https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Wednesday 24 April 2024

بیوہ،دوبیٹیوں،دوبہنوں میں میراث کی تقسیم

 صورتِ مسئولہ میں مرحوم کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کی کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ میں سے مرحوم کے   حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد ، اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرضہ ہو (مثلا بیوی کا مہر وغیرہ) تو قرضہ کی ادائیگی کے بعد، اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی مال میں سے وصیت نافذ کرنے کے بعد باقی کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کو   48 حصوں میں تقسیم کر کے اس میں سے 6 حصے مرحوم کی بیوہ کو ،  16 ، 16 حصے مرحوم کی ہر ایک بیٹی کو اور 5، 5حصے مرحوم کی ہر بہن کو ملیں گے۔

یعنی سو روپے میں سے مرحوم کی بیوہ کو 12.50روپے،  ہر ہر بیٹی کو 33.33 روپے اور ہر بہن کو10.41 روپے ملیں گے

Tuesday 23 April 2024

عمرہ کے سفر میں بیوی سے مجامعت

 عمرہ کا احرام باندھنے سے پہلے سائل نے اپنی بیوی سے ہم بستری کی ہے تو سائل پر کوئی دم لازم نہیں ہے، لیکن عمرہ کا احرام باندھنے کے بعد اور طواف کے چار چکر مکمل کرنے  سے  پہلے ہم بستری کی صورت میں عمرہ فاسد ہوجائے گا، اس عمرہ کو مکمل کیاجائے گا اور دم میں ایک بکری ذبح کی جائے گی ، اور پھر اس عمرہ کا اعادہ کیا جائے گا،  اگر چار چکر کے بعد ہم بستری  کرلی  تو پھر عمرہ  فاسد نہیں ہوگا،  لیکن دم کے طور پر بکری ذبح کرنی ہوگی،  عمرہ مکمل ہونے  (یعنی طواف، سعی اور حلق یا قصر ) کے بعد بیوی سے ہم بستری کرنا جائز ہے۔ اسی طرح عمرہ کے سفر میں احرام باندھنے سے پہلے بیوی سے ہم بستری کرنا جائز ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

" و) وطؤه (في عمرته قبل طوافه أربعة مفسد لها فمضى وذبح وقضى) وجوبا (و) وطؤه (بعد أربعة ذبح ولم يفسد) خلافا للشافعي»

قوله ووطؤه في عمرته) شمل عمرة المتعة ط (قوله وذبح) أي شاة بحر (قوله ووطؤه بعد أربعة ذبح ولم يفسد) المناسب أن يقول لم يفسد وذبح ليصح الإخبار عن المبتدأ بلا تكلف إلى تقدير العائد.قال في البحر: وشمل كلامه ما إذا طاف الباقي وسعى أولا لكن بشرط كونه قبل الحلق، وتركه للعلم به لأنه بالحلق يخرج عن إحرامها بالكلية؛ بخلاف إحرام الحج. ولما بين المصنف حكم المفرد بالحج والمفرد بالعمرة علم منه حكم القارن والمتمتع اهـ."

(کتاب  الحج ،باب الجنایات فی الحج ، ج:2، ص:560،  ط: سعید)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"‌ومن ‌المستحب ‌عند ‌إرادة ‌الإحرام جماع زوجته أو جاريته إن كانت معه ولا مانع من الجماع فإنه من السنة، هكذا في البحر الرائق."

(كتاب المناسك، الباب الثالث في الإحرام، ج:1، ص: 222، ط:دار الفکر)

جنایت احرام

 صابون جن سے چہرہ دھویا جاتا ہے ان میں خوشبو ہوتی ہے لہٰذا ایسا صابون اگر ایک مرتبہ استعمال کیا تو اس سے صدقہ واجب ہوگا، یعنی ایک کلو چھ سو تینتیس گرام (1.633 KG) گیہوں اور اگر کئی مرتبہ استعمال کیا تو دم واجب ہوگا۔ (۲) بیچ قدم کی ہڈی چھپ جانے کی صورت میں اگر ایسا چپل ایک دن ایک رات پہنے رہا تو دم واجب ہوگا اور اس سے کم میں صدقہ۔

حالت احرام میں ماسک پہننا

 مروجہ ماسک چوں کہ چہرے کے چوتھائی یا اس سے زیادہ حصہ کو چھپالیتا ہے، لہذا اگر کوئی شخص (خواہ مرد ہو یا عورت) احرام کی حالت میں مروجہ ماسک سے چوتھائی چہرہ یا اس سے زیادہ چھپاکر پورا دن یا پوری رات (یعنی بارہ گھنٹۓ) پہنے رکھے تو اس صورت میں دم دینا لازم ہوگا، اور اس سے کم پہننے کی صورت میں صدقہ لازم ہوگا، بلا عذر ماسک پہننے والا گناہ گار ہوگا، البتہ اگر کسی عذر کی وجہ سے پہنا ہو تو گناہ نہ ہوگا، تاہم دم یا صدقہ کا وجوب تفصیل بالا کے مطابق بہر صورت ہوگا؛ لہٰذا عمرہ کرنے والے شخص کو ماسک پہننا مجبوری ہو تو اسے چاہیے کہ وہ وقتًا فوقتًا ماسک اتارتا رہے، یا چوتھائی چہرہ نہ چھپائے؛ تاکہ چوتھائی چہرہ چھپائے ہوئے بارہ گھنٹے پورے نہ ہوں۔

