https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 27 February 2021

چند مشہورکلمات کفر

 

مشہورکلمات کفرجوعام طورپربے دھیانی لاپرواہی اورغفلت میں  مؤمن کہہ جاتاہے حالاں کہ ان کے کہنے سے ایمان سلب ہوجاتاہےاور خبرتک نہیں ہوتی :


☄۔ جیسے کوئی مصیبت کے وقت کہے۔" اللہ نے پتہ نہیں مصیبتوں کے لئے ہمارا گھر ہی دیکھ لیا ہے"


☄۔ یا موت کے وقت کوئی کہہ دے۔"پتہ نہیں اللہ کو اس شخص کی بڑی ضرورت تھی جو اس کو اپنے پاس اتنی کم عمری میں بلا لیا"۔


۔ یا کہا ۔ نیک لوگوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ جلدی اٹھا لیتا ہے کیوں کہ ایسوں کی اللہ عَزَّوَجَلَّ کو بھی ضَرورت پڑتی ہے


۔ یااللہ ! تجھے بچّوں پر بھی ترس نہیں آیا


☄۔ االلہ ! ہم نے تیرا کیابِگاڑا ہے! آخِر ملکُ الموت کوہمارے ہی گھر والوں کے پیچھے کیوں لگا دیا ہے


☄۔ اچّھا ہے جہنَّم میں جائیں گے کہ فلمی اداکار ئیں بھی تو وہیں ہوں گی نہ مزہ آجائے گا۔


۔ اکثر لوگ فیس بک پر اس طرح کے لطائف لکھ ڈالتے ہیں۔ یہ بھی کفر ہے۔ جیسے اگر تم لوگ جنّت میں چلے بھی گئے تو سگریٹ جلانے کیلئے تو ہمارے ہی پاس (یعنی دوزخ میں)آنا پڑے گا


۔ آؤ ظہر کی نماز پڑھیں ، دوسرے نے مذاق میں جواب دیا :یا ر ! آج تو چُھٹّی کا دن ہے ، نَماز کی بھی چُھٹّی ہے ۔


۔ کسی نے مذاق میں کہا:''بس جی چاہتا ہے یہودی یا عیسائی یا قادیانی بن جاؤں۔ ویزہ تو جلدی مل جاتا ہے نا۔


☄۔ صبح صبح دعا مانگ لیا کرو اس وقت اللہ فارِغ ہوتا ہے


☄۔ اتنی نیکیاں نہ کرو کہ خُدا کی جزا کم پڑجائے


☄۔ خُدا نے تمہارے بال بڑی فرصت سے بنائے ہیں


☄۔ زید نے کہا:یار!ہوسکتا ہے آج بارش ہوجائے۔ بکرنے کہا:''نہیں یار ! اللہ تو ہمیں بھول گیا ہے۔


☄شریعت کے کسی حکم,قرآن مجیدیا نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا مذاق اڑانا کفر ہے۔


☄۔ دنیا بنانے والے کیا تیرے من میں سمائی؟ تو نے کاہے کو دنیا بنائی؟ (گانا)


☄۔ حسینوں کو آتے ہیں کیا کیا بہانے ۔ خدا بھی نہ جانے تو ہم کیسے جانے (گانا)


☄۔ میری نگاہ میں کیا بن کے آپ رہتے ہیں ۔ قسم خدا کی ' خدا بن کے آپ رہتے ہیں ۔ (گانا) اس طرح کے بے شمار گانے جو ہمارے مسلما ن اکثر گنگناتے دیکھائی دیتے ہیں۔


☄۔ نَماز کی دعوت دینے پر کسی نے کہا:''ہم نے کون سے گُناہ کئے ہیں جن کو بخْشوانے کیلئے نَماز پڑھیں۔


ایک نے طبیعت پوچھی تو دوسرے نے مذاق کرتے ہوئے جواب دیا: نصْرمِّنَ اللہِ وَ ٹِّھیک ۔ کہہ دیا ۔کہنے والے پر حکم کفر ہے کہ آیت کو تبدیل کرنے کی کوشش ہے۔


☄۔ رَحمٰن کے گھر شیطان اور شیطان کے گھر رَحمٰن پیدا ہوتا ہے۔


☄۔مسلمان بن کر امتحان میں پڑ گیا ہوں۔


نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے:


*''ان فِتنوں سے پہلے نیک اعمال کے سلسلے میں جلدی کرو !جو تاریک رات کے حِصّوں کی طرح ہوں گے، ایک آدَمی صُبح کو مومِن ہو گا اور شام کو کافِر ہوگااور شام کو مومِن ہوگااور صُبح کو کافِر ہوگا ۔ نیز اپنے دین کو دُنیاوی سازو سامان کے بدلے فروخت کر دے گا۔ '' 


(مُسلِم حدیث118ص73)

کفریہ کلمات متعین اور محدود نہیں ہیں کہ ان سبھی کو بیان کیا جاسکے، البتہ وہ کلمات  جو اسلامی ضروری عقائد کے خلاف ہیں، اور ان میں درست  تاویل کا احتمال نہ ہو، انہیں جان بوجھ  کر  کہنے سے آدمی اسلام سے نکل جاتا ہے اور مسلمان عورت سے اس کا نکاح بھی ختم ہوجاتا ہے‘‘۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 222):
"وفي الفتح: من هزل بلفظ كفر ارتد وإن لم يعتقده للاستخفاف فهو ككفر العناد.
(قوله: من هزل بلفظ كفر) أي تكلم به باختياره غير قاصد معناه، وهذا لاينافي ما مر من أن الإيمان هو التصديق فقط أو مع الإقرار لأن التصديق، وإن كان موجوداً حقيقةً لكنه زائل حكماً؛ لأن الشارع جعل بعض المعاصي أمارة على عدم وجوده كالهزل المذكور، وكما لو سجد لصنم أو وضع مصحفاً في قاذورة فإنه يكفر، وإن كان مصدقاً لأن ذلك في حكم التكذيب، كما أفاده في شرح العقائد، وأشار إلى ذلك بقوله: للاستخفاف، فإن فعل ذلك استخفافاً واستهانةً بالدين فهو أمارة عدم التصديق، ولذا قال في المسايرة: وبالجملة فقد ضم إلى التصديق بالقلب، أو بالقلب واللسان في تحقيق الإيمان أمور الإخلال بها إخلال بالإيمان اتفاقا، كترك السجود لصنم، وقتل نبي والاستخفاف به، وبالمصحف والكعبة.
وكذا مخالفة أو إنكار ما أجمع عليه بعد العلم به لأن ذلك دليل على أن التصديق مفقود، ثم حقق أن عدم الإخلال بهذه الأمور أحد أجزاء مفهوم الإيمان فهو حينئذ التصديق والإقرار وعدم الإخلال بما ذكر بدليل أن بعض هذه الأمور، تكون مع تحقق التصديق والإقرار، ثم قال ولاعتبار التعظيم المنافي للاستخفاف كفر الحنفية بألفاظ كثيرة، وأفعال تصدر من المنتهكين لدلالتها على الاستخفاف بالدين كالصلاة بلا وضوء عمدا بل بالمواظبة على ترك سنة استخفافا بها بسبب أنه فعلها النبي صلى الله عليه وسلم زيادة أو استقباحها كمن استقبح من آخر جعل بعض العمامة تحت حلقه أو إحفاء شاربه اهـ. قلت: ويظهر من هذا أن ما كان دليل الاستخفاف يكفر به، وإن لم يقصد الاستخفاف لأنه لو توقف على قصده لما احتاج إلى زيادة عدم الإخلال بما مر لأن قصد الاستخفاف مناف للتصديق (قوله: فهو ككفر العناد) أي ككفر من صدق بقلبه وامتنع عن الإقرار بالشهادتين عنادا ومخالفة فإنه أمارة عدم التصديق".

الفتاوى الهندية (2/ 283):
"رجل كفر بلسانه طائعاً، وقلبه مطمئن بالإيمان يكون كافراً، ولايكون عند الله مؤمناً، كذا في فتاوى قاضي خان".

کافر کو کافر کہنا:


بعض اوقات یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کافر کو کافر کہنا درست ہے یا نہیں؟اس سلسلہ میں اصول یہ  ہےکہ کسی کے کافریامومن ہونے کا ثبوت قطعی یا ظنی وجوہ کی بنا پر ہوگا۔ جیسے ابو لہب، شداد، ہامان وغیرہ کا کافر ہونا قطعی طور پر ثابت ہے لہذا ان کو  کافر کہنا درست ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے بھی اللہ تعالیٰ نے  قرآن مجید میں جابجافرمایا جیسے :  قل یا ایھا الکافرون

(الکافرون۱۰۹:۱) 

آپ فرما دیجیے اے کافرو!
اس آیت سے ان لوگوں کو کافر کہنے کا  صاف طورپرجواز معلوم ہوتا ہے جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی براہ راست تکذیب کی۔اسی طرح بعض لوگوں کا کافر ہونا ان کے کفریہ عقائد یا کفریہ اعمال سے اس قدر ثابت ہو جاتا ہے کہ ان کے کفر میں کسی بھی قسم کا تامل یا شک باقی نہیں رہتا۔ جیسے مسیلمہ کذاب یا منکرین زکوٰۃ کاکافرہونا ۔ 

تکفیری محاذ قائم کرنا:

بعض حضرات اسلام کا دائرہ اتنا تنگ کر لیتے ہیں کہ انہیں اپنی ذات کے علاوہ کوئی مسلمان نظر نہیں آتا۔اسی طرح سے بعض حضرات اسلام کا دائرہ اتنا وسیع کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ انہیں کوئی کافر نظر نہیں آتا۔یہاں تک کہ وہ یہود و نصاری کو بھی مسلمان اوربعد از انتقال مستحق جنت سمجھتے ہیں۔ان غیر معتدل رویوں سے بچنا چاہئے۔اسلام مکمل ہو چکا ہے کسی کو دین میں کمی یا اضافہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔

إن الدين عند الله الإسلام

Friday 26 February 2021

طارق بن زیاد علیہ الرحمہ

 

طارق بن زیاد(انتقال 720ء)عہداموی میں بربر نسل کےعظیم جرنیل تھے۔ انہوں نے 711ء میں ہسپانیہ (اسپین) کی مسیحی حکومت کو بے دخل کرکے یورپ میں مسلم اقتدار کا آغاز کیا۔ وہ ہسپانوی تاریخ میں Taric el Tuerto کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ انہیں اسپین کی تاریخ کے اہم ترین عسکری رہنماؤں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ شروع میں وہ اموی صوبہ افریقیہ کے گورنر موسی بن نصیر کے نائب تھے جنہوں نے ہسپانیہ میں وزیگوتھ بادشاہ کے مظالم سے تنگ عوام کے مطالبے پر طارق کو ہسپانیہ پر چڑھائی کا حکم دیا۔


30 اپریل 711ء کو طارق کی افواج جبرالٹر پر اتریں۔ واضح رہے کہ جبرالٹر اس علاقے کے عربی نام جبل الطارق کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ اسپین کی سرزمین پر اترنے کے بعد طارق بن زیادنے تمام کشتیوں کو جلادینے کا حکم دیا۔ تاکہ فوج فرار کے بارے میں سوچ بھی نہ سکے۔


