https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Sunday 4 August 2024

لڑکی والوں کی طرف سے رخصتی کی دعوت

 نکاح کے موقع پر لڑکی والوں کی طرف سے کھانے کا انتظام کرنا  ولیمہ کی طرح سنت نہیں  ہے، ہاں اگر کوئی نمود ونمائش سے بچتے ہوئے،  کسی قسم کے زبردستی اور خاندانی دباؤ کے بغیر اپنی خوشی ورضا  سے اپنے اعزاء اور مہمانوں کوکھانا کھلائے تو  یہ مہمانوں کا اکرام ہے، اور اس طرح کی دعوت کا کھانا کھانا بارات والوں کے لیے جائز ہے، اور اگر  لڑکی والے   خوشی سے نہ کھلائیں تو زبردستی کرکے کھانا کھانا جائز نہیں ہوگا۔

صحیح بخاری میں ہے:

"وقال أنس: «إذا دخلت على مسلم لا يتهم، فكل من طعامه واشرب من شرابه»". (7/ 82،  کتاب الأطعمة، باب  الرجل يدعى إلى طعام ، ط:دارطوق النجاة)

صحیح  مسلم میں ہے:

" عن جابر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا دعي أحدكم إلى طعام، فليجب، فإن شاء طعم، وإن شاء ترك»".(2/ 1054، کتاب الحج، باب  زواج زینب بنت جحش، برقم: 1430، ط:دار احیاء التراث)

      وفیہ أیضاً:

"عن نافع، قال: سمعت عبد الله بن عمر، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أجيبوا هذه الدعوة إذا دعيتم لها»، قال: «وكان عبد الله بن عمر يأتي الدعوة في العرس، وغير العرس، ويأتيها وهو صائم»".(2/ 1053، کتاب الحج، باب  زواج زینب بنت جحش، برقم: 1430، ط:دار احیاء التراث)

سنن أبی داود میں ہے:

" عن أبي شريح الكعبي، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه، جائزته يومه وليلته، الضيافة ثلاثة أيام وما بعد ذلك فهو صدقة، ولا يحل له أن يثوي عنده حتى يحرجه»".(3/ 342، کتاب الاطعمۃ، باب ما جاء فی الضیافۃ، رقم الحدیث:3738، ط: المكتبة العصرية، صيدا - بيروت)

     شرح المجلۃ میں ہے:

" لایجوز لأحد  أن یاخذ  مال أحد  بلا سبب شرعي".(1/264،  مادۃ: 97، ط؛ رشیدیہ)

مصنوعی دانت لگوانا

 ضرورت کے وقت  مصنوعی دانت لگوانا جائز ہے، اور مصنوعی دانت لگانے کے بعد اگر وہ آسانی سے الگ نہ ہوسکتا ہو  تو  غسل میں اس کو اتارنا ضروری نہیں ہوگا، اور اگر آسانی سے الگ ہوسکتا ہو تو غسل کے لیے اس کو نکالنا ضروری ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے: 

"لما قال الكرخي: إذا سقطت ثنية رجل فإن أبا حنيفة يكره أن يعيدها، ويشدها بفضة أو ذهب، ويقول: هي كسن ميتة، ولكن يأخذ سن شاة ذكية يشد مكانها، وخالفه أبو يوسف، فقال: لا بأس به، ولايشبه سنّه سنّ ميتة، استحسن ذلك، وبينهما فرق عندي وإن لم يحضرني اهـ إتقاني. زاد في التتارخانية: قال بشر: قال أبو يوسف: سألت أبا حنيفة عن ذلك في مجلس آخر فلم ير بإعادتها بأسًا". 

