https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 2 October 2020

مہاتماگاندھی کی زندگی اور تعلیمات

 ہندوستان کے موجودہ حالات میں مہاتماگاندھی کی تعلیمات کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا.لیکن اس کے برعکس سیاسی پارٹیوں نے بالخصوص انہیں یکسر فراموش کردیا ہے.عدم تشدد اور اہنسا کی جگہ موب لنچنگ اس سے پہلے اتنی عام نہ تھی جیسی آجکل ہے کہ زندگی مکمل طور سے غیر محفوظ ہوگئ ہے.گاندھی کے ملک میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جوان کے قاتل کی مدح سرائی کواپنا شیوہ بناتے ہیں حتی کہ پارلیامنٹ میں بھی اسے 'جی' اور قوم پرست کے الفاظ سے یاد کرتے ہیں اور مہاتما گاندھی کے پتلے پر بندوق سے نشانہ لگاکر انہیں تمثیلی طورپر قتل کرکے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہہم ان کی تعلیمات کے بجائے ان کے قاتل کی تعلیمات کواہمیت دیتے ہیں.افسوس کا مقام یہ ہے کہ موجودہ حکومت میں متعدد ایسے ارکان حکومت ہیں جوگاندھی کے قاتل کی تعریف میں رطب اللسان ہیں .حکومت اپنی ناکامیاں چھپانے کے لئے ہندومسلم ذات پات کے موضوعات میں الجھاکر عوام کوبرسرپیکار کرخودتماشابین بن جاتی اور پھراغوا,قتل ریپ موب لنچنگ کی شکل میں لاقانونیت کے کئ عناوین اپنی عملی شکل میں نمودار ہوجاتے ہیں. اس  وقت گاندھی اور ان کا فلسفۂ عدم تشدد سامنے رہے تو اس عظیم ملک کے سبھی باشندے امن وآشتی سے رہ سکیں لیکن انسانیت کے خون کی سیاست کرنی والی فرقہ پرست سیاسی جماعتیں حصول اقتدار کے لئے کسی بھی حدتک گرسکتی ہیں. گاندھی کا فلسفۂ عدم تشدد صبر اور بےنفسی کامتقاضی ہے جواقتدار کے بھکا ریوں کے پاس موجود ہی نہیں .

مہاتماگاندھی کی زندگی

موہن داس کرم چند گاندھی  گجرات،  کے مغربی ساحلی شہرپوربندر (جو اُس وقت بمبئی پریزیڈنسی، برطانوی ہندوستان کا حصّہ تھا) میں 2 اکتوبر، 1869ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کرم چند گاندھی (1822ء-1885ء) ہندو مودھ فرقہ سے تھے اور ریاست پوربندر کے دیوان تھے۔ ان کی ماں کا نام پُتلی بائی تھا، جو ہندو پرنامی ویشنو فرقہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ وہ کرم

چند کی چوتھی بیوی تھی۔

ان کے والد کرم چند گاندھی ہندو مودھ برادری سے تعلق رکھتے تھے اور انگریزوں کے زیر تسلط والے بھارت کے امییواڑ ایجنسی میں ایک چھوٹی سی ریاست پوربندر صوبے کے دیوان یعنی وزیر اعظم تھے۔ ان کے دادا کا نام اُتّم چند گاندھی تھا جو اتّا گاندھی سے بھی مشہور تھے۔ پرنامی ویشنو ہندو برادری کی ان کی ماں پتلی بائی کرم چند کی چوتھی بیوی تھی، ان کی پہلی تین بیویاں زچگی کے وقت مر گئی تھیں۔ عقیدت کرنے والی ماں کی دیکھ بھال اور اس علاقے کی جین برادری کی وجہ سے نوجوان موہن داس پر ابتدائی اثرات جلد ہی پڑ گئے جو ان کی زندگی میں اہم کردار ادا کرنے والے تھے۔ ان اثرات میں کمزوروں میں جوش کا جذبہ، سبزی خواری کی زندگی، روح کی پاکیزگی کے لیے بپوبس اور مختلف ذاتوں کے لوگوں کے درمیان میں رواداری شامل تھیں۔

مئی، 1883ء میں جب وہ 13 سال کے تھے تب ان کی شادی 14 سال کیکستوربائی ماکھنجی کپاڈیا سے کر دی گئی جن کا پہلا نام چھوٹا کرکے کستوربا کر دیا گیا تھا اور اسے لوگ پیار سے با کہتے تھے۔ یہ شادی ایک منظم کم سنی کی شادی تھی جو اس وقت اس علاقے میں عام تھی۔ اس علاقے میں وہاں یہی رسم تھی کہ نابالغ دلہن کو اپنے ماں باپ کے گھر اور اپنے شوہر سے الگ زیادہ وقت تک رہنا پڑتا تھا. 1885ء میں جب گاندھی جی 15 سال کے تھے تب ان کی پہلی اولاد کی پیدائش ہوئی لیکن وہ صرف کچھ دن ہی زندہ رہی اور اسی سال کے شروعات میں گاندھی جی کے والد کرمچند گاھی بھی چل بسے۔ موہن داس اور کستوربا کے چار اولاد ہوئیں جو تمام بیٹے تھے - ہری لال 1888ء میں، منی لال 1892ء میں، رام داس، 1897ء میں اور دیوداس 1900ء میں پیدا ہوے.پوربندرمیں ان کے مڈل اسکول اور راجکوٹ میں ان کے ہائی اسکول دونوں میں ہی تعلیمی سطح پر گاندھی جی ایک اوسط طالب علم رہے۔ انہوں نے اپنا میٹرک کا امتحان بداؤنگر گجرات کے سملداس کالج سے کچھ پریشانیوں کے ساتھ پاس کیا  اور جب تک وہ وہاں رہے ناخوش ہی رہے کیونکہ ان کا خاندان انہیں بیرسٹر بنانا چاہتا تھا۔

گاندھی اور ان کی بیوی کستوربا سن 1902ء میں

4 ستمبر 1888ء کو اپنی شادی کی انیسویں سالگرہ سے کچھ ماہ قبل، گاندھی جی قانون کی پڑھائی کرنے اور بیرسٹر بننے کے لیے لندن، برطانیہ کے یونیورسٹی کالج آف لندن گئے۔ شاہی دار الحکومت لندن میں ان کے اوقات، اپنی ماں سے جین بھکشو کے سامنے بھارت چھوڑتے وقت کیے وعدے، ہندوؤں کی تہذیب کے تحت گوشت، شراب اور تنگ نظریہ سے پرہیز کرتے گزرا۔ حالانکہ گاندھی جی نے انگریزی رسم و رواج کا تجربہ بھی کیا جیسے مثال کے طور پر- رقص کی کلاس میں جانا- پھر بھی وہ اپنی مکان مالکن سے گوشت اور پتہ گوبھی کو ہضم نہیں کر سکے۔ اور انہوں نے بھوکا رہنا پسند کیا جب تک انھیں لندن میں کچھ خالص سبزی ریستراں نہیں ملے۔ سالٹ سے متاثر ہو کر، انہوں نے سبزخور سماج کی رکنیت اختیار کی۔ اور اس کی ایگزیکٹو کمیٹی کے لیے انکا انتخاب بھی ہو گیا جہاں انہوں نے ایک مقامی باب کی بنیاد رکھی۔ وہ جن سبزخور لوگوں سے ملے ان میں سے کچھ تھیوسوفیکل سوسائٹی کے رکن تھے جس کا قیام 1875ء میں عالمی بھائی چارگی کو مضبوط کرنے کے لیے اور بودھ مت اور ہندو مت کے ادب کے مطالعہ کے لیے وقف کیا گیا تھا۔ انہوں نے گاندھی کو ان کے ساتھ بھگوت گیتا اصل اور ترجمہ دونوں میں پڑھنے کے لیے متاثر کیا۔ جس گاندھی جی کو پہلے مذاہب میں خاص دلچسپی نہیں تھی، وہ مذہب میں دلچسپی لینے لگے اور ہندواور مسیحی دونوں مذاہب کی کتابوں کو پڑھنے لگے۔

10 جون 1810ء میں ان کو انگلستان اورویلز بار بلایا گیا۔ اور 12 جون1892ء کو لندن سے، ہندوستان لوٹ آئے۔ جہاں انہیں اپنی والدہ کی موت کا علم ہوا۔ لیکن ممبئی میں وکالت کرنے میں انہیں کوئی خاص کامیابی نہیں ملی۔ بعد میں ایک ہائی اسکول کے استاد کے طور پر جزوقتی کام کے ساتھ ساتھ انہوں نے دعوں کے لیے مقدمے لکھنے کے لیے راجکوٹ کو ہی اپنا مقام بنا لیا لیکن ایک انگریز افسر کی حمایت کی وجہ سے انھیں یہ کاروبار بھی چھوڑنا پڑا۔ اپنی آپ بیتی (My Experiments with the Truth) میں، نے اس واقعہ کا بیان انہوں نے اپنے بڑے بھائی کی طرف سے پیروی کی ناکام کوشش کے طور پر کیا ہے۔ یہی وہ وجہ تھی جس وجہ سے انہوں نے1893ء میں ایک بھارتی فرم دادا عبد اللہ اینڈ کمپنی کی ایک سالہ قرار پرنیٹال، جنوبی افریقا جو اس وقت سلطنت برطانیہ کا حصہ ہوتا تھا، جانا قبول کیا تھا۔

جنوبی افریقا میں شہری حقوق تحریک (1893ء تا 1914ء)

جنوبی افریقا میں گاندھی (سن 1895ء)
گاندھی عدم تشدد تحریک میں جنوبی افریقی خواتین کے ہمراہ

1893ء میں گاندھی جب جنوبی افریقا پہنچے تو ان کی عمر 24 سال تھی۔وہ پریٹوریا میں مقیم مسلم ہندوستانی تاجروں کے لیے ایک قانونی نمائندے کے طور پر کام کرنے گئے۔ جہاں وہ 21 برس مقیم رہے۔جنوبی افریقا میں گاندھی جی کو ہندوستانیوں اور کالے رنگ کے لوگوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے غیر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ شروع میں انہیں پہلے درجے کے کوچ کی درست ٹکٹ رکھنے کے باوجود تیسرے درجہ کے ڈبے میں سفرکرنے پر مجبور کرنے اورگاندھی جی کے انکار کرنے پرانھیں پیٹرمارتسبرگ میں ٹرین سے باہراتارا جا چکا تھا۔ پائے دان پر باقی سفر کرتے ہوئے ایک یورپی مسافر کے اندر آنے کے لیے اسے ڈرائیور سے پٹائی بھی جھیلنی پڑی تھی۔ انہوں نے جنوبی افریقا کے قیام کے دوران میں پیش آئیں دیگر دشواریوں کا سامنا کیا جس میں کئی ہوٹلوں میں ان کے لیے پابندی لگا دی گئی تھی۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ میں ڈربن کی ایک عدالت کے جج نے گاندھی جی کو اپنی پگڑی اتارنے کے لیے حکم دیا تھا جسے گاندھی جی نے نہیں مانا۔ یہ سارے واقعات گاندھی جی کی زندگی میں ایک اہم موڑ بن گئی اور سماجی نا انصافی کی بیداری کا سبب بنا اور سماجی سرگرمی کے لیے متاثر کیا۔ جنوبی افریقا میں پہلی نظر میں ہی ہندوستانیوں پر اور نا انصافی، نسل پرستی اور تعصب کو دیکھتے ہوئے گاندھی نے برطانوی سلطنت کے تحت اپنے لوگوں کے احترام اور ملک میں خود اپنی حالت کے لیے سوال اٹھا دیے۔

گاندھی جی نے حکومتِ جنوبی افریقا کے ذریعے پیش کردہ بل کی، جس میں ہندوستانیوں کے ووٹ دینے کے حق کو چھینا گیا تھا کی مخالفت کی۔ حالاں کہ بل کو منظوری سے روکنے میں وہ ناکام رہے، تاہم اس مہم سے بھارتیوں کی شکایات پر جنوبی افریقا کی توجہ اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب رہے تھے۔ انہوں نے 1894ء میں نیٹال میں انڈین کانگریس قائم کرنے میں مدد کی اور اس کی تنظیم کے ذریعے انہوں نے جنوبی افریقا کی ہندوستانی برادری کو ایک متحدہ سیاسی طاقت میں تبدیل کر دیا۔ جنوری 1897ء میں جب گاندھی ڈربن میں اترے تو سفید آباد کاروں کے ایک ہجوم نے ان پر حملہ کر دیا تھا اور صرف پولیس سپرنٹنڈنٹ کی بیوی کی کوششوں سے بچ گئے۔ تاہم انہوں نے بھیڑ کے کسی بھی رکن کے خلاف الزامات عائد کرنے سے انکار کیا اور کہا وہ ان کے اصولوں میں سے ایک تھی کہ ذاتی مسئلہ کے ازالے کے لیے عدالت میں نہیں جائيں گے۔

1906ء میں ٹرانسوال حکومت نے ایک نیا قانون نافذ کیا جس میں کالونی میں ہندوستانی آبادی کو رجسٹریشن کے لیے مجبور کیا۔ اس سال جوہانسبرگ میں ایک بڑے پیمانے پر احتجاج 11 ستمبر کو منعقد ہوا۔ اجلاس میں گاندھی نے پہلی بار ستیاگرہ (حق کی بارگاہ) یا عدم تشدد پر مبنی احتجاج کا طریقہ اختیار کیا اور اپنے ساتھی ہندوستانوں کو تشدد اپنانے کی مخالفت اور اس طریقے سے نئے قانون پر عمل نہ کرنے اور سزا بردشت کرنے کہا۔ کمیونٹی نے اس منصوبے کو اپنایا جو سات سال کی جدوجہد ہے جس میں گاندھی سمیت ہزاروں بھارتی جیل میں ڈال دیے گئے، کوڑے برسائے گئے، حتّٰی کہ گولیوں کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ انہوں نے رجسٹریشن سے انکار کیا، اپنے رجسٹریشن کارڈ جلائے یا دوسری قسم کی غیر تشدد مزاحمت میں شامل ہوئے۔ جبکہ حکومت ہندوستانی مظاہرین کو دبانے میں کامیاب رہی اور پرامن بھارتی مظاہرین پر سرکار کی ذیادتی کے خلاف عوام کو سخت دباؤ کا سامنا کرتے بالآخر مجبورًا جنوبی افریقا کے جنرل جان کرسٹین اسمٹس نے جنوبی افریقا کی حکومت کی طرف سے گاندھی کے ساتھ بات کرکے معاہدہ کیا۔ گاندھی کے نظریات اور ستیاگرہ کا تصور اس جدوجہد کے دوران میں واضح ہوا۔

نسل پرستی اور تنازع

گاندھی کے جنوبی افریقا کے ابتدائی سال بعض معاملوں میں متنازع ہیں۔ 7 مارچ 1908ء کو انڈین اوپنین میں گاندھی نے جنوبی افریقا کے جیل میں گزارے وقت کے بارے لکھا: "کافر اصولی طور پر بے ادب ہیں-وہ سب سے زیادہ مجرم ہیں۔ وہ شرپسند، بہت ہی گندے ہیں اور تقریبًا جانوروں کی طرح رہتے ہیں۔" 1903ء میں ہجرت کے موضوع پر گاندھی نے تبصرہ کیا :"ہم پاکیزگی نسل میں زیادہ سے زیادہ یقین کے طور پر ہم سوچتے ہیں وہ کرتے ہیں۔۔۔ ہمیں یہ بھی یقین ہے کہ جنوبی افریقا میں سفید فام نسل غالب ہونی چاہیے۔" جنوبی افریقا قیام کے دوران گاندھی بھارتیوں کی درجہ بندی سیاہ فام کے ساتھ کرنے پر با رہا احتجاج کیا۔ جسے وہ "بلاشبہ لامتناہی درجہ کافر سے بہتر" بتایا۔ اسی قسم کے تبصرے گاندھی پر نسل پرستی کے الزام کے لیے ذمہ دار بنے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ لفظ کافر ان دنوںمیں مختلف معنی میں لیا جا تا  تھا.