انہوں نے 7 ہزار کے مختصر لشکر کے ساتھ پیش قدمی شروع کی اور بعد ازاں 19 جولائی کو جنگ وادی لکہ میں وزیگوتھ حکمران لذریق کے ایک لاکھ کے لشکر کا سامنا کیا اور معرکے میں ایک ہی دن میں بدترین شکست دی۔ جنگ میں روڈرک مارا گیا۔


فتح کے بعد طارق نے بغیر کسی مزاحمت کے دار الحکومت طلیطلہ پر قبضہ کر لیا۔ طارق کو ہسپانیہ کا گورنر بنادیا گیا لیکن جلد انہیں دمشق طلب کیا گیا کیونکہ خلیفہ ولید اول سے ہسپانیہ پر چڑھائی کی اجازت نہیں لی گئی تھی۔


اندلس پر چڑھائی سے پہلے  درج ذیل خطبہ دیا:


يا أيها الناس، أين المفرّ؟ البحر من ورائكم والعدو أمامكم، وليس لكم والله إلا الصدق والصبر، واعلموا أنكم في هذه الجزيرة أضيع من الأيتام في مأدبة اللئام وقد استقبلكم عدوكم بجيشه وأسلحته وأقواته موفورة وأنتم لا وَزَرَ لكم إلا سيوفكم، ولا أقوات لكم إلا ما تستخلصونه من أيدي عدوكم وأن امتدت بكم الأيام على افتقاركم ولم تنجزوا لكم أمراً، ذهبت ريحكم وتعوضت القلوب من رُعبها منكم الجرأة عليكم فادفعوا عن انفسكم خذلان هذه العاقبة من أمركم بمناجزة هذا الطاغية، فقد ألقت به إليكم مدينته الحصينة، وإن انتهاز الفرصة فيه لممكن إن سمحتم لأنفسكم بالموت، وإني لم أحذركم أمراً أنا عنه بنجوة ولا حملتكم على خطة أرخص متاع فيها النفوس إلا وانا أبدأ بنفسي.

واعلموا أنكم إن صبرتم على الأشق قليلاً استمتعتم بالأرفة الألذ طويلا فلا ترغبوا بأنفسكم عن نفسي فما حظكم فيه بأوفى من حظي وقد بلغتم ما أنشأت هذه الجزيرة من الحور الحسان من بنات اليونان الرافلات في الدرِّ والمرجان والحلل المنسوجة بالعقيان، المقصورات في قصور الملوك ذي التيجان وقد انتخبكم الوليد بن عبد الملك أمير المؤمنين من الأبطال عربانا، ورضيكم لملوك هذه الجزيرة أصهارا وأختانا، ثقة منه بارتياحكم للطعان واستماحكم بمجادلة الأبطال والفرسان ليكون حظه منكم ثواب الله على إعلاء كلمته وإظهار دينه بهذه الجزيرة وليكون مغنمها خالصة لكم من دونه ومن دون المومنين سواكم والله تعالى ولي إنجادكم على ما يكون لكم ذكرا في الدارين.

واعلموا أنني أول مجيب إلى ما دعوتكم إليه وأني عند ملتقى الجمعين حامل بنفسي على طاغية القوم لُذْريق فقاتله إن شاء الله تعالى فاحملوا معي، فإن هلكت بعده فقد كفيتكم أمره ولم يعوزكم بطل عاقل تسندون أموركم إليه وإن هلكت قبل وصولي إليه فاخلفوني في عزيمتي هذه، واحملوا بأنفسكم عليه واكتفوا الهم من فتح هذه الجزيرة بقتله، فإنهم بعده يخذلون” .

المقري، نفح الطيب بيروت  1968 ج 1)


نقلاً عن التاريخ الأندلسي من خلال النصوص،


مجموعة من المؤلفين،


شركة النشر والتوزيع المدارس، الدار البيضاء، 1991.)

اردو ترجمہ:


لوگو!اب راہ فرار کہاں ,سمندرتمہارے پیچھے ہے


  اور دشمن تمہارے آگے۔ بخدا! تمہارے لیے صدق و صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

 یادرکھو! تم اس جزیرہ نما میں اس قدر بے وقعت ہو کہ کم ظرف لوگوں کے دسترخوان پر یتیم بھی اتنے بے وقعت نہیں ہوتے۔ تمہارا دشمن اپنے لشکر، اسلحے اور وافر خوراک کے ساتھ تمہارے مقابلے میں نکلا ہے۔ ادھر تمہارے پاس کچھ نہیں سوائے اپنی تلواروں کے۔ یہاں اگر تمہاری اجنبیت کے دن لمبے ہو گئے تو تمہارے لیے خوراک بس… وہی ہے جو تم اپنے دشمن کے ہاتھوں سے چھین لو۔ 


اگر تم یہاں کوئی معرکہ نہ مار سکے تو تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور تمہاری جرات کے بجائے تمہارے دلوں پر دشمن کا رعب بیٹھ جائے گا۔ اس سرکش قوم کی کامیابی کے نتیجے میں جس ذلت و رسوائی سے دوچار ہونا پڑے گا اس سے اپنے آپ کو بچاؤ۔ دشمن نے اپنے قلعہ بند شہر تمہارے سامنے ڈال دیے ہیں۔ آکر تم جان کی بازی لگانے کو تیار ہو جاؤ تو تم اس موقع سے فائدہ اٹھا سکتے ہو۔ میں تمہیں ایسے کسی خطرے میں نہيں ڈال رہا جس میں کودنے سے خود گریز کروں۔ اس جزیرہ نما میں اللہ کا کلمہ بلند کرنے اور اس کے دین کے فروغ دینے پر اللہ کی طرف سے ثواب تمہارے لیے مقدر ہو چکا ہے۔ یہاں کے غنائم خلیفہ اور مسلمانوں کے علاوہ خاص تمہارے لیے ہوں گے۔

 اللہ تعالیٰ نے کامیابی تمہاری قسمت میں لکھ دی ہے، اس پر دونوں جہان میں تمہارا ذکر ہوگا۔ یاد رکھو! میں تمہیں جس چیز کی دعوت دیتا ہوں اس پر خود لبیک کہہ رہا ہوں۔ میں میدان جنگ میں اس قوم کے سرکش راڈرک پر خود حملہ آور ہوں گا اور ان شاء اللہ اسے قتل کر ڈالوں گا۔ تم سب میرے ساتھ ہی حملہ کر دینا۔ اگر اس کی ہلاکت کے بعد میں مارا جاؤں تو تمہیں کسی اور ذی فہم قائد کی ضرورت نہیں رہے گی اور اگر میں اس تک پہنچنے سے پہلے ہلاک ہو جاؤں تو میرے عزم کی پیروی کرتے ہوئے جنگ جاری رکھنا اور سب مل کر اس پر ہلہ بول دینا۔ اس کے قتل کے بعد اس جزیرہ نما کی فتح کا کام پایۂ تکمیل کو پہنچانا۔ راڈرک کے بعد اس کی قوم مطیع ہو جائے گی۔


Tuesday 23 February 2021

الفاظ کنائی سے طلاق بائن واقع ہونے کی وجہ

 چونکہالفاظِ طلاق سے اصل مقصود نکاح ختم کرنا ہوتا ہے، اس لیے قیاس کاتقاضہ تو یہی تھا کہ طلاق کے تمام  ہی الفاظ سے طلاقِ بائن ہی واقع ہو تی اور الفاظ طلاق کی ادائیگی کے فوراً بعد ہی نکاح ختم ہو جاتا خواہ اس کے لیے الفاظِ صریح استعمال کیے جاتے یا کنائی،  لیکن بعض مواقع پر عدت تک نکاح کا نہ ٹوٹنا اور رجوع کا حق باقی رہنا نصوص سے ثابت ہے، اس لیے صریح الفاظ سے طلاقِ رجعی واقع ہوتی ہے اور نکاح باقی رہتا ہے تاوقتیکہ عدت ختم ہو جائے اور الفاظِ کنائی میں قیاس کے مقتضیٰ کے مطابق طلاقِ بائن واقع ہوتی ہے اور فوراً نکاح ختم ہو جاتا ہے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3/ 109)

" الأصل في اللفظ المطلق عن شرط أن يفيد الحكم فيما وضع له للحال والتأخر فيما بعد الدخول إلى وقت انقضاء العدة ثبت شرعًا بخلاف الأصل فيقتصر على مورد الشرع فبقي الحكم فيما قبل الدخول على الأصل."

صفوة التفاسير (1/ 131):

{الطلاق مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ} أي الطلاق المشروع الذي يملك به الزوج الرجعة مرتان وليس بعدهما إِلا المعاشرة بالمعروف مع حسن المعاملة أو التسريح بإِحسان بألا يظلمها من حقها شيئاً ولايذكرها بسوء ولاينفّر الناس عنها."

مختصر تفسير البغوي المسمى بمعالم التنزيل (1/ 88):

"قوله تعالى: {فإمساك بمعروف}[البقرة: 229] قيل: أراد بالإمساك الرجعة بعد الثانية، والصحيح أن المراد منه بعد الرجعة، يعني: إذا راجعها بعد الطلقة الثانية فعليه أن يمسكها بالمعروف، والمعروف كل ما يعرف في الشرع من أداء حقوق النكاح وحسن الصحبة."

Friday 19 February 2021

ایک مشت داڑھی سے زائد تراشنا

 بالوں کی لمبائی کے لحاظ سے داڑھی کی مقدار ایک مشت ہے، اس سے زائد بال کاٹ سکتے ہیں، اور ایک مشت سے بہت زیادہ لمبی داڑھی رکھنا  سنت کے خلاف ہے،  مشت سے اتنی زیادہ داڑھی رکھی جائے جس میں خوب صورتی اور وقار ہو،  ایک مشت سے زائد داڑھی کو کاٹ کر گولائی میں کرنا  حضرت ابن عمراور حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہما کی روایت سے ثابت ہے:

' عن ابن عمرؓ عن البني صلی اﷲ علیه وسلم قال: خالفوا المشرکین، وفروا اللحیٰ، واحفوا الشوارب، وکان ابن عمر إذا حج، أوعمر قبض علی لحیته فما فضل أخذه.'

(صحیح البخاري ، کتاب اللباس، باب تقلیم الأظفار ۲/۸۷۵، رقم: ۵۶۶۳، ف:۵۸۹۲)

' وقد روي عن أبي هریرة أیضاً أنه کان یقبض علی لحیته فیأخذ مافضل عن القبضة.'  (هامش الترمذي ۲/۱۰۵)
'عن الحسن قال: کانوا یرخصون فیمازاد علی القبضة من اللحیة: أن یؤخذ منها'۔ (مصنف ابن أبي شیبة، مؤسسة علوم القرآن بیروت۱۳/۱۱۲، رقم:۲۵۹۹۵)
'عن أبي هریرة: أنه کان یأخذ من لحیته ماجاز القبضة'۔ (مصنف ابن أبي شیبة ۱۳/۱۱۳، رقم:۲۵۹۹۹) 'عن عمرو بن شعیب عن أبیه عن جده، أن رسول اﷲ صلی اﷲ علیه کان یأخذ من لحیته من طولها وعرضها.'

