https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 6 May 2023

دماغی توازن ٹھیک نہ ہو نے کی صورت میں طلاق

طلاق کے واقع ہونے کے لیے ضروری ہے کہ طلاق دینے والا عاقل ہو، یعنی اس کا دماغی توازن ٹھیک ہو، اگر کوئی آدمی ایسا ہے کہ اُس کا دماغی توازن ٹھیک نہ ہو یا ایسی حالت کبھی کبھی اس پر آتی ہو اور وہ اسی حالت میں طلاق کے الفاظ کہہ دے تو ایسے آدمی کی دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ الفتاوى الهندية (1/353): "و لايقع طلاق الصبي و إن كان يعقل و المجنون و النائم و المبرسم و المغمى عليه و المدهوش، هكذا في فتح القدير."

Saturday 29 April 2023

ارکان حج

حج کے ارکان تین ہیں: 1- احرام یعنی حج اور عمرے کی نیت، 2- میدانِ عرفات میں وقوف، رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: ’’الْحَجُّ عَرَفَة، مَنْ جَاءَ لَیْلَة جَمْعِِ قَبْلَ طُلُوْعِ الْفَجْرِ فَقَدْ اَدْرَکَ الحَجَّ". (الترمذي:۸۸۹، النسائي: ۳۰۱۶، ابن ماجه: ۳۰۱۵) ترجمہ: ’’حج وقوفِ عرفہ سے عبارت ہے۔ جو شخص مزدلفہ کی رات طلوعِ فجر سے قبل میدانِ عرفات میں آجائے اس کا حج ہوگیا‘‘۔ 3- طوافِ زیارت، [اسی کو طوافِ افاضہ بھی کہتے ہیں]؛ فرمانِ باری تعالی ہے: " وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ". ترجمہ: اور وہ بیت العتیق کا طواف کریں۔[الحج : 29] بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 125): "الوقوف بعرفة، وهو الركن الأصلي للحج، والثاني طواف الزيارة". بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 128): "وأما شرطه وواجباته فشرطه النية، وهو أصل النية دون التعيين حتى لو لم ينو أصلاً بأن طاف هارباً من سبع أو طالباً لغريم لم يجز". الموسوعة الفقهية الكويتية (17/ 49): "الوقوف بعرفة ركن أساسي من أركان الحج، يختص بأنه من فاته فقد فاته الحج. وقد ثبتت ركنية الوقوف بعرفة بالأدلة القاطعة من الكتاب والسنة والإجماع: أما القرآن؛ فقوله تعالى: {ثم أفيضوا من حيث أفاض الناس}. فقد ثبت أنها نزلت تأمر بالوقوف بعرفة. وأما السنة: فعدة أحاديث، أشهرها حديث: الحج عرفة. وأما الإجماع: فقد صرح به عدد من العلماء، وقال ابن رشد: أجمعوا على أنه ركن من أركان الحج، وأنه من فاته فعليه حج قابل". الموسوعة الفقهية الكويتية (17/ 51): "وعدد أشواط الطواف سبعة، وكلها ركن عند الجمهور. وقال الحنفية: الركن هو أكثر السبعة، والباقي واجب ينجبر بالدم". الموسوعة الفقهية الكويتية (2/ 129): "أجمع العلماء على أن الإحرام من فرائض النسك، حجاً كان أو عمرةً، وذلك؛ لقوله صلى الله عليه وسلم: إنما الأعمال بالنيات. متفق عليه. لكن اختلفوا فيه أمن الأركان هو أم من الشروط؟ ... الخ

تیجہ چالیسویں کی شرعی حیثیت

کسی میّت کے ایصالِ ثواب کے لیے سوئم، چالیسواں یا کوئی بھی وقت، دن یا کیفیت کا مخصوص کرناشریعت میں ثابت نہیں؛لہٰذا یہ بدعت ہے؛ کیوں کہ ثواب سمجھ کر اس کا اہتمام کیا جاتاہے۔ مسلمان کا فرض ہے کہ غمی ہو یا خوشی کسی حال میں بھی دین کے احکامات سے رو گردانی نہ کرے، بلکہ ہر خوشی و غم کے موقع پر اللہ تعالیٰ کے حکم کو سامنے رکھ کر اس پر چلنے کی پوری کوشش کرے۔ غم کے موقع پر غیر شرعی رسومات و بدعات (مثلاً: تیجہ، چالیسواں، اجرت کے عوض تلاوتِ قرآن پاک ، نوحہ وغیرہ) ناجائز ہیں،میت کے لیے ایصالِ ثواب تو ہر وقت ، ہر موقعہ پر کرنا جائز ہے، اور میت کو اس کا فائدہ پہنچتا ہے، اس لیے گھر میں ہی جو افراد اتفاقًا جمع ہوں اور اعلان و دعوت کے بغیر اپنی خوشی سے کچھ پڑھ لیں، دن وغیرہ کی کوئی تخصیص نہ ہو، اور قرآن پڑھنے کے عوض اجرت کا لین دین نہ ہو تو اس کی اجازت ہے، لیکن اس کے لیے تیسرے دن، اور چالیسویں دن ،اور سال کی تخصیص کرنا شرعاً ثابت نہیں ہے، نیز موجودہ زمانہ میں تیجہ ، چالیسواں اور برسی یا عرس میں اور بھی کئی مفاسد پائے جاتے ہیں، اور اسی ضروری سمجھا جاتاہے، شرکت نہ کرنے والوں کو طعن وتشنیع کا سامنا کرنا پڑتاہے؛ لہذا یہ بدعت ہے اور ناجائز ہے، ایسی تقریبات میں شرکت کرنا اور کھانا کھانا بھی ناجائز ہے۔ اگر کسی نے اس تقریب میں شرکت نہ کی ہو، اور اجرت پر تلاوت بھی نہ کی ہو، اسے یہ کھانا دے دیا جائے تو اس کے لیے یہ کھانا ناجائز نہیں ہوگا۔ فتاوی شامی میں ہے: "یکره اتخاذ الضیافة من الطعام من أهل المیت؛ لأنه شرع في السرور لا في الشرور وهي بدعة مستقبحة، وقوله: ویکره اتخاذ الطعام في الیوم الأول والثالث وبعد الأسبوع، ونقل الطعام إلی القبرفي المواسم، واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقرّآء للختم أو لقراء ة سورة الإنعام أوالإخلاص". (ردالمحتار على الدر المختار ، کتاب الصلاة ، باب صلاة الجنازة، مطلب في كراهة الضیافة من أهل المیت، کراچی ۲/۲۴۰) وفیہ ایضا: ومنها: الوصیة من المیت باتخاذ الطعام والضیافة یوم موته أو بعده و بإعطاء دراهم من یتلو القرآن لروحه أو یسبح و یهلل له، وکلها بدع منکرات باطلة، والماخوذ منها حرام للاٰخذ، وهو عاص بالتلاوة والذکر". (رد المحتار مع الدر المختار :۶/۳۳ ط: سعید، کراچی) الاعتصام للشاطبي (ص: 112): "وعن أبي قلابة: " لاتجالسوا أهل الأهواء، ولاتجادلوهم; فإني لاآمن أن يغمسوكم في ضلالتهم، ويلبسوا عليكم ما كنتم تعرفون". قال أيوب: "وكان والله من الفقهاء ذوي الألباب". وعنه أيضاً: أنه كان يقول: "إن أهل الأهواء أهل ضلالة، ولاأرى مصيرهم إلا إلى النار". وعن الحسن: " لاتجالس صاحب بدعة فإنه يمرض قلبك".

