https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 3 August 2024

اجنبی عورت سے محبت کرنا

  بیوی کے علاوہ کسی اجنبی لڑكی سے بغير نكاح  كےتعلق قائم كرنا،اور اس سے محبت كرنا ،اس كو  شہوت سے ديكھنا،چھونا وغیرہ  یہ سب چیزیں شرعاً ناجائز وحرام ہیں اس سے اجتناب کرنا لازم ہے۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: « ‌كتب ‌على ‌ابن ‌آدم ‌نصيبه ‌من ‌الزنا مدرك ذلك لا محالة، فالعينان زناهما النظر، والأذنان زناهما الاستماع، واللسان زناه الكلام، واليد زناها البطش، والرجل زناها الخطا، والقلب يهوى ويتمنى، ويصدق ذلك الفرج ويكذبه."

(کتاب القدر، ‌‌باب: قدر على ابن آدم حظه من الزنا وغيره، ج:8، ص:52، حدیث:2657، ط:دار الطباعة العامرة - تركيا)

الدرالمختار میں ہے:

" ولا يكلم الأجنبية ‌إلا ‌عجوزا."

(کتاب الحظر والاباحۃ، ص:654، ط:دار الكتب العلمية - بيروت)


بیوٹی پارلر کے لیے دوکان کرایہ پر دینا

 آج کل بیوٹی پارلر میں جائز اورناجائزدونوں قسم کےکام  کئے جاتے ہیں،جس کی تفصیلات معلوم کی جاسکتی ہے،لہذا اگربیوٹی پارلر میں خلاف شریعت کام نہیں ہوتے توانہیں کرایہ پردکان دی جاسکتی ہے،اورشرعا کرایہ لینابھی درست اورجائز ہے،لیکن اگرغالب گمان یہ ہوکہ وہ شرعی حدود کالحاظ نہیں رکھیں گے توانہیں یہ دکان کرایہ پرنہ دیں ،اورایسی صورت میں کرایہ لینابھی درست نہیں ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وجاز اجارة الماشطة لتزين العروس ان ذكرالعمل والمدة."

(باب اجازة الفاسده، ج:6، ص:63، ط:سعيد)

سمنون نام رکھنا

 سمنون ایک صوفی شاعر تھے ، اللہ پاک کی محبت میں اشعار پڑھا کرتے، لوگ انہیں سمنون محب(محبت کرنے والا  سمنون) کہا کرتے تھے، لیکن وہ  خود کو سمنون کذاب ( جھوٹا سمنون) کہا کرتے تھے ، کپڑے  بنتے تھےاور  سوت کاتتے تھے ،  کسی  بزرگ ،صوفی کے نام پر رکھناجائزہے،لہذا محمد سمنون نام رکھنا درست ہے۔

معجم الشعراء العرب میں ہے:

"أبو الحسن ‌سمنون بن حمزة الخواص.صوفي شاعر، كان معاصروه يلقبونه بسمنون المحب، وذلك لأنه كان ينسج غزلياته وينظم محبته لله تعالى.أما هو فقد كان يسمي نفسه ‌سمنون الكذاب.عاش في بغداد وصحب ‌سمنون كل من السقطي والقلانسي ومحمد بن علي القصاب، وكانوا جميعاً من جلة مشايخ بغداد وأكابر صوفيتها.وله شعر جيد."

(حرف السین،سمنون المحب،ص:1422)

طبقات الصوفیہ میں ہے:

"ومنهم سمنون بن حمزة ويقال سمنون بن عبد الله أبو الحسن الخواص ويقال كنيته أبو القاسم سمى نفسه سمنون الكذاب لكتمه عسر البول بلا تضرر صحب سريا السقطي ومحمد بن علي القصاب وأبا أحمد القلانسي وسوس وكان يتكلم في المحبة بأحسن كلام وهو من كبار مشايخ العراق."

