https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 13 November 2021

حکایت وتمثیل سے طلاق واقع نہیں ہوتی

 کتاب  سے مسئلہ پڑھنے کی صورت میں  جو طلاق کے الفاظ بولے یا لکھے جاتے ہیں وہ بطورِ حکایت کسی کی گفتگو نقل کرنا ہوتے ہیں ، ان سے طلاق دینا مقصود نہیں ہوتا اور شرعاً کسی دوسرے  کے طلاق کے الفاظ  نقل کرنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔۔

 البحر الرائق شرح كنز الدقائق ـ  (9/ 183)
 "لَوْ كَرَّرَ مَسَائِلَ الطَّلَاقِ بِحَضْرَةِ زَوْجَتِهِ، وَيَقُولُ: أَنْتِ طَالِقٌ وَلَا يَنْوِي لَا تَطْلُقُ ، وَفِي مُتَعَلِّمٍ يَكْتُبُ نَاقِلًا مِنْ كِتَابِ رَجُلٍ قَالَ: ثُمَّ يَقِفُ وَيَكْتُبُ : امْرَأَتِي طَالِقٌ، وَكُلَّمَا كَتَبَ قَرَنَ الْكِتَابَةَ بِاللَّفْظِ بِقَصْدِ الْحِكَايَةِ لَا يَقَعُ عَلَيْهِ".

شیخ وہبہ الزحیلی لکھتے ہیں :

طلاق الحكاية والتمثيل ـ لغايات التعليم أو الإخبار ما هو طلاق التمثيل؟ المقصود بذلك أن يتلفظ رجل بلفظ الطلاق الصريح قاصدًا نقل خبر، أو قراءة نص في كتاب من كتب الفقه، أو كالمعلم الذي يضرب مثالًا لطلاب العلم، وهو لا يقصد الطلاق، فلا خلاف بين العلماء في أن من نقل عن نفسه أو غيره طلاقًا سابقًا على سبيل الإخبار والحكاية، أو ردد عبارة طلاق على جهة الحفظ من كتاب بقصد المذاكرة، أو توضيح المعلم للتلاميذ، فلا يعدّ هذا الطلاق واقعًا على زوجة المتكلم، لأنه لا يقصدها ولا يستحضرها عند اللفظ، ولا يقصد بذلك إنشاء الطلاق.[

الفقه الإسلامى وأدلته: ،الصفحة:304

طلاق التمثيل أوا لحكاية

 طلاق الحكاية والتمثيل ـ لغايات التعليم أو الإخبار ما هو طلاق التمثيل؟ المقصود بذلك أن يتلفظ رجل بلفظ الطلاق الصريح قاصدًا نقل خبر، أو قراءة نص في كتاب من كتب الفقه، أو كالمعلم الذي يضرب مثالًا لطلاب العلم، وهو لا يقصد الطلاق، فلا خلاف بين العلماء في أن من نقل عن نفسه أو غيره طلاقًا سابقًا على سبيل الإخبار والحكاية، أو ردد عبارة طلاق على جهة الحفظ من كتاب بقصد المذاكرة، أو توضيح المعلم للتلاميذ، فلا يعدّ هذا الطلاق واقعًا على زوجة المتكلم، لأنه لا يقصدها ولا يستحضرها عند اللفظ، ولا يقصد بذلك إنشاء الطلاق.[

الفقه الإسلامى وأدلته:وهبه الزحيلى ،الصفحة:3040

Friday 12 November 2021

عذاب قبرکا ثبوت

 عذابِ قبر حق ہے۔ قرآنِ مجید کی کئی آیتوں سے عذاب قبر ثابت ہے، ارشاد ربانی ہے:

1-{اَلنَّارُیُعْرَضُوْنَ عَلَیْها غُدُوًّا وَّعَشِیًّا وَّیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوْا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَاب} [المؤمن:46]

ترجمہ: ’’ وہ لوگ (برزخ میں) صبح اور شام آگ کے سامنے لائے جاتے ہیں، اور جس روز قیامت قائم ہوگی (حکم ہوگا) فرعون والوں کو (مع فرعون کے) نہایت سخت آگ میں داخل کرو۔‘‘ (بیان القرآن)

اس آیت میں فرعونیوں کا عالمِ برزخ میں عذاب میں مبتلا ہونا صراحتًا مذکور ہے، اسی طرح تمام کفار و مشرکین اور بعض گناہ گار مؤمنین کو برزخ میں عذاب دیا جاتاہے، جیساکہ بہت سی صحیح احادیث میں مذکور ہے۔

2- {حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ (99)لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ ۚ كَلَّا ۚ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا ۖ وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ(100)فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ فَلَا أَنسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَلَا يَتَسَاءَلُونَ(101)}[المؤمنون: 99-101]

