https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 12 March 2021

وہیں لگی کہ جونازک مقام تھے دل کے

 آجکل اسلام کے خلاف کوئی نہ کوئی انہونی اور لرزہ خیز آواز دل ودماغ پر تقریباروز ہی بجلی گرا جاتی ہے.ابھی پاکستانی خواتین مارچ کاغم تازہ تھا کہ خود ہندوستان سے اس سے بھی سینکڑوں گنااندوہناک خبر آئی کہ وسیم رضوی نام کے زندیق نے جوشیعہ وقف بورڈ کے سابق چیرمین ہیں اپنی خباثت کابرملااظہار کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں 26آیات قرآنی کو قرآن مجید سےہٹادینے کی عرضی دی ہے.اس کی من گھڑت سوچ کے مطابق یہ آیات خلفاء ثلاثہ حضرت ابوبکر,حضرت عمر,حضرت عثمان رضی اللہ عنہم اجمعین کے ذریعے بڑھائی گئ تھیں .اس لئے اس کے بقول انہیں قرآن سے ہٹاناضروری ہے(نعوذباللہ).اس کے لئے اس مردود نے سپریم کورٹ سے استدعاء کی ہے.یہ دراصل آرایس ایس کی بہت پرانی مانگ ہے کہ قرآن مجیدمیں موجود جہاد سے متعلق آیات ہٹائی جائیں وسیم خبیث انہیں کا ایک آلۂ کار ہے.یہ حکومت کاہی زرخریدچمچہ ہے. اب دیکھنا  یہ ہے کہ سپریم کورٹ اس بارے میں کیارویہ اپناتی ہے.حکومت مسلمانان ہند کے خلاف نت نئے مسائل چھیڑکرعالم اسلام بالخصوص مسلمانان ہند کو ذہنی اذیت سے دوچارکررہی ہےاس سے پہلے سی اے اے ,این آر سی.دفعہ 370 کی تنسیخ ,طلاق ثلاثہ بل.بابری مسجدکاظالمانہ فیصلہ.لوجہاد کاخودساختہ قانون  وغیرہ کی لمبی فہرست ہے.حکومت اصل مسائل سے لوگوں کی نظریں ہٹانے کے لئے فرقہ پرستی پرمبنی متنازع ایشوز کھڑاکررہی ہے کیونکہ لڑاؤاورحکومت کرو کا انگریزی ضابطہ ہی اس کے مدنظرہے.تاکہ عوام انہیں مسائل سے دوچار اوردست و گریباں رہیں ملک ومعیشت ترقی وتوانائی کے الفاظ کو مکمل طور سے بھول جائیں.ان حالات میں خواب خرگوش میں رہناسخت نادانی ہوگی.

توڑدے مصلحت وقت کے پیمانے کو

نہ ملاخاک میں یہ بادۂ ناب اے ساقی

آیات قرآنی پریہ اعتراضات کم علمی نادانی  اورحماقت کے بھی غماز ہیں.

مثال کے طورپر سب سے زیادہ اعتراض

درج ذیل آیت پر کیا جاتاہے.

آیت السیف سورۂ توبہ آیت نمبر5:
فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُوْهُمْ وَ خُذُوْهُمْ وَ احْصُرُوْهُمْ وَ اقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ١ۚ فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَلُّوْا سَبِيْلَهُمْ١ؕ﴾
’’تو جب حرمت والے مہینے گزرجائیں تو ان مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو اور انھیں پکڑو اور اُنھیں گھیرو اور ان کے لیے ہرگھات کی جگہ بیٹھو۔ پھر اگر وہ توبہ کریں اور نماز قائم کریں تو اُن کا راستہ چھوڑدو۔‘‘

یہ آیات سیاق وسباق سے ہٹاکرپڑھی جاتی ہیں جس کی بناپر نادان لوگ انہیں قابل اعتراض سمجھتے ہیں 

  سیاق و سباق کو سمجھنے کے لیئے ضروری ہے کہ اس سورت کا مطالعہ آیت نمبر 1 سے شروع کیا جائے۔ جو یہ ہے کہ مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان جو معاہداتِ امن ہوئے تھے، ان سے براءت کا اعلان کیا جاتا ہے۔ اس براءت( معاہدات کی منسوخی )سے عرب میں شرک اور مشرکین کا وجود عملاً خلاف قانون ہوگیا کیونکہ ملک کا غالب حصہ اسلام کے زیر حکم آچکا تھا۔ ان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہ رہا کہ یا تو لڑنے پر تیار ہوجائیں یا ملک چھوڑ کر نکل جائیں یا پھر اپنے آپ کو اسلامی حکومت کے نظم و ضبط میں دے دیں۔ مشرکین کو اپنا رویہ بدلنے کے لیے چار ماہ کا وقت دیا گیا۔
امام ابوبکر جصاص نے اسی تخصیص پر اپنی کتاب شرح مختصر طحاوی ج2 ص 13 پر لکھا ہے : یہ آیت مشرکین عرب کے بارےمیں اتری ہے دلیل اس پر اللہ تعالی کا فرمان اس سے پچھلی آیت” فاتموا الیہم عھدہم الی مدتہم ” “ان کے ساتھ کئے ہوئے معاہدے کی مدت کو پورا کرو (التوبہ ، آیت 4)ہے اسلئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس وقت معاہدہ صرف مشرکین عرب سے تھا۔ قرآن کے اِسی حکم کو اللہ کے رسول ﷺنے((اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ النَّاسَ))کے الفاظ سے بیان کیا ہے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اِس حدیث کو اسی آیت کی تفسیر کے طور پر بیان کیا ہے۔ اسکو بھی مخالفین سارے سیناریو سے ہٹ کے پیش کرتے ہیں ۔
((اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَشْھَدُوْا اَنْ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ وَیُقِیْمُوا الصَّلَاۃَ وُیُـؤْتُوا الزَّکٰوۃَ ‘ فَاِذَا فَعَلُوْا ذٰلِکَ عَصَمُوْا مِنِّیْ دِمَائَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ اِلاَّ بِحَقِّ الْاِسْلَامِ‘ وَحِسَابُھُمْ عَلَی اللّٰہِ))
’’مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اُس وقت تک قتال کروں جب تک کہ وہ یہ اقرار نہ کر لیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد‘ اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم نہ کریں اور زکوٰۃ ادانہ کریں۔پس جب وہ یہ کر لیں گے ‘تو اپنے مال اور جانیں مجھ سے بچا لیں گے‘ سوائے اسلام کے حق کے‘اور اُن کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔‘‘(صحیح البخاری،کتاب الایمان،باب فان تابو واقومواالصلوٰۃ وآتوا الزکٰوۃ،حدیث رقم 24،صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب الامر بقتال الناس حتیٰ یقول لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ،حدیث رقم 31(
اِس حدیث مبارکہ میں((الناس))سے مراد مشرکین ہیں چنانچہ سنن ابی داؤد اور سنن نسائی کی ایک روایت میں ((اَنْ اُقَاتِلَ الْمُشْرِکِیْنَ))کے الفاظ آئے ہیں۔یہ حکم خصوصی طور پر مشرکین عرب کے متعلق ہے 

ہندوستانی مشرکین سے ان آیات کاکوئی تعلق نہیں. لیکن اس کے باوجود واویلااور قرآن مجید سے آیات مذکور کوہٹانے کامطالبہ صرف اسلامیان ہند کوذہنی کرب واذیت میں مبتلاکرنا ہے.

Monday 8 March 2021

مقتدی کاپچھلی صف میں تنہا نماز پڑھنا

 کسی صف میں ایک مقتدی کا اکیلے نماز پڑھنا مکروہ ہے، لہذا اگر اگلی صف میں گنجائش ہو تو اگلی صف میں شامل ہوجائے، ورنہ انتظار کرے، اس دوران کوئی دوسرا نمازی آجائے تو  اس کے ساتھ پچھلی صف میں کھڑے ہوکر نماز شروع کردے، لیکن اگر امام کے رکوع کرنے تک کوئی دوسرا نمازی نہ آئے تو  اگلی صف سے کسی نمازی کو کھینچ کر یا  اشارہ کر کے پیچھے بلا لے، بشرطیکہ اس کے بارے میں یہ اندیشہ نہ ہو کہ وہ نماز کے احکامات سے لاعلمی کی وجہ سے اپنی نماز فاسد  کر بیٹھے گا، اگر اس طرح کا اندیشہ ہو تو پھر اکیلے ہی پچھلی صف میں نیت باندھ کر امام کے ساتھ نماز میں شامل ہوجائے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 647):

"وقدمنا كراهة القيام في صف خلف صف فيه فرجة للنهي، وكذا القيام منفردًا وإن لم يجد فرجةً بل يجذب أحدًا من الصف ذكره ابن الكمال، لكن قالوا: في زماننا تركه أولى، فلذا قال في البحر: يكره وحده إلا إذا لم يجد فرجةً.
(قوله: لكن قالوا إلخ) القائل صاحب القنية فإنه عزا إلى بعض الكتب أتى جماعة ولم يجد في الصف فرجةً، قيل: يقوم وحده ويعذر، وقيل: يجذب واحدًا من الصف إلى نفسه فيقف بجنبه. والأصح ما روى هشام عن محمد أنه ينتظر إلى الركوع، فإن جاء رجل وإلا جذب إليه رجلًا أو دخل في الصف، ثم قال في القنية: والقيام وحده أولى في زماننا لغلبة الجهل على العوام فإذا جره تفسد صلاته اهـ قال في الخزائن قلت: وينبغي التفويض إلى رأي المبتلى، فإن رأى من لايتأذى لدين أو صداقة زاحمه أو عالمًا جذبه وإلا انفرد. اهـ. قلت: وهو توفيق حسن اختاره ابن وهبان في شرح منظومته (قوله: فلذا قال إلخ) أي فلم يذكر الجذب؛ لما مر."

