https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Wednesday 10 April 2024

تراویح کی شرعی حیثیت

 تراویح  کی نماز مردوں اور عورتوں دونوں کے لیےسنت موکدہ ہے،بلا عذر اس کو چھوڑنے والا نافرمان اور گناہ گار ہے۔خلفاء راشدین،صحابہ کرام،تابعین،تبع تابعین،ائمہ مجتہدین اور سلف صالحین سے پابندی سے تراویح پڑھنا ثابت ہے،  اور مردوں کے لیے تراویح کی نماز جماعت سے پڑھنا سنت کفایہ ہے، یعنی اگر محلہ کے چند افراد اس سنت کو جماعت کے ساتھ ادا کرلیں تو  سب کا ذمہ فارغ، ورنہ سب گناہ گار ہوں گے، جو مرد انفرادی تراویح پڑھے گا تو اس کی تراویح کی سنت تو ادا ہوجائے گی، لیکن جماعت کے ثواب سے  محروم ہے گا،اور عورتوں  کے لیے جماعت  سنتِ مؤکدہ  کفایہ نہیں ہے، بلکہ عورتوں کے لیے گھر میں تنہا  پڑھنے میں زیادہ ثواب ہے۔

''فتاوی شامی'' میں ہے:
''(والجماعة فيها سنة على الكفاية) في الأصح، فلو تركها أهل مسجد أثموا إلا لو ترك بعضهم''۔

(قوله: والجماعة فيها سنة على الكفاية إلخ) أفاد أن أصل التراويح سنة عين، فلو تركها واحد كره، بخلاف صلاتها بالجماعة فإنها سنة كفاية، فلو تركها الكل أساءوا؛ أما لو تخلف عنها رجل من أفراد الناس وصلى في بيته فقد ترك الفضيلة، وإن صلى أحد في البيت بالجماعة لم ينالوا فضل جماعة المسجد، وهكذا في المكتوبات، كما في المنية، وهل المراد أنها سنة كفاية لأهل كل مسجد من البلدة أو مسجد واحد منها أو من المحلة؟ ظاهر كلام الشارح الأول. واستظهر ط الثاني. ويظهر لي الثالث، لقول المنية: حتى لو ترك أهل محلة كلهم الجماعة فقد تركوا السنة وأساءوا. اهـ. (2/ 45، باب الوتر والنوافل، ط: سعید

جمعہ کے دن وفات کی فضیلت

 حدیث شریف میں بھی آیا ہے کہ جو مومن رمضان میں یا جمعہ کے دن وفات پائے اس سے عذاب قبر اٹھالیا جاتا ہے، محدثین کے درمیان یہ اختلاف ہے ہ ہمیشہ کے لیے قبر کا عذاب اس سے اٹھالیا جاتا ہے یا صرف رمضان تک یا صرف جمعہ کو۔ کچھ حضرات اسی دوسرے قول کو لیتے ہیں کہ صرف رمضان یا صرف جمعہ کو قبر کا عذاب اٹھایا جاتا ہے اور کچھ محدثین پہلے قول کو لیتے ہیں کہ ہمیشہ کے لیے عذاب قبر اٹھالیا جاتا ہے۔ اللہ کی بے پناہ رحمتوں سے یہی امید رکھنی چاہیے کہ ہمیشہ کے لیے اس سے عذاب قبر اٹھالیا جاتا ہے۔ اسی حدیث کی وجہ سے رمضان یا جمعہ کے دن وفات پانے والے کو مبارک کہا جاتا ہے

مصنف ابن عبدالرزاق میں ہے:

"عن ابن شهاب، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "من مات ليلة الجمعة، أو يوم الجمعة، برئ من فتنة القبر، أو قال: وقي فتنة القبر، وكتب شهيدا".

 عن عبد الله بن عمر وعن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "برئ من فتنة القبر."

(كتاب الجمعة، باب من مات يوم الجمعة، ج:3، ص:550، ط:دارالتاصيل)

قوت المغتدی علی جامع الترمذی للسیوطی میں ہے:

"ما من مسلم يموت يوم الجمعة، أو ليلة الجمعة إلا وقاه الله فتنة القبر".