تعویذ کی شرعی حیثیت

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جو شخص اپنی نیند میں گھبرا جائے اُسے چاہیے کہ وہ یہ کلمات پڑھے : ’’اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِہٖ وَعِقَابِہٖ وَشَرِّ عِبَادِہٖ وَمِنْ ھَمَزَاتِ الشَّیَاطِیْنِ وَاَنْ یَّحْضُرُوْنَ۔‘‘ تو وہ خواب اُسے ہر گز نقصان نہ دے گا ، آپؓ کے پوتے کہتے ہیں کہ: حضرت عبد اللہؓ کی اولاد میں جو بالغ ہو جاتا تو آپ اُسے یہ کلمات سکھادیتے ، اور جو نابالغ ہوتا تو آپ اس کے گلے میں یہ دعا لٹکا دیتے تھے : ’’و کان عبد اللہ بن عمروؓ یعلمھا من بلغ من ولدہٖ و من لم یبلغ منھم کتبھا في صک ، ثم علقھا في عنقہٖ۔‘‘ (رواہ ابو داؤد و الترمذی، بحوالہ مشکوٰۃ، ص: ۲۱۷) اس سے معلوم ہوا کہ کلام پاک کا پڑھنا اور کلماتِ مبارکہ تعویذ لکھ کر بنانا اور اُسے بدن سے باندھنا دونوں عمل جائز ہیں۔ اگر یہ عمل ناجائز ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر صحابیؓ کبھی بھی اپنے بچوں کے گلے میں تعویذ نہ ڈالتے ۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے اس عمل سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آپ تعویذات کے اثر کے قائل تھے ، جبھی تو آپ نے تعویذ لکھا اور اسے اپنے بچوں کے گلے میں ڈالا۔ یہ کلمات کوئی روحانی تاثیر نہ دیتے تو آپ ہی بتلائیں کیا صحابی رسول ایسا عمل کرتے ؟ تاثیر میں اذنِ الٰہی کو شرط جاننا ضروری ہے ۱: دسویں صدی کے مجدد حضرت ملا علی قاری ؒ (متوفی:۱۰۱۴ھ) اس حدیث پر لکھتے ہیں کہ : ’’و ھٰذا أصل في تعلیق التعویذات التي فیھا أسماء اللہ تعالٰی۔‘‘ ( مرقات ،ج: ۵، ص: ۲۳۶) ا س سے واضح ہوتا ہے کہ وہ تعویذات جو اسمائے الٰہیہ اور کلماتِ مبارکہ پر مشتمل ہوں ، اپنے اندر ایک روحانی ا ثر رکھتے ہیں اور اس سے مریضوں کا علاج کرنا علاج بالقرآن ہی ہے۔ ہاں! وہ تعویذات جو شرکیہ الفاظ پر مشتمل ہوں‘ ان کی قطعاً اجازت نہیں۔ جن روایات میں تمائم اور رُقٰی کو شرک کہا گیا ہے، اس سے مراد اسی قسم کے دم اور تعویذ ہیں، جن میں شرکیہ الفاظ و اعمال کا دخل پایا جائے۔ ’’التمائم‘‘ میں ’’ الف لام‘‘ اسی کے لیے ہے ، اور جو دم اور تعویذ اس سے خالی ہوں، ان کا استعمال جائز ہے اور اس کے روحانی اثرات ثابت ہیں۔ حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم دورِ جاہلیت میں دم کیا کرتے تھے ،ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بابت پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’أعرضوا عَلَیَّ رقاکم ، لا بأس بالرقی ما لم یکن فیہ شرک۔‘‘ (رواہ مسلم ، مشکوٰۃ، ص: ۳۸۸) اس سے پتہ چلتا ہے کہ دم اور تعویذ میں اصل وجہِ منع کفر و شرک ہے، جب یہ نہ ہو تو وہ دم اور تعویذ جائز ہے، چنانچہ ابن تیمیہؒ اپنی کتاب ’’ مجموعۃ الفتاویٰ‘‘ میں تعویذ کے جواز پر ایک مستقل فصل ’’ فصل : في جواز أن یکتب لمصاب و غیرہ ۔۔۔ الخ‘‘ باندھ کر اس کے تحت لکھتے ہیں: ’’و یجوز أن یکتب للمصاب و غیرہ من المرضٰی شیئًا من کتاب اللہ و ذکرہ بالمداد المباح ، ویغسل و یسقٰی ، کما نص علٰی ذلک أحمد و غیرہ۔‘‘ (مجموعۃ الفتاویٰ، ج: ۱۹، ص: ۳۶، ط: مکتبۃ العبیکان ) کسی مریض کے لیے کتاب اللہ میں کچھ لکھ کر دینا یا اس کو دھو کر پانی میں گھول کر پلانا، یہ دونوں جائز ہیں۔حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب ؒ ’’ کفایت المفتی‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ : ’’ قرآن شریف کی آیت تعویذ میں لکھنا جائز ہے۔‘‘ (کفایت المفتی ، الحظر والاباحۃ ، الفصل الثانی فیما یتعلق بالعوذۃ، ج: ۱۲، ص: ۴۸۲، ط: فاروقیہ) حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب اپنی کتاب ’’ تکملۃ فتح الملہم‘‘ میں لکھتے ہیں کہ : ’’ ۔۔۔۔۔۔ فتبین بھٰذا أن التمائم المحرمۃ لا علاقۃ لھا بالتعاویذ المکتوبۃ المشتملۃ علٰی أٰیات من القرآن أو شيء من الذکر ؛ فإنھا مباحۃ عند جماھیر فقھاء الأمۃ ، بل استحبھا بعض العلماء إذا کانت بأذکار مأثورۃ ، کما نقل عنھم الشوکاني في النیل ، واللہ أعلم۔‘‘ (تکملہ فتح الملہم، کتاب الطب ، باب رقیۃ المریض، کتابۃ التعویذات، ج: ۴، ص: ۳۱۸، ط: دار العلوم، کراچی ) وہ تعویذات جن میں اللہ کے کلام اور مسنون دعاؤں کا ذکر ہو تو وہ قطعاً حرام نہیں ، ان کاحرمت سے کوئی تعلق نہیں، ایسے تعویذات تو عام جمہور علماء کے نزدیک جائز ہیں، بلکہ بعض علماء نے اس کو مستحسن قرار دیا ہے ، علامہ شوکانی ؒ نے ان سے یہ ’’نیل الأوطار‘‘ میں نقل بھی کیا ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ ’’ فتح الباري‘‘ میں لکھتے ہیں کہ : ’’أجمع العلماء علٰی جواز الرقیٰ عند اجتماع ثلاثۃ شروط: أن یکون بکلام اللہ أو بأسمائہ و صفاتہ و باللسان العربي أو بما یعرف معناہ من غیرہ و أن یعتقد أن الرقیۃ لا تؤثر بذاتھا بل بذات اللہ تعالٰی۔‘‘( فتح الباری ،ج: ۱۰ ، ص: ۱۹۵ ، ط: دار الفکر بیروت ) ’’علماء نے دم اور تعویذ کے جواز پر اجماع کیاہے ، جب ان میں درج ذیل شرائط پائی جائیں: ۱:- وہ اللہ کے کلام ،اسماء یا اس کی صفات پر مشتمل ہو ں۔ ۲ :- وہ عربی زبان یاپھر ایسی زبان میں ہوں جس کا معنی سمجھ میں آتا ہو ۔ ۳ :- یہ یقین رکھنا کہ اس میں بذاتِ خود کوئی اثر نہیں ، بلکہ مؤثر حقیقی اللہ جل شانہ کی ذات ہے۔ علامہ شامیؒ بھی اپنی کتاب ’’رد المحتار‘‘ میں تعویذ کا جواز نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : ’’و إنما تکرہ العوذۃ اذا کانت بغیر لسان العرب و لا یدری ما ھو ، ولعلہ یدخلہ سحر أو کفر أو غیر ذلک و أما ما کان من القرآن أو شیء من الدعوات، فلا بأس بہ۔‘‘ ( رد المحتار ، ج: ۶، ص: ۳۶۳) ’’فتاویٰ ہندیہ‘‘ میں ہے کہ : ’’ و اختلف في الاسترقاء بالقرآن نحو : ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔أن یکتب في ورق و یعلق أو یکتب في طست ،فیغسل و یسقیٰ المریض ،فأباحہ عطاء و مجاھد و أبو قلابۃ و کرھہ النخعي و البصري ،کذا في ’’ خزانۃ الفتاویٰ‘‘ قد ثبت ذلک في المشاھیر من غیر إنکار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔و لابأس بتعلیق التعویذ ۔۔الخ۔‘‘ (الفتاوی الہندیۃ، الباب الثامن عشر فی التداوي ، ج: ۵، ص؛۳۵۶ ، ط: دار الفکر ) ’’قرآنی آیات کے ذریعہ دم میں علماء نے اختلاف کیا ہے، مثلاً : ......کسی کاغذ پر قرآن کی آیت لکھ کر مریض کے جسم پر باندھ لیا جائے ، یا کسی برتن میں آیات لکھ کر دھویا جائے اور مریض کو پلایا جائے ، تو عطاءؒ ، مجاہدؒ اور ابو قلابہؒ اس کو جائز سمجھتے ہیں اور امام نخعیؒ اور بصریؒ اس کو مکروہ سمجھتے ہیں ، لیکن مشہور کتابوں میں اس کے جواز پر کوئی نکیر وارد نہیں ہوئی ہے...... آگے لکھتے ہیں کہ تعویذ کے لٹکانے میں کوئی حرج نہیں۔‘‘ ابن القیم الجوزیۃؒ اپنی کتاب ’’ زاد المعاد‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’قال المروزي : و قرأ علیٰ أبي عبد اللہ وأنا أسمع أبو المنذر عمرو بن مجمع ، حدثنا یونس بن حبان ، قال : سألت أبا جعفر محمد بن علي أن أعلق التعویذ ، فقال : إن کان من کتاب اللہ أو من کلام عن نبي اللہ فعلقہ و استشف بہ ما استطعت۔‘‘ (زاد المعاد فی ہدی خیر العباد ، کتاب عسر الولادۃ، ج:۴، ص: ۳۳۷، ط: مؤسسۃ الرسالۃ ،بیروت ۔ کذا فی الطب النبوی لابن القیم الجوزیۃ، حرف الکاف ، ج: ۱ ،ص: ۳۷۰، ط: دار الہلال، بیروت ) ’’راوی کہتا ہے کہ میں نے ابو جعفر محمد بن علی سے تعویذ باندھنے کے بارے میں دریافت کیا کہ اس کا کیا حکم ہے ؟ تو آپ نے فرمایا :کہ اگر وہ اللہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام پر مشتمل ہو تو اس کو باندھ لیا کرو، اس میں کوئی حرج نہیں ۔ ‘‘ تفسیر ’’روح البیان‘‘ میں ہے کہ : ’’وأما تعلیق التعویذ و ھو الدعاء المجرب أو الآیۃ المجربۃ أو بعض أسماء اللہ تعالٰی لدفع البلاء ، فلا بأس بہٖ و لکن ینزعہ عند الخلاء و الجماع۔‘‘ (روح البیان ، سورۃ یوسف ، آیۃ : ۶۸، ج: ۴، ص:۲۹۵، ط: دار الفکر ،بیروت ) ’’تعویذ اگر مجرب دعا ، مجرب آیت یا اللہ کے اسماء پر مشتمل ہو ، اور کسی مصیبت یا بیماری کے دفعیہ کے غرض سے لٹکایا ہو تو یہ جائز ہے ، لیکن جماع اور بیت الخلاء جانے کے وقت نکالے گا ۔ ‘‘ ’’ تفسیر قرطبی‘‘ میں ہے کہ : ’’و سئل ابن المسیب عن التعویذ أیعلق ؟ قال : إذا کان في قصبۃ أو رقعۃ یحرز، فلابأس بہٖ ۔ و ھٰذا علیٰ أن المکتوب قرآن ۔ وعن الضحاک أنہ لم یکن یری بأسا أن یعلق الرجل الشيء من کتاب اللہ إذا و ضعہ عند الجماع و عند الغائط ، و رخص أبو جعفر محمد بن علي في التعویذ یعلق علی الصبیان ، وکان ابن سیرین لا یری بأسا بالشيء من القرآن یعلقہ الإنسان۔‘‘ (تفسیر قرطبی، سورۃ الاسراء: ۸۲ ، ج:۱۰ ، ص:۳۲۰،ط: دار المعرفۃ ) سعید ابن المسیب ؒ ،ضحاک اور ابن سیرین جیسے اکابر علماء اس کے جواز کے قائل تھے ۔ حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ لکھتے ہیں کہ : ’’۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قرآنی آیات کا تعویذ جائز ہے، جبکہ غلط مقاصد کے لیے نہ کیاگیا ہو ، حدیث میں جن ٹونوں ، ٹوٹکوں کو شرک فرمایا گیا ہے، ان سے زمانۂ جاہلیت میں رائج شدہ ٹونے اور ٹوٹکے مراد ہیں، جن میں مشرکانہ الفاظ پائے جاتے تھے، اور جنات وغیرہ سے استعانت حاصل کی جاتی تھی، قرآنی آیات پڑھ کر دم کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام ؓ سے ثابت ہے اور بزرگانِ دین کے معمولات میں شامل ہے۔‘‘ ( آپ کے مسائل اور ان کا حل، تعویذ گنڈے اور جادو، ج: ۲، ص: ۴۹۹، ط: مکتبہ لدھیانوی) علامہ شوکانی ؒ ابن ارسلانؒ سے نقل کرتے ہیں کہ : ’’قال ابن أرسلان ،فالظاہر أن ھٰذا جائز لا أعرف الاٰن ما یمنعہ في الشرع۔‘‘ (فتاویٰ اہل حدیث، ج: ۱ ،ص: ۱۹۳ ) ’’ابن ارسلان کہتے ہیں کہ ظاہر یہی ہے کہ یہ جائز ہیں، شریعت میں اس کے منع کی کوئی دلیل میں نہیں جانتا۔‘‘ شفاء بنت عبد اللہ سے روایت ہے کہ میں ام المؤ منین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہاکے پاس بیٹھی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، آپ نے مجھے کہا : ’’ألا تعلمین ھٰذہ رقیۃ النملۃ کما علمتھا الکتابۃ۔‘‘ (مسند احمد ج: ۱۷ ، ص: ۱۷۹ ،مبوب ) ’’اے شفاء! کیا تو انھیں ( یعنی حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو) نملہ کا دم نہیں سکھادیتی، جیسا کہ تو نے انھیں لکھنا سکھادیا ہے؟ ۔‘‘ اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ دم اور تعویذ جس میں کفر و شرک اور غیر معروف الفاظ نہ ہوں اور الفاظ میں ذاتی تاثیر نہ سمجھی جائے ، اس کے منع پر کوئی دلیل وارد نہیں ۔شیخ احمد عبد الرحمٰن البنا ؒ لکھتے ہیں کہ یہ ہر گز ممنوع نہیں ، بلکہ سنت ہے: ’’فلا نھيَ فیہ ، بل ھو السنۃ۔