https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 11 December 2021

مرحانام کا مطلب

 ’’مِرحا‘‘ (میم کے زیر اور ح کے بعد الف کے ساتھ) عربی قواعد کے اعتبار سے درست نہیں ہے، ’’مرحه‘‘ (میم کے کسرہ اور آخر میں گول تاء کے ساتھ)  تکبر کے معنیٰ میں بھی آتا ہے اور اناج کے معنیٰ میں بھی آتا ہے؛ لہٰذا غلط معنیٰ کا احتمال ہونے کی وجہ سے یہ نام رکھنا درست نہیں ہے۔

  "مَرَ حا" (میم اور را پر زبر  اور آخر میں الف کے ساتھ )  کا مطلب ہے" تکبر کرنا"۔ اس معنی کے اعتبار سے بھی یہ نام رکھنا درست نہیں ہے۔

 "مَرْحیٰ" (میم پر زبر اور را ساکن)  عربی میں یہ لفظ دو صیغے بن سکتاہے:

1- ’’مَرحٰی‘‘ (میم کے فتحہ اور ح کے کھڑے زبر کے ساتھ )’’مَرِح‘‘ کی جمع بھی ہے، مرح کا معنی (اترانے والا) یا (ہلکا) آتا ہے، یہ نام رکھنا بھی درست نہیں ہے۔

2- ’’مَرحیٰ‘‘ (میم کے فتحہ اور ح کے کھڑے زبر(الف مقصورہ ) کے ساتھ)  تیر کے نشانے پر لگنے کی صورت میں شاباشی دینے کے لیے استعمال ہوتا ہے، اسی طرح   خوشی سے جھومنا، اور چکی کا پاٹ بھی اس کے معنی ہیں، اس معنیٰ کے اعتبار سے یہ نام رکھنا جائز تو ہوگا، لیکن چوں کہ غلط معنیٰ کا وہم برقرار رہے گا؛ اس لیے نہ رکھنا بہتر ہے۔

ناموں کے سلسلے میں بہتر یہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وصحابیات رضی اللہ عنہن کے ناموں میں سے کوئی نام رکھا جائے، یا اچھا بامعنی عربی نام رکھا جائے۔ 

"مِرحة : (معجم الرائد) (اسم) 1- مرحة : النوع من مرح 2- مرحة : أكداس من الزبيب وغيره. المِرْحَةُ : (معجم الوسيط) المِرْحَةُ : الأنبارُ من الزَّبيب ونحوه".

تاج العروس (7/ 113):

"مرح : (مَرِحَ، كفَرِحَ: أَشِرَ وبَطِرَ) ، والثلاثةُ أَلفاظٌ مترادفةٌ، وَمِنْه قَوْله تَعَالَى: {بِمَا كُنتُمْ تَفْرَحُونَ فِى الاْرْضِ بِغَيْرِ الْحَقّ وَبِمَا كُنتُمْ تَمْرَحُونَ} (غَافِر: 75) وَفِي المفردَاتِ: المَرَحَ: شِدَّةُ الفَرَحِ والتَّوسُّع فِيهِ. (و) مَرِحَ (: اخْتَالَ) ، وَمِنْه قَوْله تَعَالَى: {وَلاَ تَمْشِ فِى الاْرْضِ مَرَحًا} (الإِسراء: 37) أَي متبختِراً مُخْتَالاً.(و) مَرِحَ مَرَحاً: (نَشِطَ) . فِي (الصِّحَاح) و (الْمِصْبَاح) : المَرَحُ: شِدَّة الفَرَحِ، والنَّشاط حتّى يُجاوِزَ قَدْرَه، (و) مَرِحَ مَرَحاً، إِذَا خَفَّ، قَالَه ابْن الأَثير. وأَمْرَحَه غيرُه. (وَالِاسْم) مرَاحٌ، (ككِتَاب، وَهُوَ مَرِحٌ) ، ككَتِف (ومِرِّيحٌ، كسكِّين، مِنْ) قَوْم (مَرْحَى ومَرَاحَى) ، كِلَاهُمَا جمْع مَرِحٍ،۔۔۔۔۔۔۔ (ومَرْحَى) مَرّ ذِكرُه (فِي برح) قَالَ أَبو عمرِو بنُ العلاءِ: إِذا رَمَى الرّجلُ فأَصابَ قيل: مَرْحَى لَه، وَهُوَ تَعجبٌ من جَودةِ رَمْيِه. وَقَالَ أُميّة بن أَبي عَائِذ: يُصِيب القَنيصَ وصِدْقاً يَقُول مَرْحَى وأَيْحَى إِذا مَا يُوالِي وإِذا أَخطأَ قيل لَهُ: بَرْحَى. (و) مَرْحَى: (اسمُ ناقةِ عَبْدِ الله بن الزَّبِيرِ)".

تاج العروس (6/ 311):

"(وبَرْحَى) ، على فَعْلَى (: كلمةٌ تُقال عِنْد الخطإِ فِي الرَّمْيِ، ومَرْحَى عِنْد الإِصابة) ، كَذَا فِي (الصّحاح) . وَقد تقدم فِي أَي ح أَنّ أَيْحَى تقال عندِ الإِصابة. وَقَالَ ابْن سَيّده: وللعرب كلمتانِ عِنْد الرَّمْيِ: إِذا أَصابَ قَالُوا: مَرْحَى، وإِذا أَخطأَ قَالُوا: بَرْحَى. مختار الصحاح (ص: 292) م ر ح: (الْمَرَحُ) شِدَّةُ الْفَرَحِ وَالنَّشَاطِ وَبَابُهُ طَرِبَ، فَهُوَ (مَرِحٌ) بِكَسْرِ الرَّاءِ وَ (مِرِّيحٌ) بِوَزْنِ سِكِّيتٍ، وَ (أَمْرَحَهُ) غَيْرُهُ، وَالِاسْمُ (الْمِرَاحُ) بِالْكَسْرِ".

Friday 10 December 2021

صلوۃ التوبہ کاطریقہ

 اگر کسی شخص سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے، تو مستحب یہ ہے کہ اچھی طرح وضو کرکے دو رکعت نفل توبہ کی نیت سے پڑھے، اور اس کے بعد اپنے گناہوں کی معافی چاہے، اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا پختہ ارادہ کرے، تو ان شاء اللہ اس کی مغفرت ہوجائے گی۔

 حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ امیرالمومنین حضرت ابوبکر صدیق  ؓ  نے مجھ سے فرمایا اور حضرت ابوبکر  ؓ  نے بالکل سچ فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ ارشاد سنا ہے:  " جو آدمی گناہ کرتا ہے اور گناہ پر ندامت ہونے کی وجہ سے، اٹھ کر وضو کرتا ہے اور نماز پڑھتا ہے اور پروردگار سے اپنے گناہ کی مغفرت چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا گناہ معاف فرما دیتا ہے، پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:  {وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِهِمْ}.

ترجمہ:" اور ایسے لوگ کہ جب کوئی ایسا کام کر گزرتے ہیں جس میں زیادتی ہو یا اپنی ذات پر ظلم کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کو (یعنی اس کے عذاب کو) یاد کر لیتے ہیں پھر اپنے گناہوں کی معافی چاہنے لگتے ہیں“۔

"وَعَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرٍ وَصَدَقَ أَبُو بَكْرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَا مِنْ رَجُلٍ يُذْنِبُ ذَنْبًا ثُمَّ يَقُومُ فَيَتَطَهَّرُ ثُمَّ يُصَلِّي ثُمَّ يَسْتَغْفِرُ اللَّهَ إِلَّا غَفَرَ الله لَهُ ثمَّ قَرَأَ هَذِه الاية: {وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذكرُوا الله فاستغفروا لذنوبهم}". (مشكاة المصابيح (1/ 416)

لیکن اس نماز کا طریقہ وہی عام نفل نماز والا ہے، اور یہ انفرادی طور پر پڑھنے کی نماز ہے، توبہ کی نماز پڑھنے کا کوئی خاص طریقہ منقول نہیں ہے، لہذا اس کو کسی خاص طریقہ پر پڑھنے کو مستحب سمجھنا  یا باجماعت پڑھنا  جائز نہیں ہے، اور نہ ہی اس سے فرض نمازیں اور روزے معاف ہوتے ہیں۔

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 401):
"ومنه صلاة الإستغفار لمعصية وقعت منه لما روي عن علي عن أبي بكر الصديق رضي الله تعالى عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "ما من عبد يذنب ذنبًا فيتوضأ ويحسن الوضوء ثم يصلي ركعتين فيستغفر الله إلا غفر له"، كذا في القهستاني".