(‌‌الطبقة الثانية من أئمة الصوفية، ص: 159، ط:دار الکتب العلمیة)

منگل کی شب اور چاند رات میں ہمبستری نہ کرنا

 شرعًا میاں بیوی کی ہم بستری کے لیے کوئی خاص دن متعین نہیں ہیں، اور نہ ہی کسی خاص دن میں اس کی  ممانعت ہے، ہاں دیگر  وجوہات  مثلًا روزہ، احرام  کی حالت اور عورت کے ایام اور نفاس کی حالت میں اس کی ممانعت ہے۔

سوال میں موجود مذکورہ بات درست نہیں ہے۔ اس بات کا شریعت سے کوئی تعلق  نہیں ہے،یہ  بے اصل ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما ركنه: فالإمساك....... والجماع....... والجماع في ليالي رمضان لقوله تعالى {‌أحل ‌لكم ‌ليلة ‌الصيام الرفث}."

(کتاب الصوم، ج2، ص:90، ط: دار الکتب العلمیة)

مبسوط سرخسی میں ہے:

"فأما جماع الحائض في الفرج حرام بالنص يكفر مستحله ويفسق مباشره لقوله تعالى{فاعتزلوا النساء في المحيض}  ، وفي قوله تعالى{ولا تقربوهن حتى يطهرن}، دليل على أن الحرمة تمتد إلى الطهر."

(كتاب الاستحسان، باب جماع الحائض في الفرج، ج:10، س:159، ط:دارالمعرفة)

فتح القدیر میں ہے:

" الجماع فيما دون الفرج من جملة الرفث فكان منهيا عنه بسبب الإحرام. وبالإقدام عليه يصير مرتكبا محظور إحرامه. اهـ. وقد يقال: إن كان الإلزام للنهي فليس كل نهي يوجب كالرفث، وإن كان للرفث فكذلك إذ أصله الكلام في الجماع بحضرتهن وليس ذلك موجبا شيئا."

(كتاب الحج،باب الجنايات،فصل نظر إلي فرج إمرأته بشهوة فأمني، ج:3، ص:42،ط:دار الفكر)

انزلنا نام رکھنا

 لڑکی کا نام"انزلنا" رکھنا درست نہیں ہے،کیوں کہ یہ عربی کا لفظ ہے، جو کہ "انزل" اور "نا" دو الگ الگ کلمات کا مجموعہ ہے،"اَنزَل"درحقیقت "اِنزَال" سے بنا ہے، جس کے معنیٰ ہے:(1)نیچے اتارنا(2)نازل کرنا۔ اور "نا" یہ اسمِ ضمیر برائے جمع متکلم ہے، جس کا معنی ہے:ہم۔مذکورہ تفصیل کی رُو سے "انزلنا" کا معنی  بنا: "ہم نے نازل کیا"یا " ہم نے نیچے اتارا"۔

لہذا بچی کے لیےمذکورہ نام کے بجائے کسی اور اچھےاور بامعنیٰ نام کا انتخاب کیاجائے، اس حوالہ سے بہتریہ ہے کہ  اَزواجِ مطہرات اور صحابیات مکرمات رضوان اللہ علیہن اجمعین کے ناموں میں سے کسی نام پر رکھاجائے تاکہ زیادہ خیر و برکت کا باعث بھی بنے۔

مسند بزار میں  ہے:  

"عن أبي هريرة؛ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن من حق الولد على الوالد أن يحسن اسمه ويحسن أدبه."

(مسند حمزه انس بن مالك، رقم الحديث:8540، ج:15، ص:176، ط:مكتبة العلوم والحكم)

ترجمہ:"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"والد کے ذمہ بچےکے حقوق میں سےاس کا اچھا نام رکھنا اور اسے اچھے اخلاق و آداب سکھاناہے"۔

تاج العروس میں ہے:

"النزول، بالضم: الحلول وهو في الأصل انحطاط من علو.

ونزله تنزيلا، وأنزله إنزالاً، ومنزلا كمجمل، واستنزله بمعنى واحد."