تاہم تاریخ کے دو پروفیسر سریندر بھانا اور غلام واحد، جو جنوبی افریقا میں مہارت رکھتے ہیں، نے اپنی عبارت، دی میکنگ آف پالٹیکل ریفارمر: گاندھی ان ساؤتھ افریقا، 1893ء تا 1914ء (نئ دہلی: منوہر: 2005) میں اس تنازع کی پڑتال کی۔ انہوں نے باب 1- "گاندھی، افریقی اور بھارتی نوآبادیات نیٹال میں" میں "سفید فام راج" کے ماتحت افریقی اور ہندوستانی برادریوں کے درمیان میں تعلقات اور وہ پالیسیاں جو ان فرقوں کے درمیان میں تنازع کی وجہ بنی کا ذکر کیا ہے۔ وہ اس صورت حال پر کہتے ہیں "نوجوان گاندھی 1890 کے دہے میں ان اختلاف پسندوں کے تصورات سے بہت متاثر تھے"۔ ساتھ ہی ان کا کہنا ہے کہ، "ایسا لگتا ہے کہ، جیل میں گاندھی کے تجربات نے ان کو اس حال کے لیے زیادہ حساس بنا دیا تھا۔۔۔ بعد میں گاندھی نرم پڑے، وہ افریقیوں کے خلاف تعصب کے ان کے اظہاریے میں کمی آئی اور وہ زیادہ تر مشترکہ امداد پر توجہ دینے لگے۔

جوہانسبرگ جیل میں ان کے منفی خیالات عام افریقا نہیں بلکہ سخت گیر افریقی قیدیوں کے لیے مخصوص تھے۔ تاہم بہت بعد کے زمانے میں جب جوہانسبرگمیں گاندھی کی ایک مورتی کی نقاب کشائی کے منصوبوں کا اعلان کیا گیا تھا، تو اس تحریک کو ناکام بنانے کے لیے گاندھی کی "نسل پرستی پر مبنی" بیانات کو وجہ بنا کر روکنے کی کوشش کی گئی تھی۔

بوئر جنگ میں کردار

برطانوی سامراج نے جب جنوبی افریقا میں مقامی بوئر باشندوں پر جنگ مسلط کی تو مہاتما گاندھی نے استعماری فوجوں کو ہندوستانیوں کی بھرتی کا تیقن ان الفاظ میں دلایا:

اس حقیر پیشکش کا مقصد یہ باور کرانے کی کوشش ہے، کہ جنوبی افریقاکی ملکہ کے دوسری رعایا کے دوش بدوش، ہندوستانی بھی، اپنی بادشاہت کی میدان جنگ میں خدمت بجا لانے کے لیے تیار ہیں۔ اس پیشکش کا مقصد ہندوستانیوں کی وفاداری کا بیعانہ ہے۔

— گاندھی

1906ء کی زولو جنگ میں کردار

1906ء میں زولو جنوبی افریقا میں نئی طے کی جانے والی چنگی کے عائد کرنے کے بعد دو انگریز افسروں کو مار ڈالا تھا۔ بدلے میں انگریزوں نے زولوؤں کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔ گاندھی جی نے ہندوستانیوں کو بھرتی کرنے کے لیے برطانوی حکام کی حوصلہ افزائی کی۔ ان کا کہنا تھا اپنی شہریت کے دعووں کو قانونی جامہ پہنانے کے لیے بھارتیوں کو جنگی کوششوں میں تعاون کرنا چاہیے۔ تاہم انگریزوں نے اپنی فوج میں ہندوستانیوں کو عہدے دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کے باوجود انہوں گاندھی جی کی اس تجویز کو مان لیا کہ ہندوستانی زخمی انگریز فوجیوں کو علاج کے لیے اسٹریچر پر لانے اور علاج کا کام کر سکتے ہیں۔ اس ٹکڑی کی باگ ڈور گاندھی نے تھامی۔ 21 جولائی 1906ء کو گاندھی نےانڈین اوپنین (Indian Opinion) میں لکھا کہ "نیٹال حکومت کے کہنے پر مقامی لوگوں کے خلاف جنگ کے لیے 23 ہندوستانی باشندوں کے ایک دستے کا قیام تجرباتی طور پر کیا گیا ہے۔گاندھی انڈین اوپینین کے مقالوں کے ذریعے جنوبی افریقا میں ہندوستانی لوگوں سے اس جنگ میں شامل ہونے کے لیے درخواست کی اور کہا : "اگر حکومت صرف یہی محسوس کرتی ہے کہ ریزرو فورس بیکار ہو رہے ہیں تو اس وقت وہ اس کا استعمال کریں گے اور اصل لڑائی کے لیے ہندوستانی کو ٹریننگ دے کر اس کا موقع دیں گے"۔

گاندھی کی رائے میں 1906ء کا ڈرافٹ آرڈیننس ہندوستانیوں کی حالت مقامی شہریوں سے نیچے لانے جیسا تھا۔ اس لیے انہوں نے ستیہ گرہ کی طرز پر "کافروں" کی مثال دیتے ہوئے ہندوستانیوں سے آرڈیننس کی مخالفت کرنے کا مطالبہ کیا۔ ان کے الفاظ میں، "یہاں تک کہ نصف برادری اور کافر ہم سے کم جدید ہیں، انہوں نے بھی حکومت کی مخالفت کی ہے۔ بس وہی اصول ان پر بھی عائد ہوتا ہے لیکن وہ برابر نہیں دکھاتے ہیں۔

1927ء میں گاندھی نے اس واقعہ کا ذکر یوں کیا: "بوئر جنگ نے مجھے اتنا نہیں ڈرایا، جیسا کہ زولو' بغاوت ' نے ڈرایا۔ کیوں کہ یہ کوئی جنگ نہیں تھی بلکہ یہ انسان کا شکار تھا، ایسا صرف میرے ہی نہیں بلکہ کئی انگریز جن سے گفتگو کا موقع ملا، کی رائے بھی ایسی ہی تھی"۔

ہندوستان کی آزادی کے لیے جدوجہد (1915ء تا 1945ء)

1915ء میں گاندھی جنوبی افریقا سے واپس بھارت میں رہنے کے لیے آئے۔ انہوں نے انڈین نیشنل کانگریس کے کنونشن میں شرکت کی تھی، لیکن بنیادی طور پر بھارتی مسائل، سیاست اور عوام سے تعارف گوپال کرشن گوگھلے کے توسط سے ہوا جو اس وقت کے کانگریس پارٹی کے قابل احترام قائد تھے۔

پہلی عالمی جنگ میں کردار

اپریل 1918ء میں، پہلی عالمی جنگ کے اواخر کے دوران میں وائسرائے نےدہلی میں جنگ کی کانفرنس میں گاندھی کو مدعو کیا۔ اس امید سے کہ شاید وہ سلطنت کے لیے اپنی حمایت ظاہر کریں اور ہندوستان کی آزادی کے لیے ان کے معاملے میں مدد کی جائے۔ گاندھی جنگ کی کوششوں کے لیے فعال طور پر ہندوستانیوں کی بھرتی سے اتفاق کیا۔ 1906ء کی زولو جنگ اور 1914ءکی عالمی جنگ کے ہو بہ ہو جن میں انہوں نے ایمبولینس کور کے لیے رضاکاروں کی بھرتی کی تھی، اس وقت گاندھی جنگجو رضاکاروں کی بھرتی کی کوششیں کی تھیں۔ 1 جون 1918ء کے ایک کتابچہ"بھرتی کے لیے اپیل" میں گاندھی نے لکھا "اس طرح کے حالات میں ہمیں اپنے آپ کا دفاع کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے جو ہتھیار اٹھانے اور انہیں استعمال کرنے کی صلاحیت ہے۔۔۔ اور اگر ہم ہتھیار کا استعمال کرنا سیکھنا چاہتے ہیں تو فوج میں شامل ہونا ہمارا فرض ہے۔ حالانہ کے انہوں نے وائسرائے کے ذاتی سکریٹری کو خط لکھ کر آگاہ کیا کہ وہ "ذاتی طور پر کسی کا قتل یا زخمی نہیں کرسکتے خواہ وہ دوست ہو یا دشمن"۔ "

چمپارن اور کھیڑا

گاندھی، کھیڑا اور چمپارن ستیہ گرہ کے دوربن سن 1918ء

گاندھی کی پہلی بڑی کامیابی 1918ء میں چمپارن تحریک اور کھیڑا ستیہ گرہ میں ملی، کھیڑا میں اپنے گزر بسرکے لیے ضروری خوراکی فصلوں کی بجائے تیل اور نقدی فصلوں کی کھیتی کا معاملہ تھا.زمیندار(زیادہ تر انگریز) کی طاقت سے مظالم ہوئے ہندوستانیوں کو برائے نام محنتانہ دیا جاتا تھا جس سے وہ انتہائی غربت میں رہ رہے تھے۔ گاؤں میں بری طرح گندی اور شراب خوری تھی۔ اب ایک تباہ کن قحط کی وجہ سے شاہی خزانے کی تلافی کے لیے انگریزوں نے چنگی لگا دی، جن کا بوجھ دن بہ دن بڑھتا ہی گیا۔ یہ صورت حال پریشان کن تھی۔ کھیڑا، گجرات میں بھی یہی مسئلہ تھا۔ گاندھی جی نے وہاں ایک آشرم بنایا جہاں ان کے بہت سارے حامیوں اور نئے کارکنوں کو منظم کیا گیا۔ انہوں نے گاؤں کا ایک وسیع مطالعہ اور سروے کیا جس میں لوگوں پر ہوئے ظلم کے خوفناک کانڈوں کا ریکارڈ رکھا گیا اور اس میں لوگوں کی تنزیلی حالت کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ دیہاتوں میں یقین پیدا کرتے ہوئے انہوں نے اپنا کام گاؤں کی صفائی کرنے سے شروع کیا جس کے تحت اسکول اور ہسپتال بنائے گئے اور سماجی برائیوں جیسے چھواچھوت، شراب خوری کو ختم کرنے کے لیے دیہی قیادت کی حوصلہ افزائی کی۔

لیکن اس کے اصل اثرات اس وقت دیکھنے کو ملے جب انہیں بے امنی پھیلانے کے لیے پولیس نے گرفتار کیا اور انہیں صوبے کو چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے احتجاجی مظاہرے کیے اور جیل، پولیس اسٹیشن اور عدالتوں کے باہر ریلیاں نکال کر گاندھی کو بغیر شرط رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔ گاندھی نے زمیں دارز کے خلاف احتجاجی مظاہرے اور ہڑتالوں کی قیادت کی جنہوں نے انگریزی حکومت کی رہنمائی میں اس خطے کے غریب کسانوں کو زیادہ معاوضہ منظور کرنے اور کھیتی پر کنٹرول، قحط تک چنگی کو منسوخ کرنا والے ایک معاہدے پر دستخط کیے۔ اس جدوجہد کے دوران میں ہی، گاندھی جی کو عوام نے باپو اور مہاتما (عظیم روح) کے نام سے خطاب کیا۔ کھیڑا میں سردار پٹیل نے انگریزوں کے ساتھ گفتگو کے لیے کسانوں کی قیادت کی جس میں انگریزوں نے چنگی کو منسوخ کر کے تمام قیدیوں کو رہا کر دیا۔ اس کے نتیجے میں، گاندھی کی شہرت پورے ملک میں پھیل گئی۔

عدم تعاون۔

گاندھی نے عدم تعاون، عدم تشدد اور پرامن مزاحمت کو برطانوی راج کے خلاف جدوجہد میں "ہتھیار" کے طور پر اپنایا۔ پنجاب کی جلیانوالہ باغ قتل عام(جسے امرتسر قتل عام سے بھی جانا جاتا ہے) کی وجہ سے عام شہریوں میں کافی غم و غصہ تھا، جس وجہ سے برطانوی فوجیوں کو عوام کے غصے اور تشددی کارروائیوں کا سامنہ کرنا پڑا۔ گاندھی نے دونوں برطانوی راج کے اقدامات اور ہندوستان کی جوابی تشدد پر تنقید کی۔ انہوں نے برطانوی شہریوں کے متاثرین کے لیے تعزیت کی پیشکش اور فسادات کی مذمت کی قرارداد لکھی، جسے پارٹی میں ابتدائی مخالفت اور گاندھی کی اس اصول کی جذباتی وکالت کہ، تمام تشدد ہی برا ہیں اور ناقال قبول ہیں، کے بعد منظور کر لیا گیا۔ لیکن قتل عام اور اس کے بعد کی تشدد نے گاندھی کی توجہ مکمل خود حکومت اور تمام بھارتی حکومتی ادارے کا کنٹرول حاصل کرنے پر مرکوز کر دیا، جو جلد ہی سوراج یا مکمل ذاتی، روحانی، سیاسی آزادی میں بدل گئی۔

سابرمتی آشرم میں مہاتما گاندھی کا کمرہ
سابرمتی آشرم ، گجرات میں گاندھی کے گھر

دسمبر 1921ء میں انڈین نیشنل کانگریس نے گاندھی کو خصوصی اختیارات کے ساتھ پارٹی کا ذمہ سونپا۔ ان کی قیادت میں کانگریس کو ایک نئے آئین اور سوراج کے مقاصد کے ساتھ دوبارہ سے منظم کیا گیا۔ پارٹی میں رکنیت کے ایک ٹوکن فیس ادا کرنے کے بعد ہر کسی کے لیے کھول دیا گیا تھا۔ پارٹی کو مخصوص طبقے کی جماعت سے، منظم اور قومی اپیل میں تدیل کرنے کے لیے کئی درجاتی ذیلی تناظیم قائم کیے گئے۔ گاندھی اپنی عدم تشدد لائحہ عمل میں سودیشی پالیسی (غیر ملکی مال کے بائیکاٹ کی، خاص طور پر برطانوی اشیاء ) کو شامل کر اسے توسیع دی۔ اس سے منسلک انہوں نے ہر ہندوستانی کو انگریزی ٹکسٹائل کی بجائے کھادی (گھروں میں بنے کپڑے) کے استعمال کی وکالت کی۔ گاندھی ہندوستان کے مردوں اور عورتوں، امیر ہو یا غریب کو آزادی کی تحریک کی حمایت میں ہر دن کھادی کی کتائی کے لیے وقت خرچ کرنے کی نصیحت دی۔ گاندھی نے ایک چھوٹی سی چرخہ بنوائی جو ایک چھوٹے سے ٹائپ رائٹر کے سائز میں موڑا جا سکتا تھا۔ انہوں نے ایسا لوگوں میں نظم و ضبط، جذبہ، خوداعتمادی میں اضافہ اور منفی خیالات کو دور کرنے اور عورتوں کو بھی اس تحریک میں شامل کرنے کے لیے کیا جو وقت سوچ کہ، اس طرح کی سرگرمیوں میں عورتوں کے لیے عزت کا مقام نہیں ہے کو بدل دیا۔ برطانوی مصنوعات کے بائیکاٹ کے علاوہ، گاندھی نے برطانوی تعلیمی اداروں اور قانونی عدالت کے بائیکاٹ پر بھی زور دیا کہ، حکومت کی ملازمت سے استعفی دے دیں اور برطانیہ کے القاب اور اعزازات چھوڑنے کے لیے کہا۔

عدم تعاون کو بڑے پیمانے پر اپیل اور کامیابی کا لطف اٹھایا، ہندوستانی سماج کے تمام طبقات کی طرف سے حوصلہ افزائی ملی اور شرکت میں اضافہ ہوا۔ پھر جب تحریک اپنی فراز پر تھی، چوری چورا اترپردیش کی ایک بستی میں فروری1922ء کے پر تشدد تصادم کے نتیجے میں اچانک ختم ہو گیا۔ اس ڈر سے کہ تحریک تشدد کی طرف موڑ نہ لے لے اور سارے کیے کرائے پر پانی نہ پھر جائے۔ گاندھی نے عوامی سول نافرمانی کی مہم کے خاتمے کا اعلان کیا۔ 10 مارچ 1922ء کو گاندھی کو گرفتار کیا گیا، بغاوت کے لیے کوشش کے الزام میں چھ سال قید کی سزا سنائی گئی۔ انہوں نے 18 مارچ 1922ء اس سزا کی شروعات کی۔ انہیں ایک پتھری کے آپریشن کے لیے 1924ء فروری میں رہا کر دیا گیا اس طرح وہ صرف 2 سال تک ہی جیل میں رہے۔