ترجمہ: ’’یہاں تک کہ جب پہنچے ان میں کسی کو موت، کہے گا: اے رب مجھ کو پھر بھیج دو، شاید کچھ میں بھلا کام کرلوں اس میں جو پیچھے چھوڑ آیا، ہرگز نہیں، یہ ایک بات ہے کہ وہی کہتاہے، اور ان کے پیچھے پردہ ہے، اس دن تک کہ اٹھائے جائیں، پھر جب پھونک ماریں صور میں تو نہ قرابتیں ہیں ان میں اس دن اور نہ ایک دوسرے کو پوچھے۔ ‘‘ (تفسیر عثمانی)

عذابِ قبر کے حوالے سے احادیث، شہرت بلکہ تواتر تک پہنچ گئی ہیں، عذابِ قبر سے انکار صراحتًا کفر اور جہالت ہے۔ 

1- ’’عن عائشة رضي الله عنها أنّ یهودیة دخلت علیها، فذکرت عذاب القبر، فقالت لها: أعاذك اللہ من عذاب القبر، فسالت عائشة رسول الله ﷺ عن عذاب القبر، فقال: نعم، عذاب القبر حقّ، قالت عائشة: فما رأیت رسول الله ﷺ بعد صلّی صلاۃً إلّا تعوذ بالله من عذاب القبر. متفق علیه.‘‘

ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک یہودی عورت ان کے پاس آئی، اور اس نے عذابِ قبر کا ذکر کرتے ہوئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو دعا دی: "اللہ تعالیٰ آپ کو عذابِ قبر سے بچائے"، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺ سے اس بابت سوال کیا (کہ کیا واقعی عذابِ قبر ہوتاہے؟) تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جی ہاں! عذابِ قبر حق ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس کے بعد میں نے رسول اللہ ﷺ کو ہمیشہ دیکھا کہ ہر نماز میں عذابِ قبر سے پناہ مانگتے تھے۔ (بخاری و مسلم)

2- ’’عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُو وَيَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ عَذَابِ النَّارِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ.‘‘

(بخاری،بَاب التَّعَوُّذِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ،حدیث نمبر:۱۲۸۸)

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرتے اور یوں فرماتے: اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ عَذَابِ النَّارِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ:اے اللہ میں تجھ سے قبر کے عذاب سے پناہ مانگتا ہوں اور جہنم کے عذاب سے اور زندگی اور موت کے فتنے سے اور دجال کے فتنے سے۔

3- ’’عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنه قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَائِطٍ مِنْ حِيطَانِ الْمَدِينَةِ أَوْ مَكَّةَ فَسَمِعَ صَوْتَ إِنْسَانَيْنِ يُعَذَّبَانِ فِي قُبُورِهِمَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ، ثُمَّ قَالَ: بَلَى كَانَ أَحَدُهُمَا لَا يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ وَكَانَ الْآخَرُ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ، ثُمَّ دَعَا بِجَرِيدَةٍ فَكَسَرَهَا كِسْرَتَيْنِ فَوَضَعَ عَلَى كُلِّ قَبْرٍ مِنْهُمَا كِسْرَةً، فَقِيلَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ لِمَ فَعَلْتَ هَذَا؟ قَالَ: لَعَلَّهُ أَنْ يُخَفَّفَ عَنْهُمَا مَا لَمْ تَيْبَسَا أَوْ إِلَى أَنْ يَيْبَسَا.‘‘

(بخاری، بَاب مِنْ الْكَبَائِرِ أَنْ لَا يَسْتَتِرَ مِنْ بَوْلِهِ،حدیث نمبر:۲۰۹)

ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ یا مکہ کے کسی باغ سے گزرے، اتنے میں دو انسانوں کی آواز سنی جن کو قبر میں عذاب دیا جارہا تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ان دونوں کو عذاب ہورہا ہے اور کسی بڑے کام کی وجہ سے عذاب نہیں ہورہا ہے، (بلکہ ایسی معمولی باتوں پر جن سے بچ سکتے تھے)؛ پھر آپ نے فرمایا: ان دونوں میں سے ایک پیشاب سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغلی کرتا پھرتا تھا؛ پھر آپ ﷺ نے ایک تر ٹہنی منگائی پھر اس کے دو ٹکڑے کیے، پھر ایک ایک ٹکڑا دونوں قبروں پر رکھ دیا، صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: شاید ان دونوں کا عذاب ان کے سوکھنے تک ہلکا کردیا جائے۔