(كتاب الحظر والإباحة، فصل فی اللبس، ج: 6، صفحہ: 362، ط: ایچ، ایم، سعید)

فال نکالنا یانکلوانا

   فال نکالنا یانکلوانا درست نہیں ۔رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فال نکالنے والوں کے پاس جانے اور ان سے مستقبل کے بارے میں دریافت کرنے سے بھی منع فرمایا اور پوچھنے کی صورت میں اخروی نقصان سے آگاہ کیا ہے، جیساکہ ایک روایت میں ہے کہ "جس نے فال نکالنے والے سے سوال کیا تو اس کی چالیس راتوں تک نماز قبول نہیں کی جاتی"۔ ایک اور روایت میں ہے کہ "جو شخص فال نکانے والے کی پاس گیا اور اس کی بات کی تصدیق کری تو اس نے ان تمام امور کا انکار (کفر) کردیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئے"۔ سنن ابی داؤد کی روایت میں ہے کہ "وہ بری (آزاد) ہو گیا ان سب سے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا"۔۔

"لقول النبي صلى الله عليه وسلم: من أتى كاهناً أو عرافاً فصدقه بما يقول فقد كفر بما أنزل على محمد صلى الله عليه وسلم. رواه أحمد. وفي حديث أحمد والترمذي عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من أتى كاهناً فصدقه بما يقول فقد كفر بما أنزل على محمد. ورواه أبو داود بلفظ: فقد برئ مما أنزل على محمد".

في المشکاة: "عن صفية عن بعض أزواج النبي صلى الله عليه وسلم عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: « من أتى عرافاً فسأله عن شيء لم تقبل له صلاة أربعين ليلةً». رواه مسلم". (٢/ ٤١١)

شرح النووي على مسلم:

"والعراف هو الذي يدعي معرفة الشيء المسروق ومكان الضالة ونحوهما من الأمور، هكذا ذكره الخطابي في معالم السنن في كتاب البيوع، ثم ذكره في آخر الكتاب أبسط من هذا فقال: إن الكاهن هو الذي يدعي مطالعة علم الغيب ويخبر الناس عن الكوائن، قال: وكان في العرب كهنة يدعون أنهم يعرفون كثيراً من الأمور، فمنهم من يزعم أن له رفقاء من الجن وتابعة تلقي إليه الأخبار، ومنهم من كان يدعي أنه يستدرك الأمور بفهم أعطيه، وكان منهم من يسمى عرافاً وهو الذي يزعم أنه يعرف الأمور بمقدمات أسباب يستدل بها على مواقعها كالشيء يسرق، فيعرف المظنون به السرقة، وتتهم المرأة بالريبة، فيعرف من صاحبها ونحو ذلك من الأمور، ومنهم من كان يسمي المنجم كاهناً، قال: وحديث النهي عن إتيان الكهان يشتمل على النهي عن هؤلاء كلهم وعلى النهي عن تصديقهم والرجوع إلى قولهم، ومنهم من كان يدعو الطبيب كاهناً، وربما سموه عرافاً، فهذا غير داخل في النهي. هذا آخر كلام الخطابي. قال الإمام أبو الحسن الماوردي من أصحابنا في آخر كتابه الأحكام السلطانية: ويمنع المحتسب من يكتسب بالكهانة واللهو، ويؤدب عليه الآخذ والمعطي، والله أعلم. (١٠ / ٢٣٢، ط: داراحیاء التراث العربی) فقط

قتل وزناکے ثبوت کےلیے ڈی این اے ٹیسٹ کی حیثیت

 1۔شرعی طور پر محض ڈی این اے ٹیسٹ کی بنا پر کسی کو قاتل نہیں قرار دیا جاسکتا، جب تک کہ اقرار یا  شرعی گواہوں کے ذریعے  کسی کا قاتل ہونا ثابت نہ ہو۔

2۔ زنا کے ثبوت میں بھی ڈی این اے ٹیسٹ  کا کوئی اعتبار نہیں، اگر چار چشم دید نیک مسلمانوں کی گواہی یا اقرار سے ثابت ہوجائے تو ثابت ہوگا ورنہ نہیں۔