(سنن الترمذي، کتاب الأدب، باب ماجاء في الأخذ اللحیة، النسخة الهندیة ۲/۱۰۵، دار السلام رقم: ۲۷۶۲)

Tuesday 16 February 2021

ناجائز ٹیکسز میں سودی رقم دینا:

 جی ایس ٹی میں سود کی رقم دینا


حکومت ہند آجکل اٹھارہ فیصد جی ایس ٹی

 وصول کرتی ہے جو غیرشرعی او رغیر واجبی ہے اس لیے کہ ہر خام مال پر جو حکومت ٹیکس وصول کرتی ہے وہ علحدہ ہے پھر جب مال تیار ہوکر مارکٹ میں آجاتا ہے تو دوبارہ اس پر جی ایس ٹی کے نام سے رقم وصول کرتی ہے جس کی وجہ سے عام گاہک پر اس کا سیدھا بوجھ پڑتا ہے ،کیوں کہ مال تیار کرنے والا جو حکومت کو مال پر جی ایس ٹی دیتا ہے وہ تاجروں سے وصول کرلیتا ہے پھر تاجر حضرات جو مال بیچنے پر جی ایس ٹی دیتے ہیں وہ صارف سے لے لیتے ہیں اس طرح مال بنانے والے اور مال بیچنے والے پر اس کا اثر نہیں پڑتا ہے ؛بلکہ ان کو جی ایس ٹی ریٹرن کے نام پر مزید فائدہ بھی ہوجاتا ہے اس کا اصل بوجھ استعمال کرنے والے صارفین پر پڑتاہے اس لیے اگر کوئی صارف کوئی سامان خریدے اور کمپنی کی طرف سے اس کو صراحت کردی جائے یا بل پر لکھ دیا جائے کہ یہ مال اتنے کا ہے اور اس پر اتنا جی ایس ٹی ہے تو صارف اس میں بھی بینک انٹرسٹ کی رقم دے سکتاہے اس لیے کہ حکومت کا پیسہ حکومت کو پہونچ گیا اور صارف کا ذمہ بھی بری ہوگیا تو جس طرح انکم ٹیکس میں اس کے غیر شرعی ہونے کی وجہ سے انٹرسٹ کا پیسہ دینا جائز ہے اسی طرح جی ایس ٹی کے غیر شرعی ہونے کی وجہ سے اس میں انٹرسٹ کا پیسہ دینا جائز ہے ۔


بلانیت ثواب صدقہ کرنا


چونکہ سود  قطعی نصوص سے حرام ہے اس کا وصول کرنا ہی ناجائز ہے،لہذا اگر غلطی سے وصول کرلیا ہو تو اس کا حکم یہ ہے کہ اس کے  مالک کو لوٹادیا جائے اور اگر یہ ممکن نہ ہوتو ثواب کی نیت کے بغیر  صدقہ کردیا جائے۔ اور اگر غفلت یا لاعلمی میں  حکومتی ادارہ یا حکومتی بینک سے  سود وصول کرلیا گیا ہو تو انکم ٹیکس کی  مد میں دینے کی گنجائش ہوگی۔  تاہم اس میں یہ ملحوظ رہے  انکم ٹیکس میں رقم دینے کے لیے سود لینا جائز نہیں ہوگا ، بلکہ سود لینے کا کبیرہ گناہ ہوگا۔ 


'فتاوی شامی'  میں ہے:


"والحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له، ويتصدق به بنية صاحبه".


(5/99، مَطْلَبٌ فِيمَنْ وَرِثَ مَالًا حَرَامًا، ط: سعید)


وفیه أیضاً:



"(ويجب رد عين المغصوب) ما لم يتغير تغيراً فاحشاً، مجتبى (في مكان غصبه)؛ لتفاوت القيم باختلاف الأماكن (ويبرأ بردها ولو بغير علم المالك) في البزازية: غصب دراهم إنسان من كيسه ثم ردها فيه بلا علمه برئ، وكذا لو سلمه إليه بجهة أخرى كهبة أو إيداع أو شراء".(6/ 182)


انکم ٹیکس,سیل ٹیکس میں سودی رقم دینا:


انکم ٹیکس اور سیل ٹیکس میں سرکاری بینک سے ملا ہوا سود کا پیسہ اس نیت سے دینا جائز ہے کہ ناجائز پیسہ جہاں سے آیا ہے وہاں واپس کیا جارہا ہے؛ اس لئے کہ مال حرام میں اصل حکم شرعی یہ ہے کہ حرام جہاں سے آیا ہے کسی بھی عنوان سے اسے واپس کردیا جائے؛ لہٰذا سیل ٹیکس اور انکم ٹیکس کے عنوان سے سرکار کو دینا جائز ہے۔

صرح الفقہاء بأن من اکتسب مالا بغیر حق، فإما أن یکون کسبہ بعقد فاسد کالبیوع الفاسدۃ والاستیئجار علی المعاصي أو بغیر عقد کالسرقۃ، والغصب، والخیانۃ، والغلول، ففي جمیع الأحوال المال الحاصل لہ حرام علیہ، ولکن إن أخذہ من غیر عقد لم یملکہ، ویجب علیہ أن یردہ علی مالکہ إن وجد المالک۔ (بذل المجہود، کتاب الطہارۃ، باب فرض الوضوء سہارنپور ۱/ ۳۷، دارالبشائر الإسلامیۃ ۱/ ۳۵۹، رقم الحدیث ۵۹، ہندیۃ، زکریا قدیم ۵/ ۳۴۹، جدید ۵/ ۴۰۴، شامي، زکریا ۹/ ۵۵۳، کراچی ۶/ ۳۸۵، البحرالرائق، زکریا ۹/ ۳۶۹، کوئٹہ ۸/ ۲۰۱)


Sunday 14 February 2021

مسٹرٹرمپ کامواخذہ

 سابق امریکی صدرمسٹرڈونالڈٹرمپ نے حالیہ الیکشن کے نتائج آنے پر  جورویہ اپنایا اورمسٹربایڈن پراخیرتک الیکشن چوری کرنے کاالزام لگاتے رہے اپنےپرستاروں کو برسرعام تشددپراکساتے رہے بالآخران پرستاروں نے کیپٹل ہلز پرحملہ کردیا جس کے نتیجے میں پانچ افراد ہلاک ہوئے.اس کے باوجودامریکی سیینٹ میں ٹرمپ کے خلاف مواخذہ کی تحریک ناکام ہوگئ کیونکہ ان کے خلاف تحریک کی کامیابی کےلئے مزید دس ووٹوں کی ضرورت تھی ان کی پارٹی کے صرف سات افراد نے ان کے خلاف ووٹ دیا  باقی ممبران گانگریس نے اپنی پارٹی کی حمایت کرتے ہوئے مسٹرٹرمپ کے خلاف مواخذے کوناکام بنادیا اس سے یہ حقیقت پوری دنیاپر عیاں ہوگئ ہے کہ امریکہ میں بھی موقعہ پرست حقیقت سے آنکھ موندنے والے ممبران کی اکثریت ہے جنہیں سچائی سے نفرت  اور اپنے اقتدار سے محبت ہے.مسٹربائڈن کا یہ کہنا درست ہے امریکہ میں جمہوریت ابھی کمزور ہے.مواخذہ کوناکام بناکر امریکی کانگریس نے مسِرٹرمپ کو مزید موقعہ دیا ہے کہ وہ پہلے سے بھی زیادہ خطرناک حملہ امریکی جمہوریت پر کریں تاکہ آئندہ پوری کانگریس ان کے خلاف متفقہ طورپر مواخذہ کی تحریک پاس کرسکے.آئندہ لیکن آئندہ ایلکشن  تک اس کاانتظار کرنا ہوگا حب مسٹر ٹرمپ دوبارہ صدارتی انتخابات لڑیں گے.یہ درست ہے کہ تحریک مواخذہ کی ناکامی نے پوری دنیامیں جمہوریت کوشرمندہ کیا ہے. جن سات افراد نے اپنی پارٹی سے ہٹ  کر مسٹرٹرمپ کے خلاف ووٹ دیا وہ یقیناحقیقت پسند اور جمہوریت نواز ہیں ان کے جذبات قابل قدراورلائق صدستائش ہیں.لیکن تحریک مواخذہ کی ناکامی سے  یہ حقیقت پورے طورپر واضح ہوچکی ہے کہ پوری دنیا میں عیاری ومکاری دجل و فریب ظلم وبربریت کا بول بالا ہے.

Sunday 7 February 2021

اسلام میں خودکشی کی حیثیت

 انسان کی جان اسلام کے نزدیک اس کے پاس اللہ کی امانت ہے اس لئے خودکشی کرکے یااورکسی طرح اپنے نفس کوگزند پہنچانااسلامی شریعت میں حرام ہے. کیونکہزندگی اور موت کا مالکِ حقیقی اﷲ تعالیٰ ہے۔ جس طرح کسی دوسرے شخص کو موت کے گھاٹ اتارنا پوری انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف  ہے، اُسی طرح اپنی زندگی کو ختم کرنا یا اسے بلاوجہ تلف کرنا بھی شرعاََ حرام ہے۔ ارشا د ہے:

وَلاَ تُلْقُواْ بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوَاْ إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَo

’’اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں مت ڈالو، اور بھلائی کرو، بے شک اﷲ اِحسان والوں سے محبت فرماتا ہےo‘‘

  1. البقرة، 2: 195

امام بغوی نے سورۃ النساء کی آیت نمبر 30 کی تفسیر کے ذیل میں سورۃ البقرۃ کی مذکورہ آیت نمبر 195 بیان کرکے لکھا ہے:

وقيل: أراد به قتل المسلم نفسه.

’’اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد کسی مسلمان کا خودکشی کرنا ہے۔‘‘

  1. بغوی، معالم التنزيل، 1: 418

ایک اور مقام پر اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ إِنَّ اللّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًاo وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ عُدْوَانًا وَظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِيهِ نَارًا وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللّهِ يَسِيرًاo

’’اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو، بے شک اﷲ تم پر مہربان ہےo اور جو کوئی تعدِّی اور ظلم سے ایسا کرے گا تو ہم عنقریب اسے (دوزخ کی) آگ میں ڈال دیں گے، اور یہ اﷲ پر بالکل آسان ہےo‘‘

  1. النساء، 4: 29، 30

امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے:

{وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ} يدل علی النهی عن قتل غيره وعن قتل نفسه بالباطل.

’’{اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو}۔ یہ آیت مبارکہ کسی شخص کو ناحق قتل کرنے اور خودکشی کرنے کی ممانعت پر دلیل شرعی کا حکم رکھتی ہے۔‘‘

  1. رازی، التفسير الکبير، 10: 57

مزید برآں امام بغوی نے ’’معالم التنزيل (1: 418)‘‘ میں، حافظ ابن کثیر نے’’تفسير القرآن العظيم (1: 481)‘‘ میں اور ثعالبی نے ’’الجواهر الحسان في تفسير القرآن (3: 293)‘‘ میں سورۃ النساء کی مذکورہ بالا آیات کے تحت خود کشی کی حرمت پر مبنی احادیث درج کی ہیں (جو کہ اگلے صفحات میں آرہی ہیں)۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ائمہ تفسیر کے نزدیک بھی یہ آیات خود کشی کی ممانعت و حرمت پر دلالت کرتی ہیں۔

احادیث مبارکہ میں بھی خود کشی کی سخت ممانعت وارد ہوئی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

فَإِنَّ لِجَسَدِکَ عَلَيْکَ حَقًّا وَإِنَّ لِعَيْنِکَ عَلَيْکَ حَقًّا.