قال الحكيم الترمذي في نوادر الأصول: " من مات يوم الجمعة فقد انكشف الغطاء عن أعماله عند الله؛ لأن يوم الجمعة لا تسجر فيه جهنم، وتغلق أبوابها، ولا يعمل سلطان النار ما يعمل في سائر الأيام، فإذا قبض الله عبدا من عبيده فوافق قبضه يوم الجمعة كان ذلك دليلا لسعادته، وحسن مآبه، وأنه لم يقبض في هذا اليوم العظيم إلا من كتب الله له السعادة عنده، فلذلك يقيه فتنة القبر لأن سببها إنما هو تمييز المنافق من المؤمن انتهى".قلت: ومن تتمة ذلك: أن من مات يوم الجمعة، أو ليلة الجمعة له أجر شهيد كما وردت به أحاديث، والشهيد، ورد النص بأنه لا يسأل، فكأن الميت يوم الجمعة، أو ليلتها على منواله."

(ابواب الجنائز، ج:1، ص:324، ط:جامعة ام القرى)

وليعلم أن أهل العلم اختلفوا في صحة هذا الحديث أصلا؛ فمنهم من ضعفه للانقطاع في إسناده، وقالوا ربيعة بن سيف لم يسمع من عبد الله بن عمرو، كما أنه والراوي هشام بن سعد ضعيفان.

وممن ضعفه الترمذي حيث قال بعد روايته للحديث: وهذا حديث ليس إسناده بمتصل. اهـ

وضعفه أحمد شاكر، وشعيب الأرناؤوط، وقبلهما الحافظ ابن حجر في فتح الباري، وكذا ضعفه الشيخ ابن باز -رحمه الله تعالى-، فقد سئل: هل من يموت يوم الجمعة يجار من عذاب القبر؟ وهل الجزاء ينطبق على يوم الوفاة، أم على يوم الدفن؟ أفتونا مأجورين. فأجاب بقوله:
الأحاديث في هذا ضعيفة، الأحاديث في موت يوم الجمعة، وأن من مات يوم الجمعة دخل الجنة، ووقي النار كلها ضعيفة غير صحيحة، من مات على الخير والاستقامة دخل الجنة في يوم الجمعة، وغير يوم الجمعة ... وإن مات على الشرك بالله فهو من أهل النار في أي يوم، وفي أي مكان، نسأل الله العافية، وإن مات على المعاصي فهو على خطر تحت مشيئة الله، لكنه في الجنة إذا كان موحدا مسلما منتهاه الجنة، لكن قد يعذب بعض العذاب عن المعاصي التي مات عليها غير تائب.. اهــ.
ومن أهل العلم من حسن الحديث بمجموع طرقه كالشيخ الألباني.

گھرکی حفاظت کے لئے کتا پالنا

 احادیث میں کتا پالنے کی سخت ممانعت آئی ہے، جہاں کتا ہوتا ہے وہاں رحمت کے فرشتے نہیں آتے ۔ اور ایک حدیث میں ہے کہ  بلا ضرورت کتا پالنے والے کے اعمال  میں سے روزانہ ایک قیراط کم کر دیا جاتا ہے۔ لہذا کتوں کو گھر میں رکھنا  خیر  و برکت سے محرومی کا باعث ہے؛ اس لیے کتوں کے پالنے سے اجتناب بہت ضروری ہے، البتہ ضرورت کے لیے( جیسا کہ حفاظت اور شکار وغیرہ  کے لیے) کتا پالنے کی شرعاً اجازت ہے۔

لہذا اگر واقعۃً  چوروں یا کسی اور کا دیوار پھلانگ کرآنے کا اس قدر خوف ہے اور ان کے دفع کرنے کے لیے کوئی اور  ذریعہ ، علاج نہیں ہے تو ایسی مجبوری کی صورت میں بغرض حفاظت    کتا پالنے کی  گنجائش ہے، ورنہ نہیں، البتہ یہ بات درست نہیں ہے کہ  کتا اگر گھر کے صحن یا چھت پر ہو تو  گھر میں شمار نہیں ہوتا، لہذا کتے کو گھر سے باہر رکھا جائے۔

حدیث مبارک میں ہے:

"عن أبي طلحة رضي الله عنهم،عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لا ‌تدخل ‌الملائكة بيتا فيه كلب ولا صورة."

ترجمہ: ’’رحمت کے فرشتے ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویر ہو یا کتا۔‘‘

(البخاري، كتاب بدء الخلق، باب  إذا وقع الذباب في شراب أحدكم فليغمسه، ج:3، ص:1206، رقم:3144، ط:دار ابن كثير)

 ایک اور حدیثِ پاک میں ہے:

"عن أبي هريرة، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: من ‌اتخذ ‌كلبا إلا كلب ماشية، أو صيد، أو زرع، انتقص من أجره كل يوم قيراط."

