں غول کے  غول کوخس وخاشاک کی طرح بہالیجاتی ہے. کبھی نماز کے وقت یااس کے بعدیا اس سے پہلے لیکن ان کی طویل ترشاخ نخیل کے نشانے پر چندایک ہی جیالے آتے تھے زیادہ ترعدیم الفرصتی یابھاگ دوڑ کی اس قیامت صغری میں نصف, سدس ,ثمن ہی بقدرخوش قسمتی حصہ پاتے تھے لیکن بعض نصیبہ ور ایسے بھی ہوتے جومثنی ورباع کی کیفیت سے دوچار ہوتے اورکمریاہتھیلی کے تکلیف دہ لیکن مقدس احساس کا کام ودہن سےشکوہ کرتے روتے بلبلاتے رہ جاتےجبکہ بہت سے اپنی اس حرماں نصیبی پرہنستے کھلکھلاتے.یہ آمدبادصرصرسے بھی زیادہ پرسکون ہوتی لیکن اس کے بعد کاسماں اجڑے ہوئے کارواں کی یاددلاتاتھا بقول علامہ اقبال :

آگ بجھی ہوئی ادھر ٹوٹی ہوئی طناب ادھر

لگتاہے اس مقام سےگذرے ہیں کتنے کارواں

حضرت مولانا سے اس زمانے میں مینے کچھ نہیں پڑھاچونکہ وہ عربی کی بڑی کتابیں پڑھایاکرتے تھے میں اس زمانے میں درجۂ تحفیظ القرآن کاطالب علم تھا. تاہم میری خوش بختی کہ پھر بھی مجھے حضرت سے استفادہ کاموقع ملا:اس دور میں دارالعلوم محمدیہ میں سالانہ جلسہ بڑے تزک واحتشام سے ہوتا تھا جس کی تیاری ایک ماہ پہلے ہی سے شروع ہوجاتی تھی. تاریخ موعودپردوردراز سے مہمانان گرامی کی آمد آمد جشن کاسماں باندھتی تھی, رات دن تقاریر رٹنا پھربارباران کی ریہرسل ہوتی رہتی تھی کبھی مہتمم صاحب علیہ الرحمہ کے سامنےکبھی مولاناصغیر صاحب کی نگرانی میں کبھی مولاناعلی محمد صاحب کی موجودگی میں غرضیکہ ایک لامتناہی سلسلہ تھا. مجھے مولاناوحید الدین خاں صاحب کے الرسالہ سےایک تقریر یاد کرنے کا حکم ملا. مولاناعلی محمد صاحب کی نگرانی میں,خود حضرت الاستاذ  نے مہتمم صاحب علیہ الرحمہ  سے یہ کہتے ہوئے استدعاء کی کہ میں انہیں یاد کراؤں گا. آپ نے مجھے کبھی میدان میں کبھی اپنے کمرے کے سامنے کبھی زینہ کے اوپر بہ آواز بلند تقریر مسلسل کرتے رہنے کاحکم دیا لہذامیں صبح آٹھ بجے سے گیارہ بجے تک پھر ظہرکے بعد سے عصر تک تقریر رٹتا رہتا اور حضرت کی توجہ تام کایہ عالم تھا کہ جب بھی ادھرسے گذرتے جواب آں غزل کے طور پر کسی بھی رطب ویابس قطعۂ نخیل سے نواز جاتے. اس طرح میں نے حضرت مولانا علی محمد علیہ الرحمہ سے تقریر کافن سیکھا ایسا فن جس کااظہارانہوں نے پوری عمر خودکبھی نہیں فرمایا بلکہ ان کی شرمیلی طبیعت سے اس کا تصور بھی محال تھا. البتہ ان کی ضرب نخیل سے بے شمار مقرروں نےجلاپائی.جمعرات کوبعد نماز مغرب تقریری مشق کے لئے طلبا کی انجمن قائم ہوتی تھی ظہرکے بعد تقاریریادکی جاتیں اوربعد مغرب باقاعدہ طلباء کے ایک گروہ کے سامنے اس کی باقاعدہ مشق کی جاتی. اس کی نگرانی عام طور پر حضرت الاستاذ ہی فرماتے تھے تاہم درجۂ حفظ کے طلباء کواس سے استثنی حاصل تھا. دوسری بار جب میں نے دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑ لا میں داخلہ لیا تواس کی تقریب کچھ اس طرح رہی کہ حضرت الاستاذ رمضان المبارک کی تعطیلات میں ضلع جھنجھنوں راجستھان چندہ کرنے جاتے تھے جہاں والد صاحب کاقیام تھا. آپ والد ماجد کے پاس قصبہ مہنسر کئ کئ روز قیام فرماتے میں ان دنوں دارالعلوم بساؤ میں جواب انعام العلوم کے نام سے اس علاقے کا مشہور مدرسہ ہے زیرتعلیم تھا. میل سے پہلے مرحلے میں دس پارے حفظ کرنے کے بعد مجھے یہاں داخل کردیا گیا تھا یہاں میں نے تکمیل حفظ کے علاوہ فارسی کی تکمیل کی نیز میزان منشعب نحومیرصرف میر مفید الطالبین وغیرہ ابتدائی عربی کتب پڑھیں لیکن والد صاحب نے علاقہ شیخاواٹی مہنسر راجستھان سے دہلی منتقل ہونے کاارادہ کیاکیونکہ مدرسہ بساؤ میں انتظامیہ اورمیواتی اساتذہ و طلباء کے مابین سخت معرکہ آرائی ہوگئی تھی جس کے نتیجے میں کئی اساتذہ وطلباء زخمی بھی ہوئے بالآخر سبھی میواتی طلباء واساتذہ کوبادل ناخواستہ مدرسہ چھوڑناپڑا اس وقت مدرسہ انعام العلوم بساؤ میں مولاناجمیل احمد صاحب کوٹ رحمۃ اللہ علیہ صدرالمدرسین تھے آپ کے خسر حاجی نورمحمد علیہ الرحمہ کوٹوی اس مدرسہ کے بانی تھے وہ حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانوی قدس سرہ العزیز کے مریدتھے .ان کی خداترسی للہیت اورطلباء کی خدمت اوردینی لگن کویادکرکے آج بھی دل کوسکون ملتاہے.