’’تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری آنکھوں کا تم پر حق ہے۔‘‘

  1. بخاری، الصحيح، کتاب الصوم، باب حق الجسم فی الصوم، 2: 697، رقم: 1874

یہ حکم نبوی واضح طور پر اپنے جسم و جان اور تمام اعضاء کی حفاظت اور ان کے حقوق ادا کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ آپ  نے خود کشی جیسے بھیانک اور حرام فعل کے مرتکب کو فِي نَارِ جَهَنَّمَ يَتَرَدَّی فِيْهِ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيْهَا أَبَدًا (وہ دوزخ میں جائے گا، ہمیشہ اس میں گرتا رہے گا اور ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہے گا) فرما کر دردناک عذاب کا مستحق قرار دیا ہے۔

Friday 29 January 2021

اسلام میں غیر مسلموں کے حقوق(ڈینیل پرل کی یاد میں خصوصی پیشکش)

 

 غیر مسلموں کا تحفظ اسلامی ریاست کا فریضۂ منصبی


اسلام دین امن ہے اور یہ معاشرے میں رہنے والے تمام افراد کو، خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب اور رنگ و نسل سے ہو، جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کی ضمانت عطا کرتا ہے۔ اس باب میں ہم یہ متحقق کریں گے کہ ایک اسلامی ریاست میں آباد غیر مسلم اقلیتوں کی عزت اور جان و مال کی حفاظت کرنا مسلمانوں پر بالعموم اور اسلامی ریاست پر بالخصوص فرض ہے۔


غیرمسلم شہریوں کے حقوق


اسلامی ریاست میں غیر مسلم شہریوں کو بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو مسلمانوں کو حاصل ہیں۔ اُن حقوق میں سے پہلا حق جو اسلامی حکومت اور اسلامی معاشرہ کی طرف سے انہیں حاصل ہے وہ حقِ حفاظت ہے، جو انہیں ہر قسم کے خارجی اور داخلی ظلم و زیادتی کے خلاف میسر ہوگا تاکہ وہ مکمل طور پر امن و سکون کی زندگی بسر کر سکیں۔


حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر پوری نسل انسانی کو عزت، جان اور مال کا تحفظ فراہم کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :


إِنَّ دِمَاء کُمْ وَأَمْوَالَکُمْ وَأَعْرَاضَکُمْ عَلَيْکُمْ حَرَامٌ، کَحُرْمَةِ يَوْمِکُمْ هَذَا، فِی شَهْرِکُمْ هَذَا، فِی بَلَدِکُمْ هَذَا، إِلَی يَوْمِ تَلْقَوْنَ رَبَّکُمْ.


1. بخاري، الصحيح، کتاب الحج، باب الخطبة أيام منی، 2 : 620، رقم : 1654

2. مسلم، الصحيح، کتاب القسامة والمحاربين والقصاص والديات، باب تغليظ تحريم الدماء والأعراض والأموال، 3 : 1305، 1306، رقم : 1679


’’بے شک تمہارے خون اور تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تم پر اِسی طرح حرام ہیں جیسے تمہارے اِس دن کی حرمت تمہارے اِس مہینے میں اور تمہارے اِس شہر میں (مقرر کی گئی) ہے۔ یہاں تک کہ تم اپنے رب سے ملو گے۔‘‘

لہٰذا کسی بھی اِنسان اور کسی بھی مذہب کے پیروکار کو ناحق قتل کرنا، اُس کا مال لوٹنا، اس کی عزت پر حملہ کرنا یا اس کی تذلیل کرنا نہ صرف حرام ہے بلکہ اس کے مرتکب شخص کو الم ناک سزا کی وعید سنائی گئی ہے۔ ذیل میں ہم قرآن و حدیث سے متعدد دلائل و براہین پیش کریں گے جس سے یہ حقیقت عیاں ہوجائے گی کہ اسلام نے کس طرح غیر مسلم شہریوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی تلقین کی ہے۔


 غیر مسلم شہریوں کے قتل کی ممانعت


اسلامی ریاست میں آباد غیر مسلم شہری کو قتل کرنا حرام ہے۔ کسی فرد کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی غیر مسلم شہری کو قتل کرے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے :


مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا.

المائدة، 5 : 32


’’جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے کی سزا) کے (بغیر، ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا۔‘‘


اس آیہ کریمہ میں نَفْسًا کا لفظ عام ہے، لہٰذا اس کا اطلاق بھی عموم پر ہوگا۔ یعنی کسی ایک انسانی جان کا قتلِ ناحق۔ خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو، کوئی بھی زبان بولتا ہو اور دنیا کے کسی بھی ملک یا علاقے کا رہنے والا ہو۔ قطعاً حرام ہے اور اس کا گناہ اتنا ہی ہے جیسے پوری انسانیت کو قتل کرنے کا ہے۔ لہٰذا مسلم ریاست میں آباد غیر مسلم شہریوں کا قتل بھی اسی زمرے میں آئے گا۔ اس کی تصریح آگے آنے والی احادیث سے بھی ہوتی ہے۔


غیر مسلم شہری کے قاتل پر جنت حرام ہے

1۔ حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :


مَنْ قَتَلَ مُعَاهِدًا فِي غَيْرِ کُنْهِهِ، حَرَّمَ اﷲُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ.


1. نسائي، السنن،کتاب القسامة، باب تعظيم قتل المعاهد، 8 : 24، رقم : 4747

2. أبو داود، السنن، کتاب الجهاد، باب في الوفاء للمعاهد وحرمة ذمته، 3 : 83، رقم : 2760 

3. أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 36، 38، رقم : 20393، 20419

4. دارمي، السنن، 2 : 308، رقم : 2504

5. حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 2 : 154، رقم : 2631


امام حاکم نے فرمایا : یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔


’’جو مسلمان کسی غیر مسلم شہری (معاہد) (2) کو ناحق قتل کرے گا اللہ تعالیٰ اُس پر جنت حرام فرما دے گا۔‘‘


(2) حدیث میں معاہد کا لفظ استعمال کیا گیا جس سے مراد ایسے شہری ہیں جو معاہدے کے تحت اسلامی ریاست کے باسی ہوں، یا ایسے گروہ اور قوم کے افراد ہیں جنہوں نے اسلامی ریاست کے ساتھ معاہدہء امن کیا ہو۔ اسی طرح جدید دور میں کسی بھی مسلم ریاست کے شہری ۔ جو اُس ریاست کے قانون کی پابندی کرتے ہوں اور آئین کو مانتے ہوں۔ معاہد کے زمرے میں آئیں گے۔ جیسے پاکستان کی غیر مسلم اقلیتیں جو آئین پاکستان کے تحت باقاعدہ شہری اور رجسٹرڈ ووٹر ہیں، پاکستان کے آئین و قانون کو پاکستان کی مسلم اکثریت کی طرح تسلیم کرتے ہیں یہ سب معاہد ہیں۔ نیزڈینیل پرل کی طرح ہرغیرملکی مسلم اورغیر مسلم صحافی,سفارت کار سیاح وغیرہ کی حفاظت بھی حکومت کافریضہ ہے جوحکومت کی اجازت سے ملک میں آئے ہیں.کسی بھی غیرمسلم کو صرف اس بناپر قتل یااغواکرلیناہرگزجائز نہیں کہ وہ غیرمسلم یہودی یاامریکی ہے۔ (ملاحظہ ہو : فیض القدیر للمناوی، 6 : 153)


2۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :


مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا لَمْ يَرِحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ رِيْحَهَا تُوْجَدُ مِنْ مَسِيْرَةِ أَرْبَعِيْنَ عَامًا.


1. بخاري، الصحيح، کتاب الجزية، باب إثم من قتل معاهدا بغير جرم، 3 : 1155، رقم : 2995

2. ابن ماجه، السنن، کتاب الديات، باب من قتل معاهدا، 2 : 896، رقم : 2686

3. بزار، المسند، 6 : 368، رقم : 2383


’’جس نے کسی غیر مسلم شہری (معاہد) کو قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھے گا حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت تک محسوس ہوتی ہے۔‘‘


گویا کسی غیر مسلم کا ناحق قتل کرنے والا جنت کے قریب بھی نہیں جا سکے گا بلکہ اسے جنت سے چالیس برس کی مسافت سے بھی دور رکھا جائے گا۔

علامہ انورشاہ کشمیری کی تشریح


علامہ انور شاہ کشمیری فیض الباری میں اس حدیث کی شرح بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :


قَوْلُه صلی الله عليه وآله وسلم : ’’مَنْ قَتَل مُعَاهَدًا لَمْ يَرِحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ‘‘ وَمُخُّ الْحَدِيْثِ : إِنَّکَ أَيُهَا الْمُخَاطَبُ قَدْ عَلِمْتَ مَا فِيْ قَتْلِ الْمُسْلِمِ مِنَ الْإِثْمِ، فَإِنَّ شَنَاعَتَه بَلَغَتْ مَبْلَغَ الْکُفْرِ، حَيْثُ أَوْجَبَ التَّخْلِيْدَ. أَمَّا قَتْلُ مُعَاهَدٍ، فَأَيْضًا لَيْسَ بِهَيِّنٍ، فَإِنَّ قَاتِلَهِ أَيْضًا لَا يَجِدُ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ.


انور شاہ کشمیری، فیض الباری علی صحیح البخاری، 4 : 288


’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے : ’’جس نے کسی غیر مسلم شہری کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھے گا۔‘‘ اے مخاطب! حدیث کا لبِ لباب تجھے قتلِ مسلم کے گناہ کی سنگینی بتا رہا ہے کہ اس کی قباحت کفر تک پہنچا دیتی ہے جو جہنم میں خلود کا باعث بنتا ہے، جبکہ غیر مسلم شہری کو قتل کرنا بھی کوئی معمولی گناہ نہیں ہے۔ اسی طرح اس کا قاتل بھی جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا (جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جہنم میں ڈالا جائے گا)۔‘‘


غیرمسلم سفارت کار کی حفاظت واجب ہے


2۔ غیر مسلم سفارت کاروں کے قتل کی ممانعت

اسلام قومی اور بین الاقوامی معاملات میں امن و رواداری کا درس دیتا ہے۔ قرآن و حدیث کی تعلیمات کے مطابق بدترین دشمن قوم کا سفارت کار بھی اگر سفارت کاری کے لیے آئے تو اس کا قتل حرام ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کئی مواقع پر غیر مسلموں کے نمائندے آئے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے ہمیشہ خود بھی حسنِ سلوک فرمایا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی یہی تعلیم دی۔ حتیٰ کہ نبوت کے جھوٹے دعوے دار مسیلمہ کذاب کے نمائندے آئے جنہوں نے صریحاً اعتراف ارتداد کیا تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے سفارت کار ہونے کے باعث ان سے حسن سلوک سے پیش آئے۔


حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :


إِنِّي کُنْتُ عِنْدَ رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم جَالِساً إِذْ دَخَلَ هَذَا (عَبْدُ اﷲِ بْنُ نُوَاحَةَ) وَرَجُلٌ وَافِدَيْنِ مِنْ عِنْدِ مُسَيْلَمَةَ. فَقَالَ لَهُمَا رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَتَشْهَدَانِ أَنِّي رَسُولُ اﷲِ؟ فَقَالاَ لَهُ : نَشْهَدُ أَنَّ مُسَيْلَمَةَ رَسُولُ اﷲِ، فَقَالَ : آمَنْتُ بِاﷲِ وَرُسُلِهِ، لَوْ کُنْتُ قَاتِلاً وَافِداً لَقَتَلْتُکُمَا.