4- ’’كَانَ عُثْمَانُ رضي الله عنه إِذَا وَقَفَ عَلَى قَبْرٍ بَكَى حَتَّى يَبُلَّ لِحْيَتَهُ، فَقِيلَ لَهُ: تُذْكَرُ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ فَلَاتَبْكِي وَتَبْكِي مِنْ هَذَا؟! فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ الْقَبْرَ أَوَّلُ مَنْزِلٍ مِنْ مَنَازِلِ الْآخِرَةِ؛ فَإِنْ نَجَا مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَيْسَرُ مِنْهُ، وَإِنْ لَمْ يَنْجُ مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَشَدُّ مِنْهُ، قَالَ: وَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا رَأَيْتُ مَنْظَرًا قَطُّ إِلَّا الْقَبْرُ أَفْظَعُ مِنْهُ.‘‘

(ترمذی، بَاب مَا جَاءَ فِي ذِكْرِ الْمَوْتِ،حدیث نمبر:۲۲۳۰)

ترجمہ: حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ جب کسی قبر کے پاس کھڑے ہوتے تو اس قدر روتے کہ داڑھی مبارک تر ہوجاتی تھی، سوال کیا گیا کہ آپ جنت و دوزخ کا تذکرہ کرکے نہیں روتے اور قبر کو دیکھ کر (اس قدر) روتے ہیں!؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ  نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: بے شک قبر آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے، سو اگر اس سے نجات پائی تو اس کے بعد کی منزلیں اس سے زیادہ آسان ہیں اور اگر نجات نہ پائی تو اس کے بعد کی منزلیں اس سے زیادہ سخت ہیں، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں نے کبھی کوئی منظر قبر کے عذاب سے زیادہ سخت نہیں دیکھا۔

5- ’’عَنْ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا مَاتَ الْمَيِّتُ عُرِضَ عَلَيْهِ مَقْعَدُهُ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ، فَإِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَمِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَإِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَمِنْ أَهْلِ النَّارِ، ثُمَّ يُقَالُ هَذَا مَقْعَدُكَ حَتَّى يَبْعَثَكَ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.‘‘

(ترمذی، قَالَ أَبُو عِيسَى وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ،باب ما جاء فی عذاب القبر،حدیث نمبر:۹۹۲)

ترجمہ: حضرت ابن عمر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب انسان کا انتقال ہوجاتا ہے تو اس پر صبح و شام اس کا ٹھکانا پیش کیا جاتا ہے، اگر وہ اہلِ جنت میں سے ہے تو جنت والوں کا مقام اور اگر اہلِ جہنم میں سے ہے تو جہنم والوں کا مقام (اس کو دکھایا جاتا ہے)، پھر کہا جاتا ہے کہ یہ تیرا ٹھکانا ہے، یہاں تک کہ اللہ تجھ کو قیامت کے دن اٹھائے گا۔

Tuesday 9 November 2021

نادانی یالغزش لسانی سے کلمۂ کفر کہہ دیناموجب کفرنہیں

 گفتگو کرنے میں احتیاط سے کام لینا چاہیے، تاہم زبان سے بلا قصد و ارادہ کلمات کفر کی ادائیگی سے کفر لازم نہیں آتا, توبہ و استغفار کرنا ضروری ہے.  آئندہ سوچ سمجھ کر گفتگو کرنے کی عادت ڈالیں۔

فتاوی تتارخانیہ میں ہے:

"وما كان خطأ من الألفاظ، لاتوجب الكفر، فقائله مؤمن علی حاله، و لايؤمر بتجديد النكاح، و لكن يؤمر بالإستغفار و الرجوع عن ذلك". ( كتاب أحكام المرتدين، الفصل الأول، ٧/ ٢٨٤، ط: زكريا) 

عقیدے کے مسائل میں مسلمان کا جہالت کی بنا پر عذر قبول کرنے کا ذکر متعدد شرعی دلائل میں موجود ہے، جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:

1- ایسی تمام شرعی نصوص جن میں خطا کار کا عذر قبول کیا گیا ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے: 
( رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا )
ترجمہ: ہمارے پروردگار! اگر ہم بھول جائیں یا خطا کر بیٹھیں تو ہمارا مواخذہ مت فرمانا۔ [البقرة:286] اس آیت کے بعد اللہ تعالی نے صحیح مسلم (126) کی روایت کے مطابق فرمایا: (میں نے تمہاری دعا قبول فرما لی ہے)

اسی طرح:  فرمانِ باری تعالی ہے: (وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا)
ترجمہ: جن امور میں تم سے خطا ہو جائے اس میں تم پر گناہ نہیں ہے، تاہم جن میں تمہارے دل عمداً خطا کریں [ان میں گناہ ہے]اور اللہ تعالی بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔[ الأحزاب:5]

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (بیشک اللہ تعالی نے میری امت سے خطا ، بھول چوک اور زبردستی کروائے گئے کام معاف کر دیے ہیں)
ابن ماجہ: (2043) اس حدیث کو البانی نے حسن کہا ہے۔

