https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 16 February 2021

ناجائز ٹیکسز میں سودی رقم دینا:

 جی ایس ٹی میں سود کی رقم دینا


حکومت ہند آجکل اٹھارہ فیصد جی ایس ٹی

 وصول کرتی ہے جو غیرشرعی او رغیر واجبی ہے اس لیے کہ ہر خام مال پر جو حکومت ٹیکس وصول کرتی ہے وہ علحدہ ہے پھر جب مال تیار ہوکر مارکٹ میں آجاتا ہے تو دوبارہ اس پر جی ایس ٹی کے نام سے رقم وصول کرتی ہے جس کی وجہ سے عام گاہک پر اس کا سیدھا بوجھ پڑتا ہے ،کیوں کہ مال تیار کرنے والا جو حکومت کو مال پر جی ایس ٹی دیتا ہے وہ تاجروں سے وصول کرلیتا ہے پھر تاجر حضرات جو مال بیچنے پر جی ایس ٹی دیتے ہیں وہ صارف سے لے لیتے ہیں اس طرح مال بنانے والے اور مال بیچنے والے پر اس کا اثر نہیں پڑتا ہے ؛بلکہ ان کو جی ایس ٹی ریٹرن کے نام پر مزید فائدہ بھی ہوجاتا ہے اس کا اصل بوجھ استعمال کرنے والے صارفین پر پڑتاہے اس لیے اگر کوئی صارف کوئی سامان خریدے اور کمپنی کی طرف سے اس کو صراحت کردی جائے یا بل پر لکھ دیا جائے کہ یہ مال اتنے کا ہے اور اس پر اتنا جی ایس ٹی ہے تو صارف اس میں بھی بینک انٹرسٹ کی رقم دے سکتاہے اس لیے کہ حکومت کا پیسہ حکومت کو پہونچ گیا اور صارف کا ذمہ بھی بری ہوگیا تو جس طرح انکم ٹیکس میں اس کے غیر شرعی ہونے کی وجہ سے انٹرسٹ کا پیسہ دینا جائز ہے اسی طرح جی ایس ٹی کے غیر شرعی ہونے کی وجہ سے اس میں انٹرسٹ کا پیسہ دینا جائز ہے ۔


بلانیت ثواب صدقہ کرنا


چونکہ سود  قطعی نصوص سے حرام ہے اس کا وصول کرنا ہی ناجائز ہے،لہذا اگر غلطی سے وصول کرلیا ہو تو اس کا حکم یہ ہے کہ اس کے  مالک کو لوٹادیا جائے اور اگر یہ ممکن نہ ہوتو ثواب کی نیت کے بغیر  صدقہ کردیا جائے۔ اور اگر غفلت یا لاعلمی میں  حکومتی ادارہ یا حکومتی بینک سے  سود وصول کرلیا گیا ہو تو انکم ٹیکس کی  مد میں دینے کی گنجائش ہوگی۔  تاہم اس میں یہ ملحوظ رہے  انکم ٹیکس میں رقم دینے کے لیے سود لینا جائز نہیں ہوگا ، بلکہ سود لینے کا کبیرہ گناہ ہوگا۔ 


'فتاوی شامی'  میں ہے:


"والحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له، ويتصدق به بنية صاحبه".


(5/99، مَطْلَبٌ فِيمَنْ وَرِثَ مَالًا حَرَامًا، ط: سعید)


وفیه أیضاً:



"(ويجب رد عين المغصوب) ما لم يتغير تغيراً فاحشاً، مجتبى (في مكان غصبه)؛ لتفاوت القيم باختلاف الأماكن (ويبرأ بردها ولو بغير علم المالك) في البزازية: غصب دراهم إنسان من كيسه ثم ردها فيه بلا علمه برئ، وكذا لو سلمه إليه بجهة أخرى كهبة أو إيداع أو شراء".(6/ 182)


انکم ٹیکس,سیل ٹیکس میں سودی رقم دینا:


انکم ٹیکس اور سیل ٹیکس میں سرکاری بینک سے ملا ہوا سود کا پیسہ اس نیت سے دینا جائز ہے کہ ناجائز پیسہ جہاں سے آیا ہے وہاں واپس کیا جارہا ہے؛ اس لئے کہ مال حرام میں اصل حکم شرعی یہ ہے کہ حرام جہاں سے آیا ہے کسی بھی عنوان سے اسے واپس کردیا جائے؛ لہٰذا سیل ٹیکس اور انکم ٹیکس کے عنوان سے سرکار کو دینا جائز ہے۔

صرح الفقہاء بأن من اکتسب مالا بغیر حق، فإما أن یکون کسبہ بعقد فاسد کالبیوع الفاسدۃ والاستیئجار علی المعاصي أو بغیر عقد کالسرقۃ، والغصب، والخیانۃ، والغلول، ففي جمیع الأحوال المال الحاصل لہ حرام علیہ، ولکن إن أخذہ من غیر عقد لم یملکہ، ویجب علیہ أن یردہ علی مالکہ إن وجد المالک۔ (بذل المجہود، کتاب الطہارۃ، باب فرض الوضوء سہارنپور ۱/ ۳۷، دارالبشائر الإسلامیۃ ۱/ ۳۵۹، رقم الحدیث ۵۹، ہندیۃ، زکریا قدیم ۵/ ۳۴۹، جدید ۵/ ۴۰۴، شامي، زکریا ۹/ ۵۵۳، کراچی ۶/ ۳۸۵، البحرالرائق، زکریا ۹/ ۳۶۹، کوئٹہ ۸/ ۲۰۱)


No comments:

Post a Comment