غنية الناسك میں ہے:

"و أما تعصيب الرأس و الوجه فمكروه مطلقاً، موجب للجزاء بعذر أو بغير عذر، للتغليظ إلا ان صاحب العذر غير آثم".

( باب الإحرام، فصل في مكروهات الإحرام، ص: ٩١، ط: إدارة القرآن)

و فيه أيضًا:

"و لو عصب رأسه أو وجهه يومًا أو ليلةً فعليه صدقة، إلا ان يأخذ قدر الربع فدم".

( باب الجنايات، الفصل الثالث: في تغطية الرأس و الوجه، ص: ٢٥٤، ط: إدارة القرآن)

جنایات حج

 

  1.  صورتِ مسئولہ میں احرام کی حالت میں خوشبو والے صابن سے اگر ایک بار ہاتھ دھوئے ہوں تو صدقۂ فطر کے برابر صدقہ کرنا لازم ہے ،چاہے بھول کر ہی کیوں نہ دھوئے ہوں ،اسی طرح خوشبو والے سرف کے استعمال سے بھی صدقہ فطر لازم آئےگا۔
  2. صورتِ مسئولہ میں  کھانے میں یا دوائی کے طور زیتون کے تیل کو  استعمال کیاہو، تو خوشبوکےحکم  میں نہ ہوگا،اور دم لازم نہیں ہوگا، لیکن شرط یہ ہے کہ یہ چیزیں خالص ہوں ،اگران میں دوسری خوشبودارچیزملائی گئی ، اگر خوشبو کی ملاوٹ ہو تو پھران کاحکم بھی خالص خوشبوجیساہوگا۔
  3. واضح رہے کہ كھانے پینے کی وہ اشیاء جن میں خوشبو والے اشیاء ملائے جاتے ہوں،مثلاً چائے، قہوہ وغیرہ میں خوشبو ملائی ، تو اگر خوشبو غالب ہے تو دم ہے، اور اگر مغلوب(کم مقدار میں ) ہے تو صدقہ ہے، لیکن اگر کئی مرتبہ  کم مقدار میں خوشبو  ملائی گئی چیز کو پیا تو دم واجب ہوگا ۔
  4. صورتِ مسئولہ میں اگر حالتِ احرام میں غلطی سے چہرہ پر کپڑا یا چادر لگ جائے اور اسے فوراً ہٹادیا جائے تو اس صورت میں کوئی دم یا صدقہ لازم نہیں آئے گا، اور اگر بارہ گھنٹے سے زیادہ چہرہ ڈھانپا تو دم دینا لازم ہوگا، اور اگر اس سے کم وقت ڈھانپا تو صدقۂ فطر کی مقدار کے برابر صدقہ دینا لازم ہوگا۔
  5. واضح رہے کہ  اگر  بال محرم کے فعل کے بغیر خود بخود  گر جائیں  تو کچھ لازم نہیں،اور اگر بال محرم کے ایسے فعل سے گریں جس کا  اس کو شریعت  کی  جانب سے حکم دیا گیا ہو ، جیسے نماز کے لئے وضو کرنے کاحکم دیا گیا ہے، اور وضو کے دوران بال ٹوٹ جائیں   تو اگر تین  بال گر جائیں تو ایک مٹھی گندم صدقہ کرنا ہو گا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ويستوي في وجوب الجزاء بالتطيب الذكر والنسيان والطوع والكره والرجل والمرأة هكذا في البدائع."

(كتاب المناسك ،الباب الثامن في الجنايات، الفصل الأول في ما يجب بالتطيب،ج:1 ص:241 ط:رشيدية)

رد المحتار میں ہے:

"اعلم أن خلط الطيب بغيره على وجوه: لأنه إما أن يخلط بطعام مطبوخ أو لا، ففي الأول لا حكم للطيب سواء كان غالباً أم مغلوباً، وفي الثاني الحكم للغلبة إن غلب الطيب وجب الدم، وإن لم تظهر رائحته كما في الفتح، وإلا فلا شيء عليه، غير أنه إذا وجدت معه الرائحة كره، وإن خلط بمشروب فالحكم فيه للطيب سواء غلب غيره أم لا، غير أنه في غلبة الطيب يجب الدم، وفي غلبة الغير تجب الصدقة إلا أن يشرب مراراً فيجب الدم." 