شاگرد ہیں ہم میرؔ سے استاد کے راسخؔ

استادوں کا استاد ہے استاد ہمارا

بہرکیف بساؤسے میواتی اساتذہ وطلباء کایہ قافلہ مہنسر ریلوے اسٹیشن پروالد صاحب سے ملاقات کرتے ہوئے میوات کے لئے عازم سفر ہوا اس کے بعد مدرسہ انعام العلوم میں میواتی طلباء واساتذہ کاداخلہ ہمیشہ ہمیش کے لئے ممنوع قرار دے دیا گیا. لیکن ہم دونوں بھائی ڈاکٹر ابوالفضل ندوی اورراقم الحروف میواتی ہونے کے باوجود اس ضابطہ سے متثنی رکھے گئے.اس کی مختلف وجوہات تھیں منجملہ ان کے یہ بھی ہے کہ اتفاق سے شورش کے دن میں مدرسہ میں موجود ہی نہیں تھاوالد ماجدرحمہ اللہ کے پاس مہنسر گیاہواتھااور ابوالفضل بہت چھوٹے تھے جن پرکسی طرح کاالزام لگاناممکن نہ تھا لہذاہم دونوں اس کے بعد بھی ایک یادو سال مدرسہ انعام العلوم میں زیرتعلیم رہے. وہاں کے اساتذہ میں مولاجمیل احمد کوٹ رحمہ اللہ قاری نورمحمد چھائنسہ رحمہ اللہ کے علاوہ استاذالاساتذہ مفتی محمد یحیی قاسمی رحمہ اللہ. مولانامحمدیونس مظاہری مدظلہ العالی  مولانااکرام الحق باغپتی قابل ذکرہیں مفتی یحیی صاحب سے نحومیرصرف میر پڑھنے کاشرف حاصل ہواان کی محبت وشفقت کی یاد آج بھی سایہ کی طرح ساتھ رہتی ہے. ایک مرتبہ ایک طالب کوحضرت نے غصہ میں ہاتھ میں قمچی ماردی یہ ظہرکے بعد کاواقعہ تھاعصرکی نماز کے بعد سبھی طلباء کوعصرکی نماز کے بعدروک لیا اورمنبر پربیٹھ کراس طالب علم سے درخواست کی کہ وہ اپنا بدلہ لے لے اگر بدلہ لے گا تومجھے خوشی ہوگی کیونکہ میں آخرت کی گرفت سے بچ جاؤں گا یامجھے معاف کردے اس طالب علم نے عرض کیاحضرت میں نے معاف کیا یہ سن کر رونے لگے. اب انہیں ڈھونڈو چراغ رخ زیبا لے کر. 

