https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 14 November 2023

معتوہ کی طلاق

 فقہائے حنفیہ کی تصریح کے مطابق’’معتوہ‘‘کی طلاق بھی واقع نہیں ہوتی، (الدرالمختار ۳/۲۴۳ )۔ ’’عتہ‘‘ کی وضاحت کرتے صاحبِ درمختار نے لکھاہے: ’’ھو اختلال فی العقل‘‘۔ علامہ شامی نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے البحرالرائق کے حوالے سے نقل کیاہے کہ مجنون اورمعتوہ کے درمیان فرق کے سلسلے میں سب سے بہتر بات یہ ہے کہ معتوہ وہ ہوتاہے جس کی سمجھ بوجھ کم ہو، اس کی گفتگو غیر مربوط ہو اوراس کی تدبیر فاسدہو، البتہ وہ گالی گلوچ اورمارپیٹ نہ کرتاہو، جبکہ مجنون کی علامات اس سے مختلف ہوتی ہیں۔شامی کے نقل کردہ الفاظ یہ ہیں:

وأحسن الاقوال فی الفرق بینہما أن المعتوہ ہوقلیل الفہم، المختلط الکلام ، الفاسد التدبیر،لکن لایضرب ولایشتم ،بخلاف المجنون ۔ (حاشیہ ابن عابدین علی الدرالمختار ج۳ص ۲۴۳

Thursday 9 November 2023

چارماہ سے کم کا حمل ضایع کرنا

 اگر حمل چار ماہ کا ہو جائے تو اسے ضائع کرنا کسی صورت میں جائز نہیں، اس لیے کہ حمل میں چار ماہ کی مدت کے بعد جان پڑجاتی ہے  اگر حمل چار ماہ سے کم کا ہو اور دین دار اورماہر ڈاکٹر یہ کہہ دے کہ بچہ کی پیدائش کی وجہ سے ماں کی جان کو یقینی یا غالب گمان کے مطابق خطرہ ہے یا ماں کی صحت حمل کاتحمل نہیں کرسکتی تو ایسی صورت میں اسقاط حمل کی گنجائش ہے۔ اگر معاشی خوف کی وجہ سے ہو تو اسقاط ناجائز ہے، اگر چہ حمل چار ماہ سے کم مدت کا ہو۔ اور شدید ضرورت نہ ہو تو چار ماہ سے کم مدت کا حمل بھی ساقط کرنا درست نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وقالوا: يباح إسقاط الولد قبل أربعة أشهر ولو بلا إذن الزوج.

(قوله: وقالوا إلخ) قال في النهر: بقي هل يباح الإسقاط بعد الحمل؟ نعم! يباح ما لم يتخلق منه شيء ولن يكون ذلك إلا بعد مائة وعشرين يوماً، وهذا يقتضي أنهم أرادوا بالتخليق نفخ الروح وإلا فهو غلط؛ لأن التخليق يتحقق بالمشاهدة قبل هذه المدة، كذا في الفتح. وإطلاقهم يفيد عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذكورة على إذن الزوج. وفي كراهة الخانية: ولا أقول بالحل إذ المحرم لو كسر بيض الصيد ضمنه؛ لأنه أصل الصيد، فلما كان يؤاخذ بالجزاء فلا أقل من أن يلحقها إثم هنا إذا سقط بغير عذرها اهـ قال ابن وهبان: ومن الأعذار أن ينقطع لبنها بعد ظهور الحمل وليس لأبي الصبي ما يستأجر به الظئر ويخاف هلاكه. ونقل عن الذخيرة لو أرادت الإلقاء قبل مضي زمن ينفخ فيه الروح هل يباح لها ذلك أم لا؟ اختلفوا فيه، وكان الفقيه علي بن موسى يقول: إنه يكره، فإن الماء بعدما وقع في الرحم مآله الحياة فيكون له حكم الحياة كما في بيضة صيد الحرم، ونحوه في الظهيرية قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة على حالة العذر، أو أنها لاتأثم إثم القتل اهـ. وبما في الذخيرة تبين أنهم ما أرادوا بالتحقيق إلا نفخ الروح، وأن قاضي خان مسبوق بما مر من التفقه، والله تعالى الموفق اهـ كلام النهر ح."