ترجمہ: ’’جس شخص نے جانور اور کھیتی وغیرہ کی حفاظت یا شکار کے علاوہ کسی اور مقصد سے کتا پالا، اس کے ثواب میں ہرروز ایک قیراط کم ہوگا۔‘‘

(الترمذي، ‌‌باب ما جاء من أمسك كلبا ما ينقص من أجره، ج:4، ص:80، رقم:1490، طمكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وفي الأجناس ‌لا ‌ينبغي ‌أن ‌يتخذ كلبا إلا أن يخاف من اللصوص أو غيرهم وكذا الأسد والفهد والضبع وجميع السباع وهذا قياس قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - كذا في الخلاصة...ويجب أن يعلم بأن اقتناء الكلب لأجل الحرس جائز شرعا وكذلك اقتناؤه للاصطياد مباح وكذلك اقتناؤه لحفظ الزرع والماشية جائز كذا في الذخيرة."

(كتاب الكراهية، الباب الحادي والعشرون فيما يسع من جراحات بني آدم والحيوانات، ج:5، ص:361، ط:دار الفكر)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"والانتفاع بالكلب للحراسة ‌والاصطياد ‌جائز إجماعا لكن لا ينبغي أن يتخذ في داره إلا إن خاف اللصوص أو عدوا وفي الحديث الصحيح "من اقتنى كلبا إلا كلب صيد أو ماشية نقص من أجره كل يوم قيراطان."

 (كتاب البيع، باب المتفرقات، ج:6، ص:188، ط:دارالفكر

Tuesday 9 April 2024

عذرکی بناپر بیٹھ کر تراویح پڑھنا

 عذر کی بنا پر تراویح کی کچھ رکعات کھڑے ہوکر اور کچھ رکعات بیٹھ کر پڑھنا درست ہے، بلاعذر بیٹھ کر تراویح کی نماز پڑھنا مکروہ ہے۔

الدر المختار مع رد المحتار (2 / 48) ط: سعيد

'' ( وتكره قاعداً )؛ لزيادة تأكدها، حتى قيل: لا تصح ( مع القدرة على القيام )، كما يكره تأخير القيام إلى ركوع الإمام للتشبه بالمنافقين''۔

و في الرد: '' (قوله: وتكره قاعداً ) أي تنزيها لما في الحلية وغيرها من أنهم اتفقوا على أنه لا يستحب ذلك بلا عذر؛ لأنه خلاف المتوارث عن السلف

Saturday 6 April 2024

صدقہ فطر کا مصرف

  صدقہ فطر کس کو دیں :صدقہ فطر کا مصرف وہی ہے جو زکوٰۃ کا مصرف ہے، اور صدقہ فطر اور زکاۃ کے مستحق  وہ افراد ہیں جو  نہ بنی ہاشم (سید وں یا عباسیوں وغیرہ) میں سے ہوں اور نہ ہی ان کے پاس ضرورت و استعمال سے زائد اتنا مال یا سامان موجود ہو جس کی مالیت نصاب (ساڑھے سات تولہ سونا، یاساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے باون تولہ چاندی کی موجودہ قیمت)  تک پہنچے۔ ایسے افراد کو زکات  اور صدقہ فطر دیاجاسکتا  ہے ۔

2۔۔ جو شخص زکوٰۃ کا مستحق ہو اس پر صدقہ فطر واجب ہی نہیں ہے، لہٰذا ایسے شخص کو صدقہ فطر دینا جائز ہے۔ اور جس شخص پر صدقہ فطر واجب ہو وہ زکاۃ کا مستحق نہیں ہے

Friday 5 April 2024

صدقہ فطر کی مقدار

 صدقہ فطر  میں چار  اجناس (گندم،جو،کھجور،کشمش)میں سے کسی ایک جنس  کا دینا یا اس کی بازاری قیمت کادینا ضروری ہے، تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

1:گندم نصف صاع یعنی پونے دو کلو   تاہم احتیاطًا دو کلو یا اس کی  بازاری قیمت دینی  چاہیے۔

2: جو ایک صاع یعنی تقریبًا ساڑھے تین کلو یا اس کی  بازاری قیمت ہے۔

3:کھجور  ایک صاع یعنی تقریبًا  ساڑھے تین کلو یا اس کی  بازاری قیمت ہے۔

4:کشمش ایک  صاع یعنی تقریبًا  ساڑھے تین کلو یا اس کی  بازاری قیمت ہے،لہذا مذکورہ چار اجناس میں سے کسی ایک کی  بازاری قیمت فقیر کی حاجت پورا کرنے کے  لیے بطورِ صدقہ فطر   دینا زیادہ بہتر  اور  آخرت میں ثواب کا باعث ہے۔