Wednesday 3 March 2021

پاکستان کے لاپتہ افراد !

 پاکستان میں دوہزار سے زیادہ افرادجبری طور پرلاپتہ ہیں ..آج بی بی سی نے سیربین میں بتایاکہ لاپتہ افراد کے اہل خانہ کس کرب سے گزرہے ہیں واقعی بہت دلدوز کیفیت ہے.رپورٹ سن کر آنکھیں خودبخود اشکبارہوجاتی ہیں .یہ کیسا ملک ہے جہاں انسان کی جان محفوظ نہیں ,جہاں دن دھاڑے انسان اغواکرلئے جاتے ہیں پھروہ لوٹ کرنہیں آتے.یہ کیساملک ہے!نامکمل,غیرمحفوظ.جہاں کسی کوصرف اس وجہ سے ماردیاجاتاہے کہ وہ قادیانی,شیعہ ,سنی,یادیوبندی اوربریلوی ہے.یہ ایک ایساملک ہے جہاں حکومت کمزور,پولیس نااہل,فوج غدار اہل سیاست دبنگ اورعوام بیزار اور اسلام اس حقیقی اسلام سے مختلف ہے جومحمدعربی ہاشمی ومطلبی نے جزیرۃ العرب میں بپاکیاتھا.کسی غیرمسلم کو صرف اس وجہ سے سرعام ہلاک کردیناکیونکہ وہ غیراسلامی عقیدہ رکھتاہےکونسے اسلام میں جائزومباح ہے.؟یہ سراسرانارکی ,لاقانونیت اورغنڈہ گردی ہے.پاکستان میں مذہبی شدت پسندی اور ہندوستان میں آرایس ایس دونوں ممالک کے ایسے ناسور ہیں جن  کی بناپر ہندوستان میں ماب لنچنگ اور پاکستان میں اغواوقتل یاجبری گمشدگی عام سی بات ہے دونوں ہی بنیاد یوں تو مذہب پر ہے لیکن حقیقی مذاہب سے ان کادورتک کوئی رشتہ نہیں.

 تحفظ کے باب میں  مسلم اور غیرمسلم دونوں برابر ہیں دونوں کی جان کا یکساں تحفظ و احترام کیا جائے گا اسلامی ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی غیرمسلم رعایا کی جان مال کابھی ایساہی تحفظ کرے جیساکہ مسلم رعایاکاکرتی ہےانھیں ظلم و زیادتی سے یکساں طورپر محفوظ رکھے۔ پیغمبر  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

”من قتل معاہدًا لم یرح رائحة الجنة، وان ریحہا لیوجد من مسیرة أربعین عامًا“ (بخاری شریف کتاب الجہاد، باب اثم من قتل معاہدًا بغیر جرمِ، ج:۱، ص: ۴۴۸)

جو کسی معاہد کو قتل کرے گا وہ جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا، جب کہ اس کی خوشبو چالیس سال کی مسافت سے بھی محسوس ہوتی ہے۔

حضرت عمر نے اپنی  وصیت میں فرمایاتھا:

”میں اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کو اللہ اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد و ذمہ کی وصیت کرتا ہوں کہ ذمیوں کے عہد کو وفا کیا جائے، ان کی حفاظت و دفاع میں جنگ کی جائے، اور ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بار نہ ڈالا جائے۔“(۱)

تحفظ مال:

اسلامی ریاست مسلمانوں کی طرح ذمیوں کے مال وجائیداد کا تحفظ کرے گی، انھیں حق ملکیت سے بے دخل کرے گی نہ ان کی زمینوں اور جائیدادوں پر زبردستی قبضہ، حتی کہ اگر وہ جزیہ نہ دیں، تو اس کے عوض بھی ان کی املاک کو نیلام وغیرہ نہیں کرے گی۔ حضرت علی نے اپنے ایک عامل کو لکھا:

”خراج میں ان کا گدھا، ان کی گائے اور ان کے کپڑے ہرگز نہ بیچنا۔“(۲)

ذمیوں کو بھی مسلمانوں کی طرح خرید و فروخت، صنعت و حرفت اور دیگر تمام ذرائع معاش کے حقوق حاصل ہوں گے، اس کے علاوہ، وہ شراب اور خنزیر کی خریدوفروخت بھی کرسکتے ہیں۔ نیز انھیں اپنی املاک میں مالکانہ تصرف کرنے کا حق ہوگا، وہ اپنی ملکیت وصیت و ہبہ وغیرہ کے ذریعہ دوسروں کو منتقل بھی کرسکتے ہیں۔ ان کی جائیدادانھیں کے ورثہ میں تقسیم بھی ہوگی، حتیٰ کہ اگر کسی ذمی کے حساب میں جزیہ کا بقایا واجب الادا تھا اور وہ مرگیا تو اس کے ترکہ سے وصول نہیں کیا جائے گا اور نہ اس کے ورثہ پر کوئی دباؤ ڈالا جائے گا۔

کسی جائز طریقے کے بغیر کسی ذمی کا مال لینا جائز نہیں ہے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

”ألا ! لا تحل أموال المعاہدین الا بحقہا“(۳)

خبردار معاہدین کے اموال حق کے بغیر حلال نہیں ہیں۔

تحفظِ عزت و آبرو:

مسلمانوں کی طرح ذمیوں کی عزت وآبرو اور عصمت و عفت کا تحفظ کیاجائے گا، اسلامی ریاست کے کسی شہری کی توہین و تذلیل نہیں کی جائے گی۔ ایک ذمی کی عزت پر حملہ کرنا، اس کی غیبت کرنا، اس کی ذاتی و شخصی زندگی کا تجسس، اس کے راز کو ٹوہنا،اسے مارنا، پیٹنا اور گالی دینا ایسے ہی ناجائز اور حرام ہے، جس طرح ایک مسلمان کے حق میں۔

”ویجب کف الأذی عنہ، وتحرم غیبتہ کالمسلم“ (۴)

اس کو تکلیف دینے سے رکنا واجب ہے اوراس کی غیبت ایسی ہی حرام ہے جیسی کسی مسلمان کی۔

عدالتی و قانونی تحفظ:

فوج داری اور دیوانی قانون ومقدمات مسلم اور ذمی دونوں کے لیے یکساں اور مساوی ہیں، جو تعزیرات اور سزائیں مسلمانوں کے لیے ہیں، وہی غیرمسلموں کے لیے بھی ہیں۔ چوری، زنا اور تہمتِ زنا میں دونوں کو ایک ہی سزا دی جائے گی، ان کے درمیان کوئی امتیاز نہیں کیا جائے گا۔ قصاص، دیت اور ضمان میں بھی دونوں برابر ہیں۔ اگر کوئی مسلمان کسی ذمی کو قتل کردے، تواس کو قصاص میں قتل کیاجائے گا۔ حدیث شریف میں ہے:

”دماوٴہم کدمائنا“ (۵)

ان کے خون ہمارے خون ہی کی طرح ہیں۔

حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک مسلمان نے ایک ذمی کو قتل کردیا، تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو قصاص میں قتل کرنے کا حکم دیا اور فرمایا:

”أنا أحق من وفیٰ بذمتہ“ (۶)

میں ان لوگوں میں سب سے زیادہ حقدار ہوں جو اپنا وعدہ وفا کرتے ہیں۔

البتہ ذمیوں کے لیے شراب اور خنزیر کو قانون سے مستثنیٰ کردیاگیا ہے، چنانچہ انھیں خنزیر رکھنے، کھانے اور خرید و فروخت کرنے،اسی طرح شراب بنانے، پینے اور بیچنے کا حق ہے۔

مذہبی آزادی:

ذمیوں کو اعتقادات و عبادات اور مذہبی مراسم وشعائر میں مکمل آزادی حاصل ہوگی، ان کے اعتقاد اور مذہبی معاملات سے تعرض نہیں کیا جائے گا، ان کے کنائس، گرجوں، مندروں اور عبادت گاہوں کو منہدم نہیں کیا جائے گا۔

قرآن نے صاف صاف کہہ دیا:

لا اکراہ في الدین قد تبین الرشد من الغي (البقرہ)

دین کے معاملہ میں کوئی جبر واکراہ نہیں ہے، ہدایت گمراہی سے جدا ہوگئی۔

وہ بستیاں جو امصار المسلمین (اسلامی شہروں) میں داخل نہیں ہیں، ان میں ذمیوں کو صلیب نکالنے، ناقوس اور گھنٹے بجانے اور مذہبی جلوس نکالنے کی آزادی ہوگی، اگر ان کی عبادت گاہیں ٹوٹ پھوٹ جائیں، تو ان کی مرمت اور ان کی جگہوں پر نئی عبادت گاہیں بھی تعمیر کرسکتے ہیں۔ البتہ امصار المسلمین یعنی ان شہروں میں، جو جمعہ عیدین، اقامت حدود اور مذہبی شعائر کی ادائیگی کے لیے مخصوص ہیں، انھیں کھلے عام مذہبی شعائر ادا کرنے اور دینی و قومی جلوس نکالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اور نہ وہ ان جگہوں میں نئی عبادت گاہیں تعمیر کرسکتے ہیں۔ البتہ عبادت گاہوں کے اندر انھیں مکمل آزادی حاصل ہوگی۔ اور عبادت گاہوں کی مرمت بھی کرسکتے ہیں۔

