https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 9 November 2021

نادانی یالغزش لسانی سے کلمۂ کفر کہہ دیناموجب کفرنہیں

 گفتگو کرنے میں احتیاط سے کام لینا چاہیے، تاہم زبان سے بلا قصد و ارادہ کلمات کفر کی ادائیگی سے کفر لازم نہیں آتا, توبہ و استغفار کرنا ضروری ہے.  آئندہ سوچ سمجھ کر گفتگو کرنے کی عادت ڈالیں۔

فتاوی تتارخانیہ میں ہے:

"وما كان خطأ من الألفاظ، لاتوجب الكفر، فقائله مؤمن علی حاله، و لايؤمر بتجديد النكاح، و لكن يؤمر بالإستغفار و الرجوع عن ذلك". ( كتاب أحكام المرتدين، الفصل الأول، ٧/ ٢٨٤، ط: زكريا) 

عقیدے کے مسائل میں مسلمان کا جہالت کی بنا پر عذر قبول کرنے کا ذکر متعدد شرعی دلائل میں موجود ہے، جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:

1- ایسی تمام شرعی نصوص جن میں خطا کار کا عذر قبول کیا گیا ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے: 
( رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا )
ترجمہ: ہمارے پروردگار! اگر ہم بھول جائیں یا خطا کر بیٹھیں تو ہمارا مواخذہ مت فرمانا۔ [البقرة:286] اس آیت کے بعد اللہ تعالی نے صحیح مسلم (126) کی روایت کے مطابق فرمایا: (میں نے تمہاری دعا قبول فرما لی ہے)

اسی طرح:  فرمانِ باری تعالی ہے: (وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا)
ترجمہ: جن امور میں تم سے خطا ہو جائے اس میں تم پر گناہ نہیں ہے، تاہم جن میں تمہارے دل عمداً خطا کریں [ان میں گناہ ہے]اور اللہ تعالی بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔[ الأحزاب:5]

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (بیشک اللہ تعالی نے میری امت سے خطا ، بھول چوک اور زبردستی کروائے گئے کام معاف کر دیے ہیں)
ابن ماجہ: (2043) اس حدیث کو البانی نے حسن کہا ہے۔

تو ان تمام نصوص سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ  جس شخص نے بھی بھول کر یا لا علمی کی وجہ سے شرعی حکم کی مخالفت کی تو وہ معاف ہے؛ کیونکہ خطا کار میں جاہل اور لا علم شخص بھی شامل ہے؛ کیونکہ ہر وہ شخص  خطا کار ہے  جو غیر ارادی طور پر حق بات  کی مخالفت کر لے۔

شیخ  عبد الرحمن سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ [معافی] عام ہے اس میں وہ تمام اہل ایمان شامل ہیں  جو غلطی سے کوئی عملی یا اعتقادی خطا کر بیٹھیں" انتہی
"الإرشاد إلى معرفة الاحكام" ص 208

ایسے ہی شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جہالت بلا شک و شبہ خطاکاری میں شامل ہوتی ہے، اس لیے ہم یہ کہتے ہیں: اگر کوئی انسان ایسا قولی یا فعلی کام کر لے جو کفر کا موجب ہے ، لیکن اسے یہ نہیں معلوم کہ یہ کفر ہے، یعنی اسے شرعی دلیل کی روشنی میں علم نہیں ہے کہ یہ کام کفر ہے؛ تو اسے کافر نہیں کہا جائے گا" انتہی
"الشرح الممتع" (14/449)

ایسے ہی شیخ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا:
( رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا )
ترجمہ: ہمارے پروردگار! اگر ہم بھول جائیں یا خطا کر بیٹھیں تو ہمارا مواخذہ مت فرمانا۔ [البقرة:286] اس آیت کے بعد اللہ تعالی نے فرمایا: (میں نے تمہاری دعا قبول فرما لی ہے) یہاں پر کسی ظنی یا قطعی مسئلے میں یقینی خطا کی تفریق  نہیں فرمائی۔۔۔ چنانچہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ کسی بھی قطعی یا ظنی مسئلے میں خطا کھانے والا شخص گناہ گار ہو گا تو ایسا شخص کتاب و سنت اور قدیم اجماع کی مخالفت کر رہا ہے" انتہی
"مجموع الفتاوى" (19/210)


No comments:

Post a Comment