Thursday 9 December 2021

اسلام میں سن رسیدہ افراد کے حقوق

 اسلام میں بوڑھوں کے حقوق

اللہ تعالیٰ نے انسان کے زندگی کو عام طور پر ان چار مراحل میں تقسیم کیا ہے: بچپن ، لڑکپن ، جوانی اور بڑھاپا ۔ پیدائش سے لے کر جوان ہونے تک یعنی ابتدائی تین مراحل میں انسان کی رہائش و خوراک،خوشی وراحت ، تعلیم وتربیت، معاشی کفالت، شادی بیاہ ودیگر مالی و جسمانی ا وراخلاقی وتمدنی تمام تر ضروریات کو پورا کرنے کےلیے والدین اپنی تمام توانائیاں قربان کرتے کرتے بوڑھے ہو جاتے ہیں ۔لیکن جب یہ ”اختتامِ زندگی“ کا پروانہ ہاتھ میں تھامے بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے تو ہمارا ظالم سماج اس سے نظریں پھیر لیتا ہے حالانکہ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب اسے سکون ،راحت ، خدمت ، محبت اور دیکھ بھال کی ضرورت پڑتی ہے ۔
اولڈ ہومز کی حالت زار:
وہ تہذیب جس کی نقالی کرنے میں آج کا مسلمان اتراتا پھرتا ہے اس تہذیب میں سن رسیدہ افراد کو محض بوجھ تصور کیا جاتا ہے ، گھریلو نظام زندگی میں ان کو یکسر بے دخل کرتے ہوئے ”اولڈ ہومز “کے احاطے میں ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے جہاں یہ طبقہ پل پل جیتا اور پل پل میں مرتا ہے بالآخر وہ اپنی محبتوں اور آرزوؤں کو حسرتوں کےبوسیدہ کفن میں دفنا دیتا ہےجبکہ دوسری طرف اسلامی تعلیمات میں بوڑھے اور سن رسیدہ افرادلائق عزت وتکریم ، باعث برکت و رحمت ، حصول رزق اور نصرت خداوندی کا سبب ہیں۔ اسلام اس طبقے کو قابل صد احترام بتلاتا ہے، ان کے ساتھ نرم گفتاری ،حسن سلوک اورجذبہ خیرخواہی کا حکم دیتا ہے جبکہ ان کی خلاف مزاج باتوں پر صبر وتحمل سے پیش آنے کی تلقین کرتا ہے ۔
منبر ومحراب کی ذمہ داری:
منبر و محراب سے جس طرح عقائد و عبادات کی تبلیغ علماء کرام کی ذمہ داری ہے اسی طرح اسلام کے طرزِ معاشرت اور اس کی اخلاقی تعلیمات سے آگاہ کرنا بھی انہی کے فرائض منصبی میں داخل ہے۔اللہ تعالیٰ کے ہاں سن رسیدہ افراد بالخصوص جبکہ وہ والدین ہوں ان کی کیا قدر ومنزلت ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔
بوڑھے والدین سے حسن سلوک:
وَقَضَى رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلاَهُمَا فَلاَ تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّ وَلاَ تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلاً كَرِيمًا وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا۔
سورۃ بنی اسرائیل ، رقم الآیۃ: 23
ترجمہ: اور آپ کے رب نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آؤ، اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہو جائیں تو انہیں ’’اُف‘‘بھی نہ کہو اور جھڑکو بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کرو۔ اور ان دونوں کے لیے نرم دلی سے عاجزی و انکساری کے بازو جھکائے رکھو اور (اﷲ کے حضور) یہ فریاد کرتے رہو کہ اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (پیار و محبت سے) پالا تھا۔
بڑھاپے میں چڑچڑا پن :
اللہ رب العزت نے اپنی عبادت کے بعد والدین سے حسن سلوک کا حکم دیا بطور خاص جب وہ بوڑھے ہو جائیں۔ یہ عمر کا وہ حصہ ہوتا ہےجب انسان کی قوت برداشت اور تحمل کم جبکہ چڑچڑا پن زیادہ ہو جاتا ہے اس لیے حکم دیا کہ والدین جب بوڑھے ہوجائیں تو ان کی باتوں سے دلبرداشتہ ہو کرانہیں عزت سے محروم نہ کرو ۔
اسلام میں بوڑھا ہونے والا:
عَنْ کَعْبِ بْنِ مُرَّۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ شَابَ شَيْبَةً فِي الْإِسْلَامِ كَانَتْ لَهُ نُورًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ۔
جامع الترمذی، باب ماجاء فی فضل من شاب شیبۃ فی سبیل اللہ، الرقم: 1558
ترجمہ: حضرت کعب بن مرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جونوجوان اسلام میں بوڑھا ہو ا قیامت کے دن اس کے لیے ایک نور ہوگا۔
فائدہ: یہ وہ وقت ہو گا کہ جب لوگ اندھیروں میں سرگرداں پھر رہے ہوں گے اور ایمان والوں سے درخواست کریں گے کہ ہمیں اپنے نور سے فائدہ اٹھانے دو ۔ ایسے وقت میں بوڑھوں کو اللہ کی طرف سے نور کا عطا ہونا کتنا بڑا انعام ہوگا!
بڑھاپے کے سفید بال:
عَنْ عَمْرَو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَنْتِفُواالشَّيْبَ فَإِنَّهُ مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَشِيبُ فِي الْإِسْلَامِ إِلَّا كَتَبَ اللهُ لَهُ بِهَا حَسَنَةً وَحَطَّ عَنْهُ بِهَا خَطِيئَةً ۔
السنن الکبری للبیہقی ، الرقم: 14828
ترجمہ: حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سفید بالوں کو ختم نہ کرو کیونکہ جو مسلمان اسلام کی حالت میں بوڑھا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے ہر سفید بال کے بدلے ایک نیکی لکھتے ہیں اور ایک گناہ معاف فرماتے ہیں۔
فائدہ: بڑھاپے کے سفید بالوں کا اللہ کریم اتنا حیا فرماتے ہیں ۔
بوڑھے شخص کی دعا:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّوَجَلَّ لَيَسْتَحْيِي مِنْ ذِي الشَّيْبَةِ الْمُسْلِمِ إِذَا كَانَ مُسَدَّدًا لَزُومًا لِلسُّنَّةِ أَنْ يَسْأَلَ اللَّهَ فَلَا يُعْطِيَهُ۔
المعجم الاوسط ، الرقم: 5286
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقیناً اللہ تعالیٰ اس بات سے حیا فرماتے ہیں کہ کوئی بوڑھا مسلمان جو استقامت کے ساتھ سنت پر عمل کرنے والا ہو وہ اللہ سے دعا مانگے اور اللہ اس کی دعا کو قبول نہ فرمائے ۔
فائدہ: معلوم ہوا کہ بوڑھوں سے دعائیں لینی اور کرانی چاہییں۔ یہاں اس فرق کو بھی اچھی طرح ذہن نشین فرما لیں کہ دعائیں کرانا اور دعائیں لینا دونوں میں فرق ہے۔ ”دعا لینا“ اسے کہتے ہیں کہ آپ کسی کی خدمت کریں اور وہ خوش ہو کر آپ کو دعائیں دے جبکہ ”دعا کرانا“ اسے کہتے ہیں کہ کسی دوسرے سے دعا کی درخواست کی جائے اگرچہ دعا کرانا بھی ثابت ہے لیکن اصل بات دعائیں لینا ہے۔
بوڑھے مسلمان کی عزت:
عَنْ أَبِى مُوسَى الأَشْعَرِىِّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ مِنْ إِجْلاَلِ اللَّهِ إِكْرَامَ ذِى الشَّيْبَةِ الْمُسْلِمِ وَحَامِلِ الْقُرْآنِ غَيْرِ الْغَالِى فِيهِ وَالْجَافِى عَنْهُ وَإِكْرَامَ ذِى السُّلْطَانِ الْمُقْسِطِ۔
سنن ابی داؤد ، باب فی تنزیل الناس منازلھم ، الرقم: 4845
ترجمہ: حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بوڑھے مسلمان کی عزت کرنااللہ رب العزت کی عظمت بجا لانے میں سے ہے اور قرآن کریم کا اعتدال پسند عالم اور انصاف پسند بادشاہ کی عزت کرنا بھی اللہ کی عظمت بجا لانے میں سے ہے۔
فائدہ: معلوم ہوا کہ بوڑھوں کی عزت کرنا اللہ کی عظمت بجا لانے میں سے ہے ۔
بڑوں کی عزت:
عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا وَيُعَظِّمْ كَبِيرَنَا۔
شعب الایمان للبیہقی ، باب فی رحم الصغیر وتوقیر الکبیر ، الرقم: 10476
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی تعظیم نہ کرے تو اس کا ہمارے ساتھ دینی رشتہ بہت ہی کمزور ہے۔
فائدہ: اس سے بڑی محرومی اور کیا ہو گی کہ اللہ کے رسول ایسے شخص کو ”اپنا“ کہنے کو تیار نہیں جو بوڑھوں کی عزت نہیں کرتا اور چھوٹوں پر شفقت نہیں کرتا۔
بوڑھے شخص کو مجلس میں جگہ دیں:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يُوَسَّعُ الْمَجْلِسُ إِلَّا لِثَلَاثَةٍ: لِذِي سِنٍّ لِسِنِّهِ وَذِي عِلْمٍ لِعِلْمِهِ وَذِي سُلْطَانٍ لِسُلْطَانِهِ۔
شعب الایمان للبیہقی ، باب فی رحم الصغیر وتوقیر الکبیر ، الرقم: 10484
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجلس میں تین طرح کے لوگوں کے لیے وسعت پیدا کرو ۔ بڑے کےلیے اس کے عمر میں بڑا ہونے کی وجہ سے ، عالم کے لیے اس کے علم کی وجہ سے اور سردار کے لیے اس کی سرداری کی وجہ سے ۔
فائدہ: جہاں چند لوگ بیٹھے ہوں وہاں اگر کوئی بڑی عمر )سن رسیدہ / بوڑھا ( یا عالم یا کسی قوم یا برادری کا سردار آجائے تو اس کے لیے مجلس میں بیٹھنے کی گنجائش پیدا کی جائے، یہ اس کی عزت کا باعث ہے ۔
بڑوں کو بات کرنے دیں:
عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ وَسَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا أَنَّهُمَا حَدَّثَاهُ أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ سَهْلٍ وَمُحَيِّصَةَ بْنَ مَسْعُودٍ أَتَيَا خَيْبَرَ فَتَفَرَّقَا فِي النَّخْلِ فَقُتِلَ عَبْدُ اللهِ بْنُ سَهْلٍ فَجَاءَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ وَحُوَيِّصَةُ وَمُحَيِّصَةُ ابْنَا مَسْعُودٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَكَلَّمُوا فِي أَمْرِ صَاحِبِهِمْ فَبَدَأَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ وَكَانَ أَصْغَرَ الْقَوْمِ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَبِّرِ الْكُبْرَ۔
صحیح البخاری باب اکرام الکبیر ویبداء اکبربالکلام والسوال ، الرقم: 6142
