https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 18 February 2022

Refusing to Divorce in a failed marriage amounts to cruelty :Kerala HC

 A division bench of Justice A Muhamed Mustaque and Justice Sophy Thomas pronounced the order while hearing appeals filed by a husband and wife.

While one appeal was filed by the wife challenging the order by Nedumangad Family Court, which allowed divorce plea by husband (respondent) on the ground of cruelty, another one was filed by the husband challenging the dismissal of his petition seeking permanent custody of their five-year-old child. The husband referred to her alleged quarrelsome attitude as the reason for divorce and the wife denied such sort of behaviour from her side. She also contended that the husband had failed to offer care and emotional support even during her pregnancy.

The court said that after hearing both sides, and examining the evidence, it is of the opinion that the two "never developed any emotional bond or intimacy."

"When both the parties are unable to lead a meaningful matrimonial life due to inherent differences of opinion and one party is willing for separation and the other party is withholding consent for mutual separation, that itself would cause mental agony and cruelty to the spouse who demands separation," the court said.

Emphasising that no one can force another person to continue in a 'legal tie and relationship' if the relationship is deteriorated beyond repair, the bench observed, "The portrayal of such conduct through manifest behaviour of the spouse in a manner understood by a prudent as 'cruelty' is the language of the lawyer for a cause before the court."

The judges also said, "If one of the spouses is refusing to accord divorce on mutual consent after having been convinced of the fact that the marriage failed, it is nothing but cruelty to spite the other spouse."

After perusing the evidence, email communications and oral evidence of the parties, the judges also observed that they could not completely blame the wife for the deteriorated relationship. "All that would go to show that the parties never had a peaceful relationship," they said

The husband had submitted to the court that his wife had been 'obsessively' charting her daily plans and scheduled works in writing, and a slight variation from these disturbed her immensely. Though the husband said that this conduct was a behavioural disorder, 'in the absence of any medical evidence', the court refused to classify it as a personality disorder.

Noting that the husband found this behaviour unbearable, the judges acknowledged the fact that this might have contributed to the destruction of their already deteriorating relationship. "If the conduct and character of one party causes misery and agony to the other spouse, the element of cruelty to the spouse would surface, justifying grant of divorce. If the parties cannot mend their ways, the law cannot remain oblivious to those who suffer in that relationship."

Saying that both of them are young and have been living separately since 2017, the judges upheld the divorce given to the couple. With respect to the custody petition filed by the husband, the court said that while the custody shall remain with the wife, its order will not stand in the way of the husband's option to move family court with a fresh petition for visitorial rights or contact rights.

Wednesday 16 February 2022

بغیر نکاح خواں اورنکاح نامہ اوردستخط کے محض ایجاب وقبول سے نکاح

 اگر مجلس نکاح میں ایجاب وقبول کرنے والوں کے علاوہ کم از کم دو مسلمان مرد یا ایک مسلمان مرد اور دو مسلمان عورتیں موجود تھیں اور انہوں اپنے کانوں سے دونوں کا ایجاب وقبول سنا تو شریعت کی نظر میں یہ نکاح منعقد ودرست ہوگیا اگرچہ نکاح کا کوئی کاغذ تیار نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس پر کسی کے دستخط لیے گئے ؛ کیوں کہ نکاح نامہ محض استحبابی چیز ہے ، صحت نکاح کے لیے لازم وضروری نہیں ہے۔ وأما الکتابة ففي عتق المحیط: یستحب أن یکتب للعتق کتاباً ویشھد علیہ صیانة عن التجاحد کما فی المداینة بخلاف سائر التجارات للحرج؛لأنھا مما یکثر وقوعھا اھ، وینبغي أن یکون النکاح کالعتق؛لأنہ لا حرج فیہ اھ (رد المحتار، أول کتاب النکاح، ۴:۸۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

Monday 14 February 2022

کیاحضرت فاطمہ رضی اللہُ تعالیٰ عنہا حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ سے عمربھرناراض رہیں

 امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ صحیح بخاری میں حدیث پیش کرتے ہیں۔

حدثنا عبد الله بن محمد حدثنا هشام أخبرنا معمر عن الزهري عن عروة عن عائشة أن فاطمة والعباس عليهما السلام أتيا أبا بکر يلتمسان ميراثهما من رسول الله صلی الله عليه وسلم وهما حينئذ يطلبان أرضيهما من فدک وسهمهما من خيبر فقال لهما أبو بکر سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول لا نورث ما ترکنا صدقة إنما يأکل آل محمد من هذا المال قال أبو بکر والله لا أدع أمرا رأيت رسول الله صلی الله عليه وسلم يصنعه فيه إلا صنعته قال فهجرته فاطمة فلم تکلمه حتی ماتت

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس رسول اللہ کے (ترکہ میں سے) اپنے میراث مانگنے آئے اور وہ دونوں اس وقت فدک کی زمین اور خیبر کی زمین سے اپنا حصہ وصول کر رہے تھے تو ان دونوں سے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہمارا کوئی وارث نہ ہوگا اور جو کچھ ہم نے چھوڑا وہ صدقہ ہے صرف اس مال سے آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھائیں گے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا خدا کی قسم میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو کام کرتے ہوئے دیکھا ہے اس کو نہیں چھوڑتا ہوں چنانچہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملنا جلنا چھوڑ دیا اور ان سے گفتگو چھوڑ دی یہاں تک کہ وفات پاگئیں۔
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1645 ،- فرائض کی تعلیم کا بیان :
منکرین حدیث اس حدیث پر اعتراض کرتے ہیں کہ اگر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس فیصلے کو ماننےسے انکار کیوں کیا؟؟؟ اور ساتھ ہی یہ اعتراض بھی نقل کرتے ہیں کہ یہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی شان پر بھی چوٹ پڑتی ہے ۔کیونکہ فاطمہ رضی اللہ عنہم نے مرتے دم تک ابوبکر رضی اللہ عنہ سے گفتگو کی اور نہ ہی ملاقات کی۔
جواب:-
دراصل یہاں صرف اور صرف مغالطوں سے کام لینے کی کوشش کی جارہی ہے،کیونکہ اگر تمام طرق احادیث اسی مسئلہ پر جمع کیے جائیں تو یہ سارے اعتراضات کا لعدم ہوجاتے ہیں۔رہی بات اس مسئلے کی کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی پیش کردہ حدیث مانے سے انکار کیوں کیا؟؟تو اس بات کو ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا تک یہ حدیث نہ پہنچی تھی تب تو انہوں نے وراثت مانگی لیکن جب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ انہیں حدیث سنائی تو انہوں نے کبھی بھی وراثت کا سوال نہیں کیا۔اور نی ہی کسی صحیح حدیث میں موجود ہے کہ انہوں نے حدیث سننے کے بعد حدیث کی مخالفت کی ہو۔لہذا یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا فرماں رسولصلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل طور پر عاملہ تھیں۔
جن احادیث میں یہ ذکر ہو ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کبھی بھی ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے گفتگواس امر پر محمل ہے کہ وراثت کے مسئلے کے لیے گفتگو نہ فرمائی لیکن ملاقات ترک نہ کی اور نہ اس کی کوئی واضح دلیل ہے۔
حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:۔
{فھجرتہ فاطمۃ فلم تکلمہ حتیٰ ماتت} ووقع عندبن شبۃ من وجہ اٰخر عن معمر{فلمہ تکلمہ فی ذالک المال}فتح الباری ،ج 6 ،ص164
ترجمہ:-{فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملاقات ترک کی اور مرتے دم تک ان سے گفتگو نہ کی}معمر سے بطریق یہ روایت ہے کہ {جس روایت میں یہ ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے گفتگو نہ کی اس سے مراد یہ ہے کہ } فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے وراثت کے مال کے بارے میں گفتگو نہ کی۔"
یعنی وراثت کے مسئلے پر گفتگو نہ کی لہذا اگر کوئی ان باتوں سے فاطمہ رضی اللہ عنہا کا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مطلق ناراضگی مرادلے گا تو یہ غلط ہے۔کیونکہ دوسری روایت اس بات پر شاہد ہیں کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے گفتگو بھی فرمائی اور ان سے ملاقات بھی کی ۔
امام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب السنن الکبری میں زکر فرماتے ہیں۔
"امام مرضت فاطمۃ رضی اللہ عنہا اتاھا ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ فاستاذن علیھا فقال علیٰ : یافاطمۃ ؛ ھزا ابوبکر یستاذن علیک فقالت : اتحب ان اذن لہ قال نعم فاذنت لہ فدخل علیھا یترضاھا"{السنن الکبری ، ج 6 ،ص 491 ،رقم 12735
ترجمہ:-"جب فاطمہ رضی اللہ عنہا بیمار ہوئیں تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کے پاس تشریف لائے اور آنے کی اجازت طلب کی تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : فاطمہ ، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے ہیں آپ سے ملنے کی اجازت طلب کر رہے ہیں۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کیا آپ ان سے ملاقات کی اجازت دیں گے ؟؟تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیوں نہیں پس وہ تشریف لائے اور ان کو راضی کیا۔"
سبحان اللہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تمام اعمال اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کے لیے ہوا کرتے تھے ۔الحمدللہ اس حدیث نے واضح کردیا کہ ان میں کو ئی بھی ایک دوسرے سے خفا نہیں تھا اور نہ ہی ناراضی تھی بلکہ احا دیث ہی پر عمل پیرا ہوتے تھے اور اپنی دنیا اور آخرت کی نجات بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں ہی سمجھتے تھے۔

بیٹااوربیٹی کی حضانت وپرورش کاحق


حضانت کا لغوی معنی پرورش کرنا، کہا جاتا ہے۔ حضن الطائر بیضہ

جب پرندہ اپنے پروں کے نیچے انڈے رکھ کر انہیں گرمائش دے۔

حضنت المرأۃ صبیھا، جب کوئی عورت اپنے بچے کو گود میں لے یا اس کی پرورش کرے۔ 

(لسان العرب، مادہ حضن)

شرعی معنی: جو اپنے امور کو بذات خود انجام نہ دے سکے اس کا خیال رکھنا، اور مصالح کے مطابق اس کی تربیت کرنا۔ (الموسوعۃ الفقیہۃ ج ۱۷، ص ۲۹۹)