وہ فسق و فجور جس کی حرمت کے اہل ذمہ خود قائل ہیں اور جو ان کے دین و دھرم میں حرام ہیں، تو ان کے اعلانیہ ارتکاب سے انھیں روکا جائے گا۔ خواہ وہ امصار المسلمین میں ہوں یا اپنے امصار میں ہوں۔

ذمی اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے مذہبی درسگاہیں بھی قائم کرسکتے ہیں۔ انھیں اپنے دین و مذہب کی تعلیم و تبلیغ اور مثبت انداز میں خوبیاں بیان کرنے کی بھی آزادی ہوگی۔

اسلامی ریاست ذمیوں کے پرسنل لاء میں کوئی مداخلت نہیں کرے گی، بلکہ انھیں ان کے مذہب و اعتقاد پر چھوڑ دے گی وہ جس طرح چاہیں اپنے دین و مذہب پر عمل کریں۔ نکاح، طلاق، وصیت، ہبہ، نان و نفقہ، عدت اور وراثت کے جو طریقے ان کے دھرم میں جائز ہیں، انھیں ان پر عمل کرنے کی مکمل آزادی ہوگی، خواہ وہ اسلامی قانون کی رو سے حرام و ناجائز ہی کیوں نہ ہوں۔ مثلاً اگر ان کے یہاں محرمات سے نکاح بغیر گواہ اور مہر کے جائز ہے، تو اسلامی ریاست انھیں اس سے نہیں روکے گی؛ بلکہ اسلامی عدالت ان کے قانون کے مطابق ہی فیصلہ کرے گی۔

حضرت عمر بن عبدالعزیز نے حضرت حسن سے اس سلسلے میں ایک استفتاء کیا تھا:

”ما بال الخلفاء الراشدین، ترکوا أہل الذمة، وماہم علیہ من نکاح المحارم، واقتناء الخمور والخنازیر“

کیا بات ہے کہ خلفاء راشدین نے ذمیوں کو محرمات کے ساتھ نکاح اور شراب اور سوَر کے معاملہ میں آزاد چھوڑدیا۔

جواب میں حضرت حسن نے لکھا:

”انما بذلوا الجزیة لیترکوا وما یعتقدون، وانما أنت متبع لا مبتدع“

انھوں نے جزیہ دینا اسی لیے تو قبول کیاہے کہ انھیں ان کے عقیدے کے مطابق زندگی بسر کرنے کی اجازت دی جائے۔ آپ کاکام پچھلے طریقے کی پیروی کرنا ہے نہ کہ کوئی نیا طریقہ ایجاد کرنا“(۷)

منصب وملازمت:

اسلامی آئین سے وفاداری کی شرط پوری نہ کرنے کی وجہ سے اہل ذمہ پالیسی ساز اداروں، تفویض وزارتوں اور ان مناصب پر فائز نہیں ہوسکتے ہیں، جو اسلام کے نظامِ حکومت میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں، بقیہ تمام ملازمتوں اور عہدوں کے دروازے ان کے لیے کھلے ہیں۔ اس سلسلے میں ماوردی نے ذمیوں کی پوزیشن ظاہر کرتے ہوئے لکھاہے:

”ایک ذمی وزیر تنفیذ ہوسکتا ہے، مگر وزیر تفویض نہیں۔ جس طرح ان دونوں عہدوں کے اختیارات میں فرق ہے، اسی طرح ان کے شرائط میں بھی فرق ہے۔ یہ فرق ان چار صورتوں سے نمایاں ہوتا ہے: پہلے یہ کہ وزیر تفویض خود ہی احکام نافذ کرسکتا ہے اور فوج داری مقدمات کا تصفیہ کرسکتا ہے، یہ اختیارات وزیر تنفیذ کو حاصل نہیں۔ دوسرے یہ کہ وزیر تفویض کو سرکاری عہدے دار مقرر کرنے کا حق ہے، مگر وزیر تنفیذ کو یہ حق حاصل نہیں ہے۔ تیسرے یہ کہ وزیر تفویض تمام جنگی انتظامات خود کرسکتا ہے وزیر تنفیذ کو یہ حق حاصل نہیں ہے۔ چوتھے یہ کہ وزیر تفویض کو خزانے پر اختیار حاصل ہے وہ سرکاری مطالبہ وصول کرسکتا ہے اور جو کچھ سرکار پر واجب ہے اسے ادا کرسکتا ہے۔ یہ حق بھی وزیر تنفیذ کو حاصل نہیں ہے۔ ان چار شرطوں کے علاوہ اور کوئی بات ایسی نہیں جو ذمیوں کو اس منصب پر فائز ہونے سے روک سکے“(۸)

اسلامی خزانے سے غیرمسلم محتاجوں کی امداد

صدقات واجبہ (مثلاً زکوٰة عشر) کے علاوہ بیت المال کے محاصل کا تعلق جس طرح مسلمانوں کی ضروریات و حاجات سے ہے، اسی طرح غیرمسلم ذمیوں کی ضروریات و حاجات سے بھی ہے، ان کے فقراء ومساکین اور دوسرے ضرورت مندوں کے لیے اسلام بغیر کسی تفریق کے وظائف معاش کا سلسلہ قائم کرتا ہے۔ خلیفہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ اسلامی ریاست کا کوئی شہری محروم المعیشت نہ رہے۔

ایک مرتبہ حضرت عمر نے گشت کے دوران میں ایک دروازے پر ایک ضعیف العمر نابینا کو دیکھا آپ نے اس کی پشت پر ہاتھ رکھ کر پوچھا کہ تم اہل کتاب کے کس گروہ سے تعلق رکھتے ہو،اس نے جواب دیا کہ میں یہودی ہوں۔

حضرت عمر نے دریافت کیا کہ گداگری کی یہ نوبت کیسے آئی۔ یہودی نے کہا۔ ادائے جزیہ، شکم پروری اور پیری سہ گونہ مصائب کی وجہ سے۔ حضرت عمر نے یہ سن کر اس کا ہاتھ پکڑ کر گھرلائے اور جو موجودتھا،اس کو دیا اور بیت المال کے خازن کو لکھا:

”یہ اور اس قسم کے دوسرے حاجت مندوں کی تفتیش کرو۔ خدا کی قسم ہرگز یہ ہمارا انصاف نہیں ہے کہ ہم جوانی میں ان سے جزیہ وصول کریں اور بڑھاپے میں انھیں بھیک کی ذلت کے لیے چھوڑ دیں قرآن کریم کی اس آیت (انما الصدقات للفقراء والمساکین) میں میرے نزدیک فقراء سے مسلمان مراد ہیں اور مساکین سے اہل کتاب کے فقراء اور غرباء۔ اس کے بعد حضرت عمر نے ایسے تمام لوگوں سے جزیہ معاف کرکے بیت المال سے وظیفہ بھی مقرر کردیا۔“(۹)

حضرت ابوبکر کے دور خلافت میں حضرت خالد بن ولید نے اہل حیرہ کے لیے جو عہدنامہ لکھا وہ حقوق معاشرت میں مسلم اور غیرمسلم کی ہمسری کی روشن مثال ہے:

”اورمیں یہ طے کرتاہوں کہ اگر ذمیوں میں سے کوئی ضعف پیری کی وجہ سے ناکارہ ہوجائے، یا آفت ارضی و سماوی میں سے کسی آفت میں مبتلا ہوجائے، یا ان میں سے کوئی مالدار محتاج ہوجائے اوراس کے اہل مذہب اس کو خیرات دینے لگیں، تو ایسے تمام اشخاص سے جزیہ معاف ہے۔ اور بیت المال ان کی اور ان کی اہل وعیال کی معاش کا کفیل ہے۔ جب تک وہ دارالاسلام میں مقیم رہیں۔“ (۱۰)

معاہدین کے حقوق

مذکورہ بالا حقوق میں تمام اہل ذمہ شریک ہیں، البتہ وہ غیرمسلم رعایا، جو جنگ کے بغیر، یا دوران جنگ مغلوب ہونے سے پہلے،کسی معاہدے یا صلح نامے کے ذریعہ اسلامی ریاست کے شہری ہوگئے ہوں تو ان کے ساتھ شرائط صلح کے مطابق معاملہ کیا جائے گا۔ ان شرائط پر سختی سے عمل کیا جائے گا۔ ان سے ایک سرمو بھی تجاوز نہیں کیا جائے گا، نہ ان پر کسی قسم کی زیادتی کی جائے گی، نہ ان کے حقوق میں کمی کی جائے گی۔ نہ ان کی مذہبی آزادی سلب کی جائے گی، نہ ان پر طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالا جائے گا۔

معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والے کو آخرت میں باز پرس کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑے گا اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اس کے خلاف قیامت کے دن مستغیث ہوں گے۔