ترجمہ: حضرت رافع بن خدیج اور سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود رضی اللہ عنھما خیبر پہنچے وہاں جا کر کجھوروں کے باغات میں جدا جدا ہو گئے اسی دوران عبداللہ بن سہل قتل کردیئے گئے تو عبدالرحمٰن بن سہل اور مسعود کے بیٹے حویصہ اور محیصہ رضی اللہ عنھم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئےاور اپنے ساتھی کے بارے بات چیت کی تو گفتگو کی ابتداء عبدالرحمن نے کی جب کہ وہ سب سے چھوٹے تھے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا :بڑے کے مرتبے اور عزت کا خیال رکھو)یعنی بڑوں کو بات کرنے دو (
تمہارا بڑا کون ہے؟
عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَدِمَ وَفْدُ جُهَيْنَةَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَامَ غُلَامٌ يَتَكَلَّمُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَهْ! فَأَيْنَ الْكِبَرُ
شعب الایمان للبیہقی ، باب فی رحم الصغیر وتوقیر الکبیر ، الرقم: 10486
ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جہینہ قبیلے کا ایک وفد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ان میں سے ایک کم عمر لڑکا بات کرنے لگا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:رکو!تمہارا بڑا کون ہے ؟ ) بات کرنے کا زیادہ حقدار وہی ہے (
فائدہ: وفد میں ترجمان کے طور پر بات کرنے کا حقدار وہ ہے جو بڑی عمر کا ہو۔ ہاں اگر مشورے سے یہ طے کر لیا جائے کہ بات فلاں کرے گا خواہ وہ عمر میں چھوٹا ہی کیوں نہ ہو، تو درست ہے۔ بڑوں کی موجودگی میں چھوٹے از خود بات شروع نہ کریں ۔
چھوٹا شخص بڑے کو سلام کرے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسَلِّمُ الصَّغِيرُ عَلَى الْكَبِيرِ۔
صحیح البخاری، باب تسلیم الصغیر علی الکبیر، الرقم: 6234
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چھوٹی عمر والے بڑی عمر والے کو سلام کریں۔
فائدہ : بڑوں کی عمر اور ان کی بزرگی کا لحاظ کرتے ہوئے چھوٹوں کو چاہیے کہ وہ سلام کرنے میں ابتداء کریں تاکہ بڑوں کا فطری تقاضا پورا ہو اور انہیں یہ احساس ہو کہ ہماری معاشرے میں قدر ہے ۔
نماز کی امامت:
عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَدِمْنَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ شَبَبَةٌ فَلَبِثْنَا عِنْدَهُ نَحْوًا مِنْ عِشْرِينَ لَيْلَةً وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَحِيمًا فَقَالَ لَوْ رَجَعْتُمْ إِلَى بِلَادِكُمْ فَعَلَّمْتُمُوهُمْ مُرُوهُمْ فَلْيُصَلُّوا صَلَاةَ كَذَا فِي حِينِ كَذَا وَصَلَاةَ كَذَا فِي حِينِ كَذَا وَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاةُ فَلْيُؤَذِّنْ لَكُمْ أَحَدُكُمْ وَلْيَؤُمَّكُمْ أَكْبَرُكُمْ۔
صحیح البخاری، باب اذا استووا فی القراءۃ فلیومھم اکبرھم، الرقم: 685
ترجمہ: حضرت مالک بن الحویرث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں اپنے قبیلہ کے چند افراد کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں ہم بیس راتیں ٹھہرے ،آپ انتہائی مہربان تھے۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جب تم اپنے علاقے میں جاؤ، اپنے قبیلے والوں کو دین کی تعلیم دو ، انہیں نماز پڑھنے کا کہو کہ فلاں فلاں وقت میں فلاں فلاں نماز ادا کرو ۔اور جب نماز کا وقت ہو تو تم میں سے ایک شخص اذان دے اور جو عمر میں سب سے بڑا ہو وہ تمہاری امامت کرائے۔
فائدہ: عبادات میں سب سے زیادہ اہم رکن نماز ہے اور اس کی امامت کےلیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر میں بڑے شخص کو ترجیح دی ہے ۔
نماز میں بوڑھوں کی رعایت:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا أَمَّ أَحَدُكُمْ النَّاسَ فَلْيُخَفِّفْ فَإِنَّ فِيهِمْ الصَّغِيرَ وَالْكَبِيرَ وَالضَّعِيْفَ وَالْمَرِيْضَ فَإِذَا صَلَّى وَحْدَهُ فَلْيُصَلِّ كَيْفَ شَاءَ۔
جامع الترمذی ، باب ماجاء اذا ام احدکم الناس فلیخفف، الرقم: 219
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب تم میں سے کوئی لوگوں کا امام بن کر انہیں نماز پڑھائے تو اسے چاہیے کہ ہلکی پھلکی نماز پڑھائے(یعنی زیادہ لمبی نہ کرے) کیونکہ مقتدیوں میں کمزور،بیمار اور بوڑھے بھی ہوتے ہیں۔
عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللهِ لَا أَكَادُ أُدْرِكُ الصَّلَاةَ مِمَّا يُطَوِّلُ بِنَا فُلَانٌ فَمَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَوْعِظَةٍ أَشَدَّ غَضَبًا مِنْ يَوْمِئِذٍ فَقَالَ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّكُمْ مُنَفِّرُونَ فَمَنْ صَلَّى بِالنَّاسِ فَلْيُخَفِّفْ فَإِنَّ فِيهِمُ الْمَرِيضَ وَالضَّعِيفَ وَذَا الْحَاجَةِ
صحیح البخاری، باب الغضب فی الموعظۃ والتعلیم اذا رائ ما یکرہ، الرقم: 90
ترجمہ : حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں فلاں شخص کی وجہ سے نماز میں شریک نہیں ہوتا، کیونکہ وہ بہت لمبی نماز پڑھاتے ہیں۔ ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ علیہ وسلم کو کبھی وعظ اور خطبہ کہ حالت میں اس دن سے زیادہ غصے کی حالت میں نہیں دیکھا،پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے بعض وہ لوگ ہیں جو ( اپنے نامناسب طرزِعمل سے لوگوں کو ) دور بھگانے والے ہیں،جو کوئی تم میں سے لوگوں کا امام بنے اور ان کو نماز پڑھائے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ نماز مختصر پڑھائے،کیونکہ ان نماز پڑھنے والوں میں کمزور )بوڑھے، بڑی عمر والے (بھی ہوتے ہیں اسی طرح وہ لوگ بھی ہوتے ہیں جو ضروری کام والے بھی ہوتے ہیں۔
فائدہ: وہ لوگ جن کی اقتداء میں بوڑھے اور کمزور لوگ نماز پڑھے ہوں انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہر وقت پیش نظر رکھنا چاہیے ۔
بوڑھوں کی عزت پر انعام خداوندی:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَكْرَمَ شَابٌّ شَيْخًا لِسِنِّهِ إِلَّا قَيَّضَ اللَّهُ لَهُ مَنْ يُكْرِمُهُ عِنْدَ سِنِّهِ۔
جامع الترمذی، باب ماجا فی اجلال الکبیر، الرقم: 1945
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو جوان کسی بوڑھے کی بڑھاپے کی وجہ سے عزت کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس جوان کے لیے کسی کو مقرر فرما دیتے ہیں جو اس کے بڑھاپے میں اس کی عزت کرے۔
فائدہ: ہر شخص بشرط زندگی بچپن، لڑکپن اور جوانی کی بہاریں دیکھنے کے بعد بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے اس وقت وہ دوسروں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے، بوڑھوں کی عزت کرنے سے اللہ کریم ایسے شخص کی یہ منزل آسان فرما دیتے ہیں۔
جنت میں نبی کا پڑوس:
عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا أَنَسُ! وَقِّرِ الْكَبِيرَ وَارْحَمِ الصَّغِيرَ تُرَافِقُنِي فِي الْجَنَّةِ۔
شعب الایمان للبیہقی ، باب فی رحم الصغیر وتوقیر الکبیر ، الرقم: 10475
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: اے انس!بڑوں کی عزت کرنا اور چھوٹوں سے شفقت والا معاملہ کرنا یہ ایسا کام ہے جو تجھے جنت میں میرا پڑوسی بنادے گا ۔
وقار کی تین علامتیں:
قَالَ ذُو النُّونِ رَحِمَہُ اللہُ: ثَلَاثَةٌ مِنْ أَعْلَامِ الْوَقَارِ: تَعْظِيمُ الْكَبِيرِ وَالتَّرَحُّمُ عَلَى الصَّغِيرِ وَالتَّحَلُّمُ عَلَى الْوَضِيعِ ۔
شعب الایمان للبیہقی ، باب فی رحم الصغیر وتوقیر الکبیر ، الرقم: 10483
ترجمہ: حضرت ذوالنون مصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : تین باتیں وقار کی نشانیاں ہیں بڑوں کی عزت کرنا ، چھوٹوں پر شفقت کرنا اور گھٹیا آدمی کی باتوں کو برداشت کرنا ۔
قیس بن عاصم کی وصیت:
عَنْ حَكِيْمِ بْنِ قَيْسِ بْنِ عَاصِمٍ التَّمِيمِيِّ أَنَّ أَبَاهُ أَوْصَى عِنْدَ مَوْتِهِ فَقَالَ: بَنِيَّ اتَّقُوا اللهَ وَسَوِّدُوْا أَكْبَرَكُمْ فَإِنَّ الْقَوْمَ إِذَا سَوَّدُوا أَكْبَرَهُمْ خُلِّفُوا أَبَاهُمْ وَإِذَا سَوَّدُوا أَصْغَرَهُمْ أَزْرِي بِهِم فِي أَكِفَّائِكُمْ وَعَلَيْكُمْ بِاصْطِنَاعِ الْمَالِ فَإِنَّهُ مَنْبَهَةٌ لِلْكَرَمِ وَيُسْتَغْنَى بِهِ عَنِ اللَّئِيمِ، وَإِيَّاكُمْ وَمَسْأَلَةَ النَّاسِ۔
المعجم الکبیر للطبرانی، الرقم: 869
ترجمہ: حکیم بن قیس بن عاصم التمیمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان کے والد نے موت کے وقت اپنے بیٹوں کو یوں نصیحت کی:اللہ سے ڈرو اور اپنے بڑوں کو سردار بناوٴ۔جب قوم اپنے بڑوں کو سردار بناتی ہے تو اپنے آبا ؤاجداد سے آگے نکل جاتی ہے اور جب اپنے چھوٹے کو سردار بناتی ہے وہ اپنے ہم عصروں میں ذلیل و رسوا ہوجاتی ہے۔اور ہاں! مال کو حاصل بھی کرنا اور اس کی حفاظت بھی کرنا کیونکہ مال شریعت کےلیے زینت ہے اور وہ اس کے ذریعہ سےانسان کمینوں سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرنے سے بچو۔