بچوں کی حضانت ایک شرعی حق ہے جو متعلقہ افراد کو ملتا ہے اس حق میں اس ناسمجھ بچے کی بہتری پیش نظر ہوتی ہے جو خود سے اپنے آپ کو نہ سنبھال سکتا ہے اور نہ تربیت کرنے والے کی تربیت و پرورش کے مراحل سے گذرے بغیر عمدہ اوصاف کا حامل ہو سکتا ہے۔ اس کو اس بات کی ضرورت ہے کہ کھانے پینے، پہننے، سونے، جاگنے اور صفائی کرنے میں کوئی اس کی ہر وقت نگرانی کرے اور مناسب اوقات پر مناسب انتظامات کے لیے ہر وقت مستعدر ہے۔

دیگر حقوق کے برعکس حق حضانۃ (پرورش کے حق) میں عورتیں مردوں پر مقدم ہوتی ہیں، ان کو یہ حق مردوں کی نسبت ترجیحاً ملتا ہے، کیونکہ عورتوں میں شفقت و مہربانی کے ساتھ بچوں کی پرورش کے اس حق کو انجام دینے کا نمایاں ہوتا ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: 

ان امرأۃ قالت: یارسول اللہ، ان ابنی ھذا کان بطنی لہ وعاء وثدیی لہ سقاء وحجری لہ حواء وان اباہ طلقنی واراد ینتزعہ منی فقال لہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ’’انت احق بہ مالم تنکحی‘‘۔ (ابودائود، ج ۱ ، ص ۳۱۷)

ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر عرض کرنے لگی، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا یہ بیٹا، میرا شکم اس کا برتن بنا رہا، میرے سینے سے یہ سیراب ہوتا رہا اور میری گود اس کی پرورش گاہ رہی، اس کے باپ نے مجھے طلاق دے دی اور اب مجھ سے بیٹا بھی چھیننا چاہتا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو بیٹے کی زیادہ حقدار ہے جب تک تو آگے کہیں نکاح نہیں کرتی۔ 

حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ام عاصم کو طلاق دے دی، اُم عاصم کی گود میں بچہ تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے اور عاصم بچے کو لینا چاہا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ ادرام عاصم دونوں نے اس بچہ کو اپنی جانب کھینچا، وہ بچہ رونے لگا، یہ دونوں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس (فیصلہ کے لیے) چلے گئے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عمر! اس کی ماں کا ہاتھ پھیرنا، گود اور خوشبو بھی بچے کے لیے تیرے سے بہتر ہے۔ یہاں تک کہ بچہ بڑا ہو جائے اور اپنے لیے کچھ اختیار کر سکے۔

(ابن شیبہ بحوالہ زیلعی ج ۲، ص ۵۲)

مندرجہ بالا روایات سے یہ واضح ہے کہ حق حضانت میں عورتیں مردوں پر مقدم ہوتی ہیں، البتہ حق ولایت (ولی اور سرپرست ہونے کا حق) مردوں کو حاصل ہوتا ہے جس کی تفصیل کتب فقہ میں موجود ہے، ہمارے پیش نظر فقط حق حضانت سے متعلقہ امور کو ذکر کرنا ہے۔

حق حضانت کی ترتیب: 

جب بچہ کے والدین رشتہ زوجیت سے منسلک ہوں تو بچہ دونوں کی تربیت میں پرورش پاتا ہے، لیکن اگر طلاق یا وفات وغیرہ کی وجہ سے دونوں کے درمیان تفریق ہو جائے تو بالاتفاق ماں کو حق حضانت حاصل ہوتا ہے اگر ماں موجود نہ ہو تو مندرجہ ذیل ترتیب کے مطابق یہ حق منتقل ہو جاتا ہے۔

ماں کے بعد نانی، اس کے بعد دادی، پھر حقیقی بہن، اس کے بعد ماں شریک بہن، پھر باپ شریک بہن، اس کے بعد حقیقی بہن کی بیٹی، اس کے بعد ماں شریک بہن کی بیٹی اس کے بعد حقیقی خالہ، اس کے بعد ماں کے اعتبار سے خالہ، اس کے بعد باپ کے اعتبار سے خالہ اس کے بعد باپ شریک بہن کی بیٹی، اس کے بعد حقیقی بھائی کی بیٹی پھر ماں شریک بھائی کی بیٹی، اس کے بعد باپ شریک بھائی کی بیٹی، اس کے بعد حقیقی پھوپھی، پھر ماں کے اعتبار سے پھوپھی، پھر باپ کے اعتبار سے پھوپھی، پھر ماں کی خالہ، اس کے بعد باپ کی خالہ اس کے بعد ماں اور باپ کی پھوپھیاں، اس کے بعد وراثت کی ترتیب کے مطابق عصبات کو حق حضانت حاصل ہوگا، چنانچہ سب سے پہلے باپ کو یہ حق حاصل ہوگا۔ اس کے بعد دادا کو، پھر حقیقی بھائی کو یہ حق ملے گا آخر تک ....... عصبات کی ترتیب کے مطابق، اور عصبات کے نہ ہونے کی صورت میں یہ حق ذوی الارحام کی طرف منتقل ہو جائے گا، جس کی تفصیل فقہ کی کتب میں موجود ہے۔ 

(ملخص: ردالمحتار مع الدرالمختار ۲/۶۹۲۔ ۲۹۴)

امام مالک، امام شافعی اور امام احمد رحمہم اللہ کے نزدیک بھی حق حضانت میں سب سے مقدم ماں ہے، ماں کے بعد حضانت کے استحقاق میں ان کے نزدیک صورتیں قدرے مختلف ہیں جس کی تفصیل ان کی کتب فقہ میں دیکھی جا سکتی ہے۔

حضانت کے استحقاق کی شرائط: 

استحقاق حضانت کی درج ذیل شرائط ہیں: 

(۱) پرورش کرنے والے کا بالغ اور عقلمند ہونا ضروری ہے اگر وہ بالغ یا عقلمند نہیں تو وہ خود پرورش اور دیکھ بھال کا محتاج ہے وہ دوسرے کی پرورش کس طرح کرے گا؟

(۲) اگر پرورش کرنے والی عورت کافرہ ہے تو اس کو حق حضانت اس وقت تک حاصل رہے گا جب تک بچہ دین کی سمجھ نہ رکھتا ہو، اور جب یہ اندیشہ ہو کہ بچہ کافرانہ طریقوں سے مانوس ہونے لگا ہے تو پھر اس بچہ کو کافرہ کی پرورش سے نکال کر کسی مسلمان کی پرورش میں دے دیا جائے گا۔

(۳) اگر پرورش کرنے والا ایسا فاسق ہو کہ اس کے فسق کا ضرر بچہ پر پڑے اور بچہ کی تربیت خراب ہونے کا اندیشہ ہو تو اس کا حق حضانت ساقط ہو جائے گا لیکن اگر اس کے فسق و فجور کی طرف مائل ہونے کا اندیشہ ہو تو پھر فاسق شخص سے لے لیے جائے گا۔ 

(۴) پرورش کرنے والا بچہ کی دیکھ بھال کی استطاعت رکھتا ہو۔ بوڑھا، بیمار، نابینا او رکام کاج کے لیے زیادہ اوقات گھر سے باہر گذارنے والا شخص، بچہ کی دیکھ بھال بہتر طریقہ سے نہیں کر سکتا، جس کی وجہ سے بچہ کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو گا لہٰذا ایسے بے استاسعت لوگوں کا حق حضانت بھی ساقط ہو جائے گا۔ 

(۵) پرورش کرنے والی عورت کا استحقاق اس وقت ختم ہو جاتا ہے جب وہ اجنبی مرد سے شادی کر لے، ہاں اگر وہ بچہ کے قریبی رشتہ دار سے شادی کرتی ہے تو اس کا حق حضانت ختم نہیں ہوتا۔ (ملخص: ردالمحتار ج ۲ ، ص ۶۸۸، ۶۹۴، و بدائع الصنائع ج ۴، ص ۴۳، ۴۴)

حضانت کے دوران بچہ کو دوسرے مقام پر لے جانا:

اگر بچہ کی ماں شوہر کی عدت میں ہے تو دورانِ عدت وہ خود بھی شوہر کے گھر میں رہے گی اور بچہ کو بھی وہیں رکھے گی۔ لیکن عدت ختم ہونے کے بعد وہ مندرجہ ذیل مقامات کی طرف مدت حضانت کے دوران بچہ کو لے جا سکتی ہے۔

(۱) کسی قریبی شہر کی طرف لے جا سکتی ہے جس شہر کا ماحول شوہر کی جائے سکونت کے ماحول جیسا ہو، اور جہاں باپ دادا وغیرہ اگر چاہیں تو دن دن میں بچہ کو مل کر رات ہونے سے قبل واپس گھر آسکیں۔

(۲) ایسے دور شہر کی طرف بھی لے جا سکتی ہے جو شہر اس عورت کا وطن ہو اور شوہر نے اس شہر میں اس عورت کے ساتھ نکاح کیا ہو لیکن عورت بچہ کو کافروں کے ملک کے شہر کی طرف نہیں لے جا سکتی۔ (ردالمحتار ج ۲، ص ۶۹۸، بدائع ج ۴، ص ۴۴)

بچہ جب والدین میں سے کسی ایک کے پاس ہو تو وہ دوسرے کو بچے سے ملاقات کرنے سے منع نہیں کر سکتا، لیکن اس کو اس بات پر مجبور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ بچہ کو اس کے ساتھ دوسری جگہ بھیج دے۔

حضانت کا معاوضہ: 

اگر بچہ کی ماں اس کے باپ کے نکاح میں ہو یا طلاق رجعی کی عدت میں ہو تو پھر حضانت کی اجرت کا مطالبہ نہیں کر سکتی اور اگر پرورش کرنے والی عورت ماں کے علاوہ ہو یا ماں ہو لیکن اس کی عدت ختم ہو چکی ہو یا وہ طلاق بائن کی عدت میں ہو تو وہ حضانت کی اجرت کا مطالبہ کر سکتی ہے، بشرطیکہ بچہ کی کوئی دوسری محرم رشتہ دار حضانت کے لیے میسر نہ ہو، اگر بچہ کا ذاتی مال موجود ہو تو اس میں سے اس کو اجرت دی جائے گی اور اگر بچہ کا مال موجود نہ ہو تو باپ کے مال میں سے اس کو اجرت ملے گی یا جن لوگوں پر بچہ کا خرچہ واجب ہو گا ان کی جانب سے اجرت وصول کرے گی۔ 