گاندھی کی ایسی متحدہ کی شخصیت کے بغیر، انڈین نیشنل کانگریس، دو دھڑوں میں بٹ گئی، ایک چتّا رنجن داس اور موتی لال نہرو کی قیادت میں جو اسمبلی میں پارٹی کی شرکت کے حامی تھے اور دوسرا چکرورتی راج گوپال آچاریہ اور سردار وللببائی پٹیل کی قیادت میں جو اس اقدام کی مخالف تھے۔ اس کے علاوہ، ہندو اور مسلمان اتحاد، جو عدم تشدد کی مہم کی بلندی پر مضبوط تھا، ٹوٹ گیا تھا۔ گاندھی 1924ء کے موسم خزاں میں تین ہفتے کا احتجاجی روزہ کے ذریعے ان اختلافات کو حل کرنے کی کوشش کی، لیکن ان کو محدود کامیابی ملی۔

نمک ستیاگرہ (نمک مارچ)

گاندھی 5 اپریل 1930ء کو نمک مارچ کے خاتمہ کے دوران میں دانڈی میں

گاندھی جی سرگرم سیاست سے دور ہی رہے اور 1920ء کی زیادہ تر مدت تک وہ سوراج پارٹی اور انڈین نیشنل کانگریس کے درمیان میں کی خلیج کو پر کرنے میں لگے رہے اور اس کے علاوہ وہ چھواچھوت، شراب، جہالت اور غربت کے خلاف تحریک چھیڑتے بھی رہے۔ وہ 1928ء میں منظر عام پر لوٹے۔ ایک سال پہلے انگریزی حکومت نے سر جان سائمن کی قیادت میں ایک نیا قانون اصلاحات کمیشن تشکیل دے دیا جس میں ایک بھی رکن ہندوستانی نہیں تھا۔ اس کا نتیجہ بھارتی سیاسی جماعتوں کی طرف سے بائیکاٹ نکلا۔ دسمبر 1928ء میں گاندھی جی نے کلکتہ میں منعقد کانگریس کے ایک اجلاس میں ایک تجویز پیش کی جس میں ہندوستانی سلطنت کو اقتدار فراہم کرنے کے لیے کہا گیا تھا یا ایسا نہ کرنے کے بدلے اپنے مقصد کے طور پر مکمل ملک کی آزادی کے لیے عدم تعاون تحریک کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہیں۔ گاندھی جی نے نہ صرف نوجوان طبقے سبھاش چندر بوس اور جواہر لال نہرو جیسے مردوں سے فوری آزادی کا مطالبہ کے خیالات کو معتدل کیا بلکہ اپنی خود کی مانگ کو دو سال کی بجائے ایک سال کر دیا۔ انگریزوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ 31 دسمبر 1929ء کو لاہور میں بھارت کا جھنڈا لہرایا گیا۔ 26 جنوری1930ء کا دن لاہور میں بھارتی یوم آزادی کے طور پر انڈین نیشنل کانگریسنے منایا۔ یہ دن تقریباً تمام ہندوستانی تنظیموں کی طرف سے بھی منایا گیا۔ اس کے بعد گاندھی جی نے مارچ 1930ء میں نمک پر چنگی لگائے جانے کی مخالفت میں نیا ستیہ گرہ چلایا جسے 12 مارچ سے 6 اپریل تک نمک تحریککے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس میں 400 کلومیٹر (248 میل) تک کا سفراحمد آباد سے دازڈی، گجرات تک کیا گیا تاکہ خود نمک پیدا کیا جا سکے۔ سمندر کے طرف کے اس سفر میں ہزاروں کی تعداد میں ہندوستانیوں نے حصہ لیا۔ ہندوستان میں انگریزوں کی پکڑ کو کمزور کرنے والی یہ ایک سب سے زیادہ کامیاب تحریک تھی جس میں انگریزوں نے 80،000 سے زیادہ لوگوں کو جیل بھیجا۔

لارڈ ایڈورڈ اروین (Lord Edward Irwin) کی طرف سے نمائندگی والی حکومت نے گاندھی جی کے ساتھ تبادلہ خیال کرنے کا فیصلہ لیا۔ یہ اروین گاندھی کی صلح (Gandhi – Irwin Pact) مارچ 1931ء میں دستخط کیے تھے۔ شہری نافرمانی تحریک کو بند کرنے کے عوض برطانوی حکومت نے تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کے لیے اپنی رضامندی دے دی۔ اس معاہدے کے نتیجے میں گاندھی کو انڈین نیشنل کانگریس کے واحد نمائندے کے طور پر لندن میں منعقد ہونے والے گول میز کانفرنس میں حصہ لینے کے لیے مدعو کیا گیا۔ یہ کانفرنس گاندھی جی اور قومیت وادیوں کے لیے سخت مایوس کن رہا، اس کی وجہ اقتدار کا منتقلی کرنے کی بجائے ہندوستانی راجواڑے اور ہندوستانی اقلیتوں پر مرکوز ہونا تھا۔ اس کے علاوہ، لارڈ اروین کے جانشیں لارڈ ولنگٹن (Lord Willingdon)، نے قومیت وادیوں کے تحریک کو کنٹرول اور کچلنے کی ایک نئی مہم شروع کردی۔ گاندھی پھر سے گرفتار کر لیے گئے اور حکومت نے ان کے عاملین کو ان سے پوری طرح دور رکھتے ہوئے گاندھی جی کی طرف سے متاثر ہونے سے روکنے کی کوشش کی۔ لیکن، یہ مشین کامیاب نہیں ہوا۔

مادھو دیسائ (بایئں) گاندھی کو وائسرۓ کا خط سنتے، برلا ہاؤس بمبئ میں، 7 اپریل 1939ء

1932ء میں دلت رہنما بھیم راؤ امبیڈکر (BR Ambedkar)کے انتخابی مہم کے ذریعے حکومت نے اچھوتوں کو ایک نئے آئین کے تحت الگ سے انتخاب کو منظور کر دیا۔ اس فیصلے کی مخالفت میں گاندھی جی نے ستمبر1932ء میں چھ دن کے احتجاجی روزہ رکھا جس کی کامیابی کہ باعث عوامی احتجاج نے طول پکڑا۔ اس کے اثر سے حکومت نے دلت کرکٹ کھلاڑی سے سیاسی لیڈر بنے پلوانکر بالو کی ثالثی میں ایک یکساں نظام کو اپنانے پر زور دیا۔ اس واقعہ نے اچھوتوں کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے گاندھی جی کی طرف سے مہم کی شروعات کی۔ گاندھی جی نے ان اچھوتوں کو ہریجن کا نام دیا جنہیں وہ خدا کی اولاد سمجھتے تھے۔ 8 مئی 1933ء کو گاندھی جی نے ہریجن تحریک میں مدد کرنے کے لیے اور خود پاکیزگی کے لیے 21 دن تک کا روزہ رکھا۔ یہ نئی مہم دلتوں کو پسند نہیں آئی تاہم وہ ایک اہم رہنما بنے رہے۔ بی آر امبیڈکر (BR Ambedkar) نے گاندھی جی سے ہریجن لفظ کا استعمال کرنے کی مذمت کی کہ دلت سماجی طور پر نادان ہیں اور اونچے ذات والے ہندوستانی ان کے ساتھ پدری کردار ادا کیا ہے۔ امبیڈکر اور اس کی اتحادی جماعتوں کو بھی محسوس ہوا کہ گاندھی جی دلتوں کے سیاسی حقوق کو ہلکا لے رہے ہیں۔ حالانکہ گاندھی جی ایک ویشو ذات میں پیدا ہوئے پھر بھی انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ وہ امبیڈکر جیسے دلت کارکن کے ہوتے ہوئے بھی وہ دلتوں کے لیے آواز اٹھا سکتا ہے۔

1934ء کی گرمیوں میں ان کی جان لینے کے لیے ان پر تین ناکام کوششیں کی گئیں۔ جب کانگریس پارٹی انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا اور وفاقی منصوبہ کے تحت اقتدار قبول کی تو گاندھی جی نے پارٹی کی رکنیت سے استعفی دینے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ پارٹی کے اس قدم سے متفق نہیں تھے لیکن محسوس کرتے تھے کہ اگر وہ استعفی دیتے ہیں تب ہندوستانیوں کے ساتھ ان کی مقبولیت پارٹی کی رکنیت کو مضبوط کرنے میں آسانی فراہم کرے گی جو اب تک کمیونسٹوں، ماوعوادیوں، کاروباری مئوز، طلبہ، مذہبی رہنماؤں سے لے کر کاروبار مئوز اور مختلف آواز جو ان کے درمیان موجود تھی۔ اس سے ان تمام کو اپنی اپنی باتوں کے کہے جانے کا موقع حاصل ہوگا۔ گاندھی راج کے لیے کسی پارٹی کی قیادت کرتے ہوئے مہم سے کوئی ایسا ہدف ثابت نہیں کرنا چاہتے تھے جسے راج کے ساتھ عارضی طور پر سیاسی نظام کے طور پر قبول کر لیا ہو۔ 

گاندھی جی نہرو کی صدارت اور کانگریس کے لاہور اجلاس کے ساتھ ہی1936ء میں فعّال سیاست میں لوٹ آئے۔ حالانکہ گاندھی کی مکمل خواہش تھی کہ وہ آزادی حاصل کرنے پر اپنی مکمل توجہ مرکوز کریں نہ کہ بھارت کے مستقبل کے بارے میں نانکلوں پر۔ اس نے کانگریس کو سماجواد کو اپنے مقصد کے طور پر اپنانے سے نہیں روکا۔ 1938ء میں صدر کے عہدے کے لیے منتخب سبھاش چندر بوس کے ساتھ گاندھی جی کے اختلافات تھے۔ بوس کے ساتھ اختلافات میں گاندھی کے اہم نقطہ بوس کی جمہوریت میں عزم کی کمی اور عدم تشدد میں یقین کی کمی تھی۔ بوس نے گاندھی جی کی تنقید کے باوجود بھی دوسری بار کامیابی حاصل کی لیکن کانگریس کو اس وقت چھوڑ دیا جب تمام ہندوستانی رہنماؤں نے گاندھی کے لاگو کیے گئے تمام اصولوں کو نظر انداز کرنے پر احتجاجی طور پر متحدہ استعفی دے دیا۔

دوسری عالمی جنگ اور ہندوستان چھوڑو

نازی جرمنی کے پولینڈ پر حملہ سے دوسری عالمی جنگ 1939ء میں پھوٹ پڑی۔ ابتدا میں گاندھی نے برطانوی کوشش کی "غیر متشدد اخلاقی حمایت" کی پیشکش کی، لیکن کانگریس کے دوسرے رہنما عوام کے منتخب نمائندے کی مشاورت کے بغیر ہندوستان کو جنگ میں یک طرفہ شامل کیے جانے سے ناراض تھے۔ سب نے کانگریس کے عہدوں سے استعفی دے دیا۔ طویل بحث کے بعد، گاندھی نے اعلان کیا ہے کہ ہندوستان ایک ظاہری طور جمہوری آزادی کے لیے لڑنے جا رہا ہے وہ جنگ کی پارٹی نہیں بنے گی، جبکہ خود ہندوستان کو آزادی سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ جنگ بڑھنے کے ساتھ، گاندھی نے آزادی کے لیے ان کی مانگ کو تیز کر دیا۔ ایک قرارداد تیار کر کے برطانوی حکومت سے ہندوستان چھوڑو کی مانگ کی گئی۔ یہ گاندھی اور کانگریس پارٹی کی طرف سے، ہندوستان سے برطانوی اخراج کو یقینی بنانے کے مقصد سے کی گئی سب سے زیادہ بغاوت تھی۔ 

گاندھی کی تحریر("I want world sympathy in this battle of right against might") - دانڈی 5 اپریل 1930ء

دونوں برطانوی حامی اور مخالف، کچھ کانگریس پارٹی کے اراکین اور دیگر ہندوستانی سیاسی گروپ نے گاندھی کے اس قدم کی تنقید کی۔ بعض نے محسوس کیا کہ نازی جرمنی کے خلاف جدوجہد میں برطانیہ کی حمایت نہیں کرنا غیر اخلاقی تھا۔ دیگر نے محسوس کیا کہ ہندوستان کا جنگ میں حصہ لینے کا گاندھی سے انکار ناکافی تھا اور زیادہ براہ راست حزب اختلاف کی کارروائی کی جانی چاہیے تھی، جبکہ برطانیہ جو ابھی تک نازیوں کے خلاف لڑ رہا تھا ہندوستان کو آزادی دینے سے انکار کر کے تردید جاری رکھا۔ ہندوستان چھوڑو جدوجہد بڑے پیمانے پر گرفتاریوں اور بے اندازہ تشدد کے ساتھ تاریخ کی سب سے زیادہ مضبوط تحریک بن گی۔ ہزاروں مجاہد آزادی پولس کے گولیوں سے قتل یا زخمی ہوئے اور ہزاروں کو گرفتار کیا گیا۔ گاندھی اور ان کے حامیوں نے یہ واضح کیا کہ وہ جنگ کی کوشش کی حمایت نہیں کرتے جب تک کہ ہندوستان کو فوری طور پر آزادی نہیں دی جاتی ہے۔ اس نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اس وقت تحریک کو تشدد کی انفرادی کارروائیوں کی بنا پر بند نہیں کیا جائے گا، انہوں نے کہا کہ "حکم دیا اراجکتا" ان کے گرد کے "اصلی انتشار سے بھی بڑھ کر۔" ہے۔ انہوں نے تمام کانگریس اور ہندوستانیوں پر عدم تشددکے ذریعہ نظم و نس‍ق بنائے رکھنے اور آزادی کے لیے کرو یا مرو پر زور دیا۔

برطانوی حکومت نے 9 اگست 1942ء میں گاندھی اور پوری کانگریس ورکنگ کمیٹی گرفتار کر لیا گیا۔ گاندھی کو پونے میں آغا خان محل میں دو سال کے لیے مقید کیا گیا۔ یہاں گاندھی کو ذاتی زندگی میں دو خوفناک حادثے کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے 50 سالہ سیکرٹری مہادیو دسائی کا دل کا دورہ سے اور 6 دن بعد ان کی بیوی کستوربا 18 ماہ قید کی سزا کے بعد 22 فروری 1944ء کو وفات پا گئیں۔ چھ ہفتوں کے بعد میں گاندھی کو ایک سخت ملیریا کے حملے کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں جنگ کے اختتام سے پہلے 6 مئی 1944ء کو گرتی صحت اور ضروری سرجری کی وجہ سے رہا کر دیا گیا۔، برطانوی راج جیل میں ان کی موت کی وجہ سے متحدہ قوم نہیں چاہتا تھا۔ اگرچہ ہندوستان چھوڑو تحریک اس مقصد میں معتدل کامیابی ملی تھی، اس تحریک کی شدّت نے 1943ء کے آخر تک ہندوستان کے لیے آزادی کا پیغام لائی۔ جنگ کے اختتام پر برطانوی حکومت نے اقتدار کو ہندوستانی ہاتھ منتقل کرنے کا واضح اشارہ دیا۔ اس وقت گاندھی نے جدوجہد کی اختتام کا اعلان کیا۔ اورکانگریس کی قیادت سمیت تقریباً 100،000 سیاسی قیدیوں کو رہا کر دیا گیا۔