والدین کی وفات کے بعداولادپرحقوق

 والدین کی وفات کے بعد اولاد پرقرآن وحدیث کی روشنی میں سات حقوق ہیں جو حسب ذیل ہیں: (۱) دعائے مغفرت (۲) ایصال ثواب طاعت (۳) اکرام اعزہ واحباب واہل قرابت (۴) اعانت اعزہ واحباب واہل قرابت (۵) ادائے دین وامانت (۶) تنفیذ جائز وصیت (۷) اور گاہ گاہ ان کی قبر کی زیارت۔ (استنباط کردہ محی السنہ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب نور اللہ مرقدہ) ۔

Wednesday 8 December 2021

وہ مقامات جہاں سلام نہیں کر ناچاہئے

 سلام کرنا سنت ہے اور جواب دینا واجب ہے، اور سلام میں پہل کرنے میں زیادہ ثواب ہے، سلام ان الفاظ سے کیا جائے: السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔

 البتہ سلام کرتے وقت بعض مقامات ایسے ہیں کہ وہاں سلام کرنے سے منع کیا گیا ہے، اس کا خیال رکھنا چاہیے:

فقہاء اور شارحین حدیث نے اس پر تفصیل سے گفتگو کی ہے، علامہ حصکفی ؒ نے اس سلسلہ میں صدر الدین غزی رحمہ اللہ کے سات اشعار نقل کیے ہیں اور اس پر اپنے ایک شعر کا اضافہ کیا ہے، ان اشعار میں بڑی حد تک ان مواقع کو جمع کر لیا گیا ہے جہاں سلام نہیں کرنا چاہیے، ان اشعار میں جن لوگوں کا ذکر ہے، وہ یوں ہیں:

نماز، تلاوتِ قرآن مجید اور ذکر میں مصروف شخص، جو حدیث پڑھا رہا ہو، کوئی بھی خطبہ دے رہا ہو، مسائلِ فقہ کا تکرار و مذاکرہ، جو مقدمہ کے فیصلہ کے لیے بیٹھا ہو، اذان دے رہا ہو، اقامت کہہ رہا ہو، درس دے رہا ہو، اجنبی جوان عورت کو بھی سلام نہ کرنا چاہیے کہ اس میں فتنہ کا اندیشہ ہے، شطرنج کھیلنے والے اور اس مزاج و اخلاق کے لوگ جیسے جو لوگ جوا کھیلنے میں مشغول ہوں، جو اپنی بیوی کے ساتھ بے تکلف کیفیات میں ہو، کافر اور جس کا ستر کھلا ہوا ہو، جو پیشاب پائخانہ کی  حالت میں ہو، اس شحص کو جو کھانے میں مشغول ہو، ہاں اگر کوئی شخص بھوکا ہو اور توقع ہو کہ سلام کی وجہ سے وہ شریک دسترخوان کر لے گا تو اس کو سلام کر سکتا ہے، گانے بجانے اور کبوتر بازی وغیرہ میں مشغول شخص کو بھی سلام نہیں کرنا چاہیے، اس کے علاوہ اور بھی کچھ صورتیں ہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ کسی اہم کام میں مشغول ہوں  کہ سلام کرنے سے ان کے کام میں خلل واقع ہو، یا جو لوگ فسق و فجور میں مصروف ہوں، یا جن کو سلام کرنا تقاضۂ حیا کے خلاف ہو یا جنہیں سلام کرنے میں فتنہ کا اندیشہ ہو، ایسے لوگوں کو اور غیرمسلموں کو پہل کر کے سلام نہ کرنا چاہیے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 618):

"وقد نظم الجلال الأسيوطي المواضع التي لا يجب فيها رد السلام ونقلها عنه الشارح في هامش الخزائن فقال:

رد السلام واجب إلا على ... من في الصلاة أو بأكل شغلا

أو شرب أو قراءة أو أدعيه ... أو ذكر أو في خطبة أو تلبيه

أو في قضاء حاجة الإنسان ... أو في إقامة أو الآذان

أو سلم الطفل أو السكران ... أو شابة يخشى بها افتتان

أو فاسق أو ناعس أو نائم ... أو حالة الجماع أو تحاكم

أو كان في الحمام أو مجنونا ... فواحد من بعدها عشرونا.

فتاوی شامی میں ہے: 

" یکره السلام علی العاجز عن الجواب حقیقةً کالمشغول بالأکل أو الاستفراغ، أو شرعاً کالمشغول بالصلاة وقراءة القرآن، ولو سلم لایستحق الجواب".

( کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا،۱/ ۶۱۷)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 415):

"(قوله: كآكل) ظاهره أن ذلك مخصوص بحال وضع اللقمة في الفم والمضغ، وأما قبل وبعد فلايكره؛ لعدم العجز، وبه صرح الشافعي، وفي وجيز الكردري: مر على قوم يأكلون إن كان محتاجاً وعرف أنهم يدعونه سلم وإلا فلا اهـ. وهذا يقضي بكراهة السلام على الآكل مطلقاً إلا فيما ذكره".