3۔قاضی معاملہ کی تفتیش کے لئے ڈی این اے ٹیسٹ کرانے پر مجبور نہیں کرسکتا کیوں کہ یہ شرعی چیز نہیں، باقی اگر ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد ملزم خود اقرار کرلے تو جرم ثابت ہوجائے گا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أما أقسام الشهادة فمنها الشهادة على الزنا وتعتبر فيها أربعة من الرجال، ومنها الشهادة ببقية الحدود والقصاص تقبل فيها شهادة رجلين، ولا تقبل في هذين القسمين شهادة النساء هكذا في الهداية....الخ"

 (كتاب الشهادات ،الباب الثاني في بيان تحمل الشهادة وحد أدائها والامتناع عن ذلك،3/ 451،ط:رشيدية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ويثبت الزنا عند الحاكم ظاهرا بشهادة أربعة يشهدون عليه بلفظ الزنا لا بلفظ الوطء والجماع كذا في التبيين.....الخ"

 (كتاب الحدود ،الباب الثاني في الزنا،2/ 143،ط:رشيدية)

حشرات الارض بطور علاج کھانا

 حشرات الارض کا کھانا  ، جمہور فقہاء کے نزدیک حرام ہے، الا یہ کہ: بطورِ علاج ہو اور کسی بھی طب میں اس کے علاوہ کوئی اور علاج نہ ہو ،اس میں شفا یقینی ہو اور  ماہر مسلمان باعمل  طبیب  کی رائے اس کے استعمال کی ہو تو اس صورت میں حرام سے بھی علاج کی گنجائش ہے 

  • اختلف فی التداوی بالمحرم  وظاہر المذہب المنع ۔۔۔۔۔وقیل یرخص اذا علم فیہ الشفاء ولم یعلم دواء اخر کما رخص الخمر للعطشان وعلیہ الفتوی (شامی، ج  : ۱، ص: ۲۱۰)
  • بدائع الصنائع (ج: ۵، ص: ۳۶، ط:دار الکتب العلمیہ)
  • الفقہ الاسلامی وادلتہ، ج: ۴ص: ۳۲۵، ط: دارالفکر دمشق

کچرابیچنا

 جب کچرے والا اس کچرے کو اپنے لئے اٹھا کر محفوظ کر لیتا ہے اور اس سے قیمتی اور فالتو چیزوں کو ڈھونڈھ کر الگ کر لیتا ہے ، تو اس صورت میں اس کی ملکیت ان اشیاء میں ثابت ہو جاتی ہے ،اب اس کے  لیے ان اشیاء کو آگے فروخت کرناجائز ہے۔

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام میں ہے:

"(كما أن الكلأ النابت في الأراضي التي لا صاحب لها مباح كذلك الكلأ النابت في ملك شخص بدون تسببه مباح أيضا. أما إذا تسبب ذلك الشخص في هذا الخصوص بأن أعد أرضه وهيأها بوجه ما لأجل الإنبات كسقيه أرضه أو إحاطتها بخندق من أطرافها فالنباتات الحاصلة في تلك الأرض تكون ماله فلا يسوغ لآخر أن يأخذ منها شيئا فإذا أخذ شيئا واستهلكه يكون ضامنا) . .......وبيع هذا الكلأ قبل إحرازه باطل. " 

(الباب الرابع فی بیان شرکہ الاباحة،الفصل الاول فی الاشیاء المباحة وغیرالمباحة، ج:3، ص:254، ط:دار الکتب العلمیة)

بدائع الصنائع میں ہے:

 "و أما الكلأ الذي ينبت في أرض مملوكة، فهو مباح، غير مملوك، إلا إذا قطعه صاحب الأرض، و أخرج فيملكه، هذا جواب ظاهر الرواية عن أصحابنا. و قال بعض المتأخرين من مشايخنا  رحمهم الله: أنه إذا سقاه، و قام عليه، ملكه، و الصحيح جواب ظاهر الرواية؛ لأنّ الأصل فيه هو الإباحة، لقوله  صلى الله علیه و سلّم: الناس شركاء في ثلاث: الماء، و الكلأ، و النار. و الكلأ:اسم لحشيش ينبت من غير صنع العبد، و الشركة العامة هي الإباحة، إلا إذا قطعه و أحرزه؛ لأنه استولى على مال مباح غير مملوك، فيملكه كالماء المحرز في الأواني ،والظروف ،وسائر المباحات التي هي غير مملوكة لأحد." 