(3 / 176، مطلب فی اسقاط الحمل، باب نکاح الرقیق، ط: سعید)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"العلاج لإسقاط الولد إذا استبان خلقه کالشعر والظفر ونحوهما لایجوز، وإن کان غیر مستبین الخلق یجوز … امرأة مرضعة ظهربها حبل وانقطع لبنها، وتخاف علی ولدها الهلاک، ولیس لأبي هذا الولد سعة حتی یستأجر الظئر یباح لها أن تعالج في استنزال الدم مادام نطفة أو مضغة أو علقة لم یخلق له عضو وخلقه لایستبین إلا بعد مائة وعشرین یوماً أربعون نطفةً وأربعون علقةً وأربعون مضغةً، کذا في خزانة المفتیین، وهکذا في فتاوی قاضي خان".

(هندیة، کتاب الکراهیة، الباب الثامن عشر: في التداوي والمعالجات وفیه العزل وإسقاط الولد، ۵/ ۴۱۱-۴۱۲)

کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کو براہ راست دیکھا تھا

  اس بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور سے اختلاف چلا آرہا ہے، بعض صحابہ کی رائے یہ ہے کہ  حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو اپنی ان آنکھوں سے نہیں دیکھا ہے، ان کی دلیل قرآن کریم کی یہ آیت ہے۔ ﴿ لَاتُدْرِکُهُ الْاَبْصَارُ…﴾ کہ نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں، لیکن جمہور صحابہ اور تابعین کی رائے اور راحج قول یہی ہے کہ  حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جسمانی آنکھوں سے بھی اور دل کی آنکھوں سے بھی اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے، کیوں کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے رب کو دیکھا؟ تو  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ہاں!"رَأَیْتُ رَبِّيْ عَزَّ وَجَلَّ"۔ نیز طبرانی میں حضرت ابن عباس کا قول منقول ہے:"رَاٰهُ مَرَّتَیْنِ، مَـرَّةً بِقَلْبِه وَمَرَّةً بِبَصَرِهٖ " … کہ  حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا دل سےبھی  اور آنکھ سے بھی،  یہاں "مَرَّتَیْن" سے مراد دو مرتبہ دیکھنا نہیں ہے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ  حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دونوں طرح سے دیکھا، دل کی آنکھوں سے بھی اور سر کی آنکھوں سے بھی، علاوہ ازیں جب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے  پوچھا گیا کہ  حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو کیسے دیکھا؟ قرآن میں تو ہے ﴿ لَاتُدْرِکُهُ الْاَبْصَارُ ﴾ نگاہیں اس کا حاطہ نہیں کرسکتیں؟ تو حضرت ابن عباس   رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: "وَیْحَکَ ذَاکَ إذْا تَجَلّٰی بِنُوْرِ الَّذِيْ هو نُوْرُه"،تیرا بھلا ہو وہ تو اس طرح نگاہیں نہیں دیکھ سکتیں کہ اللہ تعالیٰ کا مکمل ادراک کریں، اس کا کامل احاطہ کریں۔