تو ان تمام نصوص سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ  جس شخص نے بھی بھول کر یا لا علمی کی وجہ سے شرعی حکم کی مخالفت کی تو وہ معاف ہے؛ کیونکہ خطا کار میں جاہل اور لا علم شخص بھی شامل ہے؛ کیونکہ ہر وہ شخص  خطا کار ہے  جو غیر ارادی طور پر حق بات  کی مخالفت کر لے۔

شیخ  عبد الرحمن سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ [معافی] عام ہے اس میں وہ تمام اہل ایمان شامل ہیں  جو غلطی سے کوئی عملی یا اعتقادی خطا کر بیٹھیں" انتہی
"الإرشاد إلى معرفة الاحكام" ص 208

ایسے ہی شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جہالت بلا شک و شبہ خطاکاری میں شامل ہوتی ہے، اس لیے ہم یہ کہتے ہیں: اگر کوئی انسان ایسا قولی یا فعلی کام کر لے جو کفر کا موجب ہے ، لیکن اسے یہ نہیں معلوم کہ یہ کفر ہے، یعنی اسے شرعی دلیل کی روشنی میں علم نہیں ہے کہ یہ کام کفر ہے؛ تو اسے کافر نہیں کہا جائے گا" انتہی
"الشرح الممتع" (14/449)

ایسے ہی شیخ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا:
( رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا )
ترجمہ: ہمارے پروردگار! اگر ہم بھول جائیں یا خطا کر بیٹھیں تو ہمارا مواخذہ مت فرمانا۔ [البقرة:286] اس آیت کے بعد اللہ تعالی نے فرمایا: (میں نے تمہاری دعا قبول فرما لی ہے) یہاں پر کسی ظنی یا قطعی مسئلے میں یقینی خطا کی تفریق  نہیں فرمائی۔۔۔ چنانچہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ کسی بھی قطعی یا ظنی مسئلے میں خطا کھانے والا شخص گناہ گار ہو گا تو ایسا شخص کتاب و سنت اور قدیم اجماع کی مخالفت کر رہا ہے" انتہی
"مجموع الفتاوى" (19/210)


Monday 8 November 2021

فرض کی آخری دورکعتوں میں سورۂ فاتحہ پڑھنا

 فرض نمازکی تیسری اورچوتھی رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھناافضل ہے،واجب نہیں اورتین بارسبحان اللہکہنایااتنی مقدارخاموش کھڑارہنابھی جائزہے،لیکن تسبیح پڑھناخاموش رہنے سے بہترہے۔

    چنانچہ فرض کی تیسری اورچوتھی رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھنے کے بارے میں صحیح بخاری میں ہے:”ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یقرأ فی الظھر فی الأولیین بأم الکتاب، وسورتین، وفی الرکعتین الأخریین بأم الکتاب“بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی پہلی دورکعتوں میں سورہ فاتحہ اور دوسورتیں تلاوت فرماتے تھے اور آخری دورکعتوں میں صرف سورہ فاتحہ تلاوت فرماتے تھے ۔

(صحیح بخاری ،کتاب الاذان ،باب یقرأ فی الاخریین،ج1،ص107، مطبوعہ کراچی )

    اورفرض کی آخری دورکعتوں میں کچھ بھی نہ پڑھنے کے بارے میں  مؤطاامام مالک میں ہے:”أن عبد اللہ بن مسعود کان لا یقرأ خلف الامام فیما جھر فیہ، وفیما یخافت فیہ فی الأولیین، ولا فی الأخریین، واذا صلی وحدہ قرأ فی الأولیین بفاتحة الکتاب وسورة، ولم یقرأ فی الأخریین شیئا“ترجمہ: بے شک عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ امام کے پیچھے جہری اور خفی دونوں نمازوںمیں پہلی دو رکعتوں اورآخری دورکعتوں میں قراء ت نہیں کرتے تھے اور جب تنہا نماز پڑھتے تو پہلی دورکعتوں میں سورہ فاتحہ اورساتھ میں سورت کی قراء ت کرتے تھے اورآخری دورکعتوں میں کچھ نہیں پڑھتے تھے ۔

(مؤطا امام مالک ،باب افتتاح الصلاة،ص62،مطبوعہ  المکتبة العلمیہ)

    مصنف عبد الزراق میں ہے:”عن عبید اللہ بن أبی رافع قال کان یعنی علیا یقرأ فی الأولیین من الظھر والعصر بأم القرآن وسورة، ولا یقرأ فی الأخریین“ترجمہ: عبید اللہ بن ابی رافع رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ظہراور عصر کی پہلی دورکعت میں سورہ فاتحہ اور ساتھ میں سورت کی قراء ت کرتے تھے اور آخری رکعتوں میں کچھ نہیں پڑھتے تھے ۔