تقسیم ہند۔

گاندھی اور جناح

جب انڈین نیشنل کانگریس اور گاندھی برطانیہ پر بھارت چھوڑنے کا دباؤ بنا رہے تھے، 1943ء میں مسلم لیگ ملک کو تقسیم کرنے اور چھوڑ نے کی قرارداد منظور کیا، مانا جاتا ہے کہ گاندھی ملک کو تقسیم کرنے کی مخالفت تھے۔ اور مشورہ دیا کہ ایک معاہدہ کے تحت کانگریس اور مسلم لیگ کی تعاون سے ایک عارضی حکومت کے تحت آزادی حاصل کی جائے۔ اس کے بعد تقسیم کے سوال پر مسلم اکثریت کے اضلاع میں ایک رائے شماری کے ذریعے حل ہو سکتا ہے. پر محمد علی جناح براہ راست کارروائی کے حق میں تھے۔ 16 اگست 1946ء کو گاندھی مشتعل تھے اور فسادات زدہ علاقوں کا دورہ کر قتل عام کو روکنے کی ذاتی طور پر کوشش کی۔ انہوں نے بھارتی ہندو، مسلمان اور مسیحی کی اتحاد کی مضبوط کوشش کی۔ اور ہندو سماج میں "اچھوت" کی آزادی کے لیے جدوجہد کی۔

14 اور 15 اگست، 1947ء کو برطانوی ہندوستانی سلطنت نے بھارتی آزادی ایکٹ پاس کر دیا، جو قتل عام اور 12.5 لاکھ لوگوں کے منتقلی اور کروڑوں کے نقصان کی گواہ بنی۔ ممتاز نارویجن تاریخ داں جینس اروپ سیپ کے مطابق گاندھی کی تعلیمات، اس کے پیروکاروں کی کوشش اور ان کی اپنی موجودگی تقسیم کے دوران میں نقصانات کو کم تر کرنے میں کامیاب رہی۔

اسٹینلے والپرٹ تقسیم پر گاندھی کے کردار اور خیالات کا خلاصہ ان الفاظوں میں کیا ہے:

برطانوی ہند کو باٹنے کا منصوبہ گاندھی کو کبھی منظور نہیں تھا۔ تاہم انہیں احساس ہو چکا تھا کہ اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ ان کے ساتھیوں اور حواریوں کو اصول سے زیادہ اقتدار میں دلچسپی ہے، اور وہ اپنے اس بھرم سے گھرے رہے کہ بھارت کی آزادی کی جدوجہد جس کی قیادت انہوں نے کی وہ ایک بے تشدد تھی۔

تعلیمات

گاندھی نے اپنی زندگی کو سچّائی (حق) کی تلاش کے لیے نذر کر دیاتھا۔ انہوں نے اسے اپنی غلطیوں اور تجربات سے حاصل کرنے کی کوشش قراردیا۔ انہوں نے اپنی سوانح عمری کو "سچائی کے ساتھ میرے تجربات کی کہانی" (The Story of My Experiments with Truth) کا عنوان دیا۔.

گاندھی جی نے کہا کہ انہوں نے سب سے اہم جنگ اپنی نفسیاتی خوف اور عدم تحفظ پر قابو پانے کے لیے لڑی۔ گاندھی اپنے عقائد کا خلاصہ ان الفاظ میں کیا، "خدا حق ہے"۔ انہوں نے اس بیان کو بعد میں "حق خدا ہے" سے تبدیل کر دیا۔ اس طرح، گاندھی کے فلسفہ میں حق (ستیا) "خدا" ہے۔

عدم تشدد

اگرچہ مہاتما گاندھی عدم تشدد کے اصول کے موجد تو نہیں تھے مگر، انہوں نے بڑے پیمانے پر اس کا سیاسی میدان میں استعمال پہلی بار کیا تھا۔ اہنسا (عدم تشدد) کا تصور بھارتی مذہبوں میں ایک طویل تاریخ ہے۔ ہندو، بدھ، جین، یہودی اور مسیحی مذاہب میں اس کا اعادہ ہے۔ گاندھی اپنی سوانح عمری "حق کے ساتھ میرے تجربات کی کہانی" میں اس فلسفہ اور زندگی کی راہ بتاتے ہیں۔ ذیل اقتباس ان کے سوانح عمری سے ماخوذ ہیں۔

جب میں مایوس ہوتا، میں یاد کرتا کہ پوری تاریخ میں سچ اور محبت کے راستہ ہمیشہ جیت ہوئی ہے۔ دنیا میں بڑے سے بڑے قاتل اور ظالم ہوۓ ہیں جو ایک وقت ناقابل شکست لگے، لیکن آخر میں وہ ہارے- اس کے بارے میں سوچنا، ہمیشہ۔
"آنکھ کے لیے ایک آنکھ پورے دنیا کو اندھا بنا دیتا ہے۔"
"بہت سی وجوہات ہیں جن کےلئے میں مرنے کےلیے تیار ہوں، لیکن کوئی وجہ نہیں جن کے لئےمیں قتل کرنے کے لیے تیار ہوں۔"

سبزی خوری

نوجوان گاندھی نے تجسس میں گوشت خوری کی کوشش کی تھی۔ لیکن وہ اپنے علاقے کے ہندو اور جین سے متاثر ہو کر ہمیشہ سبزی خور رہے۔[96][97] اور سن بلوغ کو پہنچتے ہی پکے سبزی خور بن چکے تھے۔ انہوں نے اپنے قیام لندن میں اس پر کئی مقالے بھی لکھے جو لندن کے رسالہ "دی وجیٹیرین"(The Vegeterian) میں شائع ہوئے۔ انہوں نے اس پر ایک کتاب "سبزی خوری کے اخلاقی اصول" بھی تصنیف کی۔

اپنے کامیاب برہم آچاری ہونے کی وجہ بھی سبزی خوری کو بتاتے۔ جس کا ذکر انہوں نے اپنی آپ بیتی میں کیا ہے۔

گاندھی نے پھل خوری کا بھی تجربہ کیا۔ اپنی آپ بیتی میں اس کا ذکر کرتے ہوئے گاندھی نے کہا، ""میں نے صرف پھل کھا کر زندہ رہنے کا فیصلہ کیا اور وہ بھی سب سے سستے پھلوں سے … مونگ‌پھلی، کیلے، کھجور، نیبو اور زیتون کے تیل پر مشتمل کھانا"۔

حالانکہ طبیبوں کی صلاح پر اس اصول کو توڑا اور اخیر دنوں میں بکری کا دودھ استعمال کرتے تھے۔

برت

1920ء کی دہائی میں موہن داس گاندھی برت رکھے ہوئے، ساتھ میں اندرا گاندھی

گاندھی نے برت کو سیاسی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا۔ کانگریس نے برتوں کو سیاسی مقاصد کے لیے تشہیر دی جس سے وسیع پیمانے پر ہمدردی حاصل ہوتی تھی۔ بدلے میں حکومت نے اپنے راج کو تحفظ دینے کے لیے ایسی خبروں کو کم سے کم جگہ دی۔ گاندھی نے 1932 میں دلتوں کے لیے الگ سے سیاسی نمائندگی دیے جانے کے خلاف برت رکھا کیونکہ وہ دلتوں کو الگ کرنے کے حق میں نہیں تھے۔ حکومت نے لندن پریس کو گاندھی کی فاقہ زدہ تصاویر دکھانے سے روک دیا کیونکہ اس طرح عوام میں ہمدردی پیدا ہوتی۔ گاندھی کی 1943ء کی بھوک ہڑتال کا سبب (Quit India) نامی نوآبادیاتی نظام کی مخالف مہم تھی۔ حکومت نے ماہرینِ غذائیات سے مدد لی اور تصاویر پر پابندی لگا دی۔ تاہم 1948ء میں ان کے آخری برت جو بھارت کی آزادی کے بعد رکھا گیا، کو برطانوی پریس نے پوری توجہ دی اور پورے صفحات کی تصاویر شائع کیں۔

آلٹر کا خیال ہے کہ گاندھی کی مستقل بھوک ہڑتالوں اور برہمچاریہ کے پیچھے اپنی ذات پر ضبط سے زیادہ گہری وجوہات تھیں۔ ان کے اپنے خیالات روایتی ہندو آیورویدک اور مغربی خیالات پر مشتمل تھے۔ گاندھی کے نزدیک جدت پسندی اور روایات بھی اتنی ہی اہمیت رکھتی تھیں جتنا کہ صحت اور عدم تشدد۔

نئی تعلیم، بنیادی تعلیم

گاندھی کی تعلیمی پالیسیوں کی جھلک نئی تعلیم سے ملتی ہے جس کا مطلب “تعلیم سب کے لیے” تھا۔ اس کے پیچھے وہ مذہبی اصول کارفرما تھا کہ کام اور علم کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔ دراصل یہ نظام برطانوی نظام تعلیم اور نوآبادیاتی نظام کی مخالفت میں بنایا گیا تھا جس کی وجہ سے ہندوستانی بچوں کے لیے نظامِ تعلیم مشکل ہو جاتا تھا اور جسمانی کام سے نفرت پیدا ہوتی تھی اور ایک نیا طبقہ اشرافیہ پیدا ہو جاتا تھا اور انڈسٹریلائزیشن اور شہروں کو رخ کرنے کا رحجان پیدا ہوتا تھا۔

نئی تعلیم ایک روحانی اصول ہے جس کے مطابق علم کام سے جدا نہیں ہے۔ گاندھی نے اسی اصول پر "نئی تعلیم" کے نام سے ایک نئے تعلیمی نصاب کو فروغ دیا۔

گاندھی کے درس کے تین ستون یوں ہیں:

  • علم ایک کل زندگی مرحلہ ہے
  • علم کا سماجی کردار اور
  • علم ایک مکمل حکمت عملی ہے۔

برہم آچاری

جب گاندھی کی عمر 16 سال تھی ان کے والد سخت بیمار پڑ گئے تھے گاندھی ایک فرماں بردار اولاد کی طرح اپنے والد کی خدمت میں دن رات لگے رہتے تھے۔ ایک ربت ان کے چاچا خود ذمہ دری لیکر انہیں آرام کرنے بھیج دیا۔ گاندھی اپنے کمرے میں آرام کر رہے تھے کہ نفسیاتی خواہش میں آکر اپنی اہلیہ کے ساتھ ہمبستر ہو گئے۔ تھوڑے ہی دیر میں نوکر نے انہیں ان کے والد کے موت کی خبر دی۔ گاندھی اپنے آپ پر شرمندگی محسوس کرنے لگے اور کبھی اپنے آپ کو اس کے لیے معاف نہیں کر پائے۔ بعد میں گاندھی نے اسے دوہری شرمندگی کا نام دیا۔ اس کے نتیجہ میں گاندھی نے 36 سال کی عمر میں ہی خود کو جسمانی تعلقات سے دور کر لیا حالانکہ وہ شادی شدہ ہی رہے۔

یہ فیصلہ برہم آچاری کے فلسفہ سے بہت متاثر تھا۔ گاندھی کو برہم آچاری خود کو خدا کے قریب تر کر لینے اور خود آشنائی سمجھتے تھے۔ اپنے سوانح عمری میں اس کا ذکر کرتے ہوئے گاندھی نے کہا کہ انکا خود کو نفسیاتی ضروریات سے روک لینے کا فیصلہ ہوس کی بجائے محبت کو سیکھنا تھا۔ گاندھی کے مطبق برہم آچاری " اپنے سوچ، الفاظ اور عمل پر قابو" ہے۔

زندگی کے اخیٖر مراحل تک یہ بات عام ہو گئی تھی کے گاندھی رات کو مختلف جوان عورتوں کے ساتھ سوتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا وہ ایسا جسمانی گرمی کو محسوس کرنے کے کیے کرتے ہیں اور اسے "فطرتی علاج" کہا۔ گاندھی نے اپنے نفس پر قابو کو پرکھنے کے لیے اپنے اخری دنوں میں کئی تجربات کیے۔ برلہ کے نام اپریل 1945ء کا ایک خط میں انہوں نے 'کئی عورتوں اور لڑکیوں کا ان کے ساتھ برہنہ ہونے' کا ذکر کیا ہے اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ان کے ان تجربات میں کئی عورت شامل تھیں۔ انہوں نے برہم آچاری پر عمل پیراں ہونے پر پانچ اداریے لکھے۔

اپنے اس تجربے کے لیے وہ پہلے اپنے عورت کارکنوں کے ساتھ ایک ہی کمرے میں دور دور سوئے پھر ایک ساتھ سوئے اور آخر میں برہنہ سوئے۔ اور یہ تجربہ کئی عورتوں کے ساتھ کیا جیسے 16 سالہ آبھا (جو ان کے بھتیجے کے بیٹے کنو گاندھی کی بیوی تھی)، بھتیجے جئے سکھ لال کی 19 سالہ بیٹی منو گاندھی (جس کا ذکر گاندھی نے اس کے والد سے خود خط میں کیا کہ میں اس کے سونے کی عادتوں کو درست کرنے ساتھ سوتے ہیں)، گاندھی خود کو ان کی ماں مانتے تھے اور انہیں اپنی بیساکھی بتاتے تھے۔

گاندھی سرلا دیوی کو اپنی روحانی بیوی بتاتے تھے جو خود شادی شدہ اور با اولاد تھیں۔ گاندھی نے خلاصہ کیا کہ وہ دونوں اتنے قریب ہو گئے تھے کہ جسمانی تعلقات بنا بیٹھتے۔

ان تجربات کی وجہ سے گاندھی کی فضیحت بھی ہوئی۔ ان کے اسٹونوگرافر آر پی پرسو رام گاندھی کو منو کے ساتھ برہنہ سوتے دیکھ کر استعفی دے دیا۔ گاندھی نے کہا کہ وہ ان کے ساتھ سوتے کبھی نفسیاتی خواہش نہیں ہوئی۔ انہوں نے پرسو رام سے کہا کہ مجھے افسوس ہے تاہم اگر تم جانا چاہو توجا سکتے ہو۔ گاندھی کے ساتھی نرمل کمار بوس اور دتتاتیریا بالکرشنا کیلکر نے بھی کچھ اس قسم کے واقعات بتائے تاہم انہوں نے اسے ان کے ساتھ گاندھی کی ممتا بتایا۔

معاشیات

گاندھی کے نزدیک آزاد ہندوستان کا مطلب ہزاروں کی تعداد میں خود کفیل اور خوشحال چھوٹی چھوٹی آبادیاں تھا جو خود مختار ہوں اور دوسروں سے الگ تھلگ کام کریں۔ گاندھی کے نظریے کے مطابق دیہات کی سطح پر خود کفالت اہمیت رکھتی تھی۔ سرودیا کی پالیسی کے مطابق گھریلو صنعتوں اور زراعت کی صورت حال بہتر بنا کر غربت کو ختم کیا جا سکتا تھا۔ گاندھی نے نہرو کے معاشی نمونے کو مکمل طور پر رد کیا جس میں روسی طرز پر صنعتی ترقی اہمیت رکھتی تھی۔ گاندھی کے ذہن میں مقامی آبادی اور ان کی ضروریات تھیں۔ گاندھی کی وفات کے بعد نہرو نے ہندوستان کو جدید بنایا اور ہیوی انڈسٹری کے علاوہ زراعت کو بھی جدید خطوط پر استوار کیا۔ مؤرخ پانڈی کتو کے مطابق “ہندوستان کی حکومت نے گاندھی نہیں بلکہ نہرو کی پالیسی کو اپنایا”۔ گاندھی کے مطابق “غربت بدترین تشدد ہے”۔

سوراج

رڈولف کے خیال میں جنوبی افریقا سے انگریزوں کو نکالنے میں ناکامی کے بعد گاندھی کو حوصلہ ملا۔ انہوں نے روایتی بنگالی طریقے سے خود تکلیف سہہ کر ستیہ گرہ یا اہنسا کو پورے ہندوستان میں پھیلا دیا۔ گاندھی کے مطابق آزادی کے چار معنی ہیں: ہندوستان کی قومی آزادی، انفرادی سیاسی آزادی، غربت سے اجتماعی چھٹکارا اور خود پر حکومت کرنا۔

گاندھی کے مطابق ہر انسان کی مرضی کے بغیر اس سے متعلق کوئی کام نہ کیا جائے۔

جنوبی افریقا سے لوٹ کر جب گاندھی کو انسانی حقوق سے متعلق شمولیت کی درخواست کی گئی تو انہوں نے کہا کہ زیادہ اہمیت انسانی فرائض کو متعین کرنے کی ہونی چاہیے۔