"عن عکرمة عن ابن عباس قال: راٰی محمد ربه، قلت: ألیس اللّٰه یقول: ﴿ لَا تُدْرِکُهُ الْاَبْصَارُ وَهُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ﴾؟ قال: ویحک ذاک إذا تجلی بنوره الذي هو نوره وقد راٰی ربه مرتین". (ترمذی)
 عبداللہ بن شقیق رحمہ اللہ کہتے ہیں: میں نے حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے کہا: اگر میں نے رسول اللہ  ﷺ کی زیارت کی ہوتی تو میں نے آپ  ﷺ سے ضرور پوچھا ہوتا ، انہوں نے پوچھا :تم رسول اللہ  ﷺ سے کیا بات پوچھتے ؟ میں نے کہا:  میں پوچھتاکہ کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا تھا ؟ تو حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے کہا : یہ بات تومیں نے آپ  ﷺ سے پوچھی تھی تو آپ نے فرمایا کہ میں نے (اپنی آنکھوں سے ) نور ( کے حجاب) کو دیکھا تھا۔

"عن عبداللّٰه بن شقیق قال: قلت لأبي ذر: لو رأیت رسول اللّٰه لسألته، فقال: عن أي شيءٍ کنت تسأله؟ قال: کنت أسأله هل رأیت ربك؟ قال أبو ذر: قد سألته، فقال: رأیت نوراً". (مسلم)
 معلوم ہوا کہ اس طرح دیکھنا کہ نگاہیں مکمل ادراک کریں جیسے جنت میں اللہ تعالیٰ نصیب کریں گے، ایسا دنیا میں کوئی نہیں دیکھ سکتا، ہاں فی الجملہ حق تعالیٰ شانہ کو دیکھنا ممکن ہے ،اور یہی رؤیت سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کو شبِ معراج میں میسر ہوئی، یہ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم   کی ایسی خصوصیت ہے جس میں آپ کا کوئی  شریک نہیں، لہٰذا اس صورت میں کوئی اختلاف نہیں رہا، تمام روایات میں بھی تطبیق ہو جاتی ہے۔

مروزی سے نقل کیا گیا ہے کہ میں نے امام احمد سے کہا: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں، وہ فرماتی ہیں کہ جوشخص یہ سمجھے کہ  محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا تو اس نے اللہ پر بڑا جھوٹ بولا ہے ، حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا کی اس حدیث پر لوگ بڑے شش وپنج میں ہیں، حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا  کی اس حدیث کا کس دلیل سے جواب دیا جائے؟ (اوپر روایات کی تطبیق سے یہ جواب مفہوم ہوگیا کہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کو کامل ادراک اور سارے علم کے ساتھ جان لینے کی نفی ہے) حضرت امام احمد رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ حضرت  عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کا جواب خود  حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد میں موجود ہے،  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے: ’’ رَئَیْتُ رَبِّیْ عَزَّوَجَلَّ‘‘۔
اوپر روایات اور تطبیق سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اللہ کے  رسول اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے، ہاں کامل ادراک کے ساتھ نہیں دیکھا، اس لیے کہ اس طرح کا دیدار دنیا میں ممکن نہیں، یہ دیدار اللہ تعالیٰ جنت میں کروائیں گے۔ البتہ فی الجملہ دیکھنے میں کوئی اشکال نہیں، اس طرح کا دیدار اللہ کے  رسول اللہ علیہ وسلم کواللہ نے کروایا، جمہور صحابہ اور تابعین کا یہی مذہب ہے، اورمحققین کا راحج  قول یہی ہے کہ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرکی آنکھوں سے اللہ کو دیکھا ہے۔ فق

Monday 6 November 2023

رثاء غزة

 ياغزة المقدسة يامزرعة النوابغة 

 يامشهد  الشوامخة يامهبط الملاحمة 

ياذروةاالمداين يازهرةالصبروالمرابط



Saturday 4 November 2023

احرام کی لنگی کا سلا ہواہونا

 احرام کی لنگی کا سلا ہوا نہ ہونا بہتر ہے ؛اس لیے بلا ضرورت ایسی لنگی کا استعمال نہ کرنا چاہیے ؛تاہم اگر کسی نے لنگی کے ایک کونے کو دوسرے سے باندھ دیا یا سلوالیا تو اس پر کوئی جزالازم نہ ہوگی۔ والأفضل أن لایکون فیہ خیاطة أصلاً وان زررأحدہما أوخللہ بخلال أومیل أو عقدہ بأن ربطہ بطرفہ الآخر أوشدہ علی نفسہ بحبل ونحوہ أساء ولا شئی علیہ․(غنیة الناسک:۷۱)