صدقہ فطر کن پر واجب ہے

 جو مسلمان اتنا مال دار ہے کہ اس پر زکاۃ واجب ہے یا اس پر زکاۃ واجب نہیں، لیکن قرض اور ضروری اسباب سے زائد اتنی قیمت کا مال یا اسباب اس کی ملکیت میں موجود ہے جس کی مالیت ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو اس پر عیدالفطر کے دن صدقہ دینا واجب ہے، چاہے وہ تجارت کا مال ہو یا تجارت کا مال نہ ہو، چاہے اس پر سال گزر چکا ہو یا نہ گزرا ہو۔ اس صدقہ کو صدقۂ فطر کہتے ہیں۔

جس طرح مال دار ہونے کی صورت میں مردوں پر صدقۂ فطر ادا کرنا واجب ہے اسی طرح اگر عورت مال دار صاحب نصاب ہے یا اس کی ملکیت میں قرضہ اور ضروری اسباب سے زائد اتنی قیمت کا مال وغیرہ ہے جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہے، مثلاً اس کے پاس زیور ہے جو والدین کی طرف سے ملا ہے یا شوہر نے نصاب کے برابر زیور عورت کو بطور ملکیت دیا ہے، یا مہر میں اتنا زیور ملا جو نصاب کے برابر ہے تو عورت کو بھی اپنی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرنا واجب ہے، ہاں اگرشوہر اس کی طرف سے اسے بتاکر ادا کردے تو ادا ہوجائے گا۔

 مال دار عورت پر اپنا صدقۂ فطر ادا کرنا تو واجب ہے، لیکن اس پر کسی اور کی طرف سے ادا کرنا واجب نہیں، نہ بچوں کی طرف سے نہ ماں باپ کی طرف سے، نہ شوہر کی طرف سے۔

البتہ مال دار آدمی کے لیے صدقۂ فطر اپنی طرف سے بھی ادا کرنا واجب ہے، اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے بھی، نابالغ اولاد اگر مال دار ہو تو ان کے مال سے ادا کرے اور اگر مال دار نہیں ہے تو اپنے مال سے ادا کرے۔ بالغ اولاد اگر مال دار ہے تو ان کی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرنا باپ پر واجب نہیں، ہاں اگر باپ ازخود ادا کردے گا تو صدقۂ فطر ادا ہوجائے گا۔

Sunday 31 March 2024

روزے کی حالت میں جماع

 صورتِ  مسئولہ میں اگر کپڑے کے اوپر سے جماع کیا لیکن مرد کی شرم گاہ عورت کی شرم گاہ میں داخل ہوئی تو میاں بیوی دونوں کا روزہ بھی ٹوٹ گیا اور  دونوں پر روزے کی قضا کے ساتھ کفارہ  (جو مسلسل ساٹھ روزے رکھنا ہے ) بھی لازم ہوگا۔  اگر مسلسل دو ماہ کے روزے رکھنے کی واقعتًا  قدرت نہ ہو (مثلًا بڑھاپے یا مریض ہونے کی وجہ سے) تو  ساٹھ مسکینوں کو صدقہ فطر  کی مقدار غلہ یا اس کی قیمت دینا لازم ہے ،  ایک صدقہ فطر کی مقدار  نصف صاع  (پونے دو کلو ) گندم یا اس کی قیمت  ہے۔

ایک مسکین کو ساٹھ  دن صدقہ فطر  کے برابر غلہ وغیرہ دیتا رہے یا ایک ہی دن ساٹھ مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقہ فطر کی مقدار دےدے ،  دونوں جائز ہے۔

صدقہ فطر کی مقدار غلہ یا قیمت  دینے کے بجائے اگر ساٹھ مسکینوں کو ایک دن صبح وشام، یا ایک مسکین کو ساٹھ دن صبح وشام کھانا کھلادے، تو بھی کفارہ ادا ہوجائےگا۔

اور اگر کپڑے کے اوپر سے جماع کرنے سے مراد شرم گاہ داخل کیے بغیر انزال ہونا ہے تو اگر صرف مرد کو انزال ہوا تو اس کا روزہ فاسد ہوگیا، اور اس صورت میں صرف قضا لازم ہوگی، کفارہ لازم نہیں ہوگا۔ اور اگر بیوی کو بھی انزال ہوگیا یعنی اس کی منی شرم گاہ سے خارج ہوگئی تو اس کا روزہ بھی فاسد ہوگیا، اس صورت میں اس پر بھی قضا لازم ہوگی۔ بہرصورت مذکورہ میاں بیوی کو استغفار بھی کرنا چاہیے؛ کیوں کہ رمضان المبارک میں روزے کی حالت میں جماع کرنا جائز نہیں ہے۔