(مصنف عبد الرزاق،کتاب الصلاہ،باب کیف القراء ة فی الصلاة،ج2،ص100،مطبوعہ  المکتب الاسلامی ،بیروت)

    مصنف عبد الرزاق میں حضرت ابراہیم نخعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:”ما قرأ علقمة فی الرکعتین الأخریین حرفاقط“ترجمہ: حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ( فرض کی )آخری دو رکعتوں میں ایک حرف بھی نہ پڑھتے تھے۔

(مصنف عبد الرزاق،کتاب الصلاہ،باب کیف القراء ة فی الصلاة،ج2،ص100،مطبوعہ  المکتب الاسلامی ،بیروت)

    اورفرض کی تیسری اورچوتھی رکعت میں تسبیح پڑھنے کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:” یقرأ فی الأولیین، ویسبح فی الأخریین“ترجمہ : کہ (نمازی )پہلی دورکعتوں میں قراء ت کرے اورآخری دورکعتوں میں تسبیح کرے ۔

(مصنف ابن ابی شیبة،کتاب الصلاہ،من کان یقول یسبح فی الاخریین،ج1،ص327، مطبوعہ ریاض)

    درمختار میں ہے:”واکتفی المفترض فیما بعد الأولیین بالفاتحة فانھاسنۃ علی الظاھر ولو زاد لابأس بہ (وھو مخیر بین قراء ة) الفاتحة(وتسبیح ثلاثا) وسکوت قدرھا“ترجمہ:چاررکعت فرض پڑھنے والے کے لیے پہلی دو رکعت کے بعدسورہ فاتحہ پڑھناکافی ہےاوریہ بظاہرسنت بھی ہےاوراگرسورہ فاتحہ کے ساتھ سورت بھی ملالی توکوئی حرج نہیں اورنمازی کوسورہ فاتحہ پڑھنے اور تین مرتبہ تسبیح کہنے اوراس مقدار چپ رہنے میں اختیار ہے۔

(درمختار،کتاب الصلاۃ،ج02،ص270،مطبوعہ 

Sunday 7 November 2021

تری پورہ تشدد :جرائم کی خبرشیئر کرنابھی جرم ٹھہرا

 تریپورہ میں حال میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے سلسلے میں پولیس نے ٹوئٹر، فیس بک اور یو ٹیوب وغیرہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے 102 صارفین کے خلاف یو اے پی اے کی دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی ہے۔ جن لوگوں کے خلاف ایف آئی آر ہوئی ہے ان میں 68 ٹوئٹر صارفین ہیں، 32 فیس بک صارفین اور 2 یو ٹیوب اکاؤنٹس ہیں۔

مغربی اگرتلہ تھانہ میں درج اس ایف آئی آر کو اسی تھانے کے داروغہ تپن چندر داس کی شکایت پر درج کیا گیا ہے۔ ایف آئی آر میں یو اے پی اے کی دفعہ 13 اور تعزیرات ہند کی دفعہ 153-اے (مخلف طبقات کے درمیان دشمنی پھیلانے کی کوشش)، 153-بی، 469، 471، 503، 504 اور 120-بی کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔

ایف آئی آر میں ہندوستانی اور بین الاقوامی صحافیوں کے نام ہیں جن میں خاص طور سے شیام میرا سنگھ، عارف شاہ، سی جے ورلیمن وغیرہ ہیں۔ ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ''ان لوگوں کے اکاؤنٹس سے مذہبی گروپوں اور طبقات کے درمیان دشمنی پھیلانے اور امن ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ تریپورہ پولیس اور حکومت کی ساکھ خراب کرنے اور اسے بدنام کرنے کی نیت سے افواہیں پھیلائی گئیں اور مجرمانہ سازش تیار کی گئی۔''

تریپورہ کے آئی جی نے ایک اخبار سے بات چیت میں کہا کہ ''ہم نے شروع میں 150 اکاؤنٹس کی شناخت کی تھی، لیکن بعد میں جانچ کے بعد 102 اکاؤنٹس کو شارٹ لسٹ کیا گیا۔'' انھوں نے مزید کہا کہ ''ہم نے کچھ نامعلوم لوگوں کے خلاف بھی معاملہ درج کیا ہے جو پردے کے پیچھے رہ کر تشدد بھڑکانے کا کام کر رہے تھے۔ ہم نے معاملے کی جانچ کرائم برانچ کو سونپی ہے۔''