ارکان پورے ہونے پر خود حلق کرنا

  عمرہ اور حج کے ارکان سے فارغ ہونے کے بعد، احرام سے نکلنے کے لیے  خود بھی اپنے بال کاٹے اور مونڈے جاسکتے ہیں ،  اور کسی دوسرے احرام والے   جس کے ارکان مکمل ہوچکے ہوں  سے بھی   بال کٹوائے  اور منڈوائے  جا سکتے ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(أو حلق في حل بحج) في أيام النحر، فلو بعدها فدمان (أو عمرة) لاختصاص الحلق بالحرم (لا) دم (في معتمر) خرج (ثم رجع من حل) إلى الحرم (ثم قصر) وكذا الحاج إن رجع في أيام النحر وإلا فدم للتأخير»

(قوله أو حلق في حل بحج أو عمرة) أي يجب دم لو حلق للحج أو العمرة في الحل لتوقته بالمكان، وهذا عندهما خلافا للثاني."

(کتاب الحج باب الجنایات ج نمبر ۲ ص نمبر ۵۵۴،ایچ ایم سعید) 

لباب المناسک میں ہے:

"(واذا حلق ) أي المحرم  (راسه) اي راس نفسه (او راس غيره) أي ولو كان محرما (عند جواز التحلل) أي الخروج من الاحرام باداء افعال النسك ( لم يلزمه شيئ)"

(باب مناسک منی فصل فی الحلق و التقصیر ص نمبر ۳۲۴،مکتبہ امدادیہ

Wednesday 1 November 2023

ہیرے پر زکوٰۃ

 خالص ہیرا اور صرف ہیرے سے بنے ہوئے زیورات پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے، البتہ ہیرا یا اس کے زیورات تجارت کے لیے ہوں تو ان پر مال تجارت کی زکوٰۃ واجب ہوگی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 273):
"(لا زكاة في اللآلئ والجواهر) وإن ساوت ألفًا  اتفاقًا(إلا أن تكون للتجارة) والأصل أن ما عدا الحجرين والسوائم إنما يزكى بنية التجارة بشرط عدم المانع المؤدي إلى الثنى وشرط مقارنتها لعقد التجارة.
(قوله: والجواهر) كاللؤلؤ والياقوت والزمرد وأمثالها درر عن الكافي (قوله: وإن ساوت ألفًا) في نسخة ألوفًا (قوله: ما عدا الحجرين) هذا علم بالغلبة على الذهب والفضة ط وقوله: والسوائم بالنصب عطفا على الحجرين وما عدا ما ذكر كالجواهر والعقارات والمواشي العلوفة والعبيد والثياب والأمتعة ونحو ذلك من العروض (قوله: المؤدي إلى الثنى) هذا وصف في معنى العلة: أي لا زكاة فيما نواه للتجارة من نحو أرض عشرية أو خراجية لئلا يؤدي إلى تكرار الزكاة لأن العشر أو الخراج زكاة أيضا والثنى بكسر الثاء المثلثة وفتح النون في آخره ألف مقصورة: وهو أخذ الصدقة مرتين في عام كما في القاموس ومنه كما في المغرب قوله  صلى الله عليه وسلم: «لا ثنى في الصدقة

Tuesday 31 October 2023

طلا ق الغَضبانِ الذي غَيَّب الغَضَبُ عَقلَه

 

لا يقَعُ طَلاقُ الغَضبانِ الذي غَيَّب الغَضَبُ عَقلَه.
الدَّليلُ مِنَ الإجماعِ:
نَقَل الإجماعَ على ذلك: ابنُ تيميَّةَ، وابنُ القَيِّمِ، وابنُ عُثيمين ونقل ابنُ قُدامةَ والرحيبانيُّ الإجماعَ على أنَّ من زال عَقلُه بغيِر سُكرٍ لا يقَعُ طَلاقُه.
: قياسًا على المجنونِ