‘‘(ایضاًص: ۱۷۷) نواب صدیق حسن خانؒ نے ’’ الدین الخالص‘‘ میں اس پر تفصیلی بحث کی ہے ، اور انہوں نے بھی دم اور تعویذ کو جائز قرار دیا ہے، البتہ ان سے پرہیز کرنے کو افضل کہتے ہیں اور یہ اپنے آپ کو ابرار میں لانا ہے جو اسباب اختیار نہیں کرتے۔ حافظ عبد اللہ روپڑی صاحبؒ نواب صاحبؒ کی یہ عبارت پیش کر کے لکھتے ہیں : ’’اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ صرف شرک والی صورتیں منع ہیں، باقی جائز ہیں۔ ہاں! پرہیز بہتر ہے۔‘‘ ( فتاویٰ اہل حدیث ، ج: ۱ ، ص: ۱۹۳) حضرت مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ’’راجح یہ ہے کہ آیات یا کلماتِ صحیحہ دعائیہ جو ثابت ہوں ، ان کا تعویذ بنانا جائز ہے ، ہندو ہو یا مسلمان، صحابہ کرام ؓ نے ایک کافر بیمار پر سورۂ فاتحہ پڑھ کر دم کیا تھا۔‘‘ (فتاویٰ ثنائیہ، ج:۱،ص: ۳۳۹) اہلِ حدیث کے ایک مشہور عالم مولاناشرف الدین دہلویؒ اس کی تائید میں لکھتے ہیں کہ : ’’ حضرت عبد اللہ ابن عمرو بن العاص ؓ صحابی ’’ أعوذ بکلمات اللہ ۔۔۔۔ الخ‘‘ساری دعا لکھ کر اپنے بچوں کے گلے میں لٹکایا کرتے تھے۔‘‘ (ایضا) غرض یہ کہ مذکورہ بالا دلائل و حوالہ جات سے یہ بات واضح اور عیاں ہوگئی کہ علاج بالقرآن کی ایک قسم تعویذ بھی ہے، اور اس کے روحانی اثرات کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ بہت سے مریض تعویذوں میں لکھی گئی آیاتِ قرآنیہ اور کلماتِ دعائیہ کی برکت سے کئی لا علاج امراض سے بھی نجات پا گئے ہیں ۔ ہاں! ان میں تاثیر ان کلمات کی ذات سے نہیں، بلکہ اللہ رب العزت کے حکم ہی سے آتی ہے۔ اگر ان تعویذات اور دموں میں کوئی روحانی تاثیر نہ ہوتی ، اور اس کا باطنی فائدہ نہ ہوتا ، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سونے سے پہلے قرآن کی آخری تین سورتیں پڑھ کر اپنے ہاتھوں پر پھونک نہ مارتے اور انھیں اپنے بدن پر نہ ملتے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ عمل تین مرتبہ فرماتے، حتیٰ کہ مرض الوفات میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود کمزوری کی وجہ سے ایسا نہ کرسکے ، تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہی سورتوں کو پڑھا ، اور آپ کے ہاتھوں پر پھونک لگائی اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں کو آپ کے بدن پر مل لیا ۔ ایک مرتبہ حضرت جبرائیل علیہ السلامنے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دم کیا تھا۔ (رواہ مسلم) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ان سورتوں کو پڑھ کر ہاتھوں پر دم کرنا اور پھر اپنے ہاتھوں سے پورے بدن کو ملنا اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ ان آیات میں ضرور روحانی اثر ہے ، اور یہ شیطانی اثرات سے بچانے کا ایک خاص عمل ہے ، جو بظاہر نگاہوں سے مخفی ہوتا ہے ، لیکن باطنی آنکھ والے ان کی تاثیرات کھلے طور پر دیکھتے ہیں ، اور پڑھنے کے ساتھ ہاتھ پھیرنا یہ بھی ہر گز منع نہیں ۔ یاد رہے کہ کہ دم اور تعویذمیں وہی فرق ہے جو کلام میں اور کتاب میں ہے ، دونوں کا اپنا اپنا مقام ہے اور دونوں کا اپنا اپنا احترام ہے ۔ لیکن تعویذ کے سلسلہ میں بعض فحش غلطیاں سرزد ہو جاتی ہیں ، جس کی بیخ کنی نہایت اہم ہے اور اس سے قطعی پرہیز اور کنارہ کشی اختیار کرنا بہت ہی ضروری ہے : ۱:- بعض جاہلوں نے لکھا ہے کہ : مسلمان کی خیر خواہی کے لیے بوقتِ ضرورت شرکیہ الفاظ سے دم کرنا جائز ہے ، سو یہ بالکل غلط ہے اور اس کا شریعت میں بالکل ثبوت نہیں ۔ ۲:- اکثر عوام عملیات ( اور تعویذات وغیرہ ) کو ایک ظاہری تدبیر سمجھ کر نہیں کرتے ، بلکہ اس کو سماوی اور اور ملکوتی چیز سمجھ کر کرتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ تعویذ گنڈوں کے متعلق عوام کے عقائد نہایت برے ہیں، حالانکہ عملیات ،تعویذ اور گنڈے وغیرہ بھی طبی دواؤں کی طرح ایک ظاہری سبب اور تدبیر ہے ، ( کوئی آسمانی اور ملکوتی چیز نہیں ) بس جس طرح دواء سے کبھی فائدہ ہوتا ہے اور کبھی نہیں ، اسی طرح تعویذ میں بھی کبھی فائدہ ہوتا اور کبھی نہیں، پھر بھی دونوں برابر نہیں ، بلکہ دونوں میں یہ فرق ہے کہ عملیات میں فتنہ ہے اور دواء میں فتنہ نہیں ، اور وہ فتنہ یہ ہے کہ کہ عامل کی طرف بزرگی کا خیال و اعتقاد پیدا ہوتا ہے ، طبیب کی طرف بزرگی کا خیال پیدا نہیں ہوتا ۔ ۳:- ایک اور بہت بڑی خرابی یہ ہے کہ اگر تعویذ گنڈے وغیرہ سے کام نہ ہوا ، تو پھر آیاتِ الٰہیہ سے بد عقیدگی اور بد گمانی پیدا جاتی ہے۔ ۴:- عملیات قریب قریب سب اجتہادی ہیں، روایات سے ثابت نہیں ، جیسا کہ عوام کا خیال ہے کہ ان عملیات کو اوپر ہی سے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت سمجھتے ہیں ، یہ صحیح نہیں ہے ، بلکہ عاملین مضمون کی مناسبت سے ہر کام کے لیے مناسب آیات وغیرہ تجویز کرتے ہیں ۔ ۵:- آج کل لوگ اپنے مقاصد میں اور امراض و مصائب کے دفعیہ میں تعویذ گنڈوں کی تو بڑی قدر کرتے ہیں ، اس کے لیے کوششیں بھی کرتے ہیں، اور جو اصل تدبیر ہے یعنی اللہ سے دعا ، تو اس میں غفلت برتتے ہیں۔ میرا تجربہ ہے کہ کوئی نقش و تعویذ دعا کے برابر مؤثر نہیں، بشرطیکہ تمام آداب و شرائط کی رعایت رکھی جائے۔ خلاصہ یہ کہ تعویذ بذاتہ جائز ہے ، بشرطیکہ مذکورہ بالا شرائط کی رعایت رکھی جائے ، اور درج بالا ناجائز اعتقادات سے خود کو پاک اور منزہ کیا جائے ۔ وقد أجمع العلماء علی جواز الرقی عند اجتماع ثلاثة شروط أن یکون بکلام اللہ تعالی أو بأسمائہ وصفاتہ وباللسان العربی أو بما یعرف معناہ من غیرہ وأن یعتقد أن الرقیة لا تؤثر بذاتہا بل بذات اللہ تعالی (فتح الباري: الطب والرقی بالقرآن والمعوذات: ۵۷۳۵) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحتاً ایسے رقیے اور تعویذ کی اجازت دی ہے جس میں شرک نہ ہو: عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ ، قَالَ: کُنَّا نَرْقِی فِی الْجَاہِلِیَّةِ، فَقُلْنَا: یَا رَسُولَ اللَّہِ، کَیْفَ تَرَی فِی ذَلِکَ؟ فَقَالَ: اعْرِضُوا عَلَیَّ رُقَاکُمْ، لَا بَأْسَ بِالرُّقَی مَا لَمْ یَکُنْ فِیہِ شرکٌ، رواہ مسلم (مشکاة: ۲/۳۸۸) نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابودجانہ رضی اللہ عنہ کو تعویذ کے کلمات لکھ کر دیے تھے جس کی وجہ سے ان کو پریشان کرنے والا شیطان ہلاک ہوگیا۔ وأخرج البیہقي عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: فَقَالَ لِعَلِیِّ رضي اللہ عنہ اکْتُبْ: بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ. ہَذَا کِتَابٌ مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ رَبِّ الْعَالَمِینَ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، إِلَی مَنْ طَرَقَ الدَّارَ مِنَ الْعُمَّارِ وَالزُّوَّارِ وَالصَّالِحِینَ، إِلَّا طَارِقًا یَطْرُقُ بِخَیْرٍ یَا رَحْمَنُ․ أَمَّا بَعْدُ: فَإِنَّ لَنَا وَلَکُمْ فِی الْحَقِّ سَعَةً، فَإِنْ تَکُ عَاشِقًا مُولَعًا، أَوْ فَاجِرًا مُقْتَحِمًا أَوْ رَاغِبًا حَقًّا أَوْ مُبْطِلًا، ہَذَا کِتَابُ اللہِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی یَنْطِقُ عَلَیْنَا وَعَلَیْکُمْ بِالْحَقِّ، إِنَّا کُنَّا نَسْتَنْسِخُ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ وَرُسُلُنَا یَکْتُبُونَ مَا تَمْکُرُونَ، اتْرُکُوا صَاحِبَ کِتَابِی ہَذَا، وَانْطَلِقُوا إِلَی عَبَدَةِ الْأَصْنَامِ، وَإِلَی مَنْ یَزْعُمُ أَنَّ مَعَ اللہِ إِلَہًا آخَرَ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ کُلُّ شَیْء ٍ ہَالِکٌ إِلَّا وَجْہَہُ لَہُ الْحُکْمُ وَإِلَیْہِ تُرْجَعُونَ یُغْلَبُونَ، حم لَا یُنْصَرُونَ، حم عسق تُفَرِّقَ أَعْدَاء َ اللہِ، وَبَلَغَتْ حُجَّةُ اللہِ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللہِ فَسَیَکْفِیکَہُمُ اللہُ وَہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ․ (دلائل النبوة ما یذکر من حرز أبی دجانة: ۷/۱۱۸) ایک اورحدیث میں ہے: عَنْ یَعْلَی بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِیہِ، قَال: سَافَرْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ․․․وَأَتَتْہُ امْرَأَةٌ فَقَالَتْ: إِنَّ ابْنِی ہَذَا بِہِ لَمَمٌ مُنْذُ سَبْعِ سِنِینَ یَأْخُذُہُ کُلَّ یَوْمٍ مَرَّتَیْنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَدْنِیہِ فَأَدْنَتْہُ مِنْہُ فَتَفَلَ فِی فِیہِ وَقَالَ: اخْرُجْ عَدُوَّ اللَّہِ أَنَا رَسُولُ اللَّہِ․ (رواہ الحاکم في المستدرک) اس کے علاوہ صحابہ میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ وغیرہ اور ان کے علاوہ تابعین میں حضرت عطا وغیرہ اس کے جواز کے قائل تھے، اور آج بھی اس پر لوگوں کا عمل ہے: عن عمرو بن شعیب، عن أبیہ، عن جدہ، أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یعلمہم من الفزع کلمات: أعوذ بکلمات اللہ التامة، من غضبہ وشر عبادہ، ومن ہمزات الشیاطین وأن یحضرون․ وکان عبد اللہ بن عمر یعلمہن من عقل من بنیہ، ومن لم یعقل کتبہ فأعلقہ علیہ․ (أبوداوٴد: ۳۸۹۳، والترمذي: ۳۵۲۸ وقال: حسن غریب، اور علامہ شامی لکھتے ہیں: اخْتُلِفَ فِی الِاسْتِشْفَاء ِ بِالْقُرْآنِ بِأَنْ یُقْرَأَ عَلَی الْمَرِیضِ أَوْ الْمَلْدُوغِ الْفَاتِحَةُ، أَوْ یُکْتَبَ فِی وَرَقٍ وَیُعَلَّقَ عَلَیْہِ أَوْ فِی طَسْتٍ وَیُغَسَّلَ وَیُسْقَی. وَعَنْ النَّبِیِّ -صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ- أَنَّہُ کَانَ یُعَوِّذُ نَفْسَہُ قَالَ - رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ -: وَعَلَی الْجَوَازِ عَمَلُ النَّاسِ الْیَوْمَ، وَبِہِ وَرَدَتْ الْآثَارُ․ (شامي: ۹/۵۲۳) واضح رہے کہ تعویذ میں جس طرح پڑھ کر دم کرنا جائز ہے اسی طرح قرآنی آیات وغیرہ کو کسی کاغذ پر لکھ کر اس کو باندھنا بھی جائز ہے، علامہ سیوطی تحریر فرماتے ہیں: وأما قول ابن العربي: السُّنة في الأسماء والقرآن الذکر دون التعلیق فممنوع (فیض القدیر: ۶/۱۰۷) جہاں تک ان احادیث کا تعلق ہے جن میں تمیمہ کو لٹکانے پر شرک کا حکم مذکور ہے، جیسا کہ امام اسیوطی کی جامع صغیر میں ہے: من تعلق شیئا وکل إلیہ (فیض القدیر: ۶/۱۰۷) اسی طرح دوسری حدیث میں ہے: من علق ودعة فلا ودع اللہ ومن علق تمیمة فلا تمم اللہ لہ (فیض القدیر: ۶/۱۸۱) تو یہ اس صورت پر محمول ہیں جب کہ اسی تعویذ کومؤثربالذات سمجھے یااس میں شرکیہ الفاظ ہوں یا ایسے الفاظ ہوں جن کے معانی معلوم نہ ہوں، ان حدیثوں کی شرح کرتے ہوئے علامہ سیوطی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں: أو المراد من علق تمیمة من تمائم الجاہلیة یظن أنہا تدفع أو تنفع فإن ذلک حرام والحرام لا دواء فیہ وکذا لو جہل معناہا وإن تجرد عن الاعتقاد المذکور فإن من علق شیئا من أسماء اللہ الصریحة فہو جائز بل مطلوب محبوب فإن من وکل إلی أسماء اللہ أخذ اللہ بیدہ․ (فیض القدیر: ۶/۱۰۷)