الفتاوى الهندية (5/ 325):

"السلام تحية الزائرين، والذين جلسوا في المسجد للقراءة والتسبيح أو لانتظار الصلاة ما جلسوا فيه لدخول الزائرين عليهم، فليس هذا أوان السلام فلا يسلم عليهم، ولهذا قالوا: لو سلم عليهم الداخل وسعهم أن لا يجيبوه، كذا في القنية.

يكره السلام عند قراءة القرآن جهراً، وكذا عند مذاكرة العلم، وعند الأذان والإقامة، والصحيح أنه لا يرد في هذه المواضع أيضاً، كذا في الغياثية."


کن مواقع پر سلام کرنا مکروہ ہے

 مندرجہ ذیل اشخاص کو سلام کرنا مکروہ ہے: ایسے شخص کو جو نماز میں یا تلاوقت میں یا کھانے پینے میں مشغول ہویا وعظ ودرس میں مشغول ہو اسی طرح ایسے شخص کو جو اذان دے رہا ہو یا خطبہ دے رہا ہو یا فریقین کے درمیان فیصلے کے لیے بیٹھا ہو یا شطرنج وغیرہ کھل رہا ہو یا بول وبراز (پیشاب، پاخانہ) کے لیے بیٹھا ہو یا کشف عورت کی حالت میں ہو وغیرہ۔ یکرہ السلام علی المصلّی والقاري والجالس للقضاس أو البحث في الفقہ أو التخلی ولو سلم علیہم لا یجب علیہم الرد الخ (شامی)

فرض نماز کے بعد دعاء

 فرض نماز کے بعد دعا کرنا ثابت ہے اور  فرض نمازوں کے بعد کے اوقات حدیث شریف کے مطابق قبولیتِ دعاکے اوقات ہیں،  فرائض کے بعددعاکرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اورسلف صالحین سے ثابت ہےاور دعا کے آداب میں سے ہے کہ ہاتھ اٹھا کر دعا کی جائے  اور آں حضرت ﷺ سے بھی  دعا میں ہاتھ اٹھانا ثابت ہے۔

'المعجم الکبیر ' میں  علامہ طبرانی رحمہ اللہ نے حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی سے ایک روایت ذکر کی ہے کہ  محمد بن یحیی اسلمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے عبد اللہ بن  زبیر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا  ،انہوں نے ایک شخص کو دیکھا کہ  وہ نماز سے فارغ ہونے سے پہلے ہی ہاتھ اٹھا کر دعا کررہا تھا تو جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو  حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے فرمایا: رسول اللہ ﷺ جب تک نماز سے فارغ نہ ہوتے  اس وقت تک (دعا کے لیے) ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے ( لہذا تم بھی ایسا ہی کرو)۔

'حدثنا محمد بن أبي يحيى، قال: رأيت عبد الله بن الزبير ورأى رجلاً رافعاً يديه بدعوات قبل أن يفرغ من صلاته، فلما فرغ منها، قال: «إن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يكن يرفع يديه حتى يفرغ من صلاته»۔ (المعجم الكبير للطبرانی 13/ 129، برقم: 324)

 اسی طرح ' کنزالعمال' میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جوبندہ نمازکے بعدہاتھ اٹھاکراللہ تعالیٰ سے دعاکرتاہے اورکہتاہے کہ اے میرے معبود....اللہ تعالیٰ اس کی دعا کوضرورقبول فرماتے ہیں ،اسے خالی ہاتھ واپس نہیں لوٹاتے۔

حضرت سلمان فارسیؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺنے ارشاد فرمایا: تمہارا رب حیا والا اور کریم ہے، اپنے بندے سے حیا کرتاہے ،جب وہ اپنے ہاتھوں  کو اس کے سامنے اٹھاتا ہے کہ ان کو خالی واپس لوٹا دے ۔

حضرت مالک بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺنے ارشاد فرمایا : جب تم اللہ سے دعا کرو تو ہاتھوں  کی ہتھیلیوں  سے کرو، ہاتھوں  کی پشت سے نہ کرو ۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں  ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں  سے سوال کیا کرو اور ہاتھوں  کی پشت سے نہ کرو ،پس جب دعا سے فارغ ہوجاؤ تو  ہاتھوں  کو اپنے چہرے پر پھیر لو ۔

دعا میں  ہاتھ اٹھانا حضور ﷺکی عادتِ شریفہ تھی ، حضرت سائب رضی اللہ عنہ اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں  کہ رسول اللہ ﷺجب دعا فرماتے تھے تو اپنے دونوں  ہاتھ مبارک اٹھاتے اور فارغ ہوتے تو ان دونوں  کو اپنے چہرے پر پھیرتے۔

اس طرح کی روایات فرض نمازوں کے بعدہاتھ اٹھاکراجتماعی دعاکے ثبوت واستحباب کے لیے کافی ہیں ؛ اس لیے نماز کے بعد دعاپر نکیر کرنا یا اسے بدعت کہنا درست نہیں۔ تاہم اسے سنتِ مستمرہ دائمہ کہنا مشکل ہے،اس بنا پراس کو ضروری اورلازم سمجھ کرکرنا،اورنہ کرنے والوں پرطعن وتشنیع کرنا بھی درست نہیں۔ اور یہ دعا سر اً افضل ہے، البتہ تعلیم کی غرض سے  کبھی کبھار امام  جہراً بھی دعا کرا سکتا ہے۔

حضرت علامہ محمدانورشاہ کشمیری رحمہ اللہ نے ' فیض الباری' میں اور محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوری نوراللہ مرقدہ نے اپنے فتاویٰ میں لکھاہے کہ فرائض کے بعد موجودہ ہیئت کے مطابق اجتماعی دعا کرنا سنت مستمرہ تو نہیں ہے، لیکن اس کی اصل ثابت ہے ؛ اس لیے یہ بدعت  نہیں ہے، اسے بدعت کہنا غلو ہے۔

مزید دلائل کے لیے ”النفائس المرغوبة في الدعاء بعد المکتوبة “ مؤلفہ حضرت مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ صاحب رحمہ اللہ کا مطالعہ فرمائیں

It's justice or injustice?

 The controversy erupted after Jummu  and  Kashmir  Chief Justice Mithal delivered the keynote lecture on 'Dharma and the Constitution of India: The Interplay' at a function organised by the J&K chapter of Adhivakta Parishad on Sunday, December 5, at the Teachers' Bhawan in Jammu. Curiously, a poster for the event says it is a celebration of Constitution Day - which is observed on November 26.

The Delhi-based outfit was founded in 1992 by the Hindu nationalist activist and RSS pracharak Dattopant Thengad, who is also credited for laying the foundations of the Swadeshi Jagaran Manch, Bharatiya Mazdoor Sangh and Bharatiya Kisan Sangh, the trade, labour and farmers' unions that are linked to the RSS, the ideological fountainhead of the BJP.

During his speech, the chief justice said the verdicts delivered by the apex court in Ayodhya and Sabarimala among other disputes involving Hindu shrines, he said the constitution has acted as a facilitator for dispute 'resolution'.

However, the presence of CJ Mithal at the Adhivakta Parishad function and his remarks on the constitution - which came barely days after the BJP MP K.J. Alphons introduced a private members' Bill in the Rajya Sabha to amend the Preamble of the constitution - have created an uproar.

A poster for the event.

'Are the judges and Chief Justice not responsible for defending [the] country's constitution?' the Communist Party of India (Marxist)

, in response to CJ Mithal's remarks that questioned the inclusion of the term 'secular' in the Preamble. 'They take an oath on it to safeguard its basic ethos. Such kind of statements are only going to erode the faith in the judiciary.'

The CPI(M) Central Committee member and senior J&K leader M.Y. Tarigami tweeted that the remarks of CJ Mithal will make those who make their constitutional cases before him feel uncomfortable.

The debate over the blurring of the line between the executive and the judiciary in India is not new. Since the BJP came to power in 2014, there have been allegations that the judicial system, especially the higher judiciary, was acting meekly when it comes to taking on the system.

A crisis was sparked in January 2018, when four senior judges of the Supreme Court held a press conference, alleging that the administration of justice was out of order and that 'cases having far-reaching consequences for the nation and judiciary were selectively assigned to benches of preference without any rational basis'.

Earlier this year, The Wire reported that a mobile SIM card registered in the name of a sitting Supreme Court judge was a potential target of surveillance using the Pegasus spyware, which is sold exclusively to 'vetted governments' by the Israeli tech firm NSO Group.

Supreme Court registrars and the staffer who accused Justice Ranjan Gogoi, who was then the CJI, of sexual harassment in 2019 were also potential targets of surveillance using the weapons-grade spyware, raising disturbing questions about the influence of the executive over the judiciary.