: لأنَّه كفاقِدِ العَقلِ لا يعي ما يقولُ

وقال علامة الحنفية الشيخ ابن عابدين في حاشيته المشهورة على ” الدر المختار ” بعد أن نقل كلام ابن القيم في تقسيم أحوال الغضب إلى ثلاثة، كما ذكره في رسالته في حكم طلاق الغضبان، ملخصًا من شرح الغاية في الفقه الحنبلي، ”

وقال 

(ابن نجيم الحنفی، في البحرالرائق، 3 : 268، (دارالمعرفة، بيروت


فالذی ينبغی التعويل عليه فی المدهوش ونحوه اناطةالحکم بغلبةالخلل فی أقواله وأفعاله الخارجةعن عادته، وکذايقال فيمن اختلّ عقله لکبرأولمريض أولمصيبةفاجأ ته فمادام فی حال غلبةالخلل فی الاقوال والافعال لاتعتبراقواله وان کان يعلمهاويريدهالأن هذه المعرفةوالارادةغيرمعتبرةلعدم حصولهاعن ادراک صحيح کمالاتعتبرمن الصبی العاقل.

وہکذا قال


ابن عابدين، فی ردالمحتار، 3: 244، (دارلفکرللطباعةوالنشر، بيروت، (سن اشاعت 1421ه

وفی الفتاوی الہندیہ المعروف ب

(عالمگيری 1: 353، (طبع کوئته

و

الکاسانی، بدائع الصنائع، 3: 100

و

(هدايه مع فتح القدير، 3: 343، (طبع سکهر

و

:عبدالرحمن الجزيری ’’الفقه علی المذاهب الاربعة‘‘


والتحقيق عندالحنفيةأن الغضبان الذی يخرجه غضبه عن طبيعته و عادته بحيث يغلب الهذيان علی أقواله وأفعاله فان طلاقه لايقع، وان کان يعلم مايقول ويقصده لأنه يکون فی حالةيتغيرفيهاادراکه، فلايکون قصده مبنياعلی ادراک صحيح، فيکون کالمجنون، لان المجنون لايلزم أن يکون دائمافی حالةلايعلم معهامايقول : فقديتکلم فی کثيرمن الأحيان بکلام معقول، ثم لم يلبث أن يهذی.




طلاقِ غضبان

 فتاوی شامی میں ہے :

" قلت: وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان، قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادي الغضب بحيث لايتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه، الثاني أن يبلغ النهاية فلايعلم ما يقول ولايريده، فهذا لا ريب أنه لاينفذ شيء من أقواله، الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون، فهذا محل النظر، والأدلة تدل على عدم نفوذ أقواله اهـ  ملخصاً من شرح الغاية الحنبلية، لكن أشار في الغاية إلى مخالفته في الثالث حيث قال: ويقع طلاق من غضب خلافاً لابن القيم اهـ وهذا الموافق عندنا لما مر في المدهوش". (3/244)


حنفیہ کے نزدیک تحقیق یہ ہے کہ وہ غصہ والا شخص جسے اس کا غصہ اس کی طبیعت اور عادت سے اس طرح باہرکردے کہ اس کی باتوں اوراس کے کاموں پربے مقصدیت غالب آجائے اس کی طلاق واقع نہ ہوگی، اگرچہ وہ جانتا ہو کہ وہ کیاکہہ رہا ہے اور ارادہ سے ہی کہتا ہو کیونکہ وہ ایسی حالت میں ہوتا ہے کہ جس میں اس کا ادراک یعنی سوجھ بوجھ میں تغیر اور تبدیلی آجاتی ہے لہٰذا اس کا قصد و ارادہ صحیح شعور و صحیح ادراک پر مبنی نہیں ہوتا، پس وہ (مجنوں و دیوانہ تو نہیں ہوتا لیکن وقتی طور پر) مجنوں کی طرح ہو جاتا ہے، کیونکہ ضروری نہیں کہ مجنوں ہمیشہ ویسی حالت میں رہے کہ جو کہے اسے اس کاپتہ نہ ہو بلکہ بعض اوقات میں وہ معقول (عقل مندوں کی طرح) باتیں کرتا ہے، پھر اوٹ پٹانگ مارنا شروع کر دیتا ہے۔