(کتاب الحج، ج:2 ص:547 ط: سعید)

حج کے فرائض ،واجبات،سنن وآداب

 حج کے دو ارکان ہیں:ا۔وقوف عرفہ۲۔طواف زیارت

سنن حج:

۱۔مفرد آفاقی اور قارن کا طواف قدوم کرنا۔

۲۔طواف قدوم میں یا طواف فرض میں رمل کرنا۔

۳۔صفا مروہ کی سعی میں دونوں سبز نشانوں کے درمیان جلدی چلنا۔

۴۔قربانی کی راتوں میں سے ایک رات منیٰ میں قیام کرنا۔

۵۔سورج نکلنے کے بعد منیٰ سے عرفات جانا۔

۶۔سورج نکلنے سے پہلے مزدلفہ سے منیٰ آجانا۔

۷۔مزدلفہ میں رات گزارنا۔

۸۔گیارہ اور بارہ ذی الحجہ کو تینوں جمرات میں  ترتیب سے سات سات کنکریاں مارنا۔

باقی حج کے فرائض، واجبات، سنن،آداب، مکروہات اور موجباتِ دم سے متعلق تفصیلات کے لیے ان دو کتابوں کا مطالعہ فرمائیں:۱۔معلم الحجاج  ۲۔انوار مناسک۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(وأما ركنه فشيئان) الوقوف بعرفة وطواف الزيارة لكن الوقوف أقوى من الطواف كذا في النهاية حتى يفسد الحج بالجماع قبل الوقوف، ولا يفسد بالجماع قبل طواف الزيارة كذا في شرح الجامع الصغير لقاضي خان.

(وأما سننه) فطواف القدوم والرمل فيه أو في الطواف الفرض، والسعي بين الميلين الأخضرين، والبيتوتة بمنى في ليالي أيام النحر، والدفع من منى إلى عرفة بعد طلوع الشمس، ومن مزدلفة إلى منى قبلها كذا في فتح القدير. والبيتوتة بمزدلفة سنة والترتيب بين الجمار الثلاث سنة هكذا في البحر الرائق."

(کتاب المناسک،ج1،ص209،ط؛دار الفکر)

چہرے اور ہتھیلیوں کے پردہ

 عورت کا تمام بدن ستر ہے، اپنے گھر میں بھی اس کو مستور اور پوشیدہ رکھنا فرض اور لازم ہے، مگر چہرہ اور دونوں ہاتھ کہ ہر وقت ان کو چھپائے رکھنا بہت دشوار ہے، اس لیے یہ اعضاء ستر سے خارج ہیں، اپنے گھر میں ان اعضاء کا کھلا رکھنا جائز ہے، البتہ گھر سے باہر نکلتے ہوئے ان کا چھپانا بھی ضروری ہے۔ 

اس کی مزید تفصیل یہ ہے کہ پردہ کے تین درجات ہیں :

۱-  شرعی حجابِ اشخاص،  یعنی عورتیں اپنے گھروں میں ہی رہیں، اس کی دلیل یہ ہے: {وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ}    (الاحزاب:۳۳) ’’اورتم اپنے گھروں میں قرار سے رہو۔‘‘

۲-ضرورت کے تحت جب عورت کو گھر سے باہر جانا پڑے تواس وقت کسی برقع یالمبی چادر کو سر سے پیر تک اوڑھ کر نکلے جس کاحکم{یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّ} (الاحزاب:۵۹)  میں دیا گیا ہے، مطلب یہ کہ سر سے پاؤں  تک عورت اس میں لپٹی ہو اور چہرہ اور ناک بھی اس میں مستور ہو، صرف ایک آنکھ راستہ دیکھنے کے لیے کھلی ہو۔

۳-پورا جسم تو مستور ہو، مگر چہرہ ہتھیلیاں کھلی ہوں، أئمہ اربعہ میں سے امام شافعیؒ ،امام مالکؒ، اما م احمدؒ نے تو چہرہ اور ہتھیلیاں کھولنے کی مطلقاًاجازت نہیں دی، خواہ فتنہ کا خوف ہو یا نہ ہو، البتہ امام اعظمؒ  نے فرمایا کہ اگرفتنہ کاخوف ہو تو کھولنا منع ہے، لیکن اس زمانہ میں خوفِ فتنہ نہ ہونے کا احتمال شاذ و نادر ہے اور نادر معدوم کے حکم میں ہوتا ہے، اس لیے متأخرین فقہاءِ احناف نے بھی وہی فتویٰ دے دیا جو أئمہ ثلاثہ نے دیا تھا کہ جوان عورت کے چہرہ یا ہتھیلیوں کا کھولنا ناجائز اور پردہ کرنا ضروری ہے ۔