Manu Sebastian, the managing editor of LiveLaw, India's foremost legal website, said secularism has been held to be a basic feature of the Indian constitution but the framers of the Constituent Assembly did not deem it necessary to specially include 'secularism' in the Preamble, since they felt that the document was secular in character.

'The later addition to the Preamble recognises and clarifies a pre-existing fact only. This has been clarified by the Supreme Court in many judgments. And this is a constitutional guarantee to the religious minorities that they won't be discriminated by the state due to their faith,' he told The Wire.

However, Sebastian said that Chief Justice Mithal could have been more discreet while making comments on the constitution in the capacity of a judge. 'There should be more circumspection to ensure that the comments do not give fuel to the narratives against the constitutional guarantee of secularism,' he said.

Prominent lawyer and Jammu-based activist Sheikh Shakeel Ahmad said the participation of 'head of the judicial family' in the event of 'frontal organisation' of the BJP at a time when J&K is 'claimed to be limping back to normalcy and is passing through most sensitive phase has put a big question mark over the independence of judiciary and administration of justice.'

'At this juncture, such an event which was attended by [the] chief justice has apparently demoralised the believers in [the] rule of law. A message is [a] writ large of inclination towards a chosen few and far away from the subject on which function was intended to,' Shakeel, a vocal critique of J&K administration, said in a Facebook post.

Sebastian said there are instances to suggest that the executive was interfering in the functioning of the judiciary. 'The judiciary has been acting 'executive minded' in a majority of instances, barring certain exceptions,' he said.

A senior PDP leader said the events unfolding in the country under the BJP-led Union government 'seem to be happening in tandem with the majoritarian interests'. 'With Kashmir at the centre of the project to 'purify' Bharat, we are seeing an agenda rolling out on a day-to-day basis,' he said, requesting anonymity.

'The open association of the CJ with an RSS wing and his remarks [on the constitution] are part of this project. This is part of the larger reality and therefore doesn't shock,' the PDP leader, who was a minister in the PDP-BJP coalition government, said.

Monday 6 December 2021

میڈیکل انشورنس کاشرعی حکم

 انسان میڈیکل  انشورنس کا اتنا مجبور ہو جائے کہ اس کے بغیر مالی مشکلات کی وجہ سے علاج کروانا ناممکن ہو، تو ایسی صورت میں  میڈیکل انشورنس  متعدد علمائے کرام کے ہاں جائز ہے، کیونکہ میدیکل انشورنس میں  حرمت  کی وجہ ایک ہے اور وہ ہے جہالت[عدمِ تعین]، اس میں سود نہیں ہوتا، اور جس   چیز کی صورت حال ایسی ہو تو ضرورت پڑنے پر وہ جائز ہوتی ہے۔

میڈیکل انشورنس میں  جہالت[عدم تعین]: کی وجہ یہ ہے کہ: انشورنس کروانے والا رقوم تو جمع کرواتا ہے ، لیکن وہ اس بات سے لا علم ہوتا ہے کہ وہ جمع شدہ رقم کے برابر  علاج کی خدمت حاصل کریگا یا اس سے کم و بیش ۔

اور انشورنس کی کچھ صورتیں ایسی ہیں  جن میں  جہالت کے ساتھ ساتھ ربا بھی ہوتا ہے، مثلاً: لائف انشورنس، کیونکہ  اس انشورنس میں انشورنس کروانے والا  اتنی اقساط جمع کرواتا ہے جنکی تعداد کا اسے بھی علم نہیں ہے، لیکن یہ لازمی ہے کہ وہ ادا شدہ رقم سے زیادہ ہی وصول کرتا ہے۔

میڈیکل انشورنس ضرورت کے وقت جائز کہنے والے اہل علم میں :  ڈاکٹر علی محی الدین قرہ داغی، داکٹر عبد الرحمن بن صالح اطرم، ڈاکٹر یوسف شبیلی، اور ڈاکٹر خالد دعیجی شامل ہیں۔

یہ قاعدہ کہ "بنا بر جہالت حرام کردہ شے بوقتِ ضرورت مباح ہوتی ہے " متعدد اہل علم کا محورِ گفتگو رہا ہے چنانچہ :

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"بیع الغرر [ایسا تجارتی معاہدہ جس میں قیمت یا فروخت شدہ چیز متعین نہ ہو] سے اس لئے منع کیا گیا ہے کہ اس میں قمار بازی  اور جوئےکی آمیزش ہے، جو کہ ناحق مال ہڑپ کرنے کے زمرے میں آتا ہے، چنانچہ  اگر کسی [تجارتی معاہدے] میں   اس کے بغیر چارہ نہ ہواور بڑے نقصان کا خدشہ ہو  تو بیع الغرر اس وقت جائز  ہو گی؛ تا کہ کم نقصان کو برداشت  کر کے بڑے نقصان سے محفوظ رہا جائے، واللہ اعلم" انتہی
"مجموع الفتاوى" (29/ 483)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مزید یہ بھی کہتے ہیں:
"غرر [تجارتی معاہدے میں فروخت شدہ چیز کا عدمِ تعین ] کی وجہ سے  ہونے والا نقصان سود کی وجہ سے ہونے والے نقصان سے کم ہے، اسی وجہ سے بعض مواقع پر  بوقت ِضرورت اس کی رخصت دی گئی ہے ،  کیونکہ   ان مواقع پر ان اشیاء کی حرمت ان میں موجود  غرر  سے  زیادہ نقصان دہ  ہوتی ہے، مثال کے طور پر: مکان  کی خرید و فروخت جائز ہے، چاہے آپکو کی اس مکان کی دیواروں، اور بنیادوں کیلئے استعمال شدہ مواد کے بارے میں علم نہ ہو، اسی طرح  حاملہ جانور  اور دودھ پلاتے جانور کی خرید وفروخت  جائز ہے خواہ آپکو حمل اور دودھ کی مقدار کے بارے میں علم نہ ہو  (اگرچہ  الگ سے حمل کی خرید و فروخت ،  اور اسی طرح اکثر علمائے کرام کے ہاں تھنوں میں موجود دودھ کی فروخت  الگ سے کرنا منع ہے)،اسی طرح زرعی اجناس کی صلاحیت ظاہر ہونے کے بعد انکی خرید و فروخت  جائز ہے،کیونکہ احادیث مبارکہ کے مطابق پھل یا زرعی اجناس  کی صلاحیت ظاہر ہونے کے بعد  ان کی خرید و فروخت کرنا ، اور انہیں فصل یا درخت پر باقی رکھنا درست ہے (حالانکہ خرید و فروخت کے بعد ان کا اپنی کونپلوں پہ لگے رہنے میں  کچھ غرر کا اندیشہ موجود ہے۔مترجم) ، اسی بات کے جمہور اہل علم  یعنی مالک، شافعی، اور احمد قائل ہیں، اگرچہ ابھی تک ان زرعی اجناس میں  مکمل طور پر ایسی علامات پیدا نہیں ہوئی ہوتیں   جن  کے ظاہر ہونے پر ان زرعی اجناس کو مکمل تیار  کہا جا سکے۔
اور اسی طرح  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے  تابیر شدہ [عمدہ کھجوریں حاصل کرنے کیلئے کھجوروں کی سالانہ پیوند کاری۔ مترجم] کھجور کے درختوں کی فروخت کے وقت خریدار کو  اجازت دی ہے کہ وہ  تابیر شدہ پھل کی شرط لگا دے کہ وہ میرا [یعنی: خریدار  کا] ہوگا، تو ایسی صورت میں خریدار کھجور کے درخت کے ساتھ ساتھ تابیر شدہ پھل کا اسکی مکمل صلاحیت ظاہر ہونے سے پہلے  ہی   مالک بن جاتا ہے ، چنانچہ ان مثالوں سے  یہ ظاہر ہوتا ہے کہ  ضمنی  اور تھوڑے بہت غرر [جہالت اور عدم تعین] کیساتھ  تجارتی معاہدہ کرنا جائز ہے، جو کسی اور  صورت میں جائز نہیں ہے " انتہی
"الفتاوى الكبرى" (4/ 21)

دوم:

ہمیں یہی لگتا ہے کہ ہسپتال کے شعبہ انشورنس میں بطور طبیب کام کرنا جائز ہے؛ اور اسے حرام کام میں  تعاون  شمار نہیں کیا جاسکتا؛ کیونکہ بعض ڈاکٹر اور میڈیکل سے منسلک حضرات میں سے بھی ایسے   ہیں جنہیں انشورنس کی ضرورت ہے، یا انہیں انشورنس کیلئے مجبور کیا گیا ہے، یا اسکی کمپنی سے  زبردستی اسکی ، یا اسکے اہل خانہ کی انشورنس کروا دی جاتی  ہے، اور ایسے حالات میں ان لوگوں کیلئے میڈیکل انشورنس  سے فائدہ  اٹھانا اور استعمال کرنا جائز ہے، جیسے کہ پہلے بھی اسکی وضاحت گزر چکی ہے، اس کے بعد ایسے لوگ باقی رہ جائیں گے جنہیں انشورنس کی ضرورت تو نہیں تھی لیکن  پھر بھی انہوں نے انشورنس کروا لی تو ایسے لوگوں کو پہچاننا  اور انہیں ضرورت مند لوگوں سے الگ کرنا مشکل ہے،  اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ  تعالی  انہیں معاف فرمائے۔