”ألا من ظلم معاہدًا، أو انتقصہ، أو خلفہ فوق طاقتہ أو أخذ منہ شیئًا بغیر طیب نفس، فأنا حجیجہ یوم القیامة“

خبردار! جو شخص کسی معاہد پر ظلم کرے گا، یا اس کے حقوق میں کمی کرے گا، یا اس کی طاقت سے زیادہ اس پر بار ڈالے گا، یا اس سے کوئی چیزاس کی مرضی کے خلاف وصول کرے گا،اس کے خلاف قیامت کے دن میں خود مستغیث بنوں گا۔(۱۱)

(۱)         حضرت عمر کے سیاسی نظرئیے، ص: ۹۳ : ابو یحییٰ امام خان ، مطبوعہ گوشہٴ ادب چوک انارکلی لاہور

(۲)        اسلامی حکومت میں غیرمسلموں کے حقوق، ص: ۲۰

(۳)        ابوداؤد کتاب الاطعمة باب ما جاء فی اکل السباع

(۴)        اسلامی حکومت میں غیرمسلموں کے حقوق، ص: ۱۵

(۵)        نصب الرایة، ج:۲، ص: ۳۸۱

(۶)        اسلامی حکومت میں غیرمسلموں کے حقوق، ص: ۱۱

(۷)        اسلامی حکومت میں غیرمسلموں کے حقوق، ص: ۱۱

(۸)        بنیادی حقوق، ص: ۳۱۱

(۹)         اسلام کا اقتصادی نظام، ص: ۱۵۱

(۱۰)       اسلام کا اقتصادی نظام

(۱۱)        اسلامی حکومت میں غیرمسلموں کے حقوق، ص: ۶


Tuesday 2 March 2021

منسوخ آیات

 قرآن شریف میں تین قسم کا نسخ واقع ہوا ہے:

(الف) کسی آیت کا حکم منسوخ کردیا گیا، لیکن قرآن شریف میں تلاوت اس کی باقی رہی۔

(ب) تلاوت منسوخ کردی گئی مگر حکم باقی رہا۔

(ج) تلاوت اور حکم دونوں منسوخ کردیئے گئے المنسوخ إما أن یکون ھو الحکم فقط أو التلاوة فقط أو ہما معًا (تفسیر کبیر: ج۳ ص۲۰۸، ط بیروت)

اور یہ تینوں قسم کے نسخ قرآن شریف میں من جانب اللہ ہوئے ہیں۔ قال تعالیٰ: مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا (الآیة) اور قرآن شریف میں نسخ بذریعہٴ وحئ الٰہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قرآن میں کوئی نسخ نہیں ہوا۔ اور نسخ صرف چند آیات میں ہوا ہے لہٰذا نسخ کے بعد صحابہٴ کرام جو قرآن پڑھا کرتے تھے آج بھی بعینہ وہی قرآن ہے۔

(۱) منسوخ الحکم آیت کی مثال جو قرآن میں موجود ہے: وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجاً وَصِيَّةً لِّأَزْوَاجِهِم مَّتَاعاً إِلَى الْحَوْلِ (الآیة) اس آیت کا حکم منسوخ ہوگیا، اللہ کے قول: وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجاً يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْراً (الآیة) اسی طرح آیت: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَةً (الآیة) کا حکم بھی منسوخ ہوگیا اور تلاوت اس کی باقی ہے۔

(۲) منسوخ التلاوة آیت کی مثال جس کا حکم باقی ہو : یروی عن عمیر -رضي اللہ عنہ- أنہ قال: کنا نقرأ آیة الرجم: الشیخ والشیخة إذا زنیا فارجموھما البتة نکالا من اللہ واللہ عزیز حکیم ۔

(۳) ایسی آیت جس کا حکم اور تلاوت دونوں منسوخ ہوگئے ہوں: فھو ما ورت عائشة -رضي اللہ عنھا- إن القرآن قد نزل في الرضاع بعشر معلومات ثم نسخن بخمس معلومات فالعشر مرفوع التلاوة والحکم جمیعا والخمس مرفوع التلاوة باقي الحکم (تفسیر کبیر: ج۳ ص۲۰۹، ط بیروت)

اہل بیت

 اہلِ بیت سے مراد  ازواجِ مطہرات اور نبی کریم ﷺ  کی آل و اولاد اور داماد یعنی حضرت علی کرم اللہ وجہہ شامل ہیں، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب نور اللہ مرقدہ ’’معارف القرآن‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں: 

’’ بعض آئمہ تفسیر نے اہلِ بیت سے مراد  صرف ازواجِ مطہرات کو قرار دیا ہے۔ حضرت عکرمہ و مقاتل نے یہی فرمایا ہے اور سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس سے بھی یہی روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے آیت میں اہلِ بیت سے مراد ازواجِ مطہرات کو قرار دیا۔ اور استدلال میں اگلی آیت پیش فرمائی،(آیت) {واذکرن مایتلی في بیوتکن} (رواه ابن أبي حاتم وابن جریر) اور سابقہ آیات میں نساءالنبی کے الفاظ سے خطاب بھی  اس کا قرینہ ہے۔ حضرت عکرمہ تو بازار میں منادی کرتے تھے، کہ آیت میں اہلِ بیت سے مراد ازواجِ مطہرات ہیں؛ کیوں کہ یہ آیت اِن ہی کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ اور فرماتے تھے کہ میں اس پر مباہلہ کرنے کے لیے تیار ہوں ۔
لیکن حدیث کی متعدد روایات جن کو ابنِ کثیر نے اس جگہ نقل کیا ہے اس پر شاہد  ہیں کہ اہلِ بیت میں حضرت فاطمہ اور علی اور حضرت حسن وحسین بھی شامل ہیں،  جیسے ’’صحیح مسلم‘‘  کی حدیث حضرت عائشہ کی روایت سے ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر سے باہر تشریف لے گئے اور اس وقت آپ ایک سیاہ رومی چادر اوڑھے ہوئے تھے، حسن بن علی آ گئے تو ان کو اس چادر میں لے لیا، پھر حسین آ گئے، ان کو بھی اسی چادر کے اندر داخل فرما لیا، اس کے بعد حضرت فاطمہ پھر حضرت علی مرتضیٰ ؓ آ گئے، ان کو بھی چادر میں داخل فرما لیا، پھر یہ آیت تلاوت فرمائی (آیت) {انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت ویطهركم تطهيرًا}.  اور بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ آیت پڑھنے کے بعد فرمایا: "اللّٰهم هٰولاء أهل بیتي". (رواہ ابن جریر)
ابن کثیر نے اس مضمون کی متعدد احادیثِ معتبرہ نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ درحقیقت ان دونوں اقوال میں جو آئمہ تفسیر سے منقول ہیں کوئی تضاد نہیں، جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ یہ آیت ازواجِ مطہرات کی شان میں نازل ہوئی اور اہلِ بیت سے وہی مراد ہیں یہ اس کے منافی نہیں کہ دوسرے حضرات بھی اہلِ بیت میں شامل ہوں‘‘۔ (معارف القرآن)

اور آلِ رسول کے مصداق میں متعدد اقوال ہیں، بعض محقیقن نے اس سے آپ ﷺ کی اولاد مراد لی ہے، اور اکثر  نے قرابت دار مراد لیے ہیں جن پر صدقہ حرام ہے، اور بعض نے مجازاً اسے تمام امتِ مسلمہ مراد لی ہے۔

باقی مختلف صحابہ کرام کے مختلف فضائل وارد ہوئے ہیں، اور اہلِ بیت کے مستقل فضائل وارد ہوئے ہیں،  اور ان سے محبت ایمان کی علامت ہے۔ اور اہلِ بیت بھی صحابہ کرام  میں ہی داخل ہیں، اور عمومی صحابہ کرام کی درجہ بندی میں سب سے پہلے چاروں خلفاءِ راشدین بالترتیب، پھر عشرہ مبشرہ، پھر اصحابِ بدر، اس کے بعد اصحابِ احد، اور پھر بیعتِ رضوان کے شرکاء، اور اس کے بعد فتح مکہ اور اس کے بعد مسلمان ہونے والے صحابہ کرام کا شمار ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمومی فضائل اور تمام درجہ بندیوں میں جو جو اہلِ بیت شامل ہیں وہ فضائل ان کے بھی ہیں۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اہلِ بیتِ کرام کے فضائل کی تفصیل کے لیے کتبِ احادیث کے ’’ابواب المناقب‘‘ ملاحظہ کیے جائیں۔ نیز اہلِ بیت کے فضائل کے لیے علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ کے رسائل (رسائل ابن عابدین) میں مستقل رسالہ موجود ہے، اس سے استفادہ کیا جاسکتاہے۔صحيح مسلم (4 / 1873):
"(2408) حدثني زهير بن حرب، وشجاع بن مخلد، جميعًا عن ابن علية، قال زهير: حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، حدثني أبو حيان، حدثني يزيد بن حيان، قال: انطلقت أنا وحصين بن سبرة، وعمر بن مسلم، إلى زيد بن أرقم، فلما جلسنا إليه قال له حصين: لقد لقيت يا زيد خيرًا كثيرًا، رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، وسمعت حديثه، وغزوت معه، وصليت خلفه لقد لقيت، يا زيد خيرًا كثيرًا، حدثنا يا زيد ما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: يا ابن أخي والله لقد كبرت سني، وقدم عهدي، ونسيت بعض الذي كنت أعي من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فما حدثتكم فاقبلوا، وما لا، فلاتكلفونيه، ثم قال: قام رسول الله صلى الله عليه وسلم يومًا فينا خطيبًا بماء يدعى خمًا بين مكة والمدينة، فحمد الله وأثنى عليه، ووعظ وذكر، ثم قال: " أما بعد، ألا أيها الناس! فإنما أنا بشر يوشك أن يأتي رسول ربي فأجيب، وأنا تارك فيكم ثقلين: أولهما كتاب الله فيه الهدى
والنور فخذوا بكتاب الله، واستمسكوا به"؛ فحث على كتاب الله ورغب فيه، ثم قال: «وأهل بيتي، أذكركم الله في أهل بيتي، أذكركم الله في أهل بيتي، أذكركم الله في أهل بيتي». فقال له حصين: ومن أهل بيته؟ يا زيد! أليس نساؤه من أهل بيته؟ قال: نساؤه من أهل بيته، ولكن أهل بيته من حرم الصدقة بعده، قال: ومن هم؟ قال: هم آل علي وآل عقيل، وآل جعفر، وآل عباس قال: كل هؤلاء حرم الصدقة؟ قال: نعم".