Monday 22 April 2024

زکوٰۃ کی رقم سے ملازمین کی تنخواہیں دینا

 زکاۃ کی مد سے تنخواہ دینا جائز نہیں، اور نہ ہی اس طرح تنخواہ دینے سے زکاۃ ادا ہوگی اگرچہ ملازم زکاۃ کا مستحق ہو۔

البتہ جو ملازمین زکاۃ کے مستحق ہوں انہیں اس صراحت کے ساتھ  زکاۃ دی جا سکتی ہے کہ  یہ رقم تنخواہ کے علاوہ بطورِ تعاون ہے، پھر خواہ اس کے ساتھ ہی الگ سے تنخواہ بھی دے دی جائے یا وضاحت کردی جائے کہ تنخواہ بعد میں دی جائے گی،  باقی زکاۃ دیتے وقت زکاۃ کی صراحت کرنا ضروری  نہیں ہے، بلکہ تعاون یا ہدیہ وغیرہ کہہ کر بھی دی جاسکتی ہے، البتہ زکاۃ دینے والے کے دل میں زکاۃ کی نیت ہونا ضروری ہے۔ 

نیز یہ بھی یاد رہے کہ جو ملازمین زکاۃ کے مستحق نہیں ہیں،  انہیں زکاۃ کی مد سے تعاون یا ہدیہ کے نام سے دینا بھی جائز نہیں ہوگا۔

فتاویٰ شامی میں ہے :

"ولو دفعها المعلم لخلیفته إن کان بحیث یعمل له لو لم یعطه صح، و إلا لا.

(قوله: وإلا لا )؛ لأن المدفوع یکون بمنزلة العوض".

(ردالمحتار علی الدر 2/356)

فتاویٰ عالمگیری  میں ہے :

"فهي تملیك المال من فقیر مسلم ... بشرط قطع المنفعة عن المملك من کل وجه".

(الفتاویٰ الهندیة : 1/170 )

فتاوی عالگیر ی میں ہے:

'' ومن أعطى مسكيناً دراهم وسماها هبةً أو قرضاً ونوى الزكاة فإنها تجزيه، وهو الأصح، هكذا في البحر الرائق ناقلاً عن المبتغى والقنية."

(الفتاوى الهندية 1/ 171)

زکوۃ کی رقم سے مسجد ،اسکول کی تعمیر

 زکاۃ کی ادائیگی صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ زکاۃ کی رقم مستحقِ زکاۃ فرد کو مالک بناکر دے دی جائے، اور تعمیرات میں چوں کہ کسی فرد کو مالک بنانا نہیں پایا جاتا؛ لہٰذا زکاۃ کی رقم سے مدرسہ مسجد، اسپتال، یا دیگر کوئی بھی فلاحی اسکول یا ادارہ قائم کرنے سے زکاۃ ادا نہیں ہوگی


''فتاوی عالمگیری'' میں ہے:

" لا يجوز أن يبني بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد، وكل ما لا تمليك فيه، ولا يجوز أن يكفن بها ميت، ولا يقضى بها دين الميت كذا في التبيين".   (1/ 188،  کتاب الزکاۃ، الباب السابع فی المصارف، ط: رشیدیہ

عظمت مدینہ

 کھانے میں کوئی چیز پسند نہ آئے توشکایت نہ کرے ایک صاحب نے شکایت کی کہ مدینہ منورہ کادہی کھٹا ہے، ہمارے ہندوستان میں دہی میٹھاہوتاہے، توخواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ مدینہ سے نکل جاؤ۔وہاں کی ہرچیز کو محبت ، عزت اورعظمت کی نظر سے دیکھو کسی چیزمیں عیب نہ نکالو ایک صاحب مدینہ منورہ کی برقعہ پوش کالی عورتوں سے روزانہ انڈے خریدتے تھے ایک دن کچھ انڈے گندے نکل آئے توانہوں نے انڈے خریدنے بند کردیے توحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب میں زیارت نصیب ہوئی فرمایاکہ کالی عورتیں برقعے میں جو آتی ہیں بہت دور سے آتی ہیں، غریب ہیں،ان سے انڈے خرید لیا کرو ان کو مایوس نہ کرو۔ پھر وہ اتنے روئے اور پھر وہ روزانہ بے ضرورت ان عورتوں سے انڈے خرید کرتقسیم کردیتے تھے ۔

ادب گاہسیت زیر آسماں از عرش نازک تر

نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا

عزت بخاری


زیر آسماں حضرت محمد مصطفی ﷺ کا شہر ایک ایسی ادب گاہ ہے جہاں حضرت جنید بغدادیؒ اور حضرت بایزید بسطامیؒ جیسے عظیم الشان ولی بھی سانس روک کر آتے ہیں۔ یعنی ادب سے اونچا سانس نہیں لیتے۔