آزاد ہندوستان کا مطلب یہ نہیں تھا کہ انگریز آقاؤں کی جگہ دیسی آقا لے لیں۔ اگر ایسا ہوتا تو ہندوستان آزاد ہونے کے بعد بھی انگلستان ہی رہتا جو سوراج نہیں۔ گاندھی کے خیال میں جمہوریت زندگی بسر کرنے کا ایک طریقہ ہے۔

ادبی سرگرمیاں

ینگ انڈیا، گاندھی کی طرف سے شائع ہونے والا ایک ہفتہ وار جریدہ

گاندھی کو لکھنے کا جنون تھا۔ گاندھی کی ابتدائی تصانیف میں سے ایک ‘ہند سوراج‘ 1909ء میں گجراتی زبان میں چھپی۔ کئی دہائیوں تک گاندھی نے گجراتی اور ہندی کے علاوہ انگریزی اخبارات میں ادارت کے فرائض سر انجام دیے اور یہ سلسلہ جنوبی افریقا میں بھی جاری رہا۔ اس کے علاوہ گاندھی نے تقریباً ہر روز ہی مختلف اخبارات کے مدیران کو اور عام افراد کو خطوط لکھے۔

گاندھی کی ڈھیر ساری تصانیف میں ان کی اپنی سوانح حیات بھی شامل ہے جس کا نام (The Story of My Experiments with Truth) ہے۔ گاندھی نے اس کتاب کے پہلے ایڈیشن کو پورا کا پورا خرید لیا تاکہ اس کا دوسرا ایڈیشن چھپ سکے۔ دیگر سوانح حیات میں ‘جنوبی افریقا میں ستیہ گرہ‘، اپنی جدوجہد کے بارے کتابچہ ‘ہند سوراج‘ وغیرہ بھی لکھے۔ ان کا آخری مضمون معاشیات کے بارے تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے سبزی خوری، غذائیات اور صحت، مذہب، سماجی بدلاؤ وغیرہ پر بھی لکھا۔ گاندھی نے عموماً گجراتی میں لکھا لیکن ان کی کتب کے ہندی اور انگریزی تراجم بھی عام ملتے ہیں۔

گاندھی کی تمام کتب کو انڈین حکومت نے (The Collected Works of Mahatma Gandhi) کے نام سے 1960ء کی دہائی میں چھپوایا۔ اس کے کل صفحات کی تعداد 50.000 ہے اور 100 جلدوں میں چھاپی گئی ہیں۔

ورثہ اور مقبول ثقافت میں خاکہ عمل

  • لفظ مہاتما کو مغرب میں گاندھی کا اصل نام سمجھا جاتا ہے جبکہ سنسکرت سے نکلے اس لفظ کا مطلب مہا یعنی عظیم اور آتما یعنی روح ہے۔ کہا جاتا ہے کہ رابندر ناتھ ٹیگور نے یہ خطاب گاندھی کو دیا۔ اپنی سوانح حیات میں گاندھی نے واضح کیا ہے کہ انہیں اس خطاب سے خوشی نہیں بلکہ تکلیف ہوتی ہے۔
  • ہندوستان میں بے شمار سڑکوں، گلیوں اور آبادیوں کو گاندھی کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔
  • 2009 میں سرچ انجن گوگل نے اپنا ایک ڈوڈل گاندھی سے منسوب کیا۔

پیروکار اور بین الاقوامی اثرات

سوویت یونین کے 1969ء کے ڈاک ٹکٹ پر مہاتما گاندھی

گاندھی نے بین الاقوامی سطح پر بہت سارے لیڈران اور سیاسی تحاریک پر اثر ڈالا۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا میں شہری حقوق کی تحریک میں مارٹن لوتھرکنگ، جیمز لاسن اور جیمز بیول نے گاندھی کی تحاریر سے عدم تشدد کا فلسفہ نکالا۔ مارٹن لوتھر کنگ کے مطابق “مسیح نے ہمیں مقاصد عطا کیے اور گاندھی نے ان کے حصول کے طریقے بتائے”۔ مارٹن کنگ نے گاندھی کو بعض اوقات ‘ننھا بھورا ولی‘ بھی کہا ہے۔ اس کے علاوہ نیلسن منڈیلا، خان عبد الغفار خان، سٹیو بیکو  بھی گاندھی سے متائثر ہیں۔

گاندھی کی زندگی سے متائثر ہونے والے افراد نے گاندھی کو اپنا محسن کہا ہے اور ان کی تعلیمات کو آگے پھیلانے میں زندگیاں صرف کی ہیں۔ یورپ کے مشہور لیڈران نے بھی ان کا ذکر کیا ہے۔ یورپی ماہرِ طبعیات البرٹ آئن سٹائننے 1931ء میں گاندھی کو خطوط لکھے اور گاندھی کو ‘آنے والی نسلوں کا رہنما‘ قرار دیا۔ آئن سٹائن کے مطابق:

مہاتما گاندھی کی کامیابیاں دنیا کی سیاسی تاریخ میں بہت منفرد اہمیت رکھتی ہیں۔ انہوں نے غلام ملک کی آزادی کے لیے انتہائی اچھوتے طریقے متعارف کرائے جن کے اثرات پوری مہذب دنیا میں طویل عرصے تک محسوس کیے جاتے رہیں گے اور ان کی مدد سے ظالم طاقتوں کو شکست دی جا سکے گی۔ گاندھی آنے والی نسلوں کے لیے رہنما شخصیت رہیں گے۔

آنے والی نسلوں کو شاید یقین نہ آئے کہ ایسا انسان کبھی ہمارے درمیان میں گوشت پوست کی شکل میں بھی رہتا تھا۔

لنزا ڈیل واستو 1936ء میں گاندھی کے ساتھ رہنے کی نیت سے آیا اور پھر جب یورپ واپس گیا تو گاندھی کے فلسفے کی ترویج میں لگ گیا۔ میڈیلین سلیڈ ایک برطانوی امیر البحر کی بیٹھی تھی اور اس نے اپنی بالغ زندگی کا زیادہ تر وقت گاندھی کی خدمت میں ہندوستان میں گزارا۔

برطانوی مویسقار جان لینن نے گاندھی کے بارے بات کرتے ہوئے ان کے عدم تشدد کے فلسفے پر بات کی۔ سابقہ امریکی نائب صدر الگور نے بھی 2007ء میں گاندھی کے اہنسا کے فلسفے پر بات کی۔

امریکی صدر براک اوبامہ نے 2010ء میں انڈین پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے گاندھی کا حوالہ دیا:

اگر گاندھی اور ان کے فلسفے کو امریکا اور دنیا بھر میں نہ پھیلایا جاتا تو میں آج امریکی صدر کی حیثیت سے آپ کے سامنے نہ کھڑا ہوتا۔

ٹائمز میگزین نے 14ویں دلائی لامہ، لیچ ویلیسا، مارٹن لوتھر کنگ، سیزر شاویز، آنگ سان سوچی، ڈاکٹر ڈیسمنڈ ٹوٹو اور نیلسن منڈیلا کو گاندھی کی روحانی اولاد قرار دیا۔ ہیوسٹن، ٹیکساس میں انڈین آبادی کے ایک علاقے کو سرکاری طور پر ‘گاندھی‘ کا نام دیا گیا۔

عالمی تعطیلات

2007 میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے گاندھی کے یومِ پیدائش 2 اکتوبر کو بین الاقوامی عدم تشدد کا دن قرار دیا۔ یونسکو نے 1948 میں 30 جنوری کو ‘عدم تشدد اور امن کے اسکول ڈے‘ کی تجویز پیش کی تھی۔ جنوبی نصف کرے میں یہ دن 30 مارچ کو منایا جاتا ہے۔

انعامات

ٹائم میگزین نے 1930ء میں گاندھی کو سال کا بہترین مرد قرار دیا تھاء میں صدی کے بہترین انسان کے لیے گاندھی کو آئن سٹائن کے بعد دوسرا نمبر دیا گیا۔ انڈیا کی حکومت ہر سال گاندھی کا امن انعام بہترین سماجی کارکنوں، دنیا بھر کے رہنماؤں اور شہریوں وک دیتی ہے۔ نیلسن منڈیلا یہ انعام پانے والے غیر ہندوستانیوں میں نمایاں نام ہیں۔ 2011 میں ٹائم میگزین نے گاندھی کو دنیا بھر کے 25 بہترین سیاسی رہنماؤں میں شمار کیا ہے۔

1937ء سے 1948ء کے دوران میں گاندھی کو امن کے نوبل انعام کے لیے پانچ بار نامزد کیا گیا تھا لیکن انہیں یہ ایوارڈ نہ مل سکا۔ نوبل کمیٹی نے بعد میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ انہوں نے گاندھی کو یہ انعام نہیں دیا۔ 1948 میں فیصلے سے قبل گاندھی کو قتل کر دیا گیا تھا۔ اس سال کمیٹی نے اعلان کیا کہ اس سال یہ انعام نہیں دیا جائے گا کہ کوئی بھی مناسب امیدوار زندہ نہیں۔ جب 1989ء میں 14ویں دلائی لامہ کو امن کا نوبل انعام دیا گیا تو کمیٹی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ‘یہ مہاتما گاندھی کو خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے‘۔

بابائے قوم

انڈین لوگوں کی اکثریت گاندھی کو ‘بابائے قوم‘ مانتی ہے۔ تاہم یہ خطاب سرکاری نہیں اور انڈین حکومت اسے نہیں مانتی اور نہ ہی یہ خطاب حکومت کی طرف سے کبھی عطا کیا گیا۔ تاہم اس خطاب کی ابتدا شاید 1944ء میں سبھاش چندر بھوس سے ہوئی جنہوں نے اپنے ریڈیو خطاب میں گاندھی کو ‘بابائے قوم‘ کہا۔ 28 اپریل 1947ء میں سروجنی نائیڈو نے ایک کانفرنس کے دوران میں گاندھی کو ‘بابائے قوم‘ کہا۔ بعد میں یہ درخواست بھی دی گئی کہ گاندھی کو ‘بابائے قوم‘ کا خطاب دیا جائے لیکن انڈین آئین میں تعلیمی اور فوجی اعزازات کے علاوہ اور کوئی اعزاز نہیں دیا جا سکتا۔


Wednesday 30 September 2020

بابری مسجد انہدام کیس کا مضحکہ خیز فیصلہ

 اب سے 28سا ل قبل 1992میں سینکڑوں ہندوانتہا پسندوں نے دن کی روشنی میں سب کے سامنے بابری مسجد کو منہدم کردیاتھا.سب سے پہلے یہ لا اینڈ آرڈرکا مسئلہ تھا.اس کے بعد مندرمسجد تنازعہ, لیکن متعصب اور فرقہ پرست عدالت نے سبھی 32ملزمین کوجوحقیقتاََ مجرم تھے اور انہیں اس پر فخر ہے جیسا کہ متعدد ویڈیوز میں وہ خود کہہ رہے ہیں.اس کے باوجود بری کردیا ,کسی کوکوئی سزا نہیں دی!اس کے بالمقابل یعقوب میمن کیس میں بغیر کسی ثبوت کے یعقوب میمن کوپھانسی دیدی .کیا یعقوب میمن کے خلاف ثبوت موجودتھے؟افضل گرو کے خلاف ثبوت موجودتھے؟ان کوبہ آسانی تختۃ دار پر لٹکادیاگیا.جبکہ خودمجرمین بابری مسجد انہدام کیس میں پہلے بھی اور بعد میں فخریہ اقرار کرتے رہے خواہ کمرۂ عدالت میں انکار ی ہوں اس کے باوجود  عدالت نے انہیں بری کردیا.ایسے عدالتی نظام کی جتنی مذمت کی جائے کم ہےیہ انصاف کا خون ہےاس سے لاقانونیت کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے.اسے انصاف کہنے سے حقیقی انصاف کی توہین ہوتی ہے

تمہاراشہرتمہی مدعی تمہی منصف

مجھے معلوم ہے میراقصور نکلے گا

اس سے ظاہرہوتا ہے کہ اگر بغیر پلاننگ کوئی بھیڑ کسی مکان کو گرادے تو مجرم کوئی نہیں!کیا وہ انتظامیہ مجرم نہیں جو مکان کی حفاظت کی ذمہ دار ہے.کیا چیف منسٹر مجرم نہیں!اگر کوئی بھی مجرم نہیں تو معاف کیجیئے وہ  قانون اپاہج اور اس کے پیروکاربھی مجرم ہیں جومجرم کوسزانہ دے سکیں.یہ فیصلہ افسوسناک اور ہندوستانی کے نظام عدل پر بدنماداغ اوربے مثال ناانصافی اور کھلم کھلا جھوٹ ہے .مسجد کے انہدام کے لئے ایک منظم منصوبہ بند تحریک چلی بہار میں مسٹر لالویادونے آڈوانی کی رتھ یاتراکورکنے پر مجبور کیا جس کی سزا وہ آج تک بھگت رہے ہیں.اس کھلی ناانصافی نے سی بی آئی کی بھی حقیقت اجاگر کردی ہے کہ یہ ایک بکاؤ متعصب اور حکومت کی زرخرید لونڈی ہے,جمہوریت امانت داری سچائی اور انصاف سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں.اس فیصلہ نے پورے طورپر یہ واضح کردیاکہ ہندوستان میں نظام انصاف کا صرف نام ہے یہاں انصاف اکثریت کوملتاہے اقلیتوں کونہیں ,جمہوریت صرف ایک نام ہے حقیقت نہیں ,اقلیتوں کے خلاف منظم طورپر عدالتیں بے انصافی کررہی ہیں  .

حکومت کے جنبش مژگاں پرانصاف کے زاوے بدل دینا ان کا کام ہے.بابری مسجد ملکیت معاملہ سے لے کر انہدام تک کے مقدمات اور ان کے فیصلے اسی بے انصافی ظلم وعدوان بربریت وفریب کی کھلی داستان ہیں

نکل کر خانقاہوں سے اداکررسم شبیری

Monday 21 September 2020

The Muslim kings behaviour with Indian people

 According to the Muslim rulers of India:

There was no difference between me and others, there was the same measure of justice for all. The prosperity of the people was dear in all circumstances, oppression and tyranny did not go far, Qutbuddin Aibak had chained the chain of justice outside his palace He was chained and when he reached the king's court, he told his story of grief so that he could get justice. There are many rulers like Ghias-ud-Din Balban, Alla-ud-Din Khilji, Muhammad ibn Tughlaq, etc., during whose times justice was alive, the oppressed were pleaded, lands and estates were given to non-Muslims to build temples . The Mughal Empire has ruled India for a long time. The people loved them because of their unparalleled justice and patriotism. Historians write about the Mughal Emperor Jahangir that he devoted two hours a day to his subjects. There was no difference in this routine during his travels. He listened to the cries of the oppressed and issued judgments against the oppressors. He used to stay up most of the night to protect his subjects. He held high positions and many non-Muslims were in his army. Anti-Muslim historians have made a vicious attempt to portray the world as a tyrant and anti-Hindu king, but a just Hindu historian has written in the history of India. Of Prayag and other places of worship. The Jagirs are dedicated to him and the concessions he makes to the Hindu Peshwas prove his (Alamgir's) justice. ”Alamgir's reign spans fifty years, his empire extending from Afghanistan to the last borders of Bangladesh and Ladakh and Tibet to the south. Spread as far as Kerala, the area of ​​India during his reign was as vast as Toshaid, never before nor since. It was a sign of God-fearing that the vast territory of India did not spend anything on itself from the treasury of the government. All the income from the writing of the Holy Quran and the sewing of hats was their total livelihood from which they made their living. Even for the last journey of life, such as the cost of furnishing, etc., he had instructed that the burden should not be placed on the exchequer of the government but should be borne by the capital which I have left with my hard work. Abolished many taxes that were unjust, even forgave taxes that belonged to non-Muslims, abolished taxes on men in Gangapuja, Ganga Ashnan and Ganga, excused many such taxes. For details, one can see Allama Shibli Nomani's book “Aurangzeb Alamgir at a Glance”, Syed Salahuddin Abdul Rahman's book "Religious Tolerance of Muslim Rulers" Volume 3, Maulvi Zakaullah's book "Aurangzeb Alamgir" etc.