البتہ اکثر فقہاء کی رائے درج ذیل ہے :

انشورنس کامروجہ طریقہ کارشرعاً ناجائزوحرام ہے؛ اس لیے کہ وہ اپنی اصل وضع کے اعتبارسے  یاتوقمار(جوا)ہے یا ربوا(سود)ہے۔"جوا" اور"سود" دونوں کی حرمت قرآن وحدیث سے ثابت ہے۔ ہیلتھ انشورنس اگرکمپنی کی طرف سے ضروری ہے اور ملازم چاہے یا نہ چاہے کمپنی اس کا انشورنس ضرور کرتی ہے تو اس صورت میں  ملازمین  صرف اسی قدرمیڈیکل کی سہولت اٹھاسکتے ہیں جس قدرکمپنی نے اپنے ملازم کے لیے انشورنس کی مدمیں رقم جمع کروائی ہے، اس سے زائد فائدہ اٹھاناجائزنہیں ہوگا، بقدرِرقم علاج معالجہ کراسکتے ہیں

اسلام میں مرتد کی سزا

 اگر کوئی مسلمان العیاذباللہ دینِ اسلام سے نکل کر مرتد ہوجائے اور کفر میں داخل ہوجائے تو اگر مرتد شخص مرد ہو تو تین دن تک اسے مہلت دی جائے، اور اس دوران اس کے شکوک وشبہات دور کیے جائیں، اگر اس کے شکوک وشبہات دور ہوجائیں اور دوبارہ اسلام قبول کرلے تو  وہ دیگر مسلمانوں کی طرح ہوگا۔ اور  اگر شکوک وشبہات دور کرنے  کے باوجود نہ مانے اور واپس اسلام میں داخل نہ ہو تو شرعاًایسے مرتد مرد  کی سزا قتل ہے،جسے نافذ کرنے کااختیاراسلامی حکومت کو ہے۔  قرآن و سنت، اجماع امت اور فقہائے امت کا یہی فیصلہ ہے، اور عقل و دیانت کا بھی یہی تقاضا ہے۔

قرآنِ کریم میں ہے:

{انماجزاء الذین یحاربون اللّٰه ورسوله ویسعون في الارض فسادًا ان یقتلوا او یصلبوا او تقطع ایدیهم وارجلهم من خلاف او ینفوا من الارض ذلک لهم خزي في الدنیا ولهم في الآخرة عذاب عظیم الا الذین تابو من قبل ان تقدروا علیهم فاعلموا ان اللّٰه غفور رحیم}  [المائدة: ۳۳-۳۴]

ترجمہ: ”یہی سزا ہے ان کی جو لڑائی کرتے ہیں اللہ سے اوراس کے رسول سے اور دوڑتے ہیں ملک میں فساد کرنے کو،  کہ ان کو قتل کیا جائے یاسولی چڑھائے جائیں یا کاٹے جائیں ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف جانب سے، یا دور کردیے جائیں اس جگہ سے، یہ ان کی رسوائی ہے دنیا میں اوران کے لیے آخرت میں بڑا عذاب ہے، مگر جنہوں نے توبہ کی تمہارے قابو پانے سے پہلے تو جان لو کہ اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔“

اس آیت کے ذیل میں تمام مفسرین و محدثین نے ’’عکل وعرینہ‘‘  کے ان لوگوں کا واقعہ لکھاہے جو اسلام لائے تھے، مگر مدینہ منورہ  کی آب و ہوا ان کو راس نہ آئی تو ان کی شکایت پر  آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو صدقہ کے اونٹوں کے ساتھ بھیج دیا، جہاں وہ ان کا دودھ وغیرہ پیتے رہے، جب وہ ٹھیک ہوگئے تو مرتد ہوگئے اوراونٹوں کے چرواہے کو قتل کرکے صدقہ کے اونٹ بھگالے گئے، جب مسلمانوں نے ان کو گرفتار کرلیا اور آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے گئے تو  آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سیدھے ہاتھ اوراُلٹے پاؤں کاٹ دیے، اور وہ حرہ (گرم پتھریلی زمین) میں ڈال دیے گئے، پانی مانگتے رہے، مگر ان کو پانی تک نہ دیا، یہاں تک کہ وہ تڑپ تڑپ کر مرگئے۔ راوی حدیث ابوقلابہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "«فهؤلاء سرقوا وقتلوا، وكفروا بعد إيمانهم، وحاربوا الله ورسوله»".یعنی ان لوگوں نے چوری بھی کی، قتل بھی کیا اور ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کیا اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے مقابلہ کیا، اس جرم کی پاداش میں انہیں یہ سزا دی گئی۔

صحیح بخاری میں ہے:

"عن أنس بن مالك، قال: قدم أناس من عكل أو عرينة، فاجتووا المدينة، «فأمرهم النبي صلى الله عليه وسلم، بلقاح، وأن يشربوا من أبوالها وألبانها»، فانطلقوا، فلما صحوا، قتلوا راعي النبي صلى الله عليه وسلم، واستاقوا النعم، فجاء الخبر في أول النهار، فبعث في آثارهم، فلما ارتفع النهار جيء بهم، «فأمر فقطع أيديهم وأرجلهم، وسمرت أعينهم، وألقوا في الحرة، يستسقون فلايسقون». قال أبو قلابة: «فهؤلاء سرقوا وقتلوا، وكفروا بعد إيمانهم، وحاربوا الله ورسوله»". (صحيح البخاري. 1 / 56، رقم الحدیث : 233، 1501، 4192)

حدیث شریف میں ہے:

"عن عکرمة قال: قال ابن عباس: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم: من بدّل دینه فاقتلوه". (النسائي، ص:۱۴۹، ج:۲، سنن ابن ماجه، ص: ۱۸۲)

ترجمہ: ”حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص دین تبدیل کرکے مرتد ہوجائے، اس کو قتل کردو۔“

اور اگر ارتداد اختیار کرنے والی عورت ہے تو اولاً اس کے بھی شکوک وشبہات دور کیے جائیں، اگر اسلام کی طرف لوٹ آئے تو بہتر، بصورتِ دیگر  اسے تاحیات قید میں رکھاجائے، الا یہ کہ جب وہ توبہ کرلے تو اسے رہا کردیا جائے۔ (تفصیلی دلائل  کے لیے دیکھیے:جواہرالفقہ ،جلد ششم ، رسالہ :مرتد کی سزا اسلام میں 

علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین جاناپڑے والی روایت کی تحقیق

 یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ ملتی ہے:

"اطلبوا العلم ولو بالصین".

یعنی "علم حاصل کرو اگرچہ تمہیں چین جانا پڑے".

اور اسے امام بیہقی رحمہ اللہ نے "شعب الایمان" میں اور خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے "کتاب الرحلۃ" میں اپنی سندوں کے ساتھ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعًا ذکر کیا ہے، لیکن اکابر محدثین نے ان سندوں کو ضعیف قرار دیا ہے، چنانچہ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اس کو باطل قرار دیا اور امام ابن جوزی رحمہ اللہ نے موضوع روایات سے متعلق اپنی کتاب میں اس روایت کو بھی ذکر کیا ہے، اس لیے محدثین کے بیان کردہ قواعد کی روشنی میں اس حدیث کو بیان کرنا درست نہیں۔ یاد رہے کہ بعض اہلِ علم نے تاریخی واقعات و قرائن سے اس روایت کی تائید پیش کرکے اسے حدیث ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن محدثین کے ہاں جب سندًا روایت کا ثبوت نہ ہو تو خارجی قرائن سے وہ ثابت قرار نہیں پاتی۔

مزید تفصیل کے لیے دیکھیں:

1- المقاصد الحسنة للسخاوي

2- کشف الخفاء للعجلوني

3- الموضوعات لابن الجوزي. وغیرہ۔

علماء کی زیارت مستحب ہے

 دینِ اسلام میں  اہلِ حق علماءِ کرام   کا بہت بڑا مرتبہ ہے؛  اس لیے کہ ہر مسلمان پر عبادات کے علاوہ، جن معاملات اور معاشرت سے اس کا زندگی بھر واسطہ پڑتا ہے، اس کا علم سیکھنا فرض ہے، اور  یہ فریضہ علماء سے پوچھ  پوچھ کر ہی ایک عام مسلمان ادا کرسکتا ہے۔ نیز اگر کسی علاقے  کے مسلمانوں کی دینی رہنمائی کے لیے کوئی عالم نہ ہو تو وہ علاقے والے گناہ گار ہوں گے؛ کیوں کہ دینی رہنمائی کرنے والے علماء کا ہونا فرضِ کفایہ ہے !