(عبد الرحمن الجزيری، کتاب الفقه علی المذاهب الأربعة، 4 : 294-295، دار احياء التراث العربی، بيروت. لبنان)


Sunday 29 October 2023

اهل للشهادات



أحرارنَا قد كشفتم عن بطولتكم

غظاءَ ها يوم توقيع الكفالاتِ

أنتم رجال خطابات منمَّقةٍ

كما علمنا وأبطال احتجاجاتِ

وقد شبعتم ظهوراً في مظاهرةٍ

مشروعةٍ وسكرتم بالهتافاتِ

ولو أُصيب بجرحٍ بعضُكم خطاً

فيها إذاً لرتعتم بالحفاواتِ

بل حكمةُ اللهِ كانت في سلامتكم

لأَنكم غير أهل للشهاداتِ

أضحتْ فلسطينُ من غيظ تصيح بكم

خلوا الطريق فلستم من رجالاتي

ذاك السجين الذي أغلى كرامته

فداؤه كل طلاّب الزعاماتِ



Saturday 28 October 2023

رخصتی سے پہلے طلاق کی صورت میں مہر کا حکم

 اگر   نکاح  کے بعد  رخصتی /خلوتِ صحیحہ ( لڑکا اور لڑکی ایسی تنہائی میں ملیں کہ دونوں کے درمیان کوئی تیسرا شخص نہ ہو اور ہم بستری کرنے سے کوئی شرعی ،  طبعی یا حسی  مانع  نہ ہو )  سے  پہلے طلاق ہوجاتی ہے تو اس صورت میں آدھا مہر ادا کرنا لازم  ہے اور  لڑکی پر کوئی عدت بھی نہیں ہے اورخلوتِ صحیحہ  ہونے کی صورت میں پورا مہر ادا کرنا ہوگا  اور  پوری عدت  (تین ماہواریاں ) بھی گزارنی ہوگی ۔

ارشاد باری تعالی ہے :

"وَإِن طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ إَلاَّ أَن يَعْفُونَ أَوْ يَعْفُوَ الَّذِي بِيَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ" (البقرہ،237/2)

ترجمہ:اور اگر تم ان کو طلاق  دو ان کو ہاتھ لگانے سے پہلے اور ٹھہرا چکے تھے تم ان کے لیے مہر تو لازم ہوا آدھا اس کا کہ تم مقرر کرچکے تھے، مگر یہ کہ در گزر کریں عورتیں یا در گزر کرے وہ شخص کہ اس کے اختیار میں ہے گرہ نکاح کی  ۔۔۔الآیۃ

الدر المختار – (3 / 114):