(کتاب الاراضی، انواع الاراضی وبیان حکم کل نوع منھا،ج:6،  ص:193، ط:دارالجیل) 

قزع

 سر کے کچھ بال کاٹنا اور کچھ چھوڑدینا منع ہے، اسے حدیث میں ’’قزع‘‘ سے تعبیر کرکے اس کی ممانعت کی گئی ہے، اور "قزع" کی مختلف صورتیں ہیں، حاصل ان کا یہی ہے کہ سر کے بال کہیں سے کاٹے جائیں اور کہیں سے چھوڑدیے جائیں، اس طرح کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔

سر کے بالوں کے بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ یا تو سر کے پورے بال رکھے جائیں یا پورے کاٹے جائیں ۔

البتہ  بالوں کی تحدید کے لیے گدی سے بال کاٹے جائیں یا حلق کیا جائے تو یہ اس ممانعت میں داخل نہیں ہے، اسی طرح کان کے اطراف کے بال جو کان پر لگ رہے ہوں، انہیں برابر کرنے کے لیے اطراف سے معمولی بال کاٹ لینا جیسا کہ عام طور پر اس کا معمول ہے کہ سر کے بالوں کو متعین کرنے اور اس کو دوسرے سے جدا کرنے کے لیے کان کے اوپر بلیڈ لگاتے ہیں تو اس کی گنجائش ہے۔ تاہم یہ خیال رہے کہ زیادہ اوپر سے بلیڈ نہ لگایا جائے ورنہ ”قزع“ میں داخل ہوگا، حاصل یہ ہے کہ سر کے اطراف کے بال اگر اس طرح کاٹے جائیں کہ ان کی وجہ سے سر کے اس حصہ کے بال کم اور باقی سر کے بال بڑے ہوں تو یہ درست نہیں ہے، اور اگر سر کے تمام بالوں برابر ہوں اور اطراف سے تحدید کے لیے انہیں برابر کیا جائے تو یہ جائز ہے۔

 سنن ابی داؤد  میں ہے:

"عن ابن عمر: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- رأى صبيا قد حلق بعض شعره، وترك بعضه، فنهاهم عن ذلك، وقال: احلقوا كله أو اتركوا كله."

(کتاب الترجل، باب في الذؤابة،ج:6،ص:261،ط:الرسالة العالمیة)

ترجمہ:" حضرت عبد اللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نےایک بچہ کو دیکھا کہ اس کے سر کے بعض حصے کے بال مونڈے ہوئے اور بعض حصے میں بال چھوڑ دیے گئے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع فرمایا ،اور  ارشاد فرمایا کہ  ؛"(اگر بال مونڈنا ہو تو) پورے سر کے بال مونڈو ( اور اگر بال رکھنے ہوں تو) پورے سر پر بال رکھو۔"

بذل المجھود میں ہے:

"عن ابن عمر: أن النبي - صلى الله عليه وسلم - نهى عن القزع) ثم فسر ذلك (وهو أن يحلق رأس الصبي، ويترك له) من شعره (ذؤابة). قلت: وليس هذا مختصا بالصبي، بل إذا فعله كبير يكره (3) له ذلك، فذكر الصبي باعتبار العادة الغالبة."