(اس شعر میں آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے شہر کی عظمت کا بیان ہے جس کے پیش نظر ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم بھی اس شہر کی عظمت ہمیشہ اپنے مٓن میں سمائے رکھیں ۔)



۱۰) مدینے کی موت کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ جس کو استطاعت ہو کہ مدینہ میں مرے وہ مدینہ میں آکر مر جائے اس لیے کہ جومدینہ میں مرے گا  اس کی شفاعت کروں گا ۔؎ 
۱۱) اپنے آپ کو خادم سمجھیں مخدوم نہ سمجھیں اپنی ذات کولوگوں کے لیے راحت کا باعث بنائیں اوران کی خدمت کو اپنی سعادت 
سمجھیں ۔

ارکان حج

 حج  کے ارکان تین ہیں:

1- احرام یعنی حج اور عمرے کی نیت،

2- میدانِ عرفات میں وقوف،

رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:

’’الْحَجُّ عَرَفَة، مَنْ جَاءَ لَیْلَة جَمْعِِ قَبْلَ طُلُوْعِ الْفَجْرِ فَقَدْ اَدْرَکَ الحَجَّ".  (الترمذي:۸۸۹، النسائي: ۳۰۱۶، ابن ماجه: ۳۰۱۵)

ترجمہ: ’’حج وقوفِ عرفہ سے عبارت ہے۔ جو شخص مزدلفہ کی رات طلوعِ فجر سے قبل میدانِ عرفات میں آجائے اس کا حج ہوگیا‘‘۔

3- طوافِ زیارت، [اسی کو طوافِ افاضہ بھی کہتے ہیں]؛ فرمانِ باری تعالی ہے:

" وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ".

ترجمہ: اور وہ بیت العتیق کا طواف کریں۔[الحج : 29]

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 125):
"الوقوف بعرفة، وهو الركن الأصلي للحج، والثاني طواف الزيارة".

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 128):
"وأما شرطه وواجباته فشرطه النية، وهو أصل النية دون التعيين حتى لو لم ينو أصلاً بأن طاف هارباً من سبع أو طالباً لغريم لم يجز".

الموسوعة الفقهية الكويتية (17/ 49):
"الوقوف بعرفة ركن أساسي من أركان الحج، يختص بأنه من فاته فقد فاته الحج.
وقد ثبتت ركنية الوقوف بعرفة بالأدلة القاطعة من الكتاب والسنة والإجماع: أما القرآن؛ فقوله تعالى: {ثم أفيضوا من حيث أفاض الناس}. فقد ثبت أنها نزلت تأمر بالوقوف بعرفة.
وأما السنة: فعدة أحاديث، أشهرها حديث: الحج عرفة.
وأما الإجماع: فقد صرح به عدد من العلماء، وقال ابن رشد: أجمعوا على أنه ركن من أركان الحج، وأنه من فاته فعليه حج قابل". 

الموسوعة الفقهية الكويتية (17/ 51):
"وعدد أشواط الطواف سبعة، وكلها ركن عند الجمهور. وقال الحنفية: الركن هو أكثر السبعة، والباقي واجب ينجبر بالدم".

الموسوعة الفقهية الكويتية (2/ 129):
"أجمع العلماء على أن الإحرام من فرائض النسك، حجاً كان أو عمرةً، وذلك؛ لقوله صلى الله عليه وسلم: إنما الأعمال بالنيات. متفق عليه. لكن اختلفوا فيه أمن الأركان هو أم من الشروط؟ ... الخ