(بحث نزل، ج:30، ص:478، ط:دارالهداية)

قرآن کریم کے اوراق ری سائیکل کرنا

 اگر ری سائیکل کرنے والے ادارے سے ری سائیکل کرتے وقت اور اس سے پہلے کسی قسم کی بےحرمتی نہ ہوتی ہو توقرآن کریم کےصفحات اور آیتوں کے علاوہ دیگر مقدّس  اوراق  حوالہ کرنے کی گنجائش ہے۔

فتاوی ٰشامی میں ہے:

"الكتب التي لا ينتفع بها يمحى عنها اسم الله وملائكته ورسله ويحرق الباقي ولا بأس بأن تلقى في ماء جار كما هي أو تدفن وهو أحسن كما في الأنبياء (قوله كما في الأنبياء) كذا في غالب النسخ وفي بعضها كما في الأشباه،،،،،،وإن شاء غسله بالماء أو وضعه في موضع طاهر لا تصل إليه يد محدث ولا غبار، ولا قذر تعظيما لكلام الله عز وجل ۔"

(كتاب الحظر والإباحة، 422/6،ط:سعید)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"ولو محا لوحا كتب فيه القرآن واستعمله في أمر الدنيا يجوز، وقد ورد النهي عن محو اسم الله تعالى بالبزاق، كذا في الغرائب۔"

(كتاب الكراهية، الباب الخامس في آداب المسجد والقبلة والمصحف وما كتب فيه شيء من القرآن،322/5، دار الفكر)

محمد نام رکھنے کی نذر ماننا

 نذر صحیح ہونے  کی   شرائط میں سے ایک شرط یہ  بھی ہےکہ جس کام کی نذر مانی جاۓ وہ کام قربت اور  عبادتِ مقصودہ ہو ،جیسے نماز روزہ ،زکاۃ،حج وغیرہ، اسی طرح جس کام کی نذر مانی جاۓ اس کی جنس سے کوئی فرد فرض یا کم از کم واجب ضرورہو،مباح چیزوں کی نذر لازم نہیں ہوتی۔

 لھذا اگر کسی شخص نے یہ نذر مانی کہ كے اس كے هاں بيٹا پيدا هوا تو اس كا نام ”محمد“ رکھوں گا تو   یہ نذر منعقد نہیں ہوئی  اوربیٹے کی پیدائش کے بعد  بیٹے کا ”محمد“ نام رکھنا لازم نہیں ہے، البتہ ”محمد“ نام اچھا ہے، بیٹے کا یہ نام  رکھنا بہتر ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ومن ‌نذر ‌نذرا ‌مطلقا أو معلقا بشرط وكان من جنسه واجب) أي فرض كما سيصرح به تبعا للبحر والدرر (وهو عبادة مقصودة)... (ووجد الشرط) المعلق به (لزم الناذر).

(قوله وهو عبادة مقصودة) ...وفي البدائع: ومن شروطه أن يكون قربة مقصودة فلا يصح النذر بعيادة المريض، وتشييع الجنازة، والوضوء، والاغتسال، ودخول المسجد، ومس المصحف، والأذان، وبناء الرباطات والمساجد وغير ذلك، وإن كانت قربا إلا أنها غير مقصودة."

(كتاب الأيمان، 3/ 735، ط: سعيد)

فقط واللہ أعلم

حلال جانور کی اوجھڑی

 حلال جانور کی اوجھڑی کھانا جائز ہے، البتہ خوب پاک وصاف کرکے کھائیں۔

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

"فقہاء نے جانور کی سات چیزوں کو حرام قراردیا ہے، ان سات چیزوں میں اوجھڑی شامل نہیں ہے، لہذا اسے حلال کہا جائے گا،  جو  اِسے حرام قرار دیتے ہیں وہ دلیل پیش کریں"۔

(ما یجوز اکلہ من الحیوان ومالا یجوز،ج:10،ص:81،دارالاشاعت)

عیسائی کے ساتھ کھانا کھانا

 اگر  عیسائی کے کھانے کے برتن پاک ہے، اور کھانا بھی کوئی حرام چیز پر مشتمل نہیں ہےتو ان کے ساتھ کھانا کھانا جائز ہے،

فتاویٰ عالمگیری  میں ہے:

"قال محمد - رحمه الله تعالى - ويكره الأكل والشرب في أواني المشركين قبل الغسل ومع هذا لو أكل أو شرب فيها قبل الغسل جاز ولا يكون آكلا ولا شاربا حراما وهذا إذا لم يعلم بنجاسة الأواني فأما إذا علم فأنه لا يجوز أن يشرب ويأكل منها قبل الغسل ولو شرب أو أكل كان شاربا وآكلا حراما وهو نظير سؤر الدجاجة إذا علم أنه كان على منقارها نجاسة فإنه لا يجوز التوضؤ به والصلاة في سراويلهم نظير الأكل والشرب من أوانيهم إن علم أن سراويلهم نجسة لا تجوز الصلاة فيها وإن لم يعلم تكره الصلاة فيها ولو صلى يجوز ولا بأس بطعام اليهود والنصارى كله من الذبائح وغيرها ويستوي الجواب بين أن يكون اليهود والنصارى من أهل الحرب أو من غير أهل الحرب وكذا يستوي أن يكون اليهود والنصارى من بني إسرائيل أو من غيرهم كنصارى العرب".

(کتاب الکراهية، الباب الرابع عشر في أهل الذمة والأحكام التي تعود إليهم، ج:5، ص:347، ط:مکتبه رشیدیة)

مردار مچھلی کا حکم

 مری ہوئی مچھلیاں دو طرح کی ہوتی ہیں :1۔جو پانی میں اپنی طبعی موت مر گئی ہو،اس کی علامت یہ ہے کہ پانی کی سطح پر الٹی تیر  رہی ہو،ایسی مچھلیاں بالکل حلال نہیں ہیں۔

2۔جو کسی آفت ِ سماویہ یا کسی خارجی سبب سے مرگئی ہو مثلاً ،پانی کے ٹھندے یاگرم ہونے کی وجہ سے یا پانی سے باہر نکالنے کی وجہ سے مرگئی ہو،ایسی مچھلیاں  حلال ہیں،اور یہ اس وقت تک حلال ہے ،جب تك سڑ نہ جائےاور بدبو نہ آئے۔

در مختار  میں ہے:

"(ولا) يحل (حيوان مائي إلا السمك) الذي مات بآفة۔۔۔۔۔۔(غير الطافي) على وجه الماء الذي مات حتف أنفه وهو ما بطنه من فوق، فلو ظهره من فوق فليس بطاف فيؤكل كما يؤكل ما في بطن الطافي، وما مات بحر الماء أو برده وبربطه فيه أو إلقاء شيء فموته بآفة وهبانية ."

(كتاب الذبائح،ج:6،ص:307،ط:سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"واللحم إذا أنتن يحرم أكله."

(كتاب الكراهية،الباب الحادي عشر في الكراهة في الاكل وما يتصل به،ج:5،ص:339،ط:دار الفكر)

بہرام اور ولی نام رکھنا

 ’’ولی‘‘  کے معنی دوست کے ہیں، اس کا شمار آپ ﷺ کے صفاتی ناموں میں سے بھی ہوتا ہے، لہذا’’ ولی‘‘  نام رکھنا درست ہے۔’’بہرام ‘‘  ایک ستارہ"مریخ"کا نام ہے۔(فیروز اللغات، ص: 227ط:فیروز سنز)،سلف صالحین کے انساب میں بھی اس نام کا استعمال ملتا ہے،اور عراق کے ایک بادشاہ کا نام بھی تھا ،لہٰذا یہ نام رکھنا جائز ہے۔باقی اس سے بہتر معنی والا لفظ ہو تو زیادہ بہتر ہے۔ 

اسد الغابۃ میں ہے:

"5533- يزيد بن بهرام

س: يزيد بن بهرام قَالَ أبو حاتم بن حبان: هُوَ المقعد الَّذِي دعا عَلَيْهِ رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذكر فِي الميم.

أخرجه أبو موسى مختصرا."

(أسد الغابة في معرفة الصحابة ،5/ 445، ط : دار الكتب العلمية)

تاریخ کبیر میں ہے:

"[7672] عبد الحميد بن بهرام، الفزاري، المدائني .

سمع شهر بن حوشب.

سمع منه ابن المبارك، ومحمد بن يوسف.

قال علي، عن يحيى: من أراد حديث شهر فعليه بعبد الحميد."