(كتاب الترجل، باب في الصبي له ذؤابة،ج:12،ص:220،ط:مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية،الهند

لاعلاج شخص کو انجیکشن کے ذریعے مارنا

  زندگی اور موت کے فیصلے اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں،اس نے ہر انسان کی موت کا ایک وقت مقرر کر رکھا ہے ،اور مسلمان کا خون اللہ تعالیٰ کے ہاں کعبۃ اللہ سے بھی زیادہ محترم ہے،اس لیے کسی مسلمان کو بغیر کسی گناہ کے جان سے مار ڈالنا گناہ کبیرہ ہے،اور اس پر سخت وعیدیں قرآن وسنت میں وارد ہوئی ہیں ،لہٰذا کسی انسان کو اس کی بیماری کے سبب انجکشن وغیرہ کے ذریعے مارنا یہ قتل کے حکم میں  ہے،اور اگر اس مریض کے حکم سے ہو تو یہ اس کی جانب سے خود کشی کا اقدام ہے،اور دونوں صورتوں میں یہ اقدام ناجائز اور حرام ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

"وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِناً مُتَعَمِّداً فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِداً فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَاباً عَظِيماً (النساء93)

"ترجمہ : اور جو کوئی قتل کرے مسلمان کو  جان کر تو اس کی سزا دوزخ ہے ،پڑا رہے گا اسی میں اور اللہ کا اس پر غضب ہوا اور اس کو لعنت کی اور اس کےواسطے تیار کیا ہےبڑا عذاب

(فائدہ ) قتل عمد کی سزا یعنی اگر ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو غلطی سے نہیں بلکہ قصداً اور مسلمان معلوم کرنے کے بعد قتل کرے گا تو اس کے لیے آخرت میں جہنم اور لعنت اور عذابِ عظیم ہے،کفارہ سے اس کی رہائی نہیں ہوگی۔"

(تفسیر عثمانی،ج:1 ،ص:436  ، 437 ،ط: دار الاشاعت)

صحیح بخاری میں ہے:

"حدثنا محمد بن مقاتل: أخبرنا النضر: أخبرنا شعبة: حدثنا فراس قال: سمعت الشعبي، عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: الكبائر: الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، وقتل النفس، واليمين الغموس."

"ترجمه: نبی كريمﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا،والدین کی نافرمانی کرنا،کسی کو(نا حق)قتل کرنااور یمین غموس کبیرہ گناہوں میں سے ہیں۔"

( کتاب الأیمان والنذور ،باب الیمین الغموس ،2 / 518 ط:رحمانیہ )


مصنف عبد الرزاق میں ہے:

" أخبرنا معمر، عن بعض المكيين، أن عبد الله بن عمرو بن العاصي قال: أشهد أنك بيت الله، وأن الله عظم حرمتك، وأن حرمة المسلم أعظم من حرمتك."

"ترجمہ: میں گواہی دیتا ہوں تو اللہ کا گھر ہے،اور اللہ تعالیٰ نے تجھے بڑا قابل احترام بنایا ہے (لیکن)مسلمان کا احترام تیرے احترام سے (بھی) بڑھ کر ہے۔"

(کتاب الجامع،  باب الاغتیاب والشتم  11 / 178 ط: المکتب الإسلامی)

كنز العمال میں ہے:

"من ‌قتل ‌نفسه بحديدة فحديدته في يده يتوجأ  بها في بطنه في نار جهنم خالدا مخلدا فيها أبدا، ومن شرب سما فقتل نفسه فهو يتحساه في نار جهنم خالدا مخلدا فيها أبدا، ومن تردى من جبل فقتل نفسه فهو يتردى في نار جهنم خالدا مخلدا فيها."

"ترجمہ:جس نے اپنے آپ کو لوہے سے قتل کیا تو اس کا (وہ) لوہا اس کے ہاتھ میں ہوگا جسے وہ اپنے پیٹ میں مارتا رہے گاجہنم کی آگ میں ہمیشہ کے لیے،اور جس نے زہر پی کر اپنے آپ کو قتل کیا تو وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ کے لیےزہر کے گھونٹ لیتا رہےگا،اور جس نے پہاڑ سے لُڑھک کر اپنے آپ کو قتل کیا تو وہ جہنم کی آگ میں (بھی )ہمیشہ کےلیےلُڑھکتا رہےگا۔"