 ترجمہ: ۔۔۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:  رسول اللہ ﷺ نے ایک دن مقامِ (غدیرِ) ’’خم‘‘ پر  جو مکہ و مدینہ کے درمیان ہے، خطبہ دیا، چناں چہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی، اور وعظ و نصیحت فرمائی، پھر فرمایا: اما بعد! آگاہ رہو اے لوگو! میں بھی ایک انسان ہوں،  ممکن ہے کہ میرے رب کا پیغام رساں (موت کا فرشتہ) میرے پاس آئے تو میں اسے لبیک کہوں، اور میں تم میں دو بہت اہم (اور بھاری چیزیں) چھوڑ رہاہوں: پہلی چیز ’’کتاب اللہ‘‘ ہے، اس میں ہدایت اور نور ہے، لہٰذا اللہ کی کتاب کو پکڑ لو اور مضبوطی سے تھام لو؛ پھر آپ ﷺ نے اللہ کی کتاب کے حوالے سے کافی شافی ترغیب ارشاد فرمائی۔ پھر فرمایا: (اور دوسری چیز) میرے اہلِ بیت،  میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے لحاظ (یاد رکھنے) کی تاکید کرتاہوں،  میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے لحاظ (یاد رکھنے) کی تاکید کرتاہوں،  میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے لحاظ (یاد رکھنے) کی تاکید کرتاہوں۔   (یہ سن کر) راوی حدیث حصین رحمہ اللہ نے حضرت زید بن ارقم سے کہا: اہلِ بیت سے مراد کون ہیں؟ اے زید کیا آپ ﷺ کی ازواجِ مطہرات اہلِ بیت میں سے نہیں ہیں؟ (کیوں کہ بنیادی طور پر مذکورہ خطبہ ’’غدیرِ خم‘‘  کے مقام پر درحقیقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے ارشاد فرمایا تھا، اس پس منظر کی وجہ سے راوی نے مذکورہ سوال کیا)  تو حضرت زید بن ارقم نے فرمایا: (ہاں!) آپ ﷺ کی ازواجِ مطہرات اہلِ بیت میں ہیں، لیکن (یہاں مراد) اہلِ بیت (سے) وہ ہیں جن پر رسول اللہ ﷺ کے بعد صدقہ حرام ہے۔ راوی نے پوچھا: وہ کون ہیں؟ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وہ آلِ علی،  آلِ عقیل، آلِ جعفر اور آلِ عباس ہیں۔ راوی نے کہا: کیا ان سب پر صدقہ حرام ہے؟ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جی ہاں!

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 13):
"(قوله: وعلى آله) اختلف في المراد بهم في مثل هذا الموضع؛ فالأكثرون أنهم قرابته صلى الله عليه وسلم الذين حرمت عليهم الصدقة على الاختلاف فيهم، وقيل: جميع أمة الإجابة، وإليه مال مالك، واختاره الأزهري والنووي في شرح مسلم، وقيل غير ذلك، شرح التحرير.وذكر القهستاني: أن الثاني مختار المحققين". 

قبرپرسورۂ بقرہ کااول وآخر پڑھنا

  قبر کے سرہانے سورہ بقرہ کا اول رکوع پڑھنا اور پیر کی جانب آخری رکوع پڑھنا حدیث شریف سے ثابت ہے، البتہ انگشتِ شہادت کا مٹی میں رکھنا حدیث سے ثابت نہیں؛لہٰذا  انگشت کو قبر کے سرہانے رکھنا نہ رکھنا دونوں جائز ہیں، البتہ رکھنے پرصرار کرنا درست نہیں۔

مشکاۃ شریف میں ہے:

"عن عبدالله بن عمر رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إذا مات أحدكم، فلاتحسبوه واسرعوا به إلى قبره، وليقرأ عند رأسه فاتحة البقرة، وعند رجليه بخاتمة البقرة". (كتاب الجنائز، باب دفن الميت، ج:1، ص: 149، ط: قديمي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"لما في سنن أبي داود: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا فرغ من دفن الميت وقف على قبره، وقال: استغفروا لأخيكم، واسألوا الله له التثبيت؛ فإنه الآن يسأل. وكان ابن عمر يستحب أن يقرأ على القبر بعد الدفن أول سورة البقرة وخاتمتها.

وروي أن عمرو بن العاص قال وهو في سياق الموت: إذا أنا مت فلاتصحبني نائحة ولا نار، فإذا دفنتموني فشنوا على التراب شنًّا، ثم أقيموا حول قبري قدر ما ينحر جزور، ويقسم لحمها حتى أستأنس بكم وأنظر ما ذا أراجع رسل ربي، جوهرة". (2/237، ط: سعيد)

Monday 1 March 2021

میل شرعی کی مقدار

 ایک میلِ شرعی کی مقدار ایک کلومیٹر، 828 میٹر اور 80 سینٹی میٹر ہوتی ہے۔اور ایک میل انگریزی کی مقدار 1 کلومیٹر 609 میٹر اور 34 میٹر ہوتی ہے۔

الفتاوى الهندية (1 / 27):
"وأقرب الأقوال أن الميل وهو ثلث الفرسخ، أربعة آلاف ذراع، طول كل ذراع أربع وعشرون أصبعاً، وعرض كل أصبع ست حبات شعير ملصقة ظهر البطن".

Saturday 27 February 2021

چند مشہورکلمات کفر

 

مشہورکلمات کفرجوعام طورپربے دھیانی لاپرواہی اورغفلت میں  مؤمن کہہ جاتاہے حالاں کہ ان کے کہنے سے ایمان سلب ہوجاتاہےاور خبرتک نہیں ہوتی :


☄۔ جیسے کوئی مصیبت کے وقت کہے۔" اللہ نے پتہ نہیں مصیبتوں کے لئے ہمارا گھر ہی دیکھ لیا ہے"


☄۔ یا موت کے وقت کوئی کہہ دے۔"پتہ نہیں اللہ کو اس شخص کی بڑی ضرورت تھی جو اس کو اپنے پاس اتنی کم عمری میں بلا لیا"۔


۔ یا کہا ۔ نیک لوگوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ جلدی اٹھا لیتا ہے کیوں کہ ایسوں کی اللہ عَزَّوَجَلَّ کو بھی ضَرورت پڑتی ہے


۔ یااللہ ! تجھے بچّوں پر بھی ترس نہیں آیا


☄۔ االلہ ! ہم نے تیرا کیابِگاڑا ہے! آخِر ملکُ الموت کوہمارے ہی گھر والوں کے پیچھے کیوں لگا دیا ہے


☄۔ اچّھا ہے جہنَّم میں جائیں گے کہ فلمی اداکار ئیں بھی تو وہیں ہوں گی نہ مزہ آجائے گا۔


۔ اکثر لوگ فیس بک پر اس طرح کے لطائف لکھ ڈالتے ہیں۔ یہ بھی کفر ہے۔ جیسے اگر تم لوگ جنّت میں چلے بھی گئے تو سگریٹ جلانے کیلئے تو ہمارے ہی پاس (یعنی دوزخ میں)آنا پڑے گا


۔ آؤ ظہر کی نماز پڑھیں ، دوسرے نے مذاق میں جواب دیا :یا ر ! آج تو چُھٹّی کا دن ہے ، نَماز کی بھی چُھٹّی ہے ۔


۔ کسی نے مذاق میں کہا:''بس جی چاہتا ہے یہودی یا عیسائی یا قادیانی بن جاؤں۔ ویزہ تو جلدی مل جاتا ہے نا۔


☄۔ صبح صبح دعا مانگ لیا کرو اس وقت اللہ فارِغ ہوتا ہے


☄۔ اتنی نیکیاں نہ کرو کہ خُدا کی جزا کم پڑجائے


☄۔ خُدا نے تمہارے بال بڑی فرصت سے بنائے ہیں


☄۔ زید نے کہا:یار!ہوسکتا ہے آج بارش ہوجائے۔ بکرنے کہا:''نہیں یار ! اللہ تو ہمیں بھول گیا ہے۔


☄شریعت کے کسی حکم,قرآن مجیدیا نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا مذاق اڑانا کفر ہے۔