انعام العلوم کے ناگفتہ بہ حالات کے مدنظر حضرت مولانا علی محمد علیہ الرحمۃ کی رمضان المبارک میں آمد پر والدصاحب نے آئند ہ میل میں داخلے کی بات کی میراامتحان بھی صرف میر اورنحومیرکالیا. اس کے بعد میں نے القراۃ  الواضحۃ, تیسرالمنطق, مرقات, ہدایۃ النحو, کافیہ شرح تہذیب , سلم العلوم, قطبی  ,شرح جامی مختصر المعانی, ملاحسن ہدایۃ الحکمت, میبذی وغیرہ ترجمۂ  قرآن مجید  وغیرہ کتب پڑھیں. آپ کااندازتعلیم مولاناخورشید عالم عثمانی دیوبندی کے طرز پر تھا. لیکن ضرب شدید میں آپ اپنے استاذ سے بہت فائق تھے. اس زمانے میں عصانہ ہوتوکلیمی ہے کار بے بنیاد ,کے بقول یہ مشہور تھا کہ جوان کی زدوکوب سے لطف اندوز ہوگیا اس پر علم وعمل کے چہار طبق روشن ہوگئے. الحمد للہ راقم الحروف نے اس سے وافرحصہ پایا لیکن بادئ النظر میں سبھی طبق اب تک تاریک ہیں. نحومیں آپ کی نظیرمشکل تھی. حقیقتاً یہ علم آپ نے اپنے استاذ مولاناغلام قادرکشمیری سے حاصل کیاتھا جودارالعلوم محمدیہ میل کھیڑ لا کے اولین اساتذہ میں تھے. دارالعلوم دیوبند میں بھی ان کی علمی صلاحیتوں کے چرچے تھے. آپ میرے پھوپا مولاناروزہ دارخانصاحب کے درسی ساتھی تھے. 1984میں جب بساؤ راجستھان میں عالمی تبلیغی اجتماع ہواتوحضرت مولانامحمدقاسم رحمہ اللہ سابق مہتمم دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑ لا کے ساتھ آپ بھی بساؤ اجتماع میں شرکت کی غرض سے نیز ہم لوگوں سے ملنے فرید آباد سے تشریف لائے تھے مہتمم صاحب رحمہ اللہ بھی ساتھ تھے .

دوسری مرتبہ جب میراداخلہ دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑ لا میں ہوا توحضرت الاستاذ سے استفادہ کابہت موقع ملا. لیکن حضرت کارنگ مدرسہ مذکور میں بالکل مختلف تھا جبکہ راجستھان میں جب تشریف لاتے تھے توبالکل مختلف تھے. میں نےمیل سے پہلے اس ضرب مبرح کےرنگ وروپ نہیں دیکھے تھے جویہاں اپنی تمام تر رعنائی وآب وتاب کے ساتھ  جلوہ گر تھی. اس سے مرعوب ہوکرہمیشہ کے لئے اسے خیرباد کہتے ہوئے ایک روز میں نے دارالعلوم بساؤ کے لئے چپکے سے رخت سفر باندھ لیاکیونکہ حضرت مولانا علی محمد علیہ الرحمۃ نے فرمایاتھاکہ "تمہیں کل دیکھوں گا". میں نے خوف کا مبالغہ آمیز تصور باندھتے ہوئے مدرسہ انعام العلوم بساؤ کے لئے رخت سفر باندھ لیا.تاکہ حضرت کے عتاب سے بچ سکوں .