الفتاوى الهندية (1/ 205):

"من جامع عمداً في أحد السبيلين فعليه القضاء والكفارة، ولايشترط الإنزال في المحلين، كذا في الهداية. وعلى المرأة مثل ما على الرجل إن كانت مطاوعةً، وإن كانت مكرهةً فعليها القضاء دون الكفارة... إذا أكل متعمداً ما يتغذى به أو يتداوى به يلزمه الكفارة، وهذا إذا كان مما يؤكل للغذاء أو للدواء فأما إذا لم يقصد لهما فلا كفارة وعليه القضاء، كذا في خزانة المفتين ... وإذا أصبح غير ناو للصوم ثم نوى قبل الزوال ثم أكل فلا كفارة عليه، كذا في الكشف الكبير".

Saturday 30 March 2024

تراويح میں خواتین کی شمولیت

 اگر مرد گھر میں تراویح کی امامت کرے اور اس کے پیچھے کچھ مرد ہوں اور گھر کی ہی کچھ عورتیں پردے میں اس کی اقتدا میں ہوں، باہر سے عورتیں نہ آتی ہوں، اور امام عورتوں کی امامت کی نیت کرے تو یہ نماز شرعاً درست ہے، اس میں کوئی قباحت نہیں۔

اوراگر امام مرد ہو اور مقتدی سب عورتیں ہوں اور عورتوں میں امام کی کوئی محرم خاتون بھی موجود ہو  اور باہر سے عورتیں نہ آتی ہوں تو  اس صورت میں بھی تراویح درست ہے، امام کی نامحرم خواتین پردہ کا اہتمام کرکے شریک ہوں۔

اور اگر  امام مرد ہو اور مقتدی سب عورتیں ہوں، اور عورتوں میں امام کی کوئی محرم خاتون یا بیوی نہ ہو،  تو ایسی صورت  امام کے لیے عورتوں کی امامت کرنا مکروہ ہوگا۔

باقی موجودہ پرفتن دور میں غیر محرم خواتین کو باہر سے اہتمام سے آکر تراویح میں شرکت کی اجازت نہیں ہے، عورتیں اپنے اپنے گھروں میں نماز ادا کریں، یہی ان کے لیے فضیلت کا باعث ہے۔

 صف بندی کی ترتیب یوں ہوگی کہ   پہلی صف میں امام کھڑا ہو، اور ایک سے زائد مرد یا بچے ہونے کی صورت میں  اس سے پیچھے والی صف میں مرد یا بچے کھڑے ہوں، اور ان سے پیچھے دوسری صف میں خواتین کھڑی ہوں، اور خواتین  میں سے کوئی نامحرم ہو تو وہ پردے کے اہتمام کے ساتھ کھڑی ہو۔

اور اگر امام کے علاوہ ایک مرد یا بچہ ہو اور باقی عورتیں ہوں تو  مرد یا بچہ امام کے دائیں طرف کچھ  پیچھے ہوکر کھڑا ہو اور عورتیں پچھلی صف میں کھڑی ہوں۔

فتاوی شامی  میں ہے:

" تكره إمامة الرجل لهن في بيت ليس معهن رجل غيره ولا محرم منه) كأخته (أو زوجته أو أمته، أما إذا كان معهن واحد ممن ذكر أو أمهن في المسجد لا) يكره، بحر". (1/ 566 ، باب الامامۃ، ط: سعید) فقط

عورتوں کی جماعت تراویح

 اگر مرد گھر میں تراویح کی امامت کرے اور اس کے پیچھے کچھ مرد ہوں اور گھر کی ہی کچھ عورتیں پردے میں اس کی اقتدا میں ہوں، باہر سے عورتیں نہ آتی ہوں، اور امام عورتوں کی امامت کی نیت کرے تو یہ نماز شرعاً درست ہے، اس میں کوئی قباحت نہیں، اوراگر امام تنہا ہو اور مقتدی سب عورتیں ہوں اور عورتوں میں امام کی کوئی محرم خاتون یا بیوی نہ ہو، یا جماعت میں مرد بھی ہوں، لیکن عورتیں باقاعدہ اہتمام سے باہر سے آتی ہوں تو ایسی صورتوں میں امام کے لیے عورتوں کی امامت کرنا مکروہ ہوگا؛ لہٰذا ایسی صورت سے اجتناب کیا جائے۔

''فتاوی شامی'' میں ہے:

'' تكره إمامة الرجل لهن في بيت ليس معهن رجل غيره ولا محرم منه) كأخته (أو زوجته أو أمته، أما إذا كان معهن واحد ممن ذكر أو أمهن في المسجد لا) يكره بحر''۔(1/ 566 ، باب الامامۃ، ط: سعید

صدقہ فطر کی مقدار

 صدقۂ فطر  کی مقدار گندم  کے اعتبار سے  پونے دو کلو گندم یا  پونے دو کلو گندم  کی مارکیٹ کی قیمت ہے، احتیاطاً دو کلو گندم یا اس کی قیمت کا حساب کرلیا جائے۔ اور جو، کھجور اور کشمش کے اعتبار سے  یہی  اشیاء ساڑھے تین کلو یا ان کے ساڑھے تین کلو  کی  بازار میں جو قیمت ہے،  وہ صدقہ فطر کی مقدار ہے۔

Monday 25 March 2024

شرکت میں نفع کے حصول کا طریقہ

 جس کاروبار میں شراکت کی گئی ہے اگر وہ جائز اور حلال ہے تو مذکورہ شراکت درست ہے،البتہ یہ شراکت نفع اور نقصان دونوں کی بنیاد پر ہوگی۔

نفع کی تعیین فیصد/حصص کے اعتبار سے کی جائے گی،مثلاً نفع دونوں کے درمیان آدھا آدھا ہوگا، یا کسی ایک فریق کے لیے ساٹھ فیصد اور دوسرے کے لیے چالیس فیصد یادونوں کے سرمایہ کے بقدرنفع تقسیم کیاجائے، یااگر دونوں شریک کام کرتے ہوں اور ایک شریک زیادہ محنت کرتاہے یاکاروبار کوزیادہ وقت دیتاہے تو اس کے لیے نفع کی شرح باہمی رضامندی سے بڑھانادرست ہے، اورنفع کے حصول کےیہ طریقے جائز ہیں۔ اگر دونوں شریک ہیں، لیکن ایک شریک کام کرتاہے دوسرا شریک کام نہیں کرتا تو جو کام کرتاہے اس کے لیے نفع کا تناسب سرمائے کے تناسب سے زیادہ مقرر کرنا درست ہوگا، لیکن جو شریک کام نہیں کرتا اس کے لیے نفع کا تناسب اس کے سرمائے سے زیادہ مقرر کرنا جائز نہیں ہوگا، بلکہ ایسی صورت میں سرمائے کے تناسب سے نفع تقسیم ہوگا۔

البتہ کاروبار میں رقم لگاکر نفع کو متعین کردینامثلاً یہ کہناکہ ہر  مہینے یا اتنی مدت بعد مجھے نفع کے طور پر اتنی رقم دی جائے، یا انویسمنٹ کا اتنا فیصد دیا جائے  یہ طریقہ درست نہیں ہے۔حاصل یہ ہے کہ  متعین نفع مقرر کر کے شراکت داری کرنا شرعاً ممنوع ہے۔

اسی طرح نقصان میں بھی شریک ہوناشرکت کے جواز کے لیے شرط ہے،  یعنی سرمائے کے تناسب سے ہر ایک شریک نقصان میں بھی شریک ہوگا۔ یا اگر مضاربت کی صورت میں عقد ہوا ہو تو اس کا حکم یہ ہے کہ اولاً خسارہ نفع میں سے پورا کیا جائے گا، اگر خسارہ پورا ہونے کے بعد بھی کچھ نفع باقی رہتاہے تو نفع کا جو تناسب باہمی رضامندی سے طے ہوا ہو ، اسی اعتبار سے بقیہ نفع تقسیم کیا جائے گا، اور اگر کل نفع خسارے میں چلا گیا تو مضارب (ورکنگ پارٹنر) کو کچھ نہیں ملے گا، اور سرمایہ دار کو بھی نفع نہیں ملے گا، اور اگر نفع کے ساتھ ساتھ سرمائے میں سے بھی کچھ رقم یا کل رقم ڈوب گئی تو رب المال (سرمایہ دار) کو نقصان برداشت کرنا پڑے گا، بشرطیکہ مضارب کی طرف سے تعدی ثابت نہ ہو۔