1. دارمی، السنن، 2 : 307، رقم : 2503

2. أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 404، رقم : 3837

3. نسائی، السنن الکبری، 5 : 205، رقم : 8675

4. أبو يعلی، المسند، 9 : 31، رقم : 5097

5. حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 3 : 54، رقم : 4378


’’میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا جب یہ شخص (عبد اللہ بن نواحہ) اور ایک اور آدمی مسیلمہ (کذاب) کی طرف سے سفارت کار بن کر آئے تو انہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم دونوں اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں؟ انہوں نے (اپنے کفر و ارتداد پر اصرار کرتے ہوئے) کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ مسیلمہ اللہ کا رسول ہے۔ (معاذ اﷲ) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (کمال برداشت اور تحمل کی مثال قائم فرماتے ہوئے ارشاد) فرمایا : میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتا ہوں۔ اگر میں سفارت کاروں کو قتل کرنے والا ہوتا تو تم دونوں کو قتل کر دیتا (مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا نہ کیا اور انہیں جان کی سلامتی دی)۔‘‘


 بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مسیلمہ کذاب کے پیروکاروں کے اعلانیہ کفر و ارتداد کے باوجود تحمل سے کام لیا گیا، کسی قسم کی سزا نہیں دی گئی، نہ انہیں قید کیا گیا اور نہ ہی انہیں قتل کرنے کا حکم فرمایا گیا۔ صرف اس لیے کہ وہ سفارت کار (diplomats) تھے۔ مسند احمد بن حنبل،(1) مصنف عبد الرزاق(2) اور مسند بزار(3) میں رَسُوْلاً کا لفظ آیا ہے یعنی اکیلا سفارت کار ہو یا سفارتی عملہ ہو، ہر دو صورتوں میں ان کا قتل جائز نہیں ہے۔


(1) أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 390، 396، رقم : 3708، 3761

(2) عبد الرزاق، المصنف، 10 : 196، رقم : 18708

(3) بزار، المسند، 5 : 142، رقم : 1733


حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مندرجہ بالا ارشاد اور آپ کے عمل مبارک سے یہ امر پایۂ ثبوت کو پہنچ گیا کہ غیر ملکی نمائندوں اور سفارت کاروں کی جان کی حفاظت کرنا سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا :


فَجَرَتْ سُنَّة أَنْ لَا يُقْتَلَ الرَّسُولُ.


أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 390، رقم : 3708


’’(اِس عمل سے) سنت جاری ہوگئی کہ سفارت کار کو قتل نہ کیا جائے۔‘‘


گویا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس جملے نے سفارت کاروں کے احترام کا بین الاقوامی قانون وضع فرما دیا۔ اس حکم سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ وہ تمام عملہ جو کسی embassy میں سفارت کاری پر تعینات ہو اسی حسن سلوک کا حق دار ہے اور اس کا قتل بھی از روئے حدیث حرام ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان کے شورش زدہ علاقوں میں غیر ملکی صحافی, سفارت کار اور انجینئرز کے اغوا اور قتل کے متعدد واقعات رُونما ہو چکے ہیں جن کی ذمہ داری دہشت گرد قبول کرتے رہے ہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ان تعلیمات سے صریحاً انحراف برتنے کے باوجود خود کو ’’مجاہدین اسلام‘‘ سمجھتے ہیں!


3۔ غیر مسلم مذہبی رہنماؤں کے قتل کی ممانعت

جس طرح غیر مسلم سفارت کاروں کے قتل کو حرام قرار دیا گیا ہے اسی طرح غیر مسلموں کے مذہبی رہنماؤں کے قتل کی بھی ممانعت کی گئی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنھما سے مروی ہے :


کَانَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم إِذَا بَعَثَ جُيُوشَهُ قَالَ : لَا تَغْدِرُوا وَلَا تَغُلُّوْا وَلَا تُمَثِّلُوْا وَلَا تَقْتُلُوا الْوِلْدَانَ وَلَا أَصْحَابَ الصَّوَامِعِ.


1. أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 330، رقم : 2728

2. ابن أبی شيبة، المصنف، 6 : 484، رقم : 33132

3. أبو يعلی، المسند، 4 : 422، رقم : 2549

4. ابن رشد، بداية المجتهد، 1 : 281


’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اپنے لشکروں کو روانہ کرتے تو حکم فرماتے : غداری نہ کرنا، دھوکا نہ دینا، نعشوں کی بے حرمتی نہ کرنا اور بچوں اور پادریوں کو قتل نہ کرنا۔‘‘


مندرجہ بالا حدیث مبارکہ سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ کسی بھی قوم کے مذہبی رہنماؤں کا قتل عام حالات کے علاوہ دورانِ جنگ بھی جائز نہیں ہے۔


مسلم اور غیر مسلم کا قصاص اور دیت برابر ہے


اسلام نے کسی بھی شخص (مسلم یا غیر مسلم) کو ناحق قتل کرنے والے قاتل پر قصاص لازم کیا ہے۔ جبکہ قتل خطاء یعنی غلطی سے قتل ہو جانے کی صورت میں دیت (monetary compensation) کی ادائیگی کو واجب قرار دیا ہے۔


1۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :


وَلَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَيٰوة يّٰاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَo


البقرة، 2 : 179


’’اور تمہارے لیے قصاص (یعنی خون کا بدلہ لینے) میں ہی زندگی (کی ضمانت) ہے اے عقلمند لوگو! تاکہ تم (خونریزی اور بربادی سے) بچوo‘‘


2۔ قتل خطاء کے بارے میں ارشاد ربانی ہے :


مَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأ فَتَحْرِيْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَّدِيَة مُّسَلَّمَة اِلٰی اَهْلِه اِلَّآ اَنْ يَصَّدَّقُوْا.


النساء، 4 : 92


’’جس نے کسی مسلمان کو نادانستہ قتل کر دیا تو (اس پر) ایک مسلمان غلام یا باندی کا آزاد کرنا اور خون بہا (کا ادا کرنا) جو مقتول کے گھر والوں کے سپرد کیا جائے (لازم ہے) مگر یہ کہ وہ معاف کر دیں۔‘‘


پہلی آیت مبارکہ میں حکم قصاص یعنی قاتل کو جرمِ قتل کی سزا میں قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس پر پوری امت کا اجماع ہے کہ قاتل (ناحق قتل کرنے والے) کو قصاص میں قتل کیا جائے سوائے اس کے کہ مقتول کے ورثا قاتل کو معاف کر دیں۔


دوسری آیت میں دیت کا ذکر ہے۔ اگر قتلِ خطا ہو جائے یعنی غیر ارادی طور پر غلطی سے کوئی شخص کسی کو قتل کر دے تو قاتل پر دیت (خون بہا؛ monetary compensation) لازم ہوگی۔


1۔ حضرت عبد الرحمن بن بیلمانی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :


أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ قَتَلَ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْکِتَابِ، فَرُفِعَ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَنَا أَحَقُّ مَنْ وَفَی بِذِمَّتِهِ، ثُمَّ أَمَرَ بِهِ فَقُتِلَ.


1. شافعي، المسند : 343

2. أبو نعيم، مسند أبي حنيفة : 104

3. شيباني، المبسوط، 4 : 488

4. بيهقي، السنن الکبری، 8 : 30، رقم : 15696


’’ایک مسلمان نے اہل کتاب میں سے ایک آدمی کو قتل کر دیا، وہ مقدمہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں غیر مسلم شہریوں کے حقوق ادا کرنے کا سب سے زیادہ ذمہ دار ہوں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (بطورِ قصاص مسلمان قاتل کو قتل کیے جانے کا) حکم دیا اور اُسے قتل کر دیا گیا۔‘‘


2۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قصاص اور دیت کی یوں وضاحت فرمائی :


مَنْ أُصِيبَ بِقَتْلٍ أَوْ خَبْلٍ، فَإِنَّهُ يَخْتَارُ إِحْدَی ثَلَاثٍ : إِمَّا أَنْ يَقْتَصَّ، وَإِمَّا أَنْ يَعْفُوَ، وَإِمَّا أَنْ يَأْخُذَ الدِّيَةَ. فَإِنْ أَرَادَ الرَّابِعَةَ فَخُذُوا عَلَی يَدَيْهِ ﴿فَمَنِ اعْتَدٰی بَعْدَ ذٰلِکَ فَلَه عَذَابٌ أَلِيْمٌ﴾.


1. أبو داود، السنن، کتاب الدية، باب الإِمام يأمر بالعفو فی الدمِ، 4 : 169، رقم : 4496

2. عبد الرزاق، المصنف، 10 : 86، رقم : 18454


’’جس کا کوئی عزیز قتل کر دیا جائے یا اس کا کوئی عضو کاٹ دیا جائے تو اسے تین میں سے ایک چیز کا اختیار ہے : چاہے قصاص لے، چاہے معاف کر دے اور چاہے تو دیت وصول کرلے۔ اگر وہ کسی چوتھی چیز کا ارادہ کرے تو اس کے ہاتھ پکڑ لو (اور جو اس کے بعد بھی زیادتی کرے تو اس کے لئے دردناک عذاب ہے)۔‘‘


ان احادیث مبارکہ کے عمومی بیان سے معلوم ہوا کہ اسلام نے مسلمانوں کی طرح غیر مسلموں کو بھی قصاص اور دیت میں مسلمانوں کے برابر حیثیت دی ہے۔


ایک روایت کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :


إِذَا قَتَلَ الْمُسْلِمُ النَّصْرَانِيَّ قُتِلَ بِهِ.


1. شيبانی، الحجة، 4 : 349

2. شافعی، الأم، 7 : 320


’’اگر کسی مسلمان نے عیسائی کو قتل کیا تو وہ مسلمان قصاصاً قتل کیا جائے گا۔‘‘


حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غیرمسلموں کو دیت (monetary compensation) میں مساوی حقوق دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے :


دِيَة الْيَهُوْدِيِّ وَالنَّصْرَانِيِّ وَکُلِّ ذِمِّیٍّ مِثْلُ دِيَةِ الْمُسْلِمِ.


1. عبد الرزاق، المصنف، 10 : 97 - 98

2. ابن رشد، بداية المجتهد، 2 : 310


’’یہودی، عیسائی اور ہر غیر مسلم شہری کی دیت مسلمان کی دیت کے برابر ہے۔‘‘


امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا ارشاد:


دِيَة الْيَهُوْدِيِّ وَالنَّصْرَانِيِّ وَالْمَجُوْسِيِّ مِثْلُ دِيَةِ الْحُرِّ الْمُسْلِمِ.


1. ابن أبی شيبة، المصنف، 5 : 407، رقم : 27448

2. عبد الرزاق، المصنف، 10 : 95، 97، 99


’’(پرامن) یہودی، عیسائی اور مجوسی کی دیت آزاد مسلمان کی دیت کے برابر ہے۔‘‘


امام ابن شہاب زہری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :


إِنَّ دِيَةَ الْمُعَاهَدِ فِيْ عَهْدِ أَبِيْ بَکْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ رضی الله عنهم مِثْلُ دِيَةِ الْحُرِّ الْمُسْلِمِ.