نہ منزلوں کو نہ ہم رہ گزر کو دیکھتے ہیں

عجب سفر ہے کہ بس ہم سفر کو دیکھتے ہیں

.اس وقت بارہ روپے میرے پاس تھے. میں پہلے بھرت پور تک بس میں گیا وہاں سوچاکہ ریلوے اسٹیشن دیکھنا چاہیے کیونکہ ٹرین میں کرایہ کم لگے گا. بھرت پورریلوے اسٹیشن پرآگرہ جانے والی ٹرین کھڑی تھی. ٹرین پرآگرہ کانام پڑھ کر تاج محل کی چمک دمک نے اپنی طرف کھینچا میں نے سوچا آزادی سے فائدہ اٹھانا چاہیے زندگی میں تاج محل توایک بار ضرور دیکھا چاہیے پھرعمروفارہے رہے نہ رہے. چارروپیہ آگرہ کاکرایہ تھاجس سے مجھے اورمہمیز ملی لہذاآگرہ کی ٹرین میں بیٹھ گیاشام سات بجے آگرہ اترا. ریلوے اسٹیشن پر فیروزآباد کے ایک باریش ضعیف مسلمان مسافر نے مدرسہ کابچہ سمجھ کرمجھے اپنے ساتھ بیٹھالیا رات بھر اسٹیشن پربھوکے پیاسے گذاری صبح فجرکی اذان شاہی مسجدکے میناروں سے بلندہوئی تو اس مسافرکے ساتھ شاہی مسجد آگرہ میں فجر کی نماز پڑھی. نماز کے بعد نہایت ضعیف وناتواں امام نے صلوۃ وسلام پڑھناشروع کردیا اس مسافرکے ساتھ میں بھی ہاتھ باندھ کر کھڑاہوگیا.کیونکہ کہاوت ہے: when you are in  Rome do as the Romans do. یعنی بامسلماں اللہ بابرہمن رام رام.( علی گڑھ میں عرصۂ دراز کے بعد مجھے ایک صاحب نے اطلاع دی کہ ان امام صاحب کابعد میں قتل ہوگیاتھا. )غرض صلوۃ و سلام کے بعد فیروزآبادی کرم فرمانے اپنی راہ لی اور میں آگرہ کی سیرکونکلا. سب سے پہلے منی بس میں تاج محل گیا وہاں ٹکٹ لے کرتاج محل کےحسن وجمال کوقریب سے دیکھنے کی کوشش کی لیکن مجھے وہاں حسن وجمال نام کی کوئی چیز نظرنہیں آئی. ایک جم غفیر کوزیارت کے لئے قطار میں دیکھ کر مجھے ہنسی آتی تھی اورلوگوں کی حماقت پر افسوس ہوتا تھا کہ یہ لوگ کیوں اپناوقت اورپیسہ برباد کرنے یہاں آئے ہیں.کیونکہ میں نے منزل مقصود بساؤ کوسمجھ رکھاتھا. مرادرمنزل جاناں چہ امن و عیش چوں ہردم 

جرس فریاد می دارد کہ بربندید محملہا 

جب تاج محل میں جی نہ لگا تومجھے خیال آیا مدرسہ افضل العلوم میں اباجی نے پڑھایاتھاچلوآج اس کی بھی زیارت کرچلیں. لیکن مدرسہ کے دروازے سے واپس لوٹ آیا , مبادا یہ لوگ مجھے پکڑکر مدرسہ واپس نہ بھیج دیں. بالآخر آگرے کے راستوں میں تھکا ماندہ یہ مسافر یوں ہی بھٹکتا رہا.

وہ جس کی منزل مقصود کہکشاں سے پرے.

ہمارے ساتھ فقط چند گام آتے ہیں.