☄۔ دنیا بنانے والے کیا تیرے من میں سمائی؟ تو نے کاہے کو دنیا بنائی؟ (گانا)


☄۔ حسینوں کو آتے ہیں کیا کیا بہانے ۔ خدا بھی نہ جانے تو ہم کیسے جانے (گانا)


☄۔ میری نگاہ میں کیا بن کے آپ رہتے ہیں ۔ قسم خدا کی ' خدا بن کے آپ رہتے ہیں ۔ (گانا) اس طرح کے بے شمار گانے جو ہمارے مسلما ن اکثر گنگناتے دیکھائی دیتے ہیں۔


☄۔ نَماز کی دعوت دینے پر کسی نے کہا:''ہم نے کون سے گُناہ کئے ہیں جن کو بخْشوانے کیلئے نَماز پڑھیں۔


ایک نے طبیعت پوچھی تو دوسرے نے مذاق کرتے ہوئے جواب دیا: نصْرمِّنَ اللہِ وَ ٹِّھیک ۔ کہہ دیا ۔کہنے والے پر حکم کفر ہے کہ آیت کو تبدیل کرنے کی کوشش ہے۔


☄۔ رَحمٰن کے گھر شیطان اور شیطان کے گھر رَحمٰن پیدا ہوتا ہے۔


☄۔مسلمان بن کر امتحان میں پڑ گیا ہوں۔


نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے:


*''ان فِتنوں سے پہلے نیک اعمال کے سلسلے میں جلدی کرو !جو تاریک رات کے حِصّوں کی طرح ہوں گے، ایک آدَمی صُبح کو مومِن ہو گا اور شام کو کافِر ہوگااور شام کو مومِن ہوگااور صُبح کو کافِر ہوگا ۔ نیز اپنے دین کو دُنیاوی سازو سامان کے بدلے فروخت کر دے گا۔ '' 


(مُسلِم حدیث118ص73)

کفریہ کلمات متعین اور محدود نہیں ہیں کہ ان سبھی کو بیان کیا جاسکے، البتہ وہ کلمات  جو اسلامی ضروری عقائد کے خلاف ہیں، اور ان میں درست  تاویل کا احتمال نہ ہو، انہیں جان بوجھ  کر  کہنے سے آدمی اسلام سے نکل جاتا ہے اور مسلمان عورت سے اس کا نکاح بھی ختم ہوجاتا ہے‘‘۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 222):
"وفي الفتح: من هزل بلفظ كفر ارتد وإن لم يعتقده للاستخفاف فهو ككفر العناد.
(قوله: من هزل بلفظ كفر) أي تكلم به باختياره غير قاصد معناه، وهذا لاينافي ما مر من أن الإيمان هو التصديق فقط أو مع الإقرار لأن التصديق، وإن كان موجوداً حقيقةً لكنه زائل حكماً؛ لأن الشارع جعل بعض المعاصي أمارة على عدم وجوده كالهزل المذكور، وكما لو سجد لصنم أو وضع مصحفاً في قاذورة فإنه يكفر، وإن كان مصدقاً لأن ذلك في حكم التكذيب، كما أفاده في شرح العقائد، وأشار إلى ذلك بقوله: للاستخفاف، فإن فعل ذلك استخفافاً واستهانةً بالدين فهو أمارة عدم التصديق، ولذا قال في المسايرة: وبالجملة فقد ضم إلى التصديق بالقلب، أو بالقلب واللسان في تحقيق الإيمان أمور الإخلال بها إخلال بالإيمان اتفاقا، كترك السجود لصنم، وقتل نبي والاستخفاف به، وبالمصحف والكعبة.
وكذا مخالفة أو إنكار ما أجمع عليه بعد العلم به لأن ذلك دليل على أن التصديق مفقود، ثم حقق أن عدم الإخلال بهذه الأمور أحد أجزاء مفهوم الإيمان فهو حينئذ التصديق والإقرار وعدم الإخلال بما ذكر بدليل أن بعض هذه الأمور، تكون مع تحقق التصديق والإقرار، ثم قال ولاعتبار التعظيم المنافي للاستخفاف كفر الحنفية بألفاظ كثيرة، وأفعال تصدر من المنتهكين لدلالتها على الاستخفاف بالدين كالصلاة بلا وضوء عمدا بل بالمواظبة على ترك سنة استخفافا بها بسبب أنه فعلها النبي صلى الله عليه وسلم زيادة أو استقباحها كمن استقبح من آخر جعل بعض العمامة تحت حلقه أو إحفاء شاربه اهـ. قلت: ويظهر من هذا أن ما كان دليل الاستخفاف يكفر به، وإن لم يقصد الاستخفاف لأنه لو توقف على قصده لما احتاج إلى زيادة عدم الإخلال بما مر لأن قصد الاستخفاف مناف للتصديق (قوله: فهو ككفر العناد) أي ككفر من صدق بقلبه وامتنع عن الإقرار بالشهادتين عنادا ومخالفة فإنه أمارة عدم التصديق".

الفتاوى الهندية (2/ 283):
"رجل كفر بلسانه طائعاً، وقلبه مطمئن بالإيمان يكون كافراً، ولايكون عند الله مؤمناً، كذا في فتاوى قاضي خان".

کافر کو کافر کہنا:


بعض اوقات یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کافر کو کافر کہنا درست ہے یا نہیں؟اس سلسلہ میں اصول یہ  ہےکہ کسی کے کافریامومن ہونے کا ثبوت قطعی یا ظنی وجوہ کی بنا پر ہوگا۔ جیسے ابو لہب، شداد، ہامان وغیرہ کا کافر ہونا قطعی طور پر ثابت ہے لہذا ان کو  کافر کہنا درست ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے بھی اللہ تعالیٰ نے  قرآن مجید میں جابجافرمایا جیسے :  قل یا ایھا الکافرون

(الکافرون۱۰۹:۱) 

آپ فرما دیجیے اے کافرو!
اس آیت سے ان لوگوں کو کافر کہنے کا  صاف طورپرجواز معلوم ہوتا ہے جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی براہ راست تکذیب کی۔اسی طرح بعض لوگوں کا کافر ہونا ان کے کفریہ عقائد یا کفریہ اعمال سے اس قدر ثابت ہو جاتا ہے کہ ان کے کفر میں کسی بھی قسم کا تامل یا شک باقی نہیں رہتا۔ جیسے مسیلمہ کذاب یا منکرین زکوٰۃ کاکافرہونا ۔ 

تکفیری محاذ قائم کرنا:

بعض حضرات اسلام کا دائرہ اتنا تنگ کر لیتے ہیں کہ انہیں اپنی ذات کے علاوہ کوئی مسلمان نظر نہیں آتا۔اسی طرح سے بعض حضرات اسلام کا دائرہ اتنا وسیع کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ انہیں کوئی کافر نظر نہیں آتا۔یہاں تک کہ وہ یہود و نصاری کو بھی مسلمان اوربعد از انتقال مستحق جنت سمجھتے ہیں۔ان غیر معتدل رویوں سے بچنا چاہئے۔اسلام مکمل ہو چکا ہے کسی کو دین میں کمی یا اضافہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔

إن الدين عند الله الإسلام

Friday 26 February 2021

طارق بن زیاد علیہ الرحمہ

 

طارق بن زیاد(انتقال 720ء)عہداموی میں بربر نسل کےعظیم جرنیل تھے۔ انہوں نے 711ء میں ہسپانیہ (اسپین) کی مسیحی حکومت کو بے دخل کرکے یورپ میں مسلم اقتدار کا آغاز کیا۔ وہ ہسپانوی تاریخ میں Taric el Tuerto کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ انہیں اسپین کی تاریخ کے اہم ترین عسکری رہنماؤں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ شروع میں وہ اموی صوبہ افریقیہ کے گورنر موسی بن نصیر کے نائب تھے جنہوں نے ہسپانیہ میں وزیگوتھ بادشاہ کے مظالم سے تنگ عوام کے مطالبے پر طارق کو ہسپانیہ پر چڑھائی کا حکم دیا۔


30 اپریل 711ء کو طارق کی افواج جبرالٹر پر اتریں۔ واضح رہے کہ جبرالٹر اس علاقے کے عربی نام جبل الطارق کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ اسپین کی سرزمین پر اترنے کے بعد طارق بن زیادنے تمام کشتیوں کو جلادینے کا حکم دیا۔ تاکہ فوج فرار کے بارے میں سوچ بھی نہ سکے۔


انہوں نے 7 ہزار کے مختصر لشکر کے ساتھ پیش قدمی شروع کی اور بعد ازاں 19 جولائی کو جنگ وادی لکہ میں وزیگوتھ حکمران لذریق کے ایک لاکھ کے لشکر کا سامنا کیا اور معرکے میں ایک ہی دن میں بدترین شکست دی۔ جنگ میں روڈرک مارا گیا۔


فتح کے بعد طارق نے بغیر کسی مزاحمت کے دار الحکومت طلیطلہ پر قبضہ کر لیا۔ طارق کو ہسپانیہ کا گورنر بنادیا گیا لیکن جلد انہیں دمشق طلب کیا گیا کیونکہ خلیفہ ولید اول سے ہسپانیہ پر چڑھائی کی اجازت نہیں لی گئی تھی۔


اندلس پر چڑھائی سے پہلے  درج ذیل خطبہ دیا:


يا أيها الناس، أين المفرّ؟ البحر من ورائكم والعدو أمامكم، وليس لكم والله إلا الصدق والصبر، واعلموا أنكم في هذه الجزيرة أضيع من الأيتام في مأدبة اللئام وقد استقبلكم عدوكم بجيشه وأسلحته وأقواته موفورة وأنتم لا وَزَرَ لكم إلا سيوفكم، ولا أقوات لكم إلا ما تستخلصونه من أيدي عدوكم وأن امتدت بكم الأيام على افتقاركم ولم تنجزوا لكم أمراً، ذهبت ريحكم وتعوضت القلوب من رُعبها منكم الجرأة عليكم فادفعوا عن انفسكم خذلان هذه العاقبة من أمركم بمناجزة هذا الطاغية، فقد ألقت به إليكم مدينته الحصينة، وإن انتهاز الفرصة فيه لممكن إن سمحتم لأنفسكم بالموت، وإني لم أحذركم أمراً أنا عنه بنجوة ولا حملتكم على خطة أرخص متاع فيها النفوس إلا وانا أبدأ بنفسي.