(ردالمحتار ج ۲، ص ۶۸۹، ص ۶۹۱)

مکان کا کرایہ: 

اگر پرورش کرنے والی عورت بچہ کے باپ کی رہائش گاہ میں رہ رہی ہے یا اپنی ذاتی رہائش میںپرورش کر رہی ہے تو اس کو مکان کے کرایہ کے مطالبہ کا حق حاصل نہیں لیکن اگر پرورش کرنے والی کا کوئی گھر نہیں اور اسے کرایہ پر مکان لے کر رہنا پڑے تو مدت حضانت کے دوران مکان کا کرایہ اس شخص پر واجب ہوگا جس پر بچہ کا خرچہ واجب ہے۔ (ردالمحتار ج ۲، ص ۶۹۲)

حق حضانت کا اختتام: 

بچوں کی حضانت (پرورش) کا آغاز ولادت کے بعد ہو جاتا ہے، جیسے ہی بچہ پیدا ہو اس کی حضانت سابق میں ذکر کردہ ترتیب کے مطابق شروع ہو جائے گی، اور یہ بات گذر چکی ہے کہ بچہ کی حضانت کا حق مردوں کو ترجیحاً حاصل ہوتا ہے، اگر زوجین کے درمیان رشتہ زوجیت موجود ہو تو ظاہر ہے کہ بچہ گھر میں ماں کی حضانت اور باپ کی ولادت میں پرورش پاتا ہے، لیکن اگر دونوں میں جدائی ہو جائے تو بچے کی پرورش کا حق ماں کو حاصل ہو گا اور یہ حق کب تک حاصل رہے گا اور کب اس کا اختتام ہوگا؟ اس بارے میں حضرات آئمہ کرام کے مختلف اقوال ہیں ان کو بالتفصیل یہاں ذکر کیا جاتا ہے۔

(۱) فقہ حنفی کے مطابق لڑکا ماں کی پرورش میں رہے گا یہاں تک کہ وہ پرورش سے مستغنی ہو جائے، خود کھا پی سکے، کپڑے وغیرہ پہن سکے اور استنجا وغیرہ کر سکے اور بچہ تقریباً سات سال کی عمر میں یہ باتیں سیکھ جاتا ہے، اس لیے سات سال کی عمر تک بچہ ماں کی پرورش میں رہے گا اور ایک قول کے مطابق بچہ نو سال تک ماں کی پرورش میں رہے گا۔

اگر پرورش کرنے والی ماں، نانی یا دادی ہو تو بچی بالغ ہونے تک ان کی پرورش میں رہے گی اور ان کے علاوہ کوئی اور پرورش کرنے والا ہو تو بچی نو سال تک ان کی پرورش میں رہے گی۔ امام محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بچی خواہ ماں وغیرہ کی پرورش میں ہو یا کسی اور کی پرورش میں بہرحال جب وہ نو سال کی ہو جائے تو اس کی حضانت ختم ہو جائے گی۔

جب ماں، نانی اور دادی وغیرہ کی حضانت کا حق ختم ہو جائے تو بچہ یا بچی باپ دادا وغیرہ کو دے دئیے جائیں گے تاکہ وہ ان کی تعلیم و تربیت اور شادی وغیرہ کا بندوبست کریں۔

بچہ یا بچی کو اس بات کا اختیار نہیں دیا جائے گا کہ وہ ماں اور باپ میں سے جس کے پاس رہنا پسند کریں اس کے پاس رہیں کیونکہ ان بچوں کو وہ بالغ نظری حاصل نہیں کہ وہ دینی اور دنیاوی بھلائیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے کسی ایک طرف کا بہتر انتخاب کر سکیں بلکہ یہ تو ابھی کھیل کود کو پسند کرتے ہیں اور جس کی طرف ان کو کھیل تماشا زیادہ ملے گا وہ ادھر جائیں گے اور جس طرف تعلیم و تعلم اور سیرت و اخلاق کی تعمیر کی بات ہوگی وہ اس طرف سے بھاگیں گے۔ 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: 

جب تمہارے بچے سات سال کے ہو جائیں تو ا نہیں نماز کا حکم دو اور جب دس سال کے ہو جائیں تو نماز نہ پڑھنے پر ان کو (مناسب انداز سے) مارو اور ان کے بستر الگ الگ کر دو۔ (الحدیث)

ظاہر ہے کہ بچوں کو مذکورہ بالا آداب سکھانے کا حکم سرپرستوں کو دیا جارہا ہے کہ وہ بچوں کی تربیت اس نہج پر کریں کہ وہ خدا کے فرمانبردار بن جائیں اور اس کے احکام کی تعمیل کریں، ہاں اگر بچہ کا کوئی مرد سرپرست زندہ نہ رہا ہو تو پھر یہ حکم ماں، نانی وغیرہ کے لیے ہوگا اور ان کی یہ ذمہ داری ہوگی کہ وہ بچہ کی عمدہ تربیت کریں۔

تجربہ اور مشاہدہ اس بات پر شاہد ہے کہ جو بچے ماں کی گود سے ہمیشہ کے لیے چمٹے رہیں وہ مردوں کی نسبت عورتوں کے مزاج سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور مردانہ طریقوں پر ان کو کچھ زیادہ عبور نہیں ہوتا وہ صنف نازک کی لطافت سے متاثر ہو کر مردانہ وقار سے محروم رہتے ہیں ہاں ماں کی گود بیٹی کی پرورش کے لیے زیادہ مفید ہے اس لیے وہ بالغ ہونے تک ماں کی پرورش میں رہے گی۔

حدیث میں ہے کہ جب حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی کی پرورش کے بارے میں حضرت علی، حضرت جعفر اور زید رضی اللہ عنہم نے اختلاف کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچی کو اختیار دئیے بغیر حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی پرورش میں دے دیا کیونکہ وہاں ان کی خالہ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے گھر میں موجود تھیں اور خالہ کو اس بچی کی پرورش کا حق حاصل تھا۔ 

(دیکھئے اعلاء السنن، ج ۱۱، ص ۲۶۹۔ ۶۷۱)

جب بچہ بالغ ہو جائے اور عقلمند اور سمجھدار بھی ہو تو اس کو اختیار دیا جائے گا کہ وہ جس کے ساتھ رہنا چاہے رہ سکتا ہے اب وہ اپنے نفع اور نقصان کا خود ذمہ دار ہے، لیکن اگر سرپرست یہ دیکھے کہ اس کو بااختیار کر کے چھوڑ دینے سے اس کا ناقابل تلافی نقصان ہوگا تو اس کو اپنے ساتھ بھی رکھ سکتا ہے۔ اور لڑکی بالغ ہونے کے بعد والد یا دادا کے پاس رہے گی، ہاں جب وہ ایسی عمر میں پہنچ جائے کہ اب اس کے بارے میں کسی قسم کا خوف و اندیشہ نہ ہو تو اس کو بھی اختیار ہوگا کہ وہ جس کے پاس رہنا چاہے رہ سکتی ہے۔ (ردالمحتار ج ۲، ص ۶۹۶)

(۲) امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عورتوں کے پاس بچہ کی پرورش کا حق بالغ ہونے تک رہتا ہے اور بالغ ہونے کے بعد ختم ہو جاتا ہے بچی کی پرورش کا حق اس کی شادی اور رخصتی تک عورتوں کے پاس ہی رہتا ہے۔ (دسوقی علی شرح الدردیر، ج ۲، ص ۶۳۲۔ ۵۳۳)

امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں بچہ یا بچی دونوں کی پرورش کا حق ماں کو حاصل رہے گا اور جب بچہ یا بچی سن تمیز کو پہنچ جائیں یعنی سات یا آٹھ سال کے ہو جائیں تو ان کو والد یا والدہ کے پاس رہنے میں اختیار دیا جائے گا وہ جس کو اختیار کر لیں گے تو اسی کو تربیت میں دے دئیے جائیں گے، اگر وہ کسی کو بھی اختیار نہ کریں تو وہ والدہ کی پرورش میں دے دئیے جائیں گے، کیونکہ ماں زیادہ شفیق اور مہربان ہے او ربچہ پہلے سے اس کی تربیت میں پرورش پاتا چلا آرہا ہے اور اگر بچہ دونوں کو اختیار کر لے تو پھر قرعہ اندازی کے ذریعے فیصلہ کیا جائے گا اور قرعہ اندازی میں جس کا نام نکل آئے بچہ کو اس کی تربیت میں دے دیا جائے گا اور بلوغت کے بعد وہ بااختیار ہے وہ دونوں میں سے جس کے پاس رہنا چاہے وہ رہ سکتا ہے تاہم بہتر یہ ہے کہ ساتھ ہی رہے تاکہ اسے احسان اور نیکی کرنے کا ثواب ملتا ہے۔ (مغنی المحتاج ج ۳، ص ۵۳۶۔ ۳۵۹)

امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں لڑکا سات سال کی عمر تک ماں کی پرورش میں رہے گا اس کے بعد اگر والدین اتفاق رائے سے کسی ایک کے پاس بچہ کے رہنے پر رضا مند ہوں تو وہ اس کو اپنی پرورش میں رکھ سکتا ہے اور اگر دونوں میں سے ہر ایک اس کو اپنے پاس رکھنے پر مصر ہو تو بچہ کو اختیار دیا جائے گا وہ جس کو اختیار کر لے اس کے پاس رہے گا، اگر بچہ سوئِ اختیار کی وجہ سے اس کو اختیار کرنے لگے جہاں اس کی تعلیم و تربیت اور سیرت و اخلاق کا واضح نقصان نظر آتا ہو تو بچہ کو اختیار نہیں دیا جائے گا بلکہ اس کی مصلحت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس شخص کے حوالے کیا جائے گا جو اس کو بہتر پرورش کے ساتھ عمدہ تعلیم و تربیت کا انتظام کر سکے۔

او رلڑکی جب سات سال کی ہو جائے تو اس کو اختیار نہیں دیا جائے گا بلکہ وہ لازمی طور پر والد کے حوالے کی جائے گی اور شادی بلکہ رخصتی تک والد کے پاس رہے گی۔ (المغنی ج ۷، ص ۶۱۴، ۶۱۶)