بالآخر آگرہکینٹ سے جے پور کی راہ لی جیب خالی تھی بغیرٹکٹ ہی جے پور کے لئے بیٹھ گیا پھرخیال آیا ٹی ٹی کوکیاجواب دیں گے لہذا سیٹ کے نیچے سوتے ہوئے جے پور پہنچے وہاں سے سیکر ہوتے ہوئے بساؤ مدرسہ انعام العلوم جاپہنچا. کئی دن کی بھوک و فاقہ مستی سے طبیعت نڈھال ہوچکی تھی .لہذا جاتے ہی اپنے ساتھیوں سے کھانے کی فرمائش کی ادھروالدصاحب کومیرے جانے کی اطلاع ہوئی توسخت صدمہ ہوا دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑ لا آکرمیرے سامان کاجائزہ لیاتوانہوں نے اندازہ لگالیاکہ میں نے بساؤ کی راہ لی ہے. مولاناعلی محمد صاحب والد صاحب کے شاگرد تھے انہوں نے گلستاں بوستاں نحومیر صرف میروغیرہ والد صاحب سے مدرسہ افضل العلوم آگرہ میں پڑھی تھی.جس کی ابتدا کچھ اس طرح ہوئی : مدرسہ افضل العلوم کے قیام کے وقت سب سے پہلے مدرس حضرت مولانادین محمد صاحب لکھناکارحمۃ اللہ علیہ ,کومدرسہ میل سے بھیجا گیا آپ یہاں کے اولین اساتذہ میں سے ایک بہت ہی متدین اور خداترس عالم دین تھے. ان کے ساتھ چند طلباء بھی تھے جن میں مولاناعلی محمد علیہ الرحمہ بھی تھے والد ماجد اس کے اولین صدرمدرس مقرر ہوئے. اس طرح مدرسہ افضل العلوم کاقیام عمل میں آیا اس وقت مدرسہ چھم چھم گلی میں تھا. مولاناعارف صاحب اس کے اولین مہتمم تھے. جب مدرسہ کومقامی طلبہ مل گئے تومیواتی طلباء جن میں حضرت الاستاذ بھی تھے واپس دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑ لا آگئے. غرض والد صاحب نے میرے خطوط وغیرہ پڑھ کرمیری تلاش میں بساؤ جانے کافیصلہ کیا بالآخر دوبارہ حضرت الاستاذ کی زیرنگرانی آگیا.اب جب بھی اس سفر بے راہ روی کاخیال آتاہے توکف افسوس ملتے ہوئے ہیجانی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور سوچنے لگتاہوں کہ اتنالمباسفر تن تنہااتنی کم عمری میں میں نے کیسے طے کر لیا! تبارک اللہ ازیں فتنہا کہ درسر ماست. 

حضرت الاستاذ کی مثال اس ناپیدکنار دریاکی تھی جس میں مختلف اشیاء ہوتی ہیں اور وہ سب کو یکساں طور پر بہائے لیجاتاہے.تصوف وطریقت پرجب گفتگو ہوتی شیخ اکبرمحی الدین ابن عربی کی فصوص الحکم اورفتوحات مکیہ پر ایسے تبصرہ کرتے گویا اس دریا کے قدیم شناور وغواص ہیں. منطق وفلسفہ پرجب گفتگو فرماتے توعلامہ قطبی کی طرح اپنی بھی ایک رائے پیش فرماتے غرض:اسی دریاسے اٹھتی ہے وہ موج تند جولاں بھی. نہنگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہ وبالا. 

اگرچہ ان کا اصل میدان بظاہرنحوتھالیکن فی الحقیقت وہ کوچۂ تصوف کے سالک تھے. مسیح الامت حضرت مولانا مسیح اللہ خان صاحب شروانی جلال آباد ی خلیفہ اجل حضرت تھانوی سے باقاعدہ بیعت کی اور ان کے ہاں اکثرقیام فرماتے.فلسفیانہ مسائل سے آپ کودلچسپی تھی. اقبال کے تصور خودی کی بھی بہت جامع تشریح فرماتے.

مجذوب کبھی سوز کبھی سازہے تجھ میں

تومیرکبھی اورکبھی سودانظرآیا

کافیہ پرلمبی چوڑی تقریرات سنتے ہوئے ایک روز میں نے حضرت سے یہ دریافت کرنے کی جر ات کی "الکلمۃ لفظ وضع لمعنی مفرد بہت ہی مختصر جملہ ہے. لیکن کلمہ, لفظ ,پر شارحین ایک ایک دن گذاردیتے ہیں اوراپنی طرف سے اشکال وجواب کاایک لامتناہی سلسلہ قائم فرماتے ہیں .اتنی طویل تقریر صاحب کافیہ علامہ ابن حاحب کے ذہن میں سچ مچ تھی بھی یامحض یہ شارحین کی اختراع ہے ؟توفرمایااس میں کچھ اختراع بھی ہے لیکن مقصود فن کی باریکیوں سے روشناس کرانا ہے .حضرت مہتمم صاحب رحمہ اللہ سے آپ کا تعلق استاذ شاگرد کارہا دارالعلوم محمدیہ سے علیحدگی کے بعد بھی حضرت کاذکرخیر محبت اور والہانہ انداز میں فرماتے عقیدت واحترام میں ذرابھی فرق نہیں پڑا تھا.حضرت مہتمم صاحب بھی آپ کاذکر بڑی محبت سے فرماتے تھے .ان دواساطین کی وفات حسرت آیات دل سے بھلائے نہیں بھولتی :


تمہاری موت نے مارا ہے جیتے جی ہم کو

ہماری جان بھی گویا تمہاری جان میں تھی