Thursday 27 April 2023

ایک بہن اورتین بھائی میں ترکہ کی تقسیم

مرحوم کی جائیدادمنقولہ وغیرمنقولہ کی تقسیم کا طریقہ کار شرعاً یہ ہے کہ اولاً مرحوم کے ترکہ میں سے اُس کی تجہیز و تکفین کے اخراجات ادا کیے جائیں گے، پھر اگر مرحوم کے ذمے کوئی قرضہ ہو تو اُس کو کل ترکہ میں سے ادا کیا جائے، اس کے بعد اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی تو اس کو ایک تہائی میں سے نافذ کر کے مرحوم کے کُل ترکہ کو 7 حصوں میں تقسیم کیا جائے، جس میں سے2دودوحصے مرحوم کے ہر بھائی کواور ایک حصہ مرحوم کی بہن کو دیا جائے گا ۔ باقی بھائی کی موجودگی میں بھتیجے اور بھتیجیاں محروم ہوں گی اور بھانجے اور بھانجیوں کا بھی کوئی حصہ نہیں ہوگا ۔.لہذامرحوم کی وصیت کوتہائی مال میں نافذ کیاجائے اوربقیہ مذکورہ طریقہ پرتقسیم کیاجائے گا.

Wednesday 26 April 2023

خواتین کاقبرستان جانا

اگر کوئی بوڑھی عورت کبھی کبھار عبرت اور آخرت کی یاد کے لیے قبرستان جائے تو اس شرط کے ساتھ اجازت ہے کہ وہ قبرستان جاکر رونا دھونا نہ کرے، کوئی خلاف شرع کام نہ کرے۔اور جوان عورت کے لیے موت کی یاد اور آخرت کی نیت سے جانا بھی مکروہ ہے؛ کیوں کہ جوان عورت کا گھر سے نکلنا خطرات سے خالی نہیں ہوتا ، اور شرعی ضرورت کے بغیر اس کے لیے گھر سے نکلنا پسندیدہ نہیں ہے، یہاں تک کہ نماز باجماعت کے لیے جانا خواتین کے لیے مکروہ ہے، اور قبرستان جانا شرعًا ضرورت میں داخل نہیں ہے۔ بذل المجہود شرح سنن ابی داود میں ہے: "قلت: وفي رواية عائشة - رضي الله عنها - عند مسلم قالت: "كيف أقول يا رسول الله؟ تعني في زيارة القبور، قال: قولي السلام على أهل الديار من المؤمنين والمسلمين، ويرحم الله المستقدمين منّا والمستأخرين، وإنا إن شاء الله بكم للاحقون"، دليل على أن النساء أذن لهن في زيارة القبور.وكذلك ما أخرجه البخاري: "أن النبي - صلى الله عليه وسلم - مر بامرأة تبكي عند قبر فقال: اتقي الله واصبري، الحديث". ولم ينكر عليها الزيارة. وكذلك ما رواه الحاكم: "أن فاطمة بنت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - كانت تزور قبر عمها حمزة كل جمعة فتصلي وتبكي عنده". فالصواب الذي ينبغي الاعتماد عليه هو جواز الزيارة للنساء إذا كان الأمن من تضييع حق الزوجة والتبرج والجزع والفزع ونحو ذلك من الفتن؛ لأن الزيارة عُلِّلَ بتذكر الموت، ويحتاج إليه الرجال والنساء، فلا مانع من الإذن لهن. (بذل المجهود شرح سنن أبي داود: باب في زيارة النساء للقبور (10/ 527، 528)،ط. مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية، الهند، الطبعة: الأولى، 1427 هـ - 2006 م) فتاوی شامی میں ہے: قوله: ( ولو للنساء)، وقيل: تحرم عليهن، والأصح: أن الرخصة ثابتة لهن بحر. وجزم في شرح المنية بالكراهة ؛ لما مر في اتباعهن الجنازة. وقال الخير الرملي: إن كان ذلك لتجديد الحزن والبكاء والندب على ما جرت به عادتهن فلا تجوز، وعليه حمل حديث "لعن الله زائرات القبور". وإن كان للاعتبار والترحم من غير بكاء والتبرك بزيارة قبور الصالحين فلا بأس إذا كن عجائز، ويكره إذا كن شوابّ كحضور الجماعة في المساجد آه. وهو توفيق حسن. (حاشية ابن عابدين على الدر المختار: كتاب الصلاة، باب صلاة الجنائز، مطلب في زيارة القبور (2/ 242)،ط. سعيد، كراتشي)

Tuesday 25 April 2023

شش عید کے روزوں کے ساتھ قضاروزوں کی نیت درست نہیں

نفل روزہ الگ ہے اور فرض کی قضا کا روزہ الگ اور مستقل حیثیت رکھتا ہے، روزہ میں نفل کی نیت کرنے سے وہ نفلی روزہ ہوگا اور قضا کی نیت کرنے سے وہ قضا کا روزہ ہوگا، ایک روزہ میں نفل اورقضا دونوں کی نیت نہیں کرسکتے ہیں؛ لہذا شوال کے چھ روزوں یا ذی الحجہ، عاشورہ کے روزوں کے ساتھ،قضا روزوں کی ادائیگی کی نیت کرناصحیح نہیں ہے۔اس لیے اگر شوال کے مہینے میں شوال کے چھ روزوں کی نیت کی ہےتو وہ نفلی روزے ہوں گے قضا کے نہیں ہوں گے، اور اگر ان دنوں میں قضا کی نیت کی ہے تو وہ قضا کے روزے ہوں گے اور اس سے نفلی کا ثواب نہیں ملے گا۔ اگر یہ گمان ہو کہ شوال کے روزے رکھے تو بعد میں قضا روزے رکھنا مشکل ہوگا تو پہلے قضا روزے رکھنے چاہییں، بصورتِ دیگر شوال میں نفل روزے رکھ لے، اور پھر قضا کرلے۔ البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (2/ 299) : "ولو نوى قضاء رمضان والتطوع كان عن القضاء في قول أبي يوسف، خلافاً لمحمد فإن عنده يصير شارعاً في التطوع، بخلاف الصلاة فإنه إذا نوى التطوع والفرض لايصير شارعاً في الصلاة أصلاً عنده، ولو نوى قضاء رمضان وكفارة الظهار كان عن القضاء استحساناً، وفي القياس يكون تطوعاً، وهو قول محمد، كذا في الفتاوى الظهيرية". الفتاوى الهندية (1/ 196): "ومتى نوى شيئين مختلفين متساويين في الوكادة والفريضة، ولا رجحان لأحدهما على الآخر بطلا، ومتى ترجح أحدهما على الآخر ثبت الراجح، كذا في محيط السرخسي. فإذا نوى عن قضاء رمضان والنذر كان عن قضاء رمضان استحساناً، وإن نوى النذر المعين والتطوع ليلاً أو نهاراً أو نوى النذر المعين، وكفارة من الليل يقع عن النذر المعين بالإجماع، كذا في السراج الوهاج. ولو نوى قضاء رمضان، وكفارة الظهار كان عن القضاء استحساناً، كذا في فتاوى قاضي خان. وإذا نوى قضاء بعض رمضان، والتطوع يقع عن رمضان في قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى -، وهو رواية عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - كذا في الذخيرة". تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (3/ 13): "ولو نوى صوم القضاء والنفل أو الزكاة والتطوع أو الحج المنذور والتطوع يكون تطوعاً عند محمد؛ لأنهما بطلتا بالتعارض فبقي مطلق النية فصار نفلاً، وعند أبي يوسف يقع عن الأقوى ترجيحاً له عند التعارض، وهو الفرض أو الواجب".