مندرجہ بالا سطور میںآپ نے ملاحظہ کیا کہ امام ابو حنیفہؒ اور امام مالکؒ بچہ کو اختیار دینے کے قائل نہیں امام شافعیؒ اور امام احمدؒ اس کے قائل ہیں۔

امام شافعی اور امام احمد مندرجہ ذیل احادیث سے استدلال کرتے ہیں۔

(۱) حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بچے کو والد یا والدہ میں سے جس کے پاس چاہے رہنے کا اختیار دیا۔ (زاد المعاد ج ۴، ص ۱۴۹ بحوالہ ترمذی)

(۲) حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہنے لگی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا شوہر مجھ سے میرا بیٹا چھیننا چاہتا ہے حالانکہ وہ (میرا بیٹا) مجھے ابو ابو عتبہ کے کنویں سے پانی پلاتا ہے اور مجھے فائدہ دیتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم دونوں قرعہ اندازی کر لو، شوہر نے کہا، میرے بیٹے کا میرے سے زیادہ کون حق رکھتا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹے سے فرمایا یہ تیرا باپ ہے اور یہ تیری ماں ہے ، تم جس کا چاہو ہاتھ پکڑ لو، بیٹے نے ماں کاہاتھ پکڑ لیا اور وہ اسے اپنے ساتھ لے گئی۔ 

(زاد المعادج، ج ۴، ص ۱۴۹ بحوالہ ترمذی)

(۳) عبدالحمید بن جعفر انصاریؒ فرماتے ہیں کہ ان کے دادا اسلام لے آئے مگر دادی نے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کے دادا اپنے چھوٹے بیٹے کو لے کر جو ابھی بالغ نہیں ہوا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باپ کو ایک طرف بٹھا دیا اور ماں کو دوسری طرف بٹھا دیا پھر بچے سے مخاطب ہو کر فرمانے لگے، تم اختیار کرو اور ساتھ دُعا فرمائی۔ اللھم اھدہ۔ اے اللہ! اس بچے کی راہنمائی فرما وہ بچہ باپ کے پاس چلا گیا۔ (زادالمعادج، ج ۴، ص ۱۴۹، بحوالہ نسائی)

مندرجہ بالا احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بچہ کو اختیار دینا منقول ہے۔ لیکن تفصیلی روایات میں یہ مذکور ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچہ کو اختیار دینے سے قبل والدین کو لڑائی جھگڑا ختم کرنے کی ترغیب دی اور جانبین کی رضا مندی سے بچہ کو اختیار دیا، اگر اختلاف کو اس مصالحت کے طریقہ سے رفع کرنا ممکن ہو تو یہ سب سے بہتر طرزِ عمل ہوگا۔

چنانچہ امام طحاوی رحمہ اللہ مشکل الآثار میں ذکر کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار دینے سے قبل اس کے والدین کو اس بات پر رضا مند کیا کہ وہ بچہ کو خود فیصلہ کرنے کا اختیار دے دیں۔ (مشکل الآثار ج ۴، ص ۱۸۰، بحوالہ اعلاء السنن ج ۱۱، ص ۲۷۱)

اور حدیث (۳) میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دعا فرمانے کی وجہ سے اللہ رب العزت نے بچہ میں اپنے لیے بہتر انتخاب کی ہدایت عطا فرما دی اور بچہ نے باپ کا ہاتھ پکڑ لیا۔ بہرحال بچہ یا بچی کو اختیار دینا کوئی ایسی بات نہیں جو شریعت کے ضابطہ کے طور پر منقول ہو اور جس کے خلاف کبھی نہ کیا جا سکتا ہو اگر یہ بات ضابطہ کے طور پر منقول ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی کو اختیار دئیے بغیر حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے حوالے نہ کرتے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ بچی یا بچہ سمجھدار ہونے سے قبل ماں کی پرورش میں رہیں گے، اور سمجھدار ہونے کے بعد کس کے پاس رہیں گے؟ اس میں حضرت آئمہ کرام کے مختلف اقوال ہیں جن کی تفصیل سابقہ سطور میں آپ پڑھ چکے ہیں، جس سے یہ بات بخوبی واضح ہے کہ مندرجہ بالا مسئلہ ایک مجتہد فیہ مسئلہ ہے جس میں فقہائے متبوعین کی مختلف آراء موجود ہیں۔ ایسے اجتہادی مسائل میں کسی ایک جانب کو قطعی اور فیصلہ کن قرار دیتے ہوئے باقی آراء کو غلط قرار دینا مناسب نہیں۔

نزاع کو ختم کرنے کے لیے سب سے پہلے جانبین کو ترغیب دی جائے کہ وہ بچے کے بہتر مستقبل کو پیش نظر رکھتے ہوئے اگر اپنی آراء کو چھوڑ کر ایثار کا اظہار کریں تو یہ باہمی منازعت کو ختم کرنے کے لیے ایک عمل خیر ہوگا اور اگر دونوں اس بات پر رضا مند ہو جاتے ہیں کہ بچہ کو ہی اختیار دے دیا جائے کہ وہ کس کا ہاتھ تھامتا ہے تو یہ بھی کوئی غلط فیصلہ نہیں (دیکھئے اعلاء السنن ج ۱۱، ص ۲۷۱) لیکن اگر فریقین کسی صورت بھی اپنی آراء سے پیچھے نہ ہٹیں اور نہ ہی بچہ کو اختیار دینے پر رضا مند ہوں تو پھر بچوں کے بہتر مستقبل کی خاطر بیٹا سات سال کی عمر تک والدہ کی پرورش میں رہنے دیا جائے گا اور والدہ اپنے والدین کے گھر میں لے جا کر بھی بچے کی پرورش کر سکتی ہے اور سات سال کے بعد بیٹا سرپرست کی تربیت میں دے دیا جائے گا اور بیٹی بالغ ہونے تک والدہ کی پرورش میں رہے گی اور بلوغت کے بعد شادی وغیرہ کے انتظامات کے لیے سرپرستوں کی ذمہ داری میں دے دی جائے گی۔"

خلاصۂ کلام 

 اگر طلاق یا خلع ہوجائے تو سات سال تک بچے کی پرورش اور نوسال تک بچی کی پرورش کا حق ماں کو ہوتا ہے اور خرچہ باپ کے ذمہ ہوتا ہے لیکن اگر ماں کسی ایسے مرد سے نکاح کرلے جو بچے کا محرم رشتہ دار نہ ہو تو اس کا حق حضانت ساقط ہوجاتا ہے، سات سال اور نو سال کے بعد باپ اپنے بچوں کو اپنی تربیت میں لے سکتا ہے بلکہ اگر ماں کے اخلاق برے ہوں اور بچوں کو ضائع ہونے کا اندیشہ ہو تو اس سے پہلے بھی اپنی تربیت میں لے سکتا ہے، ب

Sunday 13 February 2022

بیٹی اپنے والد کے پاؤں دباسکتی ہے یانہیں

 قرآن مجید اور احادیثِ مقدسہ میں والدین کے ساتھ نیکی کرنے اور ان کے ساتھ ادب و احترام والا معاملہ کرنے کی بہت تاکید وارد ہوئی ہے، اس لئے والدین کی تعظیم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی خدمت کرنا اولاد کا فرض ہے، پس اگر کوئی بیٹی اپنے والد کے پاؤں دبانا چاہے تو ضرور دبانا چاہئے، اور اس پر اللہ پاک سے ثواب کی امید بھی رکھنی چاہئے، نیز  ان کے حق میں وہ دعا کرتے رہیں جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآنِ کریم میں سکھائی ہے:

{رَبِّ ارْحَمْهُمَا کَمَا رَبَّیَانِيْ صَغِیْرًا}

یعنی اے میرے رب! ان دونوں (میرے والدین) پر رحم فرما، جیسے انہوں نے مجھے بچپن میں پالا اور تربیت کی۔ 