واضح رہے کہ تریپورہ میں وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کی 26 اکتوبر کو ہوئی ایک ریلی کے دوران تشدد بھڑک اٹھی تھی اور کئی گھروں و دکانوں کو آگ لگا دی گئی تھی۔ وی ایچ پی نے یہ ریلی بنگلہ دیش میں ہوئے فرقہ ورانہ تشدد کے خلاف نکالی تھی۔ تریپورہ میں اس واقعہ کے بعد کئی مزید واقعات پیش آئے جن میں کئی مساجد کو بھی نقصان پہنچایا گیا اور اقلیتی طبقہ کی ملکیتوں کو آگ لگا دی گئی تھی۔ انھوں نے کہا کہ جن اکاؤنٹ ہولڈرس پر معاملہ درج کیا گیا ہے، انھوں نے ریاست میں نفرت اور تشدد پھیلانے کا کام کیا۔ یہ ایک بڑی سازش ہے جس کی ہم جانچ کر رہے ہیں۔


Thursday 4 November 2021

ڈریم الیون کی شرعی حیثیت

 ڈریم 11 کھیلنا اور اس میں پیسے انویسٹ کرنا ناجائز و حرام ہے، یہ ایک قسم کا جوا ہے اور جوا بنص قطعی حرام ہے۔

کسی بھی قسم کا کھیل جائز ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، ورنہ وہ کھیل لہو ولعب میں داخل ہو نے کی وجہ سے شرعاً ناجائز اور حرام ہوگا:

۔  وہ کھیل بذاتِ خود جائز ہو، اس میں کوئی ناجائزبات نہ ہو۔

2۔۔  اس کھیل میں کوئی دینی یا دنیوی منفعت  ہو مثلاً جسمانی  ورزش وغیرہ ، محض لہو لعب یا وقت گزاری کے لیے نہ کھیلا جائے۔

3۔۔  کھیل میں غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ کیا جاتا  ہو، مثلاً جوا وغیرہ۔

4۔۔ کھیل میں اتنا غلو نہ کیا جائے  کہ شرعی فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا ہو۔

5۔۔وہ کھیل تصاویر اور ویڈیوز سے پاک ہو۔

حاصل یہ ہے کہ اگر کسی  گیم میں مذکورہ خرابیاں پائی جائیں، یعنی اس میں غیر شرعی امور کا ارتکاب کیا جاتا ہو، مثلاً: جان دار کی تصاویر، موسیقی اور جوا وغیرہ  ہوں، یا مشغول ہوکر  شرعی فرائض اور واجبات میں کوتاہی  اور غفلت برتی جاتی ہو، یا اسے محض  لہو لعب کے لیے کھیلا جاتا ہو تو  خود اس طرح  کا  گیم کا کھیلنا  بھی جائز نہیں ہوگا۔ اور اگر یہ خرابیاں نہ ہوں تو بھی موبائل پر گیم کھیلنے میں نہ جسمانی ورزش ہے، نہ دینی یا بامقصد دنیوی فائدہ ہے،  بلکہ وقت اور بعض اوقات پیسے کا ضیاع ہے؛ اس لیے بہرصورت اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔

مذکورہ گیم  کے بارے میں حاصل کردہ معلومات کے مطابق، یہ موبائل وغیرہ میں کھیلا جاتا ہے،  اس میں تصاویر، کارٹون پائے جاتے ہیں، نیز اس کے کھیلنے سے کوئی دینی یا دنیوی منفعت بھی مقصود نہیں، لہذا اس کا کھیلنا جائز نہیں ہے،  بلکہ وقت کا ضیاع ہے، لہٰذا اس سے اجتناب کیا جائے۔

Wednesday 3 November 2021

تری پورہ تشددپرسپریم کورٹ وکلا کی رپورٹ

 گذشتہ دنوں ریاست تریپورہ میں مختلف مقامات پر مبینہ تشدد کا واقعہ پیش آیا ، جس میں متعدد مساجد میں توڑ پھوڑ کے علاوہ مسلمانوں پربھی تشدد کے واقعات پیش آئے۔

سپریم کورٹ کے وکلا نے تریپورہ تشدد کی ایک فیکٹ فائنڈگ رپورٹ تیار کی ہے، اس رپورٹ کے مطابق ریاست تریپورہ میں 51 مقامات پر مسلمانوں کوتشدد کا نشانہ بنایا گیا جب کہ 12 مساجد میں توڑ پھوڑ کی گئی ہے۔

تریپورہ تشدد پر فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ جاری کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے وکلاء اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی ایک تحقیقاتی ٹیم نے منگل کو انکشاف کیا کہ اگر بی جے پی حکومت چاہتی تو وہ تریپورہ میں مسلم اقلیت کے خلاف پہلے سے طے شدہ تشدد کو ناکام بنا سکتی تھی لیکن اس نے مبینہ طور پرشرپسندوں کو کھلا چھوڑ دیا۔