"(وَالْخَلْوَةُ) مُبْتَدَأٌ خَبَرُهُ قَوْلُهُ الْآتِي كَالْوَطْء (بِلَا مَانِعٍ حِسِّيٍّ) كَمَرَضٍ لِأَحَدِهِمَا يَمْنَعُ الْوَطْءَ (وَطَبْعِيٍّ) كَوُجُودِ ثَالِثٍ عَاقِلٍ ذَكَرَهُ ابْنُ الْكَمَالِ، وَجَعَلَهُ فِي الْأَسْرَارِ مِنْ الْحِسِّيِّ، وَعَلَيْهِ فَلَيْسَ لِلطَّبْعِيِّ مِثَالٌ مُسْتَقِلٌّ (وَشَرْعِيٍّ) كَإِحْرَامٍ لِفَرْضٍ أَوْ نَفْلٍ. (وَ) مِنْ الْحِسِّيِّ (رَتَقٌ) بِفَتْحَتَيْنِ: التَّلَاحُمُ (وَقَرْنٌ) بِالسُّكُونِ: عَظْمٌ (وَعَفَلٌ) بِفَتْحَتَيْنِ: غُدَّةٌ (وَصِغَرٌ) وَلَوْ بِزَوْجٍ (لَا يُطَاقُ مَعَهُ الْجِمَاعُ وَ) بِلَا (وُجُودِ ثَالِثٍ مَعَهُمَا) وَلَوْ نَائِمًا أَوْ أَعْمَى (إلَّا أَنْ يَكُونَ) الثَّالِثُ (صَغِيرًا لَا يَعْقِلُ) بِأَنْ لَا يُعَبِّرُ عَمَّا يَكُونُ بَيْنَهُمَا (أَوْ مَجْنُونًا أَوْ مُغْمًى عَلَيْهِ) لَكِنْ فِي. الْبَزَّازِيَّةِ: إنْ فِي اللَّيْلِ صَحَّتْ لَا فِي النَّهَارِ، وَكَذَا الْأَعْمَى فِي الْأَصَحِّ (أَوْ جَارِيَةَ أَحَدِهِمَا) فَلَا تَمْنَعُ بِهِ يُفْتَى مُبْتَغًى (وَصَوْمُ التَّطَوُّعِ وَالْمَنْذُورِ وَالْكَفَّارَاتِ وَالْقَضَاءِ غَيْرُ مَانِعٍ لِصِحَّتِهَا) فِي الْأَصَحِّ، إذْ لَا كَفَّارَةَ بِالْإِفْسَادِ وَمَفَادُهُ أَنَّهُ لَوْ أَكَلَ نَاسِيًا فَأَمْسَكَ فَخَلَا بِهَا وَكَذَا فِي وُقُوعِ طَلَاقٍ بَائِنٍ آخَرَ عَلَى الْمُخْتَارِ (لَا) تَكُونُ كَالْوَطْءِ (فِي حَقِّ) بَقِيَّةِ الْأَحْكَامِ."

Friday 27 October 2023

بچی کی حضانت کا حق


بچی کے خرچ کی ذمہ داری اس کی شادی ہونے تک والد پر ہے،لہذا والد کو چاہیے کہ وہ اپنی بچی کےخرچ اور اس کی دیکھ بھال کا خیال رکھے ،اگر  بچی کا خرچ اب تک اس کے والد نے ادا نہیں کیا بلکہ ماموں نے بطورِ تبرع اور احسان کے ادا کرتا رہا تو اس کو اس کا اجر ملے گا،والد اپنے اس غیر ذمہ دارانہ عمل کی وجہ سے گناہ گار ہوگا،لیکن اس کی اس غلطی کی وجہ سے اپنی بچی کا رشتہ اس سے ختم نہیں ہوا،بلکہ وہ ابھی بچی کی تعلیم وتربیت اور کفالت کا حق دار ہے،پرورش کے بارے میں  شرعی حکم یہ ہے کہ    بچی کی عمراگر نو سال سے  کم ہے تو والدہ کے نہ ہونے کی صورت میں نانی کو اس کی پرورش کا حق حاصل ہے ،اور اگر نانی بھی زندہ نہ ہوتو پھر دادی کو حق حاصل ہے ،اور اگر نو سال کی عمر   پوری ہوچکی تو پھر شرعاً  باپ  کو لینے کا حق حاصل ہے،باپ  اپنی بیٹی کو اپنی تحویل میں رکھنے کا حق  رکھتا ہے،ماموں کو  اپنے پاس روکنے کا حق حاصل نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب. ولو اختلفا في سنه، فإن أكل وشرب ولبس واستنجى وحده دفع إليه ولو جبرًا وإلا لا (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية. ولو اختلفا في حيضها فالقول للأم، بحر بحثاً."