البته اگر فتنے كا انديشه هو تو گريز كا كرنا چاهيے۔

Thursday 10 February 2022

نکل کر خانقاہوں سے اداکررسم شبیری

 آج کل پوری دنیا میں آزادئ اظہاررائے, آ زادئ لباس آزادی اکل وشرب آزادئ ربط وتعلق  وغیرہ پرپورے زور شور سے بحث جاری ہے.کیونکہ سب سے ماڈرن وہ معاشرہ سمجھاجاتاہے جس میں سب سے زیادہ آزادی ہوجہاں کوئی روک ٹوک نہ ہو. امریکی معاشرہ اس لئے سب سے ماڈرن  اور ترقی یافتہ سمجھاجاتاہے کیونکہ اس میں سب سے زیادہ آزادی حاصل ہے کوئی روک ٹوک نہیں جوچاہے پہنیں جوچاہے کھائیں جیسا چاہیں لباس زیب تن کریں خواتین حجاب یا نیم عریاں لباس زیب تن کئے کہیں بھی آجاسکتی ہیں. اسکول کالجز میں کوئی ڈریس کوڈ نہیں. پردہ یاحجاب پرنہ پابندی نہ کوئی لازمی ہدایات ہیں .اس کے باوجود بے شمارمسلم خواتین اسکارف پہنے کالجز ویونی ورسٹیز جاتی ہیں کوئی روک ٹوک نہیں. اسی کویقینا کھلی آزادی کہاجاتاہے. امریکہ میں معاشرہ ہی نہیں عدلیہ بھی آزاد ہے. حکمراں پارٹی کے تیور دیکھ کرحماقت پرمبنی فیصلے نہیں کئے جاتے جیساکہ برصغیر میں آئے دن دیکھنے کوملتاہے. برطانیہ میں بھی یہ آزادی دیکھی جاسکتی وہاں بھی طلباء کے لئے کوئی ڈریس کوڈ نہیں .جس کا جی چاہے جیسالباس پہن کر چاہیں کالج یونیورسٹی جائیں. اس کے باوجود مسلم طالبات حجاب میں بھی نظر آتی ہیں. ہندوستان کے بیشتر قوانین برطانیہ کے مرہون منت ہیں لیکن اس  ملک کی عدلیہ اور برصغیر کی عدلیہ میں زمین وآسمان کافرق ہے. کرناٹک ہائی کورٹ نے حجاب کے معاملہ میں جوضمنی فیصلہ دیا ہے اُس کے بعد اس سے  کسی حتمی اور آخری فیصلہ میں کسی امید افزا فیصلے کی توقع کرنافضول ہے .بلکہ ایک ایسے ہی فیصلے کاگمان غالب ہےجیساکہ ہم ماضی میں دیکھتے آئے ہیں. نرسنگھانند جسنے مسلمانوں کی نسل کشی پردھرم سانسد میں کھلے عام بیان دیااسے ضمانت مل گئی .شرجیل عمرخالد مولاناکلیم صدیقی عرصۂ دراز سے جیل میں بند ہیں کوئی شنوائی نہیں. نہ کوئی ضمانت. اکثریتی طبقے کا کوئی شخص متعصبانہ بیان بازی کرے توکوئی گرفت نہیں اس کے بالمقابل اقلیتی طبقہ اگرحق اورسچ کہدے توآسمان سرپراٹھالیاجاتاہے بلکہ اسے غدارٹھہرایاجاتاہے گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیاجاتاہے  . حامدانصاری صاحب نے سچ سچ کہدیاتوچراغ پاہوگیے انہیں غدار تک کہاگیالیکن گوڈسے کی تعریف کھلے عام کرنے والوں پرکوئی گرفت نہیں. مسلمانوں کی نسل کشی کرنے کی دھمکی دینے والوں کی گرفت نہیں. حجاب معاملہ سے یہ صاف ہوجاتاہے کہ اب مسلم خواتین کے لئے اسلامی شناخت کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے مواقع ختم کئے جارہے ہیں بیٹی پڑھاؤ بیٹی بچاؤ کانعرہ سراسر دوغلے پن پر مبنی ہے. اب مسلمانوں کو اپنے اعلی تعلیم ادارے تیزی سے قائم کرنے چاہئیں تاکہ اسلامی تشخص و شناخت کے ساتھ  خواتین اعلی تعلیم حاصل کرسکیں. یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے ہدایات جاری کی ہیں کہ سوریہ نمسکار کاعلی الصباح سبھی جامعات اور کالجز میں اہتمام کیاجائے کیاسیکولربھارت میں اس کاکوئی جواز ہے کیایہ دوغلہ پن نہیں علی الاعلان مذہبی عمل سرکاری اداروں میں انجام دیناجوموحدہیں انہیں اس پرمجبورکرنا کوئی جواز رکھتاہے. اس کے بعدکسی عدلیہ نے کبھی جنبش مژگاں کاکوئی ہلکاسااحساس کیا؟لیکن حجاب پرسبھی یک زبان !سوریہ نمسکارپرعدلیہ کی خاموشی کے بعد انصاف کے مفہوم اورتوقع پرخدشات لازمی ہیں. سوریہ نمسکار پرسپریم کورٹ تک خاموش ہے .

Wednesday 9 February 2022

فرض نمازکھڑی ہوچکی اورسنت ادانہ کی ہوں. فجرکی سنتوں کاحکم

 فجر کے  علاوہ دوسری کوئی بھی فرض نماز شروع ہوچکی ہو تو سنت شروع کرنا درست نہیں ہے، اس لیے کہ آں حضرت ﷺ کا  ارشاد  ہے :"  جب جماعت شروع ہوجائے تو سوائے اس نماز کے کوئی اور نماز نہ پڑھی جائے ۔ ہاں اگر سنتیں شروع کردی ہوں، پھر فرض نماز شروع ہوجائے تو دو  رکعت مکمل کرکے سلا م پھیردے، اور اگر چار رکعت والی سنت پڑھ رہا ہو  اور تیسری رکعت شروع کردی تو جلدی سے چار مکمل کرکے جماعت میں شامل ہوجائے۔

''عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إذا أقيمت الصلاة فلا صلاة إلا المكتوبة»'' .(صحيح مسلم ۔1/ 493)
 البتہ فجر کی سنتوں کی چوں کہ  خصوصی تاکید آئی ہے ، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد  فرمایا ہے : "فجر کی سنت دو گانہ کو نہ چھوڑو ، اگرچہ  گھوڑے تمہیں روند ڈالیں"۔ اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ  "فجر کی دو رکعت دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے ان سب سے بہتر ہے"۔

 اسی لیے متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے کہ انہوں نے فجر کی اقامت ہونے کے بعد بھی سنتِ فجر کو ادا فرمایا ہے، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے جماعتِ فجر شروع ہونے کے بعد یہ دو رکعتیں ادا کی ہیں ،حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی جماعت شروع ہونے کے بعد سنتِ فجر ادا کرنا ثابت ہے۔  حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہم سے بھی اسی طرح ثابت ہے۔ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ارشادات اور ان کا عمل در اصل سنتِ رسول کی تشریح و توضیح کا درجہ رکھتے ہیں ؛ کیوں کہ صحابہ کے بارے میں یہ بات ناقابلِ تصور ہے کہ وہ سنتِ رسول کی خلاف ورزی کریں، اسی پس منظر میں ائمہ اربعہ میں سے امام ابوحنیفہ  اور امام مالک رحمہما اللہ کے نزدیک فجر کی جماعت کھڑی ہونے کے بعد بھی یہ فجر کی دو سنتیں ادا کی جائیں گی ۔

حنفیہ کے مسلک کی تفصیل یہ ہے کہ اگر فجر کی سنتوں کی ادائیگی کے بعد امام کے ساتھ فرض نماز کا قعدہ اخیرہ مل سکتا ہے تو  بھی سنت نہ چھوڑے۔ اگر اس کی بھی  امید نہ ہو تو پھر سنت اس وقت نہ پڑھے .

شرح مشكل الآثار (10/ 320،321)
'' عن عائشة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ركعتا الفجر خير من الدنيا وما فيها۔

 عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا تتركوا ركعتي الفجر وإن طردتكم الخيل۔ "
مصنف عبد الرزاق الصنعاني (2/ 444)

4021 - ''عن أبي إسحاق، عن عبد الله بن أبي موسى قال: «جاءنا ابن مسعود والإمام يصلي الفجر، فصلى ركعتين إلى سارية، ولم يكن صلى ركعتي الفجر»۔ عبد الرزاق۔

4022 - عن معمر، عن أبي إسحاق، عن عبد الله بن أبي موسى، عن ابن مسعود مثله، عبد الرزاق۔

4023 - عن معمر قال: وكان الحسن يفعله ، عبد الرزاق۔

4024 - عن الثوري، عن الأعمش، عن أبي الضحى، وعاصم، عن الشعبي: «أن مسروقاً كان يصليهما والإمام قائم يصلي في المسجد»۔''

شرح مشكل الآثار (10/ 322)
'' عن أبي عبد الله، قال: حدثنا أبو الدرداء، قال: " إني لأجيء إلى القوم وهم في الصلاة صلاة الفجر، فأصلي ركعتين، ثم أضطم إلى الصفوف۔ " وذلك عندنا -والله أعلم- على ضرورة دعته إلى ذلك، لا على اختيار منه له، ولا على قصد قصد إليه، وهو يقدر على ضده، وهكذا ينبغي أن يمتثل في ركعتي الفجر في المكان الذي يصليان فيه، ولا يتجاوز فيهما ما قد رويناه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم مما صححنا عليه هذه الآثار''۔

مصنف عبد الرزاق الصنعاني (2/ 445)
''عن هشام بن حسان، عن الحسن قال: «إذا دخلت المسجد والإمام في الصلاة، ولم تكن ركعت ركعتي الفجر، فصلهما ثم ادخل مع الإمام»، قال هشام: «وكان ابن عمر، والنخعي يدخلان مع الإمام ولا يركعان حينئذٍ»''۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 377)
''(وكذا يكره تطوع عند إقامة صلاة مكتوبة) أي إقامة إمام مذهبه ؛ لحديث: «إذا أقيمت الصلاة فلا صلاة إلا المكتوبة» (إلا سنة فجر إن لم يخف فوت جماعتها) ولو بإدراك تشهدها، فإن خاف تركها أصلاً۔

(قوله: إلا سنة فجر)؛ لما روى الطحاوي وغيره عن ابن مسعود: أنه دخل المسجد وأقيمت الصلاة فصلى ركعتي الفجر في المسجد إلى أسطوانة، وذلك بمحضر حذيفة وأبي موسى، ومثله عن عمر وأبي الدرداء وابن عباس وابن عمر، كما أسنده الحافظ الطحاوي في شرح الآثار، ومثله عن الحسن ومسروق والشعبي شرح المنية.
(قوله: ولو بإدراك تشهدها) مشى في هذا على ما اعتمده المصنف والشرنبلالي تبعاً للبحر، لكن ضعفه في النهر، واختار ظاهر المذهب من أنه لا يصلي السنة إلا إذا علم أنه يدرك ركعة، وسيأتي في باب إدراك الفريضة، ح. قلت: وسنذكر هناك تقوية ما اعتمده المصنف عن ابن الهمام وغيره''.
مصنف عبد الرزاق الصنعاني (2/ 437)
'' عن ابن جريج، عن عطاء قال: «إذا أقيمت الصلاة فلا صلاة، فإن خرج الإمام وأنت راكع، فاركع إليها ركعةً أخرى خفيفةً، ثم سلم»''

اسلام میں پردے کاحکم

 يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا.

(الاحزاب، 33 : 59)

اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دیں کہ (باہر نکلتے وقت) اپنی چادریں اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں، یہ اس بات کے قریب تر ہے کہ وہ پہچان لی جائیں (کہ یہ پاک دامن آزاد عورتیں ہیں) پھر انہیں (آوارہ باندیاں سمجھ کر غلطی سے) ایذاء نہ دی جائے، اور اللہ بڑا بخشنے والا بڑا رحم فرمانے والا ہے۔

دوسری جگہ ارشاد باری تعالی ہے:

وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُوْلِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ.