واعلموا أنكم إن صبرتم على الأشق قليلاً استمتعتم بالأرفة الألذ طويلا فلا ترغبوا بأنفسكم عن نفسي فما حظكم فيه بأوفى من حظي وقد بلغتم ما أنشأت هذه الجزيرة من الحور الحسان من بنات اليونان الرافلات في الدرِّ والمرجان والحلل المنسوجة بالعقيان، المقصورات في قصور الملوك ذي التيجان وقد انتخبكم الوليد بن عبد الملك أمير المؤمنين من الأبطال عربانا، ورضيكم لملوك هذه الجزيرة أصهارا وأختانا، ثقة منه بارتياحكم للطعان واستماحكم بمجادلة الأبطال والفرسان ليكون حظه منكم ثواب الله على إعلاء كلمته وإظهار دينه بهذه الجزيرة وليكون مغنمها خالصة لكم من دونه ومن دون المومنين سواكم والله تعالى ولي إنجادكم على ما يكون لكم ذكرا في الدارين.

واعلموا أنني أول مجيب إلى ما دعوتكم إليه وأني عند ملتقى الجمعين حامل بنفسي على طاغية القوم لُذْريق فقاتله إن شاء الله تعالى فاحملوا معي، فإن هلكت بعده فقد كفيتكم أمره ولم يعوزكم بطل عاقل تسندون أموركم إليه وإن هلكت قبل وصولي إليه فاخلفوني في عزيمتي هذه، واحملوا بأنفسكم عليه واكتفوا الهم من فتح هذه الجزيرة بقتله، فإنهم بعده يخذلون” .

المقري، نفح الطيب بيروت  1968 ج 1)


نقلاً عن التاريخ الأندلسي من خلال النصوص،


مجموعة من المؤلفين،


شركة النشر والتوزيع المدارس، الدار البيضاء، 1991.)

اردو ترجمہ:


لوگو!اب راہ فرار کہاں ,سمندرتمہارے پیچھے ہے


  اور دشمن تمہارے آگے۔ بخدا! تمہارے لیے صدق و صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

 یادرکھو! تم اس جزیرہ نما میں اس قدر بے وقعت ہو کہ کم ظرف لوگوں کے دسترخوان پر یتیم بھی اتنے بے وقعت نہیں ہوتے۔ تمہارا دشمن اپنے لشکر، اسلحے اور وافر خوراک کے ساتھ تمہارے مقابلے میں نکلا ہے۔ ادھر تمہارے پاس کچھ نہیں سوائے اپنی تلواروں کے۔ یہاں اگر تمہاری اجنبیت کے دن لمبے ہو گئے تو تمہارے لیے خوراک بس… وہی ہے جو تم اپنے دشمن کے ہاتھوں سے چھین لو۔ 


اگر تم یہاں کوئی معرکہ نہ مار سکے تو تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور تمہاری جرات کے بجائے تمہارے دلوں پر دشمن کا رعب بیٹھ جائے گا۔ اس سرکش قوم کی کامیابی کے نتیجے میں جس ذلت و رسوائی سے دوچار ہونا پڑے گا اس سے اپنے آپ کو بچاؤ۔ دشمن نے اپنے قلعہ بند شہر تمہارے سامنے ڈال دیے ہیں۔ آکر تم جان کی بازی لگانے کو تیار ہو جاؤ تو تم اس موقع سے فائدہ اٹھا سکتے ہو۔ میں تمہیں ایسے کسی خطرے میں نہيں ڈال رہا جس میں کودنے سے خود گریز کروں۔ اس جزیرہ نما میں اللہ کا کلمہ بلند کرنے اور اس کے دین کے فروغ دینے پر اللہ کی طرف سے ثواب تمہارے لیے مقدر ہو چکا ہے۔ یہاں کے غنائم خلیفہ اور مسلمانوں کے علاوہ خاص تمہارے لیے ہوں گے۔

 اللہ تعالیٰ نے کامیابی تمہاری قسمت میں لکھ دی ہے، اس پر دونوں جہان میں تمہارا ذکر ہوگا۔ یاد رکھو! میں تمہیں جس چیز کی دعوت دیتا ہوں اس پر خود لبیک کہہ رہا ہوں۔ میں میدان جنگ میں اس قوم کے سرکش راڈرک پر خود حملہ آور ہوں گا اور ان شاء اللہ اسے قتل کر ڈالوں گا۔ تم سب میرے ساتھ ہی حملہ کر دینا۔ اگر اس کی ہلاکت کے بعد میں مارا جاؤں تو تمہیں کسی اور ذی فہم قائد کی ضرورت نہیں رہے گی اور اگر میں اس تک پہنچنے سے پہلے ہلاک ہو جاؤں تو میرے عزم کی پیروی کرتے ہوئے جنگ جاری رکھنا اور سب مل کر اس پر ہلہ بول دینا۔ اس کے قتل کے بعد اس جزیرہ نما کی فتح کا کام پایۂ تکمیل کو پہنچانا۔ راڈرک کے بعد اس کی قوم مطیع ہو جائے گی۔


Tuesday 23 February 2021

الفاظ کنائی سے طلاق بائن واقع ہونے کی وجہ

 چونکہالفاظِ طلاق سے اصل مقصود نکاح ختم کرنا ہوتا ہے، اس لیے قیاس کاتقاضہ تو یہی تھا کہ طلاق کے تمام  ہی الفاظ سے طلاقِ بائن ہی واقع ہو تی اور الفاظ طلاق کی ادائیگی کے فوراً بعد ہی نکاح ختم ہو جاتا خواہ اس کے لیے الفاظِ صریح استعمال کیے جاتے یا کنائی،  لیکن بعض مواقع پر عدت تک نکاح کا نہ ٹوٹنا اور رجوع کا حق باقی رہنا نصوص سے ثابت ہے، اس لیے صریح الفاظ سے طلاقِ رجعی واقع ہوتی ہے اور نکاح باقی رہتا ہے تاوقتیکہ عدت ختم ہو جائے اور الفاظِ کنائی میں قیاس کے مقتضیٰ کے مطابق طلاقِ بائن واقع ہوتی ہے اور فوراً نکاح ختم ہو جاتا ہے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3/ 109)

" الأصل في اللفظ المطلق عن شرط أن يفيد الحكم فيما وضع له للحال والتأخر فيما بعد الدخول إلى وقت انقضاء العدة ثبت شرعًا بخلاف الأصل فيقتصر على مورد الشرع فبقي الحكم فيما قبل الدخول على الأصل."

صفوة التفاسير (1/ 131):

{الطلاق مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ} أي الطلاق المشروع الذي يملك به الزوج الرجعة مرتان وليس بعدهما إِلا المعاشرة بالمعروف مع حسن المعاملة أو التسريح بإِحسان بألا يظلمها من حقها شيئاً ولايذكرها بسوء ولاينفّر الناس عنها."

مختصر تفسير البغوي المسمى بمعالم التنزيل (1/ 88):

"قوله تعالى: {فإمساك بمعروف}[البقرة: 229] قيل: أراد بالإمساك الرجعة بعد الثانية، والصحيح أن المراد منه بعد الرجعة، يعني: إذا راجعها بعد الطلقة الثانية فعليه أن يمسكها بالمعروف، والمعروف كل ما يعرف في الشرع من أداء حقوق النكاح وحسن الصحبة."

Friday 19 February 2021

ایک مشت داڑھی سے زائد تراشنا

 بالوں کی لمبائی کے لحاظ سے داڑھی کی مقدار ایک مشت ہے، اس سے زائد بال کاٹ سکتے ہیں، اور ایک مشت سے بہت زیادہ لمبی داڑھی رکھنا  سنت کے خلاف ہے،  مشت سے اتنی زیادہ داڑھی رکھی جائے جس میں خوب صورتی اور وقار ہو،  ایک مشت سے زائد داڑھی کو کاٹ کر گولائی میں کرنا  حضرت ابن عمراور حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہما کی روایت سے ثابت ہے:

' عن ابن عمرؓ عن البني صلی اﷲ علیه وسلم قال: خالفوا المشرکین، وفروا اللحیٰ، واحفوا الشوارب، وکان ابن عمر إذا حج، أوعمر قبض علی لحیته فما فضل أخذه.'