(حرف القاف،کتاب القصاص،الباب الأول فی القصاص،الفصل الرابع ،الفرع الأول،ج:15 ،ص:36 )

بیوٹی پارلر کا کام سیکھنا اور کرنا

 بیوٹی پارلر کے وہ کام جو شریعت میں  جائز ہواس کو سیکھنا اور کرنا جائز ہے جیسا زیب وزینت اختیار کرنا اور اس میں دوسری عورت سے مدد لینا  ،زینت کے لیے چہرے یا ہاتھ پاؤں کا فیشل کرواناشرعی حدود کے اندر، خواتین کو اپنے چہرے کے غیر معتاد بال مثلًا داڑھی مونچھ ،پیشانی وغیرہ کے بال یا کلائیوں اور پنڈلیوں کے بال صاف کرنا جائز ہے ۔  اورجو شرعًا جائز نہ ہو اس کو سیکھنا اور کرنا  ناجائز ہے،  جیسا کہ خواتین کا اپنے سرکے بالوں کوکٹوانا یا کتروانا خواہ کسی بھی جانب سے ہو مردوں کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے ناجائز اور گناہ ہے ،عورتوں کے  لیے بھنویں بنانا  ـ(دھاگا یا کسی اور چیز سے )جائز نہیں ہے ، اسی طرح مرد کے ہاتھ سے ہو  ،  شرعی پردے   کی رعایت نہ ہو، ان سب صورتوں میں اجازت نہیں ہوگی۔

لمعات التنقیح شرح مشکوۃ المصابیح میں ہے :

 " قال: قال النبي -صلى الله عليه وسلم-: "لعن الله المتشبهين من الرجال بالنساء، والمتشبهات من النساء بالرجال"

 "وعن ابن عمر أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: "لعن الله الواصلة والمستوصلة والواشمة والمستوشمة". متفق عليه."

(فصل فی الترجل ،ج:7،ص:410،رقم الحدیث :4429/4430،ط:دارالنوادر)

"عن ابن عباس قال: لعنت الواصلة، والمستوصلة، والنامصة، والمتنمصة، والواشمة، والمستوشمة من غير داء."

(فصل فی الترجل ،ج:7،ص:336،رقم الحدیث:4468،ط:دارالنوادر)

صحیح البخاری میں ہے:

"عبد اللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال: لعن اللّٰہ الواشمات والمستوشمات، والمُتنمِّصات، والمتفلجات للحسن المغیرات خَلْقَ اللّٰہ تعالیٰ، مالي لا ألعنُ من لعن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وھو في کتاب اللّٰہ {مَا اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ} ."

 (باب المتفلجات للحسن: 878/2، رقم الحدیث: 5931، ط: دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے :

"قطعت شعر رأسها أثمت ولعنت زاد في البزازية وإن بإذن الزوج لأنه لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق."

(کتاب الحظر والاباحۃ ،فصل فی البیع ،ج:6،ص:407،ط:دارالفکر ،بیروت

رٹائرمنٹ کے بعد پینشن لینا

 سرکاری ملازمت میں جو فرد کسی ایسے ادارے کا ملازم ہو جس کا کام جائز ہوتو ریٹائرمنٹ کے بعد پینشن و دیگر مراعات جو ادارے کی جانب سے ضابطے کے موافق ملازم کو دی جاتی ہوں ، ان کا حاصل کرنا جائز ہے۔

المعجم الکبیر میں ہے:

"عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «المسلمون على شروطهم إلا شرطا حرم حلالا، وأحل حراما، والصلح جائز بين الناس، إلا صلحا أحل حراما أو حرم حلالا»."

( عمرو بن عوف بن ملحة المزني، جلد 17 ص:22 ط: مکتبہ ابن تیمیہ قاہرہ)

ام محمد نام رکھنا

 امِ محمد نام رکھ سکتے ہیں،صحابہ اور تابعین کی خواتین میں یہ نام بطورِ کنیت ملتا ہے۔

الكمال فی اسماء الرجال میں ہے:

"[6692] أم محمد، امرأة أبي علي بن زيد بن جدعان .