(النور، 24 : 31)

اور آپ مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے (اسی حصہ) کے جو اس میں سے خود ظاہر ہوتا ہے اور وہ اپنے سروں پر اوڑھے ہوئے دوپٹے (اور چادریں) اپنے گریبانوں اور سینوں پر (بھی) ڈالے رہا کریں اور وہ اپنے بناؤ سنگھار کو (کسی پر) ظاہر نہ کیا کریں سوائے اپنے شوہروں کے یا اپنے باپ دادا یا اپنے شوہروں کے باپ دادا کے یا اپنے بیٹوں یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھتیجوں یا اپنے بھانجوں کے یا اپنی (ہم مذہب، مسلمان) عورتوں یا اپنی مملوکہ باندیوں کے یا مردوں میں سے وہ خدمت گار جو خواہش و شہوت سے خالی ہوں یا وہ بچے جو (کم سِنی کے باعث ابھی) عورتوں کی پردہ والی چیزوں سے آگاہ نہیں ہوئے (یہ بھی مستثنٰی ہیں) اور نہ (چلتے ہوئے) اپنے پاؤں (زمین پر اس طرح) مارا کریں کہ (پیروں کی جھنکار سے) ان کا وہ سنگھار معلوم ہو جائے جسے وہ (حکمِ شریعت سے) پوشیدہ کئے ہوئے ہیں، اور تم سب کے سب اللہ کے حضور توبہ کرو اے مومنو! تاکہ تم (ان احکام پر عمل پیرا ہو کر) فلاح پا جاؤ۔

عورت کے لیے ہاتھ پاؤں اور چہرے کے علاوہ سارا جسم ستر ہے، جس کو چھپانا اس پر فرض ہے۔ مذکورہ بالا تین اعضاء چھپانے کا شرعی حکم نہیں ہے۔

Tuesday 8 February 2022

Why not for maulana Kalim siddiqui

 Additional District and Sessions judge Bharat Bhushan Pandey granted bail to Narsinghanand after a virtual hearing in the case on Monday.

The bail has been granted to Narsinghanand with certain conditions. The court has asked him not to deliver any speech which can disrupt social harmony.

It has also restrained Narsinghanand from becoming part of any group or event with an aim to create discord among different communities.

He will also have to respond to summons by the investigating officer in the case.

Narsinghanand will not intimidate the witnesses in the case directly or indirectly nor would go abroad without the court's permission, it said.

The Dharma Sansad was held in Haridwar from December 17-19.

Two FIRs have been lodged in Haridwar against more than 10 people, including Narasinghanand, in connection with the highly provocative speeches against Muslims delivered at the event.

A special investigation team is probing the case.

Friday 4 February 2022

اسلام میں اجتماعیت کی اہمیت

 1حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''ایسے تین آدمیوں کیلئے جو کسی بیابان میں ہوں، جائز صرف یہ بات ہے کہ وہ اپنے میں سے ایک کو اپنا امیر بنا کر رہیں'' (منتفی ، ص330)۔ 

یہ ارشاد نبویؐ کہتا ہے کہ اگر تین مسلمان بھی کسی جگہ ہوں حتیٰ کہ اگر وہ کسی الگ تھلگ مقام پر اور سنسان وبیابان ہی میں کیوں نہ آباد ہوں، تو بھی ضروری ہے کہ ان میں سے ایک ان کا امیر ہو اور باقی دو اس کے مامور و ماتحت ہوں۔ اس اجتماعیت اور تنظیم کے بلکہ یوں کہئے کہ اس ننھے سے ''ریاستی نظم'' کے بغیر ان کی زندگی اسلامی زندگی نہ ہوگی۔ 
(2 حضرت ابو سعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ''جب تم میں سے تین آدمی (بھی) سفر کیلئے نکلیں تو چاہئے کہ ایک کو اپنا امیر بنالیں'' (ابو داؤد، جلد 1، ص 351)۔ 
یعنی مسلمان کیلئے ہدایت ہے کہ مدتِ سفر جیسا عارضی وقت بھی نظم و امر کے بغیر نہ گزارے۔ اگر تین اشخاص بھی ایک ساتھ سفر کر رہے ہوں تو مزاج اسلامی کے سراسر اخلاف ہوگا اگر انھوں نے اپنے میں سے ایک کو اپنا امیر سفر نہ بنا لیا ہو اور اس کی سرکردگی میں وہ یہ سفر نہ کر رہے ہوں۔ 
(3 حضرت ابو ثعلبہ خشنیؓ کہتے ہیں کہ لوگوں کی عادت تھی کہ سفر کے دوران جب کہیں پڑاؤ ڈالتے تو ادھر ادھر پھیل جاتے اور اپنی اپنی پسند کی مختلف جگہیں ٹھہرنے کیلئے منتخب کرلیتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار یہ صورتِ حال دیکھی تو سرزنش کرتے ہوئے فرمایا: ''تمہارا اس طرح مختلف گھاٹیوں اور میدانوں میں منتشر ہو رہنا صرف شیطان کی وجہ سے ہے'' (ابو داؤد، جلد اول، ص354)۔ 
اس تنبیہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ ''لوگ پھر کبھی اس طرح منتشر نہ ہوئے اور جب کسی جگہ پڑاؤ ڈالتے تو ایک دوسرے سے بالکل لگ کر ٹھہرتے، حتیٰ کہ خیال ہوتا اگر انھیں ڈھکا جائے تو ایک ہی کپڑے کے نیچے سب آجائیں گے۔ 
معلوم ہوا کہ بغیر کسی جماعتی نظم کے پورا سفر کر ڈالنا تو درکنار ، اس کے دوران چند گھنٹوں کا کوئی پڑاؤ بھی اگر اپنے اپنے طور پر کرلیا جائے اور اتنی سی دیر کی بھی زندگی شانِ اجتماعیت سے آراستہ دکھائی نہ دے سکے تو یہ بات بھی اسلام کو قطعی گوارا نہیں اور اسے وہ شیطان کی پیروی قرار دیتا ہے۔ 
(4 ایک صحابیؓ کسی گھاٹی سے گزر رہے تھے، وہاں انھیں میٹھے پانی کا ایک چشمہ نظر آیا جس نے انھیں اپنا گرویدہ بنالیا۔ دل نے کہا کاش میں آبادی چھوڑ کر یہیں آبستا۔ اس خواہش کو لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حضورپہنچے اور اجازت طلب کی تو آپؐ نے فرمایا ''نہیں ایسا نہ کرو، کیونکہ اللہ کی راہ میں تمہارا کھڑا رہنا گھر کے اندر پڑھی جانے والی تمہاری ستر برس کی نمازوں سے بھی افضل ہے''(ترمذی، جلد اول)۔ 
یہ حدیث اس حقیقت کی عکاس ہے کہ اجتماعی زندگی کو چھوڑ کر تنہائی کی زندگی گزارنے میں چاہے جو بھی دینی اور دنیوی فوائد نظر آتے ہوں لیکن اسلام اپنے پیروؤں کو ادھر جانے اور اجتماع سے کٹ کر رہنے کی اجازت نہیں دیتا، کیونکہ یہ دینی اور دنیوی فوائد خواہ کتنے ہی عظیم کیوں نہ ہوں مگر ان فائدوں کے مقابلے میں بالکل ہیچ ہیں جو ایک منظم اسلامی معاشرے کے اندر ایک مسلمان کو حاصل ہوسکتے ہیں۔ 
غور کیجئے ؛ سفر اور حضر سے متعلق یہ مختلف دینی ہدایتیں اسلامی نظام فکر و عمل میں اجتماعیت کی ضرورت و اہمیت کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتی ہیں!

میری امت گمراہی پرجمع نہیں ہوگی. حدیث

 وعن ابن عمر قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:”إن اللہ لا یجمع أمتی أو قال: أمة محمد علی ضلالة وید اللہ علی الجماعة ومن شذ شذ فی النار“․ رواہ الترمذی․

ترجمہ: ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ میری امت کو یا فرمایا امت محمدیہ کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا“․․․ (مشکاة، ص:۳۰باب الاعتصام بالکتاب والسنة، ط: یاسر ندیم اینڈ کمپنی دیوبند) حدیث میں اجماع امت کے معیار حق ہونے پر دلیل ہے اور مطلب یہ ہے کہ امت کا سواد اعظم معصیت وضلالت پر اتفاق نہیں کرسکتا۔

Thursday 3 February 2022

رجب کاچانددیکھ کرپڑھی جانے والی دعاء کاحکم

 رجب کا چاند دیکھ کر پڑھی جانے والی دعا  ”اَللّٰهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِيْ رَجَبَ وَشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ“  

مذکورہ روایت معنی اور مفہوم کے لحاظ سے درست ہے، اور اکابرین کا اس پر عمل بھی ہے، لہذا اسے پڑھ لینا چاہیے،  البتہ اس حدیث کی سند میں محدثین کو کلام ہے


Tuesday 1 February 2022

دعوت وتبلیغ کی فضیلت

 (1) وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ط وَاُولٰٓئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَo

(آل عمران، 3/ 104)

اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہیے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، اور وہی لوگ بامراد ہیں۔

(2) کُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللهِط وَلَوْ اٰمَنَ اَهْلُ الْکِتٰبِ لَکَانَ خَيْرًا لَّهُمْ طمِنْهُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَاَکْثَرُهُمُ الْفٰسِقُوْنَo

(آل عمران، 3/ 110)

تم بہترین اُمّت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لیے ظاہر کی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو، اور اگر اہلِ کتاب بھی ایمان لے آتے تو یقینا ان کے لیے بہتر ہوتا، ان میں سے کچھ ایمان والے بھی ہیں اور ان میں سے اکثر نافرمان ہیں۔

(3) يٰٓاَيُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْکَ مِنْ رَّبِّکَ ط وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ط وَاللهُ يَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ط اِنَّ اللهَ لَا يَهْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِيْنَo

(المائدة، 5/ 67)

اے (برگزیدہ) رسول! جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے (وہ سارالوگوں کو) پہنچا دیجیے، اور اگر آپ نے (ایسا) نہ کیا تو آپ نے اس (ربّ) کا پیغام پہنچایا ہی نہیں، اور اللہ (مخالف) لوگوں سے آپ (کی جان) کی (خود) حفاظت فرمائے گا۔ بے شک اللہ کافروں کو راهِ ہدایت نہیں دکھاتا۔

(4) قُلْ هٰذِهِ سَبِيْلِيْٓ اَدْعُوْٓا اِلَی اللهِقف عَلٰی بَصِيْرَةٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْط وَسُبْحٰنَ اللهِ وَمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِيْنَo

(يوسف، 12/ 108)

(اے حبیبِ مکرم!) فرما دیجیے: یہی میری راہ ہے۔ میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، پوری بصیرت پر (قائم) ہوں، میں (بھی) اور وہ شخص بھی جس نے میری اتباع کی، اور اللہ پاک ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔

(5) وَالَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْکِتٰبَ يَفْرَحُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْکَ وَمِنَ الْاَحْزَابِ مَنْ يُّنْکِرُ بَعْضَهُ ط قُلْ اِنَّمَآ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللهَ وَلَآ اُشْرِکَ بِهِ ط اِلَيْهِ اَدْعُوْا وَاِلَيْهِ مَاٰبِo