Saturday 19 September 2020

طلاق غضبان کا حکم

 


طلاق غضبان

غضب کی تعریف 

یہ غضب، یغضب غضباً سے مصدر ہے۔کہا جاتا ہے رجل غضبان اور امرأة غضبی۔ یہ رضا کی ضد ہے۔(لسان العرب:٥؍٣٦٦٢)

مطلقاًیہ غصہ اور اشتعال کے لیے بولا جاتا ہے۔ 

جرجانی کہتے ہیں:

’’الغضب تغیر یحصل عند غلیان دم القلب لیحصل عنه التشف للصدر‘‘(التعریفات:ص١٦٢)

’’دل کے خون کے کھولنے کی وجہ سے جو تغیر ہوتا ہے اس کوغضب کہتے ہیں تاکہ دل کو تسلی ہو سکے۔‘‘

غصے کی حالتیں

غصے کی تین حالتوں کا تذکرہ کیا گیاہے:

1۔یہ کہ انسان پر غصہ کی ابتدائی حالت طاری ہو جہاں پر اس کی عقل میں فتور نہ آئے اورجو وہ کہہ رہا ہو اس کو بخوبی جانتاہو۔ ایسی حالت میں دی گئی طلاق بغیر کسی اشکال کے واقع ہوجائے گی اور وہ اپنے اقوال کا مکلف ہوگا۔(جامع العلوم والحکم:ص١٤٨)

2۔ایسا غصہ جس میں انسان حواس کھو بیٹھتا ہے۔ اور متکلم کو پتہ نہیں چلتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ تو یہ طلاق واقع نہیں ہوگی۔ 

ابن قیم فرماتے ہیں:

’’وذلك أنه لم یعلم صدور الطلاق منه فهو شبه مایکون بالنائم والمجنون ونحوهم‘‘(إغاثة اللهفان فی حکم طلاق الغضبان:ص٣٩)

’’چونکہ وہ طلاق کے صدور کے متعلق نہیں جانتا ہوتا لہٰذا وہ بھی سوئے ہوئے اور پاگل وغیرہ کے مشابہ تصور ہوگا۔‘‘

3۔غصے کی تیسری حالت یہ ہے کہ انسان پر شدید غصہ تو طاری ہو، لیکن ایسا نہ ہو کہ وہ ہوش و حواس ہی کھو بیٹھا ہو۔ اس حالت میں دی گئی طلاق کی تنفیذ اور عدم تنفیذ میں علما کے مابین اختلاف ہے۔(ایضاً)

غصے کے حالت میں دی گئی طلاق کا حکم

غصے کی حالت میں دی گئی طلاق کے بارے میں دو قسم کی آرا ہیں:

1۔اَحناف اور بعض حنابلہ کا موقف ہے کہ غصے کی حالت میں دی گئی طلاق شمار نہیں ہوگی۔(حاشیہ ابن عابدین:٢؍٤٢٧)

2۔مالکیہ اور حنابلہ کا خیال ہے کہ غصے کی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہو جائے گی اور اس کا اعتبار کیا جائے گا۔(حاشیہ الشرح الکبیر:٢؍٣٦٦)

فریق اوّل کے دلائل

احناف اور ان کے مؤیدین نے درج ذیل ادلہ سے استدلال کیا ہے:

1۔حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

«لا طلاق ولا عتاق في غلاق»(سنن ابوداؤد:٢١٩٣) ’’ زبردستی کی طلاق اور آزادی نہیں ہے۔‘‘

اور زبردستی غصے کو بھی شامل ہے، کیونکہ اس میں رائے پر بندش لگ جاتی ہے۔

2۔فرمان باری تعالی ہے:’’لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِيْۤ اَيْمَانِكُمْ ‘‘(البقرہ:225)

’’اللہ تعالیٰ تمہیں ان قسموں پر نہ پکڑے گا جو پختہ نہ ہوں۔‘‘

ابن عباسؓ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں: 

’’لغو الیمین أن تحلف وأنت غضبان‘‘(بیہقی2؍450)

’’لغو قسم یہ ہے کہ آپ غصے کی حالت میں قسم اٹھائیں۔‘‘

اسی پر قیاس کرتے ہوئے غصے کی حالت میں دی گئی طلاق کو بھی طلاق شمار نہیں کیا جائے گا۔(طلاق الغضبان: ص٣٢)

3۔فرمان الٰہی ہے:’’وَ اِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ١ؕ‘‘(الاعراف:200)

’’اور اگر آپ کو شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آنے لگے تو اللہ کی پناہ مانگ لیجئے۔‘‘

متکلم شدید غصے کی حالت میں شیطان کے بہکانے سے طلاق یا اس طرح کے دیگر الفاظ غیر ارادی طور پر بول دیتا ہے۔ لہٰذا یسی حالت میں اس پر طلاق احکام مترتب نہیں ہوں گے۔(طلاق الغضبان:ص٣٥)

رسول اکرمﷺنے فرمایا: «إن الغضب من الشیطان»(سنن ابوداؤد: ٤٧٨٤) ’’غصہ شیطان کی طرف سے ہے۔‘‘

4۔عمران بن حصین سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

«لا نذر في غضب و کفارته کفارة یمین»(سنن نسائی:٣٨٤٢) ’’غصے کی حالت میں نذر نہیں ہے اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔‘‘

خدا تعالیٰ نے اپنی نذروں کو پورا کرنے والوں کی تعریف کی ہے۔ تو جب حالت غضب میں مانی گئی نذر میں رخصت موجود ہے تو طلاق میں یہ رخصت کیوں باقی نہ رکھی جائے۔(طلاق الغضبان:ص٤١)

5۔حدیث ابوبکرہ: «لا یقض القاض بین اثنین وهو غضبان»(سنن ابن ماجہ:٢٣١٦)

’’قاضی غصے کی حالت میں دو لوگوں کے مابین فیصلہ نہ کرے۔‘‘

اس کی وجہ یہ ہے کہ غصہ علم و ارادہ پر اثر انداز ہوتا ہے اور درست فیصلہ کرنے میں مانع ہوتا ہے۔ تو ایسی حالت میں دی گئی طلاق بھی معتبر نہیں ہو گی۔(طلاق الغضبان:ص٤٣)

(vi) نشے کی حالت میں دی گئی طلاق کا وقوع نہیں ہوتا کیونکہ متکلم کا طلاق دینے کا ارادہ نہیں ہوتا، یاد رہے کہ غصے کی حالت نشے سے بھی بڑھ کر ہوتی ہے۔(طلاق الغضبان: ص٤٥)

مذکورہ دلائل کا جائزہ

1۔اس سلسلہ میں حضرت عائشہ کی بیان کردہ حدیث اس نزاع سے خارج ہے، کیونکہ اس سے مراد زبردستی ہے۔ اور زبردستی محض غصے کانام نہیں ہے۔ امام ابن قیم فرماتے ہیں: ’’الغلاق انسداد باب العلم والقصد علیه‘‘(تہذیب السنن:٦/١٨٧)

’’غلاق علم و ارادہ کے دروازہ کو بند کرتا ہے۔‘‘

لہٰذا یہ غصے کی دوسری حالت کو شامل ہے۔ جس میں بالاتفاق طلاق واقع نہیں ہوتی۔

2۔حضرت ابن عباسؓ کی طرف منسوب تفسیر صحیح نہیں ہے۔

ابن رجب فرماتے ہیں: ’’لا یصح إسناده‘‘(جامع العلوم والحکم:ص١٤٩)

’’اس کی سند صحیح نہیں ہے۔‘‘ 

اور اسی آیت کی تفسیر میں آپ سے دیگر اقوال بھی بیان کیے گئے ہیں۔جیسا کہ ابن ابی حاتم نے تفسیر ابن کثیر(١/٢٦٨) میں سعید بن جبیر کے طریق سے بیان کیا ہے کہ ’’لغو قسم وہ ہے جس میں آپ ایسی چیز کو حرام قرار دیں جو اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دی ہو۔‘‘

ابن رجب فرماتے ہیں:

’’صح عن غیر واحد من الصحابة أنهم أفتوا أن یمین الغضبان منعقدة وفیها الکفارة‘‘(جامع العلوم والحکم: ص١٤٩)

’’دیگر بہت سے صحابہ کرام نے فتویٰ دیا کہ غصے کی حالت میں اٹھائی گئی قسم کا انعقاد ہوگا اور اس(کو پورا نہ کرنے ) پرکفارہ ہوگا۔‘‘

3۔یہ کہنا کہ غصہ کی حالت میں انسان شیطان کی اکسانے پر بول رہا ہوتا ہے۔ لہٰذا اس پرحکم مرتب نہ ہوگا۔ تو ایسا کہنا کسی طور بھی درست نہیں ہے، کیونکہ زیادہ تر گناہوں اور بُرائیوں کا ظہور تو شیطان کی اکساہٹ اور وساوس ہی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ پھراس کا مطلب تو یہ ہے کہ شیطان کے اکسانے پرکیے جانے والے کسی بھی عمل پر احکام مرتب نہ ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ یہ سراسر خام خیالی ہے۔

4۔حضرت عمران بن حصین کی بیان کردہ حدیث ضعیف ہے۔

5۔’’ابوبکرہ کی حدیث میں ہے کہ حضور نبی کریمﷺنے قاضی کو حالت غصہ میں فیصلہ نہ کرنے کا پابند کیا ہے۔ یہ قاضی کے مکلف ٹھہرتا ہے پھر یہ بھی ہے کہ قاضی نے تو اپنے علاوہ کسی اور کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے جب کہ طلاق دینے والا خود ا اپنا فیصلہ کر رہا ہوتا ہے اس لیے طلاق دینے والے کو قاضی پر قیاس نہیں کیا جا سکتا‘‘

6۔اس حالت کو نشہ پر قیاس کرنادرست نہیں ہے۔ کیونکہ نشہ میں تو انسان اپنے حواس کھو بیٹھتا ہے۔ اور اسے پتہ نہیں ہوتا وہ کیا کہہ رہا ہے۔ اور یہ غصہ کی دوسری حالت ہے۔ ایسی حالت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ‘‘(النساء : ٤٣)

’’اے ایمان والو جب تم نشہ میں مست ہو نماز کے قریب بھی نہ جاؤ۔ جب تک کہ اپنی بات سمجھنے نہ لگو۔‘‘

فریق ثانی کے دلائل

مالکیہ اور حنابلہ نے درج ذیل دلائل کو سامنے رکھا ہے:

1۔خولہ بنت ثعلبہ اوس بن ثابت کی اہلیہ تھیں،ایک روز ان دونوں میں جھگڑا ہو گیا تو اوس بن ثابت نے غصے سے ظہار کرڈالا۔حضرت خولہ یشانی کی حالت میں حضور نبی کریمﷺکی خدمت میں حاضر ہوئیں اور تمام ماجرا کہا تو اللہ تعالیٰ نے آیت ظہار نازل فرمائیں۔ پھررسول اللہﷺان کو ظہار کے کفارہ کا حکم دیا۔(سنن ابن ماجہ:٢٠٦٣)

2۔اوس بن ثابت نے غصے کی حالت میں ظہار کرنے کے باوجود اس کا کفارہ ادا کیا۔ طلاق بھی ظہار ہی کی طرح ہے۔(جامع العلوم:ص١٤٩)

ابن رجب جامع میں فرماتے ہیں: 

’’اوس بن ثابت نے غصے کی حالت میں ظہار کیا تھاپھر بھی رسول اللہﷺنے ظہار کو طلاق شمار کیا اور ان کی بیوی کو ان پر حرام قرار دیا۔ اور جب اللہ تعالیٰ نے ظہار کا کفارہ لازم کیا تو آپﷺ نے اوس بن ثابت کو کفارہ سے بری قرار نہیں دیا۔‘‘(ص:١٤٩)

ان احادیث پر یہ اعتراض وارد کیا جاسکتا ہے کہ یہ غصے کی ابتدائی حالت سے متعلق ہے اور اس سے غصے کی پہلی قسم مراد ہے۔اس کے جواب میں عرض ہے کہ یہ حدیث مطلق طور پر عمومی غضب سے متعلق ہے اور اس میں کسی قسم کی کوئی تفصیل نہیں اور احتمالی جگہ پر تفصیل کو چھوڑ دینا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کو عموم پر محمول کیا جائے۔ اس میں اگرچہ غصہ کی تینوں حالتیں اور ہر غصے کی حالت میں دی گئی طلاق لازم ہوگی۔ لیکن اجماع امت سے وہ حالت اس سے نکل گئی جب غصہ انتہاء کو پہنچ جاتا ہے۔ اس طرح اس حدیث میں دوسری دونوں قسمیں شامل ہوں گی۔


3۔مجاہد بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے ابن عباس سے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو غصے کی حالت میں تین طلاقیں دے دی ہیں۔ تو ابن عباس نے فرمایا: میں اپنے آپ میں اس قدر جرأت نہیں پاتاکہ تیرے لیے وہ حلال کردوں جو اللہ تعالیٰ نے حرام کردیاہے۔ تو نے اپنے رب کی نافرمانی کی ہے اور اپنی بیوی کو اپنے اوپر حرام کرلیا ہے۔(دارقطنی:٤/١٣)

4۔حسن کا قول ہے:سُنی طلاق یہ ہے کہ آدمی طہر کی حالت میں ایک طلاق دے جس میں جماع نہ کیا ہو۔ ایسی صورت میں اس کے بعد تیسرے حیض تک اسے اختیار حاصل ہوگا کہ وہ رجوع کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔اگر آدمی نے غصے میں طلاق دی ہے تو تین حیض یا تین مہینے میں اس کا غصہ کافور ہو سکتا ہے۔(جامع العلوم والحکم: ص ١٤٩)

5۔قاعدہ فقہیہ ہے:

’’دلالة الأقوال تختلف بها دلالة الأقول في قبول دعوی ما یوافقها ورد ما یخالفها وتترتب علیها الأحکام بمجردها‘‘(القواعد لابن رجب: ص٣٢٢)

’’دعویٰ کو قبول کرنے میں احوال کی حالت اقوال سے مختلف ہوتی ہے۔ ۔احوال پر احکام مرتب ہوں گے چاہے اقوال احوال کے مخالف ہوں یا موافق۔‘‘

ابن رجب فرماتے ہیں: اس قاعدہ سے ثابت ہوتا ہے کہ لڑائی جھگڑے اور غصے کی حالت میں دی گئی طلاق شمار ہوگی اور کسی کا یہ دعویٰ کہ طلاق کارادہ نہ تھا، قابل قبول نہ ہوگا۔

مغنی لابن قدامہ میں ہے:

’’والغضب ههنا یدل علی قصد الطلاق فیقوم مقامه‘‘(8 ؍450)

’’یہاں پر غصہ ارادہ طلاق پر دلالت کرتا ہے، لہٰذا اس کو اس کے مقام پر محمول کیا جائے گا۔‘‘

راجح موقف

سابقہ مبحث سے اندازہ ہوتا ہے کہ مالکیہ، حنابلہ اور ان کے مؤیدین کا موقف راجح ہے، کہ غصہ کی حالت میں طلاق کا وقوع ہوجائے گا اور اس کی ترجیح درج ذیل امور کی وجہ سے ہے:

1۔دلائل کی قوت۔

2۔مسئلے پر مکمل گرفت اور وضاحت۔

3۔مخالفین کے دلائل کا ضعف۔

4۔قاعدہ ہے:

’’أن الأصل فی الأبضاع التحریم فالواجب التثبت في مرها والتنبه لها‘‘

خلاصہ:

فقہاء، محدثین، مفسرین اور اصولیین کی آراء کو نقل کرنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ:

1۔مجبوری کی حالت میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہو گی۔

2۔اورایسے غصے کی حالت میں طلاق، جس میں انسان اپنے ہوش و حواس میں ہوتا ہے، طلاق واقع ہو جائے گی۔البتہ اسلام اور دنیا بھر کا قانون شدید غصہ کی حالت کو پاگل

 

پن اور جنون قرار دیتا ہے اور مجنوں پر قانون لاگو نہیں ہوتا فقہ غصہ کی تین حالتیں بیان کرتے ہیں :


أحدها أن يحصل له مبادی الغضب بحيث لايتغيرعقله ويعلم مايقول ويقصده وهذالااشکال فيه.