نیز دونوں شریکوں میں سے ہر ایک کو شرکت ختم کرنے کا اختیار ہوگا،جب جو فریق چاہے شرکت ختم کرسکتاہے۔اور شرکت ختم کرنے کی صورت میں سرمایہ سے خریداجانے والا جو سامان ہوگا اس مشترکہ سامان کی قیمت لگاکر ہر ایک کا حصہ اور منافع اپنی اپنی سابقہ شرائط کے مطابق تقسیم کرلیں گے، اور چاہے تو ہر ایک شریک اپنے موجود سرمایہ کی رقم کے بقدر سامان لے لے یا دوسرا فریق باہمی رضامندی سے سامان اپنے پاس رکھ کر نقد رقم دے دے دونوں صورتیں درست ہیں۔(امدادالاحکام ص:340)

لیکن یہ شرط رکھ کر شرکت کرنا کہ جب شرکت ختم ہوگی بہرصورت  میں اپنی مکمل رقم واپس لوں گا،  یعنی نقصان میں شریک نہ ہونا، یہ صورت  ناجائز ہے اور اس صورت میں حاصل کیاجانے والانفع بھی حلال نہیں ہے

البحرالرائق میں ہے :

"(قوله: وتصح مع التساوي في المال دون الربح وعكسه ) وهو التفاضل في المال والتساوي في الربح  وقال زفر والشافعي: لايجوز؛ لأن التفاضل فيه يؤدي إلى ربح ما لم يضمن فإن المال إذا كان نصفين والربح أثلاثاً فصاحب الزيادة يستحقها بلا ضمان؛ إذ الضمان بقدر رأس المال؛ لأن الشركة عندهما في الربح كالشركة في الأصل، ولهذا يشترطان الخلط فصار ربح المال بمنزلة نماء الأعيان؛ فيستحق بقدر الملك في الأصل.

ولنا قوله عليه السلام: الربح على ما شرطا، والوضيعة على قدر المالين. ولم يفصل؛ ولأن الربح كما يستحق بالمال يستحق بالعمل كما في المضاربة، وقد يكون أحدهما أحذق وأهدى أو أكثر عملاً فلايرضى بالمساواة؛ فمست الحاجة إلى التفاضل. قيد بالشركة في الربح؛ لأن اشتراط الربح كله لأحدهما غير صحيح؛ لأنه يخرج العقد به من الشركة، ومن المضاربة أيضاً إلى قرض باشتراطه للعامل، أو إلى بضاعة باشتراطه لرب المال، وهذا العقد يشبه المضاربة من حيث أنه يعمل في مال الشريك ويشبه الشركة اسماً وعملاً فإنهما يعملان معاً، فعملنا بشبه المضاربة وقلنا: يصح اشتراط الربح من غير ضمان وبشبه الشركة حتى لاتبطل باشتراط العمل عليهما. وقد أطلق المصنف تبعاً للهداية جواز التفاضل في الربح مع التساوي في المال، وقيده في التبيين وفتح القدير بأن يشترطا الأكثر للعامل منهما أو لأكثرهما عملاً". (5/188)

Sunday 24 March 2024

فرض نماز کے بعد دعاء

 فرض نماز کے بعد دعا کرنا ثابت ہے اور  فرض نمازوں کے بعد کے اوقات حدیث شریف کے مطابق قبولیتِ دعاکے اوقات ہیں،  فرائض کے بعددعاکرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اورسلف صالحین سے ثابت ہےاور دعا کے آداب میں سے ہے کہ ہاتھ اٹھا کر دعا کی جائے  اور آں حضرت ﷺ سے بھی  دعا میں ہاتھ اٹھانا ثابت ہے۔

'المعجم الکبیر ' میں  علامہ طبرانی رحمہ اللہ نے حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی سے ایک روایت ذکر کی ہے کہ  محمد بن یحیی اسلمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے عبد اللہ بن  زبیر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا  ،انہوں نے ایک شخص کو دیکھا کہ  وہ نماز سے فارغ ہونے سے پہلے ہی ہاتھ اٹھا کر دعا کررہا تھا تو جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو  حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے فرمایا: رسول اللہ ﷺ جب تک نماز سے فارغ نہ ہوتے  اس وقت تک (دعا کے لیے) ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے ( لہذا تم بھی ایسا ہی کرو)۔

'حدثنا محمد بن أبي يحيى، قال: رأيت عبد الله بن الزبير ورأى رجلاً رافعاً يديه بدعوات قبل أن يفرغ من صلاته، فلما فرغ منها، قال: «إن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يكن يرفع يديه حتى يفرغ من صلاته»۔ (المعجم الكبير للطبرانی 13/ 129، برقم: 324)

اسی طرح ' کنزالعمال' میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جوبندہ نمازکے بعدہاتھ اٹھاکراللہ تعالیٰ سے دعاکرتاہے اورکہتاہے کہ اے میرے معبود....اللہ تعالیٰ اس کی دعا کوضرورقبول فرماتے ہیں ،اسے خالی ہاتھ واپس نہیں لوٹاتے۔