(الرعد، 13/ 36)

اور جن لوگوں کو ہم کتاب (تورات) دے چکے ہیں (اگر وہ صحیح مومن ہیں تو) وہ اس (قرآن) سے خوش ہوتے ہیں جو آپ کی طرف نازل کیا گیا ہے اور ان (ہی کے) فرقوں میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو اس کے کچھ حصہ کا انکار کرتے ہیں، فرما دیجیے کہ بس مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ کی عبادت کروں اور اس کے ساتھ (کسی کو) شریک نہ ٹھہراؤں، اسی کی طرف میں بلاتا ہوں اور اسی کی طرف مجھے لوٹ کر جانا ہے۔

(6) اُدْعُ اِلٰی سَبِيْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ ط اِنَّ رَبَّکَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيْلِهِ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَo

(النحل، 16/ 125)

آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجیے جو نہایت حسین ہو، بے شک آپ کا رب اس شخص کو (بھی) خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک گیا اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں کو (بھی) خوب جانتا ہے۔

(7) لِکُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا هُمْ نَاسِکُوْهُ فَـلَا يُنَازِعُنَّکَ فِی الْاَمْرِ وَادْعُ اِلٰی رَبِّکَ ط اِنَّکَ لَعَلٰی هُدًی مُّسْتَقِيْمٍo وَ اِنْ جَادَلُوْکَ فَقُلِ اللهُ اَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُوْنَo

(الحج، 22/ 67-68)

ہم نے ہر ایک امت کے لیے (احکامِ شریعت یا عبادت و قربانی کی) ایک راہ مقرر کر دی ہے، انہیں اسی پر چلنا ہے، سو یہ لوگ آپ سے ہرگز (اللہ کے) حکم میں جھگڑا نہ کریں، اور آپ اپنے رب کی طرف بلاتے رہیں۔ بے شک آپ ہی سیدھی (راہِ) ہدایت پر ہیں۔ اگر وہ آپ سے جھگڑا کریں تو آپ فرما دیجیے: اللہ بہتر جانتا ہے جو کچھ تم کر رہے ہو۔

(8) قُلْ اَطِيْعُوااللهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ ج فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْکُمْ مَّا حُمِّلْتُمْ ط وَاِنْ تُطِيْعُوْهُ تَهْتَدُوْا ط وَمَا عَلَی الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُo

(النور، 24/ 54)

فرما دیجیے: تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو، پھر اگر تم نے (اطاعت) سے رُوگردانی کی تو (جان لو) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمہ وہی کچھ ہے جو ان پر لازم کیا گیا اور تمہارے ذمہ وہ ہے جو تم پر لازم کیا گیا ہے، اور اگر تم ان کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پا جائو گے، اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر (احکام کو) صریحاً پہنچا دینے کے سوا (کچھ لازم) نہیں ہے۔

(9) يٰـٓاَيُهَا النَّبِيُ اِنَّآ اَرْسَلْنٰـکَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًاo وَّ دَاعِيًا اِلَی اللهِ بِاِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُّنِيْرًاo

(الأحزاب، 33/ 45-46)

اے نبِیّ (مکرّم!) بے شک ہم نے آپ کو (حق اور خَلق کا) مشاہدہ کرنے والا اور (حُسنِ آخرت کی) خوشخبری دینے والا اور (عذابِ آخرت کا) ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اور اس کے اِذن سے اللہ کی طرف دعوت دینے والا اور منوّر کرنے والا آفتاب (بنا کر بھیجا ہے)۔

(10) وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَی اللهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَo

(حم السجده، 41/ 33)

اور اس شخص سے زیادہ خوش گفتار کون ہو سکتا ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور کہے بے شک میں (اللہ عزوجل اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) فرمانبرداروں میں سے ہوں۔

(11) فَلِذٰلِکَ فَادْعُ ج وَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ ج وَلَا تَتَّبِعْ اَهْوَآءَ هُمْ جوَقُلْ اٰمَنْتُ بِمَآ اَنْزَلَ اللهُ مِنْ کِتٰبٍ ج وَاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَيْنَکُمْ طاللهُ رَبُّنَا وَرَبُّکُمْ ط لَـنَـآ اَعْمَالُـنَا وَلَکُمْ اَعْمَالُـکُمْ ط لَا حُجَّةَ بَيْنَنَا وَبَيْنَکُمْ طاللهُ يَجْمَعُ بَيْنَنَاج وَاِلَيْهِ الْمَصِيْرُo

(الشوری، 42/ 15)

پس آپ اسی (دین) کے لیے دعوت دیتے رہیں اور جیسے آپ کو حکم دیا گیا ہے (اسی پر) قائم رہئے اور اُن کی خواہشات پر کان نہ دھریئے، اور (یہ) فرما دیجیے: جو کتاب بھی اللہ نے اتاری ہے میں اُس پر ایمان رکھتا ہوں، اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان عدل و انصاف کروں۔ اللہ ہمارا (بھی) رب ہے اور تمہارا (بھی) رب ہے، ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لیے تمہارے اعمال، ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی بحث و تکرار نہیں، اللہ ہم سب کو جمع فرمائے گا اور اسی کی طرف (سب کا) پلٹنا ہے۔

اَلْحَدِيْث

1. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضي الله عنهما أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: بَلِّغُوْا عَنِّي وَلَوْ آيَةً. وَحَدِّثُوْا عَنْ بَنِي إِسْرَائِيْلَ وَلَا حَرَجَ. وَمَنْ کَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

1: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب أحاديث الأنبياء، باب ما ذکر عن بني إسرائيل، 3/ 1275، الرقم/ 3274، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 202، الرقم/ 6888، والترمذي في السنن، کتاب العلم، باب ما جاء في الحديث عن بني إسرائيل، 5/ 40، الرقم/ 2669، والدارمي في السنن، 1/ 145، الرقم: 542، وابن حبان في الصحيح، 14/ 149، الرقم/ 6256، وعبد الرزاق في المصنف، 10/ 312، الرقم/ 19210.

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری طرف سے (ہر بات لوگوں تک) پہنچا دو اگرچہ ایک آیت ہی ہو اور بنی اسرائیل کے واقعات بیان کرنے میں کوئی گناہ نہیں۔ جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنا لے۔

اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ أَبِي قِرْصَافَةَ رضي الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : حَدِّثُوْا عَنِّي بِمَا تَسْمَعُوْنَ، وَلَا يَحِلُّ لِرَجُلٍ أَنْ يَکْذِبَ عَلَيَّ. فَمَنْ کَذَبَ عَلَيَّ، وَقَالَ عَلَيَّ غَيْرَ مَا قُلْتُ، بُنِيَ لَهُ بَيْتٌ فِي جَهَنَّمَ يَرْتَعُ فِيْهِ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالدَّيْلَمِيُّ.

أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 3/ 18، الرقم/ 2516، والديلمي في مسند الفردوس، 2/ 129، الرقم/ 2655، وذکره الهيثمی في مجمع الزوائد، 1/ 148، والهندي في کنز العمال، 10/ 97، الرقم/ 29178.

ایک روایت میں حضرت ابو ِقرْصَافهَرضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو کچھ بھی تم مجھ سے سنتے ہو اسے بیان کیا کرو اور کسی شخص کے لیے بھی مجھ پر جھوٹ باندھنا جائز نہیں ہے۔ جس نے مجھ پر جھوٹ باندھا اور میرے فرمان کے علاوہ میری طرف کچھ منسوب کیا اُس کے لیے جہنم میں گھر بنا دیا جائے گا جس میں آتشِ جہنم اُس کی غذا ہوگی۔

اس حدیث کو امام طبرانی اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔

2. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: مَنْ دَعَا إِلٰی هُدًی، کَانَ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ أُجُوْرِ مَنْ تَبِعَهُ لَا يَنْقُصُ ذَالِکَ مِنْ أُجُوْرِهِمْ شَيْئًا. وَمَنْ دَعَا إِلٰی ضَلَالَةٍ، کَانَ عَلَيْهِ مِنَ الْإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ تَبِعَهُ لَا يَنْقُصُ ذٰلِکَ مِنْ آثَامِهِمْ شَيْئًا.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْدَاؤدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

2: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب العلم، باب من سن سنة حسنة أو سدئة ومن دعا إلی هدی أو ضلالة، 4/ 2060، الرقم/ 2674، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 397، الرقم/ 9149، وأبو داود في السنن، کتاب السنة، باب لزوم السنة، 4/ 201، الرقم/ 4609، والترمذي في السنن، کتاب العلم، باب ما جاء فدمن دعا إلی هدی فاتبع أو إلی ضلالة، 5/ 43، الرقم/ 2674، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب من سن سنة حسنة أو سدئة، 1/ 75، الرقم/ 206.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے (دوسروں کو) ہدایت کی طرف بلایا اس کے لیے اس راستے پر چلنے والوں کی مثل ثواب ہے جبکہ ان کے ثواب میں سے کچھ بھی کم نہ ہوگا۔ جس نے گناہ کی دعوت دی اس کے لیے بھی اتنا گناہ ہے جتنا اس غلطی کا ارتکاب کرنے والوں پر ہے جبکہ ان کے گناہوں میں بھی کوئی کمی نہیں ہوگی۔

اِس حدیث کو امام مسلم، احمد، ابو داؤد، ترمذی اور ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ اور امام ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

3. عَنْ جَرِيْرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً، فَلَهُ أَجْرُهَا وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيئٌ. وَمَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً، کَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيئٌ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه.

3: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الزکاة، باب الحث علی الصدقة ولو بشق تمرة أو کلمة طيبة وأنها حجاب من النار، 2/ 704، الرقم/ 1017، وفي کتاب العلم، باب من سن سنة حسنة أو سيئة ومن دعا إلی هدی أو ضلالة، 4/ 2060، الرقم/ 2674، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/ 358، الرقم/ 19197، والنسائي في السنن، کتاب الزکاة، باب التحريض علی الصدقة، 5/ 75، الرقم/ 2554، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب من سن سنة حسنة أو سيئة، 1/ 74-75، الرقم/ 203، 207، والبزار في المسند، 7/ 366، الرقم/ 2963.