واجبات حج

 حج کے واجبات۔ حج کے واجبات یہ ہیں۔

  • (1)میقات سے احرام باندھنا یعنی میقات سے بغیر احرام باندھے آگے نہ گذرنا اور اگر میقات سے پہلے ہی احرام باندھ لیا جائے تو جائز ہے
  • (2)صفا و مروہ کے درمیان دوڑنا اس کو سعی کہتے ہیں
  • (3)سعی کو صفا سے شروع کرنا
  • (4)اگر عذر نہ ہو تو پیدل سعی کرنا
  • (5)دن میں میدان عرفات کے اندر وقوف کیا ہے تو اتنی دیر تک وقوف کرے کہ آفتاب غروب ہو جائے خواہ آفتاب ڈھلتے ہی شروع کیا تھا یا بعد میں غرض غروب آفتاب تک وقوف میں مشغول رہے اور اگر رات میں میدان عرفات کے اندر وقوف کیا ہے تو اس کے لیے کسی خاص حد تک وقوف کرنا واجب نہیں مگر وہ اس واجب کا تارک ہوا کہ دن میں غروب آفتاب تک وقوف کرتا
  • (6)وقوف میں رات کا کچھ حصہ آ جانا
  • (7) عرفات سے واپسی میں امام کی پیروی کرنا یعنی جب تک امام میدان عرفات سے نہ نکلے یہ بھی نہ چلے ہاں اگر امام نے وقت سے تاخیر کی تو اسے امام سے پہلے میدان عرفات سے روانہ ہو جانا جائز ہے اور اگر زبر دست بھیڑ کی وجہ سے یا کسی دوسری ضرورت سے امام کے چلے جانے کے بعد میدان عرفات میں ٹھہرا رہا امام کے ساتھ نہ گیا جب بھی جائز ہے
  • (8)مزدلفہ میں ٹھہرنا
  • (9)مغرب و عشاء کی نماز کا عشاء کے وقت میں مزدلفہ پہنچ کر پڑھنا
  • (10)تینوں جمروں پر دسویں' گیارہویں' بارھویں تینوں دن کنکریاں مارنا یعنی دسویں ذو الحجہ کو صرف جمرۃ العقبہ پر اور گیارہویں و بارھویں تینوں جمروں پر کنکریاں مارنا
  • (11))جمرۃ العقبہ کی رمی پہلے دن سر منڈانے سے پہلے ہونا
  • (12)ہر روز کی رمی کا اسی دن ہونا
  • (13)احرام کھولنے کے لیے سر منڈانا یا بال کتروانا
  • (14)یہ سر منڈانا یا بال کتروانا،ایام نحر یعنی دسویں، گیارہویں اوربارہویں ذو الحجہ کی تاریخوں کے اندر ہوجانا اورسرمنڈانا یا بال کتروانامنٰی یعنی حرم کی حدود کے اندر ہونا
  • (15)قران یا تمتع کرنے والے کو قربانی کرنا
  • (16)اور اس قربانی کا حدود حرم اور ایام نحر میں ہونا
  • (17)طواف زیارت کا اکثر حصہ ایام نحر میں ہو جانا عرفات سے واپسی میں جو طواف کیا جاتا ہے اس کا نام طواف زیارت ہے اور اس طواف کو طواف افاضہ بھی کہتے ہیں
  • (18)طواف حطیم کے باہر ہونا
  • (19)داہنی طرف سے طواف کرنا یعنی کعبہ معظمہ طواف کرنے والے کے بائیں جانب ہو
  • (20)عذر نہ ہو تو پاؤں سے چل کر طواف کرنا ہاں عذر ہو تو سواری پر بھی طواف کرنا جائز ہے
  • (21)طواف کرنے میں باوضو اور با غسل رہنا اگر بے وضو یا جنابت کی حالت میں طواف کر لیا تو اس طواف کو دہرائے
  • (22)طواف کرتے وقت ستر چھپانا
  • (23)طواف کے بعد دو رکعت نماز تحیۃ الطواف پڑھنا لیکن اگر نہ پڑھی تو دَم واجب نہیں
  • (24)کنکریاں مارنے اور قربانی کرنے اور طواف زیارت میں ترتیب یعنی پہلے کنکریاں مارے پھر غیر ِ مفرد قربانی کرے پھر سر منڈائے پھر طواف زیارت کرے
  • (25)طواف صدر یعنی میقات کے باہر کے رہنے والوں کے لیے رخصت کا طواف کرنا
  • (26)وقوف عرفہ کے بعد سر منڈانے تک جماع نہ ہونا
  • (27)احرام کے ممنوعات مثلاً سلا ہوا کپڑا پہننے اور منہ یا سر چھپانے سے بچنا ۔[1]

حج تمتع کاآسان طریقہ

 )"تمتع"  کے لغوی معنیٰ ہیں ’’کچھ وقت تک فائدہ اٹھانا‘‘ ۔ حج تمتع یہ ہے کہ آدمی ایک ہی سفر میں عمرہ اور حج  ساتھ ساتھ کرے، لیکن اس طرح کہ دونوں کے احرام الگ الگ باندھے، اپنے وطن سے صرف عمرے کا احرام باندھ کر جائے اور عمرہ کر لینے کے بعد احرام کھول کر ان ساری چیزوں سے فائدہ اٹھائے جو احرام کی حالت میں ممنوع ہو گئی تھیں، پھر حج کا احرام باندھ کر حج ادا کرے، اس حج  میں چوں کہ  عمرہ اور  حج کی درمیانی مدت میں احرام کھول کر حلال چیزوں سے فائدہ اٹھانے کا کچھ وقت مل جاتا ہے (بر خلاف حجِ قران کے  کہ اس میں حج اور عمرہ کے درمیان احرام کھولنے کی سہولت حاصل نہیں ہوتی ) ؛ اس لیے اس حج کو "حجِ تمتع" کہتے ہیں۔