حضرت سلمان فارسیؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺنے ارشاد فرمایا: تمہارا رب حیا والا اور کریم ہے، اپنے بندے سے حیا کرتاہے ،جب وہ اپنے ہاتھوں  کو اس کے سامنے اٹھاتا ہے کہ ان کو خالی واپس لوٹا دے ۔

حضرت مالک بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺنے ارشاد فرمایا : جب تم اللہ سے دعا کرو تو ہاتھوں  کی ہتھیلیوں  سے کرو، ہاتھوں  کی پشت سے نہ کرو ۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں  ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں  سے سوال کیا کرو اور ہاتھوں  کی پشت سے نہ کرو ،پس جب دعا سے فارغ ہوجاؤ تو  ہاتھوں  کو اپنے چہرے پر پھیر لو ۔

دعا میں  ہاتھ اٹھانا حضور ﷺکی عادتِ شریفہ تھی ، حضرت سائب رضی اللہ عنہ اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں  کہ رسول اللہ ﷺجب دعا فرماتے تھے تو اپنے دونوں  ہاتھ مبارک اٹھاتے اور فارغ ہوتے تو ان دونوں  کو اپنے چہرے پر پھیرتے۔

اس طرح کی روایات فرض نمازوں کے بعدہاتھ اٹھاکراجتماعی دعاکے ثبوت واستحباب کے لیے کافی ہیں ؛ اس لیے نماز کے بعد دعاپر نکیر کرنا یا اسے بدعت کہنا درست نہیں۔ تاہم اسے سنتِ مستمرہ دائمہ کہنا مشکل ہے،اس بنا پراس کو ضروری اورلازم سمجھ کرکرنا،اورنہ کرنے والوں پرطعن وتشنیع کرنا بھی درست نہیں۔ اور یہ دعا سر اً افضل ہے، البتہ تعلیم کی غرض سے  کبھی کبھار امام  جہراً بھی دعا کرا سکتا ہے۔

حضرت علامہ محمدانورشاہ کشمیری رحمہ اللہ نے ' فیض الباری' میں اور محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوری نوراللہ مرقدہ نے اپنے فتاویٰ میں لکھاہے کہ فرائض کے بعد موجودہ ہیئت کے مطابق اجتماعی دعا کرنا سنت مستمرہ تو نہیں ہے، لیکن اس کی اصل ثابت ہے ؛ اس لیے یہ بدعت  نہیں ہے، اسے بدعت کہنا غلو ہے۔

مراقي الفلاح بإمداد الفتاح شرح نور الإيضاح ونجاة الأرواح میں ہے:

"(ثم يدعو الإمام لنفسه وللمسلمين) بالأدعية المأثورة الجامعة لقول أبي أمامة: قيل: يا رسول الله أي الدعاء أسمع؟ قال: "جوف الليل الأخير ودبر الصلوات المكتوبات ولقوله صلى الله عليه و سلم: "والله إني لأحبك أوصيك يا معاذ لاتدعن دبر كل صلاة أن تقول: "اللهم أعني على ذكرك وشكرك وحسن عبادتك " ( رافعي أيديهم ) حذاء الصدر وبطونها مما يلي الوجه بخشوع وسكون،ثم يمسحون بها وجوههم فى آخره اي:عند الفراغ."

(باب صفة الصلوة، ص:316، ط:مكتبه رشيديه)

العرف الشذي شرح سنن الترمذي میں ہے:

"و ليعلم أن الدعاء المعمول في زماننا من الدعاء بعد الفريضة رافعين أيديهم على الهيأة الكذائية لم تكن المواظبة عليه في عهده عليه الصلاة والسلام."

(باب ماجاء فى كراهية ان يخص الامام نفسه فى الدعاء، ج:1، ص:346، ط:دار إحياء التراث العربى)

اس مسئلہ میں اکابر علماءِ کرام نے خوب تحقیق و عرق ریزی کے بعد تفصیلی رسائل تحریر کیے ہیں جن میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وصحابہ کا معمول نقل کیا ہے؛ دیکھیے:

1-  "استحباب الدعوات عقيب الصلوة"  مؤلف:حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ.

2-  "النفائس المرغوبة في حكم الدعاء بعد المكتوبة"مؤلف: حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ رحمہ اللہ (مفتی اعظم ہند)

3-  "التحفة المرغوبة في أفضلية الدعاء بعد المكتوبة"مؤلف: حضرت مولانا مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی رحمہ اللہ۔