حضرت جَریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے اسلام میں کسی نیک کام کی بنیاد ڈالی تو اس کے لیے اپنے عمل کا ثواب بھی ہے اور اُس کے بعد جو اس پر عمل کریں گے ان کا ثواب بھی ہے جبکہ ان کے ثواب میں کوئی کمی نہ کی جائے گی۔ (اسی طرح) جس نے اسلام میں کسی بری بات کی ابتداء کی تو اُس پر اُس کے اپنے عمل کا گناہ بھیہے اور جو اس کے بعد اُس پر عمل کریں گے اُن کا بھی گناہ ہے جبکہ اُن کے گناہوں میں کچھ کمی نہیں کی جائے گی۔

اِس حدیث کو امام مسلم، احمد، نسائی اور ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔

4. عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنهما قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: نَضَّرَ اللهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا شَيْئًا فَبَلَّغَهُ کَمَا سَمِعَ. فَرُبَّ مُبَلَّغٍ أَوْعٰی مِنْ سَامِعٍ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ وَابْنُ مَاجَه، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

4: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1/ 436، الرقم/ 4157، والترمذي في السنن، کتاب العلم، باب ما جاء في الحث علی تبليغ السماع، 5/ 34، الرقم/ 2657، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب من بلغ علما، 1/ 85، الرقم/ 232، والدارمي في السنن، 1/ 87، الرقم/ 230، والبزار في المسند، 5/ 382، الرقم/ 2014، وأبو يعلی فی المسند، 9/ 198، الرقم/ 5296، وابن حبان في الصحيح، 1/ 268، الرقم/ 66.

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ اس شخص کو خوش و خرم رکھے جس نے ہم سے کوئی بات سنی اور اسے (دوسروں) تک ایسے ہی پہنچایا جیسے سنا تھا کیونکہ بہت سے لوگ جنہیں علم پہنچایا جائے (براہِ راست) سننے والے سے زیادہ اس کی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں اور حفاظت کرنے والے ہوتے ہیں۔

اس حدیث کو امام احمد، ترمذی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ رضي الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: نَضَّرَ اللهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيْثًا فَحَفِظَهُ حَتّٰی يُبَلِّغَهُ. فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلٰی مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ، وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ لَيْسَ بِفَقِيْهٍ.

رَوَاهُ أَبُوْ حَنِيْفَةَ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْدَاؤدَ وَاللَّفْظُ لَهُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: حَدِيْثُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

أخرجه أبو حنيفة في المسند، 1/ 252، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/ 183، الرقم/ 21630، وأبو داود في السنن، کتاب العلم، باب فضل نشر العلم، 3/ 322، الرقم/ 3660، والترمذي في السنن، کتاب العلم، باب ما جاء في الحث علی تبليغ السماع، 5/ 33، الرقم/ 2656، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب من بلغ علما، 1/ 85، الرقم/ 231.

حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ اس شخص کو خوش رکھے جس نے ہم سے کوئی حدیث سن کر اسے یاد رکھا یہاں تک کہ اسے آگے پہنچا دیا۔ بہت سے سمجھ بوجھ رکھنے والے اپنے سے زیادہ فہم و بصیرت رکھنے والے شخص کو (حدیث) پہنچاتے ہیں اور بہت سے فقہ کے حامل لوگ درحقیقت خود فقیہ نہیں ہوتے۔

اِس حدیث کو امام ابو حنیفہ، احمد، ابوداود نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ، ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے فرمایا: زید بن ثابت کی حدیث حسن ہے۔

5. عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ رضي الله عنه قَالَ: قَامَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم بِالْخَيْفِ مِنْ مِنًی فَقَالَ: نَضَّرَ اللهُ امْرَأً سَمِعَ مَقَالَتِي فَوَعَاهَا ثُمَّ أَدَّاهَا إِلٰی مَنْ لَمْ يَسْمَعْهَا. فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ لَا فِقْهَ لَهُ، وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلٰی مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه.

5: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4/ 80، الرقم/ 16800، والترمذي في السنن عن عبد اللہ بن مسعود، کتاب العلم، باب ما جاء في الحث علی تبليغ السماع، 5/ 34، الرقم/ 2658، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب من بلغ علما، 1/ 85، الرقم/ 231، والدارمي في السنن، 1/ 86، الرقم/ 228، والحاکم في المستدرک، 1/ 162، الرقم/ 294، وأبو يعلی في المسند، 13/ 408، الرقم/ 7413، والشافعي في المسند، 1/ 240، والطبراني فی المعجم الأوسط، 7/ 117، الرقم/ 7020، وأيضًا في المعجم الکبير، 2/ 127، الرقم/ 1544.

حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ منٰی میں مسجد خیف میں کھڑے ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس شخص کو خوش رکھے جس نے میری بات کو سن کر اسے یاد رکھا پھر اسے اس شخص تک پہنچا دیا جس نے اسے نہیں سنا تھا۔ پس بہت سے سمجھ بوجھ والے دراصل فقیہ نہیں ہوتے اور بہت سے فقیہ (میری بات کو) اس شخص تک پہنچاتے ہیں جو ان سے زیادہ فہم و بصیرت رکھتا ہے۔

اس حدیث کو امام احمد، ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

6. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه عَنْ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : يَحْمِلُ ہٰذَا الْعِلْمَ مِنْ کُلِّ خَلْفٍ عُدُوْلُهُ. يَنْفُوْنَ عَنْهُ تَحْرِيْفَ الْغَالِيْنَ وَانْتِحَالَ الْمُبْطِلِيْنَ وَتَأْوِيْلَ الْجَاهِلِيْنَ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ فِي الرَّدِ عَلَی الزِّنَادِقَةَ وَالطَّبَرَانِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ وَالْبَيْهَقِيُّ.

6: أخرجه أحمد بن حنبل في الرد علی الزنادقة والجهمية، 1/ 6، والطبراني في مسند الشاميين، 1/ 344، الرقم/ 599، والبيهقي في السنن الکبری، 10/ 209، الرقم/ 20700، والديلمي فی مسند الفردوس، 5/ 537، الرقم/ 9012، وابن عبد البر في التمهيد، 1/ 59، الرقم/ 215، والخطيب البغدادي في الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع، 1/ 128، 129، الرقم/ 134، 135، وذکره الهيثمي في المجمع الزوائد، 1/ 140.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر بعد میں آنے والے لوگوں میں سے عادل لوگ اس علم کے حامل ہوں گے۔ وہ اس علم سے غلو کرنے والوں کی تحریف، باطل پسند لوگوں کے جھوٹے دعووں اور جاہلوں کی تاویل کو ختم کریں گے۔

اس حدیث کو امام احمد نے ’الرد علی الزنادقۃ والجہمیۃ‘ میں، طبرانی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

7. عَنْ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: إِنَّ الدِّيْنَ لَيَأْرِزُ إِلَی الْحِجَازِ کَمَا تَأْرِزُ الْحَيَةُ إِلٰی جُحْرِهَا، وَلَيَعْقِلَنَّ الدِّيْنُ مَعْقِلَ الْأُرْوِيَةِ مِنْ رَأْسِ الْجَبَلِ. إِنَّ الدِّيْنَ بَدَأَ غَرِيْبًا. وَيَرْجِعُ غَرِيْبًا. فَطُوْبٰی لِلْغُرَبَاء الَّذِيْنَ يُصْلِحُوْنَ مَا أَفْسَدَ النَّاسُ مِنْ بَعْدِي مِنْ سُنَّتِي.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

7: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الإيمان، باب ما جاء أن الإسلام بدأ غريبا وسيعود غريبا، 5/ 18، الرقم/ 2630، والطبراني في المعجم الکبير، 17/ 16، الرقم/ 11، وذکره الخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 1/ 60، الرقم/ 170، والهندي في کنز العمال، 1/ 131، الرقم/ 1194.

حضرت عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (آخری زمانے میں) دین حجاز کی طرف اس طرح سمٹ آئے گا جس طرح سانپ اپنے سوراخ میں سمٹ جاتا ہے۔ اور دین حجاز میں اس طرح پناہ لے گا جس طرح بکری پہاڑ کی چوٹی پر پناہ لیتی ہے۔ بے شک دین کی ابتداء اجنبیت (اور تنہائی) سے ہوئی (یعنی دین کی اتباع اور پیروی کرنے والے سوسائٹی میں اجنبی لگتے تھے) اور ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ دین (معاشرے میں) پھر اجنبی لگے گا اور (دین کی تبلیغ کی خاطر) الگ تھلگ ہونے والوں کے لیے خوشخبری ہے جو میرے بعد میری اس سنت کی اصلاح کریں گے جسے لوگوں نے بگاڑ دیا ہو گا۔

اس حدیث کو امام ترمذی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

وَفِي رِوَايَةٍ: قَالَ: إِنَّ الدِّيْنَ (أَوْ قَالَ: إِنَّ الإِسْلَامَ) بَدَأَ غَرِيْبًا وَسَيَعُوْدُ غَرِيْبًا کَمَا بَدَأَ. فَطُوْبٰی لِلْغُرَبَاءِ. قِيْلَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، مَنِ الْغُرَبَاءُ؟ قَالَ: الَّذِيْنَ يُحْيُوْنَ سُنَّتِي وَيُعَلِّمُوْنَهَا عِبَادَ اللهِ.

رَوَاهُ الْقُضَاعِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي الزُّهْدِ.

أخرجه القضاعي في مسند الشهاب، 2/ 138، الرقم/ 1052. 1053، والبيهقي في الزهد الکبير، 1/ 117، الرقم/ 205، وذکره القاضي عياض في الإلماع/ 18، والسيوطي في مفتاح الجنة، 1/ 67.

ایک اور روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک دین (یا فرمایا: اسلام) کی ابتداء اجنبیت سے ہوئی اور یہ دوبارہ اجنبی ہو جائے گا جس طرح کہ اس کا آغاز ہوا تھا۔ غرباء (دین کی تبلیغ کی خاطر الگ تھلگ ہونے والوں) کو مبارک ہو۔ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! غرباء (اجنبی لوگ) کون ہیں؟ فرمایا: وہ لوگ جو میری سنت کو زندہ کرتے اور اللہ کے بندوں کو اس کی تعلیم دیتے ہیں۔

اس حدیث کو امام قضاعی اور بیہقی نے ’ الزھد الکبير‘ میں روایت کیا ہے۔