امام نووی رحمہ اللہ نے صحیح مسلم کی درج ذیل حدیث  سے حاصل شدہ فوائد میں علماء و فضلاء کی زیارت کا پسندیدہ ہونا بھی ذکر کیا ہے، صحیح مسلم کی روایت اور امام نووی رحمہ اللہ کی عبارت درج ذیل ہے: 

صحيح مسلم (1 / 61):

" عن أنس بن مالك، قال: حدثني محمود بن الربيع، عن عتبان بن مالك، قال: قدمت المدينة، فلقيت عتبان، فقلت: حديث بلغني عنك، قال: أصابني في بصري بعض الشيء، فبعثت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم أني أحب أن تأتيني فتصلي في منزلي، فأتخذه مصلى، قال: فأتى النبي صلى الله عليه وسلم، ومن شاء الله من أصحابه، فدخل وهو يصلي في منزلي وأصحابه يتحدثون بينهم، ثم أسندوا عظم ذلك وكبره إلى مالك بن دخشم، قالوا: ودوا أنه دعا عليه فهلك، ودوا أنه أصابه شر، فقضى رسول الله صلى الله عليه وسلم الصلاة، وقال: «أليس يشهد أن لا إله إلا الله، وأني رسول الله؟» ، قالوا: إنه يقول ذلك، وما هو في قلبه، قال: «لا يشهد أحد أن لا إله إلا الله، وأني رسول الله، فيدخل النار، أو تطعمه» ، قال أنس: فأعجبني هذا الحديث، فقلت لابني: اكتبه فكتبه."

 ترجمہ : حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میری آنکھوں میں کچھ خرابی ہوگئی تھی؛ اس لیے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ میری یہ خواہش ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے گھر میں تشریف لا کر نماز پڑھیں؛ تاکہ میں اس جگہ کو اپنے نماز پڑھنے کی جگہ بنالوں؛ کیوں کہ میں مسجد میں حاضری سے معذور ہوں،  پس آپ ﷺ اپنے ساتھیوں کے ساتھ تشریف لائے اور گھر میں داخل ہو کر نماز پڑھنے لگے،  مگر صحابہ کرام  رضی اللہ تعالی عنہم آپس میں گفتگو میں مشغول رہے،  دورانِ گفتگو مالک بن دخشم کا تذکرہ آیا، لوگوں نے اس کو مغرور اور متکبر کہا( کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری کی خبر سن کر بھی حاضر نہیں ہوا معلوم ہوا وہ منافق ہے)، صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے کہا کہ ہم دل سے چاہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے  لیے بددعا کریں کہ وہ ہلاک ہو جائے یا کسی مصیبت میں گرفتار ہو جائے،  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کیا وہ اللہ تعالیٰ کی معبودیت اور میری رسالت کی گواہی نہیں دیتا؟!  صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا:  زبان سے تو وہ اس کا قائل ہے، مگر اس کے دل میں یہ بات نہیں،  فرمایا:  جو شخص اللہ تعالیٰ کی تو حید اور میری رسالت کی گواہی دے گا وہ دوزخ میں داخل نہیں ہوگا، یا یہ فرمایا کہ اس کو آگ نہ کھائے گی۔  حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہ حدیث مجھے بہت اچھی لگی،  میں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ اس کو لکھ لو تو انہوں نے اس حدیث کو لکھ لیا۔

شرح النووي على مسلم (1 / 244):

"وفي هذا الحديث أنواع من العلم تقدم كثير منها، ففيه التبرك بآثار الصالحين و فيه زيارة العلماء و الفضلاء و الكبراء أتباعهم و تبريكهم إياهم."

اسی طرح ملا علی قاری رحمہ اللہ نے علماء کی زیارت کو زندگی کے مقاصد میں شمار کیا ہے، جب کہ امام غزالی رحمہ اللہ نے علماء کی زیارت کے سفر کو مستحب اسفار میں شمار کیا ہے۔

البتہ علماءِ کرام کی زیارت  کے متعلق  لوگوں میں حدیث مشہور ہے کہ جس نے علماء کی زیارت کی گویا کہ اس نے نبی کریم ﷺ  کی زیارت کی۔ مذکورہ حدیث  سنداً درست نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 42):

"وأما فرض الكفاية من العلم، فهو كل علم لا يستغنى عنه في قوام أمور الدنيا كالطب والحساب والنحو واللغة والكلام والقراءات وأسانيد الحديث وقسمة الوصايا والمواريث والكتابة والمعاني والبديع والبيان والأصول ومعرفة الناسخ والمنسوخ والعام والخاص والنص والظاهر وكل هذه آلة لعلم التفسير والحديث، وكذا علم الآثار والأخبار والعلم بالرجال وأساميهم وأسامي الصحابة وصفاتهم، والعلم بالعدالة في الرواية، والعلم بأحوالهم لتمييز الضعيف من القوي، والعلم بأعمارهم وأصول الصناعات والفلاحة كالحياكة والسياسة والحجامة. اهـ."

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (2 / 589):

"(«كنت نهيتكم عن زيارة القبور ألا فزوروها» ) . والحديث إنما ورد نهيا عن الشد لغير الثلاثة من المساجد لتماثلها، بل لا بلد إلا وفيها مسجد، فلا معنى للرحلة إلى مسجد آخر، وأما المشاهد فلا تساوي بل بركة زيارتها على قدر درجاتهم عند الله، ثم ليت شعري هل يمنع هذا القائل من شد الرحل لقبور الأنبياء كإبراهيم وموسى ويحيى، والمنع من ذلك في غاية الإحالة، وإذا جوز ذلك لقبور الأنبياء والأولياء في معناهم، فلا يبعد أن يكون ذلك من أغراض الرحلة، كما أن زيارة العلماء في الحياة من المقاصد."

إحياء علوم الدين (2 / 249):

"والمحمود ينقسم الى واجب كالحج وطلب العلم الذي هو فريضة على كل مسلم والى مندوب اليه كزيارة العلماء وزيارة مشاهدهم."

كشف الخفاء ت هنداوي (2 / 300):

من زار العلماء؛ فكأنما زارني، ومن صافح العلماء؛ فكأنما صافحني، ومن جالس العلماء؛ فكأنما جالسني، ومن جالسني في الدنيا؛ أجلس إلي يوم القيامة.قال في الذيل: في إسناده حفص؛ كذاب."

Sunday 5 December 2021

احکام اسلامی میں عقل کادائرۂ کار

 حضرت شاہ ولی اللہؒ نے ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کے مقدمہ میں اس مسئلے پر تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے کہ شریعت کے اوامر و نواہی اور قرآن و سنت کے بیان کردہ احکام و فرائض کا عقل و مصلحت کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ انہوں نے اس سلسلہ میں:

  • ایک گروہ کا موقف یہ بیان کیا ہے کہ یہ محض تعبدی امور ہیں کہ آقا نے غلام کو اور مالک نے بندے کو حکم دے دیا ہے اور بس! اس سے زیادہ ان میں غور و خوض کرنا اور ان میں مصلحت و معقولیت تلاش کرنا کار لاحاصل ہے۔
  • جبکہ دوسرے گروہ کا موقف یہ ذکر کیا ہے کہ شریعت کے تمام احکام کا مدار عقل و مصلحت پر ہے اور عقل و مصلحت ہی کے حوالے سے یہ واجب العمل ہیں۔ شریعت ان میں سے کسی کام کی اصل حاکم نہیں ہے، بلکہ اس کا وظیفہ صرف یہ ہے کہ وہ اعمال کے حسن و قبح سے انسانوں کو آگاہ کر دے، اس لیے کسی عمل کے حسن و قبح تک رسائی ہوگی تو وہ وجوب، جواز یا حرمت کا درجہ اختیار کرے گا، اور حسن و قبح تک رسائی نہیں ہوگی تو اسے حکم کی حیثیت حاصل نہیں ہو سکے گی۔

حضرت شاہ صاحبؒ نے ان دونوں گروہوں کے موقف کو غلط اور بے بنیاد قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ اصل بات ان دونوں کے درمیان ہے کہ شریعت کا کوئی حکم عقل و مصلحت کے خلاف نہیں ہے، لیکن چونکہ تمام انسانوں کی عقل یکساں نہیں ہے اور ہر شخص کا عقل و فہم کی ہر بات تک رسائی حاصل کرنا ممکن نہیں ہے، اس لیے قرآن و سنت کے احکام و قوانین کا مدار انسانی عقل و فہم اور اس کی سمجھ کے دائرے میں آنے والی حکمت و مصلحت پر نہیں ہے بلکہ صرف امر الٰہی پر ہے، اور وہ اسی لیے واجب العمل ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا حکم دیا ہے۔