حج تمتع کرنے  کا اجمالی طریقہ یہ ہے کہ حج تمتع کرنے والامیقات یا اس سے پہلے عمرہ کی نیت سے احرام باندھ کرحج کے مہینوں میں عمرہ کرے گا، عمرہ سے فارغ ہونے کے بعد  حلق یا قصر کروانے کے بعد  حلال ہو جائے گا،پھر آٹھ ذی الحجہ کو حرم میں حج کا احرام   باندھے گا اور دس ذی الحجہ کو رمی، قربانی اور حلق یا قصر کرواکر حلال ہو جائے گا، دس سے بارہ ذی الحجہ کے درمیان ایک مرتبہ طواف زیارت اور تین دن (یعنی دس،  گیارہ اور  بارہ  ذی الحج) کی رمی کرنے سے حج تمتع مکمل ہوجائے گا، مکہ مکرمہ سے  واپسی کے وقت طوافِ وداع کرنا ہوگا۔

حج تمتع کرنے کا تفصیلی طریقہ یہ ہے کہ  میقات یا اس سے پہلے  عمرہ کی نیت سے احرام باندھ کر حج کے مہینوں (یعنی شوال، ذیقعدہ اور ذی الحج کا پہلا عشرہ) میں عمرہ کیا جائے، عمرہ کا طریقہ یہ ہے کہ مکہ مکرمہ آکر طواف کرے، یعنی بیت اللہ کے سات چکر لگائے، ہر چکر حجر اسود سے شروع کرے اور اسی پر ختم کرے، ہر چکر کے شروع میں حجر اسود کا استلام کرے اور ساتویں چکر سے فارغ ہو کر آٹھویں مرتبہ   حجر اسود کا استلام کرے ( استلام کا مطلب یہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو حجر اسود کو بوسہ دیا جائے اور اگر براہِ راست بوسہ دینا ممکن نہ ہو تو ہاتھوں کے ذریعہ سے حجر اسود کو چھو کر اپنے ہاتھوں کا بوسہ لیا جائے، اگر یہ بھی ممکن نہ ہو یا حالتِ احرام میں حجر اسود پر لگی خوشبو لگنے کا اندیشہ ہو تو دور سے حجر اسود کی طرف ہاتھوں سے اشارہ کر کے پھر ہاتھوں کا بوسہ لیا جائے)، طواف کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا واجب ہے، لہٰذا اگر مکروہ وقت نہ ہو تو اسی وقت پڑھے، ورنہ مکروہ وقت ختم ہونے کے بعد پڑھے، یہ دو رکعت کعبہ کی طرف منہ کر کے مقامِ ابراہیم کو سامنے لے کر پڑھے، (اگر مقامِ ابراہیم کے قریب رش زیادہ ہو تو مسجدِ حرام میں کسی بھی جگہ ادا کرلے) پھر زم زم پی کر سعی کے لیے جائے اور جانے سے پہلے حجر اسود کا نویں مرتبہ استلام کرے، سعی صفا سے شروع کرے مروہ تک ایک چکر، پھر مروہ سے صفا تک دوسرا چکر، اسی طرح سات چکر لگائے، اس کے بعد مسجدِ حرام میں آکر دو رکعت پڑھے،(یہ دو رکعت ادا کرنا مستحب ہے، واجب نہیں، اگر یہ دو رکعت ادا نہیں کیں تو بھی عمرہ مکمل ہوگیا، ان کے چھوڑنے پر کوئی دم لازم نہیں ہوگا، نہ ہی کراہت لازم آئے گی) اس کے بعد حلق کروائے، یہ عمرہ ہوا، اب احرام کھول دے اور  اپنے کپڑوں میں رہے، کیوں کہ احرام کی پابندیاں ختم ہوچکی ہیں، اس کے بعد مکہ مکرمہ میں قیام کرے یا کسی اور جگہ جانا چاہے تو جائے مگر اپنے وطن نہ جائے، مکہ مکرمہ میں رہتے ہوئے بڑی عبادت طواف ہے، اس لیے جتنا وقت فرض، واجب اور سنت ادا کرنے کے بعد بچے وہ طواف میں لگانے کی کوشش کرے اور حرم پاک میں زیادہ سے زیادہ وقت گزارے ، اگر اس دوران مزید عمرے کرنا چاہے تو کرسکتا ہے۔