1. شيبانی، الحجة، 4 : 351

2. شافعی، الأم، 7 : 321


’’بے شک سیدنا ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے اَدوار میں غیر مسلم شہری کی دیت آزاد مسلمان کی دیت کے برابر تھی۔‘‘


احناف کا مسلک


احناف کا موقف یہ ہے کہ مسلمان کو غیر مسلم شہری کے قتل کے بدلہ میں قتل کیا جائے گا اور یہ کتاب و سنت کی اُن نصوص کے عموم کی وجہ سے ہے جو قصاص کو واجب کرتی ہیں اور دونوں (مسلمان اور غیر مسلم شہری) کے خون کی دائمی عصمت میں برابر ہونے کی وجہ سے اور اس موقف پر امام نخعی، ابن ابی لیلیٰ، شعبی اور عثمان البتی نے بھی احناف کی موافقت اختیار کی ہے۔


یہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درج ذیل فرمان اقدس سے ایک اِشکال وارد ہو سکتا ہے :


وَلَا يُقْتَلُ مُسْلِمٌ بِکَافِرٍ.


بخاری، الصحيح، کتاب العلم، باب کتابة العلم، 1 : 53، رقم : 111


’’اور غیر مسلم کے بدلے مسلمان کو قتل نہیں کیا جائے گا۔‘‘


سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کا مطلب کیا ہوا؟ ائمہ کرام نے اِس کی وضاحت یوں کی ہے کہ یہاں غیر مسلم سے مراد پُر امن شہری نہیں بلکہ صرف حربی (جنگجو) غیر مسلم مراد ہے جو میدانِ جنگ میں لڑتے ہوئے مارا جاتا ہے، اس پر کوئی قصاص نہیں ہو گا۔ یہ قانون دنیا کے تمام ممالک کے قوانینِ جنگ میں یکساں ہے، اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں۔


امام ابوبکرجصاص کی وضاحت


’’اس حدیث مبارکہ میں غیر مسلم سے مراد صرف حربی غیر مسلم ہے، اسلامی ریاست کی شہریت رکھنے والا غیر مسلم یا غیر اِسلامی ریاست کا پُرامن غیر مسلم مراد نہیں ہے۔ یہ تطبیق متفقہ ہے۔‘‘


جصاص، أحکام القرآن، باب قتل المسلم الکافر : 140 - 144


 کسی غیر مسلم کے ظلم کا بدلہ دوسروں سے لینے کی ممانعت


قرآن و حدیث کے مطابق ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے۔ جس نے ظلم کیا حسبِ دستور بدلہ اور سزا کا وہی مستحق ہے، اس کے بدلے میں کوئی دوسرا نہیں۔ اس کے جرم کی سزا اس کے اہل و عیال، دوستوں یا اس کی قوم کے دیگر افراد کو نہیں دی جاسکتی۔ ارشادِ ربانی ہے :


وَلَا تَکْسِبُ کُلُّ نَفْسٍ اِلَّا عَلَيْهَاج وَلَا تَزِرُ وَازِرَة وِّزْرَ اُخْرٰيج ثُمَّ اِلٰی رَبِّکُمْ مَّرْجِعُکُمْ فَيُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَo


الأنعام، 6 : 164


’’اور ہر شخص جو بھی (گناہ) کرتا ہے (اس کا وبال) اسی پر ہوتا ہے اور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ پھر تمہیں اپنے رب ہی کی طرف لوٹنا ہے پھر وہ تمہیں ان (باتوں کی حقیقت) سے آگاہ فرما دے گا جن میں تم اختلاف کیا کرتے تھےo‘‘


اسلام اس امر کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ پر امن شہریوں کو دوسرے ظالم افراد کے ظلم کے عوض سزا دے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :


لَا يُؤْخَذُ مِنْهُمْ رَجُلٌ بِظُلْمٍ آخَرَ.


1. أبو يوسف، الخراج : 78

2. بلاذری، فتوح البلدان : 90


’’کسی امن پسند غیر مسلم شہری کو دوسرے غیر مسلم افراد کے ظلم کے عوض کوئی سزا نہیں دی جائے گی۔‘‘


لہٰذا ایسے دہشت گرد افراد جو انتقاماً مخالف قوم کے افراد کو قتل کریں، ان کا مال لوٹیں اور ان کی املاک تباہ کریں، وہ صریحاً قرآنی آیات اور ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کرنے والے ہیں۔


غیرمسلموں کی جان مال کی حفاظت اسلامی ریاست کافریضہ


6۔ غیر مسلم شہریوں کا مال لوٹنے کی ممانعت

اسلام نے دوسروں کا مال لوٹنا بھی حرام قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :


وَلَا تَاْکُلُوْآ اَمْوَالَکُمْ بَيْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِهَآ اِلَی الْحُکَّامِ لِتَاْکُلُوْا فَرِيْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo


’’اور تم ایک دوسرے کے مال آپس میں ناحق نہ کھایا کرو اور نہ مال کو (بطورِ رشوت) حاکموں تک پہنچایا کرو کہ یوں لوگوں کے مال کا کچھ حصہ تم (بھی) ناجائز طریقے سے کھا سکو حالاں کہ تمہارے علم میں ہو (کہ یہ گناہ ہے)o‘‘


حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی دوسروں کے مال کو لوٹنا حرام قرار دیا ہے۔


إِنَّ دِمَاءَ کُمْ وَأَمْوَالَکُمْ عَلَيْکُمْ حَرَامٌ.


بخاري، الصحيح، کتاب الحج، باب الخطبة أيام منی، 2 : 620، رقم : 1654


’’بے شک تمہارے خون اور تمہارے مال تم پر حرام ہیں۔‘‘


غیر مسلم شہریوں کی جانوں کی طرح ان کے اموال کی حفاطت بھی اسلامی ریاست پر لازم ہے۔ ہر دور میں جمیع مسلمانوں کا اس پر اجماع رہا ہے۔


امام ابو عبید قاسم بن سلام، ابن زنجویہ، ابن سعد اور امام ابو یوسف نے نجران کے عیسائیوں کے ساتھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معاہدے کی یہ شق نقل کی ہے :


ولنجران وحاشيتها جوار اﷲ وذمة محمد رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، علی أَموالهم وأنفسهم وأرضهم وملتهم، وغائبهم وشاهدهم، وعشيرتهم وبيعهم، وکل ما تحت أيديهم من قليل أو کثير.


1. أبو يوسف، کتاب الخراج : 78

2. أبو عبيد قاسم، کتاب الأموال : 244، 245، رقم : 503

3. ابن سعد، الطبقات الکبری، 1 : 288، 358

4. ابن زنجويه، کتاب الأموال : 449، 450، رقم : 732

5. بلاذري، فتوح البلدان : 90


’’اللہ اور اﷲ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہلِ نجران اور ان کے حلیفوں کے لیے ان کے مالوں، ان کی جانوں، ان کی زمینوں، ان کے دین، ان کے غیر موجود و موجود افراد، ان کے خاندان کے افراد، ان کی عبادت گاہوں اور جو کچھ بھی ان کے ہاتھوں میں ہے، تھوڑا یا زیادہ، ہر شے کی حفاظت کے ضامن اور ذمہ دار ہیں۔‘‘


حضرت عمرص نے شام کے گورنر حضرت ابو عبیدہص کو جو فرمان لکھاتھا اس میں من جملہ دیگر احکام کے یہ بھی درج تھا :


وَامْنَعِ الْمُسْلِمِيْنَ مِنْ ظُلْمِهِمْ وَالْإِضْرَارِ بِهِمْ وَأَکْلِ أَمْوَالِهِمْ إِلَّا بِحِلِّهَا.


 أبو يوسف، کتاب الخراج : 152


’’(تم بحیثیت گورنر شام) مسلمانوں کو ان غیر مسلم شہریوں پر ظلم کرنے، انہیں ضرر پہنچانے اور ناجائز طریقہ سے ان کا مال کھانے سے سختی کے ساتھ منع کرو۔‘‘


حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا :


إنما بذلوا الجزية لتکون دماؤهم کدمائنا وأموالهم کأموالنا.


1. ابن قدامه، المغنی، 9 : 181

2. زيلعی، نصب الراية، 3 : 381


’’غیر مسلم شہری ٹیکس اس لئے ادا کرتے ہیں کہ ان کے خون ہمارے خون کی طرح اور ان کے مال ہمارے اَموال کے برابر محفوظ ہو جائیں۔‘‘


اسلامی ریاست میں غیر مسلم شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کا اس قدر اہتمام کیا گیا ہے کہ ان کے اموال کی حفاظت اتنی ہی ضروری ہے جتنی مسلمانوں کے اموال کی حتیٰ کہ اگر کوئی مسلمان ان کی شراب یا خنزیر کو تلف کر دے تو اس پر بھی جرمانہ لازم آئے گا۔


فقہ حنفی کی مشہور کتاب ’’الدر المختار‘‘ میں ہے :


وَيَضْمَنُ الْمُسْلِمُ قِيْمَةَ خَمْرِهِ وَخِنْزِيْرِهِ إِذَا أَتْلَفَهُ.


1. حصکفی، الدرالمختار، 2 : 223

2. شامی، رد المحتار، 3 : 273


’’غیر مسلم شہری کی شراب اور اس کے خنزیر کو تلف کرنے کی صورت میں مسلمان اس کی قیمت بطور تاوان ادا کرے گا۔‘‘


غیر مسلم شہری کا مال چرانے والے پر بھی اسلامی حد کا نفاذ ہوگا

اسلام نے مال کی چوری کو حرام قرار دیا ہے اور اس پر نہایت سخت سزا مقرر کی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں قریش کی ایک مخزومی عورت نے چوری کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر حد جاری کرنے کا حکم فرمایا۔ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کی سفارش کرنا چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو اُس پر بھی حد جاری کی جاتی.


1. بخاری، الصحيح، کتاب الانبياء، باب حديث الغار، 3 : 1282، رقم : 3288

2. مسلم، الصحيح، کتاب الحدود، باب قطع السارق الشريف وغيره والنهی عن الشفاعة فی الحدود، 3 : 1315، رقم : 1688


1۔ امام نووی شرح صحیح مسلم میں لکھتے ہیں :


فإن مال الذمی والمعاهد والمرتد فی هذا کمال المسلم.