وأقول: ينبغي أن يحكم سنها ويعمل بالغالب. وعند مالك، حتى يحتلم الغلام، وتتزوج الصغيرة ويدخل بها الزوج عيني (وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع، وبه يفتى."

( باب الحضانة، 3/566،ط:سعید)

وفیه أیضاً:

"حاصل ما ذكره في الولد إذا بلغ أنه إما أن يكون بكرًا مسنةً أو ثيبًا مأمونةً، أو غلامًا كذلك فله الخيار وإما أن يكون بكرًا شابةً، أو يكون ثيبًا، أو غلامًا غير مأمونين فلا خيار لهم بل يضمهم الأب إليه."

(باب الحضانة،3/569، ط: سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وإن لم يكن له أم تستحق الحضانة بأن كانت غير أهل للحضانة أو متزوجة بغير محرم أو ماتت فأم الأم أولى من كل واحدة، وإن علت، فإن لم يكن للأم أم فأم الأب أولى ممن سواها، وإن علت كذا في فتح القدير."

(الباب السادس عشر في الحضانة،1/541 ط: رشیدیه)



 فتاوی ہندیہ میں ہے:

"نفقة الأولاد الصغار على الأب لايشاركه فيها أحد، كذا في الجوهرة النيرة."

(کتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، 1/ 560، ط: رشيدیه)

وفیہ ایضاً:

"والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني، وقدر بسبع سنين. وقال القدوري: حتى يأكل وحدَه، ويشرب وحدَه، ويستنجي وحدَه. وقدره أبو بكر الرازي بتسع سنين، والفتوى على الأول. والأم والجدة أحق بالجارية حتى تحيض. وفي نوادر هشام عن محمد رحمه الله تعالى: إذا بلغت حد الشهوة فالأب أحق، وهذا صحيح، هكذا في التبيين."

(کتاب الطلاق،الباب السادس عشر ،542/1،ط: رشیدیه)

حضانة البنت في السعوديه بعد سن التمييز

 الحضانة تشمل الرعاية الكاملة للطفل من حيث الطعام والمسكن والملبس والرعاية الكاملة له وحمايته من كل ما يؤذيه

وتعد الإجابة على هذا السؤال هي أن يملك الأب القدرة على تربية البنت تربية سلمية خالية من المشاكل وحياة مستقرة وأن يكون جاهزاً لتلبية كافة حقوق ابنته.
وتم وضع شروط وقوانين تتماشى مع مصلحة البنت في قانون المملكة العربية السعودية وهي:

  • في حال قيام الأم بالزواج تنتقل الحضانة مباشرة من لديه حق الحضانة بالمرتبة الثانية لحين الوصول إلى الأب.
  • إذا كانت تعنف أطفالها جسدياً بصورة مستمرة.
  • ارتكاب الأم لإحدى الجرائم التي يعاقب عليها القانون.
  • في حال أنّ الأم تحمل أي نوع من الأمراض الجسدية أو النفسية.
  • إذا قامت الأم بالزواج تنتقل الحضانة مباشرة من لديه حق الحضانة بالمرتبة الثانية لحين الوصول إلى الأب.
  • إن كانت الأم تقوم بأحد الأفعال المشينة التي يعاقب عليها القانون في المملكة العربية السعودية أو بما يتنافى مع الآداب العامة.
  • عدم مقدرة الأم على إمداد البنت بما يكفي من الأكل والشرب والملبس.
  • إذا منعت الأم زوجها السابق من رؤية أطفالها ثلاث مرات متتالية تسقط حضانتها على الفور.

في كل هذه الحالات تسقط حضانة الأم وتعود للأب وعندما يبلغ الطفل سن البوغ يجب أن يقرر أذا كان يريد العيش مع الأب أو الأم.