پھر جب حج کا وقت ( یعنی آٹھ ذی الحجہ) آجائے تو غسل کر کے حج کا احرام باندھ لے اور طواف کر کے سعی کرلے (یہ سعی مقدم ہوگی،  یعنی اگر ابھی سعی کرلی تو پھر طواف زیارت کے بعد سعی کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی، لیکن اگر ابھی سعی نہیں کی تو پھر طوافِ زیارت کے بعد سعی کرنی پڑے گی)، اس کے بعد منیٰ چلا جائے، آٹھ ذی الحجہ کی ظہر سے لے کر نو ذی الحجہ کے سورج نکلنے تک منیٰ میں رہے، نو ذی الحجہ کو سورج نکلنے کے بعد عرفات روانہ ہوجائے، اگر مکتب والے اس سے پہلے لے جائیں تو پہلے چلا جائے کوئی حرج نہیں،زوال سے پہلے  عرفات پہنچ جائے، کچھ دیر آرام کرنے کے بعد جب ظہر کا وقت داخل ہوجائے تو ظہر پڑھ لے، اگر مسجد نمرہ کے امام کے پیچھے پڑھے تو ظہر اور عصر اکھٹی پڑھے، پہلے ظہر پھر عصر، اگر اپنے خیمہ میں پڑھنی ہو تو اذان دے کر اقامت کے ساتھ صرف ظہر پڑھے، پھر وقوف کرے، اس میں دعائیں پڑھے، کلمہ طیبہ، شہادت، تمجید استغفار، درود شریف وغیرہ جس قدر ہو سکے پڑھے، کھڑا ہوکر پڑھتا رہے، کھڑے کھڑے تھک جائے تو بیٹھ کر پڑھے، عصر کا وقت آئے تو اذان و اقامت کے ساتھ عصر پڑھے، پھر غروب تک اسی طرح دعا اور ذکر میں مشغول رہے، یہاں تک کہ سورج غروب ہو جائے، غروب کے بعد عرفات سے مزدلفہ کے لیے روانہ ہو جائے، مغرب کی نماز عرفات میں نہ پڑھے، بلکہ  مزدلفہ میں جاکر ایک اذان اور ایک اقامت کے ساتھ مغرب اور عشاء کی فرض نماز اکھٹے عشاء کے وقت میں پڑھے، پھر اس کے بعد پہلے مغرب کی سنت پھر عشاء کی سنت اور وتر وغیرہ پڑھے، پھر نیند کا تقاضا ہو تو سو جائے اور اگر جاگنا چاہے تو ذکر ، تسبیح، درود ، استغفار اور تلاوت وغیرہ میں مشغول رہے، تہجد پڑھے، یہاں تک کہ صبح صادق ہو جائے، اس دوران تقریباً ستر کنکریاں بھی جمع کرلے، فجر کی نماز اول وقت یعنی اندھیرے میں پڑھے، پھر کھڑے ہوکر وقوف کرے اور کچھ دیر دعا کرے، پھر اس کے بعد منیٰ آجائے، منیٰ میں اس دن (یعنی دس ذی الحجہ کو) صرف جمرہ عقبہ یعنی سب سے آخر والے (بڑے) شیطان کو سات کنکریاں مارے، اس کے بعد منیٰ ہی میں یا حدودِ حرم کے اندر کہیں بھی قربانی کرے، پھر سر منڈائے (سر منڈانے کے بعد احرام کی ساری پابندیاں ختم ہوجائیں گی سوائے بیوی کے ساتھ ازدواجی تعلق قائم کرنے کے، بیوی طوافِ زیارت کے بعد حلال ہوگی)، اب احرام کھول کر سلے ہوئے کپڑے پہن کر مکہ مکرمہ آجائے اور طوافِ زیارت کرے، یہ طواف فرض ہے، اگر حج کا احرام باندھنے کے بعد نفلی طواف کے بعد سعی نہ کی ہو تو اب طوافِ زیارت کے بعد سعی بھی کرے، پھر اس کے بعد منٰی واپس آجائے، رات کو منٰی میں رہے، صبح ( یعنی گیارہ ذی الحجہ کی صبح) اٹھ کر زوال کے بعد ترتیب سے سب سے پہلے، پہلے والے شیطان کو الگ الگ سات کنکریاں مار کر ایک طرف ہو کر دعا کرے، پھر دوسرے شیطان کو اسی طرح سات کنکریاں مار کر کچھ دور ہو کر دعا کرے، پھر تیسرے شیطان کو سات کنکریاں مار کر دعا کیے بغیر واپس آجائے، یہ رات بھی منٰی میں گزارے، صبح ( یعنی بارہ ذی الحجہ کی صبح)  کو پھر زوال کے بعد اسی طرح تینوں شیطانوں کو سات سات کنکریاں مارے، اب اگر بارہ ذی الحجہ کو ہی مکہ مکرمہ واپس جانا چاہے تو جا سکتا ہے اور اگر تیرہ ذی الحجہ کی صبح صادق تک منٰی میں رکے گا تو تیرہ ذی الحجہ کی رمی (شیطان کو کنکریاں مارنا) بھی کرنی پڑے گی، دس سے بارہ ذی الحجہ کے اندر اندر طوافِ زیارت ضرور کرے، ورنہ  بارہ کے بعد طوافِ زیارت کرنے کی صورت میں تاخیر کی وجہ سے ایک دم لازم ہو جائے گا، بہرحال یہ تمام افعال کرنے سے حج مکمل ہوگیا ہے، مکہ مکرمہ سے وطن واپس آتے وقت طوافِ وداع کر کے آئے، یہ طواف واجب ہے