(التاريخ الكبير للبخاري،‌‌ حرف العين،  ‌‌باب عبد الحميد، 7/ 60، الناشر: الناشر المتميز للطباعة والنشر والتوزيع، الرياض)

گناہ کے بعد گناہ کا اظہار

   گناہ کے بعد گناہ کا اظہار یا اس کی خبر کسی کو دینا شرعاً درست نہیں،او اس شخص( زانی) سے مکمل لا تعلقی اور پردہ کرے، ورنہ پھر گناہ کا خطرہ ہے۔

گناه كركے كسی دوسرے  دوسرے شخص كو گناه بتانے  كے بارے ميں سخت وعيدات آئی ہيں،چناں چہ صحابی رسول  حضرت ابوھریرہ  رضي الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوۓ سنا:"میری ساری امت کو معاف کیا جائے گا، سوائے گناہوں کو اعلانیہ اور کھلم کھلا کرنے والوں کے، اور یہ بھی اعلانیہ گناہ ہے کہ ایک شخص رات کو کوئی (گناہ کا) کام کرے، حالانکہ اللہ تعالی نے اس کے گناہ کو چھپا دیا ہے، مگر صبح ہونے پر وہ کہنے لگے کہ اے فلاں! میں نے کل رات فلاں فلاں برا کام کیا تھا۔ رات گزر گئی تھی اور اس کے رب نے اس کا گناہ چھپائے رکھا، لیکن جب صبح ہوئی تو وہ خود اللہ کے پردے کو کھولنے لگا۔"

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ ‏فرماتے ہیں:فحاشی (گناہ) کے  فساد کے اعتبار سے مختلف درجات ہیں، عورتوں کے ساتھ خفیہ دوستی لگانے والے مرد اور مرد کےساتھ خفیہ دوستی لگانے والی عورت کا شر زنا اور بدکاری کرنے والے مرد اور عورت سے کم ہے، اور اسی طرح چوری چھپ کر معصیت کا ارتکاب کرنے والا اعلانیہ معصیت کرنے والے سے کم گناہ رکھتا ہے، اور چھپا کر گناہ کرنے والا لوگوں کو معصیت کرکے خبریں بتانے والے سے کم گناہ رکھتا ہے ، اور یہ اللہ تعالی کے عفو درگزر سے دور ہے، جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میری ساری امت سے درگزر کیا گیا ہے، لیکن اعلانیہ طور پر معصیت کرنے والوں کو معاف نہیں کیا جائے گا۔

 بخاری شریف میں ہے:

"عن سالم بن عبد الله قال: سمعت أبا هريرة يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «كل أمتي معافى ‌إلا ‌المجاهرين، وإن من المجاهرة أن يعمل الرجل بالليل عملا ثم يصبح وقد ستره الله، فيقول: يا فلان، عملت البارحة كذا وكذا، وقد بات يستره ربه، ويصبح يكشف ستر الله عنه."

(كتاب الأدب، باب ستر المسلم على نفسه، ج: 8، ص: 20، رقم: 6069، ط: دار طوق النجاة)

علی مراد نام رکھنا

 "علی مراد" نام رکھنا درست ہے، البتہ  اگر "مراد" والد کے نام کا حصہ یا خاندانی نام کا حصہ نہیں ہے تو بہتر  یہ ہے کہ "محمدعلی" یا پھر صرف"  علی " نام رکھ دیا جائے۔

أسد الغابة  میں ہے:

"عليّ بْن أَبِي طَالِب بْن عَبْد المطلب بْن هاشم بْن عَبْد مناف بْن قصي بْن كلاب بْن مرة بْن كعب بْن لؤي الْقُرَشِيّ الهاشمي ابْن عم رَسُول اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ واسم أَبِي طَالِب عَبْد مناف، وقيل: اسمه كنيته، واسم هاشم: عَمْرو، وأم عليّ فاطمة بِنْت أسد بْن هاشم، وكنيته: أَبُو الْحَسَن أخو رَسُول اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وصهره عَلَى ابنته فاطمة سيدة نساء العالمين، وَأَبُو السبطين، وهو أول هاشمي والد بين هاشميين، وأول خليفة من بني هاشم، وكان عليّ أصغر من جَعْفَر، وعقيل، وطالب."

(حرف العین، باب العین و اللام ،ج :4،ص:87،ط:دار الکتب العلمیة)