نووی، شرح صحيح مسلم، 12 : 7


’’یقینا غیر مسلم شہری، معاہد اور مرتد کا مال بھی اس اعتبار سے مسلمان کے مال ہی کی طرح ہے۔‘‘


2۔ امام ابن قدامہ حنبلی نے کہا ہے کہ غیر مسلم شہری کا مال چوری کرنے والے پر اُسی طرح حد عائد ہوگی جس طرح مسلمان کا مال چوری کرنے والے پر ہوتی ہے۔


ابن قدامه، المغنی، 9 : 112


3۔ علامہ ابن حزم بیان کرتے ہیں کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ غیر مسلم شہری کا مال چوری کرنے پر بھی مسلمان پر حد جاری کی جائے گی۔


ابن حزم، المحلی، 10 : 351


4۔ علامہ ابن رشد کہتے ہیں کہ اس پر اجماع ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی غیر مسلم شہری کا مال چرائے تو اس پر حد جاری کی جائے گی۔


ابن رشد، بداية المجتهد، 2 : 299


مال کے حکمِ حفاظت میں بھی مسلم اور غیر مسلم شہری برابر ہیں۔ اگر کسی مسلمان نے غیر مسلم شہری کا مال چوری کیا تو اس پر حد نافذ ہوگی اور اگر کسی نے غیر مسلم شہری کا مال غصب کیا تو اس پر تعزیر نافذ ہوگی۔ اسلام میں غیر مسلم شہریوں کے اَموال کی حفاظت کا اس قدر لحاظ رکھا گیا ہے کہ غیر مسلم شہریوں کی ہر اس چیز کی حفاظت کی جائے گی جسے وہ مال میں شمار کرتے ہوں اگرچہ مسلمانوں کے نزدیک وہ مال کے زمرے میں نہ آتی ہو۔ جیسا کہ شراب اور خنزیر مسلمانوں کے لیے قابلِ حیثیت مال نہیں۔ لہٰذا اگر کوئی شخص مسلمان کی شراب ضائع کر دے تو اس پر کوئی سزا اور تعزیر نہیں ہے۔ اس کے برعکس اگر کسی مسلمان نے غیر مسلم کی شراب اور خنزیر کو نقصان پہنچایا تو اس سے ان کی قیمت تاوان کے طور پر لی جائے گی کیونکہ یہ دونوں چیزیں اس غیر مسلم کے نزدیک مال متصور ہوتی ہیں۔


غیر مسلم شہریوں کی تذلیل کی ممانعت


اسلام میں جیسے مسلمان کی عزت و آبرو کی تذلیل حرام ہے ویسے ہی غیر مسلم شہری کی عزت کو پامال کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ کسی مسلمان کو اجازت نہیں کہ وہ کسی غیر مسلم شہری کو گالی گلوچ کرے، اس پر تہمت لگائے، اس کی طرف جھوٹی بات منسوب کرے یا اس کی غیبت کرے۔ اسلام کسی مسلمان کو اس امر کی بھی اجازت نہیں دیتا کہ وہ کسی غیر مسلم شہری کے ایسے عیب کا تذکرہ کرے جس کا تعلق اس کی ذات، اس کے حسب و نسب یا اس کے جسمانی و اخلاقی عیب سے ہو۔


ایک دفعہ گورنرِ مصر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے بیٹے نے ایک غیر مسلم کو ناحق سزا دی۔ خلیفۂ وقت امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جب اس کی شکایت کی گئی تو اُنہوں نے سرعام گورنر مصر کے بیٹے کو اس غیر مسلم مصری سے سزا دلوائی اور ساتھ ہی وہ تاریخی جملہ ادا فرمایا جو بعض محققین کے نزدیک انقلابِ فرانس کی جد و جہد میں روحِ رواں بنا۔ آپ نے گورنر مصر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے بیٹے سے فرمایا :


مَتَی اسْتَعْبَدْتُمُ النَّاسَ وَقَدْ وَلَدَتْهُمْ أُمَّهَاتُهُمْ أَحْرَارًا؟


هندی، کنز العمال، 2 : 455


’’تم نے کب سے لوگوں کو اپنا غلام سمجھ لیا ہے حالانکہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جنا تھا؟‘‘


غیر مسلم شہری کو زبان یا ہاتھ پاؤں سے تکلیف پہنچانا، اس کو گالی دینا، مارنا پیٹنا یا اس کی غیبت کرنا اسی طرح ناجائز اور حرام ہے جس طرح مسلمان کے حق میں ناجائز اور حرام ہے۔ ’’الدر المختار‘‘ میں یہ اصول بیان ہوا ہے کہ :


وَيَجِبُ کَفُّ الْأَذَی عَنْهُ وَتَحْرُمُ غِيبَتُهُ کَالْمُسْلِمِ.


1. حصکفی، الدر المختار، 2 : 223

2. ابن عابدين شامی، رد المحتار، 3 : 273، 274


غیرمسلم شہریوں کواذیت سے بچانا اسلامی حکومت کا فریضہ


’’غیر مسلم کو اذیت سے محفوظ رکھنا واجب ہے اور اس کی غیبت کرنا بھی اسی طرح حرام ہے جس طرح مسلمان کی غیبت کرنا۔‘‘


غیر مسلم شہریوں کے حقوق کے بارے میں مالکی فقیہ امام شہاب الدین القرافی اپنی کتاب ’’الفروق‘‘ میں کہتے ہیں :


إن عقد الذمة يوجب لهم حقوقا علينا، لأنهم فی جوارنا وفی خفارتنا (حمايتنا) وذمتنا وذمة اﷲ تعالی، وذمة رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، ودين الإسلام، فمن اعتدی عليهم ولو بکلمة سوء أو غيبة، فقد ضيع ذمة اﷲ، وذمة رسوله صلی الله عليه وآله وسلم ، وذمة دين الإسلام.


قرافی، الفروق، 3 : 14


’’غیر مسلم شہری کا معاہدہ ہم پر ان کے حقوق ثابت کرتا ہے کیونکہ وہ ہمارے پڑوس میں، ہماری حفاظت میں، ہمارے ذمہ میں اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دینِ اسلام کی امان میں رہتے ہیں۔ پس جس نے ان پر زیادتی کی، چاہے بری بات سے ہو یا غیبت کے ذریعے ہی کی ہو، تو اس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دین اسلام کی ضمانت کو ضائع کیا (یعنی حق اور فرض ادا نہ کیا اور گناہ کا مرتکب ہوا)۔‘‘


علامہ ابنِ عابدین شامی غیر مسلم شہریوں کے حقوق کے بارے میں لکھتے ہیں :


لأنه بعقد الذمة وجب له ما لنا، فإذا حرمت غيبة المسلم حرمت غيبته، بل قالوا : إن ظلم الذمی أشد.


ابن عابدين شامی، رد المحتار، 3 : 273، 274


’’عقد ذمہ کی وجہ سے غیر مسلم کے وہی حقوق لازم ہیں جو ہمارے ہیں۔ جب مسلمان کی غیبت حرام ہے تو اس کی غیبت بھی حرام ہے بلکہ علماء نے کہا کہ غیر مسلم اقلیت پر ظلم کرنا مسلمان کے مقابلے میں بڑا سخت گناہ ہے۔‘‘


امام کاسانی نے اپنی کتاب ’’بدائع الصنائع‘‘ میں مسلموں اور غیر مسلموں کے حقوق کو مساوی قرار دیا ہے :


لهم ما لنا وعليهم ما علينا.


کاسانی، بدائع الصنائع، 7 : 111


مسلم اور غیرمسلم اسلامی ریاست میں برابر کے شہری


’’غیر مسلم شہریوں کو وہی حقوق حاصل ہیں جو ہمیں (مسلمانوں کو) حاصل ہیں اور ان کی وہی ذمہ داریاں ہیں جو ہماری ہیں۔‘‘


درج بالا آثار و اقوال سے ثابت ہوتا ہے کہ غیر مسلم شہریوں کی عزت و آبرو کی حفاظت کرنا تمام مسلمانوں پر واجب ہے۔


حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے مظلوم غیر مسلم شہری کی وکالت کا اعلان

حضور سرورِ کائنا ت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غیر مسلم شہریوں کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے۔ اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ غیر مسلم شہریوں کو ظلم و زیادتی سے تحفظ کی ضمانت دے۔ اگر اسلامی ریاست میں کسی غیر مسلم شہری پر ظلم ہو اور ریاست اسے انصاف نہ دلا سکے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیامت کے روز ایسے مظلوم لوگوں کا وکیل بن کر انہیں ان کا حق دلوانے کا اعلان فرمایا ہے۔


حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :


أَلَا مَنْ ظَلَمَ مُعَاهِدًا، أَوِ انْتَقَصَهُ، أَوْ کَلَّفَهُ فَوْقَ طَاقَتِهِ، أَوْ أَخَذَ مِنْهُ شَيْئًا بِغَيْرِ طِيْبِ نَفْسٍ، فَأَنَا حَجِيْجُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.


1. أبو داود، السنن، کتاب الخراج والفي والإمارة، باب في تعشير أهل الذمة إذا اختلفوا بالتجارات، 3 : 170، رقم : 3052

2. بيهقي، السنن الکبری، 9 : 205، رقم : 18511

3. منذري، الترغيب والترهيب، 4 : 7، رقم : 4558


4۔ عجلوني نے ’’کشف الخفاء (2 : 342)‘‘ میں کہا ہے کہ اِس حدیث کی سند حسن ہے۔


’’خبر دار! جس نے کسی غیر مسلم شہری پر ظلم کیا یا اُس کا حق مارا یا اس پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ ڈالا یا اُس کی دلی رضامندی کے بغیر کوئی چیز اُس سے چھین لی تو قیامت کے دن میں اُس کی طرف سے جھگڑا کروں گا۔‘‘


فرمانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان معاشرہ غیر مسلم شہریوں کے حقوق کے تحفظ کا ضامن بن جائے اور اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ہرگز تساہل نہ کرے۔


غیرمسلم شہریوں کاتحفظ


8۔ غیر مسلم شہریوں کا اندرونی و بیرونی جارحیت سے تحفظ

اسلامی قوانین کے مطابق ریاست کے فرائض میں سے ہے کہ وہ تمام غیر مسلم شہریوں کو ہر قسم کا تحفظ فراہم کرے۔ کوئی بھی فرد خواہ کسی قوم، مذہب یا ریاست سے تعلق رکھتا ہو اگر وہ کسی غیر مسلم شہری پر جارحیت کرے اور اس پر ظلم و تعدی کا مرتکب ہو تو ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ بلاامتیازِ مذہب اپنے شہری کو تحفظ فراہم کرے، چاہے اس سلسلے میں اسے جارحیت کرنے والے سے جنگ کرنی پڑے۔


ارشاد ربانی ہے :


وَاَخَذْنَا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا بِعَذَابٍم بَئِيْسٍم بِمَاکَانُوْا يَفْسُقُوْنَo


الأعراف، 7 : 165


’’اور ہم نے (بقیہ سب) لوگوں کو جو (عملاً یا سکوتاً) ظلم کرتے تھے نہایت برے عذاب میں پکڑ لیا اس وجہ سے کہ وہ نافرمانی کر رہے تھےo‘‘


قرآن مجید دوسروں پر ظلم کرنے پر سخت عذاب کی وعید سناتا ہے جبکہ حرام کا ارتکاب کرنے پر سخت ترین عذاب کی وعید سناتا ہے۔ پس دوسروں پر ظلم حرام ہے اگرچہ وہ اہل ذمہ یا ان کے علاوہ دوسرے لوگ ہی کیوں نہ ہوں۔


(1) غیر مسلم شہریوں کی اندرونی ظلم و تعدی سے حفاظت

غیر مسلم شہریوں کی اندرونی ظلم و زیادتی سے حفاظت کو بھی اسلام بڑی تاکید کے ساتھ لازم اور واجب قرار دیتا ہے۔ اسلام کسی مسلمان کے ہاتھوں غیر مسلم شہریوں کے ساتھ کسی قسم کی ظلم و زیادتی کو ہرگز برداشت نہیں کرتا خواہ اس ظلم و اذیت کا تعلق ہاتھ سے ہو یا زبان سے۔


ظلم کی قباحت و حرمت پر اور دنیا و آخرت میں اس کے دردناک انجام پر کثرت کے ساتھ آیات اور احادیث موجود ہیں، خاص طور پر غیر مسلم شہریوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کی ممانعت پر تو خصوصی ارشادات گرامی وارد ہوئے ہیں۔


سنن ابی داؤد میں مروی ایک حدیثِ مبارکہ پہلے بیان کی جا چکی ہے، جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روزِ قیامت مظلوم کی طرف سے وکیل ہونے کا علان فرمایا ہے۔ اسی مضمون کی ایک اور حدیث حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :


مَنْ آذی ذِمِّيًا فَأَنَا خَصْمه، وَمَنْ کُنْتُ خَصْمه خَصَمْتُه يَوْمَ الْقِيَامَة.