Saturday 22 April 2023

عيد

أَيُّ شَيءٍ في العيدِ أُهدي إِلَيكِ يا مَلاكي وَكُلُّ شَيءٍ لَدَيكِ أَسِواراً أَم دُمُلجاً مِن نُضارٍ لا أُحِبُّ القُيودَ في مِعصَمَيكِ أَمخُموراً وَلَيسَ في الأَرضِ خَمرٌ كَالَّتي تَسكُبينَ مِن لَحظَيكِ أَم وُروداً وَالوَردُ أَجمَلُهُ عِندي الَّذي قَد نَشَقتُ مِن خَدَّيكِ أَم عَقيقاً كَمُهجَتي يَتَلَظّى وَالعَقيقُ الثَمينُ في شَفَتَيكِ لَيسَ عِندي شَيءٌ أَعَزُّ مِنَ الروحِ وَروحي مَرحونَةٌ في يَدَيكِ

Thursday 20 April 2023

عیدکی نماز کاطریقہ

عید الفطر اور عید الاضحیٰ کی نماز کا طریقہ ایک ہی ہے۔عید کی نماز کے لیے اذان اور اقامت نہیں، جب نماز کھڑی کی جائے تو عید کی نماز چھ زائد تکبیرات کے ساتھ پڑھنے کی نیت کریں، اس کے بعد تکبیر کہہ کر ہاتھ ناف کے نیچے باندھ لیں اور ثناء پڑھیں، اس کے بعد تین زائد تکبیریں کہیں، دو تکبیروں میں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دیں اور تیسری تکبیر پر ہاتھ اٹھا کر ناف کے نیچے باندھ لیں، اس کے بعد امام اونچی آواز میں قراءت کرے، قراءت مکمل ہونے کے بعد بقیہ رکعت (رکوع اور سجدہ وغیرہ) دیگر نمازوں کی طرح ادا کریں۔ پھر دوسری رکعت کے شروع میں امام اونچی آواز میں قراءت کرے، اس کے بعد تین زائد تکبیریں کہے، تینوں تکبیروں میں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دیں، پھر ہاتھ اٹھائے بغیر چوتھی تکبیر کہہ کر رکوع میں جایں اور پھر دیگر نمازوں کی طرح دو سجدوں کے بعد التحیات، درود اور دعا پڑھ کر سلام پھیر دیں، پھرنماز مکمل کرنے کے بعد امام دو خطبے دے، دونوں خطبوں کے درمیان تھوڑی دیر بیٹھے۔

نماز عیدین میں رکعت نکل جائے تو کیسے پوراکریں

اگرعید کی نماز میں کسی کی ایک رکعت چھوٹ جائے تو وہ امام کے سلام کے بعد جب چھوٹی ہوئی رکعت ادا کرے گا تو پہلے ثنا، تعوذ، تسمیہ، سورہ فاتحہ اور کوئی سورت پڑھے گا، اس کے بعد رکوع سے پہلے تکبیرات زوائد کہے گا اور عام نمازوں کی طرح مابقیہ نماز مکمل کرے گا۔ ولو سبق برکعة یقرأ ثم یکبر لئلا یتوالی التکبیر (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب العیدین، ۳: ۵۶، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، ومثلہ في مراقي الفلاح ( مع حاشیة الطحطاوي علیہ ص: ۵۳۴، ط: دار الکتب العلمیة بیروت) وغیرہ۔

Sunday 16 April 2023

ہندوستان میں لاقانونیت ,حکومت کی سرپرستی میں غنڈہ راج

پولیس کی موجودگی میں عتیق احمد اور ان کے بھائی کاقتل یہ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ بی جے پی حکومت قانون کی حکمرانی نہیں چاہتی. کبھی پولیس قانون سے بالاتر ہو کر خود انکاؤنر کردیتی ہے اور کبھی پولیس کی موجودگی میں غنڈے قتل کردیتے ہیں. حکومت کی یہ روش عدل و انصاف کے نظام کوبالائے طاق رکھنے کے لئے اپنائی گئی ہے تاکہ اپنے مخالفین کوقانون کے طویل ترین دورانیہ سے گذارنے کے بجایے جلد ازجلد ٹھکانے لگادیاجائے. عدلیہ بیچاری اتنی کمزور ہے کہ وہ قانون کی دھجیاں اڑا نے والی حکومت سے اف تک نہیں کہہ سکتی. راجیو گاندھی کے قاتل جیل سے رہا کردئے گئے بلقیس بانو اورذکیہ جعفری خاندان کے ہتھیارے آزاد کردئے گئے کیونکہ وہ حکومت کے پالتوغنڈے تھے اور جیل میں بند اپنے مخالفین کو اپنے غنڈوں کے ذریعہ قتل کرایاجارہاہے. فرقہ پرستی اورووٹ بینک میں اضافہ کیلئے یہ کھیل کھیلاجارہاہے. اگریہی حالت رہی توظلم وبربریت کی وہ طوفانی ہوابھی آسکتی جوملکی سالمیت کے پرخچے اڑا دے گی.

Thursday 13 April 2023

نفل نماز کاثواب مرحومین کوبخشنا

نفل نماز پڑھ کر کسی مرحوم کو ایصالِ ثواب کرنا (یعنی نفل نماز کا ثواب مرحوم کو بخش دینا) جائز ہے۔ البحر الرائق میں ہے: فَإِنَّ مَنْ صَامَ أَوْ صَلَّى أَوْ تَصَدَّقَ وَجَعَلَ ثَوَابَهُ لِغَيْرِهِ مِنْ الْأَمْوَاتِ أَوْ الْأَحْيَاءِ جَازَ وَيَصِلُ ثَوَابُهَا إلَيْهِمْ عِنْدَ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ، وَقَدْ صَحَّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «أَنَّهُ ضَحَّى بِكَبْشَيْنِ أَمْلَحَيْنِ: أَحَدُهُمَا: عَنْ نَفْسِهِ، وَالْآخَرُ: عَنْ أُمَّتِهِ مِمَّنْ آمَنَ بِوَحْدَانِيَّةِ اللَّهِ تَعَالَى وَبِرِسَالَتِهِ» صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وَرُوِيَ «أَنَّ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ -رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ- سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ: إنَّ أُمِّي كَانَتْ تُحِبُّ الصَّدَقَةَ أَفَأَتَصَدَّقُ عَنْهَا؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَصَدَّقْ». وَعَلَيْهِ عَمَلُ الْمُسْلِمِينَ مِنْ لَدُنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إلَى يَوْمِنَا هَذَا مِنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ، وَقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ عَلَيْهَا، وَالتَّكْفِينِ، وَالصَّدَقَاتِ، وَالصَّوْمِ، وَالصَّلَاةِ، وَجَعْلِ ثَوَابِهَا لِلْأَمْوَاتِ، وَلَا امْتِنَاعَ فِي الْعَقْلِ أَيْضًا؛ لِأَنَّ إعْطَاءَ الثَّوَابِ مِنْ اللَّهِ تَعَالَى إفْضَالٌ مِنْهُ لَا اسْتِحْقَاقَ عَلَيْهِ، فَلَهُ أَنْ يَتَفَضَّلَ عَلَى مَنْ عَمِلَ لِأَجْلِهِ بِجَعْلِ الثَّوَابِ لَهُ، كَمَا لَهُ أَنْ يَتَفَضَّلَ بِإِعْطَاءِ الثَّوَابِ مِنْ غَيْرِ عَمَلٍ رَأْسًا. (كتاب الحج، فَصْلٌ نَبَاتَ الْحَرَمِ، ٢ / ٢١٢) البحر الرائق میں ہے: والأصل فیه أن الإنسان له أن یجعل ثواب عمله لغیره صلاةً أو صوماً أو صدقةً أو قراءة قرآن أو ذكراً أو حجاً أو غیر ذلك عند أصحابنا بالکتاب والسنة. ( البحرالرائق، کتاب الحج، باب الحج عن الغیر، ٣/ ٥٩) حاشية الطحطاوي علي مراقي الفلاح میں ہے: فللإنسان أن یجعل ثواب عمله لغیره عند أهل السنة والجماعة سواء كان المجعول له حیًّا أو میتًا من غیرأن ینقص من أجره شيء. وأخرج الطبراني والبیهقي في الشعب عن ابن عمر قال: قال رسول الله ﷺ: إذا تصدق أحدكم بصدقة تطوعاً فلیجعلها عن أبو یه؛ فیکون لهما أجرها ولاینقص من أجره شيء. (حاشیة الطحطاوي علی مراقي الفلاح، کتاب الصلاة، باب أحکام الجنائز، فصل في زیارة القبور )