الثانی أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده فهذا لاريب أنه لاينفذ شئی من اقواله.


الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر کالمجنون فهذا محل النظر والأدلة تدل علی عدم نفوذ أقواله.


پہلی یہ کہ ابتدائی حال ہو، عقل میں تبدیلی نہ آئے اور آدمی جانتا ہو کہ کیا کہہ رہا ہے اور کس کا ارادہ ہے اس میں اشکال نہیں کہ طلاق ہو جائے گی۔

دوسرا درجہ یہ ہے کہ غصہ انتہا کو پہنچ جائے اسے پتہ نہ چلے کہ کیا کہتا ہے اور کیا ارادہ ہے اس صورت میں بلاشبہ ا س کا کوئی محل نافذ نہ ہو گا۔

تیسرا درجہ یہ ہے کہ دونوں کے درمیان ہو کہ انسان پاگل کی طرح نہ ہو جائے یہ قابل غور ہے دلائل کی روشنی میں اس صورت میں بھی اس کی کسی بات کا اعتبار نہ ہوگا۔

(ابن عابدين، ردالمحتار، 3 : 244، دارلفکرللطباعةوالنشر، بيروت، سن اشاعت 1421)


مايزيل العقل فلايشعرصاحبه بماقال وهذالايقع طلاقه بلانزاع.


مايکون فی مبادية بحيث لايمنع صاحبه من تصورمايقول وقصده فهذايقع طلاقه.


أن يستحکم ويشتد به فلا يزيل عقله بالکلية ولکن يحول بينه و بين نيته بحيث يندم علی ما فرط منه اذا زال فهذا محل نظر و عدم الوقوع فی هذه الحالة قوی متجه.


ایک یہ کہ غصہ اتنا زیادہ ہوکہ عقل انسانی قائم نہ رہے اورپتہ ہی نہ ہوکہ اس نے کیا کہا اس صورت میں بلا اختلاف تمام فقہاء کے نزدیک طلاق واقع نہیں ہوتی۔


دوسراغصہ ابتدائی درجہ کا ہے کہ انسان جو کہہ رہا ہوتا ہے وہ پوری طرح سمجھتا ہے اس میں طلاق ہو جاتی ہے۔


تیسرا درمیانہ درجہ کا غصہ ہے جو سخت ہوتا ہے اور وہ انسان کی عقل پر غالب آ جاتا ہے مگر انسانی عقل قائم رہتی ہے لیکن دل کی نیت و ارادہ کے بغیر محض شدتِ غصہ سے طلاق سرزد ہو جاتی ہے، وہ اپنے آپ پر قابو نہیں پا رہا ہوتا پھر طلاق سرزد ہونے کے بعد نادم ہوتا ہے۔ افسوس کرتا ہے۔ یہ صورت غور طلب ہے۔ اس حالت میں قوی اور معقول بات یہ ہے کہ طلاق نہ ہوگی۔


(ابن قيم، زاد المعاد، 5 : 215، مؤسسة الرسالة، مکتبة المنار، بيروت الکويت، سن اشاعت، 1407ه)


علامہ شامی مزید فرماتے ہیں :


الجنون فنون.


(جنون کئی قسم کاہوتاہے)


(ابن عابدين، ردالمحتار، 3 : 244، دار لفکر للطباعة والنشر، بيروت، سن اشاعت 1421ه)


معلوم ہواجو شدید غصہ میں ہو وہ ایک قسم کے وقتی مرض میں مبتلاہوتا ہے، قرآن کریم میں مریض کے بارے میں ہے :


ولَاعَلَی الْمَرِيْضِ حَرَجٌ.


’’اور نہ بیمار پر کوئی گناہ ہے‘‘۔


النور، 24 : 61


مفسرین کرام اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :


فالحرج مرفوع عنهم فی هذا.


’’جو مریض لوگ ہیں مرض کی حالت میں ان سے حرج و تنگی اور گرفت اٹھالی گئی ہے‘‘۔


عبدالرحمن بن محمد، تفسير الثعالبی، 3 : 127، مؤسسه الأعلمی للمطبوعات بيروت

قرطبی، جامع لاحکام القرآن، 12 : 313، دارالشعب، القاهره

أبو محمد عبدالحق بن غالب عطية الأندلسی، المحرر الوجيز فی تفسير الکتاب العزيز، 4 : 195، دار الکتب العلمية، لبنان، سن اشاعت 1413ه

مزید علامہ قرطبی بیان کرتے ہیں :


فبينت هذه الاٰية انّه لا حرج علی المعذورين.


اس آیت مبارکہ نے بیان کر دیا کہ معذور لوگوں پر کوئی گرفت نہیں ہے۔


قرطبی، جامع لاحکام القرآن، 12 : 313، دار الشعب، القاهره


دوسری آیت کریمہ ہے :


وَمَا جَعَلَ عَلَيْکُمْ فِی الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ.


’’اس (اﷲ تعالیٰ) نے تم پر دین میں کچھ تنگی نہ رکھی‘‘۔


الحج، 22 : 78


امام ابوبکر احمد بن علی الرازی الجصاصّ الحنفی اس آیت کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں ، ابن عباس رضی اﷲ عنہما نے فرمایا : ’’حرج کا مطلب ہے تنگی۔‘‘


ان کے شاگرد مجاہد فرماتے ہیں :


ويحتجّ به فی کل ما اختلف فيه من الحوادث ان ما ادی الی الضيق فهو منفی وما اوجب التوسعة فهو اولٰی.


’’اس آیت کریمہ سے مختلف حوادث و واقعات میں یہ دلیل پکڑی جا سکتی ہے کہ جو حکم تنگی پیدا کرے اس کا وجود نہیں اور جو فراخی و آسانی پیدا کرے وہی بہتر  ہے۔‘‘


آیت کریمہ کا مطلب ہے کہ دین میں کوئی ایسی تنگی نہیں جس سے چھٹکارے کا راستہ نہ ہو۔


جصاصّ، احکام القرآن، 3 : 251، طبع لاهور


امام رازی فرماتے ہیں :


الضيق ’’تنگی‘‘


امام رازی، تفسير الکبير، 23 : 73، طبع طهران


امام قاضی بیضاوی فرماتے ہیں :


ضيق بتکليف مايشتد القيام به عليکم.


’’تنگی، ایسی تکلیف کا حکم دیکر جس پر قائم رہنا تم پر سخت ہو‘‘۔

ب

بیضاوی, انوار التنزيل و اسرار التأويل، 2 : 50، ط

 مصر 

محمود آلوسی، روح المعانی، 17، 190، طبع تهران. ايران


حدیث پاک میں ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :


رفع القلم عن ثلاثة عن المجنون المغلوب علی عقله وعن النائم حتی يستيقظ وعن الصبی حتی يحتلم.


’’تین قسم کے لوگوں پرقانون لاگو نہیں ہوتا مجنوں جس کی عقل پر غصہ غالب ہو، سونے والا جب تک بیدار نہ ہو جائے اور بچہ جب تک بالغ نہ ہو جائے۔‘‘


حاکم، المستدرک، 2 : 68، رقم 2351، دار الکتب العلمية، بيروت، سن اشاعت 1411ه


ابن حبان، الصحيح، 1 : 356، رقم 143، مؤسسة الرسالة، بيروت، سن اشاعت 1414ه


ابن خزيمة، الصحيح، 4 : 348، رقم 3048، ، المکتب الاسلامی، بيروت، سن اشاعت1390ه


نسائی، السنن الکبری، 4 : 323، رقم 7343، دار الکتب العلمية، بيروت، سن اشاعت 1411ه


ابو داؤد، السنن، 4 : 140، رقم 4401، دار الفکر


دار قطنی، السنن، 3 : 138، رقم 173، دار المعرفة، بيروت، سن اشاعت 1386ه


هندی، کنز العمال، 4 : 98، رقم 10309، دارالکتب العلمية، بيروت، سن اشاعت 1419ه


سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :


رفع القلم عن ثلاثة عن النائم حتی يستيقظ وعن الغلام حتی يحتلم وعن المجنون حتی يفيق.


’’تین قسم کے لوگوں پر قانون لاگو نہیں ہوتا سونے والا جب تک بیدار نہ ہو جائے، بچہ جب تک بالغ نہ ہو جائے اور مجنوں جب تک سمجھدار نہ ہو جائے۔‘‘


ابن حبان، الصحيح، 1 : 355، رقم 142، مؤسسة الرسالة، بيروت، سن اشاعت 1414ه


ابوداؤد، السنن، 4 : 141، رقم 4403، دارالفکر


ييهقی، السنن الکبری، 3 : 83، رقم 4868، مکتبة دار الباز مکة المکرمة، سن اشاعت 1414ه


امام نسائی اور ابن ماجہ نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲعنھا کی روایت کو چند الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ بیان کیا ہے :


رفع القلم عن ثلاثة عن النائم حتی يستيقظ وعن الصغيرحتی يکبروعن المجنون حتی يعقل أويفيق.


’’تین قسم کے لوگوں پر قانون لاگو نہیں ہوتا سونے والا جب تک بیدار نہ ہو جائے، چھوٹا (بچہ) جب تک بڑا (بالغ) نہ ہو جائے اور مجنوں جب تک عقل مند یعنی سمجھدار نہ ہو جائے۔‘‘


نسائی، السنن الکبری، 4 : 323، رقم 7343، دار الکتب العلمية، بيروت، سن اشاعت 1411ه


ابن ماجه، السنن، 1 : 658، رقم 2041، دارالفکر، بيروت


حضر ت عائشہ صدیقہ رضی اﷲتعالیٰ عنہافرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :


لا طلاق و لاعتاق فی اغلاق.


’’شدید غصہ میں نہ طلاق ہے نہ ہی غلام آزاد کرنا‘‘۔


حاکم، المستدرک، 2 : 216، رقم 2802، دار الکتب العلمية، بيروت، سن اشاعت 1411ه


ابوداؤد، السنن، 1 : 258، رقم 2193، دار الفکر


ابن ماجه، السنن، 1 : 660، رقم 2046، دار الفکر، بيروت


بيهقی، السنن، 7 : 357، رقم 14874، مکتبة دار الباز مکة المکرمة، سن اشاعت 1414ه


دار قطنی، السنن، 4 : 36، رقم 99، دار المعرفة، بيروت، سن اشاعت 1386ه


ابن ابی شيبه، المصنف، 4 : 73، رقم 18038، مکتبة الرشد الرياض، سن اشاعت 1409ه


أبو يعلی، المسند، 7 : 421، رقم 4444، دار المأمون للتراث دمشق، سن اشاعت 1404ه


احمد بن حنبل، المسند، 6 : 276، رقم 26403، مؤسسة قرطبه، مصر


شاميين، المسند، 1 : 287، رقم 500، مؤسسة الرسالة، بيروت، سن اشاعت 1405ه


علامہ عینی’’عمدۃ القاری‘‘میں اور عبداﷲ بن یوسف الزیلعی’’نصب الرایہ (شرح ھدایہ)‘‘میں لکھتے ہیں :


قال أبوداؤد’’الغلاق أظنّه الغضب‘‘


امام ابوداؤد نے کہا’’میرے خیال میں اغلاق کا معنی غصہ ہے۔‘‘


عينی، عمدة القاری، 20 : 250، دار احياء التراث العربي، بيروت


عبداﷲ بن يوسف، نصب الراية، 3 : 223، دارالحديث، مصر، سن اشاعت 1357ه


محمد بن ابی بکرایوب الزرعی المعروف بابن القیم الجوزی الدمشقی متوفی 157ھ بھی اغلاق کامعنی’’غصہ‘‘ہی بیان کرتے ہیں ۔


محمدبن ابی بکر، زادالمعاد، 5 : 214، مؤسسةالرسالة مکتبةالمنار، بيروت الکويت، سن اشاعت1407ه


ایک اور حدیث پاک میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :


کل طلاق جائزالاطلاق المعتوه.


’’ہر طلاق نافذ ہوتی ہے سوائے مدہوش کی (دی ہوئی) طلاق کے۔‘‘


ابن انی شيبه، المصنف، 4 : 72، رقم17912، 17914، مکتبة الرشدالرياض، سن اشاعت1409ه


عبدالرزاق، المصنف، 6 : 409، رقم11415، المکتب الاسلامی، بيروت


علی بن جعد، المسند، 1 : 120، رقم742، مؤسسةنادر، بيروت، سن اشاعت1410ه


کل طلاق جائزالاطلاق المعتوه والمغلوب علی عقله.


’’ہرطلاق نافذ ہوتی ہے سوائے مدہوش کی (دی ہوئی) طلاق کے جس کی عقل پرغصہ غالب ہو۔‘‘


ترمذی، السنن، 3 : 496، رقم1191، داراحياء التراث العربي، بيروت


هندی، کنزالعمال، 9 : 278، 27771، دارالکتب العلمية، بيروت، سن اشاعت1419ه


فقہائے کرام کے نزدیک شدیدغصہ میں دی جانے والی طلاق کی حیثیت درج ذیل ہے۔


أراد بالجنون من فی عقله اختلال، فيدخل المعتوه وأحسن الأقوال فی الفرق بينهماأن المعتوه هوالقليل الفهم المختلط الکلام الفاسدالتدبيرلکن لايضرب ولايشتم بخلاف الجنون ويدخل المبرسم والمغمی عليه والمدهوش.


جنون (پاگل پن) کامطلب ہے کسی کی عقل میں خرابی وخلل آنا، اس میں معتوہ شامل ہے، دونوں میں فرق کرنے میں بہترین قول یہ ہے کہ معتوہ کامطلب ہے کم فہم، جس کی گفتگومیں غلط اورصحیح خلط ملط ہولیکن معتوہ(مغلوب الغضب)نہ مارتاہے نہ گالی گلوچ بکتاہے، بخلاف مجنوں (پاگل)کے اس میں سرسام والا، بیہوش اور مدہوش داخل ہیں ۔


ابن نجيم الحنفی، البحرالرائق، 3 : 268، دارالمعرفة، بيروت


فالذی ينبغی التعويل عليه فی المدهوش ونحوه اناطةالحکم بغلبةالخلل فی أقواله وأفعاله الخارجةعن عادته، وکذايقال فيمن اختلّ عقله لکبرأولمريض أولمصيبةفاجأ ته فمادام فی حال غلبةالخلل فی الاقوال والافعال لاتعتبراقواله وان کان يعلمهاويريدهالأن هذه المعرفةوالارادةغيرمعتبرةلعدم حصولهاعن ادراک صحيح کمالاتعتبرمن الصبی العاقل.


مدہوش وغیرہ کی قابل اعتماد بات یہ ہے کہ اس صورت میں حکم شرعی کا مدار اس کے اقوال وافعال میں عادت سے ہٹ کر اور اس کے خلاف بیہودگی و خرابی پائی جانے سے ہے یوں جس کی عقل میں بڑھاپے، بیماری اور کسی اچانک مصیبت کی بنا پر خلل آجائے تو اس کے اقوال و افعال جب تک یہ کیفیت غالب رہے گی، اس کی باتوں کا اعتبار نہ ہو گا ۔اگرچہ ان کو جانتا ہو اور ان کا ارادہ کرے کہ یہ جاننااور ارادہ کرنا معتبر نہیں اس لیے کہ ادراک صحیح سے حاصل نہیں ہوا جیسے عقلمند بچے کی بات کا اعتبار نہیں ۔


ابن عابدين، ردالمحتار، 3: 244، دارلفکرللطباعةوالنشر، بيروت، سن اشاعت 1421ه


عالمگيری 1: 353، طبع کوئته


الکاسانی، بدائع الصنائع، 3: 100


هدايه مع فتح القدير، 3: 343، طبع سکهر


عبدالرحمن الجزری ’’الفقه علی المذاهب الاربعة‘‘


ميں لکھتے ہيں


والتحقيق عندالحنفيةأن الغضبان الذی يخرجه غضبه عن طبيعته و عادته بحيث يغلب الهذيان علی أقواله وأفعاله فان طلاقه لايقع، وان کان يعلم مايقول ويقصده لأنه يکون فی حالةيتغيرفيهاادراکه، فلايکون قصده مبنياعلی ادراک صحيح، فيکون کالمجنون، لان المجنون لايلزم أن يکون دائمافی حالةلايعلم معهامايقول : فقديتکلم فی کثيرمن الأحيان بکلام معقول، ثم لم يلبث أن يهذی.