تحقیقاتی رپورٹ میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ ریاست بھر میں کئی مقامات پر مسلمانوں پر حملے کیے گئے اور 12 مساجد کو توڑ پھوڑ اور نقصان پہنچایا گیا۔

تفصیلی حقائق پر مبنی تحقیقاتی رپورٹ کا عنوان ہے:تریپورہ میں انسانیت پر حملہ(Humanity under Attack in Tripura)۔

تریپورہ کا دورہ کرنے والی ٹیم کے ممبران نے پریس کلب آف انڈیا میں اسے جاری کیا ہے۔

میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ تریپورہ میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کے واقعہ کے بعد جس طرح کی صورتحال پیدا ہوئی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر حکومت چاہتی تو اس طرح کے خوفناک واقعہ کو ہونے سے بچا سکتی تھی۔

تحقیقاتی ٹیم نے متاثرہ فریقوں سے ملاقات کی اور تشدد سے متعلق معلومات اور حقائق اکٹھے کیے اور اس نتیجے پر پہنچے کہ بنگلہ دیش میں ہندو اقلیتوں پر حملوں کے واقعات پر تریپورہ میں 51 مقامات پر احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔

مظاہروں پر تشدد شروع ہوا، املاک کو نذر آتش کیا گیا اور خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے خوف و ہراس کی صورتحال پیدا کردی گئی۔

مقامی مسلمانوں نے ٹیم کو بتایا کہ ریاست میں بی جے پی کی حکومت آنے کے بعد مسلمانوں کے خلاف ماحول بنایا گیاہے جس کا نتیجہ تشدد کی صورت میں سامنے آیا ہے۔

پانیسانگر کے منور علی(72سال) نے ٹیم کو بتایا کہ تشدد کے دوران ہم نے مقامی بی جے پی ایم ایل اے ونے بھوشن داس کو 7-8 بار فون کیا۔ اس نے ایک بار فون اٹھایا اور کہا کہ وہ اگرتلہ میں میٹنگ میں ہیں۔

رپورٹ کےمطالبات

حکومت ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں ایک انکوائری کمیٹی بنائے اور پورے واقعے کی تحقیقات کرائی جائے۔ متاثرین کی شکایت پر الگ ایف آئی آر درج کی جائے۔ جن لوگوں کے کاروبار کو مالی نقصان پہنچا ہے ان کو حکومت کی طرف سے معاوضہ دیا جائے۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے خرچے پر تباہ ہونے والے مذہبی مقامات کو دوبارہ تعمیر کروائیں۔ اور تشدد کے امکان کے باوجود کوئی کارروائی نہ کرنے والے پولیس افسر کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔

ریلی میں پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کے نعرے لگانے والے افراد اور تنظیموں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے تاکہ ریاست کا خوشگوار ماحول دوبارہ خراب نہ ہو۔

جھوٹے اور اشتعال انگیز پیغامات بنانے اور انہیں سوشل میڈیا پر وائرل کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔

خیال رہےکہ تحقیقاتی ٹیم جلد ہی دہلی میں اپنی تفصیلی رپورٹ جاری کرے گی اور یہ رپورٹ صدر جمہوریہ ہند، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، مرکزی داخلہ سکریٹری، اقلیتوں کے قومی کمیشن اور قومی انسانی حقوق کمیشن کو بھیجی جائے گی۔

تحقیقاتی ٹیم میں سپریم کورٹ کے ایڈوکیٹ احتشام ہاشمی، ایڈوکیٹ امیت سریواستو، ایڈوکیٹ انصار اندوری اور ایڈوکیٹ مکیش شامل ہیں ۔

عدم ادائیگی نفقہ کی بناپر فسخ نکاح کامطالبہ کرنا

 نان نفقہ نہ دینے کی بنیاد پر عدالت کے نکاح فسخ کردینے سے نکاح ختم ہوجاتا ہے، لہذا اگر نباہ کی صورت ممکن نظر نہیں آتی تو عورت نان نفقہ کی عدمِ ادائیگی کو بنیاد بنا کر عدالت سے فسخ نکاح کا مطالبہ  کرسکتی ہے. 

وإذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلابأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به۔(الهداية،باب الخلع ،ج2ص404)

إذَا طَلَبَتْ الْفَرْضَ من الزَّوْجِ يَجِبُ عليه الْفَرْضُ حتى لو امْتَنَعَ فَالْقَاضِي يُجْبِرُهُ على ذلك وَلَوْ لم يَفْعَلْ نَابَ الْقَاضِي مَنَابَهُ في الْفَرْضِ۔(بدائع الصنائع ،فصل في المهر ،ج3ص486)

وأما المتعنت الممتنع عن الإنفاق ففي مجموع الأمير ما نصه إن منعها نفقة الحال فلها القيام فإن لم يثبت عسره أنفق أو طلق وإلا طلق عليه ،قال محشيه أي طلق عليه الحاكم ۔(الحيلة الناجزة ،ص133)

إذَا طَلَّقَ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ طَلَاقًا بَائِنًا أو رَجْعِيًّا أو ثَلَاثًا أو وَقَعَتْ الْفُرْقَةُ بَيْنَهُمَا بِغَيْرِ طَلَاقٍ وَهِيَ حُرَّةٌ مِمَّنْ تَحِيضُ فَعِدَّتُهَا ثَلَاثَةُ أَقْرَاءٍ۔(الفتاوى الهندية ،الباب الثالث عشر في العدة ،ج1 ص526)

فسخ النکاح بسبب الإعسار

 الإعسار بالنفقة فلا خلاف بين فقهاء الشريعة الإسلامية في وجوب النفقة على الزوجة من زوجها وبعكسه فقد أجيز لها طلب الفسخ لعدم الإنفاق. 

سامي بن عبد الرحمن البطي (2016)، مسوغات طلب المرأة فسخ النكاح، صفحة 15. بتصرّف.



فسخ النکاح بسبب الغیبۃ او فقدان الزوج

 الغيبة: ما هي الشروط الواجب توفرها في غيبة الزوج حتى تتمكن الزوجة من طلب فسخ النكاح؟ يُقصد بالزوج الغائب هو من غادر مكانه لسفر ولم يعد إليه، ولكن حياته معلومة وعنوانه كذلك معلوم، وهو أمر مختلف عليه بين فقهاء الأمة الإسلامية، ولكن حتى تتمكن المرأة من طلب الفسخ يجب أن تتوفر شروط لغيبة الزوج وھی: 

إن كانت الغيبة طويلة.

 إن خشيت المرأة على نفسها الضرر بسبب هذه الغيبة، والضرر هنا هو خشية الوقوع في الزنا. إن كانت الغيبة لعذر غير مشروع، فإذا كانت بعذر كالتجارة أو طلب العلم فلا يجوز لها طلب الفسخ. إن كتب القاضي إلى الزوج بالرجوع إلى بيت الزوجية أو نقلها إليه، وفي حالة عدم امتثال الزوج فله أن يطلقها منه بعد أن يمهله مدة مناسبة. الفقد هل يحق للزوجة طلب فسخ عقد النكاح بسبب فقدان الزوج؟ يُقصد بالزوج المفقود هو من غادر مكانه لسفر ولم يعد إليه وجهلت الزوجة أو أهله كل أمر عنه وعن حياته، وحُكم الفقد كحكم الغيبة فيحق للزوجة أن تطلب فسخ النكاح متى ما ثبت الضرر، ولقاضي المحكمة اتخاذ كل ما يراه مناسبًا في الحكم بالفسخ من عدمه. [

سامي بن عبد الرحمن البطي (2016)، مسوغات طلب المرأة فسخ النكاح، صفحة 15. بتصرّف.




فسخ النکاح بسبب حبس الزوج

 الحبس هل يحق لزوجة التي تم حبس زوجها طلب فسخ الزواج؟ يُقصد بالزوج المحبوس هو من تمّ إلقاء القبض عليه وإيداعه السجن بسبب تهمة أو جناية أو غير ذلك، ويذهب جمهور الفقهاء إلى عدم جواز التفريق بين الزوج المحبوس وزوجته مهما طالت مدة الحبس، على عكس ذلك يرى المالكية جواز طلب الزوجة فسخ النكاح بعد مرور سنة لأن الحبس يعد من قبيل غياب الزوج، ومنعًا للضرر الذي يمكن أن يلحق بالزوجة، جاز لها طلب التفريق ولقاضي المحكمة الحق في الحكم بما يراه مناسبًا. [٣]

سامي بن عبد الرحمن البطي (2016)، مسوغات طلب المرأة فسخ النكاح، صفحة 15. بتصرّف.

فسخ النکاح بسبب سوالعشرۃ

 سوء العشرة ما المقصود بسوء العشرة الزوجية؟ يدخل في سوء العشرة كل فعل يقدم عليه الزوج من شأنه أن يلحق الأذى بالزوجة مادّيًا كان أو معنويًا، كالضرب والسب والشتم، ويرى جمهور الفقهاء أنه إذا ما كان الضرر الناتج عن سوء تصرف الزوج يصل إلى الشقاق الزوجي واستحالة العشرة بينهما، فيمكن للزوجة طلب فسخ النكاح في هذه الحالة منعًا للضرر

تهاني رمضان أبو جزر (2012)، أحكام انفراد المرأة في إنهاء عقد النكاح دراسة فقهية، غزة فلسطين:الجامعة الإسلامية ، صفحة 126. بتصرّف