(صحیح البخاري ، کتاب اللباس، باب تقلیم الأظفار ۲/۸۷۵، رقم: ۵۶۶۳، ف:۵۸۹۲)

' وقد روي عن أبي هریرة أیضاً أنه کان یقبض علی لحیته فیأخذ مافضل عن القبضة.'  (هامش الترمذي ۲/۱۰۵)
'عن الحسن قال: کانوا یرخصون فیمازاد علی القبضة من اللحیة: أن یؤخذ منها'۔ (مصنف ابن أبي شیبة، مؤسسة علوم القرآن بیروت۱۳/۱۱۲، رقم:۲۵۹۹۵)
'عن أبي هریرة: أنه کان یأخذ من لحیته ماجاز القبضة'۔ (مصنف ابن أبي شیبة ۱۳/۱۱۳، رقم:۲۵۹۹۹) 'عن عمرو بن شعیب عن أبیه عن جده، أن رسول اﷲ صلی اﷲ علیه کان یأخذ من لحیته من طولها وعرضها.'

(سنن الترمذي، کتاب الأدب، باب ماجاء في الأخذ اللحیة، النسخة الهندیة ۲/۱۰۵، دار السلام رقم: ۲۷۶۲)

Tuesday 16 February 2021

ناجائز ٹیکسز میں سودی رقم دینا:

 جی ایس ٹی میں سود کی رقم دینا


حکومت ہند آجکل اٹھارہ فیصد جی ایس ٹی

 وصول کرتی ہے جو غیرشرعی او رغیر واجبی ہے اس لیے کہ ہر خام مال پر جو حکومت ٹیکس وصول کرتی ہے وہ علحدہ ہے پھر جب مال تیار ہوکر مارکٹ میں آجاتا ہے تو دوبارہ اس پر جی ایس ٹی کے نام سے رقم وصول کرتی ہے جس کی وجہ سے عام گاہک پر اس کا سیدھا بوجھ پڑتا ہے ،کیوں کہ مال تیار کرنے والا جو حکومت کو مال پر جی ایس ٹی دیتا ہے وہ تاجروں سے وصول کرلیتا ہے پھر تاجر حضرات جو مال بیچنے پر جی ایس ٹی دیتے ہیں وہ صارف سے لے لیتے ہیں اس طرح مال بنانے والے اور مال بیچنے والے پر اس کا اثر نہیں پڑتا ہے ؛بلکہ ان کو جی ایس ٹی ریٹرن کے نام پر مزید فائدہ بھی ہوجاتا ہے اس کا اصل بوجھ استعمال کرنے والے صارفین پر پڑتاہے اس لیے اگر کوئی صارف کوئی سامان خریدے اور کمپنی کی طرف سے اس کو صراحت کردی جائے یا بل پر لکھ دیا جائے کہ یہ مال اتنے کا ہے اور اس پر اتنا جی ایس ٹی ہے تو صارف اس میں بھی بینک انٹرسٹ کی رقم دے سکتاہے اس لیے کہ حکومت کا پیسہ حکومت کو پہونچ گیا اور صارف کا ذمہ بھی بری ہوگیا تو جس طرح انکم ٹیکس میں اس کے غیر شرعی ہونے کی وجہ سے انٹرسٹ کا پیسہ دینا جائز ہے اسی طرح جی ایس ٹی کے غیر شرعی ہونے کی وجہ سے اس میں انٹرسٹ کا پیسہ دینا جائز ہے ۔


بلانیت ثواب صدقہ کرنا


چونکہ سود  قطعی نصوص سے حرام ہے اس کا وصول کرنا ہی ناجائز ہے،لہذا اگر غلطی سے وصول کرلیا ہو تو اس کا حکم یہ ہے کہ اس کے  مالک کو لوٹادیا جائے اور اگر یہ ممکن نہ ہوتو ثواب کی نیت کے بغیر  صدقہ کردیا جائے۔ اور اگر غفلت یا لاعلمی میں  حکومتی ادارہ یا حکومتی بینک سے  سود وصول کرلیا گیا ہو تو انکم ٹیکس کی  مد میں دینے کی گنجائش ہوگی۔  تاہم اس میں یہ ملحوظ رہے  انکم ٹیکس میں رقم دینے کے لیے سود لینا جائز نہیں ہوگا ، بلکہ سود لینے کا کبیرہ گناہ ہوگا۔ 


'فتاوی شامی'  میں ہے:


"والحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له، ويتصدق به بنية صاحبه".


(5/99، مَطْلَبٌ فِيمَنْ وَرِثَ مَالًا حَرَامًا، ط: سعید)


وفیه أیضاً:



"(ويجب رد عين المغصوب) ما لم يتغير تغيراً فاحشاً، مجتبى (في مكان غصبه)؛ لتفاوت القيم باختلاف الأماكن (ويبرأ بردها ولو بغير علم المالك) في البزازية: غصب دراهم إنسان من كيسه ثم ردها فيه بلا علمه برئ، وكذا لو سلمه إليه بجهة أخرى كهبة أو إيداع أو شراء".(6/ 182)


انکم ٹیکس,سیل ٹیکس میں سودی رقم دینا:


انکم ٹیکس اور سیل ٹیکس میں سرکاری بینک سے ملا ہوا سود کا پیسہ اس نیت سے دینا جائز ہے کہ ناجائز پیسہ جہاں سے آیا ہے وہاں واپس کیا جارہا ہے؛ اس لئے کہ مال حرام میں اصل حکم شرعی یہ ہے کہ حرام جہاں سے آیا ہے کسی بھی عنوان سے اسے واپس کردیا جائے؛ لہٰذا سیل ٹیکس اور انکم ٹیکس کے عنوان سے سرکار کو دینا جائز ہے۔

صرح الفقہاء بأن من اکتسب مالا بغیر حق، فإما أن یکون کسبہ بعقد فاسد کالبیوع الفاسدۃ والاستیئجار علی المعاصي أو بغیر عقد کالسرقۃ، والغصب، والخیانۃ، والغلول، ففي جمیع الأحوال المال الحاصل لہ حرام علیہ، ولکن إن أخذہ من غیر عقد لم یملکہ، ویجب علیہ أن یردہ علی مالکہ إن وجد المالک۔ (بذل المجہود، کتاب الطہارۃ، باب فرض الوضوء سہارنپور ۱/ ۳۷، دارالبشائر الإسلامیۃ ۱/ ۳۵۹، رقم الحدیث ۵۹، ہندیۃ، زکریا قدیم ۵/ ۳۴۹، جدید ۵/ ۴۰۴، شامي، زکریا ۹/ ۵۵۳، کراچی ۶/ ۳۸۵، البحرالرائق، زکریا ۹/ ۳۶۹، کوئٹہ ۸/ ۲۰۱)


Sunday 14 February 2021

مسٹرٹرمپ کامواخذہ

 سابق امریکی صدرمسٹرڈونالڈٹرمپ نے حالیہ الیکشن کے نتائج آنے پر  جورویہ اپنایا اورمسٹربایڈن پراخیرتک الیکشن چوری کرنے کاالزام لگاتے رہے اپنےپرستاروں کو برسرعام تشددپراکساتے رہے بالآخران پرستاروں نے کیپٹل ہلز پرحملہ کردیا جس کے نتیجے میں پانچ افراد ہلاک ہوئے.اس کے باوجودامریکی سیینٹ میں ٹرمپ کے خلاف مواخذہ کی تحریک ناکام ہوگئ کیونکہ ان کے خلاف تحریک کی کامیابی کےلئے مزید دس ووٹوں کی ضرورت تھی ان کی پارٹی کے صرف سات افراد نے ان کے خلاف ووٹ دیا  باقی ممبران گانگریس نے اپنی پارٹی کی حمایت کرتے ہوئے مسٹرٹرمپ کے خلاف مواخذے کوناکام بنادیا اس سے یہ حقیقت پوری دنیاپر عیاں ہوگئ ہے کہ امریکہ میں بھی موقعہ پرست حقیقت سے آنکھ موندنے والے ممبران کی اکثریت ہے جنہیں سچائی سے نفرت  اور اپنے اقتدار سے محبت ہے.مسٹربائڈن کا یہ کہنا درست ہے امریکہ میں جمہوریت ابھی کمزور ہے.مواخذہ کوناکام بناکر امریکی کانگریس نے مسِرٹرمپ کو مزید موقعہ دیا ہے کہ وہ پہلے سے بھی زیادہ خطرناک حملہ امریکی جمہوریت پر کریں تاکہ آئندہ پوری کانگریس ان کے خلاف متفقہ طورپر مواخذہ کی تحریک پاس کرسکے.آئندہ لیکن آئندہ ایلکشن  تک اس کاانتظار کرنا ہوگا حب مسٹر ٹرمپ دوبارہ صدارتی انتخابات لڑیں گے.یہ درست ہے کہ تحریک مواخذہ کی ناکامی نے پوری دنیامیں جمہوریت کوشرمندہ کیا ہے. جن سات افراد نے اپنی پارٹی سے ہٹ  کر مسٹرٹرمپ کے خلاف ووٹ دیا وہ یقیناحقیقت پسند اور جمہوریت نواز ہیں ان کے جذبات قابل قدراورلائق صدستائش ہیں.لیکن تحریک مواخذہ کی ناکامی سے  یہ حقیقت پورے طورپر واضح ہوچکی ہے کہ پوری دنیا میں عیاری ومکاری دجل و فریب ظلم وبربریت کا بول بالا ہے.