’’حنفیہ کے نزدیک تحقیق یہ ہے کہ وہ غصہ والاشخص جسے اس کاغصہ اس کی طبیعت اورعادت سے اس طرح باہرکردے کہ اس کی باتوں اوراس کے کاموں پربے مقصدیت غالب آجائے اس کی طلاق واقع نہ ہوگی، اگرچہ وہ جانتاہوکہ وہ کیاکہہ رہاہے اورارادہ سے ہی کہتاہوکیونکہ وہ ایسی حالت میں ہوتاہے کہ جس میں اس کاادراک یعنی سوجھ بوجھ میں تغیر اور تبدیلی آجاتی ہے لہٰذا اس کا قصد و ارادہ صحیح شعور و صحیح ادراک پر مبنی نہیں ہوتا، پس وہ (مجنوں و دیوانہ تو نہیں ہوتا لیکن وقتی طور پر) مجنوں کی طرح ہو جاتا ہے، کیونکہ ضروری نہیں کہ مجنوں ہمیشہ ویسی حالت میں رہے کہ جو کہے اسے اس کاپتہ نہ ہو بلکہ بعض اوقات میں وہ معقول (عقل مندوں کی طرح) باتیں کرتا ہے، پھر اوٹ پٹانگ مارنا شروع کر دیتا ہے۔


عبد الرحمن الجزيری، کتاب الفقه علی المذاهب الأربعة، 4: 294-295، دار احياء التراث العربی، بيروت. لبنان

پروفیسرمحمدیاسین مظہرصدیقی رحمۃ اللہ علیہ

 پروفیسرمحمدیاسین مظہر صدیقی،نامورسیرت نگاراور مؤرخ اتر پردیش کے ضلع لکھیم پور کھیری کے گاؤں "گولا" میں 26 دسمبر سنہ 1944ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں حاصل کی، بعد ازاں روایتی دینی تعلیم کے لیے لکھنؤ کے دار العلوم ندوۃ العلماء میں داخل ہوئے اور 1959ء میں وہاں سے عالمیت اور فضیلت مکمل کی۔ 1960ء میں لکھنؤ یونیورسٹی سے فاضلِ ادب کیا۔ 1962ء میں جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی سے ہائر سکینڈری کا امتحان پاس کیا، پھر اسی یونیورسٹی سے 1965ء میں بی-اے اور 1966ء میں بی-ایڈ کی ڈگری حاصل کی۔


بعد ازاں انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا جہاں سے 1968ء میں ایم-اے تاریخ، 1969ء میں ایم-فل اور 1975ء میں تاریخ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان تینوں اداروں کی نسبت سے ڈاکٹر موصوف ندوی، جامعی اور علیگ تھے۔ جن اساتذہ کرام انھوں نے فیض پایا ان میں ہندوستان کی نابغہ روزگار ہستیاں شامل ہیں۔ ان میں سے مولانا سیدابو الحسن علی ندوی، پروفیسرخلیق احمد نظامی، اسحاق سندھیلوی، عبد الحفیظ بلیاوی، عبد الوحید قریشی، غلام محمد قاسمی، مجاہد حسین زیدی اورمولانا سیدمحمد رابع حسنی ندوی شامل ہیں۔ .
موصوف کے زمانۂ طالب علمی میں عربی کے بین الاقوامی شہرت یافتہ عالم وادیب عبدالعزیزالمیمنی علی گڑھ میں عربی کے استاذ تھے مرحوم ان کے واقعات برسرتذکرہ سنایاکرتے تھے.
تدریسی زندگی :
ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی کے تدریسی سفر کا آغاز سنہ 1970ء سے ہوا۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ میں بطور ریسرچ اسسٹنٹ تعینات ہوئے۔ 1977ء میں ان کا تقرر اسی شعبہ میں بطور لیکچرار کے ہوا۔ 1983ء میں سید حامد صاحب ان کو علی گڑھ یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ سے "ادارہ علوم اسلامیہ" میں لے آئے، 1991ء میں پروفیسر بنائے گئے۔ 1997ء سے 2000ء تک بطور ڈائریکٹر ادارہ علوم اسلامیہ فرائض سر انجام دیئے۔ 2001ء میں علوم اسلامیہ کے ذیلی ادارہ "شاہ ولی اللہ دہلوی ریسرچ سیل" کے ڈائریکٹر بھی بنا دیئے گئے۔ 31 دسمبر 2006ء میں ادارہ علوم اسلامیہ سے سبکدوش ہو گئے تاہم شاہ ولی اللہ ریسرچ سیل کے ڈائریکٹر کے طور پر تقریباً دس سال کام کیا۔ اس دوران انھوں نے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے مختلف پہلوؤں 2000ء سے 2010ء تک قومی و بین الاقوامی سیمینار منعقد کروائے اور 18 کے قریب چھوٹی بڑی کتب منصۂ شہور پر آئیں۔

تصانیف :
نبی اکرم ﷺ اور خواتین ایک سماجی مطالعہ(ہفتہ 17 مئی 2014ء)
سیرت النبی ﷺگوشہ نسواں
عہد نبوی ﷺ کا نظام حکومت(اتوار 01 جون 2014ء)ناشر : ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ/صفحات: 138
عہد نبوی میں تنظیم حکومت وریاست
حکومت و ریاست سیرت النبی
خلافت اموی خلافت راشدہ کے پس منظر میں(اتوار 22 مئی 2016ء)ناشر : مکتبہ الفہیم مؤناتھ بھنجن، یو پی/صفحات: 265
۔تاریخ اسلام
بنو ہاشم اور بنو امیہ کے معاشرتی تعلقات(ہفتہ 01 اپریل 2017ء)ناشر : مکتبہ قاسم العلوم، لاہور/صفحات: 187
تاریخ عرب
رسول اکرم ﷺ کی رضاعی مائیں(اتوار 09 اپریل 2017ء)ناشر : مکتبہ قاسم العلوم، لاہور
/صفحات: 170

مزید مطالعہ۔۔۔خاندان نبوی6#5542مصنف : ڈاکٹر محمد یسین مظہر صدیقی مشاہدات : 5261حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی، شخصیت و حکمت کا ایک تعارف(اتوار 28 مئی 2017ء)ناشر : شاہ ولی اللہ دہلوی ریسرچ سیل، ادارہ علوم اسلامیہ، مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ صفحات: 48

شاہ ولی اﷲمحدث دہلوی (1703-1762)
شاہ ولی اللہ دہلوی  کی قرآنی خدمات(پیر 28 اگست 2017ء)ناشر : ادارہ علوم اسلامیہ علی گڑھ/صفحات: 216
خطبات سرگودھا سیرت نبوی ﷺ کا عہد مکی(اتوار 04 فروری 2018ء)ناشر : شعبہ علوم اسلامیہ یونیورسٹی آف سرگودھا/صفحات: 307
رسول اکرمﷺ کی رضاعی مائیں(ہفتہ 27 جنوری 2018ء)ناشر : مکتبہ الفہیم مؤناتھ بھنجن، یو پی/صفحات: 177
۔سیرت النبی ﷺخاندان نبوی
سر سید اور علو م اسلامیہ(بدھ 25 اپریل 2018ء)ناشر : ادارہ علوم اسلامیہ علی گڑھ
صفحات: 334

وفات:15 ستمبر 2020ء کو بوقت 12بجے دن .

Tuesday 15 September 2020

مشاجرات صحابہ اور اہل سنت والجماعت کا موقف

 صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان پیش آنے والے اختلافات و حروب کو مشاجراتِ صحابہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

مشاجراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے بارے میں اہل السنہ و الجماعہ کا اجماعی عقیدہ یہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ حسنِ ظن رکھا جائے، ان پر کسی قسم کا طعن نہ کیا جائے،کیوں کہ صحابہ کرام کے جن دو فریقوں میں اختلافات ہوئے، اس کی بنیاد اجتہاد تھا، جن دو جماعتوں کے درمیان جنگ ہوئی ان میں سے ہر ایک فریق اپنے آپ کو حق پر اور فریقِ مخالف  کو باغی سمجھتا تھا، اور باغیوں کو راہِ راست پر لانے کے لیے قرآنی طریقہ پر عمل پیرا ہوا۔ لیکن اہل سنت والجماعت کے نزدیک حضرت علی رضی اللہ عنہ حق پر تھے اور اپنے اجتہاد میں مصیب تھے، جب کہ ان کے مد مقابل  اجتہادی چوک کا شکار ہوئے، تاہم فریقین میں سے کسی ایک کا بھی مقصد دنیاوی اغراض نہ تھے، جس کے نتیجہ میں دونوں ہی عند اللہ ماجور ہوں گے، ان شاء اللہ!

باقی مشاجرات کے معاملے میں سکوت اختیار کرنا چاہیے، بحث مباحثہ،  لعن طعن کرنا بزبانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ممنوع ہے۔

"المعجم الكبير للطبراني" میں ہے:

"عن ابن مسعود أن النبي صلى الله عليه وسلم قال :"إذا ذُكر أصحابي فأمسكوا، وإذا ذكرت النجوم فأمسكوا، وإذا ذكر القدر فأمسكوا )". ( ٢ / ٩٦ )

ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: جب میرے اصحاب کا ( یعنی ان کے  باہمی اختلافات وغیرہ کا ) ذکر چھڑے تو باز آجاؤ، اور جب ستاروں کا ذکر چھڑے تو باز آجاؤ، اور جب تقدیر کا ذکر چھڑے تو رک جاؤ، ( یعنی اس میں زیادہ غور و خوض اور بحث و مباحثہ نہ کرو)۔

فتح الباري لابن حجرمیں ہے:

"واتفق أهل السنة على وجوب منع الطعن علی أحد من الصحابة بسبب ما وقع لهم من ذلك، ولو عرف المحق منهم؛ لأنهم لم يقاتلوا في تلك الحروب إلا عن اجتهاد، وقد عفا الله تعالى عن المخطئ في الاجتهاد، بل ثبت أنه يؤجر أجراً واحداً، وأن المصيب يؤجر أجرين". (کتاب الفتن باب إذا التقیٰ المسلمان، ١٣ / ٤٣ )

ترجمہ: اہل سنت اس بات پر متفق ہیں کہ صحابہ کے مابین واقع ہونے والے حوادث کی بنا پر ان میں کسی ایک صحابی پر طعن و تشنیع سے اجتناب واجب ہے،  اگرچہ یہ معلوم ہوجائے کہ فلاں صحابی کا موقف موقفِ حق تھا ؛ کیوں کہ انہوں نے ان لڑائیوں میں صرف اپنے اجتہاد کی بناپر حصہ لیا اور اللہ نے مجتہد مخطی کو معاف فرمادیا ہے، بلکہ یہ بات ثابت ہے کہ مجتہد کے اجتہاد میں خطا ہوجائے تب بھی اسے ایک گنا اجر ملے گا، اور جس کا اجتہاد درست ہوگا اسے دو گنا اجر ملے گا۔

بلوغ الأماني من أسرار الفتح الرباني شرح الفتح الرباني لترتيب مسند الإمام أحمد بن حنبل الشيبانيمیں ہے:

"( قال النووي:) ... واعلم أن الدماء التي جرت بين الصحابة رضي الله عنهم ليست بداخلة في هذا الوعيد، و مذهب أهل السنة و الحق: إحسان الظن بهم و الإمساك عما شجر بينهم و تأويل قتالهم، و أنهم مجتهدون متأولون لم يقصدوا معصية و لا محض الدنيا، بل اعتقد كل فريق أنه المحق و مخالفه باغ، فوجب عليه قتاله ليرجع إلي امر الله، و كان بعضهم مصيباً و بغضهم مخطئاً معذوراً في الخطأ؛ لأنه لاجتهاد، و المجتهد إذا أخطأ لا إثم عليه، وكان علي رضي الله عنه هو المحق المصيب في تلك الحروب، هذا مذهب أهل السنة، وكانت القضايا مشتبهةً حتى أن جماعة من الصحابة تحيروا فيها فاعتزلوا الطائفتين و لم يقاتلوا و لم يتيقنوا الصواب، ثم تأخروا عن مساعدتهم، و الله اعلم". ( باب إحسان النية علي الخير و مضاعفة الاجر بسبب ذلك و ما جاء بسبب العزم و الهم، ١٩ / ٧ ، ط: دار إحياء التراث العربي، بيروت)

ترجمہ: اہلِ سنت اہل حق کا مذہب یہ ہے کہ سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں حسن ظن رکھا جائے، ان کے آپس کے اختلافات میں خاموشی اور ان کی لڑائیوں کی تاویل کی جائے۔ وہ بلا شبہ سب مجتہد اور صاحبِ رائے تھے معصیت اور نافرمانی ان کا مقصد نہ تھا اور نہ ہی محض دنیا طلبی پیش نظر تھی، بلکہ ہر فریق یہ اعتقاد رکھتا تھا کہ وہی حق پر ہے اور دوسرا باغی ہے اور باغی کے ساتھ لڑائی ضروری ہے؛ تاکہ وہ امر الٰہی کی طرف لوٹ آئے، اس اجتہاد میں بعض راہ صواب پر تھے اور بعض خطا پر تھے، مگر خطا کے باوجود وہ معذور تھے؛کیوں کہ اس کا سبب اجتہاد تھا اور مجتہد سے گر خطا سرزد ہوجائے تو اس پر گناہ نہیں، سیدنا علی رضی اللہ عنہ ان جنگوں میں حق پر تھے اہلِ سنت کا یہی موقف ہے، یہ معاملات بڑے مشتبہ تھے، یہاں تک کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت اس پر حیران و پریشان تھی جس کی بنا پر وہ فریقین سے علیحدہ رہی اور قتال میں انہوں نے حصہ نہیں لیا۔

Tuesday 8 September 2020

حکومت ہند کی نااہلی

 بی جے پی کی موجودہ حکومت ہندنے پورے ہندوستان میں فرقہ پرستی نفرت اور غنڈہ گردی کاجوزہرآرایس ایس اور دیگرہندوتو گروپس کی مددسے تیار کیاتھا اس کے نتائج مختلف انداز میں آئے دن سامنے آرہے ہیں.ماب لنچنگ کانہ تھمنے والا سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا.روز کہیں نہ کہیں کسی مسلم یادلت شخص کی ماب لنچنگ ہوجاتی ہے.برسراقتدارپارٹی نے نفرت کازہراتناگھول دیا ہے کہ وہ تھمتا نظر نہیں آتا انسان حیوان بن چکا ہے. اقتدار کے ایوانوں میں بیھنے والے انسانیت کے دشمن بھیڑیئے اقتدار کے لئے انسانوں کوآپس میں لڑاتے رہتے ہیں .کھلے عام چیلنج کرتے رہتے ہیں افسوس کی انتہا یہ ہے کہ ہندوستان کی سپریم کورٹ  توہین عدالت کے معاملے میں نامور وکیل پرشانت  بھوشن کواز خود نوٹس لیتے ہوئے سزا سناتی ہے لیکن آج تک نفرت فرقہ پرستی کی زبان بولنے والے سیاست داں سپریم کورٹ کو نظر نہیں آتے.کیا سیاست دانوں سے سپریم کورٹ خائف ہے جو ان کے خلاف کبھی نوٹس نہیں لیتی.اگر سپریم کورٹ ان سیاست دانوں کے خلاف نوٹس لیے تو فرقہ پرستی ماب لنچنگ  نفرت کی گرم بازاری میں کمی آسکتی ہے لیکن افسوس عدالت آجکل حکومت کی ہمنوا ہے.