1۔ خطیب بغدادی نے اسے ’’تاریخ بغداد (8 : 370)‘‘ میں اسناد حسن کے ساتھ روایت کیا ہے۔


2. عينی، عمدة القاری، 15 : 89


’’جس نے کسی غیر مسلم شہری کو تکلیف پہنچائی تو میں اس کا وکیل ہوں گا اور جس کا میں فریق ہوں گا تو قیامت کے دن اس پر غالب آجاؤں گا۔‘‘


(2) غیر مسلم شہریوں کی بیرونی جارحیت سے حفاظت

غیر مسلم شہریوں کو بیرونی جارحیت سے بچانے کے حوالے سے حکومتِ وقت پر وہ سب کچھ واجب ہے جو مسلمانوں کے لئے اس پر لازم ہے۔ چونکہ حکومت کے پاس قانونی و سیاسی طور پر غلبہ و اقتدار بھی ہوتا ہے اور عسکری و فوجی قوت بھی، اس لئے اس پر لازم ہے کہ وہ ان کی مکمل حفاظت کا اہتمام کرے۔


1۔ امیر المؤمنین حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :


إنما بذلوا الجزية لتکون دماؤهم کدمائنا وأموالهم کأموالنا.


1. ابن قدامه، المغنی، 9 : 181

2. زيلعی، نصب الراية، 3 : 381


’’بے شک یہ غیر مسلم شہری اس لئے ٹیکس دیتے ہیں کہ ان کے مال ہمارے مال کی طرح اور ان کے خون ہمارے خون کی طرح محفوظ ہو جائیں۔‘‘


2۔ حنابلہ کی کتب میں سے ایک کتاب ’’مطالب اولی النہی‘‘ میں ہے :


’’حکومت کا فرض ہے کہ وہ غیر مسلم شہریوں کو مسلم ریاست میں رہنے کی وجہ سے ہر قسم کی اذیت و تکلیف سے مکمل تحفظ فراہم کرے۔‘‘


مصطفی بن سعد، مطالب أولی النهی، 2 : 602، 603


3۔ اگر اسلامی ریاست میں موجود غیر مسلم شہریوں پر کوئی باہر سے حملہ آور ہو اور انہیں پکڑنے، مارنے یا اذیت دینے کی کوشش کرے تو اس صورت میں اسلامی ریاست پر لازم ہے کہ ان کا تحفظ کرے۔ امام قرافی المالکی اپنی کتاب ’’الفروق‘‘ میں علامہ ابن حزم کا قول نقل کرتے ہیں جو انہوں نے اپنی کتاب ’’مراتب الاجماع‘‘ میں بیان کیا ہے کہ :


وجب علينا أن نخرج لقتالهم بالکراع والسلاح، ونموت دون ذلک.


قرافی، الفروق، 3 : 14، 15


’’ہماری اسلامی ریاست پر لازم ہے کہ وہ اسلحہ اور لشکر کے ساتھ غیر مسلم شہریوں کی حفاظت کے لیے جنگ کرے خواہ حملہ آوروں کے ساتھ لڑتے لڑتے اس کے کئی سپاہی جان ہی کیوں نہ دے بیٹھیں۔‘‘


علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا موقف


علامہ ابنِ تیمیہ کا مؤقف بھی یہی ہے۔ جب تاتاریوں نے ملک شام پر قبضہ کر لیا تو علامہ ابنِ تیمیہ قیدیوں کی رہائی کے لئے ’’قطلوشاہ‘‘ کے پاس گئے۔ تاتاری قیادت نے مسلمان قیدیوں کو رہا کرنے پر تو آمادگی ظاہر کی مگر غیر مسلم شہریوں کو چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ علامہ ابن تیمیہ نے کہا : ہم اس وقت تک راضی نہیں ہوں گے جب تک کہ یہود و نصاریٰ میں سے بھی تمام قیدی آزاد نہ کیے جائیں۔ وہ ہمارے ہی غیر مسلم شہری ہیں اور ہم کسی بھی قیدی کو قید کی حالت میں نہیں چھوڑیں گے خواہ وہ غیر مسلم آبادی سے تعلق رکھتا ہو یا مسلم آبادی سے۔ جب اس نے اپنے مؤقف پر ان کا اصرار اور شدت دیکھی تو ان کی خاطر تمام مسلم و غیر مسلم قیدیوں کو آزاد کر دیا۔


ابن تيمية، مجموع الفتاوٰی، 28 : 617، 618


آیات قرآنی، احادیث مقدّسہ اور فقہائے امت کے اقوال کی روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ کسی مسلمان کو یہ حق حاصل نہیں کہ کسی غیر مسلم شہری کو محض اس کے غیر مسلم ہونے کی بنا پر قتل کر دے یا اس کا مال لوٹے یا اس کی عزت پامال کرے۔ اسلام غیر مسلم شہریوں کو نہ صرف ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے بلکہ ان کی عبادت گاہوں کو بھی تحفظ فراہم کرتا ہے۔

رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے سامنے ان کے

 محبوب چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو بے دردی کے ساتھ قتل کرنے والا حبشی اسلام قبول کرنے کی غرض سے آیا تو آپ نے اس کے ساتھ کوئی برا سلوک نہیں کیا۔ حضرت عمررضي الله تعالى عنه نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جو دور جاہلیت میں ان کے برادر کے قتل میں ملوث تھا پھر وہ اسلام لے آیا تھا حضرت عمررضي الله تعالى عنه نے ان سے فرمایا ”خدا کی قسم میں تمہیں پسند نہیں کرتا“ اس نے کہا ”امیر المومنین! کیا اس کی وجہ سے میں اپنے حقوق سے محروم کیا جاؤں گا“ حضرت عمررضي الله تعالى عنه نے فرمایا ”نہیں“ اس شخص نے کہا ”تب تو کوئی حرج نہیں پسند اور محبت کی فکر تو عورتوں کو ہوتی ہے۔“


یہ حقیقت ہے کہ رسول اللہ کی سنت اور سیرت اور صحابہٴ کرام کی زندگی انسانیت کے احترام، اس کے حقوق کی حفاظت اور انسانیت پسندی کا اعلیٰ نمونہ ہے خود حضور صلى الله عليه وسلم لوگوں سے فرماتے تھے کہ ”اگر میں نے کسی پر ظلم کیا ہے تووہ اس کا بدلہ لے لے“(شمائل ترمذی) خلفاء راشدین بھی اسی نہج پر روبہ عمل رہے، 


دنیا کے سارے انصاف پسند اور تاریخ اقوام عالم پر گہری نظر رکھنے والے دانشور یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اسلام امن وشانتی کا مذہب ہے اسلام دین رحمت وفطرت ہے، اس کے فطری تقاضے ہمیشہ انسانیت کی حفاظت کرتے ہیں اسلام اپنے آغاز سے ہی سراپا رحمت ہے پیغمبر صلى الله عليه وسلم کے انوار اخلاق آپ کی سیرت طیبہ میں واضح طورپر نظر آتاہیں۔ فتح مکہ کے موقع پر آپ فاتحانہ مکہ میں داخل ہوئے .اس وقت آپ کے سامنے قیدیوں کا ایک ایسا گروہ بھی تھا جس نے ہر طرح سے آپ اور آپ کے جانثار صحابہ کو ظلم وستم کانشانہ بنایاتھا.  مسلمانوں پر تشدد کرنے والے بھی تھے، پھبتیاں کسنے والے بھی، قاتل بھی تھے اور ظالم بھی فتح مکہ کے دن وہ تمام اسیران اپنے متعلق فیصلے کے منتظر تھے لیکن چشم فلک نے دیکھا کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فقط انسانیت کے ناطے ان کے وہ تمام جرائم جو ناقابل عفو تھے معاف کردئیے اور یہ اعلان کردیا کہ جاؤ تم پر کوئی الزام نہیں؟ تم آزاد ہو۔ ظالموں کے لئے امن و امان کا دروازہ کھولنے اور  انسانوں کو بخشنا اور انہیں تحفظ فراہم کرنا اسلام کی تعلیم ہے۔  اسلام نے ایسے تمام راستوں کو بند کردیا جس سے انسانیت پر سنگین صورتحال کے پیدا ہونے کا خدشہ ہو۔ سنن ابوداؤد میں ہے کہ ”کسی مسلم کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے کو ڈرائے اور دھمکائے“ سنن ابوداؤد میں یہ حدیث بھی ہے ”جس نے اپنے انسانی بھائی کی طرف لوہے سے اشارہ کیا تو فرشتے اس وقت تک اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں جب تک وہ اپنی حرکت سے باز نہیں آجاتا۔“

انسانی تعلقات کی استواری اوراستحکام کا مکمل لحاظ اسلام نے کیا بھوک سے شکستہ حال لوگوں کو کھانا کھلانے، پیاسے کو پانی پلانے، بیماروں کی عیادت اوراس کی مزاج پرسی کا سبق دیا ہے مشکوٰة شریف کی روایت ہے کہ جس نے بھوکوں کو کھانا کھلایا، پیاسے کو پانی پلایا اور بیمار کی عیادت کی گویا اس نے اللہ کو کھلایا اللہ کو پلایا اور اللہ کی عیادت کی۔ اس میں مسلم اور غیرمسلم کی کوئی تحدید نہیں, یہ محض تلقین زبانی نہیں بلکہ اس پر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے عمل بھی کیا غیرمسلموں کے ساتھ رواداری، حسن سلوک اور حسن معاشرت کے بہتیرے نمونے ”سیرت رسول“ میں ملتے ہیں، غیرمسلموں کے ساتھ زبانی وعملی ہمدردی، خیرخواہی اور ان کے حقوق کا خاص خیال آنحضور صلى الله عليه وسلم کا معمول تھا۔ اکثر مواقع پر آپ صلى الله عليه وسلم نے غیرمسلموں کو مالی وجانی تعاون فراہم کیا اور یہ تعاون صرف انسانیت کے ناطے ہوا کرتا تھا۔

اولاد آدم کی تکریم اور عزت کا قرآنی اصول اس حوالے سے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ تمام بنی نوع انسان کی حرمت کے متعلق اسلام مساوی موقف رکھتا ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ”مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اللہ کے نزدیک سب سے اچھا وہ شخص ہے جو اس کنبے کے ساتھ اچھا سلوک کرے“ نبی صلى الله عليه وسلم کے پاک ارشادات میں سچے مومن اوراس کے ایمان کی ترقی کے حوالے سے یہ صراحت ملتی ہے کہ مومن ہمیشہ نیک کام میں ترقی کرتا ہے اور کرتا رہے گا جب تک وہ ناجائز اور حرام خون نہ بہائے اور جب وہ حرام خون بہاکر زمین میں فساد برپا کرے گا تو وہ تھک کر مایوس بیٹھ جائے گا بلکہ اس کی ترقی رک جائے گی (ابوداؤد) قرآن وحدیث میں ناجائز خونریزی کی سخت ممانعت آئی ہے اور جس جگہ خونریزی ناگزیر سمجھی گئی وہاں بھی انسانیت کی حفاظت ہی پیش نظر ہے۔ قرآن نے بڑی وضاحت کے ساتھ یہ اعلان کیا کہ" جس نے کسی جان کو قتل کیا نہ جان کے بدلے نہ زمین پر کسی مجرمانہ سورش کی بناء پر تو گویا اس نے سب لوگوں کوقتل کرڈالا "(المائدہ) قرآن کا یہ منشورہی اسلام کا اصل موقف ہے