روت عن: عائشة الصديقة.  روى عنها: علي بن زيد بن جدعان. روى لها: أبو داود، والترمذي، وابن ماجه".

(‌‌ذكر الكنى من النساء،  أم محمد، امرأة أبي علي بن زيد بن جدعان، 10/ 206، ط:الهيئة العامة للعناية بطباعة ونشر القرآن الكريم والسنة النبوية وعلومها، الكويت)

اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ میں ہے:

"7595- أم محمد خولة بنت قيس

س: أم محمد خولة بنت قيس روى آدم بن أبي إياس، عن أبي معشر، عن سعيد المقبري، عن عبيد سنوطي، قال: دخلنا على خولة بنت قيس، وكانت تحت حمزة بن عبد المطلب رضي الله عنه، فتزوجها بعده النعمان بن عجلان، فقلنا: يا أم محمد، حدثينا.

فقال لها زوجها النعمان: انظري ماذا تحدثين فإن الحديث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم بغير ثبت شديد...الخ".

(‌‌‌‌الكنى من النساء الصحابيات، حرف اللام وحرف الميم،  أم محمد خولة بنت قيس، 7/ 382، ط: دار الكتب العلمية)

والدین کے احترام میں کھڑے ہونا

 " جو یہ چاہے کہ لوگ اس کے لیے کھڑے ہوں وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے' اس حدیث کے مصداق وہ لوگ ہیں جو تعظیم کے مستحق نہ ہوں  ، لیکن   اپنے لیے لوگوں کے کھڑے ہونے  کو  پسند کرتے ہوں ، جس سے ان کے دلوں میں بڑائی اور تکبر پیدا ہوتا ہو، البتہ اولاد کا اپنے والدین کے لیے احتراما کھڑے ہونے میں، یا سلطانِ عادل کے لیے ان کے رفقاء کے کھڑے ہونے میں کوئی حرج نہیں ،  اسی طرح اگر کسی بزرگ، استاذ یا کسی اور قابل احترام شخص کے لئے از خود کوئی کھڑا ہوجائے اور وه خود کھڑے ہونے کے لیے نہ کہے اور نہ اس پر خوشی کا اظہار کرےتو وہ اس حدیث کے مصداق سے خارج ہیں ۔

مزید دیکھیے:

مسند احمد میں ہے: 

"حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن حبيب بن الشهيد، قال: سمعت أبا مجلز قال: دخل معاوية على عبد الله بن الزبير وابن عامر، قال: فقام ابن عامر، ولم يقم ابن الزبير، قال: وكان الشيخ أوزنهما، قال: فقال: مه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من أحب أن يمثل له عباد الله قيامًا، فليتبوأ مقعده من النار."

(مسند الشاميين، حديث معاوية بن أبي سفيان، رقم الحديث: 16830، ج28، ص40، ط: الرسالة العالمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الوهبانية: يجوز بل يندب القيام تعظيما للقادم كما يجوز القيام، ولو للقارئ بين يدي العالم وسيجيء نظما..............

مرغی کا انڈا

 مرغی کا انڈہ حلال ہے ،لہذا اس کو کھانا شرعا درست ہے ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے : 

"البيضة إذا خرجت من دجاجة ميتة أكلت وكذا اللبن الخارج من ضرع الشاة الميتة كذا في السراجية."

(كتاب الكراهية، الباب الحادي عشر في الكراهة في الأكل ...، ج: 5، ص: 339 ، ط: دار الفكر) 

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے : 

"وفى مختلفات الفقيه أبي الليث : إذا ماتت دجاجة - وخرج منها بيضةجاز اكلها عند أبي حنيفة رحمه الله ، اشتد أو لم يشتد."

(كتاب الاستحسان، الفصل الثاني عشر في الكراهة في الأ كل ...، ج: 18، ص: 146، ط: مكتبة زكريا بديوبند الهند)