Wednesday 12 April 2023

مراثى على سقوط الأندلس

. يقول شاعر مجهول يرثي طليطلة في قصيدة مطلعها: لثُكلكِ كيف تبتسم الثغور سرورًا بعدما سبيت ثغور طليطلة أباح الكفر منها حماها إنّ ذا نبــأ كبـــير وقال ابن عبدون: الدهر يفجع بعد العين بالأثر فما البكاء على الأشباح والصور أنهاك أنهاك لا آلوك موعظة عن نومة بين ناب الليث والظفر فالدهر حرب وإن أبدى مسالمة والبيض والسود مثل البيض والسمر ولا هوادة بين الرأس تأخذه يد الضراب وبين الصارم الذكر فلا تغرنك من دنياك نومتها فما صناعة عينيها سوى السهر ما لليالي أقال الله عثرتنا من الليالي وخانتها يد الغير في كل حين لها في كل جارحة منا جراح وإن زاغت عن النظر تسر بالشيء لكن كي تغر به كالأيم ثار إلى الجاني من الزهر كم دولة وليت بالنصر خدمتها لم تبق منها وسل ذكراك من خبر هوت بدارا وفلت غرب قاتله وكان عضباً على الأملاك ذا أثر واسترجعت من بني ساسان ما وهبت ولم تدع لبني يونان من أثر وألحقت أختها طسماً وعاد على عاد وجرهم منها ناقض المرر وما أقالت ذوي الهيئات من يمن ولا أجارت ذوي الغايات من مضر ومزقت سبأ في كل قاصية فما التقى رائح منهم بمبتكر وأنفذت في كليب حكمها ورمت مهلهلاً بين سمع الأرض والبصر ولم ترد على الضليل صحته ولا ثنت أسداً عن ربها حجر ودوخت آل ذبيان وإخوتهم عبساً وغصت بني بدر على النهر وألحقت بعدي بالعراق على يد ابنه أحمر العينين والشعر وأهلكت إبرويزاً بابنه ورمت بيزدجرد إلى مرو فلم يحر وبلغت يزدجرد الصين واختزلت عنه سوى الفرس جمع الترك والخزر ولم ترد مواضي رستم وقنا ذي حاجب عنه سعدا في ابنه الغير يوم القليب بنو بدرفنوا وسعى قليب بدر بمن فيه إلى سقر ومزقت جعفراً بالبيض واختلست من غيله حمزة الظلام للجزر وأشرفت بخبيت فوق فارعة وألصقت طلحة الفياض بالعفر وخضبت شيب عثمان دماً وخطت إلى الزبير ولم تستح من عمر ولا رعت لأبي اليقظان صحبته ولم تزوده إلا الضيح في الغمر وأجزرت سيف أشقاها أبا حسن وأمكنت من حسين راحتي شمر وليتها إذ فدت عمراً بخارجة فدت علياً بمن شاءت من البشر وفي ابن هند وفي ابن المصطفى حسن أتت بمعضلة الألباب والفكر فبعضنا قائل ما اغتاله أحد وبعضنا ساكت لم يؤت من حصر وأردت ابن زياد بالحسين فلم يبؤ بشسع له قد طاح أو ظفر وعممت بالظبي فودي أبي أنس ولم ترد الردى عنه قنا زفر أنزلت مصعباً من رأس شاهقة كانت بها مهجة المختار في وزر ولم تراقب مكان ابن الزبير ولا راعت عياذته بالبيت والحجر وأعملت في لطيم الجن حيلتها واستوسقت لأبي الذبان ذي البخر ولم تدع لأبي الذبان قاضبه ليس اللطيم لها عمرو بمنتصر وأحرقت شلو زيد بعدما احترقت عليه وجداً قلوب الآي والسور وأظفرت بالوليد بن اليزيد ولم تبق الخلافة بين الكأس والوتر حبابه حب رمان أتيح لها واحمر قطرته نفحة القطر ولم تعد قضب السفاح نائبة عن رأس مروان أو أشياعه الفجر وأسبلت دمعة الروح الأمين على دم بفخ لآل المصطفى هدر وأشرقت جعفراً والفضل ينظره والشيخ يحيى بريق الصارم الذكر وأخفرت في الأمين العهد وانتدبت لجعفر بابنه والأ عبد الغدر وما وفت بعهود المستعين ولا بما تأكد للمعتز من مرر وأوثقت في عراها كل معتمدٍ وأشرقت بقذاها كل مقتدر وروعت كل مأمون ومؤتمن وأسلمت كل منصور ومنتصر وأعرثت آل عبّاد لعاً لهم بذيل زباء لم تنفر من الذعر بني المظفر والأيام لا نزلت مراحل والورى منها على سفر سحقاً ليومكم يوماً ولا حملت بمثله ليلة في غابر العمر من للأسرة أو من للأعنة أو من للأسنة يهديها إلى الثغر من للظبي وعوالي الخط قد عقدت أطراف ألسنها بالعي والحصر وطوقت بالمنايا السود بيضهم فأعجب لذاك وما منها سوى الذكر من لليراعة أو من للبراعة أو من للسماحة أو للنفع والضرر أو دفع كارثة أو ردع آزفة أو قمع حادثة تعيا على القُدر ويب السماح وويب البأس لو سلما وحسرة الدين والدنيا على عمر سقت ثرى الفضل والعباس هامية تعزى إليهم سماحاً لا إلى المطر ثلاثة ما أرى السعدان مثلهم وأخبر ولو غززوا في الحوت بالقمر ثلاثة ما ارتقى النسران حيث رقوا وكل ما طار من نسر ولم يطر ثلاثة كذوات الدهر منذ نأوا عني مضى الدهر لم يربع ولم يحر ومر من كل شيء فيه أطيبه حتى التمتع بالآصال والبكر أين الجلال الذي غضت مهابته قلوبنا وعيون الأنجم الزهر أين الإباء الذي أرسوا قواعده على دعائم من عز ومن ظفر أين الوفاء الذي أصفوا شرائعه فلم يرد أحد منها على كدر كانوا رواسي أرض الله منذ مضوا عنها استطارت بمن فيها ولم تقر كانوا مصابيحها فمذ خبوا عثرت هذي الخليقة يا لله في سدر كانوا شجى الدهر فاستهوتهم خدع منه بأحلام عاد في خطى الحضر ويل أمه من طلوب الثأر مدركه منهم بأسد سراة في الوغى صبر من لي ولا من بهم إن أظلمت نوبٌ ولم يكن ليلها يفضي إلى سحر من لي ولا من بهم إن عطلت سنن وأخفيت ألسن الآثار والسير من لي ولا من بهم إن أطبقت محنٌ ولم يكن وردها يدعو إلى صدر على الفضائل إلا الصبر بعدهم سلام مرتقب للأجر منتظر يرجو عسى وله في أختها أمل والدهر ذو عقب شتى وذو غير قرطت آذان من فيها بفاضحة على الحسان حصى الياقوت والدرر سيارة في أقاصى الأرض قاطعة شقاشقاً هدرت في البدو والخضر مطاعة الأمر في الألباب قاضية من المسامع ما لم يقض من وطر ثم الصلاة على المختار سيدنا المصطفى المجتبى المبعوث من مضر والآل والصحب ثم التابعين له ما هب ريح وهل السحب بالمطر